روضے والی
1
مہینے کے اندر اندر میں نے قُم کے تین پھیرے کیے۔ آخری پھیرے میں جیسے میرا دل بول رہا تھا کہ کام بگڑ جائے گا، پھر بھی میں آدھی رات کو ایک کھڑکھڑیا لاری میں چل کر صبح ہوتے سید اسد اللہ کے گھر جا پہنچی۔ دروازہ کھٹکھٹایا تو عزیزہ خانم باہر نکلیں۔ مجھے دیکھا تو اچک پڑیں۔ برا سا منہ بنایا۔ دروازے پر سے ہٹ گئیں اور دیدے نکال کر مجھے گھورنے لگیں۔ پھر بولیں، ’’بڑی خانم! آپ گئیں نہیں؟‘‘
میں نے کہا سنا کچھ نہیں، بس سلام علیک کر کے اندر آ گئی۔ ڈیوڑھی سے نکل کر صحن میں پہنچی۔ بچے ابھی ابھی سو کے اٹھے تھے اور حوض پر منہ ہاتھ دھو رہے تھے۔ سب کے سب اٹھ کھڑے ہوئے اور مجھے دیکھنے لگے۔ میں دیوار سے لگ کر بیٹھ گئی۔ بقچہ پہلو میں رکھ لیا اور وہیں جمی رہی۔ عزیزہ خانم نے پھر پوچھا، ’’سچ سچ بتائیے، بڑی خانم، آپ گئی نہیں تھیں؟‘‘
’’گئے تو تھے، جنیا۔‘‘ میں نے کہا، ’’پھر لوٹ آئے۔‘‘
’’لوٹ ہی آنا تھا تو پھر گئی کیوں تھیں؟‘‘ عزیزہ خانم بولیں، ’’یہیں رہتیں، ہم بھی خاطر جمع رہتے۔‘‘
میں ہنس پڑی اور بولی، ’’اسی لیے تو ہم چلے آئے کہ تم خاطر جمع ہو جاؤ۔ لیکن جنیا، اس بار ہم زیارت کو نہیں آئے ہیں، کچھ اور ہی کام ہے۔‘‘
بچوں نے آکر مجھے گھیر لیا۔ عزیزہ خانم کی تیوریاں چڑھتی جا رہی تھیں۔ مجھ سے ذرا ہٹ کر کیاری کے پاس بیٹھ گئیں۔ پوچھا، ’’اور کون سا کام؟‘‘
’’آئے ہیں اپنے واسطے بالشت بھر جگہ مول لینے۔‘‘ میں نے کہا، ’’تمہیں پتہ ہے؟ ہم نے خواب میں دیکھا ہے۔ تین رات پہلے دیکھا ہے کہ بس جا رہے ہیں۔۔۔‘‘
’’برے کلمے منہ سے نہ نکالیے۔‘‘ عزیزہ خانم بات کاٹ کر بولیں۔ میں نے کہا، ’’ہم تو ٹھکانے لگ ہی چکے۔ ضرور تھا کہ۔۔۔‘‘
عزیزہ خانم آگے کو سرک آئیں، اور بولیں، ’’مگر پیسے تو آپ کے پاس تھے نہیں؟‘‘
’’تھے کیوں نہیں۔۔۔!‘‘ میں نے کہا اور بقچے کی طرف اشارہ کیا۔
وہ تلملا کر کھڑی ہو گئیں اور کہنے لگیں، ’’تو جب پیسے آپ کے پاس ہیں پھر سید بیچارے سے کیوں ہر سٹے رسم اینٹھا کرتی ہیں؟ جب نہ تب انہیں کا گلا کاٹتی ہیں۔ سید کو دوڑتے صبح سے شام ہو جاتی ہے، پھر بچوں کا پیٹ نہیں بھر پاتے۔ اوپر سے آپ ہیں کہ جان کو لگی ہوئی ہیں۔ جب دیکھو چلی جا رہی ہیں اور چلی آ رہی ہیں۔‘‘
پھر میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنے لگیں کہ میں کچھ بولوں، لیکن میں بھی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے انہیں دیکھتی رہی، بولی کچھ نہیں۔
عزیزہ بڑبڑاتی ہوئی کوٹھے پر چلی گئیں۔ پیچھے پیچھے بچے بھی۔ میں وہیں دیوار سے لگی بیٹھی رہی، پھر آنکھیں موند کر سو گئی۔ خواب میں دیکھا کہ سید دکان سے واپس آ گیا ہے، اور بیوی کے ساتھ پیڑ تلے کھڑا ہے۔ دونوں میری ہی باتیں کر رہے ہیں۔ سید پیڑ سے ایک رسی باندھ رہا ہے اور بیوی تیز تیز بول رہی ہیں۔ میں سوتے سے چونک پڑی تو دیکھتی ہوں سچ میں سید آ گیا ہے اور ڈیوڑھی میں بیوی کے ساتھ زور زور سے باتیں کر رہا ہے۔ کہہ رہا تھا، ’’آخر کروں تو کیا کروں؟ جو بھی ہو، وہ میری اماں ہیں۔ تمہیں کچھ بتاؤ۔‘‘
’’میں کیا جانوں!‘‘ عزیزہ خانم بولیں، ’’اب کے تو آئی ہیں قبر مول لینے۔ قبرستان جا کر پیسے بھی جمع کر آئی ہیں۔ گٹھری بھر رقم لائی ہیں۔ آخر یہ اوروں کے پاس کیوں نہیں جاتیں؟ بھلا اتنی بیٹیاں بیٹے ہیں، ایک تمہیں پتلی گردن والے ہو کہ ہر بار آخر تمہارے ہی گلے پڑتی ہیں۔ سید عبد اللہ، سید مرتضیٰ، جواد آقا، سید علی، ایک سے ایک، پھر وہ صفیہ، حوریہ، امینہ آغا، یہ ان کے بیٹے بیٹی نہیں ہیں کیا؟ داماد بھی سب پیسے والے۔۔۔‘‘
سید کچھ دیر چپ چاپ سنتا رہا، پھر بولا، ’’ٹھیک ہے بھئی، جو جی میں آئے کرو۔ میرا تو ناک میں دم آ گیا ہے۔‘‘
دونوں ڈیوڑھی سے نکل کر سامنے آئے۔ میں نے آنکھیں بند کر لیں۔ سید دھیرے دھیرے چلتا ہوا آیا اور کوٹھے پر چڑھ گیا۔ پھر دبے پاؤں نیچے اترا اور باہر نکل گیا۔ مجھے دروازہ کھلنے بند ہونے کی آواز سنائی دی۔ اس کے بعد سارے دن میں دیوار سے لگی جاگتی سوتی رہی۔ جاگی، تھوڑی سی روکھی نان بقچے سے نکالی، کھائی، پھر سو گئی۔ آنکھ کھلی تو اندھیرا ہو چکا تھا۔ اوپر کمرے میں روشنی ہو رہی تھی۔ مجھے پتہ تھا عزیزہ خانم اور بچے مل جل کر بیٹھے ہوں گے۔ میں کچھ دیر تک کھانستی رہی، پھر حوض پر گئی، پانی اچھالتی رہی۔ کوئی باہر نہیں نکلا، ہمت کر کے زینوں پر چڑھی، اوپر پہنچی، دیکھا سب لیمپ کے ارد گرد بیٹھے ہیں۔
میں وہیں اندھیرے میں کھڑی انہیں دیکھتی رہی۔ کھانا ہو رہا تھا۔ سب کھا چکے تو میں نے دروازے میں سر ڈالا۔ لیمپ کی روشنی پورے کمرے میں نہیں پہنچ رہی تھی، اس لیے کسی نے مجھے دیکھا نہیں۔ پھر میں نے دھیرے سے پکارا، ’’عزیزہ خانم، عزیزہ خانم!‘‘
ماہ رخ، اسد اللہ کی بڑی والی، اچھل پڑی اور اس کے منہ سے چیخ نکل گئی۔ سب گھبرا کر کھڑے ہو گئے۔ عزیزہ نے لیمپ اکسایا، پھر بڑھ کر میرے سامنے آ گئیں اور بولیں، ’’آپ آخر چاہتی کیا ہیں؟ کہ میرے بچے دہل کے مر جائیں؟‘‘
میں پیچھے ہٹ گئی، پوچھا، ’’سید نہیں آئے؟‘‘
’’آج رات وہ گھر نہیں آئیں گے۔‘‘ عزیزہ بولیں۔
’’اچھا تو ہم کہاں لیٹیں؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’میں کیا جانوں؟‘‘ عزیزہ خانم نے کہا، ’’جہاں جی میں آئے، وہاں آرام کیجئے۔‘‘
میں وہیں چوکھٹ کے پاس پڑ رہی۔ نیند آ گئی۔ صبح نماز کے لیے اٹھی تو سمجھ چکی تھی عزیزہ خانم کچھ دینے دلانے کی نہیں، اس لیے نماز پڑھ کر بقچہ سنبھالا اور روضے کو روانہ ہو گئی۔ وہاں مسجد کے چھتے میں جا بیٹھی، پھر ہاتھ پھیلا دیا، منہ پر گھونگھٹ لے لیا اور پھر سو گئی۔ دھوپ پھیل گئی تو اٹھی۔ آس پاس جو پیسے پڑے تھے انہیں بٹور کر بقچے کے کونے میں باندھا اور نکل کھڑی ہوئی۔
دوپہر ہوتے مکان پر آئی، بچوں کے لیے تنکے والی مٹھائی کی چڑیاں اور حلوا سوہن خریدا تھا، دروازہ کھٹکھٹایا۔ ماہ رخ ڈیوڑھی میں آئی۔ پٹ اتنا سا کھول کر جھانکا، فوراً دروازہ بند کر کے چلی گئی۔ میں نے پھر کھٹکھٹانا شروع کیا۔ دروازے کے پیچھے کسی عورت نے آ کر بتایا کہ سید اسد اللہ پورے تین مہینے سے باہر گئے ہوئے ہیں۔ اس کے بعد سناٹا۔ میں نے پھر دروازہ کھٹکھٹایا۔ وہی عورت پھر آئی اور بولی، پتہ نہیں وہ لوگ کہاں چلے گئے ہیں۔ مجھے کوئی کام تو تھا نہیں، سہ پہر تک دروازے پر بیٹھی رہی کہ شاید سید اسد اللہ آ جائے۔ جب دیکھا اسی طرح سناٹا کھنچا ہوا ہے تو اٹھ کھڑی ہوئی۔
اچانک خیال آیا کہ جا کر سید کی دکان ڈھونڈھوں۔ مگر جہاں بھی گئی، سید اسد اللہ آئینے والے کو کوئی نہیں جانتا تھا۔ پتھر والوں ے قریب ایک آئینے والا سید اسد اللہ کر کے تھا تو مگر وہاں ایک آدمی عمامہ باندھے عبا پہنے بیٹھا تھا۔ سید کبھی عمامہ نہیں باندھتا، یہ میں جانتی تھی، اس لیے وہاں سے نکل آئی۔ نماز کا وقت ہو گیا تو روضے چلی گئی۔ وہاں پھر خیرات اکٹھا کی اور پھر بازار میں آ گئی۔ قریب مغرب تک اسد اللہ کو یہاں وہاں ڈھونڈھتی رہی، بالکل ان دنوں کی طرح جب وہ بچہ تھا اور کہیں گم ہو جاتا تو میں اسے کھوجتی پھرتی تھی۔
میں نے سوچا اس کے گھر جا کر دروازے پر بیٹھ رہوں، لیکن عزیزہ خانم کے ڈر سے نہیں گئی۔ سچ تو یہ ہے کہ اس رات مجھ کو سب سے ڈر لگ رہا تھا۔ پھر میرے جی میں یہ سمائی کہ اسی دن لوٹ جاؤں۔ اسی خیال سے گاڑیوں کے اڈے پر پہنچی۔ اچانک دیکھتی ہوں کہ سید اسد اللہ ہاتھوں میں سامان اٹھائے اڈے سے نکل رہا ہے۔ میں نے اسے پکارا تو رک گیا۔ میں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا، صدقے قربان ہوئی، دعا پڑھ کر دم کی۔ وہ اسی طرح کھڑا رہا۔ زبان اس کی بند ہو گئی تھی، بس بھونچکا سا کھڑا مجھے تک رہا تھا۔ میں نے کہا، ’’گھبراؤ نہیں، جانی، ہم تمھارے گھر نہیں آ رہے ہیں۔ معلوم ہے عزیزہ خانم ہماری صورت دیکھنے کی روادار نہیں ہیں۔ تم بھی تو تین مہینے ہوئے وہاں سے اٹھ آئے ہو۔‘‘
سید کہنے لگا، ’’اماں، قصور تمہارا ہی ہے۔ تیسرے پہر تم کو روضے میں دیکھا۔ بھیک مانگ رہی تھیں! وہاں تم سے کچھ کہہ بھی نہیں سکتا تھا۔ اف! اگر کسی نے تمہیں پہچان لیا تو میری کیا آبرو رہ جائے گی؟‘‘
میں کچھ نہیں بولی۔ سید نے پوچھا، ’’تو کہیں رہنے کا ٹھکانہ ہوا؟‘‘
’’ہمارا غم نہ کھاؤ۔‘‘ میں نے کہا، ’’یہیں پر کیا موقوف، جہاں بھی جائیں گے زمین کا ٹکڑا تو نکل ہی آئے گا۔‘‘
پھر مجھ سے رہا نہیں گیا، رونے لگی۔ سید اسد اللہ کو بھی رونا آ گیا، لیکن چھپا لے گیا۔ پوچھنے لگا، ’’تو روتی کیوں ہو؟‘‘
’’اپنے غریب الوطن امام پر رو رہے ہیں۔‘‘ میں نے کہا۔ سید نے جیبیں ٹٹولیں، ایک تو مان کے پیسے نکال کر مجھے دیے اور بولا، ’’اماں، اس شہر میں تمہارا رہنا ٹھیک نہیں۔ اچھا یہی ہے کہ سید عبد اللہ کے پاس چلی جاؤ۔ مجھ سے تو تمہارے لیے کچھ ہو نہیں سکتا۔ یہ بھیک مانگنا اور صدقہ خیرات وصولنا ہمارے تمہارے لیے کوئی عزت داری کی بات نہیں۔ کل نہیں تو پرسوں کوئی نہ کوئی تمہیں دیکھ ہی لے گا اور سب کو پتہ چل جائے گا کہ حاجی سید رضی کی گھر والی بھیک مانگتی ہے۔ چلی جاؤ سید عبد اللہ پاس۔ اس کی بیوی تو عزیزہ کی طرح چڑچڑی بھی نہیں ہے۔‘‘
ہم گاڑیوں کے پاس پہنچ گئے۔ اس نے ایک ڈرائیور سے کہا، ’’بھیا، اللہ واسطے ان بڑی بی کو شوش میں اتار دینا۔ ثواب کا کام ہے۔‘‘
2
سید عبد اللہ کے ہاں سب کا دل مجھ میں لگا ہوا تھا۔ سید اپنی بی بی کے ساتھ گاؤں چلا گیا تھا۔ گھر میں بچے ہی بچے تھے۔ رخشندہ کی ابلی ہوئی آنکھوں والی مٹلّی بہن بچوں کے لیے کچھ بُن رہی تھی۔ مجھے دیکھا تو بانچھیں کھل گئیں۔ بچے بھی نہال ہو گئے۔ رخشندہ اور سید عبد اللہ کے جلدی لوٹنے کی امید نہیں تھی۔ روٹی، سالن، جو چاہو ڈھیروں موجود۔ بچے میرے اوپر لدے پڑ رہے تھے۔ صحن بھر میں میرے پیچھے پیچھے لگے ہوئے تھے۔ جاننا چاہتے تھے کہ میرے بقچے میں میں کیا ہے۔ میں کیونکر بتا دیتی۔ انہیں بھی اپنے بڑوں کی طرح فکر تھی کہ مرے بقچے کی ٹوہ لیں۔ رخشندہ کی بہن دالان میں بیٹھی ٹھٹھے لگا رہی تھی۔ اس نے اپنے کھلے ہوئے بال پیچھے سمیٹے اور پوچھا، ’’بڑی خانم، آخر اس بقچے میں ہے کیا؟‘‘
یہ میں نہیں بتا سکتی تھی۔ بس اتنا کہہ کے رہ گئی، ’’کچھ بھی نہیں، ہونا کیا ہے؟‘‘
باہر جانے کو ہوئی تو بچے بھی ساتھ چلنے کو مچل گئے، لیکن میں کسی صورت ان کو بہلا پھسلا کر سڑک پر آ گئی۔ چوراہے پر ایک گول میدان سا تھا، بیچ میں گڑھے کی طرح دھنسا ہوا، وہیں ایک کنارے بیٹھ گئی۔ لیکن آدمی ادھر کم آتے تھے، وہاں مانگنے سے ملنا ملانا کچھ نہیں تھا۔ ہاں بس ایک فقیری کا ثواب تھا۔
گھر واپس آئی تو رخشندہ کی بہن بولی، ’’بڑی خانم خصم پاس گئی تھیں!‘‘
بچے ہنس پڑے اور سب نے رٹ لگا دی، ’’خصم پاس گئی تھیں! خصم پاس گئی تھیں!‘‘
پھر سب ایسی ایسی باتیں پوچھنے لگے کہ مجھے بھی ہنسی آ گئی اور کچھ جواب دیتے بن نہیں پڑا۔ رخشندہ کی بہن مجھ کو چاہتی تھی، بہت چاہتی تھی۔ یہ مجھے پتہ تھا۔ خود بھی کہا کرتی تھی کہ میرا کام کرنے میں اس کا بڑا جی لگتا ہے۔ میں نے اس سے کہا میرے لیے ایک جھولا سی دو۔ اس نے سی بھی دیا۔ اور کتنا بڑا سا! سینے بیٹھی تو کہنے لگی، ’’جھولے کا سینا اچھا شگون ہوتا ہے۔‘‘
میں نے سوچا اس میں کون سا اچھا شگون ہوگا، مگر اس نے شاید ٹھیک کہا تھا، اس واسطے کہ دوسرے ہی روز منھ اندھیرے سید عبد اللہ اور رخشندہ گاؤں سے آ گئے۔ رخشندہ بھی مجھے دیکھ کر عزیزہ کی طرح اچک پڑیں۔ سید عبد اللہ خوب موٹا تازہ سرخ سفید ہو رہا تھا۔ داڑھی بھی لمبی ہو گئی تھی۔ لیکن اس نے جیسے مجھے دیکھا ہی نہیں۔ میں نے سوچا چھوڑو، یہاں سے بھی ٹل ہی جاؤ۔ کوئی فائدہ نہیں تھا۔ اب پہلے دن کی طرح بچوں کے ساتھ ہنسنا بولنا بھی نہیں ہو سکتا تھا۔ رخشندہ کی بہن الگ ساری دل لگی بھول گئی تھی۔ سید کچھ دیر تک سوچ میں ڈوبا رہا، پھر بولا، ’’اماں، آؤ، جس گاڑی پر ہم آئے ہیں، اسی پر گاؤں چلی جاؤ۔ میں خود جاڑوں میں تم کو دیکھنے آؤں گا۔‘‘
بچے میرے واسطے نان پنیر لے کر آ گئے۔ میں نے اپنا بقچہ سنبھالا، رخشندہ کی بہن والا جھولا بھی اٹھا لیا، سید کی دی ہوئی لاٹھی تھامی اور کہا، ’’کوئی بات نہیں، جا رہے ہیں۔‘‘
بچوں کو پیار کر کے باہر نکل آئی۔ گاڑی دروازے ہی پر لگی ہوئی تھی، سوار ہو گئی۔ بچے میرے پیچھے پیچھے گاڑی تک آئے۔ رخشندہ اور ان کی بہن نہیں آئیں۔ سید نے دو تو مان کا خردہ بھیج کر کہلا دیا تھا کہ گاؤں ہی میں رہنا، واپس نہ آ جانا۔ میں نے دالان میں رخشندہ کی بہن کے رونے کی آواز سنی۔ رخشندہ کی بڑی بٹیا کہنے لگی، ’’خالہ ڈرتی ہے، ڈرتی ہے ابا اسے گھر سے نکال دیں گے۔‘‘
دوپہر ہوتے گاؤں پہنچی۔ گاڑی سے اتری۔ ایک کمرے میں پہنچا دی گئی۔ اس میں کوئی کھڑکی نہیں تھی، بس ہر کونے میں طاقچے تھے۔ میں نے دروازہ بند کر لیا اور لیٹ رہی۔ ہاتھ پیر، پوری جان درد کر رہی تھی۔ رات کو مجھے نان اور مکھن ملا۔ نماز کے لیے اٹھی، دروازہ کھولا۔ مکان کے سامنے گھاٹی تھی۔ بڑا سا چاند نکل آیا تھا اور سارے میں چاندنی پھیل گئی تھی۔ دور سے بھیڑیے کی آواز آ رہی تھی حالانکہ ابھی سردیاں نہیں شروع ہوئی تھیں۔ مکان کی چھت پر کوئی چڑیا کٹ کٹ کرتی ٹھونگیں مار رہی تھی۔
اس کے بعد میں بہت کم گھر سے باہر نکلی۔ بس کمرے میں پڑی اپنے بچوں کا سوچا کرتی کہ سب کیسے الگ الگ کونوں میں پڑے ہیں۔ میرا دل ان کے لئے کلپتا تھا۔ سب سے زیادہ پریشانی صفیہ کی تھی۔ اس کا مسٹنڈا میاں جواد آقا ہر وقت اسے کونچا کرتا تھا۔ بس ایسے ہی وہم گھیرے رہتے تھے۔ وہم اکیلی جان کا پیچھا نہیں چھوڑتے۔ سب سے بدتر یہ کہ میں صدقہ اکٹھا نہیں کر پا رہی تھی۔ سہ پہر کو لاٹھی ٹیکتی ہوئی میدان کی طرف جا نکلتی اور رات تک وہیں بیٹھی رہتی۔ جوتیاں الگ کھو گئی تھیں۔ رات کو گھر لوٹتی تو بچوں کی خواب میں جوتیاں دیکھتی۔ دیکھتی کہ جوتیاں مل گئی ہیں اور میں آرام سے کانٹے کنکر پر چل لیتی ہوں۔ کئی بار رات کو کپڑے بھی خراب کر لیے۔ پیری اور صد عیب۔ حالت میری اچھی نہیں تھی۔ پہلے تو کوئی کوئی خبر بھی لے لیتا تھا، مگر یہ دیہاتی بندے بس اپنے کام سے کام رکھتے ہیں۔
ایک رات تو بہت دل کڑھا۔ ایسا لگا کہ وہ سب مجھے پکار رہے ہیں۔ میرے بیٹے، پوتے نواسے، بیٹیاں، سب پکار رہے ہیں۔ سب پہاڑ کے پیچھے سے مجھے آوازیں دے رہے ہیں۔ میں باہر آ گئی۔ نماز کا وقت جاتا رہا تھا۔ کچھ دور چل کر میں نے کان لگائے تو ایسا معلوم ہوا سچ مچ مجھے پکار رہے ہیں۔ صفیہ کے بچے رو رہے تھے اور مجھے بلا رہے تھے۔ رخشندہ کی لڑکی مجھے بلا رہی تھی۔ میں نے پکار کر کہا، ’’آ رہی ہوں!‘‘
دو دن پہلے میں نے شبیہ مبارک کی شمائل خرید لی تھی۔ سوچا تھا بھیک مانگنے کے لیے شمائل ضروری ہے۔ میں نے شمائل اور بقچہ اٹھایا اور چل کھڑی ہوئی۔ سڑک تنگ اور لمبی تھی لیکن چاند نکل آیا تھا جس سے کچھ روشنی ہو گئی تھی اور مجھے پیروں تلے زمین دکھائی دے رہی تھی۔
میں گاؤں سے باہر نکل آئی تھی۔ تھکن اتارنے کے لیے ایک طرف زمین پر بیٹھ گئی۔ اونٹوں کی گھنٹیاں سنائی دیں۔ ایک آدمی تھا اور تین اونٹ۔ میں نے منت کی کہ مجھے بھی ایک اونٹ پر بٹھا لے۔ اس نے بٹھا لیا۔ ایک پر آپ سوار ہوا۔ تیسرا اونٹ ہمارے پیچھے پیچھے چلا۔
کچھ دور جانے کے بعد میں نے گھوم کر دیکھا۔ اب گاؤں نظر نہیں آ رہا تھا۔ اس رات اور دوسرے دن چل کر ہم شہر پہنچ گئے۔ اونٹ والا مجھ سے پیسے نہیں لے رہا تھا۔ بس ذرا سی روکھی روٹی لے کر جیب میں ڈال لی اور اونٹوں کو چھچکارا، چل دیا۔
پہلا ہی آدمی جو سامنے پڑا، میں نے اس کے آگے ہاتھ پھیلا دیا۔ اس نے ایک بار شمائل کو دیکھا، ایک بارے میرے ننگے پیروں کو، اور آگے بڑھ گیا۔
3
جواد آقا کو میں نے یہ بتایا کہ کام پر نکلی ہوں۔ ایک پیٹ کا بھرنا کون بڑی بات ہے۔ کام کروں گی، پیٹ بھر لوں گی۔ بھیک مانگتی ہوں تو کوئی پیسے کے لیے تھوڑے مانگتی ہوں، ثواب کی خاطر مانگتی ہوں۔ مجھے بھیک کے ٹکڑوں کی خوشبو بھاتی ہے، انہیں کھانا نہیں۔ مجھے فقیری کا ثواب اچھا لگتا ہے۔
جواد آقا نے میرے منہ پر دروازہ بند کر دیا اور بولا مجھے گھر میں نہیں گھسنے دے گا۔ میں جانتی تھی کہ صفیہ کوٹھری میں چھپ کر رو رہی ہوگی، بلک رہی ہوگی کہ اس کی اماں کو گھر سے نکال دیا گیا۔ لیکن وہ مجھ سے بھی زیادہ ڈرپوک تھی، خیریت اسی میں جانتی تھی کہ جواد آقا کے آتے ہی آپ کو سنبھالے، آن کے بیٹھے، جواد آقا کو چائے دے، بچے کا پالنا ہلائے، اور میرا خیال بھی دل میں نہ لائے۔
سہ پہر کو جواد آقا بازار چلا جاتا تھا۔ میں نے سوچا اگر اس وقت گھر پہنچ جاؤں تو صفیہ مجھے کسی کونے بلوکھے میں اس طرح ٹکا سکتی ہے کہ جواد آقا کو پتہ نہ چلے۔ لیکن دستک جو دی تو دروازے پر جواد آقا ہی آن کھڑا ہوا۔ تیکھی نظروں سے مجھے دیکھ کر بولا، ’’کیا بات ہے؟‘‘
’’کچھ نہیں۔‘‘ میں نے کہا اور اپنا راستہ لیا۔
وہ پیچھے سے مجھے دیکھتا رہا یہاں تک کہ میں اس سے دفعان ہو کر سڑک پر آ گئی۔ وہیں میں نے بقچے سے شمائل نکالی اور صدقہ لینا شروع کر دیا۔ لیکن میرا دل چاہ رہا تھاکچھ کا م کروں۔ میں نے اپنے آپ سے کہا میں کام کروں گی، بالکل کام کروں گی۔ اور اسی وقت کام آ بھی گیا۔ ایک دبلی پتلی لمبی سی عورت وہاں جیسے میرا ہی رستہ دیکھ رہی تھی۔ اس نے مجھ سے پوچھا، ’’کپڑے دھو سکتی ہو؟‘‘
میں نے کہا دھو سکتی ہوں، اور ہم روانہ ہوگئے۔ دیر تک چلتے رہے۔ ایک سڑک، دوسری سڑک۔ آخر ایک خالی ڈھنڈار گلی میں پہنچ کر ایک مکان میں داخل ہوئے۔ لمبی سی اندھیری اندھیری ڈیوڑھی تھی۔ پھر ہم ایک بہت بڑے صحن میں آ گئے۔ وہاں چوطرفہ کمرے بنے ہوئے تھے۔ حوض کی چبوتریا کے پاس کئی عورتیں خوب سنگھار پٹار کیے بیٹھی کھا پی رہی تھیں۔ مجھے دیکھتے ہی سب میری طرف گھوم پڑیں اور آپس میں کچھ باتیں کر کے ہنسنے لگیں۔ ان میں سے دو ایک میری اپنی بیٹیوں کی طرح اچھے قد کاٹھ کی خوب گوری چٹی تھیں۔ پھر سب باتیں کرتی رہیں، کرتی رہیں۔ آخر طے پایا کہ میں کپڑے نہ دھوؤں، بس دروازے پر بیٹھی رہوں، پتہ نہیں کیوں۔
مجھے دروازے کے پاس بٹھا دیا گیا۔ میں نے شمائل اور بقچہ اٹھا لیا، اس سُکھٹّو کو نہیں اٹھانے دیا۔ مجھ سے کہہ دیا گیا کہ کوئی آدمی دروازہ کھٹکھٹائے اور ربابہ کو پوچھے تو دروازہ کھول کر اسے اندر آ جانے دوں۔ ہلکا کام تھا۔ کسی نے دروازہ نہیں کھٹکھٹایا۔ میں دعائے کمیل پڑھتی رہی۔ سب سے الگ تھلگ اندھیری جگہ تھی۔ صحن سے بولنے چالنے کی آوازیں آ رہی تھیں، لیکن میں اپنے کاسے میں منہ ڈالے بیٹھی رہی۔
کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا، بتایا ربابہ سے ملنا ہے۔ مرگھلا سا آدمی تھا۔ اس نے اور کچھ نہیں بتایا، اندر چلا گیا۔ میں نے پھر دروازہ بند کر دیا۔ صحن سے کھلکھلانے کی آواز آئی۔ پھر سب کچھ پہلے کی طرح۔ اس کے بعد کوئی دروازے پر نہیں آیا۔ میں نے کہا یہ بہت اچھا ہے۔ یہاں چین سے بیٹھ سکتی ہوں، اور بیٹھے ہی بیٹھے مجھے نیند آ گئی۔
خواب میں دیکھتی ہوں کہ ایک لمبی پتلی گلی میں جواد آقا ایک ہاتھ میں چھری، ایک میں چابک لیے میرے پیچھے آ رہا ہے۔ میں بجلی کی طرح چمک کر بھاگی۔ اسی مکان پر پہنچی اور ڈیوڑھی میں گھس گئی، دروازہ بند کر لیا۔ اب وہ مجھے نہیں پا سکتا تھا۔ جواد آقا پہنچا اور دروازہ دھڑدھڑانے لگا۔ میری آنکھ کھل گئی۔ دروازہ واقعی پیٹا جا رہا تھا۔ میرا دم سوکھا ہوا تھا۔ پھر میں نے خود کو کچھ سنبھالا، پوچھا، ’’کون ہے؟‘‘
دروازے کے ادھر سے کسی نے کہا، ’’ربابہ!‘‘
میں نے دروازہ جو کھولا تو سامنے جواد آقا کی صورت! میں نے دروازہ دھڑسے بند کر دیا، تھر تھر کانپنے لگی۔ اس نے اور زور سے دروازہ پیٹنا شروع کیا۔ سکھٹو آ گئی۔ میں نے کہا، ’’کھولنا نہیں، جواد آقا آگیا ہے، میرا داماد۔‘‘
جواد آقا تھا کہ دروازہ پیٹے جا رہا تھا اور گالیاں بک رہا تھا۔ آخر عورت نے مجھے ایک کوٹھریا میں پہنچا دیا۔ میں نے اس کا کواڑ بند کر لیا۔ عورت نے ڈیوڑھی میں جا کر باہر کا دروازہ کھولا۔ جواد آقا اندر گھس آیا اور سیدھا صحن میں چلا گیا۔ عورتوں کے کھلکھلانے کی آواز آئی، اور پھر سب کچھ پہلے کی طرح۔
میں نے بقچہ اور شمائل اٹھائی اور بھاگی باہر۔ وہی مثل کہ اب نہ بھاگے گا تو کب بھاگے گا۔ میدانچے میں آ کر رکی تو لگتا تھا دل بھی رک جائے گا۔
4
اس رات میں نے خیرات نہیں لی۔ شمائل میری چادر کے اندر اور لاٹھی میرے ہاتھ میں تھی۔ نماز پڑھ لی تھی اور بقچے میں نان کافی تھی۔ مسجد میں یا کسی اور جگہ جانا نہیں چاہتی تھی۔ ایک کالی گاڑی آئی، مجھے بٹھا لیا اورشہر کے باہر لے جا کر ایک پتلی سی اندھیری گلی کے نکڑ پر اتار دیا۔ گلی کے اس سرے پر ٹمٹماتی ہوئی سی روشنی تھی جیسے ماچس جل رہی ہو۔ بچوں کی شیطانی سے جان چھوٹ گئی تھی۔ اب اپنے کام کا وقت آ گیا تھا۔ گلی کے سرے پر پہنچی۔ ایک دروازہ کھلا ہوا تھا۔ میں اندر چلی گئی۔ بڑا سا باغ تھا، گھنے پیڑ، اور پانی کی بہتات۔ ایک پرانی قندیل شاخ سے لٹکی ہوئی جل رہی تھی۔
میں ایک چبوترے کے کنارے بیٹھ کر انتظار کرنے لگی۔ قمر اور جانالی فاطمہ اور ماہ پارہ بھی آن پہنچیں۔ ہم چاروں مل کر پہلے تو روئے، پھر اپنے اپنے دکھڑے سنانے لگے۔ قمر ٹھنگنی ویسی ہی موٹی تھی، البتہ اس کی توند پلپلا گئی تھی۔ ہاں جانالی فاطمہ گھل کر رہ گئی تھی، مگر اب بھی ہنستی خوب تھی۔۔۔ اور اس کے بعد رونے بھی لگتی تھی۔ ماہ پارہ مربھکی کے چہرے کی جھریاں اسی طرح کپکپا رہی تھیں۔ اپنی انگلیاں دانتوں سے کاٹ رہی تھی۔ میں جان گئی کہ بھوکی ہے۔ بقچہ کھولا۔ روٹیاں نکالیں اور تینوں کو بانٹیں۔ قمر کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھاکیا کرے کیا نہ کرے۔ جانالی فاطمہ اپنا پھٹا پرانا بقچہ آگے دھرے ہنسے جا رہی تھی اور روئے جا رہی تھی۔ البتہ ماہ پارہ نے پوری روٹی ختم کر لی تھی اور اب ہونٹ چبا رہی تھی۔
پھر باتیں شروع ہوئیں۔ تینوں نے مجھ سے خوب خوب گلے شکوے کیے کہ ہم لوگ اتنے دن سے یہاں پڑے ہیں اور تم دیکھنے بھی نہیں آئیں۔ میں نے بھی قسموں پر قسمیں کھائیں کہ میں یہاں تھی ہی نہیں، مگر ان کو یقین نہیں آیا۔ پھر بھیک ویک کی بات ہوئی۔ جانالی فاطمہ سے کتنا کتنا کہا، اس نے اپنا بقچہ کھول کر نہ دکھایا۔ میں سمجھ گئی کہ اس نے پارچوں کا کام چھوڑ دیا ہے۔ کیا پتہ میرے بقچے کے اندر انہیں میں کا کوئی پارچہ ہو۔ پھر ہم حوض پر آئے۔ میں نے اپنے بچوں کا حال احوال سنایا کہ سب ٹھیک ٹھاک ہیں، میں بھی ٹھیک ٹھاک ہوں، صدقہ لیتی ہوں اور شمائل کی زیارت کراتی ہوں، بقچہ ساتھ ہے اور ہمہ وقت تیار ہوں۔
ماہ پارہ موٹی سی نان ختم کر جانے کے بعد بھی اسی طرح بھوکی تھی اور مجھ پر آنکھیں گاڑے ہوئے تھی۔
جانالی فاطمہ نے پوچھا، ’’شمائل دکھانے لگی ہو تو روضہ بھی پڑھتی ہوگی؟‘‘
میں نے روضہ پڑھنا شروع کردیا۔
ہم چاروں درختوں کے نیچے بیٹھے تھے۔ جانالی فاطمہ پہلے ٹھٹھا مار کر ہنسی، پھر رو پڑی، اور ہم سب نے، چاروں نے، رونا شروع کر دیا۔ باغ کے اندر سے بھی رونے کی آوازیں آنے لگیں۔
5
دعا ئے علقمہ پڑھ چکی تو اچانک مجھے گھر اور اپنی جمع پونجی کا خیال ستانے لگا۔ گھر تو اپنا تھا نہیں، البتہ ساری جمع پونجی میں نے امینہ آغا کے یہاں رکھوا دی تھی۔ سہ پہر کاوقت تھا کہ میں نے جا کر دستک دی۔ دروازہ کھلا۔ مجھے دیکھا تو سب سناٹے میں آ گئے، جیسے قبر سے نکل کر آ رہی ہوں۔ میں کچھ بولی نہیں۔ امینہ آغا اور ان کی نواسیاں پاس آ کھڑی ہوئیں۔ بیٹی موجود نہیں تھی، نہ میں نے پوچھا کہاں ہے۔ جانتی تھی ہمیشہ کی طرح حمام کرنے گئی ہوئی ہوگی۔
امینہ آغا نے پوچھا، ’’کہیے، اچھی تو رہیں؟‘‘
’’اپنا سامان دیکھنے آئے تھے۔‘‘ میں نے کہا۔ انہوں نے تہہ خانے کا راستہ بتا دیا، پھر خود بھی ساتھ ہو لیں۔ کہنے لگیں، ’’سید مرتضیٰ اور جواد آقا اور حوریہ سامان کے چکر میں کئی پھیرے لگا چکے ہیں، لیکن میں نے کہہ دیا ابھی تو خیر سے سید خانم زندہ سلامت ہیں۔ جب ان کا وقت آن پہنچے گا تب آ کر حصہ بانٹ کیجیو۔‘‘
ہم وہاں پہنچے۔ تہہ خانے میں فنائل کی گولیوں کی بو بسی ہوئی تھی۔ قالین اور چاندنیاں ایک کونے میں ڈال دی گئی تھیں اور سیل کر گلی جا رہی تھیں۔ آب گرموں کے نلکے اور بڑے والے سماور، اور ٹین کے کنستر تلے اوپر ڈھیر تھے۔ دھانس ایسی کہ سانس لیے دماغ پھٹا جاتا تھا۔ میری تینوں کرسیاں برابر برابر لٹا دی گئی تھیں اور ان پر تین بکری کے بچے آ کھڑے ہوئے تھے۔ کرسیوں کے پایوں سے پیال کے مٹھے لٹک رہے تھے۔ بکری کے بچوں نے لپک لپک کر پیال پر منہ مارے، پھر چاندنیوں پر بیٹھ کر جگالی کرنے لگے۔
’’پیسوں کا کیا کیا، بڑی خانم؟‘‘ امینہ نے پوچھا۔
’’پیسے کیسے؟‘‘ میں نے کہا۔
’’عزیزہ نے خط میں لکھا تھا کہ آپ نے قبرستان میں جگہ مول لی ہے۔‘‘
’’تمہارے منہ میں گھی شکر۔۔۔‘‘ میں نے کہا، ’’مگر پیسے کہاں تھے؟‘‘
’’آپ رہ کہاں رہی ہیں؟‘‘ انہوں نے پوچھا، ’’لیٹتی سوتی کس جگہ ہیں؟‘‘
’’جہاں بھی ہوا۔۔۔‘‘ میں نے کہا، ’’مسجد ہی میں پڑ رہتے ہیں۔ قبرستانوں میں شمائل گردانی، روضہ خوانی کرتے ہیں۔ ہم ذاکرہ ہو گئے ہیں۔‘‘
بچے یہ سنتے ہی کھل اٹھے۔ مجھے بڑا اچھا لگا۔ لیکن میں نے انہیں شمائل دکھائی تو ڈر گئے۔ آخر الزماں کے بچے حضور کی شبیہ سے ڈر گئے۔ امینہ نے پوچھا، ’’اب تو آپ نشا خاطر ہو گئیں؟ دیکھ لیا، سب سامان موجود ہے نا؟‘‘
’’ہاں!‘‘ میں نے کہا، ’’لیکن ہم سوچتے ہیں ایک بقچی مل جاتی تو شمائل کا پردہ بنا لیتے۔ گناہ کی بات ہے نا کہ ہر پاک ناپاک کی آنکھ حضور کے جمال پر پڑے۔‘‘
امینہ میرے سامنے آ کھڑی ہوئیں اور بولیں، ’’نہیں۔ یہ تو نہیں ہونے کا۔ آپ کے بچے راضی نہیں۔ میری جان کو آ جائیں گے۔ میں نہیں دے سکتی۔‘‘
وہاں سے واپس آئی تو میرا دل پتھر ہو چکا تھا۔ میں نے سوچا بھیک کی شمائل کو پردہ ضرور نہیں۔ اچھا ہے اس پر گرد اکٹھا ہو جائے۔ مٹی کا پردہ حضور کے جمال کو نامحرموں کی آنکھ سے بچائے رکھے گا۔
میں ایک تراہے پر بیٹھ گئی۔ شمائل کو دیوار سے ٹکا دیا اور روضہ پڑھنا شروع کیا۔ بھیڑ لگ گئی، فقط تماشا دیکھنے کو۔ کسی نے دیا کچھ نہیں۔
میں صرف مصائب پڑھ رہی تھی اور گریہ کر رہی تھی، اور وہ سب یوں ہی ٹھس کھڑے تھے۔ ناچار میں نے شمائل اٹھا لی اور روانہ ہو گئی۔ لوگ میرے پیچھے پیچھے تھے۔ کئی گلیاں پار کیں۔ سمجھ میں نہ آتا تھا کہاں جاؤں۔ قبرستان پہنچی۔ لوگ اب بھی پیچھے لگے ہوئے تھے۔ میں نے شمائل کو دیوار سے ٹکایا اور اس کے قدموں میں بیٹھ گئی۔ لوگوں نے میرے چوگرد گھیرا بنا لیا۔ کوئی منہ سے کچھ پھوٹ نہیں رہا تھا۔ قبرستان کے اندر کہیں کوئی رو رہا تھا۔ ہم سب سن رہے تھے۔
5
اس کے دوسرے دن سے مجھے بھیک ملنا بند ہو گئی۔ گلیاں ناپتی پھر رہی تھی اور بچوں کا غول پیچھے لگا ہوا تھا۔ میں روضہ پڑھتی اور ایک کٹوری پانی پی لیتی۔ آواز پڑی ہوئی تھی۔ پیر الگ پھٹ گئے تھے، خون رس رہا تھا اور ناخن اکھڑے جا رہے تھے۔ گلے میں کوئی چیز پیدا ہو گئی تھی کہ منہ سے بات ٹھیک طرح نہیں نکلتی تھی۔ قبرستان میں سوتی تھی۔ شمائل پر اتنی گرد جم گئی تھی کہ حضور کی صورت نظر نہیں آتی تھی۔ بقچے میں کچھ نہیں رہ گیا تھا۔ بھوک مجھے لگتی بھی نہیں تھی۔ پانی پی لیا کرتی تھی۔ دل پتھر ہوتا جا رہا تھا۔ منہ کے اندر ہتھیلی برابر گھاؤ ہو گیا تھا، اس سے بھی خون آتا رہتا تھا۔ پیسے کسی سے نہیں مانگتی تھی۔ اب ثواب کمانے کو بھی جی نہیں چاہتا تھا۔ لوگ ہمہ وقت مجھے گھیرے رہتے تھے۔ انہیں لوگوں میں دیکھتی تھی کہ میرے بیٹے پوتے بھی پیچھے کھڑے ہیں۔
جمعے کی رات دیر گئے قبرستان میں غسل خانے کے پچھواڑے بیٹھی تھی، نماز بھی نہیں پڑھی تھی، کہ دیکھتی ہوں سید مرتضی کا بڑا لڑکا اور آقا مجتبیٰ چلے آ رہے ہیں۔ کہنے لگے تمہیں گھر لے جانے آئے ہیں۔ میں بھلا کاہے کو جاتی، مگر دونوں نے زبردستی پکڑ کر مجھے گاڑی میں میں ڈال دیا اور روانہ ہو گئے۔ چلتے چلتے، چلتے چلتے آخر اتر کر ایک بڑے احاطے میں گھسے، پھر اس سے نکل کر ایک اور احاطے میں۔ وہاں چلے گئے جہاں بتی جل رہی تھی۔ وہاں بیٹھے ہوئے آدمی کو انہوں نے ایک پرچی تھما دی۔ اس نے پرچی پڑھی، کھڑکی کے پاس آ کر مجھ کو دیکھا اور سر ہلا دیا۔
سید مرتضیٰ کا لڑکا اور آقا مجتبیٰ دو مرتبہ باہر آئے، میری طرف دیکھا بھی نہیں، پھر احاطے سے نکل گئے۔ اب دو اور آدمی آئے، ہاتھ پکڑ کر مجھے ایک اندھیرے گلیارے میں لے گئے۔ میرے ننگے پیر اینٹوں میں چپک رہے تھے۔ ہم ایک کمرے میں پہنچے۔ وہیں کارنس پر ایک کپی جل رہی تھی۔ کمرے کا فرش ٹھیک سے دکھائی نہیں دیتا تھا۔ ایک کونے میں جگہ ملی اور میں وہیں بیٹھ گئی۔ اب سانسوں کی آوازیں سنائی دیں اور میں سمجھ گئی کہ یہاں اور بھی بہت لوگ ہیں۔ اس کے بعد مجھے نیند آ گئی۔ صبح اٹھی تو دیکھتی ہوں سارا کمرہ بھکاریوں سے بھرا پڑا ہے۔ تب ایکا ایک مجھے پتہ چلا کہ میں فقیر خانے میں ہوں۔
میں دروازے کے پاس شمائل اور بقچہ سنبھالے بیٹھی رہی، باقی سب روتے پیٹتے دعائیں مانگتے رہے کہ اللہ جلدی موت دے۔ میں نے روضہ خوانی شروع کر دی اور سب میرے گرد جمع ہو گئے، لیکن گریہ ایک نے بھی نہیں کیا۔
کچھ کرنا دھرنا تو تھا نہیں، میں نے نماز پڑھی اور گوشتابہ کھایا۔ اب کسی بات کی پروا نہیں رہی تھی۔ جان گئی تھی کہ کوئی میرے واسطے پریشان نہیں۔ وہاں میں بہت دن رہی۔ کتنے ہی مر گئے، کتنے ہی نئے آئے، سب فاقوں زدہ کہ ہر وقت بس کھائے چلے جاتے تھے۔ لیکن کوئی بھی ان میں فقیر نہیں تھا، سب بھوکے تھے، فقط۔
اتنے لوگوں میں میں وہاں صرف ایک بڑھیا تھاکہ کسی سے بولتی چالتی نہیں تھی، بس بغیچے میں اپنا بقچہ اور شمائل لیے اپنی دھن میں بیٹھی رہتی تھی۔ میں نے پھر سے روٹی کھانے کی عادت بنا لی تھی اور پھر سے راتوں کو مجھے خواب میں صفیہ اور حوریہ اور سید اسد اللہ اور سید عبد اللہ کے بچے آنے لگے تھے۔ میں بے نماز آدمی کی طرح ہر وقت بے آرام رہنے لگی۔ شروع کے خوابوں میں حضور کی بھی زیارت ہوئی، لیکن دھیرے دھیرے سب کچھ غائب ہو جاتا تھا۔ کچھ کر بھی نہیں سکتی تھی اور وہاں سے نکلنا بھی چاہتی تھی، مگر دروازے پر ایک بڈھا بیٹھا رہتا تھا کہ دیکھتے ہی لاٹھی تانتا اور کہتا تھا، ’’ہش، ہش!‘‘
آخر میرا دل ہولانے لگا۔ سمجھ میں نہیں آتا تھا کروں تو کیا کروں۔ بس روضہ پڑھتی رہتی اور روتی رہتی تھی۔
ایک دن کمال، رضیہ کا بڑا بیٹا، بارہ سال کا ہوگا، وہ اپنے دوست کے ساتھ مجھے ڈھونڈھتا ہوا آ گیا۔ میں دروازے پر گئی۔ صفیہ نے میرے لیے نان پیاز بھجوائی تھی۔ لڑکے نے بتایا کہ سب کو پتہ ہے میں فقیر خانے میں پڑی ہوں۔ بڑا محبتی بچہ تھا۔ مجھے دیکھا تو رونے لگا۔ اپنی جوتیاں مجھ کو دیے دے رہا تھا۔ مجھے بھی رونا آ گیا۔ اس نے بتایا کہ میں وہاں سے بھاگ سکتی ہوں۔ کسی بھی موکھلے سے، جیسے موری کے راستے، نکل جاؤں۔ کہنے لگا باہر فقیر خانے سے کہیں اچھا ہے اور ذاکری میں کوئی برائی بھی نہیں۔
لیکن مجھ کو جواد آقا سے ڈر لگتا ہے۔ جانتی تھی کہ وہ اب بھی میری تاک میں ہے اور کہیں پکڑ پائے گا تو کھال ہی کھینچ لے گا۔ میں نے لڑکے سے کہہ دیا کہ اگر باہر نکلنے کو مل گیا تو تم کو دیکھنے تمہارے مدرسے آؤں گی۔
پھر وہ دونوں چلے گئے۔ دروازے والے بڈھے نے نان پیاز میں سے آدھی اپنے ڈب میں رکھی، آدھی مجھے تھمائی۔ میں رات کی بیٹھی صبح ہوتے تک دعائیں پڑھتی رہی۔ پوری بیاض کی دعائیں رٹی ہوئی تھیں، سب پڑھ ڈالیں۔ اجالا ہونے سے پہلے پہلے بقچہ اور شمائل اٹھا کر موری کے پاس پہنچی۔ لمبی لمبی لیٹ کر زمین پر کھسکتی ہوئی موری میں گھس گئی اور سینے کے بھل رینگنے لگی۔ ساری چادر کیچڑ میں لت پت ہو گئی، مگر میں باہر آ گئی، جیسے سانپ اپنے بل سے نکلتا ہے۔ سامنے لمبی سنسان گلی تھی۔ میں دیوار سے لگ کر بیٹھ گئی۔ تھوڑی نان کھائی۔ فجر کی نماز پڑھی اور چل کھڑی ہوئی۔ گلی سے نکلتے ہی سورج نکل آیا اور مکان دکھائی دینے لگے۔
7
ایک ہفتے تک مجھے تپ چڑھی رہی۔ آواز بالکل بیٹھ گئی تھی۔ یہ بھی نہیں کہ روضہ خوانی کی ہو، نہیں، بس یوں ہی خاک دھول پھانکنے سے سینہ جکڑ گیا تھا۔ پت جھڑ کا زمانہ آتے ہی میرا سینہ جکڑ جاتا ہے۔ گئے دنوں میں ہمیشہ کھڑکیاں بند رکھتی تھی، اس سے یہ حالت نہیں ہوتی تھی۔ اب کھانسی آتی تو معلوم ہوتا تھا کوئی چیز گلے میں اٹک گئی ہے اور دم گھٹا جا رہا ہے۔ فقیر خانے سے نکلنے کے بعد لاٹھی بھی پاس نہیں تھی۔ دیواریں تھام کر چلتی، شمائل پیٹھ پر باندھ لی تھی۔ ہر طرف بھٹکتی پھرتی اور دروازے پر دستک دیتے ڈر لگتا تھا۔ صرف ایک بار سید عبد اللہ کے بچوں کو دیکھا۔ انہوں نے بتایا کہ ان کی خالہ، رخشندہ کی بہن مر گئی، اس کے سینے میں کچھ ہو گیا تھا، اس میں ختم ہو گئی۔ اس کے بعد کوئی خبر، کسی کی سن گن نہیں ملی۔
ایک دن امینہ آغا کے گھر پہنچ گئی۔ دروازہ کھلا ہوا تھا۔ اندر پہنچی تو دھک سے رہ گئی۔ دیکھتی ہوں کہ سب اکٹھا ہیں۔ سب، بیٹے، پوتے، بیٹیاں، نواسے نواسیاں، اور تو اور، سید اسد اللہ، اس کے بچے اور عزیزہ، یہ سب بھی قم سے آ گئے ہیں۔ سب کے سب جمگھٹا لگائے بیٹھے ہیں اور میری جمع پونجی کے حصے بخرے ہو رہے ہیں۔ میرا دل ایسا دھڑدھڑ کرنے لگا کہ آگے بڑھا نہیں گیا، وہیں کی وہیں بیٹھ گئی۔ جواد آقا سید عبد اللہ سے الجھا ہوا تھا۔ جھگڑا ایک قالین پر تھا۔ لڑکیاں بقچوں پر ٹوٹی پڑ رہی تھیں۔ کوئی راضی نہیں ہوتا تھا۔ ہر ایک چاہتا تھا کہ ہر چیز اسی کو ملے۔ امینہ آغا چیخ چیخ کر رو رہی تھیں کہ سب سے زیادہ تکلیف تو میں نے اٹھائی اور مجھی کو سب سے کم دیا جا رہا ہے۔
میں نے پیٹھ پر سے شمائل کھولی اور دیوار سے نکال کر بیٹھی رہی۔ میرے کانوں میں جانالی فاطمہ اور قمر کی آوازیں آئیں کہ کہہ رہی ہیں، ’’اٹھو چلو، اٹھو چلو، سید خانم!‘‘
اچانک کمال نے مجھے دیکھ لیا۔ زور سے چیخا۔ سب نے گھوم کر دیکھا اور آن کر مجھے گھیر لیا۔ جواد آقا کی آنکھیں چکر مکر کر رہی تھیں اور وہ چلا رہا تھا، ’’دیکھ رہی ہو اپنی کرنی کا پھل؟ یہ جو تمہارے چیتھڑے گدڑے ہیں۔۔۔‘‘
میں کچھ نہیں بولی۔ ڈر لگ رہا تھا۔ قمر نے میرے کان میں کہاٖ، ’’اٹھو چلو، اٹھو چلو، سید خانم!‘‘
ان سب کو پہلے تو شمائل نظر آئی۔ مبہوت ہو کر حضور کا روئے مبارک دیکھتے رہے۔ پھر مجھ سے کہنے لگے بقچہ کھولو، بقچہ کھولو۔ یہ مجھ سے نہیں ہو سکتا تھا۔ بقچہ تو کھولنا ہی نہیں چاہتی تھی۔ جانالی فاطمہ نے میرے کان میں کہا، ’’سید خانم، جان! بس بہت ہو گیا۔ اب آ بھی جاؤ۔‘‘
جواد آقا کہاں ماننے والا تھا۔ لات اٹھائے چلا رہا تھا، ’’اس کا بقچہ بھرا ہوا ہے!‘‘
امینہ آغا کہہ رہی تھیں، ’’بڑی خانم! بقچہ کھول بھی دیجئے نا، کہ ان کا کلیجا ٹھنڈا ہو۔‘‘
جانالی فاطمہ کی آواز آئی، ’’دکھا ہی دو۔ اٹھو، چلو۔‘‘
میں نے بقچہ کھول دیا۔ پہلے سوکھی نانیں نکال کر دیوار کے پاس چن دیں۔ اس کے بعدکپڑا، لٹھے کا پارچہ، جو بقچے میں تھا اور سب اس کے لیے مرے جا رہے تھے، وہ باہر نکال کر انہیں دکھا دیا اور کہا، ’’ساڑھے تین میٹر۔ اتنے سے تو ہم آدمی ہیں، ہمارے لیے بہت ہے۔‘‘
سب مجھے دیکھتے رہ گئے۔ پھر سب نے منہ دوسری طرف پھیر لیے۔ کمال، صفیہ کے بیٹے نے رونا شروع کر دیا۔
(فارسی عنوان، ’’فقیر‘‘)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.