نکاح کے بعد حویلی کے زنانے حصے میں مجھے لے جایا گیا۔ چاروں طرف سے عورتوں کا ہجوم تھا، ان کے قہقہے ہیں۔ ان کے جسم اور کپڑوں کی ملی جلی خوشبو میں، میں گھرا ہوا، ان کے لئے تماشہ بنا ہوا، رسموں کو پورا کر رہا ہوں۔ لگتا ہے اب تھوڑی ہی دیر میں، مجھے میری شریکِ حیات کی صورت دکھلائی جائےگی کیونکہ سرگوشیاں ہو رہی ہیں اور ان سرگوشیوں میں رونمائی کے متعلق باتیں میں صاف سن رہا ہوں۔ میرا دل دھڑک رہا ہے، میری گھبراہٹ بڑھتی جا رہی ہے، وہ لوگ اچھا ہی کرتے ہیں جو شادی سے قبل لڑکی دیکھ لیتے ہیں۔ اس کشمکش اور گھبراہٹ اور اذیت سے بے نیاز رہتے ہیں۔ اب آئینہ کے ذریعہ مجھے میری شریکِ حیات کا چہرہ دکھلایا جا رہا ہے، میری نظر آئینہ کی سطح پر ہے اور میرا داہنا ہاتھ جیب میں رینگ گیا ہے۔۔۔ میں زیور کا ڈبّہ نکال رہا ہوں۔۔۔ میں نے دیکھا، میری نئی نویلی دلہن کا سرخ وسپید چہرہ گلاب کی طرح شگفتہ اور کھلا ہوا ہے۔ اس شگفتگی میں کشش بھی ہے اور مسحور کر دینے والی کیفیت بھی۔۔۔ میں چہرے کی کشش اور مسحور کن نقوش میں کھو گیا ہوں۔۔۔ اچانک آئینہ کی سطح پر سے اس کی صورت غائب ہو جاتی ہے۔ آئینہ کانپ رہا ہے یا وہ ہاتھ جس نے آئینہ کو پکڑ رکھا ہے! بہرحال اب اس کی سطح پر عکس بدل چکا ہے۔۔۔ سرسراتے جگمگاتے کپڑوں کی جھلک۔۔۔ پھر بھی میری نظر آئینہ کی سطح پرمرکوزہے۔اچانک آئینہ کی سطح روشن ہوجاتی ہے ۔صرف ایک لمحہ کے لئے۔۔۔میں چونک پڑتاہوں۔۔۔یہ جانا پہچانا چہرہ ۔۔۔یہ چہرہ؟یہ ۔۔۔۔۔۔یہ رضیہ آپاہیں۔۔۔میں اپنی نئی نویلی دلہن کی طرف زیور کا ڈبہ بڑھا رہا ہوں۔۔۔ لیکن میرے خیالوں کا محور بدل چکا ہے۔ اب میں رضیہ آپا کے بارے میں سوچ رہا ہوں۔ میری نگاہ بھیڑ میں ان کے سراپا کو تلاش کر رہی ہے۔ وہ یہاں کہاں؟ ان سے ملنے، باتیں کرنے کو میرا دل بےطرح چاہ رہا ہے۔ دفعتاً میری نظر ان کے چہرے پر ٹھہر جاتی ہے۔ وہ مجھے دیکھ کر مسکرا رہی ہیں۔ عنابی غرارہ، عنابی جمپر، عنابی دوپٹہ میں ان کاحسن نکھرانکھرامعلوم پڑرہاہے۔یہ ان کا پسندیدہ لباس ہے ۔ آج سے قبل،سات سال قبل بھی وہ انھیں ملبوسات کوزیب تن کیاکرتی تھیں۔اورآج فیشن کے بدلتے ہوئے اس عہدمیں بھی، یہی لباس ان کے حسن اور جوانی کوزیب دے رہا ہے۔ وہ بےحد خوبصورت ہیں، بھرا بھرا اور متناسب جسم، کمر سے نیچے جھولتی زلفیں، روشن اور کشادہ پیشانی ،بڑی بڑی سیاہ آنکھیں اور ان میں کاجل کی لمبی سی پتلی سی لکیریں، یہ سب بالکل ویساہی تھا جیسا سات سال قبل۔۔۔! لیکن پھر بھی میں نے محسوس کیا کہ ان کے چہرے پر ان کی بڑھتی ہوئی عمر کا سایہ بڑھتا ہی جا رہے۔ ایک آدھ لکیریں اور سلوٹیں بھی ان کے سرخ وسپید چہرے پر چغلی کھاتی دکھائی دے رہی تھیں کہ اب جوانی کی کشش شب و روز میں تحلیل ہونے والی ہے۔ معاًمیرے دل میں خیال آیا، رضیہ آپانے وہ قلم کسی کوپیش کیا یا نہیں؟ کسی نے ان کی زندگی میں اس لمبی اوربظاہر کبھی نہ ختم ہونے والی اتھاہ اداسی کو ختم کیا یا نہیں۔۔۔؟
رضیہ آپا۔۔۔!
میرے ہونٹوں پر انھیں مخاطب کرنے کی قوت آتے آتے معدوم ہو گئی۔ میری نظریں رضیہ آپا کے چہرے سے ہٹتی ہی نہ تھیں اور ان کا چہرہ، سحرزدہ سا چہرہ، بڑا عجیب اور پراسرار لگ رہا تھا۔ کچھ اجنبیت، کچھ شناسائی۔ اجنبیت، تو اجنبیت تھی، لیکن شناسائی کے سائے بھی اجنبی لگ رہے تھے۔ ایک ان کی مسکراہٹ تھی، جس کے مخصوص مفہوم کو میں سمجھ سکتا تھا۔ یہ وہی مسکراہٹ تھی جوان کے ہونٹوں پر اس شام ابھری تھی۔ وہ ایک بےرحم اور منحوس شام تھی، جس نے ان کا سب کچھ چھین لیا اور رضیہ آپا عنابی رنگ کا قلم ہاتھ میں لئے جانے کہاں کھوگئی تھیں، جانے انھیں اپنے گم ہوتے ہوئے وجود کا احساس بھی تھا کہ نہیں، انھیں اپنے ہونٹوں کی اس انوکھی مسکراہٹ کی آہٹ ملی بھی کہ نہیں۔۔۔!
’’یہ قلم تمہیں پسند ہے؟ یہ عنابی رنگ، یہ انورؔ کو پسند آئےگا نا؟‘‘
مجھے ایسا لگا، جیسے ابھی ابھی رضیہ آپا نے مجھ سے یہ پوچھا ہو۔ بےحد شوق اور انتہائی مسرت کے ساتھ وہ عنابی رنگ کے پار کر ۵۱ کو ہاتھ میں لئے دیکھ رہی ہیں۔ خوشی سے ان کے رخسار دمک رہے ہیں جیسے کوئی تصور کوئی خیال، انہیں اندر سے باہر تک بےطرح مسرور کئے ہے۔ لیکن وہ لمحہ۔۔۔؟ وہ شادکامی کا لمحہ کتنا جھوٹا تھا، فریبی اور بےوفا!
رضیہ آپا کی لمبی چوڑی لیکن خستہ اور بےمرمت حویلی، ہمارے کوارٹر سے چند فرلانگ کے فاصلے پر تھی۔ میرا دل اپنے کوارٹر میں ذرا نہ لگتا۔ اسکول سے فرصت پاتا اور سیدھے رضیہ آپا کے پاس پہنچ جاتا۔ رضیہ آپا مجھے بڑی اچھی لگتیں۔ ان دنوں میں پندرہ سال کا تھا اور رضیہ آپا انیس سال کی عمر کی۔
ایک دن میں ان کے یہاں پہنچا، تو میں نے دیکھا۔ رضیہ آپا ایک کمرے میں، خوبصورت اور قیمتی کپڑوں میں، سمٹی سمٹائی بیٹھی ہیں۔ چچاجان ایک اجنبی نوجوان سے باتیں کر رہے ہیں اور باورچی خانے سے نکل کر اشتہاانگیز خوشبوؤں کا جال سا پوری حویلی کے گرد بنتا جا رہا ہے۔۔۔
وہ رضیہ آپا کی منگنی کا دن تھا۔ انورؔ بھائی سے ان کی شادی طے پاگئی تھی۔ ان کی والدہ آئی تھیں، انھوں نے رضیہ آپا کی انگلی میں ایک نازک اور خوبصورت سی انگوٹھی پہنائی۔ رضیہ آپا، بےحد مسرور تھیں۔ بعد میں انھوں نے مجھے بتایا یہ انگوٹھی انھیں پسند ہے۔
’’اور انور بھائی۔۔۔؟‘‘ میں نے انھیں چھیڑا۔
میں نے دیکھا، ایک لمحہ کے لئے ان کا چہرہ گلنار ہو گیا اور آنکھوں میں رنگین سائے سے لہرانے لگے۔ پھر یہ رنگین اور لہراتے ہوئے سے سائے ان کی آنکھوں کی دلکشی بن گئے۔۔۔ وہ ہر لمحہ، ہرپل، کسی خیال کسی خواب میں ڈوبی رہتیں۔
چند ماہ بعدمیں نے انور بھائی کو دوبارہ اس حویلی میں دیکھا۔ وہ رضیہ آپا کا نرم ونازک ہاتھ، اپنے ہاتھوں میں لئے، ان کی انگلیوں سے کھیل رہے تھے۔ ان سے باتیں کر رہے تھے۔ میں اچانک انھیں اس طرح دیکھ کر ششدر رہ گیا۔ میں انھیں سلام کرنا بھی بھول گیا۔ رضیہ آپانے جب ٹوکا تو میں جھینپ گیا۔ میں نے انھیں سلام کیا اور وہاں سے کھسک گیا۔
انور بھائی اعلیٰ تعلیم کے لئے لندن جا رہے تھے۔ لندن جاتے ہوئے وہ چچا جان سے ملنے چلے آئے تھے۔ چچاجان آزاد خیال آدمی تھے، انھوں نے انور بھائی اور رضیہ آپا کا سامنا کرا دیا تھا۔۔۔
رضیہ آپا نے انور بھائی کے لئے طرح طرح کے پکوان بنائے، بڑے شوق اور لگن سے، محبت اور خلوص کے ساتھ انھیں کھلایا۔ گھنٹوں، ان کے سامنے بیٹھی، باتوں میں کھوئی رہیں۔ مجھے لگا، یہ باتیں کبھی نہ ختم ہوں گی۔۔۔!
انہیں مسرور دیکھ کر میں بھی خوش ہوتا، لیکن کبھی کبھی سوچتا، رضیہ آپا ایک دن انور بھائی کے ساتھ چلی جائیں گی تب یہ حویلی تنہا اور اداس ہو جائےگی، پھر اس حویلی میں ان کی پیاری پیاری باتیں سننے کو میں بھی نہ آؤں گا اور بھائیں بھائیں کرتی یہ حویلی اور اس کے درودیوار ان خوشگوار ایام کو یاد کرکے افسردہ ہو جائیں گے۔
دو دن رہ کر انور چلے گئے اور رضیہ آپاکے لئے اپنی یاد چھوڑ گئے۔ ان کی یاد کو رضیہ آپا نے اپنے دل و دماغ میں اس طرح بسا رکھا تھاکہ ہر پل، ہر لمحہ، انور بھائی کا ذکر ہوتا۔ انورؔ کہا کرتے تھے۔۔۔ انور کو یہ پسند تھا۔۔۔ پھر ان کے خطوط آنے لگے، تو رضیہ آپا ان میں کھوکر رہ گئیں۔ ایک ایک خط کو دس دس بیس بیس دفعہ پڑھتیں، پھر بھی ان کی طبیعت سیر نہ ہوتی۔ خط کی کسی خاص بات پر وہ جھوم جھوم اٹھتیں اور کسی خاص بات کو تلاش کرتیں اور نہ پاکر رنجیدہ ہو جاتیں اور کچھ خفا خفا سی بھی۔۔۔!
اسی طرح دن گزرتے گئے۔ انور بھائی کے امتحان کا زمانہ آ گیا اور ان کے خطو ط آنے بند ہو گئے۔ رضیہ آپا دن گنتی رہتیں۔ امتحان ختم ہو گیا اور پھر ان کے واپس آنے کا انتظار۔ انور بھائی کے آنے کے دن قریب آتے گئے اور رضیہ آپا کی مشغولیت بڑھتی گئی۔ انورؔ کو آم کا اچار پسند ہے۔ انورؔ کے لئے ایک پن خریدنا ہے، چلو بازار چلیں۔۔۔‘‘
’’یہ قلم تمہیں پسند ہے؟ یہ عنابی رنگ، یہ انورؔ کو پسند آئےگا؟‘‘
’’مجھے تو پسند ہے، لیکن یہ کیسے کہوں کہ انورؔ بھائی کو بھی پسند آئےگا۔‘‘
’’تمہاری اور انور کی پسند میں کچھ یکسانیت ہے۔ یہ میں محسوس کرتی ہوں۔‘‘
ہفتوں مشغولیت رہی اور اس کے بعد، انور بھائی بس آنے ہی والے ہیں۔ آج کل میں آ جائیں گے۔ لیکن یہ آج کل، اگلے دو ماہ تک نہ آیا، تو رضیہ آپا کے ساتھ ساتھ چچاجان کو بھی فکر لاحق ہوئی۔ انھوں نے خط لکھے۔ ایک۔۔۔۔ دو۔۔۔ تین۔۔۔ چار۔۔۔ لیکن جواب ندارد۔۔۔ اور ایک دن اچانک چچاجان کے نام ایک لفاف آیا۔ انور بھائی کے والدکا خط تھا وہ۔۔۔!
’’بےحد شرمندہ ہوں، انور اتنا خود سر نکلےگا، میں نے سوچا بھی نہ تھا۔ اس نے لندن میں مستقل طور پر رہنے کا قطعی فیصلہ کر لیا ہے۔۔۔ رضیہ کے لئے اس کا انتظار نہ کریں۔۔۔ مجھے معاف کر دیجئےگا۔۔۔‘‘
اس لمحہ میں نے رضیہ آپا کے ہونٹوں پر ایک انوکھی مسکراہٹ دیکھی تھی۔ کرب اور اذیت، حسرت ویاس کی کوئی لکیر اس مسکراہٹ میں تھی یا نہیں، یہ تو میں اس وقت نہ جان پایا۔ لیکن کئی بار تکئے میں منھ چھپاکر اکیلے کمرے میں،میں نے انھیں روتے ضرور دیکھا تھا۔۔۔ تب میرادل چاہتا کہ سر پر ہاتھ رکھ کر انھیں تسلی دوں، مگر میں ایسا نہ کر سکا، نہ معلوم کیوں؟
اچار سے بھرا مرتبان یوں ہی پڑا رہا۔۔۔!
پار کر ۵۱ رضیہ آپا کے ڈریسنگ ٹیبل کے ڈر اور کی قید سے باہر نہ آ سکا۔
رضیہ آپا مسکراتیں، ہنستیں، لیکن کھوکھلاپن صاف محسوس ہوتا۔ ہر آرزو، ہر خواب اور چاہت بکھر گئی اور رضیہ آپا کے چہرے پر تاریکی کی چادر پھیلتی چلی گئی۔ دھیرے دھیرے وہ اندر سے کھنڈر بنتی جا رہی تھیں۔ انھیں دیکھتا تو بہت دکھ ہوتا، ایک دو لفظ تسلی کے میرے منھ سے نکل جاتے، تو وہ یوں میری طرف دیکھتیں، جیسے پہلی بار دیکھ رہی ہوں۔۔۔!
شب وروز گزرتے گئے اور ان کا زخم بظاہر بھرتا گیا۔ ان کا زخم پورے طور سے مندمل ہوا یا نہیں، یہ تو میں نہیں کہہ سکتا، لیکن انہوں نے خود پر قابو پانا ضرور سیکھ لیاتھا۔ بعض حرکات اور کچھ باتیں ان کی پھر بھی ایسی تھیں، جس سے ان کے ذہنی انتشار اور الجھن کا پتہ چلتا تھا اور معلوم ہوتا تھا کہ وہ انورؔ بھائی کی یاد، ان کی بےپناہ چاہت اور آرزو کو فراموش نہیں کرپائی ہیں۔ اس احساس کو وہ ڈھوئے پھر رہی ہیں، جو انور بھائی ان کے دل پر چھوڑ گئے ہیں۔ اکثر وہ انورؔ بھائی کو مجھ سے خط لکھواتیں، میں بادل نخواستہ ان کو خط لکھتا اور ان کے لئے انور بھائی سے پوچھتا۔۔۔ آپ کیسے ہیں؟ کام سے کس وقت فرصت پاتے ہیں؟ لندن میں آم کا اچار ملتا ہے؟ عنابی رنگ آپ کو اب بھی پسند ہے؟ یہ باتیں اور ایسی ہی بےشمار باتیں، وہ مجھ سے ہر دس بارہ دن کے بعد ضرور لکھواتیں اور پھر جواب کا کبھی نہ ختم ہونے والا انتظار۔۔۔ ڈاکیہ کے انتظار میں اپنے بیڈ روم کی مشرقی کھڑکی کھولے راہ تکا کرتیں۔ ڈاکیہ آتا تو دوڑ کے نیچے آتیں اور پھر۔۔۔! اور پھر مایوسیوں اور نامرادیوں کے پھیلتے اور بڑھتے ہوئے سائے کو اپنے چہرے پر بسائے بستر پر آکر گر جاتیں۔۔۔میں آتا تو پر امید لہجے میں پوچھتیں۔۔۔ تمہارے پاس، تمہارے کوارٹر کے پتہ پر انورؔ کا کوئی خط آیا ہے کیا؟‘‘
بہت سارے دن یوں ہی گز رگئے۔ اس کے بعد ان کی بے چینی اور بھی بڑھ گئی۔ انھوں نے بڑی شدت سے کسی ایسے آدمی کی تلاش شروع کر دی، جو لندن میں مقیم ہو اور انور بھائی کی خیریت سے آگاہ کر سکے اور ایک دن تو انھوں نے مجھ سے کہا۔۔۔ ’’تم چلے جاؤ لندن۔ انورؔ کو دیکھ آؤ! میری خاطر اپنے ڈیڈی کو راضی کر لو، اجازت لے لو، جانے کے لئے۔۔۔ خرچ کی فکر نہ کرو، اس کا میں انتظام کرتی ہوں۔۔۔ اسی بات کے لئے وہ مجھ سے خفا بھی ہو گئیں۔ میں ان کے یہاں جاتا، تو وہ بات نہیں کرتیں، خفگی سے منھ پھیر لیتیں۔ میں پریشان ہوکر سوچتا، میرے مولا، میں کیا کروں۔ اپنی اس پیاری سی، بھولی بھالی اپیا کے لئے میں کر بھی کیا سکتا ہوں؟ لندن سے کوئی انور بھائی کی خیریت لے آئے تو کیا؟ اوران کی خیریت نہیں ملتی ہے تو کیا؟ آپا کی کیفیت کیا بدلنے والی ہے؟ اف یہ باؤلاپن!
وہ گرمی کے دن تھے۔ انھیں دنوں، مجھے لو لگ گئی۔ لگتا تھا رضیہ آپا کی جان پر بن آئی ہے۔ ان کی مجھ سے ساری خفگی جاتی رہی۔ انھوں نے رات دن ایک کر دئیے۔۔۔ میرے کوارٹر میں ’میرے سرہانے، مستقل بیٹھی رہتیں۔ آم کا شربت بناتیں‘ اپنے ہاتھوں سے مجھے اٹھاکر بٹھاتیں اور شربت پلاتیں۔۔۔ میرے سر میں تیل ڈالتیں۔۔۔ ہر آدھ گھنٹے پر میری طبیعت کے بارے میں استفسار کرتیں۔ ان کی قربت اور اپناپن نے مجھے ایک انوکھی اور انجانی لذّت بخشی تھی، جسے میں کوئی نام نہ دے سکا۔ چند روز ہی میں میں بالکل ٹھیک ہو گیا۔۔۔
’’آپا۔۔۔آپ نے میری خاطر بڑی تکلیف اٹھائی۔‘‘
’’تم۔۔۔ تم ایسا سوچتے ہو، کوئی غیر ہوں؟ میرا اور کون ہے؟ تمہیں اگر تکلیف میں میں نہیں دیکھ سکتی تو بتاؤ میں کیا کروں؟ کیاکروں؟‘‘وہ بےحد جذباتی ہو گئیں۔ ان کی آنکھوں میں ننھے ننھے قطرے جھلملانے لگے اور انھوں نے مجھے بانہوں سے پکڑکر اپنے سینے سے لگا لیا۔ میں خاموش رہا۔ بالکل خاموش اور ساکت!
ایک دن بیٹھے بیٹھے میں نے ان کے ڈریسنگ ٹیبل کاڈر اور کھینچا تو نظروں کے سامنے عنابی رنگ کا قلم آ گیا۔ میں نے اسے ہاتھوں میں لے کر رضیہ آپاکی طرف دیکھا، وہ تھوڑی دیرخاموش رہیں، پھر انھوں نے دھیرے سے کہا۔۔۔
’’تم اسے رکھ لو۔۔۔‘‘
’’نہیں آپا۔۔۔ میں اسے نہیں لے سکتا۔ انورؔ بھائی نہیں، نہ سہی، کوئی دوسرا تو آئےگا، اس کے لئے رہنے دیجئے۔‘‘
’’رکھ لو، اسے اختر، میں نے اسے تمہاری پسند سے ہی تو خریدا تھا۔ تم دونوں کی پسندمیں کتنی یکسانیت تھی! تمہارا رنگ و روپ، قد اور بالوں کا اسٹائل بھی تو ویسا ہی ہے۔‘‘
’’آپا۔۔۔‘‘ میں اس سے زیادہ اور کچھ نہ کہہ پایا۔ میں نے آہستگی سے قلم ڈر اور میں رکھ دیا اور چلا آیا ۔۔۔۔۔۔۔
انہیں دنوں ڈیڈی کا ٹرانسفر ہو گیا اور ہم دوسرے شہر میں منتقل ہو گئے۔ رخصت ہوتے ہوتے میں نے دیکھا رضیہ آپا کی آنکھیں بھر آئی ہیں۔ میں نے محسوس کیا، ہمارے جانے کے بعد وہ اپنے کمرے میں جاکر تکیہ میں منھ چھپاکرخوب روئیں گی۔
اجنبی شہر میں آکر کئی دن تک میں اچاٹ رہا۔ پھر اچانک، رضیہ آپا کا خط ملا، دوسرے دن پھر ایک خط ملا، تیسر ے روز ایک اور خط ملا۔۔۔ کافی دنوں تک خط و کتابت کا سلسلہ چلتا رہا، پھر دھیرے دھیرے میری الجھنیں بڑھتی گئیں اوریہ سلسلہ ٹوٹ گیا۔۔۔ پھر اس شہر سے بھی ڈیڈی کا ٹرانسفر ہوگیا اور ہم ایک اور اجنبی شہر میں منتقل ہو گئے اور یوں دن گزرتے گئے۔ پورے سات سال بیت گئے۔۔۔! رضیہ آپا کی کوئی خبرنہ ملی، اکثر ان کی باتیں، ان کی انوکھی مسکراہٹ بھری جھلملاتی آنکھیں، بےانتہا محبت اور ان کا اپناپن مجھے افسردہ کر دیتا۔۔۔
’’نوشے میاں۔۔۔ دلہن کے حسن میں کھو گئے کیا؟‘‘ کسی نے مجھے ہلاکر کہا اور میں چونک پڑا۔۔۔ میں نے اردگرد کے ماحول کا جائزہ لیا۔ وہی چہلیں، قہقہے اور رونق تھی اور میں تھا اور اس بھیڑ میں رضیہ آپا کہیں گم تھیں۔ میرے دل میں یادوں کی چنگاریاں اب تک دہک رہی تھیں اور ان کی آنچ سے میں جل رہا تھا۔ میں بے تاب تھا، ان سے ملنے کے لئے، باتیں کرنے کے لئے۔۔۔ لیکن کوئی سبیل نہ تھی، کوئی صورت نہ تھی۔۔۔!
رسمیں ادا ہوتی رہیں اور میں کھویا کھویا سا چاروں طرف نگاہوں سے انہیں تلا ش کرتا رہا، سوچتا رہا کس سے پوچھوں، کیا پوچھوں؟ میری الجھن بڑھتی گئی اور میں الجھتا گیا۔۔۔
پھر مجھے ایک جگہ بٹھا دیا گیا اور چاروں طرف سے عورتوں نے مجھے گھیر لیا۔ پھر سلامی کی رسم شروع ہوئی۔ میں کھویا کھویا سا بیٹھا رہا اور عورتیں ایک ایک کرکے آتی گئیں اور بیس بیس، دس دس اور پانچ پانچ کے نوٹوں کا انبار میرے سامنے لگتا گیا۔۔۔ اچانک میں چونک پڑا۔۔۔ میری آنکھوں کے سامنے عنابی رنگ لہرا دیا۔۔۔ یہ عنابی رنگ؟ یہ عنابی رنگ کا قلم تھا ‘پار کر ۵۱۔ میں نے حیران ہوکر دیکھا۔ رضیہ آپا، میرے قریب، بالکل قریب تھیں۔ انھوں نے عنابی رنگ کا پار کر ۵۱ میرے سامنے رکھ دیا اور میری طرف دیکھا، مجھے لگا، جیسے وہ کہہ رہی ہوں۔
’’آج بھی انکار کر دوگے کیا؟‘‘
میں نے ان کے چہرے کوغور سے دیکھا۔ ان کاچہرہ ہر ردعمل سے بےنیاز تھا، لیکن ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھری تھی۔ وہی پراسرار اور غیر واضح مسکراہٹ!
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.