ریبتی
پرگنہ ہری ہرپور، ضلع کٹک کا ایک گاؤں۔ نام پاٹ پور ہے۔ گاؤں کے سرے پر ایک دکان۔ آگے پیچھے چار کمرے۔ مکان کے اندرونی حصے کے برآمدے میں دھینکی، آنگن میں کنواں، سامنے بیرونی برآمدہ، پیچھے باڑی کی کھڑکی۔ بیرونی برآمدے کے کھلے کمرے میں باہر کے لوگ اٹھتے بیٹھے، لگان دینے کے لیے آنے والے یہیں ٹھہرتے۔ شیام بندھومہانتی زمیندار کی جانب سے گاؤں کے منشی ہیں۔ تنخواہ دو روپیہ ماہانہ۔ تنخواہ کے علاوہ زمین کی پیمائش، رسیدبہی کی درستی وغیرہ سے بھی دو پیسے مل جاتے۔
کل ملاکر مہینے میں چار روپے سے کم آمدنی نہ تھی۔ جیسے تیسے بسر ہو جاتی۔ جیسے تیسے کیوں؟ اچھی طرح گزر ہوتی۔ کبھی یہ نہیں ہوا کہ فلاں چیز گھر میں نہیں ہے۔ اس قسم کی باتیں گھر میں کسی سے سننے کو نہیں ملتیں۔ باڑی میں سبزی بھاجی کے علاوہ سینجنا کے دو پیڑ ہیں۔ گھر میں ہر سال بچہ دینے والی دو گائیں ہیں۔ دودھ کی قلت نہیں ہوتی، ہنڈیا میں تھوڑی سی چھاچھ ہمیشہ موجود ہوتی ہے۔ بوڑھی بھوسا ملاکر گوبر تھاپ دیتی۔ لکڑی خریدنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ زمیندار نے جوتنے کے لیے ساڑھے تین ایکڑ اراضی دے رکھی ہے۔ دھان اگر پس انداز نہیں ہوتا تو کمی بھی نہیں پڑتی۔
شیام بندھو بڑا سیدھا سادہ آدمی ہے۔ عوام اسے مانتے اور چاہتے ہیں۔ میرے بابا، میرے بچے کہہ کر گھر گھر جاکر لگان وصول کرتا ہے۔ کبھی کسی سے غلط طریقے سے ایک پیسہ بھی نہیں لیتا۔ لوگ لگان دے کر رسید نہیں طلب کرتے۔ وہ چار انگل کے تاڑ کے کاغذ پر رسید لکھ کر جبراً چھپر میں کھونس جاتا۔ زمیندار کا کارندہ آئے تو خود ہی اسے سمجھا بجھاکر، تمباکو کے لیے دو پیسے اسے تھماکر رخصت کر دیتا۔
شیام بندھو کے گھر میں چار کھانے والے ہیں۔ دونوں میاں بیوی، بوڑھی اور دس سال کی ایک لڑکی۔ لڑکی کا نام ریبتی ہے۔ شیام بندھو شام کے وقت چبوترے پر بیٹھ کر، ’’پاسندھوودن‘‘ اور ادھر ادھر کے بھجن گاتا، کبھی کبھار شری پاٹی (رحل) پر رکھ کر بھگوت گیتا پڑھتا۔ ریبتی نزدیک بیٹھ کر سنا کرتی۔ وہ بھی ڈھیر سارے بھجن زبانی سیکھ گئی ہے۔ اس کے منہ سے طفلانہ انداز میں بھجن بڑے اچھے لگتے۔ شام کے و قت باپ کے پاس بیٹھ کر بھجن گاتی تو گاؤں کے اکا دکا لوگ سننے کو آ جاتے۔ ریبتی نے باپ سے ایک بھجن سیکھا ہے۔ اسے گانے پر شیام بندھو بہت خوش ہوتا۔ لڑکی سے روز وہی بھجن سنانے کا اصرار کرتا۔ ریبتی گاتی۔
کس سے کروں التجا؟
اے ناتھ، تم نہ اپناؤگے تو ہستی اکارت جائےگی۔
تم مجھے قبول کرو یا نہ کرو، لیکن میری جان تمہارے چرنوں کی نذر ہے۔
من میں تمہارا نام لے کر۔
ہری! تمہارے بغیر تینوں لوک کچھ نہیں۔
پریم امرت کا دان دے کر میرے جیون کو شیتل کر دو۔
دو سال پیشتر دیہاتوں کے دورے پر جاتے ہوئے ڈپٹی انسپکٹر آف اسکولز ایک رات کے لیے پاٹ پور میں ٹھہر گئے تھے۔ گاؤں کے سربرآوردہ لوگوں کی درخواست پر ڈپٹی صاحب نے محکمہ تعلیم کے انسپکٹر سے کہہ کر وہاں ایک اپر پرائمری اسکول جاری کرا دیا۔ استاد کی تنخواہ چار روپے ماہانہ ہے۔ یہ چار روپے سرکار سے ملتے۔ اس کے علاوہ ہر بچہ ایک آنہ ماہوار ادا کرتا۔ ماسٹر کٹک نارمل اسکول کا ترتیب یافتہ ہے۔ واسدیو نام ہے۔ واسدیو اسم بامسمی ہے۔ لڑکا ظاہر و باطن ہر طرح خوبصورت ہے۔ گاؤں کے اندر سے گزرتا تو کسی کو سر اٹھاکر نہ دیکھتا۔ عمر بیس سال کے قریب ہوگی۔ حسین سڈول جسم، جیسے بنانے والے نے فرصت سے گڑھا ہو۔ بچپن میں پہولا (بچوں کا ایک مرض) بیماری ہو گئی تھی اور اس کی ماں نے گرم بوتل کے منہ سے پیشانی داغ دی تھی۔
وہ دآج تک ہے لیکن وہ اس پر پھبتا ہے۔ واسدیو بچپن سے ہی والدین سے محروم ہے۔ ماموں کے پاس رہ کر پروان چڑھاہے۔ وہ ذات کا کائستھ ہے۔ شیام بندھو بھی کائستھ ہیں۔ اس لیے پونو جمعرات (جمعرات کو لکشمی پوجا ہوتی ہے) وغیرہ کے دن گھر میں اچھی چیزیں پکائی جاتیں تو شیام بندھو اسکول جاکر کہ آتے، ’’بیٹا باسو! شام کو ذرا ہمارے ہاں آ جانا۔ تمہاری موسی نے بلایا ہے۔‘‘اس طرح آمدورفت سے ان لوگوں میں ایک قسم کی انسیت ہو گئی ہے۔ ریبتی، باسو کو دیکھ کر کہتی، ’’وہ، ماں نہیں ہے۔ کیا کھاتا ہوگا۔ کون اس کے کھانے کی فکر کرتا ہوگا؟‘‘باسو روز شام کو ایک دو گھڑی بیٹھنے کے لیے شیام بندھو کے ہاں آ جاتا۔ دورسے باسو کو دیکھ کر ریبتی’’باسو بھائی آ گئے، باسو بھائی آ گئے‘‘چلاکر باپ کو اس کی آمد سے مطلع کرتی۔
ریبتی شام کو باپ کے پاس بیٹھ کر اس کے روز دہرائے جانے والے پرانے بھجن سنایا کرتی۔ باسو کو وہ گیت نئے معلوم ہوتے۔ ایک دن ادھر ادھرکی باتوں کے دوران شیام بندھو نے سنا کہ کٹک میں لڑکیوں کا ایک اسکول ہے جہاں لڑکیاں پڑھتی ہیں، کپڑا سینا سیکھتی یں۔ شیام بندھونے بھی ریبتی کو پڑھانے کی بات سوچی اور انہوں نے اپنے جی کی بات باسو سے کہی۔ باسو شیام بندھو کی عزت باپ کی طرح کرتا تھا، بولا، ’’جی، میں بھی یہی کہنا چاہتا تھا۔ ’’دونوں کے مشورے سے طے ہوا کہ ریبتی کو پڑھایا جائے۔ ریبتی پاس بیٹھی سن رہی تھی۔ دو چھلانگ لگاکر اندر پہنچی اور ماں اور دادی کو مطلع کیا کہ ’’میں پاٹھ پڑھوں گی۔‘‘ ماں نے کہا، ’’اچھا، اچھا۔ پڑھنا۔‘‘دادی نے کہا، ’’پاٹھ کیا ہے ری؟ لڑکی کی ذات۔ پاٹھ کیا؟ کھانا، پکانا، کھلانا سیکھ، کوٹنا پیسنا سیکھ، چوک بھرنا سیکھ، دہی بلونا سیکھ، یہی تیرا پاٹھ ہے۔‘‘
رات کو شیام بندھو برآمدے کے چبوترے پر آم کی لکڑی کے بنے ہوئے پٹرے پر بیٹھ کر کھانا کھا رہے ہیں۔ ریبتی ان کے ساتھ شریک طعام ہے۔ بوڑھی ماں سامنے بیٹھی ہوئی بہو کو کچھ اس قسم کے احکامات سنا رہی ہے۔ تھوڑا چاول اور دے، ذرا دال کا پانی لادے، نمک کی ایک ڈلی دے وغیرہ۔ باتوں ہی باتوں میں بڑھیانے پوچھا، ’’ہاں، ارے شیام! ریبتی پاٹھ پڑھےگی۔۔۔ پاٹھ۔ کیا رے؟ لڑکی کی ذات، پاٹھ کیا پڑھنا اسے؟‘‘شیام بندھو نے کہا، ’’کہتی ہے تو پڑھنے دو۔ جھنکڑ پٹنایک کے گھر کی لڑکیاں ’بھگوت‘ پڑھ سکتی ہیں، وید مہیش ولاد کے بند بھی گا لیتی ہیں۔‘‘ریبتی نے جھلاکر دادی کو جھڑک دیا، ’’جا بوڑھی ڈوکری مائی!‘‘بعدازاں ضد کرتے ہوئے باپ سے بولی، ’’باپو! میں پاٹھ ضرور پڑھوں گی۔‘‘شیام بندھو نے کہا، ’’ہاں ہاں۔ تو پڑھےگی۔‘‘اس دن بات بس یہیں تک رہی۔
دوسرے دن سہ پہر میں واسدیو نے ستیاناتھ بابو کی پہلی درسی کتاب ریبتی کو دی۔ وہ بڑی مسرت کے ساتھ کتاب کو ابتدا سے لے کر آخری وقت تک الٹ پلٹ کر دیکھنے لگی۔ اس میں ہاتھی، گھوڑے، گائے وغیرہ کی تصاویر دیکھ کر بےحدخوشی ہوئی۔ راجا لوگ ہاتھی گھوڑے باندھ کر خوش ہوتے ہیں، کوئی ہاتھی گھوڑے پر سواری کرکے مسرور ہوتا ہے۔ ہماری ریبتی تصویریں دیکھ کر پھول نہ سماتی تھی۔ ریبتی نے لپک کرماں کو تصویریں دکھائیں، بعد ازاں دادی ماں کو۔ دادی نے قدرے چڑچڑاکر کہا، ’’ہاں۔ جا۔ جا۔‘‘ریببتی جھلاکر چلی آئی۔
آج بسنت پنچمی ہے۔ ریبتی ’’بڑکی نہان‘‘کے بعد نئی ساڑی پہن کر اندر باہر آ جا رہی ہے۔ باسو بھائی آکر کتاب پڑھا دےگا۔ بڑھیا کے خوف سے تعلیم کی ابتدا کا کوئی اہتمام نہیں کیا گیا ہے۔ صبح چھ بجے باسو نے سبق دے دیا۔ اَ۔ آ۔ ای۔ اِی۔ٖاو۔ او۔ روزانہ شام کو باسو جاکر پڑھا دیتا۔ دو سالوں میں ریبتی نے ڈھیرسی کتابیں پڑھ ڈالی ہیں۔ ’’مدھو بابا کی چھند مالا‘‘کتاب پڑھتے ہوئے ذرابھی لغزش نہیں کرتی۔
ایک دن رات کو چاول کھاتے ہوئے ماں بیٹے میں باتیں ہونے لگیں۔ شاید پہلے بھی بات ہو چکی ہے، آج اسی کا اختتام ہے۔
شیا م بندھو۔ کیوں اچھا رہےگا نا؟
بڑھیا۔ ہاں اچھا تو رہےگا۔ ذات پوچھ لی تونے؟
شیام بندھو۔ ہاں اور اب تک کیا کر رہاتھا، اونچے کائستھ گھرانے کاہے۔ غریب لڑکا ہے تو کیا ہوا۔ ذات اچھی ہے۔
بڑھیا نے کہا۔ مال دولت کی کوئی فکر نہیں، ذات کی بات پہلے ہے۔ گھر پر رہےگا نا؟
شیام بندھو۔ گھر پر نہیں رہےگا تو کہاں جائےگا؟ جتنا بھی ہو، آخر دو ہی آدمی تو ہیں۔
ریبتی پاس بیٹھی ہوئی چاول کھا رہی تھی، اس بات کا مفہوم اس نے کیا سمجھا، وہی جانے، کیا اس دن سے اس کے عادات و اطوار میں تبدیلی نظر آ رہی ہے۔ اسے باپو کے سامنے باسو بھائی سے پڑھتے ہوئے نہ جانے کیوں شرم محسوس ہوتی ہے۔ بلا وجہ ہنسی آ جاتی، سر جھکاکر ہونٹوں کو دباکر ہنسی روکتی۔ اب باسو کے پڑھانے پر کبھی خاموشی سے پڑھتی، کبھی ہوں ہاں کرتی، پڑھائی ختم ہوتے ہی منہ بند کیے ہنستی ہوئی گھر کے اندر بھاگ جاتی۔ روز سرشام باہر چوکھٹ پر کھڑی کسی کی راہ دیکھتی رہتی، باسو کے آنے پر گھر میں بھاگ جاتی، بار بار بلانے پر بھی نہ نکلتی۔ اب ریبتی کبھی باہر آتی تو بڑھیا ناراض ہو جاتی۔
دیکھتے ہی دیکھتے پنچمی کو دو برس پورے ہو گئے۔ نظام قدرت ایسا ہے کہ سب دن ایک سے نہیں ہوتے۔ پھاگن مہینے کادن ہے، کہیں کچھ نہیں تھا۔ اچانک کہیں سے ہیضہ پھو ٹ پڑا۔ صبح گاؤں میں بات پھیلی کہ شیام بندھو مہانتی کو ہیضہ ہوا ہے۔ گاؤں دیہات میں ہیضہ پھیلنے پر جھروکے بند ہو جاتے ہیں۔ لوگوں کا خیال ہے کہ ہیضہ کی بڑھیا، ٹوکری کمر پر رکھ کر راستے سے آدمیوں کو بٹورتی جاتی ہے۔ دروازے پر کوئی نہیں آتا۔ دونوں عورتیں کیا کریں۔ بچی روتی پیٹتی اندر باہر دوڑ رہی ہے۔ واسدیو نے سنا تو اسکول چھوڑکر بھاگا چلا آیا۔ کوئی خوف نہیں، جھجک نہیں، اپنے تن بدن کا ہوش نہیں۔ شیام بندھو کے پاس بیٹھ کر پیروں پرہاتھ پھیرتا رہا۔ منہ میں بوند بوند پانی ٹپکاتا رہا۔ سہ پہر کو شیام بندھو نے باسو کے چہرے کو دیکھتے ہوئے اٹک اٹک کر کہا، ’’باسو۔ اے۔۔۔ با۔۔۔ آں۔۔۔ رکھ۔۔۔ نا۔۔۔‘‘ بلک بلک کر رونے لگا۔ گھر میں ہلچل مچ گئی۔ ریبتی زمین پر پڑی تڑپ رہی تھی۔
گاؤں کے لوگوں نے سن کر کہا، ’’بات ختم ہو گئی۔‘‘دیکھتے ہی دیکھتے شام تک کچھ نہیں۔ کیا کریں؟ واسدیو کل کا بچہ، باقی دونوں عورتیں ہیں۔ گاؤں کا دھوبی بن سیٹھی خاصا واقف کار اور تجربہ کار دھوبی ہے۔ (تجہیز و تکفین کی رسوم میں دھوبی کا خاص کردار ہوتا ہے) اپنی زندگی میں وہ پچاس ساٹھ کو پار لگا چکا ہے۔ کل بھی جانا ہے، آج بھی جانا ہے، ایک آدھ کپڑا لتا ملنے کی امید ہے۔ کمر میں انگوچھا باندھ کر کلہاڑی کندھے پر رکھے وہ پہنچ گیا۔ گاؤں میں کائستھوں کا وہی ایک گھر، ساس، بہو، واسدیو تینوں نے جیسے تیسے پکڑکر کام چلا ہی لیا۔ اس وقت کا بیان لکھتے ہوئے ہاتھ لرزتے ہیں۔ شمشان سے پلٹتے پلٹتے پوپھٹ چکی تھی۔ گھر میں داخل ہوتے ہی ریبتی کی ماں رفع حاجت کے لیے گئی، دیکھتے ہی دیکھتے دوپہر ہو گئی۔ گاؤں میں سنسنی پھیل گئی۔ ریبتی کی ماں اب نہیں رہی۔
دن بہرحال گزر جاتے ہیں۔ کسی کا انتظار نہیں کرتے۔ کسی کی پالکی پر ریشمی چھتر تنا رہتا ہے تو کسی پابستہ پر کوڑے برسائے جاتے ہیں۔ دن بہرحال سبھی کے کٹ جاتے ہیں، بہرحال سبھی کے کٹ جائیں گے۔ دیکھتے دیکھتے تین مہینے گزر گئے۔ شیام بندھو کے گھر میں دو گائیں تھیں۔ مال گذاری کے بدلے میں زمیندار کے آدمی انہیں کھینچ لے گئے۔ ہم جانتے ہیں کہ زمیندار کے روپیوں کو شیام بندھو بھگوان کے پرساد کی طرح مانتا تھا۔ روپیہ وصول ہونے پر زمیندار کی کچہری میں جمع کیے بغیر اسے نیند نہیں آتی تھی۔ اس پر روپیہ باقی ہو یا نہ ہو، گائیں بڑی دودھ والی ہیں اور اس بات کا زمیندار کو پہلے سے علم تھا۔ اس کے علاوہ زمیندار نے جوتنے کے لیے جوتین ایکڑز مین دے رکھی تھی وہ بھی واپس لے لی۔ دونوں بیل ساڑھے سترہ روپے میں بکے تھے، دونوں کی کریاکرم کے بعدکچھ باقی بچا، کھینچ تان کر ایک مہینے چل گیا۔ باسو صبح شام دونوں وقت گھر آتا۔ ایک را ت گئے تک رہتا۔ جب دادی اور پوتی سونے کی تیاری کرتیں تب لوٹتا۔
باسو اگر روپیہ پیسہ دیتا تو دادی اور پوتی اسے ہاتھ بھی نہ لگاتیں۔ اگر زبردستی کچھ رکھ آتا تو اسی طرح طاق میں پڑا رہتا۔ باسو کو معلوم ہوتا تو پھر نہ دیتا۔ بوڑھی دادی سے دو ایک پیسے لے کر سودا لا دیتا۔ اسی دو پیسے کے سودے میں آٹھ دس دن نکل جاتے۔ گھر کا چھپر اڑ گیا ہے، اسے اٹھانا ہے۔ باسونے دو روپیہ کا پیال (گھاس) لاکر باڑی میں رکھا ہے۔ لیکن ابھی سوگواری کے دن پورے نہیں ہوئے، اس لیے چھپر نہیں پڑ سکتا۔ بوڑھی دادی اب رات دن بیٹھ کر گریہ وزاری نہیں کرتی، صرف شام کو روتی ہے۔ بین کرتے کرتے نیچے گر پڑتی ہے، اس کی بینائی بھی ٹھیک طرح کام نہیں دیتی۔ مخبوط الحواس سی ہو گئی ہے۔
اب اس نے رونا کم کرکے ریبتی کو گالیاں دینا شروع کیا ہے۔ اسے یقین ہو گیا ہے کہ اس تمام مصیبت، تمام غارت گری کا سبب ریبتی ہی ہے۔ ریوتی کے پاٹھ پڑھنے سے بٹیا چل بسا، بہو چلی گئی۔ مزدور بھاگ گئے، بیل بکے، زمیندار گائیں باندھ لے گیا۔ ریبتی کلنکنی، پھوہڑا اور منحوس ہے۔ ریبتی کے پڑھنے کی وجہ سے ہی بڑھیا کی آنکھوں کی روشنی کم ہو گئی ہے۔ دادی گالیاں بکتی تو ریبتی کی آنکھوں سے آنسوؤں کی دھاریں بہہ نکلتیں، مارے ڈر کے وہ بڑھیا کے پاس کھڑی بھی نہ ہو پاتی۔ باڑی کے دروازے پر یا گھر کے کونے میں منہ ڈھانپ کر پتھر کی طرح ساکت بیٹھی رہتی۔
باسو بھی گنہگار ہے۔ ریبتی نے اب تک تو پڑھا ہی نہ تھا۔ اسی نے آکر پڑھایا ہے لیکن بڑھیا باسو سے کچھ نہ کہہ سکتی تھی۔ باسونہ ہو تو گھر ایک پل بھی نہیں چل سکتا۔ زمیندار کا چکر ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔ اس کے آدمی آج کل حساب مانگنے آیا کرتے ہیں۔ باسو نہ ہو تو کاغذات میں سے پڑھ کر اور انبار میں سے کاغذ نکال کر کون دے گا؟ باسو کی عدم موجودگی میں کبھی سادہ دلی کے ساتھ بڑھیا اپنی رائے کا اظہار کرتی۔ ریبتی! جب سارے گھر کی رونق نہیں رہ گئی۔ اس کی آواز اب کوئی نہیں سنتا۔ ماں باپ کے انتقال کے بعد کسی نے اسے باہر دروازے پر نہیں دیکھا۔
کئی دنوں تک وہ بلک بلک کر روتی رہی، اب چیخ کرنہیں روتی لیکن رات دن اس کی دونو ں بڑی بڑی آنکھیں دو نیلگوں آبگینوں کی طرح پانی سے ڈبڈبائی رہتی تھیں۔ اس کی ننھی سی جان، ان میں نازک سادل، بالکل چور چور ہو گیا ہے۔ اس کے لیے اب رات اور دن ایک جیسے ہیں۔ سورج کا اجالا نہیں، رات کا اندھیرا نہیں۔ ساری دنیا ویران ہے۔ صرف ماں باپ کی یادنے دل میں جگہ کر رکھی ہے۔ ماں یہاں بیٹھی ہے، باپو چلے آ رہے ہیں۔ اس کی آنکھیں یہی دو تصویریں دیکھا کرتیں۔ اسے یقین ہی نہ آتا کہ ماں باپ مر گئے ہیں۔ اب کبھی نہ ملیں گے۔ بھوک مر چکی ہے، نیند اڑ گئی ہے۔ دن رات، ہرلمحہ ماں باپ کا دھیان۔ دادی ماں کے ڈر سے کھانے کے لیے بیٹھتی، زمین سے اٹھا نہ جاتا۔ بدن پر صرف ہڈی چمڑا رہ گیا ہے۔ صرف باسو کی گھرمیں آمد پر اٹھ بیٹھتی، بڑی بڑی آنکھوں سے کھوئی ہوئی سی دیکھتی رہتی۔ باسوسے نگاہ ملنے پر ٹھنڈی سانس لے کر نگاہیں جھکا لیتی۔ جب تک باسو پاس رہتا، اسے دیکھتی رہتی، اس وقت اسے کسی اور بات کا خیال نہ آتا۔ آنکھوں میں واسدیو، خیالوں میں واسدیو، دل میں واسدیو ہی واسدیو۔
شیام بندھو کے انتقال کو آج پورے پانچ مہینے ہو گئے۔ جیٹھ کا دن۔۔۔ ٹھیک دوپہر کے وقت باسونے دروازے پر آواز دی۔ اس وقت وہ کبھی نہیں آتا۔ بوڑھی نے ہانپتے کانپتے ہوئے جاکر کوڑا کھول دیے۔ باسونے کہا، ’’دادی ماں! (باسو بوڑھی کو ہمیشہ دادی ماں کہہ کر مخاطب کرتا ہے) ڈپٹی انسپکٹر ہری پور تھانے میں اسکول کے بچوں کی پڑھائی کا جائزہ لیں گے، تمام اسکولوں کے بچے جائیں گے۔ میرے پاس مراسلہ آیا ہے۔ میں بچوں کے ساتھ کل جاؤں گا، پانچ دن لگیں گے۔‘‘ ریبتی دروازے کی آڑ میں کھڑی سن رہی تھی۔ دھم سے بیٹھ گئی۔ غنیمت ہے کہ کواڑ تھامے ہوئے تھی ورنہ گر ہی پڑتی۔ باسو پانچ دن کے لیے چاول، نمک، تیل خرید کر آنگن میں رکھ کر بوڑھی کو نمسکار کرکے سنیچر کی شام کو نکل پڑا۔ بڑھیا نے کہا، ’’بھیارے، دھوپ میں مت گھومنا، تندرستی کا خیال رکھنا، وقت پر کچھ کھاپی لیا کرنا۔‘‘یہ کہہ کر اس نے ٹھنڈی سانس بھری۔
ریبتی ٹکٹکی لگاکر باسو کو دیکھ رہی ہے۔ باسو کا رویہ بھی آج پہلے جیسا نہیں تھا۔ پہلے باسو کی دلی تمنا ہوتی تھی کہ ریبتی کو دیکھتا رہے لیکن دیکھ نہ پاتا تھا۔ آج آنکھیں چار ہوئیں تو کسی میں نگاہیں پھیر لینے کی ہمت نہیں ہے۔ باسو چلا گیا۔ دن بھی ڈھل گیا، بلانے پر ہوش آیا۔ اندر باہر اندھیرا۔ ریبتی بیٹھ کر دن گن رہی ہے۔ آج چھٹا دن ہے۔ جب سے ماں باپ چھوڑ گئے، اس نے باہری دروازہ نہیں دیکھا تھا لیکن آج صبح سے دو بار باہر دروازے تک ہو آئی ہے۔ دن کے کوئی چھ بجے ہری پور سے اسکول کے بچوں کی واپسی پر لوگوں میں چرچا ہونے لگا۔
ہری پور سے پلٹتے ہوئے گوپال پور کے برگد کے نیچے پنڈت جی ہیضے میں مبتلا ہو گئے۔ چار بار رفع حاجت کے لیے گئے اور رات کو چل بسے۔ گاؤں کے لوگ ہائے ہائے کرنے لگے۔ لڑکے، لڑکیاں، مائیں، عورتیں بلکنے لگیں۔ کسی نے کہا۔۔۔ آہ کیسا خوبرو تھا۔ کوئی بولا۔۔۔ کیسا صبر والا۔۔۔ دوسرے نے کہا۔۔۔ راہ سے گزرتا تو آنکھ اٹھاکر بھی نہیں دیکھتا تھا۔
ریبتی نے سنا، بڑھیا نے بھی سنا۔ بوڑھی کا تو روتے روتے گلا رندھ گیا اور نہیں روتے بنا۔ بالآخر اٹھتے ہوئے کہنے لگی، ’’ہائے بھیا۔ پردیس میں آکر تونے اپنی عقل مندی سے جان گنوائی۔‘‘ مطلب یہ ہے کہ اس نے حماقت کے تحت ریبتی کو پڑھایا، اسی لیے مر گیا ورنہ ہر گز نہ مرتا۔ جب سے ریبتی نے سنا ہے، اپنے کمرے میں پڑی ہے۔ رونا دھونا کچھ نہیں۔ وہ دن گز رگیا۔ دوسرے دن بڑھیا نے ریبتی کو پاس نہ پاکر زور سے آواز دی، ’’اور ریبتی! ریبلیو، او کمبخت، او ڈائن۔‘‘بڑھیا باؤلی سی ہو گئی ہے، روتی پیٹتی نہیں ہے، دن رات غصے میں ریبتی کو گالیاں دیتی ہے۔ ہمسائے، راہ گیر اکثر سنتے، ’’اری او ریبتی! ریبی! او کمبخت، اے ڈائن!‘‘بڑھیا کو آنکھوں سے نظرنہیں آتا۔ ٹٹولتے ٹٹولتے چل کر ریبتی کے پاس پہنچی۔ آواز دی۔ جواب نہ ملا تو اس کے بدن پر ہاتھ پھیرا، تیز بخار، جسم تپ رہا ہے، ہوش نہیں ہے۔ بڑھیا دیر تک جانے کیا بڑبڑاتی رہی۔ کیا کرے، کیسے بلائے؟ اس نے دل ہی دل میں ساری دنیا پر نگاہ ڈالی لیکن اپنا کوئی نظر نہ آیا۔ کوئی آسرا نظرنہ آنے سے ناراض ہوکر کہنے لگی، ’’تونے جو بویا ہے وہی کاٹ رہی ہے، دوسرا کیا کر سکتا ہے۔‘‘مطلب یہ کہ پاٹھ پڑھنے کی وجہ سے تجھے بخار آیا ہے۔ میں کیا کروں؟
ایک دن گزرا، دودن بیتے، تین دن، چار دن۔ پانچواں دن بھی گز رگیا۔ ریبتی زمین سے لگ گئی ہے۔ آنکھیں نہیں کھولتی۔ بلاؤ تو جواب نہیں دیتی۔ ہاں ہوں بھی نہیں۔ آج چھ دن ہو گئے۔ ریبتی نے صبح سے تین چار مرتبہ بات کی ہے۔ بوڑھی نے سنا تو پاس گئی۔ بدن پر ہاتھ رکھ کر دیکھا۔ ہاتھ پیر برف ہو رہے ہیں۔ بلانے پر ہوں کہہ کر جواب دیا۔ پھٹی پھٹی آنکھوں سے تاکتی رہی، بغیر پوچھے جانے کتنی باتیں کہہ گئی۔ ویدنے دیکھ کر کہا، ’’تشنگی کی جلن، گہرا صدمہ۔‘‘وغیرہ کچھ اشلوک پڑھ کر بولا، ’’سرسام کے آثار ہیں۔‘‘ لیکن بڑھیا خوش بھی تھی۔ بدن میں بخار نہیں ہے، بول نہیں رہی تھی اب منہ کھولنے لگی ہے، پانی پینے کو مانگنے لگی ہے۔ چھ دن سے منہ میں ایک بوند پانی نہیں گیا ہے۔ پیٹ میں چار دانے پڑیں گے تو لڑکی اٹھ بیٹھےگی۔ ’’تو لیٹی رہ، میں تھوڑا سا کھانا پکا لاؤں۔‘‘کہہ کر بڑھیا باہر چلی گئی۔
کھانا کیا پکائے؟ گھر میں ٹوکری، ہنڈیا، مٹکی سب چھان مارا۔ مٹھی بھر چاول نہیں۔ ایک لمبی آہ بھرکر پل بھر کے لیے بیٹھ گئی۔ باسو پانچ دنوں کے لیے دال چاول رکھ گیا تھا، وہ دس دن تک چلا۔ بڑھیا کی نگاہ کام کرتی تو دیکھتی۔ بیٹھ کر سوچنے پر سمجھ آتی ہے۔ گھر میں کانسے کا ایک برتن بھی نہیں ہے۔ ایک ٹوٹا ہوا لوٹا ہاتھ آ گیا، اسے لے کر ہری شاہ کی دکان کی طرف چلی۔ ہری شاہ کا گھر گاؤں کے عین بیچ میں ہے۔ اس کی کوئی باقاعدہ دکان نہیں ہے۔ دال، چاول، نمک، تیل رکھا رہتا، کبھی باہر کے لوگ آتے تو خریداری کرتے، کبھی گاؤں کے لوگوں کو ضرورت ہوتی تو خرید لیتے۔
بڑھیا لوٹا لے کر ہری شاہ کی دکان پر پہنچی۔ ہری شاہ بڑھیا کے ہاتھ میں لوٹا دیکھ کر بات کی تہہ کو پہنچ گیا۔ بڑھیا نے اپنا مقصد بیان کیا تو ہری شاہ نے لوٹا اس کے ہاتھ سے لے کر گھما پھراکر دیکھا اور بولا، ’’نہیں، نہیں۔ میرے پاس چاول نہیں ہیں اور اس ٹوٹے ہوئے لوٹے کو لے کر چاول کون دےگا؟‘‘
ایسی بات نہیں کہ ہری شاہ کے یہاں چاول نہ ہوں۔ دینے کی خواہش بھی رکھتا ہے۔ ارزاں لینا چاہتا ہے۔ چاول نہ ہونے کی بات سے بڑھیا پر بجلی سی گر پڑی۔ کیا کروں؟ لڑکی بخار سے اٹھی ہے، اس کے منہ میں کیا ڈالوں گی؟ پل بھر کے لیے بیٹھ گئی۔ شام ہونے والی تھی۔ اس نے دوبارہ ہری کو دیکھا پھر بڑبڑائی، ’’جاؤں دیکھوں، لڑکی کیا کر رہی ہے؟‘‘لوٹا لے کر اٹھنے لگی۔ ہری بول پڑا، ’’لاؤ، لاؤ۔ لوٹا دو، دیکھتا ہوں گھر میں کیا ہے؟‘‘ہری نے لوٹا رکھ کر دو چار سیر چاول، آدھ سیر دال اور تھوڑا نمک دیا۔ بڑھیا چار چھ جگہ بیٹھ کر گھر پہنچی۔ اب تک بڑھیا نے دانت تک صاف نہیں کیے ہیں۔ تن بدن کی بات کون کرے۔ گھر پہنچ کر ریبتی کو آواز دی، اسے یقین ہے کہ ریبتی اچھی ہو گئی ہے، پانی نکال کر دےگی، وہ چاول پکائےگی۔ ریبتی کا جواب نہ ملا تو وہ خفگی کے ساتھ چیخنے لگی، ’’او ریبتی! ری اویبی۔ اری او ڈائن۔‘‘ کوئی جواب نہیں۔
اس طرف ریبتی کا سرسام بتدریج بڑھ رہا ہے۔ ہولناک تکلیف سے جسم لگاتار ٹھنڈا ہوتا جا رہا ہے۔ شدید پیاس، زبان جیسے اندر کی طرف دھنسی جا رہی ہے۔ ٹھنڈی جگہ جانے کو طبیعت چاہ رہی ہے۔ باڑی کے دروازے پر جاکر چوکھٹ پر بیٹھ گئی لیکن وہا ں بھی اچھا نہیں لگا۔ دن ڈھل چکا ہے، خوب ہوا چل رہی ہے دیوار سے ٹیک لگاکر بیٹھ گئی۔ اس نے باڑی پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالی۔ یہ کیلا گزشتہ سال باپو نے لگایا تھا۔ ریبتی نے لپک کر کنوئیں سے ایک لوٹا پانی نکال کر اس پودے میں ڈالا تھا، وہ کتنا بڑا ہو گیا ہے، پھولنے لگا ہے۔ اس پیڑ کو دیکھ کرماں کی یاد آنے لگی۔ ذہن منتشر ہے۔ طبیعت مضطرب۔ تسلسل سے کوئی بات یاد نہیں آتی لیکن ماں کی پر شفقت صورت دل میں بسی ہوئی ہے۔
شام ڈھل چکی ہے۔ درختوں کے تنوں سے، شاخوں کی اوٹ سے رفتہ رفتہ اندھیرا پھیل کرباڑی میں بھر گیا ہے اور کچھ نظر نہیں آتا۔ آسمان پر نگا ہ کی۔ شام کے ستارے سے جھلمل کرنیں پھوٹ رہی ہیں۔ ٹکٹکی لگاکر ریبتی اس تارے کو دیکھتی رہی۔ پلکیں جھپک نہیں رہی ہیں۔ ستارے کا حجم بتدریج بڑھتا جا رہا ہے۔ جسامت دائرے کی طرح ہو گئی ہے اور بڑھتی جا رہی ہے۔ تابانی بھی بتدریج بڑھ رہی ہے۔ آہا۔۔۔ یہ کس کا مجسمہ ستارے کے اندر ہے۔ سکون بخش، مشفق، خوشی کا سرچشمہ ماں کی مورت بے خوفی کا احساس دلاتے ہوئے پیار سے آغوش میں لینے کے لیے بلا رہی ہے۔ ماں نے اپنے دونوں کرنوں کے ہاتھ بڑھا دیے ہیں۔ ان کرنوں نے آکر دونوں آنکھوں کو بوسہ دیا اور دل میں اتر گئیں۔ اس تاریکی کے درمیان اور کوئی آواز نہیں۔ صرف سانس کی آواز۔ وہ آواز بتدریج تیز ہوتی گئی۔ بہت طویل سانس۔ آخر میں دو بار، ماں ماں کی غیرواضح تکرار سنائی دی۔
ادھر لشٹم پشٹم بڑھیا نے جاکر ریبتی کا پلنگ دیکھا۔ کوئی نہیں گھر بھر میں، باہر آنگن میں، ڈھینکلی کے نیچے، اس کے کنارے کہیں نہیں۔ سوچنے لگی بخار اتر گیا ہے، باڑی میں ٹہل رہی ہوگی۔ وہیں سے آواز دی، ’’اری او ریبتی او ریبی۔۔۔ اوکمبخت، او ڈائن۔‘‘باڑی کے دروازے پر آئی۔ ٹٹول ٹٹول کر کھڑکی تک گئی۔ کھڑکی زمین سے دو ہاتھ بلند اور ایک ہاتھ چوڑی ہے۔ ’’مردار! تو یہاں بیٹھی ہے۔‘‘ بدن پر ہاتھ رکھ کر بوڑھی پہلے چونک پڑی، دوبارہ ایک بار سر سے پیر تک ہاتھ پھیرا، پھرناک پر ہاتھ رکھ کر چیخی اور ساتھ ہی پرچھی کے نیچے دھڑام کی آواز۔
شیام بندھو مہانتی کے گھر کے کسی فرد کو پھر کسی نے نہیں دیکھا۔ پاس پڑوس والوں نے ایک گھڑی رات بیتے سنا تھا۔۔۔
’’اری او ریبتی! او ریبی۔ او کمبخت، اری او ڈائن!‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.