Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

رنگ ماسٹر

MORE BYمعین الدین جینابڑے

    کہانی کی کہانی

    یہ ایک سرکس کمپنی کے ایک رنگ ماسٹر کی کہانی ہے، جو رنگ میں شیروں کے ساتھ طرح طرح کے کرتب دکھاتا ہے۔ ایک دن اچانک وہ بیمار پڑ جاتا ہے۔ ڈاکٹر سے ملتا ہے اور ڈاکٹر کو بتاتا ہے کہ اسے ایشور میں یقین نہیں ہے اسلئے موت اس کا جنون بن چکا ہے۔ اس کے جنون کی وجہ ڈاکٹر یہ بتاتا ہے کہ ایشور ایک بڑا خوف ہے اور موت چھوٹا خوف۔ بڑا خوف جب ختم ہو جاتا ہے تو چھوٹا خوف ہی بڑا خوف بن جاتا ہے۔

    اس کے بدن پر لرزہ طاری تھا۔ اس کی کپکپاہٹ اور تھر تھراہٹ کمرے کی فضا میں بھی ارتعاش پیدا کر رہی تھی۔ شاید یہی وجہ تھی کہ جب سے اس پر لرزہ طاری تھا کمرے کی ہوا سائیں سائیں کر رہی تھی۔ اس کی نظر بھی کانپ رہی تھی اور اسی لیے اسے پورا کمرہ لڑکھڑاتا ہوا معلوم ہو رہا تھا۔ اس کے علاوہ ایک اور بات ہوئی تھی اور وہ یہ کہ کچھ فاصلے پوری طرح ختم ہو گئے تھے اور کچھ نزدیکیاں بڑی دور ہو گئی تھیں۔ اس کے کمرے کی چھت جس کا فرش سے فاصلہ نو دس فٹ تھا یا بالکل اس کے سینے پر آ گئی تھی اور وہ اس کے منوں وزن کے نیچے دب کر رہ گیا تھا۔ لاکھ کوشش کے باوجود وہ اٹھ نہیں پارہا تھا۔ اتنا بھاری وزن سینے پر لے کر اٹھنا اس کے لیے ناممکن تھا۔۔۔ وہ سرکس میں رنگ ماسٹر رہ چکا تھا، وزن اٹھانے والا پہلوان نہیں لیکن اگر آج اس کی جگہ وہ پہلوان بھی ہوتا تو چیں بول جاتا۔

    اس نے اسی کو غنیمت جانا کہ اس کا سینہ، اس کا پلنگ اور اس کا فرش، تینوں اس وزن کے باوجود صحیح سلامت ہیں۔ وہ لیٹے لیٹے، اس پتھر کی سل کے نیچے دبا، صرف اپنی گردن کو موڑ سکتا تھا اور ہاتھ کو جنبش دے پاتا تھا۔ اس نے بائیں طرف گردن گھمائی۔ پلنگ سے لگی میز پر ٹیلی فون رکھا تھا۔ اس نے چاہا کہ ایک فون کر لے اور کسی کو نہیں تو ڈاکٹر کو ہی خبر کر دے کہ اس پر کیا بیت رہی ہے۔ اس نے ہاتھ بڑھایا تو اسے معلوم ہوا کہ یہ نزدیکی دوری سے بدل گئی ہے اور وہ ٹیلی فون اس کی پہنچ سے بہت دور ہو گیا ہے۔ اس نے محسوس کیا کہ مزید کوشش فضول ہے۔ اس نے اپنے ہاتھ کو روک لیا۔ ٹیلی فون کے برابر میز پر ر کھی بدھ کی مورتی کو نظر بھر کر دیکھا اور گردن دوسری جانب موڑ لی۔

    وہاں ساتھ والے پلنگ پر اس کی بیوی بیٹھی مالا کا جاپ کر رہی تھی۔ مالا کے دانوں کی چمک اور نائٹ بلب کی مدھم روشنی، دونوں مل کر کمرے پر چھائی ہوئی رات کے اندھیرے کی سیاہی کو مات دینے کی کوشش کر رہے تھے۔ اس کی نظر ان دانوں پر جم گئی۔ بیوی کی بوڑھی انگلیاں بڑی مشاقی سے انہیں پھیر رہی تھیں اور اس کے ہونٹ ہل رہے تھے۔ اس بے وقت کے مالا کے جاپ اور بیوی کے انہماک کو دیکھ کراس کے دل میں یہ خیال آئے بغیر نہیں رہ سکا کہ کہیں کل ڈاکٹر نے اس سے وہ بات تو نہیں کہہ دی جو اکثر مریض سے چھپا کر اس کے عزیزوں کے کان میں کہی جاتی ہے۔۔۔ اور یہ میری بیوی مالا کے دانے نہ پھیر رہی ہو بلکہ میری بچی کھچی سانسوں کی الٹی گنتی کے عمل میں مصروف ہو اور خود اسے معلوم نہ ہو کہ وہ کیا کر رہی ہے۔

    یہ ڈاکٹر بھی عجیب ہوتے ہیں۔ جس کی خبر ہوتی ہے اسے تو سناتے نہیں اور۔۔۔! لیکن یہ ڈاکٹر ایسا نہیں کر سکتا۔ یہ بڑا سمجھ دار آدمی ہے۔ ایک کامیاب و تجربہ کار ڈاکٹر ہے اور انتہائی ذہین انسان ہے۔ میرا کیس ہر ڈاکٹر کے لیے معمہ بنا ہوا تھا لیکن اس نے اسے دو ہی ملاقاتوں میں حل کر دیا۔ اسے ڈاکٹر سے اپنی پہلی ملاقات یاد آئی۔ ڈاکٹر نے اس سے پوچھا تھا۔

    ’’آپ پوجا پاٹ کرتے ہیں؟‘‘

    ’’نہیں!‘‘

    ’’مندر یا کسی ایسی جگہ عبادت کے لیے۔۔۔‘‘

    ’’نہیں ڈاکٹر صاحب‘‘

    ’’آپ بھگوان کو تو مانتے ہیں؟‘‘

    ’’ڈاکٹر صاحب اس کا جواب میں نہ تو ہاں میں دے سکتا ہوں اور نہ نا میں۔۔۔ زندگی پوری تمبو میں گذری ہے۔۔۔ اب کیا بتاؤں آپ کو۔۔۔ لیکن آپ یہ سب کیوں پوچھ رہے ہیں؟ آپ یہ بتائیے کہ مجھے دورے کیوں پڑتے ہیں۔‘‘

    ڈاکٹر نے اسے دلاسہ دیتے ہوئے کہا،

    ’’یہ سب میں اسی سلسلے میں پوچھ رہا ہوں مسٹر جے چند! کیا آپ جانتے ہیں۔۔۔ ایک چور ہے جو ہم سب کے اندر چھپا بیٹھا ہے۔۔۔ ایک ڈر ہے جس نے ہمارے دلوں میں جگہ بنا لی ہے اور ہم سب اس کے سامنے بے بس ہیں۔۔۔ لیکن اتنے بے بس اور لاچار نہیں جتنے آپ ہو گئے ہیں!‘‘

    اس کے چہرے پر مسکراہٹ کی ہلکی سی لکیر ابھری، اس نے پوچھا۔

    ’’یہ آپ کس ڈر کی بات کر رہے ہیں ڈاکٹر صاحب؟‘‘

    کھڑکی کے راستے ہوا کے ایک جھونکے نے کمرے میں جھانک کر دیکھا۔ میز پر رکھے پیپر ویٹ کے نیچے جے چند کا کیس پیپر پھڑ پھڑا رہا تھا۔ ڈاکٹر نے دھیرے سے کہا،

    ’’موت کے ڈر کی بات کر رہا ہوں مسٹر جے چند!‘‘

    ڈاکٹر کا جواب سن کر اس نے زور کا قہقہہ لگایا تھا۔ گویا ڈاکٹر نے یہ بات کہہ کر ایک ایسی حماقت کی ہو، جس کی اس سے توقع نہیں کی جا سکتی۔ اس نے کہا،

    ’’ڈاکٹر آج میں ایک سرکس کمپنی کا مالک سہی لیکن میں آپ سے کہہ چکا ہوں کہ اصلاً میں ایک رنگ ماسٹر ہوں۔۔۔ میں نے تیس برسوں تک شیروں کو اپنے اشاروں پر نچایا ہے اور آپ مجھ سے ڈر کی بات کرتے ہیں!‘‘

    ڈاکٹر نے بڑی سنجیدگی کے ساتھ کہا،

    ’’مسٹر جے چند! مجھے آپ کی کہی ہوئی ہر بات یاد ہے۔ ذرا آپ مجھے یہ بتائیے، پوری دنیا میں ایسے کتنے آدمی ملیں گے، جنہوں نے تیس برسوں تک روز دن میں دو مرتبہ موت کی کھائی پار کی ہو اور دوبارہ زندگی کی وادی میں قدم رکھا ہو۔۔۔! مسٹر جے چند! موت سے خائف ہر شخص ہے لیکن آپ کا معاملہ ذرا الگ ہے۔۔۔ موت آپ کا Obsession بن چکی ہے!‘‘ وہ اپنی اس حماقت پر بہت شرمندہ ہوا کہ ابھی کچھ دیر پہلے اس نے ایک زور دار قہقہہ لگا کر ڈاکٹر کا مذاق اڑایا تھا۔ اس نے انتہائی احترام کے ساتھ سوال کیا۔

    ’’ڈاکٹر صاحب! آپ پوجا پاٹھ اور بھگوان کی باتیں کیوں پوچھ رہے تھے؟‘‘

    ڈاکٹر نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا،

    ’’جے چند جی! جس طرح بڑی مچھلی چھوٹی مچھلی کو کھا جاتی ہے اسی طرح بڑا ڈر چھوٹے ڈر کو کھا جاتا ہے۔‘‘

    ’’یعنی؟‘‘

    ’’یعنی یہ کہ خدا کا خوف انسان کا سب سے بڑا خوف ہے۔۔۔ یہ صدیوں پرانا خوف اتنا بڑا ہے کہ موت کا ڈر اس کے سامنے خود بہ خود اپنی ہستی کھو دیتا ہے۔‘‘

    وہ اب پوری طرح ڈاکٹر کی ہمہ دانی کا قائل ہو گیا تھا۔ اس نے کہا،

    ’’لیکن ڈاکٹر میں نہ تو آستک ہوں اور نہ ناستک۔۔۔‘‘

    ’’آپ کے ساتھ یہی مسئلہ ہے کہ چاہے ان چاہے آپ نے صرف آدمی بنے رہنے کی کوشش کی ہے۔‘‘

    ’’اس میں برائی کیا ہے ڈاکٹر؟‘‘

    ’’میں یہ نہیں کہتا کہ یہ بری بات ہے لیکن جے چند جی یہ بھی تو نہیں کہا جا سکتا کہ یہ کوئی اچھی بات ہے۔‘‘

    ’’ڈاکٹر صاحب! اچھے برے کی چھوڑئیے ستیہ اور استیہ کی کہئے۔‘‘

    سچ تو یہ ہے جے چند جی کہ ہمیں یہ کہنا کہ ہم بھگوان کو مانتے ہیں تہذیب نے سکھایا ہے۔ ہماری انا اور جذبۂ عزت نفس کو یہ گوارہ نہیں کہ ہم کھلے بندوں اپنی کمزوری کا اعتراف کریں۔‘‘

    کچھ دیر کے لیے دونوں خاموش رہے۔ دونوں یہ چاہ رہے تھے کہ دوسرا کچھ کہے تو بات آگے بڑھے۔ آخر گہری سوچ کے بعد ڈاکٹر نے بولنا شروع کیا۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ اس کی آواز کہیں دور سے آ رہی ہے۔

    ’’شاید سر کس کی دنیا ہمارے چہروں سے تہذیب کا نقاب اتارنے کا کام کرتی ہے۔۔۔ لیکن اس کا کام ادھورا رہ جاتا ہے۔ آخر وہ دنیا بھی اس سماج سے جڑی ہوئی ہوتی ہے۔۔۔ میں کہہ نہیں سکتا۔ میرا اندازہ کس حد تک درست ہے؟ آخر میں بھی ایک کمزور انسان ہوں۔‘‘

    جے چند نے محسوس کیا دونوں کے درمیان ڈاکٹر اور مریض کا فرق مٹتا جا رہا ہے۔ اس نے کہا، ’’کمزور تو میں بھی نکلا ڈاکٹر۔ دنیا والے ایک بڑے ڈر سے خائف ہیں اور میں ایک چھوٹے ڈر سے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ وہ سکون کی نیند سوتے ہیں اور میں ہر رات۔۔۔‘‘

    ’’ہر رات جو کیفیت آپ پر طاری ہوتی ہے اور جس اذیت سے آپ گزرتے ہیں، میرے نزدیک اس تعلق سے دو باتیں مثبت طور پر اہم ہیں۔ ایک تو یہ کہ اس حالت میں بھی آپ قدرے باحواس ہوتے ہیں اور دوسری آپ کی سانس کی رفتار کچھ زیادہ متاثر نہیں ہوتی۔۔۔؟‘‘

    اس نے بیوی کی طرف سے گردن موڑ لی اور سوچا بہتر ہے کہ یہ مالا ہی جپتی رہے۔ پچھلے کچھ دنوں سے وہ دیکھ رہا تھا کہ اس کی موت کا خوف وہم بن کر دھیرے دھیرے اس کی بیوی کے دل میں گھر کرتا جا رہا ہے اور وہ اس کے جیتے جی بیوگی کی تصویر بنتی جا رہی ہے۔۔۔ اور کل ڈاکٹر سے ملنے کے بعد شاید وہ اتنی گھبرا گئی۔۔۔ کہ گھبرا کر اس نے اس بڑے خوف میں پناہ لے لی۔ اب وہ وقت بے وقت مالا جپنے لگی ہے۔ اس کا آنچل سر سے کبھی ڈھلکتا نہیں۔ ڈھکا ہوا سر اور جھکی ہوئی گردن لیے ہر پل منہ ہی منہ میں وہ کچھ پڑھتی رہتی ہے۔ ممکن ہے جو خوف پہلے وہم بن کر آیا تھا اب اس نے وہ لبا دہ اتار دیا ہو!

    اسے اپنی بیوی پر پیار تو کئی بار آیا تھا لیکن آج پہلی بار اسے اس پر رحم آیا۔ گردن سیدھی رکھ کر اس نے آنکھیں موند لیں۔ دل نے ایک مرتبہ پھر کہا کہ یہ ڈاکٹر ایسا نہیں کر سکتا۔ اگر ایسی کوئی بات ہوتی بھی تو وہ اس سے کبھی نہ کہتا اور آج اسے اس قسم کی کوئی بات کہنی ہوتی تو وہ گھوش بابو سے نہ کہتا؟ وہ بھی تو ساتھ تھے۔ کتنے بھلے آدمی ہیں بیچارے گھوش بابو۔ اتنے پڑھے لکھے ہیں لیکن اینٹھ بالکل نہیں۔ پروفیسری سے ریٹائر ہوئے بیس ایک برس تو ہو ہی گئے ہوں گے۔ اس عمر میں بھی برابر کچھ نہ کچھ پڑھتے رہتے ہیں۔ اگر پڑھ نہ رہے ہوں تو سوچ میں گم ہوتے ہیں۔ کبھی شانت اور نشچنت نہیں بیٹھتے۔۔۔ شاید فلسفے کے پروفیسر کا بڑھاپا ایسا ہی ہوتا ہے۔۔۔ اور ممکن ہے رنگ ماسٹر کا بڑھاپا بھی کچھ میرے ہی جیسے ہوتا ہو!

    ایک مرتبہ یہی بات گھوش بابو نے بڑے فلسفیانہ انداز میں کہی تھی۔ اس دن بھی وہ آج کی طرح جے چند کے ساتھ ڈاکٹر کے یہاں آئے تھے۔ وہ ڈاکٹر سے جے چند کی دوسری ملاقات تھی۔ گھوش بابو نے گھر لوٹتے وقت کار میں جے چند کی طرف دیکھ کر سرگوشی کے انداز میں کہا تھا،

    ’’جے چند جی! آپ کو موت کا Obsession ہے اور مجھے زندگی کا۔‘‘

    ان کے اس جملے پر جے چند پل بھر کے لیے چکرا گیا تھا۔ اسے گھوش بابو پر ترس آ گیا تھا کہ یہ شخص جو مجھے اور میری بیوی کو جذباتی سہارا دینے کے لیے ڈاکٹر کے یہاں آتا ہے، کہیں خود مریض تو نہیں بنتا جا رہا! جے چند کی بدلی ہوئی حالت دیکھ کر گھوش بابو نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا تھا،

    ’’جے چند جی! میری عمر فلسفہ پڑھنے اور پڑھانے میں گذری۔ فلسفہ سمجھنے کی دھن اور کلاس روم میں لیکچر دینے کے شغل میں پتا نہیں کب میرے ہاتھوں سے زندگی نکل گئی۔۔۔ بس فلسفہ باقی رہ گیا۔ اب میں پہروں بیٹھا یہی سوچتا ہوں کہ جب زندگی ہی نکل گئی تو اس فلسفے کا میں کیا کروں؟ اور جب کچھ سجھائی نہیں دیتا تو تھک ہار کر دوبارہ کتابیں دیکھنے لگتا ہوں کہ شاید کہیں میرے سمجھنے ہی میں کوئی غلطی نہ ہوئی ہو۔۔۔ میں تو جے چند جی چوک گیا!‘‘

    ’’میری کہیے۔‘‘

    ’’آپ کے چوکنے کا سوال ہی نہیں اٹھتا۔ آپ وہ خوش نصیب ہیں جس کا Obsession زندگی نہیں موت ہے۔ فلسفے اور سمجھ کا پھیر موت کے دروازے پر آ کر ختم ہو جاتا ہے۔ اسی لیے موت آج تک موت ہی رہی فلسفہ نہیں بنی۔ بنانے کی کوشش آج بھی جاری ہے۔۔۔ لیکن وہ راز کی راز ہی رہی۔‘‘

    گھوش بابو کی باتیں جے چند پوری طرح سمجھ نہیں پاتا تھا۔ وہ ہوتی بھی بڑی عجیب تھیں۔ جے چند کے لیے گھوش بابو ایک دلچسپ آدمی تھے اور گھوش بابو کے لیے جے چند۔ دونوں کے درمیان وقفے وقفے سے ایسی باتیں ہوتی رہتیں کہ دونوں ایک دوسرے کے لیے کچھ اور دلچسپ ہو جاتے تھے۔ ان کی شامیں اکثر ساتھ ہی گزرتی تھیں۔

    آج شام بھی دونوں کافی دیر تک ساتھ تھے۔ دراصل آج جے چند کا جنم دن تھا اور گھوش بابو اسے سالگرہ کی مبارکباد دینے آئے تھے اور تحفے کے طور پر بدھ کی وہ مورتی لائے تھے، جسے اس کی بیوی نے میز پر گھڑی کے برابر رکھا ہے۔ جتنی دیر گھوش بابو آج جے چند کے یہاں رکے انہوں نے بدھ کے علاوہ کسی اور موضوع پر بات نہیں کی۔ جے چند اس موضوع پر کیا بولتا، بیٹھا سنتا رہا۔ کپل وستو کے راج کمار سے تتھا گت بننے تک کی گوتم بدھ کی داستان تو وہ پہلے سے جانتا تھا لیکن آج گھوش بابو اس کے سامنے انہیں واقعات کو کچھ اس طر ح بیان کر رہے تھے کہ وہ واقعات محض کتابی باتیں نہیں رہے بلکہ زندگی کا جیتا جاگتا تجربہ بن کر اس کے شعور اور ادراک کے وسیلے سے اس کی ذات میں بہت اندر تک اترتے چلے گئے اور آخر میں جو کتھا گھوش بابو نے اسے سنائی اس نے تو جے چند کو سراپا حیرت بنا دیا۔ اتنی دلچسپ کتھا اس نے پہلے کبھی نہیں سنی تھی۔ کتھا سنتے وقت وہ ایک عجیب کیفیت سے دوچار ہوا تھا جس کے اثرات اب بھی اس کے حواس پر چھائے ہوئے تھے۔ ایک ایسی عجیب و غریب کہانی تھی جسے وہ پوری طرح سمجھ نہیں پایا تھا۔ اس کے باوجود اس کے اندر یہ احساس جڑ پکڑتا جا رہا تھا کہ پوری کہانی اس کی سمجھ میں آ گئی ہے اور اسی احساس نے اسے پریشان کر دیا تھا۔ اس پریشانی کے پیدا کرنے میں کچھ ہاتھ گوش بابو کی تمہید کا بھی تھا جو انہوں نے کتھا سنانے سے پہلے باندھی تھی۔ انہوں نے کہا تھا،

    ’’جے چند جی! آج آپ کو بدھ کی ایک کتھا سناتا ہوں۔ یہ کتھا میں کئی پروفیسروں کو سنا چکا ہوں اور کئی پنڈتوں، مہا پنڈتوں کے کان میں انڈیل چکا ہوں لیکن آج تک یہ کسی کے دل میں نہیں اتری۔ دل تو دور رہا ان کی بدھی ہی میں نہ سما سکی۔ دیکھئے آپ کے ساتھ کیا ہوتا ہے۔ آپ کے ساتھ جو بھی ہو یہ طے ہے کہ ہم دوبارہ اس کتھا پر بات نہیں کریں گے۔ تو سنئے!

    یہ اس وقت کی بات ہے جب بستیاں سہاگنوں کی مانگ کی طرح آباد ہوا کرتی تھیں۔ ایسا ان سنیاسیوں کی تپسیہ کے صدقے میں ہونا تھا جو ستیہ کی کھوج میں بستی کو تج کر جنگل کی راہ لیتے تھے۔ وہاں وہ خوب ریاضتیں کرتے تھے۔ خود کو کڑی آزمائشوں سے گزارتے تھے اور جب ان کی ریاضت کی آگ میں تمام آلائشیں جل کر خاک ہو جاتیں تو وہ جنگل سے بستی کی طرف مراجعت کرتے تھے۔

    ایسا ہی ایک جنگل تھا جس میں چار تپسوی تپسیہ کر رہے تھے۔ انہیں وہاں تپسیہ کرتے ایک عرصہ بیت گیا۔ اتنا عرصہ بیتا کہ ان کی جوانیاں بڑھاپوں میں ڈھل گئیں، لیکن وہ آگ روشن نہ ہوئی جس کی تپش وجود کو آلائشوں سے پاک کر دیتی ہے اور وہ کرن ان کے اندر نہ اتری جس کے اترنے سے سب کچھ کندن کی طرح دمکنے لگتا ہے۔ اب ہر گھڑی انہیں یہ دھڑکہ لگا رہتا کہ پتا نہیں کب موت آ جائے اور ہم بستی کی طرف مراجعت کرنے سے رہ جائیں۔۔۔ ہمیں یوں نا مراد ہی اس جہاں سے کوچ کرنا پڑے۔

    آدمی کو جب کوئی دھڑکہ لگ جاتا ہے تو وہ کسی کام کا نہیں رہتا۔ ان چاروں کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ اب بار بار ان کی تپسیہ کھنڈت ہونے لگی۔ رہ رہ کر یہ خیال بجلی بن کر ان کے حواس پر گرنے لگا کہ انہیں نامراد ہی یہاں سے کوچ کرنا پڑے گا۔ انہیں فکر لاحق ہوئی کہ اس خیال سے کیسے چھٹکارا پایا جائے۔ وہ حیران تھے کہ یہ ایک اکیلا خیال کس طرح دبے پاؤں آ کر ان پر قابض ہو گیا جبکہ وہ دنیا جہان کے خیالوں کو کھدیڑ کر حواس کی حدوں کے باہر کر چکے تھے۔

    دھیرے دھیرے نراشا کے اندھیرے ان کو جکڑنے لگے اور ان کا دم گھٹنے لگا۔ کئی دن اس طرح بیتے اور ایک صبح انہوں نے دیکھا کہ وہ اندھیرے انہیں گھیر گھار کر بدحواسی کے کگار پر لے آئے ہیں۔ کسی بھی لمحے وہ اس اندھی کھائی کے پیٹ میں سما سکتے ہیں۔۔۔ لیکن اسی پل دور کے ایک جنگل میں دھیان میں بیٹھے تتھا گت، خیال بن کر ان کے ذہنوں کے راستے سے گزر گئے اور وہ چاروں ایک ساتھ پر امید آواز میں چلا اٹھے ’’شاکیہ منی!‘‘

    تتھا گت کے خیال نے ایک مرتبہ پھر انہیں آس کی ڈوری کے ٹوٹے ہوئے سرے سے جوڑ دیا اور ذرا سی دیر میں ان پر یہ بھی روشن ہوا کہ ڈوری کا دوسرا سرا تتھا گت ہی سے بندھا ہوا ہے۔ وہ چاروں کھنچے کھنچے تتھا گت کے حضور میں حاضر ہوئے۔ تتھا گت ابھی دھیان ہی میں تھے۔ ان کا چہرہ پورنیما کے چاند کی طرح دمک رہا تھا۔ چاروں ہاتھ جوڑ کر ان کے سامنے کھڑے ہو گئے۔ تتھا گت کے غلافی پپو ٹوں میں ہلکی سی جنبش ہوئی۔ انہوں نے آنکھیں کھول کر آنے والوں کو دیکھا۔ وہی چار بوڑھے سنیاسی ان کے سامنے ہاتھ جوڑے کھڑے تھے۔ چاروں کے چہروں سے ان کی عمریں ٹپک رہی تھیں۔ کچھ زیادہ فرق نہیں تھا ان کی عمروں میں۔ بس اتنا ہی فرق تھا جتنا ایک کے بعد ایک اٹھنے والی سمند رکی چار موجوں میں ہو سکتا ہے۔!

    پہلے سنیاسی نے آگے بڑھ کر عاجزی کے ساتھ کہا،

    ’’میں نے سب جتن کئے اور ناکام رہا۔ آپ اپنی شرن میں لے لیں تو دیا ہوگی۔‘‘

    بدھ نے اس کے ہاتھوں میں ایک کشکول تھما یا اور اسے بھکشوؤں کی صف میں کھڑا کر دیا۔

    دوسرے سنیاسی نے آگے بڑھ کر پر اعتماد لہجے میں کہا،

    ’’میں ستیہ کا کھوجی ہو۔ آپ سے راہ پوچھنے آیا ہوں۔‘‘

    تتھا گت نے کہا،

    ’’سیتہ کے کھوجی کو دنیا اور دھرم دونوں چھوڑنے ہوتے ہیں۔‘‘

    سنیاسی نے ہاتھ جوڑ کر کہا،

    ’’چھوڑ دیے۔‘‘

    تتھا گت نے اس کی آنکھوں میں جھانک کر دیکھا۔ واقعی وہ دونوں کو چھوڑ چکا تھا۔

    تتھا گت نے اس سے کہا،

    ’’تو دنیا اور دھرم دونوں چھوڑ چکا ہے۔

    بوڑھا بھی بہت ہوا ہے۔

    ایسا کر،

    اب شمشان چلا جا اور

    جس دن تیری چتا جلے

    میرے پاس لوٹ آ

    سنیاسی نے تیوری چڑھا کر کہا،

    ’’میں نے تجھے گیانی جانا تھا، تو تو ٹٹھا کرنے لگا۔ میں جنگل ہی میں بھلا تھا۔ میں وہیں رہ کر کچھ تپسیا اور کر لوں گا۔‘‘

    سنیاسی نے یہ کہہ کر جنگل کی راہ لی۔

    تیسرے سنیاسی نے آگے بڑھ کر انکساری کے ساتھ کہا،

    ’’میں ستیہ کی پراپتی کی ابھیلا شا میں جی رہا ہوں۔ چاہتا ہوں کہ مرنے سے پہلے ابھیلاشا چھوٹ جائے اور ستیہ ملے۔‘‘

    تتھاگت نے اس سے بھی دنیا اور دھرم چھوڑنے کی بات کہی۔ اس کی بھی آنکھوں میں جھانکا اور اس سے بھی یہی کہا کہ وہ شمشان چلا جائے اور جس دن اس کی چتا جلے وہ لوٹ آئے۔ سنیاسی نے بڑے ادب کے ساتھ کہا،

    ’’چتا جلنے کے بعد کبھی کوئی لوٹا ہے جو میں لوٹوں گا۔ لوٹنے سے تو رہا لیکن میں جاؤں گا ضرور۔ آپ کو گرو جو مانا ہے۔ اب میں باقی دن شمشان میں ہی گزاروں گا۔‘‘

    یہ کہہ کر سنیاسی کبھی نہ لوٹنے کے لیے شمشان چلا گیا۔

    چوتھے اور آخری سنیاسی نے آگے بڑھ کر کھنکتی ہوئی آواز میں کہا،

    دنیا اور دھرم دونوں چھوڑ چکا ہوں

    عمر بھی کافی ہو چکی

    بغیر کسی پر بوجھ بنے

    چاہتا ہوں

    کہ

    شمشان چلا جاؤں

    اور

    جس دن میری چتا جلے

    آ کر

    تمہارے چرن چھوؤں!

    تتھا گت نے اسے آشیر باد دیا اور کہا،

    جس دن تمہاری چتا جلے

    دھیان رہے

    اس دن تمہاری

    چتا ہی جلے!

    آشیر باد پا کر سنیاسی شمشان کی طرف مڑ گیا۔ اس کی آنکھوں میں پورنیما کے چاند کا بسیراتھا اور کانوں میں تتھا گت کے وہ شبد گونج رہے تھے جو انہوں نے آشیر باد دیتے وقت کہے تھے۔

    شمشان میں جا کر اس نے ایک اونچے ٹیلے پر آسن جما لیا اور دھیان اوستھا میں بیٹھ گیا۔ جلتی ہوئی چتا کو دیکھنے کی غرض سے اس نے اپنی آنکھیں کھلی ہی رہنے دیں، لیکن اس دن کے بعد اس کی آنکھوں نے چتا کے شعلوں کے علاوہ کچھ اور نہیں دیکھا۔ اسے کبھی کسی نے پلک جھپکتے نہیں دیکھا اور نہ ہی اسے کسی نے اپنی جگہ سے ہلتے ہوئے دیکھا۔ دھیان اوستھا میں بیٹھے بیٹھے اس نے ہزاروں چتاؤں کو جلتے ہوئے دیکھا۔ کسی کے منہ سے پانچ ہزار چتاؤں کی بات سنی گئی تو کسی کے منہ سے دس ہزار کی، لیکن سچ تو یہ ہے کہ جب کوئی اس طرح سب کچھ تج کر اور پوری طرح وچار مکت ہو کر دھیان اوستھا میں بیٹھتا ہے تو یہ بتانا مشکل ہو جاتا ہے کہ اس نے کتنی چتاؤں کو جلتے ہوئے دیکھا۔ اس کے بارے میں تو ٹھیک سے یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ وہ اس اوستھا میں کتنے دنوں تک بیٹھا رہا کیونکہ اس کے دنوں کی گنتی بھی ایک مشکل کام ہوتا ہے۔

    پتا نہیں کتنی بار کے اماوس کے اندھیارے کے بعد پونم کی وہ رات آئی جس کی چاندنی میں سنیاسی نے دیکھا کہ لوگ ایک سجی سجائی ارتھی پر اس کی لاش رکھ کر لائے ہیں۔ چار آدمیوں نے مل کر اسے چتا کی لکڑیوں پر رکھا اور آنے والوں ہی میں سے کسی نے اسے اگنی سپرش دیا۔۔۔ ذرا سی دیر میں چتا نے آگ پکڑ لی اور دیکھتے دیکھتے اس کے شعلے آسمان کو چھونے لگے۔ ہر چتا کی طرح اس کی چتا بھی جل کر کچھ دیر میں شانت ہو گئی اور جب لپکتے ہوئے شعلوں کی جگہ انگاروں کا ڈھیر رہ گیا تو اس نے اوپر آسمان کی طرف گردن اٹھائی اور دیکھا کہ وہاں پونم کے چاند کی جگہ تتھاگت کا مسکراتا ہوا چہرہ ہے اور اس مسکراہٹ کی کرنیں چاروں طرف پھیلی ہوئی ہیں۔

    اس نے وہیں اس ٹیلے پر دو زانو ہو کر زمین کو چوما۔ تتھا گت کا آشیر باد لیا اور بستی کی طرف مراجعت کر گیا۔‘‘

    گھوش بابو تو کہانی سنا کر چلے گئے لیکن وہ کہانی جے چند کے اندر رچ بس گئی۔ یہ عجیب و غریب کہانی جے چند کے لیے معمہ بنی ہوئی تھی۔ اس نے سوچا کتنا اچھا ہوتا اگر آج بدھ کا زمانہ ہوتا۔ اگر آج بدھ ہوتے تو میں ان سے جا کر پوچھتا کہ اس کہانی کو بغیر سمجھے میں یہ کیوں محسوس کرتا ہوں کہ اسے سمجھ چکا ہوں۔

    جے چند کے ذہن کے اندھیرے میں بدھ کی مورتی تیرنے لگی، مالا کے دانے چمکنے لگے اور پیپر ویٹ کے نیچے رکھا کیس پیپر پھڑ پھڑانے لگا۔ اسے ڈاکٹر کی باتیں یاد آئیں اور اس نے ڈاکٹر کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے اپنے تمام حواس کو سانس کی آمدو رفت کے عمل پر مرتکز کر دیا۔ اس نے گنتی شروع کی ایک، دو، تین، چار، پانچ، چھ، سات۔۔۔ کسی ایک گنتی پر آ کر اس نے محسوس کیا کہ چھت کی وہ منوں وزنی سل اسے تھپکیاں دے رہی ہے اور سائیں سائیں کرتی وہ ہوا اسے لوریاں سنارہی ہے۔ اور وہ کچھ جاگا جاگا سا اور کچھ سویا سویا سا پڑا سوچ رہا ہے کتنا اچھا ہو اگر تمام رات اسی طرح بیت جائے اس کے دل نے ہولے سے کہا کتنا اچھا ہو اگر تمام عمر اسی عالم میں گزر جائے نیم بیدار اور نیم خوابیدہ! لیکن یہ کیے ممکن ہے۔۔۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ آسمان پر چوبیس گھنٹے شفق پھولی رہے۔ یا یہ کہ ہم تمام دن چڑیوں کی وہ چہچہاہٹ سنیں جو پو پھٹتے وقت سنائی دیتی ہے۔۔ شاید اسی لیے وہ لمحہ آج تک نہیں آیا جو نیند اور بیداری کے بیچ کے عرصے کو محیط ہو اور پوری رات اس ایک لمحہ میں گذر جائے!

    پتھر کی اس منوں وزنی سل کے نیچے لیٹے لیٹے وہ کچھ ایسے ہی خیالوں میں کھویا ہوا تھا کہ لوریوں کی لے کے ساتھ ہلکے سروں میں سر کس کے بینڈ کی دھن اس کے کان کے پردوں سے ٹکرانے لگی اور وہ دنیا و مافیہا سے بے خبر ہو کر اس دھن میں کھو گیا۔ نیند گویا اسی انتظار میں تھی۔ اس نے آگے بڑھ کراسے اپنی آغوش میں لے لیا اور خواب کی وادی میں لے گئی۔

    وہ وادی بڑی حسین اور پر فضا تھی۔ چاروں طرف ہریالی بکھری ہوئی تھی۔ پہاڑ کے دامن میں ایک ندی بہہ رہی تھی اور پہاڑ سے کئی چشمے آ کر اس ندی سے مل رہے تھے۔ بے شمار تناور درخت آسمان کی بلندی کو چھو رہے تھے اور پوری وادی بادلوں سے ڈھکی ہوئی تھی۔ اس وادی میں سرکس کا ایک بہت بڑا تمبو لگا ہوا تھا۔ اتنا بڑا کہ دنیا کی بڑی سے بڑی سرکس کمپنی کے دس تمبو اس میں سما جائیں۔ لوگ دور دراز کی مسافت طے کر کے وہاں آ رہے تھے۔ ایک جم غفیر اکٹھا ہو گیا تھا وہاں۔ اس چھوٹی سی وادی میں مرد، عورت، جوان، بوڑھے، بچے سب کے سب بڑے اشتیاق کے ساتھ تمبو کی طرف بڑھ رہے تھے۔ سب کی آنکھیں کہہ رہی تھیں کہ آج ہم وہ دیکھنے جا رہے ہیں جو اس سے پہلے شاید ہی کسی نے دیکھا ہو اور سب کی زبانیں کہہ رہی تھیں۔۔۔ رنگ ماسٹر تو ہر سرکس میں ہوتا ہے لیکن اس رنگ ماسٹر کا کمال سب سے نرالا ہے۔ اب جو کچھ سنا ہے وہ ایک مرتبہ آنکھوں سے دیکھ لیں!

    جے چند نے سوچا خود میں بھی تو رنگ ماسٹر ہوں۔ اپنے سرکس میں شیروں کو آنکھ کے اشارے پر اٹھاتا ہوں، بٹھاتا ہوں۔ چھوٹے سے اسٹول پر تین تین شیروں کو کھڑا کرتا ہوں اور تو اور جلتے ہوئے آہنی حلقے میں سے انہیں چھلانگ لگانے پر بھی مجبور کرتا ہوں۔۔۔ یہ سب وہ میری آنکھ کے اشارے پر کرتے ہیں۔ وہ تو میں رعب جمانے کے لیے کبھی کبھی ہوا میں زور کا ہنٹر لہراتا ہوں ورنہ لوگوں کی تشفی نہیں ہوتی۔ ان کے ذہنوں میں رنگ ماسٹر کے ساتھ ہنٹر کا تصور جڑ گیا ہے۔ اس لیے ضروری ہو جاتا ہے کہ غیر ضروری طور پر ہی سہی اسے ہوا میں لہرایا جائے!

    اب اس سے زیادہ ایک رنگ ماسٹر کیا کر سکتا ہے؟ وہ بھی لوگوں کی اس بھیڑ میں شامل ہو گیا۔ کھڑکی سے ٹکٹ لے کر اندر تمبو میں داخل ہو اور اس کا محیط دیکھ کر حیران رہ گیا۔ اس کا اندازہ بالکل صحیح نکلا کہ اچھی سے اچھی سرکس کمپنی کے دس تمبوؤں جتنا اس ایک تمبو کا قطر تھا۔۔۔ سب اپنی اپنی نشست پر بیٹھ گئے۔ بینڈ خاموش ہوا اور اعلان کیا گیا کہ سب سے پہلے رنگ ماسٹر کا آئیٹم دکھایا جائے گا اور یہ بھی کہا گیا کہ ایسا عوام کی پر زور فرمائش پر کیا جا رہا ہے۔ سب اپنی اپنی کرسیوں پر سنبھل کر بیٹھ گئے۔ تمبو کے بیچوں بیچ مدور ڈائس پر سلاخوں کا ایک جنگلہ لایا گیا جو چاروں طرف سے بند تھا اور اس کے ایک طرف دروازہ تھا۔ ایک گاڑی آئی اور گاڑی کا دروازہ جنگلے کے دروازے سے ملا دیا گیا۔ ایک ایک کر کے سات شیر جنگلے میں داخل ہوئے۔ جنگلے کا دروازہ باہر سے بند کر دیا گیا۔ سب حیران تھے کہ شیر بھی آ گئے، جنگلے کا دروازہ بھی بند ہوا اور ابھی تک رنگ ماسٹر کا پتہ نہیں۔۔۔ اچانک ایک زور کا دھماکہ ہوا اور لوگوں نے دیکھا کہ وہ اس کونے میں رکھی ہوئی توپ داغی گئی اور اس میں سے گولے کی طرح نکل کر ایک آدمی سیدھے ان شیروں کے جنگلے میں جا گرا! اس کے گرتے ہی ساتوں شیر سہم گئے اور لوگوں نے خوب تالیاں بجائیں۔ اتنا بڑا تمبو تالیوں کی گڑ گڑاہٹ سے گونجنے لگا۔ کافی دیر تک تالیوں کا سلسلہ جاری رہا اور وہ رنگ ماسٹر جنگلے کے اندر ہی چاروں طرف گھوم کر، ہاتھ ہلا ہلا کر ان تالیوں کا جواب دیتا رہا۔ پھر اس نے اپنے دونوں ہاتھوں کو فضا میں کچھ اس طرح حتمی انداز میں جنبش دی کہ تالیوں کی گڑ گڑاہٹ رک گئی اور وہ کچھ دیر کے لیے ساکت و جامد ایک جگہ کھڑا ہو گیا۔ چند ثانیوں کے توقف کے بعد اس نے ایک مخصوص انداز میں پور ی سکت کے ساتھ ہوا میں ہنٹر لہرایا اور پورے تمبو میں آواز کا ایک کوندا لپک گیا۔

    جے چند نے متجسس نگاہوں سے رنگ ماسٹر کے سراپے پر نظر دوڑائی۔ اس کے لباس کی تراش خراش اور رنگوں کی ترتیب کا جائزہ لیا۔ اس کی نظریں رنگ ماسٹر کے ہنٹر پر آ کر رک گئیں۔۔۔ جے چند نے اپنے ہنٹر کو پہچان لیا تھا ایک رنگ ماسٹر سب کچھ بھول سکتا ہے لیکن اپنے ہنٹر کو کبھی نہیں بھول سکتا کہ غیر ضروری طور پر ہی سہی وہ اس کی ایک لازمی ضرورت ہوتا ہے!

    اس کے جی نے چاہا کہ آگے بڑ ھ کر اس رنگ ماسٹر سے اپنا ہنٹر چھین لے اور کچھ نہیں تو وہیں نشست پر بیٹھے ہوئے چلا کر یہ ا علان کرے کہ وہ جو آواز کا کوندا ابھی کچھ دیر قبل لپکا تھا۔۔۔ وہ کوندا۔۔۔ میرے ہنٹر کا کمال تھا۔۔۔ میرے ہنٹرکا کمال۔۔۔ اس نے چلانے کے لیے منہ کھولا ہی تھا کہ اس کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔۔۔ اب کے جے چند نے اپنی پیشانی کو پہچان لیا تھا! وہی فراخ ماتھا، جلد کی وہی رنگت اور اس پر بکھرے مسامات کے جال میں سے اپنا راستہ بناتی ہوئی وہ لکیریں جو وقتاً فوقتاً شکن بن کر ماتھے پر ابھرتی رہی ہیں اور جن کے تعلق سے جے چند آج تک یہ طے نہیں کر پایا تھا کہ یہ شکنیں لکیروں کا راستہ طے کرتی ہیں یا لکیریں شکنوں کے نشیب و فراز کو متعین کرتی ہیں!

    جے چند کے ماتھے پر پسینے کی بوندیں ابھر آئیں۔ اس نے بڑے ہی سنبھلے ہوئے انداز میں جیب سے رومال نکال کر اپنے ماتھے سے لگایا۔ بوندیں رومال میں جذب ہو گئیں۔ رومال کو دوبارہ جیب میں رکھ کر جے چند نے اطمینان کا سانس لیا کہ ہر چند اس کا ماتھا اس رنگ ماسٹر کے ماتھے کی جگہ ہے لیکن وہ اپنے ماتھے سے محروم نہیں ہوا ہے۔ دراصل اپنے ماتھے کو چھو کر دیکھنے کا خیال اس کے دل میں اسی وقت آ گیا تھا جب اس نے اسے رنگ ماسٹر کے ماتھے کی جگہ پر دیکھا تھا لیکن ایک نامعلوم سا خوف ہر بار اس کے اٹھتے ہاتھ کو روک لیتا تھا اور جب اس کے ماتھے پر پسینے کی بوندیں ابھریں اور اس کے رومال نے انہیں اپنے اندر جذب کر لیا تو اسے اس انجانے خوف سے نجات مل گئی اور اس نے اس گلو خلاصی پر اطمینان کا سانس لیا۔

    ابھی اس نے اطمینان کا سانس لیا ہی تھا کہ اس کا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا سانس نیچے رک گیا۔۔۔ اب کے جے چند نے اپنی ناک کو پہچان لیا تھا! اس کی اپنی ناک اس رنگ ماسٹر کے چہرے پر تھی۔ جے چند کو اطمینان تھا کہ جب اس کی پیشانی اپنی جگہ پر ہے تو ناک بھی یقیناً اپنی جگہ ہی پر ہوگی۔۔۔ لیکن پھر بھی ناک کا معاملہ ٹھہرا۔ اطمینان کر لینے میں کیا مضائقہ ہے؟ اس نے فوراً اپنی ناک ٹٹولی اور اسے اپنے آپ پر ہنسی آ گئی کہ اس کی ناک کو تو اپنی جگہ پر ہونا ہی تھا، وہاں بھی ہوئی تو کیا؟ ہوا کرے!

    جے چند نے پہلو بدلا اور ذرا سنبھل کر خود کو اپنی نشست پر جمایا۔ اس فاصلے ہی سے سہی اس نے باریک نظر سے رنگ ماسٹر کے پیکر اور خد و خال کا جائزہ لیا، اس کے چہرے بشرے اور ڈیل ڈول اور اس کے ہاڑ کا بغور مشاہدہ کیا تواس پر منکشف ہوا کہ صرف اس کا ہنٹر، پیشانی اور ناک ہی نہیں بلکہ اس کا سب کچھ اس رنگ ماسٹر کے پاس ہے۔۔۔ اس کی آنکھیں، اس کے کان، اس کا دہن، اس کے گال، اس کا سینہ اور اس کے ہاتھ پیر۔۔۔ یعنی یہ کہ واقعتاً اس کا سب کچھ اس رنگ ماسٹر کے پاس ہے اور وہ خود اپنے کسی عضو بدن سے محروم نہیں ہوا ہے!

    جے چند کے لیے ایک بڑی دلچسپ اور انتہائی حیرت افزاء صورتحال پیدا ہو گئی تھی کہ وہ خود تماشہ گر تھا اور تماشائی بھی! شائقین سے کھچا کھچ بھرے ہوئے دس تمبوؤں جتنے بڑے اس تمبو میں اس کی حیثیت منفرد تھی۔ اب جیسے ہی اس پر اپنی انفرادیت آشکار ہوئی سیدھا سادہ جے چند اس مسئلے سے دوچار ہوا جس سے تقریباً ہر منفرد شخص کو سابقہ پڑتا ہے، وہ یہ کہ جب تک وہ ہستی دوسروں کو اپنی انفرادیت کا قائل نہیں کر لیتی اس وقت تک خود اس کے نزدیک اپنی انفرادیت مشکوک ہوتی ہے۔ جے چند نے اس خیال سے کہ کیوں نہ پہلے ساتھ والی نشست پر بیٹھے شخص کو قائل کر لیا جائے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور اسے مخاطب کرنے کے لیے اس کے کان کے نزدیک منہ لے جاکر دھیرے سے آواز دی۔

    ’’بھائی صاحب!‘‘

    اس شخص نے جے چند کی طرف دیکھ کر کہا،

    ’’بھائی جی! میں خود آپ کو آواز دینے والا تھا۔ ذرا میری طرف دیکھئے اور پھر اس رنگ ماسٹر کی طرف۔ میرا جڑواں بھائی معلوم ہوتا ہے۔۔۔ اجی میں اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد ہوں لیکن یہ تو۔۔۔‘‘

    جے چند کے لیے جو صورت حال انتہائی دلچسپ اور حیرت افزاء تھی وہ اب پریشان کن بن گئی۔ اس نے سٹپٹا کر ادھر ادھر دیکھا۔ دوسری طرف ساتھ والی نشست پر ایک نوجوان عورت بیٹھی تھی۔ اس کی گود میں ایک بچہ بھی تھا۔ جے چند نے اپنی آواز میں خواتین کے لیے مختص احترام کے علاوہ ذرا سی اپنائیت کی چاشنی ملا کر دھیرے سے ’’بہن جی!‘‘ کہا اور اس کے بچے کے گال پر ہلکے سے چپت لگائی۔ اس عورت نے اس کی طرف دیکھا۔ اس کی نظروں میں بھی اپنائیت تھی لیکن وہ کہہ رہی تھیں تمہیں جو کہنا ہے جلدی کہو، ہمارا مزہ کیوں خراب کر رہے ہو۔ جے چند نے عورت کی نظروں کو بھانپتے ہوئے جلدی سے کہا،

    ’’بہن جی! اس رنگ ماسٹر کی صورت۔۔۔‘‘

    اور وہ عورت بول پڑی،

    ’’بھائی صاحب! یہ سرکس ہے یا جادو کا کھیل؟ آپ رنگ ماسٹر کی کہہ رہے ہیں۔ دیکھتے نہیں ہمارے دیکھتے دیکھتے یہ مرد، مرد سے عورت بن گیا۔ آپ حیران ہیں، میں بھی حیران ہوں۔ ذرا اس رنگ ماسٹرنی کو دیکھیے، غور سے دیکھیے اور اب میری طرف دیکھیے۔ معلوم ہوتا ہے میری جڑواں بہن چلی آئی ہے۔ ویسے وہ یہاں نہیں رہتی۔ اس کا بیاہ امریکہ میں ہوا ہے اور اس کی سسرال۔۔۔

    بیاہ امریکہ میں ہوا ہے تو سسرال بھی امریکہ میں ہو گی۔ اب اسے کچھ دیر اور کان دیئے جائیں تو یہ اپنی بہن کی سسرال کا شجرہ سنا ڈالے گی۔ جے چند نے روہانسی صورت بناکر ہاں ہاں کہا اور منہ پھیر کر مجمعے کا جائزہ لینے لگا۔ اس نے دیکھا کہ خلقت کے اس ہجوم میں ہر شخص ساتھ والے سے یہی بات کہہ رہا ہے اور سات شیروں کے جنگلے میں بند وہ رنگ ماسٹر وہاں کھڑا مسکرا رہا ہے۔ جے چند حیران تھا کہ رنگ ماسٹری تو عمر بھر میں نے بھی کی لیکن جنگلے کے اندر کبھی مسکرا نہیں سکا!

    رنگ ماسٹر نے ہاتھ کے اشارے سے سب کو خاموش رہنے کے لیے کہا اور پورے تمبو میں سناٹا چھا گیا۔ کہیں سے کسی بچے کے رونے کی آواز آئی لیکن اسے بھی اسی لمحہ اس کی ماں نے خاموش کر دیا۔ پورا مجمع سراپا تجسس بنا بیٹھا تھا۔ سب کے چہروں پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں اور رنگ ماسٹر کے چہرے پر مسکراہٹ کھلی ہوئی تھی۔ اس نے مائیک اپنے ہاتھ میں لیا اور مجمعے سے مخاطب ہوا،

    ’’میں آج آپ کو ایسا کھیل دکھانے والا ہوں جسے کوئی بھی رنگ ماسٹر اپنی زندگی میں صرف ایک مرتبہ دکھا سکتا ہے۔ یہ کھیل ہی کچھ ایسا ہے کہ اسے دوسری مرتبہ نہیں کھیلا جا سکتا۔۔۔ اس کھیل کے ساتھ کھلاڑی بھی ختم ہو جاتا ہے۔‘‘

    پورے مجمعے پر موت کی اداسی چھا گئی۔ سب نے ایک آواز ہو کر کہا۔ ہم تمہیں یہ کھیل نہیں کھیلنے دیں گے۔ اس نے کہا،

    ’’میں آپ کے اس جذبے کی قدر کرتا ہوں۔۔۔ لیکن مجھے تو یہ کھیل کھیلنا ہے۔۔۔ اس تمبو میں آنے سے پہلے آپ سب اسی کھیل کو دیکھنے کے مشتاق تھے۔۔۔ سراپا اشتیاق بنے ہوئے تھے آپ سب۔‘‘

    مجمعے نے ایک مرتبہ پھر ایک آواز ہو کر کہا،

    ’’لیکن اب ہم سب سراپا التجا بنے ہوئے ہیں۔ ذرا ہماری طرف دیکھو۔۔۔ ہماری آنکھوں میں جھانکو۔۔۔ ہم دل و جان سے چاہتے ہیں کہ تم یہ کھیل نہ کھیلو۔۔۔ ہم تمہاری ہر خواہش پوری کریں گے۔۔۔ لیکن یہ کھیل نہ کھیلو!‘‘

    اس نے ہاتھ کے اشارے سے سب کو خاموش کیا اور آنکھیں موند کر کچھ دیر کے لیے دم سادھے کھڑا رہا۔ سبھوں کے دل میں ہلچل مچا رہی امید و بیم کی لہریں ان کے چہروں پر اپنا اپنا رنگ چھوڑتی جا رہی تھیں۔ سب بڑی بے چینی سے اس کے منتظر تھے کہ وہ آنکھیں کھولے اور کچھ کہے۔ یہ ذرا سا وقفہ ان کے لیے بہت طول کھینچ گیا تھا۔۔۔ یہ چند ثانیے انہیں اپنی زندگی پر بھاری معلوم ہو رہے تھے۔۔۔ یہ کچھ پل ان کے لیے کئی صدیوں کے برابر ہو گئے تھے۔۔۔ اور ادھر وہ رنگ ماسٹر تھا کہ دم سادھے، آنکھیں موندے سات شیروں کے درمیان بے حس و حرکت کھڑا تھا۔ اس کا یہ سکوت موت بن کر پورے مجمعے پر چھانے لگا۔۔۔ اور دفعتاً ان سبھوں کی سانس کی رفتار تیز ہو گئی۔۔۔ اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھے وہ سب ہانپنے لگے۔۔۔ ہر لمحہ سانس لینا ان کے لیے دشوار سے دشوارتر ہوتا جا رہا تھا۔۔۔ پورا تمبو ایک بہت بڑے پھیپھڑے میں بدل گیا۔۔۔ لیکن وہ پھیپھڑا۔۔۔ اب تو سانس لینا ایک اذیت بن گئی۔۔۔ ان کی نبضیں ڈوبنے لگیں۔۔۔ اگر چند لمحے اور یہ صورت حال برقرار رہتی تو وہ دنیا کا سب سے بڑا تمبو ایک بہت بڑے مردہ گھر میں بدل جاتا۔۔۔ لیکن اس سے پہلے ہی اس نے اپنی آنکھیں کھولی۔ ان سبھوں نے دیکھا کہ وہ اب بھی مسکرا رہا ہے۔ اس کے آنکھیں کھولتے ہی ان کی سانسیں درست ہو گئیں اور نبضیں بھی ٹھیک چلنے لگیں۔ پورے تمبو نے اطمینان کا سانس لیا۔ اس نے مائیکروفون پر کہا،

    ’’آپ کا اصرار ہے تو میں یہ کھیل نہیں کھیلوں گا لیکن میری ایک شرط ہے۔‘‘

    پورا تمبو ایک سوالیہ نشان بن گیا۔ ان سبھوں نے نظروں ہی نظروں میں اس سے کہا کہ ہمیں تمہاری ہر شرط منظور ہے۔ وہ بہ آواز بلند یہ کہنا چاہتے تھے لیکن ابھی ابھی جس اذیت سے وہ گذرے تھے اس نے کچھ دیر کے لیے ان سب کو گونگا کر دیا تھا۔ وہ منہ کھول تو رہے تھے۔۔۔ ان کی زبانیں بھی حرکت کر رہی تھیں لیکن ان کے حلق سے آواز نہیں نکل رہی تھی۔ اسی لیے انہوں نے اپنی بات نظر کے وسیلے سے اس تک پہنچائی اور وہ اس تک پہنچی بھی! اس نے اپنی شرط بیان کی۔

    ’’آپ میں سے کوئی شخص میری مسکراہٹ کے معنی بتائے۔ ہے کوئی جو اس شرط کو پورا کرے؟‘‘

    اس نے ’’ہے کوئی‘‘ کو صلائے عام کے طور پر مجمعے کی طرف اچھالا لیکن اسے جھیلنے کی سکت کسی میں نہیں تھی۔۔۔ اس کی شرط کے سامنے وہ سب بے بس و لاچار تھے لیکن وہ اس شخص کی موت دیکھنے کے لیے تیار بھی نہیں تھے۔ تمبو میں آنے سے پہلے کی بات اور تھی۔۔۔ انہیں کیا معلوم تھا کہ یہ کھیل انہیں کے ساتھ کھلواڑ کرنے والا ہے۔۔۔

    موت کے سائے ان کی آنکھوں کے سامنے سر سرانے لگے۔ فضا میں کافور کی بو پھیل گئی۔ ان سبھوں کی حالت اتنی غیر ہو گئی کہ اگر اس وقت انہیں آئینہ دکھایا جاتا تو وہ خود کو پہچان نہ پاتے لیکن مشکل یہ تھی کہ وہ سب اس رنگ ماسٹر کو پہچان رہے تھے۔ اس رنگ ماسٹر کو جسے ان کی اس حالت پر مطلق رحم نہیں آ رہا تھا اور اب بھی وہ اسی طرح مسکرا رہا تھا۔

    رنگ ماسٹر نے دیکھا کہ لوگوں کی نظریں باہر جانے کاراستہ تلاش کر رہی ہیں اور وہ دبے پاؤں وہاں سے نکل بھاگنا چاہتے ہیں۔ اس نے وہیں سے حکم دیا کہ باہر جانے کے تمام راستے بند کر دیئے جائیں اور ان کے دیکھتے دیکھتے تمام دروازے فوراً اندر سے مقفل کر دئے گئے!

    اب فرار کے تمام راستے بند تھے۔ اس کے سوا چارہ نہیں رہ گیا تھا کہ وہ اسے مرتا ہوا دیکھیں۔۔۔ لیکن۔۔۔ انہوں نے ایسا نہیں کیا۔۔۔ سبھوں نے آنکھیں بند کر لیں اور کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں۔۔۔ اس کے باوجود ان کی آنکھوں نے بہت کچھ دیکھا اور وہ رو پڑیں۔۔ اور ان کے کانوں نے بہت کچھ سنا اور وہ سن ہو گئے۔ پورا تمبو ہچکیوں اور سسکیوں سے ماتم کدہ بن گیا۔ مرد، عورت، جوان، بوڑھے، بچے سب دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے۔۔۔ اس وشال تمبو میں ہر شخص ماتمی تھا۔۔۔ کون کس کو دلاسہ دیتا۔۔۔ عورتوں نے اپنے آنچل منہ میں ٹھونس لیے لیکن ضبط کی ہر تدبیر بے سود ثابت ہوئی۔۔۔ رہ رہ کر ان کا کلیجہ منہ کو آ رہا تھا۔۔۔ آنسوؤں کے تار بندھ گئے تھے۔ دنیا کا سب سے بڑا تمبو ایک بہت بڑا ماتم کدہ بن گیا تھا۔۔۔ ایک کہرام مچا ہوا تھا۔

    تماشائیوں کے اس مجمعے میں جے چند اکیلا شخص تھا جو زندگی میں کسی وقت رنگ ماسٹر رہ چکا تھا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو کا ایک قطرہ نہیں ٹپکا ااور نہ ہی وہ اس کرب و اذیت کا ساجھے دار بن پایا جو اس وقت اس مجمعے کا مقدر بن گیا تھا۔۔۔ سب بھول گئے تھے لیکن جے چند کو یاد تھا کہ اعلان کے مطابق رنگ ماسٹر کا آئیٹم پہلا آئیٹم تھا یعنی ابھی شو جاری ہے۔

    وہ منتظر تھا کہ بینڈ کی ماتمی دھن کسی شوخ نغمے کی لے میں ڈھل جائے اور کھیل جاری رہے لیکن اس ماتمی دھن کے ساتھ ساتھ اسے دھپ دھپ کی آوازیں بھی سنائی دینے لگیں اور ان سسکیوں کے ساتھ اس کے کانوں میں گھنٹیاں بھی بجنے لگیں۔ پھر تو یہ ہوا کہ ماتم کدے کا شور پس سماعت رہ گیا اور دھپ دھپ کی آواز اور گھنٹیوں کی ٹن ٹن اس کے کانوں میں گونجنے لگی۔۔۔ اور اس کی آنکھ کھل گئی۔

    کوئی مسلسل دروازے کو پیٹے جا رہا تھا اور اسی کے ساتھ کال بیل بھی بجا رہا تھا۔ جے چند کی آنکھ تو کھل گئی تھی لیکن تمبو کے کہرام سے نکل کر اپنے بیڈ روم تک آنے میں اسے کچھ وقت لگا۔ اس دوران دروازے کا پٹنا اور کال بیل کا بجنا جاری رہا۔ اس کی بیوی بھی جاگ گئی۔ دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ بیوی نے سہمی ہوئی آواز میں کہا،

    ’’کہیں۔۔۔‘‘

    اور اس نے گردن ہلا کر جواب دیا۔

    ’’ایسا ہی لگتا ہے۔۔۔‘‘

    ادھر آٹھ دنوں میں ان کے دو پڑوسیوں کو ہسپتال میں داخل کیا گیا تھا۔ ایک ستر برس کا بوڑھا تھا اور ایک چالیس برس کا جوان۔ مرض دونوں کے مہلک تھے اور آخری مرحلے میں پہنچ گئے تھے۔ دونوں کو ان ٹینسیو کئیر یونٹ میں رکھا گیا تھا۔ کسی بھی وقت دونوں میں سے کسی کے بھی تعلق سے ایسی ویسی خبر آسکتی تھی۔ بلڈنگ والے سانس روکے ہر پل اس ان چاہی خبر کے انتظار میں تھے۔

    بیوی نے جے چند کی طرف دیکھا۔ اس کی نظریں کہہ رہی تھیں کہ ایسی خبر کے لانے والے کے لیے میں دروازہ کھولنا نہیں چاہتی۔ کیوں نہ آپ ہی آگے بڑھیں۔۔۔ جے چند نے دروازہ کھولا سامنے گھوش بابو کھڑے تھے۔

    ’’کیا بات ہے؟ گھوش بابو! صبح صبح۔۔۔‘‘

    ’’کیا بتاؤں جے چند جی! صبح صبح اپنے ان کا دیہانت ہو گیا۔‘‘

    گھوش بابو نام بھولتے تھے، یہ پوری بلڈنگ جانتی تھی۔ اس قسم کے نازک موقعوں پر ان کی یہ عادت عجیب صورت حال پیدا کر دیتی تھی۔ جے چند سوچنے لگے۔ ان دونوں ہی میں سے کوئی ہے۔ یا۔۔۔ اگر کوئی اور نہیں تو ان دونوں میں سے کون ہے۔ انہوں نے گھوش بابو کا ہاتھ پکڑا۔ انہیں اندر لے آئے۔ صوفے پر بٹھایا۔ جب تک ان کی بیوی اندر سے پانی لے آئی۔ گھوش بابو اطمینان سے بیٹھ کر پانی پی چکے تو جے چند نے کہا۔

    ’’اب کہئے!‘‘

    گھوش بابو نے بڑی ندامت کے ساتھ کہا،

    ’’کیا بتاؤں جے چندجی۔۔۔! میری یہ عادت۔۔۔ وہ اپنی بلڈنگ کی تیسری منزل والے۔۔۔ پچھلے دنوں ان کے یہاں لڑکا ہوا تھا۔۔۔ کیا نام رکھا اس لڑکے کا۔۔۔‘‘

    جے چند سمجھ گئے کہ خبر ان کے کس پڑوسی سے متعلق ہے۔ انہوں نے کہا۔

    ’’گھوش بابو! یوں کہئے کہ ہمارے موہن بابو نہیں رہے۔ موہن چندر شرما۔۔۔!‘‘

    ’’جی ہاں وہی نہیں رہے۔۔۔ موہن بابو۔۔۔ انتم سنسکار کی تیاریاں پوری ہو گئی ہیں۔۔۔ مشکل یہ ہوئی کہ ان کے گھر والے ڈیڈ باڈی کے ساتھ ڈیتھ سرٹی فیکیٹ نہیں لائے۔‘‘

    ’’اس میں مشکل کیا ہے؟ وہ تو اب بھی مل سکتی ہے۔ ہم میں سے کوئی بھی جاکر۔۔۔‘‘

    ’’جے چند جی! یہی تو مشکل ہے کچھ ایسا ہوا ہے کہ یہ کام میرے ذمے آ گیا ہے۔۔۔ اور میری یہ عادت۔۔۔ کمزوری۔۔۔ کہہ لیجئے اسے۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ میرے ساتھ چلیں۔‘‘

    جے چند نے ہامی بھر لی اور چلنے کی تیاری کرنے لگے۔ ابھی تو سو کر اٹھے تھے۔ گھوش بابو سے معذرت چاہی اور باتھ روم چلے گئے۔ ان کی بیوی نے گھوش بابو کو چائے کے لیے پوچھا لیکن انہوں نے انکار کیا۔ کمرے میں پراسرار سکوت چھایا ہوا تھا۔ گھوش بابو صبح صبح خبر ہی کچھ ایسی لے کر آئے تھے۔ گھوش بابو کو سوجھ نہیں رہا تھا کہ جے چند کے تیار ہونے تک وہ وقت کیسے گذاریں۔ ابھی صبح کا اخبار بھی نہیں آیا تھا اور مسز جے چند سے بات کریں تو کس موضوع پر؟ انہوں نے یونہی مسز جے چند کی خیریت دریافت کی تو انہوں نے کہا۔

    ’’بھائی صاحب! میں تو اچھی ہوں۔۔۔ آپ اپنی اس عادت کو کچھ کیجئے۔۔۔ چھوڑ کیوں نہیں دیتے اسے۔‘‘

    گھوش بابو نے بڑی بے بسی کے ساتھ کہا،

    ’’بھابی! چھوٹے تو میں آج چھوڑوں!‘‘

    گھوش بابو اور جے چند دونوں ہسپتال پہنچے۔ بہت بڑا ہسپتال تھا۔ اپنے پڑوسی کی عیادت کے لیے وہ کئی بار یہاں آ چکے تھے۔ انکوائری کا ؤنٹر سے وہ سیدھے اس کلرک کے پاس گئے جس کا کام مریضوں اور مرنے والوں کے عزیزوں کو مختلف قسم کے سرٹی فیکیٹ حوالے کرنا تھا۔ وہ آنے والوں سے دو ایک ضروری باتیں پوچھ کر تیار شدہ سر ٹی فیکیٹوں میں سے متعلقہ سرٹیفیکیٹ نکال کرا ن کے حوالے کرتا اور ان سے اس کی رسید لکھوا لیتا تھا۔ موہن بابو کے گھر والے موت کی سر ٹی فیکیٹ کی درخواست بڑے ڈاکٹر کو دے آئے تھے اور ڈاکٹر کا دستخط شدہ سرٹیفیکیٹ اس کلرک کی میز پر کھے فائلوں میں سے ایک فائل میں رکھا تھا۔ جس پر سیاہ فیتہ چڑھا تھا۔

    جے چند نے کلرک کو اپنے آنے کی وجہ بتائی۔ کلرک نے سیاہ فیتے کا فائل اٹھایا۔ جے چند کو بیٹھنے کے لیے کہا۔ جے چند اس کے سامنے رکھی کرسی پر بیٹھ گئے اور گھوش بابو ان کے برابر کھڑے ہو گئے۔ کلرک نے سوا ل کیا۔

    ’’مرنے والے کا نام؟‘‘

    اسے جواب ملا۔

    ’’جے چند ولد ہری چند‘‘

    کلرک نے دوسرا سوال کیا۔

    ’’مرنے والے کی عمر؟‘‘

    اسے جواب ملا۔

    ’’چونسٹھ سال‘‘

    گھوش بابو کو آج تک صرف اپنی یادداشت سے شکایت تھی۔ اب انہیں اپنی سماعت بھی مشکوک معلوم ہونے لگی۔ لیکن انہوں نے بہت جلد خود کو سنبھالا اور بڑے اعتماد کے ساتھ جے چند کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔

    ’’جے چندجی! یہ صاحب آپ کے بارے میں نہیں پوچھ رہے ہیں۔ موہن بابو کے بارے میں پوچھ رہے ہیں۔ اپنے موہن چند ر شرما۔ عمر چالیس سال‘‘

    جے چند کرسی سے اٹھ کھڑے ہوئے۔ انہوں نے گھوش بابو کی طرف ایک بھرپور نظر ڈالی۔ ان کے چہرے پر مسکراہٹ کی ہلکی سی لکیر ابھری، انہوں نے گھوش بابو کو اس کرسی پر بٹھایا جس پر کچھ دیر پہلے وہ بیٹھے تھے اور مڑ کر اکیلے ہی گھر کی طرف چل دیئے۔

    اس رات جب جے چند اپنے بستر پر لیٹے تو کافی دیر تک انہوں نے انتظار کیا کہ وہ چھت کی منوں وزنی سل اپنی جگہ سے ہٹ کر ان کے سینے پر آ جائے اور وہ پاس رکھا ٹیلی فون دور بہت دور چلا جائے۔ ہوا سائیں سائیں کرنے لگے اور کمرہ لڑ کھڑانے لگے۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا اور جب انہوں نے دیکھا کہ کچھ نہیں ہو رہا ہے تو انہوں نے چادر اوڑھ لی اور گہری نیند سو گئے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے