Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

رشتے

MORE BYدیپک کنول

    علی پواؔ کو میں ان دنوں سے جانتا تھا جب وہ پلیڈیم سینما میں ٹکٹیں بلیک کیا کرتا تھا۔ بڑا بد صورت اور کالا بھجنگ آدمی جسکا منھ نہ ماتھا۔ چیچک نے اس کے منہ پر یوں دل کھول کر گلکاری کی تھی کہ دور سے دیکھنے پر ایسا لگتا تھا جیسے تارکول کی سڑک پر برسات کے سبب گڈھے ہی گڈھے پڑے ہوں۔ ایسے جھابڑ جھلے کو دیکھ کر اچھے اچھوں کو وحشت ہونے لگتی تھی۔ وہ جتنا بد خو اور بد رو تھا اتنا ہی موذی اور ستمگر۔ ایک تو دس کی ٹکٹ پچاس میں بیچتا تھا اوپر سے ایسی اینٹھ دکھاتا تھا جیسے ٹکٹ دے کر احسان کر رہا ہو۔ اس سے حیل و حجت کرنا بھڑکے چھتے میں ہاتھ ڈالنے کے مترادف تھا۔ ہر دم غصہ اس کی ناک پر ہوتا تھا۔ بات بات پر وہ چھری کٹاری دکھا تا یا گالی گلوچ پر اتر آتا تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے وہ کسی بے درد قصائی کے گھر پیدا ہوا ہو جسے پرائی پیڑا سے کوئی لینا دینا ہی نہیں۔ جو کوئی بھی اس سے الجھنے کی کوشش کرتا تھا تو اس کے گرگے اس پر یوں ٹوٹ پڑتے تھے جیسے گدھ مردار جانور پر۔ وہ مار مار کر اس کا حال حلیہ اس طرح بگاڑ کر رکھ دیتے کہ دوبارہ وہ شریف ذادہ لال چوک یا اس کے آس پاس کہیں دکھائی نہیں دیتا تھا اس کی اس دادا گیری کے گواہ تو سینکڑوں لوگ ہوتے تھے پر کیا مجال کہ کوئی اسے روکنے یا ٹوکنے کا حوصلہ دکھا سکے۔ تماش بین تو تماش بین، پولیس والے بھی اس کے آگے بھیگی بلی بن کر رہتے تھے۔ دراصل اسنے لال چوک کے علاقے میں ایسی دہشت اور دبدبہ بنا کے رکھا تھا کہ کوئی اس کے خلاف منہ کھولنے کی جرات نہیں کر پاتا تھا۔ جب پانی میں رہنا ہو تو مگر مچھ سے کوئی بیر کیوں لے۔ سچ پوچھئے تو وہ لال چوک کا ایسا بے تاج بادشاہ تھا جسکی اجازت کے بنا یہاں پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا تھا۔

    یہ وہ زمانہ تھا جب سینما ہی لوگوں کی تفریح کا واحد ذریعہ تھا۔ جس دن کوئی بھی نئی فلم پلیڈیم میں لگتی تھی تو سینما دیکھنے والوں کی بھیڑ پلیڈیم پر ٹوٹ پڑتی تھی۔

    فلم بینوں کے اس انبوہ کو قابو کرنا مشکل ہو جاتا تھا۔ پولیس اس جم عفیر کو دیکھ کر اپنے ہاتھ پہلے ہی کھڑی کر دیتی تھی۔ بھیڑ کو قابو کرنے کے لئے علی پواؔ اور اس کے گرگوں کی مدد لی جاتی تھی جنہوں نے اس سینما کو اپنی آماجگاہ بنا لیا تھا۔ ایکبار علی پواؔ کی فوج میدان میں اتر گئی تو پھر اس سینما کا اچھا خاصا میدان رزمگاہ میں تبدیل ہو جاتا تھا۔

    تماش بین ایسے دم دبا کر بھاگنے لگتے تھے جیسے ان کے پیچھے شکاری کتے لگے ہوں۔ مجھ جیسے لاغر اور ناتوان آدمی میدان چھوڑ کر بھاگنے میں ہی خیر و عافیت سمجھتے تھے پر کچھ جیالے ایسے بھی ہوتے تھے جنہیں علی پواؔ کی لاٹھیاں کھانے کا ایسا چسکا لگ چکا تھا کہ جب تک وہ دو چار ڈنڈے نہیں کھاتے تھے انہیں فلم دیکھنے میں مزہ ہی نہیں آتا تھا۔

    آخر وہ تفریح کیسی جس میں درد اور تکلیف شامل نہ ہو۔ خوشی کا مزہ تب ہی دوبالا ہو جاتا ہے جب یہ رنج وغم کے بعد ملے۔ یہی حال سینما کی ٹکٹ کا بھی تھا۔ اس لاٹھی پونگا کے میدان کار زار سے سرخ رو ہونے کے بعد ہی فلم بینوں کو فلم دیکھنے میں لطف آتا تھا۔

    مجھے یاد ہے کہ ایکبار میں نے خود ٹکٹ نکالنے کی حماقت کی تھی۔ انگریزی فلم لگی ہوئی تھی۔ ٹکٹ گھر میں زیادہ رش دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ میں نے جونہی ٹکٹ کھڑکی میں ہاتھ ڈالا پتہ نہیں بہت سارے ہاتھ کہاں سے نکل آئے اور گدھ بن کر مجھ پر ٹوٹ پڑے۔ اتنے سارے ہاتھ جب بیک وقت چھوٹی سی کھڑکی میں گھس گئے تو میرا کمزور ہاتھ ان ہاتھوں کے بیچ پھنس کر رہ گیا۔ میری نسیں پھٹ پڑیں۔ میں چیخنے چلانے لگا مگر میری آہ و بکا پر کسی نے کان ہی نہیں دھرا۔ میرے ہاتھ سے خون رسنے لگا، تب بھی کسی کو مجھ پر دیا نہ آئی۔ بڑی دیر کے بعد میری جان چھوٹی مگر بہت سارا خون بہانے کے بعد۔ اس دن کے بعد میں نے قسم کھائی کہ اب میں دوبارہ اس قسم کی حماقت نہیں کروں گا بھلے ہی کھڑکی گھر میں الو کیوں نہ بول رہے ہوں۔

    یہیں سے علی پواؔ کے ساتھ میر ی جان پہچان ہوگئی۔ علی پواؔ بلا کا مے نوش تھا۔ جب دیکھو کوٹ کی اندرونی جیب میں ایک دارو کا پوا پڑا رہتا تھا۔ گلا سوکھا نہیں کہ پوے کا ڈھکن کھولا اور کھڑے کھڑے دو تین گھونٹ نیٹ پی گیا۔ بس انہی شراب کے پوں کی وجہ سے اس کا نام علی پوا پڑ گیا تھا۔ دن بھر حرام کی کمائی سے اپنی جیبیں بھرتا تھا۔ کچھ اپنے اہالی موالیوں کی نذر کرتا تھا جنہیں اُس نے اپنی شان بڑھانے کے لئے پال کر رکھا تھا۔ یعنی چوہا بل میں سماتا نہیں دمُ سے بندھا چھاج۔ ان سے پلا چھوٹا نہیں کہ پولیس والے منھ پھاڑ کے کھڑے ہو جاتے تھے۔ ان کی منھ بھرائی کرکے جو پیسے بچتے تھے وہ شراب نوشی یا رنڈی بازی میں چلے جاتے تھے۔ کہتے ہیں کہ کنویں کی مٹی کنویں کو ہی لگتی ہے یعنی کالی کمائی جس حرام کے راستے سے آتی ہے اسی راستے سے واپس چلی جاتی ہے۔ حرام کی کمائی کا یہ اصول ہے کہ وہ کبھی ایک جگہ ٹکتی نہیں۔ علی پوےؔ نے بےپناہ دولت کمائی مگر اللے تللے کرکے وہ کنگال کا کنگال ہی رہا۔ ایک دن وہ آدھی رات تک خم پر خم چڑھاتا رہا۔ جب وہ پوری طرح نشے میں غین ہوگیا تو وہ اٹھا اور جھومتے جھامتے گھر کی جانب چل پڑا۔ گہرا اندھیرا تھا۔ راستے میں کہیں جھونک آ گئی اور وہ سیدھے ایک گہری نالی میں جا گرا۔ سر پر گہری چوٹ لگی۔ یہ تو اس کی قسمت اچھی تھی کہ اتفاقاً وہاں سے ایک پولیس کی جیپ گزری جنہوں نے اُسے نالی سے نکال کر اسپتال پہونچا دیا۔ اگلے روز اس کے چیلے چانٹوں کو اس کے گھائل ہونے کی خبر لگی۔ سب لوگ اسپتال کی طرف بھاگے مگر جب دوا دارو کی بات چلی تو کسی نے بھی اپنی گانٹھ گرہ ڈھیلی نہ کی۔ خرچے کا نام سنتے ہی وہ لوگ ایک ایک کرکے وہاں سے کھسکنے لگے۔ دراصل وہ خود کوڑی کوڑی کے محتاج تھے۔ یعنی آپ ہی میاں منگتے باہر کھڑے درویش۔ وہ زمانہ بڑی تنگدستی اور مفلسی کا تھا۔ ایسے لوگوں کی تعداد کچھ زیادہ تھی جنہیں پانی پینے کے لئے روز کنواں کھودنا پڑتا تھا۔ ایک روپیہ کمانے کے لئے خون پسینہ ایک کرنا پڑتا تھا۔ روپیے کی بڑی قدروقیمت تھی۔ آمدن محدود تھی پر اس تھوڑی سی آمدن میں بھی بڑی برکت تھی۔ اُن دنوں کشمیر میں بد حالی اور بھکمری کا دور دورہ تھا۔

    علی پواؔ قبر کا منہ جھانک کر کیا آیا اس نے کالا دھندہ کرنے سے توبہ تلا کر لی۔ اس حادثے نے علی پواؔ کی آنکھیں کھول دیں اور وہ حلال اور حرام کی کمائی کے مراد و مطلب سمجھ گیا۔ وہ جب اسپتال سے چھوٹ کر آیا تو اس نے پلیڈیم سینما کا رخ کرنے کی بجائے ایک سیاسی دبنگ کی کوٹھی کا رخ کیا جس کی ان دنوں وادی می طوطی بولتی تھی اور جسے علی پواؔ جیسے غنڈے موالیوں کا سر پرست مانا جاتا تھا۔ وہ علی پواؔ کی جان نثاری اور وفا داری کا شروع سے ہی قائل تھا کیونکہ اس کی پارٹی کو بر سر اقتدار لانے میں علی پواؔ جیسے غنڈے موالیوں کا کافی عمل دخل تھا۔ علی پواؔ جاکے اپنے محسن کے قدموں میں لوٹنے لگا اور تب تک اُسکے قدموں سے لپٹا رہا جب تک اُس نے علی پواؔ کو جموں کشمیر روڑ ٹرانسپورٹ میں نوکری دلانے کا بھروسہ نہ دیا۔

    مجھے اس محکمے میں تازہ تازہ نوکری مل گئی تھی اور نوکری بھی ایسی کہ مجھے تمام ڈرائیوروں اور کلینروں کی حاضری رکھنی پڑتی تھی اور ساتھ ہی ان کی ڈیوٹی لگانا ہوتی تھی۔ کون کلینر کس ٹرک کے ساتھ جائےگا اسکا فیصلہ میں کرتا تھا۔ ہزار بارہ سو ملازم اس محکمے میں کام کرتے تھے اور مزے کی بات یہ تھی کہ مجھے سارے کلینروں کے رجسٹریشن نمبر ازبر تھے۔ ایک دن جب میں آفس میں بیٹھا تھا کہ علی پواؔ اپنے دوتین حواریوں کے ساتھ ہاتھ میں آڈر کی کاپی لئے ہوئے میرے آفس میں ایسے سینہ تان کے داخل ہوا جیسے وہ یہاں چھاپہ ڈالنے والا ہو۔ ایک پل کے لئے میری سانس رک گئی اور میں پھٹی پھٹی آنکھوں سے اس کی طرف دیکھنے لگا جو چھاتی پھلائے میرے سامنے کھڑا تھا۔ میں دل ہی دل میں حاکمان وقت کو کوسنے لگا جنہوں نے ایسے موالی کو ہمارے گلے منڈھ دیا تھا۔ اس بلا کو قابو میں رکھنا آسان نہ تھا۔ ایک تو وہ شہر کا نامی گرامی غنڈہ بدمعاش اوپر سے حکمران پارٹی کے ایک دبنگ کی ناک کا بال، ایسے میں اس آدمی پر حاکمانہ دھونس جمانا اپنے ہی ہاتھوں اپنی قبر کھودنے کے مترادف تھا۔ بہرحال مجھے اپنا دفتری دستور تو نبھانا ہی تھا سو میں نے اُسکے ہاتھ سے آڈر کی کاپی لی اور اپنے رجسٹر میں اس کا نام درج کر لیا۔ اس نے خوش ہوکر میرے ہاتھ میں دس کا ایک کرارا نوٹ رکھا۔ نوٹ دیکھ کے میں ایسے اچھل پڑا جیسے اس نے میری ہتھیلی پر دہکتا ہوا انگارہ رکھ دیا ہو۔ میں نے نوٹ لینے سے صاف انکار کر دیا مگر وہ بھی کہاں ہار ماننے والا تھا۔ چنانچہ اس نے مجھے بڑے پیار سے اپنی گرفت میں اس طرح لے لیا کہ نہ چاہتے ہوئے بھی مجھے وہ نوٹ قبول کرنا پڑا۔

    علی پواؔ ڈیوٹی دینے کے لئے اتاولا ہوا جا رہا تھا۔ میں جس کسی بھی ڈرائیور سے اسے اپنے ساتھ رکھنے کے لئے کہتا وہی ایسے بھاگ جاتا تھا جیسے میں نے اس کے پیچھے باولا کتا چھوڑ دیا ہو۔ دراصل علی پواؔ کا کردار ایک کھلی کتاب کی طرح تھا۔ اس کی اصلیت کسی سے پوشیدہ نہ تھی۔ وہ کہتے ہیں نا کہ ڈائن کھائے تو منھ لال نہ کھائے تو منھ لال۔ یہی حال علی پوےؔ کا تھا۔ گو کہ اس نے سارے برے کاموں سے توبہ کر لی تھی پھر بھی کوئی اسے اپنے ساتھ رکھنے کے لئے تیار نہ تھا۔ ایک دن مجھے بیٹھے بیٹھے ایک ایسے ڈرائیور کا خیال آیا جو علی پوےؔ کی طرح ہی بلا کا مے نوش تھا۔ اس ڈرائیور کا نام کاشی ناتھ تھا مگر لوگ باگ اسے کاشی وسکیؔ کے نام سے جانتے تھے۔

    کاشی وسکیؔ بڑا مست ملنگ آدمی تھا۔ نہ کسی کے لینے میں نہ دینے میں۔ وہ بس اپنے کام سے کام رکھنا جانتا تھا۔ وہ جب جموں کا پھیرہ لگا کے آتا تھا تو اپنا ٹرک چوکیدار کے متھے مار کر لال چوک پہونچ جایا کرتا تھا اور وہاں وسکی کی ایک بوتل لے کر کسی ڈھابے میں گھس جاتا تھا اور چار چھ پیگ پیٹ میں انڈیل کر جب وہ غین ہوجاتا تھا تو اٹھکر گھر کی راہ ہو لیتا تھا۔ گھر میں ایک سیدھی سادھی بیوی تھی جو رام جی کی گائے تھی۔ وہ شوہر کی سیوا ٹہل کو ہی اپنی زندگی کا نصب العین سمجھتی تھی۔ کاشی وسکی ؔگھر میں گھستے ہی اُودھم مچانے لگاتا تھا۔ کبھی بیوی کو بانجھ کہہ کر اُس کے دل و جگر کو چھلنی کر دیتا تھا تو کبھی اسے گنوار اور پھوہڑ کہہ کر ذلیل کرتا تھا۔ کبھی کھانے میں ذرا سا نقص نکال کر اسے بڑی بے رحمی سے پیٹا کرتا تھا۔ وہ بھی نہ جانے کس مٹی کی بنی ہوئی تھی کہ اتنے سارے جور و جفا کے باوجود اف تک نہ کرتی تھی۔

    میں نے سوچا کہ علی پواؔ اور کاشی وسکی کا ملن خوب رہےگا۔ کہنے والے بڑی بے باکی سے کہہ پائیں گے کہ اللہ ملائی کیا جوڑی ایک اندھا، ایک کوڑی۔ میں نے جب علی پواؔ کی ڈیوٹی کاشی وسکی کے ٹرک کے ساتھ لگا دی تو اُسنے کوئی ہو ہلا نہیں مچایا بلکہ الٹا اس نے علی پواؔ کا بڑی گرم جوشی سے خیر مقدم کیا۔ دراصل کاشی وسکیؔ علی پواؔ کو بہت پہلے سے جانتا تھا۔ کہتے ہیں شرابیوں کی دوستی بڑی پکی اور اٹوٹ ہوتی ہے۔ شراب انہیں ایسے باندھ کے رکھتی ہے کہ وہ ایک دوسرے کی چھایا بن کر رہ جاتے ہیں۔ میرا خیال درست ثابت ہوا۔ کاشی وسکیؔ اور علی پوےؔ میں ایسی جم گئی کہ دوسرے ملازم انہیں رشک بھری نظروں سے دیکھنے لگے۔ علی پواؔ اتنا کمینہ اور بد ذات ہونے کے باوجود کاشی وسکی کی ایسی سیوا ٹہل کرنے لگا کہ دوسرے کلینر انگشت بدندان ہوکر رہ جاتے تھے۔ و ہ خر دماغ اور جھگڑالو ہونے کے باوجود اپنے اُستاد کی ہر بات مان لیا کرتا تھا۔ جہاں پر رات کو ٹرک رک جایا کرتا تھا وہ بیٹھ کر کھانا بنانے لگتا تھا۔ جب کاشی وسکی دوتین پیگ پی کر ترنگ میں آجاتا تھا تو وہ علی پوےؔ کو بلا کر اُسے ایک آدھ پیگ پلا دیتا تھا۔ بس ایک بار دارو چل گئی تو پھر وہ دنیا و مافہیا کو بھول جاتے تھے پر علی پواؔ کتنا بھی پئے وہ اپنے ہوش و حواس بہت ہی کم کھو بیٹھتا تھا۔ وہ پی پا کے سب سے پہلے اپنے استاد کے سامنے کھانا لگا دیتا تھا۔ کاشی وسکیؔ جیسے تیسے کرکے دو چار نوالے لیکر اوندھے پڑ جاتا تھا۔ علی پواؔ اسے کھینچ کھانچ کے ٹرک تک لے آتا تھا اور پھر اُسکے سرہانے کے نیچے تکیہ رکھ کر اور اس کے اوپر کمبل ڈال کر وہ یوں مطمعین ہو جاتا تھا جیسے وہ چار دام کی تیرتھ کرکے آ گیا ہو۔ کاشی وسکیؔ اس کی فرما برداری سے بہت خوش تھا۔ راستے میں جو بھی اوپر کی کمائی ہوتی تھی اب وہ اسے اکیلے ہضم نہیں کرتا تھا بلکہ اس نے علی پوےؔ کو بھی اس کمائی میں شریک بنا دیا تھا۔ علی پوےؔ کے دن پھر گئے تھے۔ اب تو لگی بندھی آمدن کے علاوہ بھی دوسری آمدنی کی سبیل ہو گئی تھی۔ اب اُسے کوئی بھی الٹا سیدھا دھندہ کرنے کی ضرورت نہ تھی۔

    علی پواؔ نے اپنی جان نثاری سے اپنے استاد کا دل اس حد تک جیت لیا کہ اب وہ اسے کبھی کبھی رات کو اپنے ساتھ گھر لے آتا تھا اور پھر اسے اپنے ہی بستر پر سلا دیتا تھا۔ دھیرے دھیرے علی پواؔ کاشی کی زندگی کا جزو لانفیک بن گیا۔ گھر میں سبزی پہونچانی ہو تو علی پواؔ حاضر ہے۔ جانکی کو ڈاکٹر کے پاس کبھی جانا ہو تو کاشی خود نہیں جائےگا بلکہ علی پوےؔ کو اس کے ساتھ بھیج دےگا۔ علی پواؔ ایک بد نام زماں کردار تھا جسکا ماضی سیاہ کاریوں سے بھرا پڑا تھا۔ کہتے ہی کہ بد اچھا بدنام برا۔ علی پواؔ کاماضی آسیب بن کر اس کا پیچھا کرتا رہا۔ جانکی اور علی پواؔ کی قربت دیکھ کر اڑوسیوں پڑوسیوں کے دل و دماغ میں شک کے کیڑے کلبلانے لگے۔ محلے میں چمیگوئیاں ہونے لگیں۔ اڑتے اڑتے یہ خبر ڈرائیوروں تک بھی پہونچ گئی۔ انہوں نے اسمیں اپنی طرف سے نمک مرچ لگاکر اس طرح پیش کیا کہ جانکی کی شبہہ ایک رنڈی سے بھی بد تر ہوکر رہ گئی۔ کاشی کے ناتے قرابت دار اس رشتے کو لے کر کافی دکھی اور پریشان تھے۔ محلے کی پنڈت برادری پیٹھ پیچھے کاشی کو تبرہ بھیجتے تھے مگر سامنے کوئی آنا نہیں چاہتا تھا۔ یہاں پر اُنکو اپنی عزت کی فکر ستانے لگتی تھی کیونکہ کاشی بڑا بد گو اورخر دماغ تھا۔ اس کو چھیڑنا بھڑکے چھتے میں ہاتھ ڈالنے سے کم نہ تھا اس لئے مسلہ یہی بنا رہا کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے۔ باتیں کرنا تو سب کو آتا ہے مگر جہاں قول و فعل کی بات ہو وہاں سب کنی کترانے لگتے ہیں۔ محلے میں آئے دن اسی بات کے چرچے ہوتے رہتے تھے پر کسی مائی کے لال میں علی پواؔ یا کاشی وسکی کو تنبہہ کرنے کا یارا نہ تھا۔ اُنکی عدم موجودگی میں تو وہ ان کی جی بھر کے غیبت کرتے رہتے تھے مگر جونہی وہ سامنے آ جایا کرتے تھے تو سبھوں کو جیسے سانپ سونگھ جاتا تھا۔ انہیں دیکھتے ہی ہر ایک کے منھ پر تالا پڑ جاتا تھا۔

    ایک دن کاشی وسکیؔ رات کو ہارٹ اٹیک سے مر گیا۔ صبح ہوتے ہوتے برادری کے لوگ جمع ہو گئے اور انہوں نے اپنی دیکھ ریکھ میں کاشی کا داہ سنسکار کرا دیا۔

    جانکی پچھاڑیں کھا کھا کے رو رہی تھی پر محلے کی عورتیں اس کی طرف ایسے دیکھ رہی تھیں جیسے کہہ رہی ہوں۔ آنسو ایک نہیں کلیجہ ٹوک ٹوک۔ جانکی کی دنیا اجاڑ اور ویران ہو چکی تھی پر سب کو یہی لگ رہا تھا جیسے یہ سب ڈھول کا پول ہو۔ کوئی اس کے رنج و غم کو سمجھ ہی نہیں پایا۔ انہیں اس کی ماتم داری ایک ڈھکوسلہ اور آنکھوں سے بہنے والے آنسو مگرمچھ کے آنسو لگ رہے تھے۔ اس شبہ کو اس وقت تقویت مل جاتی تھی جب علی پواؔ پاس پڑوسیوں اور رشتہ داروں کی موجودگی میں جانکی کی ڈھارس باندھنے لگتا تھا۔ یہ عالم دیکھ کر سب سے پہلے پڑوسیوں نے کھسکنا شروع کر دیا۔ اس کے بعد رشتہ دار بھی ایک ایک کرکے سرکنے لگے۔ لے دے کے گھر میں صرف دو ہی بندے رہ گئے۔ علی پواؔ اور جانکی۔ جانکی سر پر خا ک ڈال کے بیٹھی تھی۔ اسے پتہ ہی نہیں چلاکہ تعزیت پرسی کے لئے آئے ہوئے لوگ اتنی جلدی چلے کیوں گئے۔

    علی پواؔ اپنے استاد کے اسطرح چلے جانے سے بڑا دکھی اور اداس رہنے لگا۔ پہلے پوے سے تشفی ہوتی تھی۔ اب تو آدھی بوتل خالی کرکے بھی نشہ نہیں آتا تھا۔ جب بھی وہ بوتل کھول کے بیٹھ جاتا تھا تو سامنے کاشی وسکیؔ بیٹھا ہوا ملتا تھا۔ اسے کاشی شدت سے یاد آ رہا تھا۔ وہ اسے لاکھ بھلانے کی کوشش کرتا تھا مگر وہ اسے بھلائے نہیں بھول رہا تھا۔ وہ جیسے اس کے دل و دماغ پر چھایا ہوا تھا۔ علی پواؔ اتنا سخت گیر اور بےرحم ہونے کے باوجود کبھی کبھی بچے کی طرح بلک بلک کر رونے لگتا تھا۔

    کاشی وسکیؔ کے چلے جانے کے بعد علی پواؔ نے جانکی کے یہاں ہی ڈیرہ ڈال دیا تھا۔ کل تک جو لوگ دبی زبان سے ان دونوں کے رشتے پر سوال اُٹھا رہے تھے اب وہی کھلے عام ان دونوں کے نا جائز رشتے پرحاشیہ چڑھانے لگے۔ ایک دن علی پواؔ رات کو جب پی پا کے جانکی کے گھر کی جانب بڑھ رہا تھا کہ کسی اندھیرے کونے میں ایک پنڈت لونڈے نے علی پواؔ اور جانکی کے ناجائز رشتے کے تعلق سے کوئی بات کہی۔ بس پھر کیا تھا۔ ایسا لگا جیسے محلے میں بھیانک طوفان آ گیا ہو۔ علی پواؔ نے ایسا ہنگامہ مچایاکہ محلے کے سبھی پنڈت گھروں میں دبک کر بیٹھے رہے۔ اس نے سڑک کے بلب توڑ دئے۔ گھروں کے شیشے پھوڑ دئے۔ اس کی زبان سے شعلے برس رہے تھے۔ وہ گندی گندی گالیاں دیکر محلے والوں کو للکار رہا تھا مگر کوئی مائی کا لال باہر آکر اس سے لوہا لینے کے لئے تیار نہ تھا۔ سبھی گونگے بہرے بنے بیٹھے رہے۔ جب وہ شانت نہ ہوا تو جانکی کو باہر آکر اسے رام کرنا پڑا۔ وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے اندر تو لے آئی مگر اندر آکر بھی وہ اپنی چونچ بند نہ رکھ سکا۔ وہ اچھل اچھل کر دشنام طرازی کرتا رہا۔ تھوڑی دیر بعد جانکی نے اس کے سامنے کھانا رکھ دیا۔ پہلے تو اس نے کھانے سے انکار کر دیا لیکن جب وہ پیچھے پڑ گئی تو اس نے دو تین نوالے زہر مار کر کھا لئے۔

    اس واقعے کے بعد جانکی کو کوئی بات اندر ہی اندر کھائے جانے لگی۔ محلے کے لوگ اس سے یوں دور دور بھاگتے تھے جیسے اسے چھوت کی بیماری لگی ہو۔ وہ کسی سے بات کرنا چاہتی تھی تو وہ ایسے کنی کاٹ کے نکل جاتا تھا جیسے اسے جانتا تک نہ ہو۔ ان کے اس رویے سے جانکی کا دل ریزہ ریزہ ہوکے رہ جاتا تھا۔ اس محلے میں اسے ایسا کوئی دکھائی نہیں دے رہا تھا جس کے پاس بیٹھ کر وہ اپنے دکھڑے روئے۔ لے دے کے ایک علی ہی تھا جو اصل میں اس سارے فساد کی جڑ تھا۔ اگر وہ اس سے بھی قطع تعلق کر دے تو پھر وہ کس کے سہارے جئےگی۔ کون اس کی خیر خبر لینے آئےگا۔ کل کو اگر وہ بیمار پڑ گئی تو کون اسکی سدھ لےگا۔

    جانکی کو یہ غم اندر ہی اندر گھن کی طرح کھاتا رہا۔ وہ بڑی حساس اور خود دار عورت تھی۔ اسے ذلت و بدنامی کی اس زندگی سے عزت کی موت مرنا منظور تھا۔

    آخر وہ ایسی زندگی جی کر کیا کرے جہاں اسے ہر پل رسوائی کی صلیب پر چڑھایا جائے۔ وہ کتنے دن اسی خلجان میں مبتلا رہی۔ آخر ایک دن اس نے بڑا بےرحم فیصلہ لیا۔ اس نے زہر کی شیشی میں اس سارے جھنجٹ سے چھٹکارہ پا لیا۔ اگلے روز علی پواؔ جب جھومتے جھامتے گھر میں داخل ہوا تو جانکی کو بےسدھ پاکر وہ دھک سے رہ گیا۔

    اس نے حواس یکجا کرکے جب جانکی کو ہلایا ڈھلایا تو اس کے بےجان جسم میں کوئی حرکت نہ ہوئی۔ اس کے حواس فاختہ ہوئے اور وہ شور مچاتے ہوئے پاس کی پولیس چوکی میں چلا گیا۔ پولیس ہبڑ دھبڑ میں اس کے ساتھ ہولی اور انہوں نے لاش کو اپنی تحویل میں لے کر اسے پوسٹ مارٹم کے لئے بھیج دیا۔ پاس پڑوسی روزنوں اور کھڑکیوں کے درزوں سے تاکا جھانکی کرتے رہے مگر کوئی نیچے نہ آیا اور نہ ہی کسی نے از راہ انسانیت آگے بڑھکر پرسان حال کیا۔ علی پواؔ تو سدھ بدھ بسرائے بیٹھا تھا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے۔ وہ کبھی گھر کے اندر بھاگتا تو کبھی پولیس اسٹیشن۔ اس پر عجب افتاد پڑی تھی۔ کوئی اُ س کا ساتھ دینے کے لئے تیار نہ تھا۔

    پوسٹ مارٹم ہونے کے بعد جانکی کے لواحقین کو خبر کر دی گئی مگر کوئی لاش لینے نہ آیا۔ دو دن تک لاش مردہ گھر میں پڑی رہی مگر کسی نے بھی ٹوہ لینے کی کوشش نہ کی۔ بالآ خر پولیس نے یہ لاش علی پواؔ کو سونپ دی۔ علی پوا ؔیہ لاش لے کر جب محلے میں پہونچا تو آناً فاناً محلے میں سناٹا چھا گیا۔ لوگ اپنے گھروں میں یوں چھپ گئے جیسے باہر وبا پھیل گئی ہو۔ پہلی بار علی پواؔ نے کئی پڑوسیوں کے دروازے کھٹکھٹائے۔ انہیں خدا کے واسطے دئے، ان کی منت سماجت کی کہ وہ اس بدنصیب عورت پر ترس کھائیں اور اسے مذہبی رسومات کے ساتھ وداع کر دیں مگر کسی کا دل نہ پسیجا۔ کوئی ٹس سے مس نہ ہوا۔ ان کی اس بے رخی نے علی پوا کے اندر نفرت کے شعلے بھر دئے اور وہ ان سب کو گندی گندی گالیاں دینے لگا۔ وہ بھی اتنے بے شرم اور ڈھیٹ نکلے کہ اتنی ساری گالیاں کھانے کے باوجود وہ اپنے اپنے گھروں میں مرد و ں کی طرح پڑے رہے اور علی پوا لاش کو صحن میں بے گور و کفن چھوڑ کر وہاں سے لال چوک کی طرف بھاگا۔

    علی کے جاتے ہی سب لوگ اپنے اپنے بلوں سے سہمے ہوئے چوہوں کی طرح باہر نکل آئے اور باہر آکر ہوا کو سونگھنے لگے۔ اپنی چھٹی حس کھول کر سب نے یہی قیافیہ لگا لیا کہ کی علی پواؔ اس لاش سے پیچھا چھڑا کر چلا گیا۔ پھر سے بےشرمی اور بےحیائی کی دہائی دی جانے لگی۔ لاش بغیر کفن کے پڑی تھی۔ کہیں محلے میں کوئی بیماری نہ پھیل جائے اس لئے وہ لاش سے کہیں زیادہ اپنی بقا کے لئے فکرمند تھے اور اس لاش کو جلد سے جلد ٹھکانے لگوانے کی کوشش میں سرگردان تھے۔ بہت دیر تک اس موضوع پر بحث ہوتی رہی کہ آیا اس لاش کا کریا کرم ہو یا اسے دفنا دیا جائے۔ آخر کافی مغز پچی کے بعد محلے کے چند سیانوں نے یہ طے کیا کہ اس لاش کو میونسپلٹی والوں کے حوالے کیا جائے۔ وہ اس لاش کو جلا دیں یا دفنا دیں اس کا فیصلہ وہی کریں گے۔

    اس سے پہلے کہ جانکی کی لاش میو نسپلٹی والے اٹھا کر لے جائیں اچانک علی پواؔ اپنا سر منڈھائے ہوئے کاندھے پر ایک مٹی کی گھاگر لئے ایک بڑی جمعیت کے ساتھ نمودار ہوا۔ ان کے ساتھ ایک مریل سا برہمن بھی تھا جسے وہ اکھاڑہ بلڈنگ سے پکڑ کر لے آئے تھے۔ علی پواؔ کی اس فوج کو دیکھ کر محلے میں کھلبلی سی مچ گئی۔ سبھی لوگ ہڑ بڑاہٹ میں اپنے اپنے گھروں کی طرف بھاگنے کی کوشش کرنے لگے تبھی علی پواؔ نے انہیں ایک موٹی سی گالی دیکر رکنے پر مجبور کیا۔ سبھی اپنی جگہ سانس روکے کھڑے ہو گئے۔ علی پواؔ نے ایک بزرگ کو گندی سی گالی دیکر کہا۔

    ”دھرم کے ٹھیکدار سالے۔ تم کیا سمجھتے رہے کہ یہ عورت لاوارث ہے۔ میرے ہوتے ہوئے یہ لا وارث کیسے ہو سکتی ہے۔ مانا میں مسلمان ہوں۔ میں وہ سارے رسم نہیں نبھا پاوں گا جنہیں تمہارے دھرم کے حساب سے نبھانا ضروری ہوتا ہے مگر یہی کیا کم ہے کہ ایک بیٹے کے کاندھوں پر اس کی ماں کی لاش جائےگی“

    اس انکشاف سے سب لوگوں کو جیسے سانپ سونگھ گیا۔ ان سب کی حالت ایسی تھی کہ ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم۔ ان پر گھڑوں پانی پڑا تھا اگل بگل میں کھڑے لوگ اپنی اپنی بغلیں جھانک رہے تھے۔ کوئی علی پوا سے آنکھیں ملا نہیں پا رہا تھا۔ علی پواؔ اور اس کے شرابی ساتھیوں نے ارتھی کو کاندھا دیا اور وہ سب مل کر”رام نام ستیہ ہے“ کا ورد کرنے لگے۔ محلے کا ہر شخص بت بنا شرمسار ہوکے کھڑا تھا۔ اُنہیں لگ رہا تھا جیسے ان کے سامنے ان کی ماں کی لاش بے گور و کفن پڑی ہے۔ علی پواؔ انہیں بہت بڑا شراپ دیکر چلا گیا تھا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے