رومنی
ٹرک چلا تو اس پر سامان اور مجھ پر یادیں لدی تھیں۔ میری کل متاع ایک بوسہ تھا۔ چلتے ہوئے رومنی کی آنکھوں میں سوال ہی سوال تھے۔ کہیں یہ بوسہ گم نہ کر بیٹھنا۔ اسے سنبھال کر رکھنا۔ میں اس بوسے کے سوا تمہیں اور دے ہی کیا سکی ہوں۔ مجھے ڈر ہے زندگی میں تم پر بوسوں کی بارش ہو تو کہیں تم اس اکیلے بوسے کو بھول نہ جاؤ۔ اسے بھول گئے تو رومنی کو بھی بھول جاؤگے۔ کون کسے یاد رکھتا ہے؟ ٹرک موڑ مڑا تو آخری جھلک بھی جاتی رہی۔
میرے والد کو اپنا سفر مکمل کیے بہت برس بیت گئے تھے۔ ایک ہی بڑا بھائی تھا۔ والد کے بعد وہ چھتنار درخت ہو گیا۔ اس نے ہمیں دھوپ سے بچایا۔ تعلیم کے لیے بڑے بھائی نے مجھے شہر بھیج دیا۔ میں چچا احمد دین کے ہاں رہنے لگا۔ چچا لاولد تھے۔ صبح کے گئے، دفتر سے دوپہر میں لوٹتے۔ چچی سارا دن چھالیہ کترتے اور پان چباتے گزار دیتیں۔ اگر پڑوسن یا کوئی محلے دار آ نکلتی تو پان چھالیہ کے ساتھ باتیں کرنے اور غیبت چبانے لگتیں۔ یہ گھر تین کمروں پر مشتمل تھا۔ گھر سے گھر جدا ہونے کے ڈر سے جڑے تھے۔ گھر کی دیواریں اکثر سوچتی ہوں گی کہ ہم میں رہنے والے ہماری طرح کیوں نہیں رہتے، جڑے جڑے، ملے ملے۔۔۔ یہ کیوں اینٹ اینٹ ہو جاتے ہیں۔ صدی کی آخری دہائی میں انسان بے حس اور مکان حساس ہو گئے تھے۔ مکان بھی نئی تہذیب میں ڈھل کر ماڈرن ہو گئے۔ بناؤسنگھار کرنے لگے۔ زرق برق لباس پہننے لگے۔ لیکن انسانوں کی طرح ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوئے۔
سامنے کے مکان کا میک اپ قابل دید تھا۔ مکان ہر وقت بنا ٹھنا رہتا تھا۔ اس کے ماتھے پر گہرے لال رنگ کا جھومر تھا۔ کانوں میں سرو کے آویزے اور لباس سنوارنے کے لیے کتنے ہی ملازم تھے۔ انہیں مالک سے زیادہ مکان کی فکر رہتی تھی۔ میلا نہ ہو، اس کا لباس داغدار نہ ہو، کہیں کوئی دھبہ نہ لگ جائے۔ مکان کی دھلائی کے لیے جدید آلات، مشینیں اور کیمیکلز تھے۔
میں سوچتا ہوں، دل بھی تو مکانوں کی طرح ہوتے ہیں۔ ان مکانوں میں کتنے لوگ بسیرا کرتے ہیں۔ ٹھہرتے ہیں، چلے جاتے ہیں۔ یادوں کی راکھ آتشدان میں چھوڑ جاتے ہیں۔ دل کی دیواریں بھی مکانوں کی طرح کمزور اور کلرزدہ ہو جائیں تو وہ زیادہ عرصہ نہیں ٹھہرتا۔ مایوسیوں کی سیلن سے دل کا پینٹ اکھڑنے لگے تو وہ مکینوں کے لیے کشش کا باعث نہیں رہتا۔ رومنی کا دل بھی ایک گھر تھا۔ ایک مکان خالی اجاڑ، نہ باہر کسی کے نام کی تختی، نہ اندر کوئی رہتا تھا۔ جس گھر میں وہ رہتی تھی وہ بیسویں صدی کے آغاز کا سا سادہ، پر وقار اور خاموش سا مکان تھا۔ اس گھر میں ایک اینٹ رومنی کے نام کی تھی۔
سبز پائنچے اور گلابی پاؤں پر میری پہلی نظر اس دن پڑی جب وہ شب برات کی شام چچی کو پلیٹ میں چاول دینے آئی۔ سبز پائنچہ اور گلابی پاؤں۔ مَیں کیمسٹری کے فارمولے اور فزکس کی Equation بھول گیا۔ سارے محلول گڈمڈ ہو گئے۔ جو بھی مکسچر تیار کرتا اس کے ہیولے ہی ہیولے تھے۔ عید قریب آ رہی تھی۔
دو مہینوں میں اس سے جو دو چار ملاقاتیں ہوئیں، وہ سبھی اس گنجڑوں کی کہانی کی طرح ادھوری تھیں جو بچپن میں نانی اماں ہمیں بہلانے کے لیے سنایا کرتی تھیں۔ اس کے مکمل حسن کی طرح ایک بھی مکمل ملاقات ہو جاتی تو میں ایک بڑی کہانی بن لیتا۔ رومنی کو تو اپنا سفر مکمل کرنے میں اتنی دیر بھی نہیں لگی، جتنی دیر میں ہم اخبار کی بقیہ خبر صفحہ نمبر سات میں تلاش کرتے ہیں۔ پانچ کالمی سرخی سے ایک کالمی خبر بننے تک اسے دیر ہی کتنی لگی۔ وہ رومن حروف کی طرح تھی۔ لگتا تھا رومن حروف کی طرح زندگی میں متروک ہو گئی ہے۔
پہلی خاموش ملاقات اتنی سی تھی۔ چچی کے کہنے پر اس نے میرے کپڑے دھوئے، سوکھنے پر انہیں استری کیا اور خاموشی سے میری موجودگی میں صوفے پر رکھ کے چلی گئی۔ وہ آنے کے بہانے کسی کام سے آتی، منٹوں میں لوٹ جاتی۔ نہ بات نہ اشارہ، اس کا پورا وجود خاموش تھا۔ بدن بے آواز تھا۔ اس عمر میں تو بدن بولتے ہیں۔ لیکن رومنی کا بدن خاموشی کے برفاب تلے دبا تھا۔ اس کا رنگ مکھن اور شہد کی آمیزش سے بنا تھا۔
دوسری ملاقات بھی خاموش تھی۔۔۔
’’چچی تنگ آ گیا ہوں میں۔۔۔ باتھ روم میں ٹونٹی اتنی اونچی لگی ہے کہ چھینٹے پڑتے ہیں۔ ‘‘
’’نیچے بالٹی رکھ لیا کر‘‘ چچی نے مشورہ دیا۔
’’پتر، آہستہ بولا کر، تیری چچی بہری نہیں ہے۔۔۔‘‘ چچا احمد دین نے ہنس کر کہا۔
’’چاچا۔۔۔ دیکھ تو کتنے چھینٹے اڑتے ہیں۔‘‘ میں نے غصے میں پوری ٹونٹی کھول دی۔
اسی شام وضو کرنے کے لیے میں غسلخانے میں گیا تو پلاسٹک کے پائپ کا ٹکڑا لگا تھا۔ میں نے چوکی پر بیٹھ کر آرام سے وضو کیا۔ وضو کرکے زوردار نعرہ لگایا۔
’’چاچی زندہ باد۔‘‘
’’کیا ہوا، چاچی کی اتنی تعریفیں ہو رہی ہیں۔ ‘‘
’’چاچی تو نے پائپ جو لگا دیا ہے۔ ‘‘
’’میں نے کب لگایا ہے؟‘‘
’’تو پھر۔۔۔؟‘‘
’’رومنی لگا گئی ہے۔ کہہ رہی تھی، چچی کپڑے دھوتی ہوں تو چھینٹے پڑتے ہیں۔ ‘‘ یہ دوسری خاموش ملاقات تھی۔ تیسری ملاقات بھی خاموشی کے کفن میں لپٹی تھی۔
میں کیاریوں کی گوڈی کرنے میں مگن تھا۔ نئی کیاری بناتے ہوئے میں کھرپے سے مٹی نکال رہا تھا۔ وہ درخت کے تنے کا سہارا لیے خاموش کھڑی تھی۔ شرارتاً میں نے اس کے پاؤں پر مٹی ڈالی، وہ کھڑی رہی۔ میں مٹی ڈالتا رہا، پاؤں چھوٹی سی قبر نما ڈھیری میں چھپ گیا۔ میں نے اوپر دیکھا۔ اس کی آنکھیں نم تھیں۔ میرے کچھ بولنے سے پہلے ہی وہ پلٹ گئی۔ اسی لمحے اس کا پاؤں علامتی قبر میں تھا یا حقیقی قبر میں۔ میں الجھنے لگا، وہ روئی کیوں؟ میں پانی پر لکھی تحریر کیسے پڑھوں۔ میں نے اس کے پاؤں پر مٹی کیوں ڈالی۔ کیا اس نے اپنی یادوں کا مرقد تو نہیں دیکھ لیا۔ وہ بول لیتی تو کتنا اچھا ہوتا۔ اس نے آج تک میرے ساتھ کوئی بات نہیں کی۔ خاموش اقرار کے ساتھ میں کیسے جی پاؤں گا۔
پھر اسی رات میرے گھر میں قبر اُگ آئی۔ قبر کا منہ کھلا تھا۔ سفید کفن میں لپٹے شخص کو میں نے خود قبر میں اتارا۔ کچی اینٹیں ترتیب سے رکھیں اور پھر کھرپے سے مٹی ڈالنے لگا۔ تیز ہوا چل رہی تھی۔ کبھی وہ قبر بالکل چھوٹی ہو جاتی، کسی لمحے پھیل کر پوری زمین کو گھیر لیتی۔ تیز ہوا گرم تھی۔ قبر سے اڑتی مٹی میری آنکھوں میں پڑنے لگی۔ آنکھ کھلی تو حبس تھا۔ صبح دم جب دروازے پر دستک ہوئی تو میرا گھر قبرستان ہو گیا۔ گاؤں سے آنے والے ہرکارے نے بھائی جان کی موت کا پیام سنایا تو کہرام مچ گیا۔ چچی چھالیہ کترنا بھول کر دو ہتڑ مارنے اور بین کرنے لگیں۔ چچا کی کمر اور جھک گئی۔ ہمسائے اکٹھے ہو گئے۔ مجھے اپنا ہوش نہ رہا۔ جب وہاں سے چلنے لگے تو اتنی بہت سی نمناک آنکھوں میں رومنی کی سوگوار آنکھیں بھی تھیں۔ سفید لباس میں اس کے آنسو بول رہے تھے۔ پانی پہ لکھی تحریر میں نہ پڑھ سکا۔
بھائی کی تدفین کے بعد میں زندگی کی قبر میں تنہا رہ گیا۔ مسائل ناگن کی طرح پھن پھیلائے کھڑے تھے۔ تین سوالوں کے بجائے کتنے ہی سوال تھے جن کا زندگی کی قبر میں مجھے جواب دینا تھا۔ پہلا فیصلہ یہی ہوا کہ چچا احمد دین گاؤں لوٹ آئیں اور کھیتی باڑی سنبھالیں اور میں ہوسٹل میں رہ کر تعلیم مکمل کروں۔ ایک ہفتہ بعد شہر سے سامان اٹھانے کے لیے انہوں نے مجھے بھیجا۔ میں وہاں پہنچا، تالا کھولا، گھر چپ اور اجاڑ لگ رہا تھا۔ مکان سے میرے حصے کی اینٹ نکل گئی تھی۔
دروازہ کھلنے اور سامان گھسیٹنے کی آواز پر رومنی آ نکلی۔ کچھ کہے بغیر وہ سامان سمیٹنے لگی۔ اسٹور میں سے سامان نکالتے ہوئے اس نے مجھے چائے کی پیالی تھمائی۔ چائے میں وہ اتنی بہت سی باتیں گھول کے لائی کہ میں چائے بھول کر چائے کی بھاپ سے باتیں کرنے لگا۔
میں موجود رہوں گی۔ تمہارے آس پاس، اپنے آپ کو اکیلا محسوس نہ کرنا۔ میں تمہارے ساتھ رہوں گی۔ پلاسٹک کا پائپ یونہی لگا رہےگا اور میں تمہیں دکھ کے چھینٹوں سے بچاؤں گی۔ میں بول نہیں سکی، میں اقرار نہیں کر سکی، لیکن مجھے یقین ہے تم نے میری چپ پڑھ لی ہوگی۔ وہ ساری باتیں اور وعدے جو میں نے تم سے کرنے کا سوچا تھا، تم نے میری آنکھوں سے پڑھ لیے ہوں گے۔ میری خاموشی نے تم سے کوئی اقرار نہیں مانگا پھر بھی چاہوں گی، پہاڑوں کے اس پار جب سورج ڈوبنے لگے، شام کے بعد تم میری یادوں کا چراغ ضرور جلایا کرنا۔ میں تمہاری یاد کے دالانوں میں اتنی شمعیں جلاؤں گی کہ چکا چوند ہو جائےگی۔ تم بس شام کے بعد اک دیا جلا دیا کرنا۔ وہ رات بھر ٹمٹماتا رہے۔ تمہیں میری یاد دلاتا رہے۔ میرے آنسو ساتھ لیتے جانا، دیے میں تیل کا کام دیں گے۔ تم یہ نہیں کہہ سکو گے کہ میں چراغ کیسے جلاؤں۔ تمہارا بھائی چلا گیا میں تمہیں کیسے بتاؤں میں کتنا روئی ہوں۔ بتا بھی دوں تو کیا تمہیں یقین آ جائےگا۔ جن کے درمیان کوئی عہدوپیمان نہ ہو وہ یقین کہاں سے لائیں۔ میں نے تمہارا دکھ سمیٹنا چاہا، جی چاہا تمہیں اپنی کمزور بانہوں میں چھپا لوں، تمہیں میرے سوا اور کوئی نہ دیکھے، لیکن میں کچھ بھی تو نہ کر سکی۔ تم خالی آئے اور خالی لوٹ رہے ہو۔ تمہاری زندگی میں جانے کتنی رومنیاں آئیں گی، تم مجھے کہاں یاد رکھ سکوگے، مجھے بھول تو نہیں جاؤگے۔
چائے کی پیالی میں باتیں سمندر ہو گئیں۔ میں ٹھنڈا ٹھار سمندر پی گیا۔ میرے ہاتھ میں شاعری کی ایک کتاب تھی، اس کے ہاتھ میں کچھ بھی نہ تھا۔
یہ تمہیں میری یاد دلاتی رہےگی۔
میں نے کتاب رومنی کو تھمائی۔ اس نے آنسو مجھے تھما دیے۔
جانے مجھے کیا سوجھی، میں نے رومنی کے دونوں گالوں پر ہاتھ رکھ کر پیشانی چوم لی۔ چہرے کی حدّت سے میرے ہاتھ پگھل گئے اور ہونٹوں پر بوسے کا گرم ذائقہ پینٹ ہو گیا۔ وہ ایک بوسہ، ایک وعدہ، ایک یقین، ایک تحفہ جو ساری باتوں، سارے وعدوں پر بھاری تھا۔
ٹرک چلا تو اس پر سامان اور مجھ پر یادیں لدّی تھیں۔ میری کل متاع ایک بوسہ تھا۔ وقت کے لامتناہی صحرا میں زندگی برہنہ پا سائے کی تلاش میں بھٹکتی رہی۔ مسائل میں گھر کر میں نے اس اکیلے بوسے کو بھولنا چاہا، لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ میں روزانہ باقاعدگی سے رومنی کے آنسوؤں سے چراغ تو نہ جلا سکا، لیکن اکثر شام کے بعد دبے پاؤں کوئی دل کے مندر میں گھنٹیاں بجا جاتا، روح کے طاقچے میں رکھا چراغ ٹمٹمایا رہتا۔ رومنی نے اپنا وعدہ نبھایا، باقاعدگی سے چراغ میں آنسو ڈالتی رہی، میں اس ذائقے کو بھولنا چاہتا تھا لیکن پہلا لمس، پہلا ذائقہ کہاں بھولتا ہے۔ مجھے تو بچپن کے اس انناس کی قاش کا ذائقہ بھی نہیں بھولا جو ہمارے ایک ملنے والے مشرقی پاکستان سے لائے تھے۔ مغربی پاکستان کا تو مجھے نہیں معلوم لیکن ہمارے گاؤں میں انناس پہلی بار آیا تھا اور چوپال میں کئی لوگ انناس دیکھنے آئے تھے۔ مجھے اس انناس کی شکل آج تک نہیں بھولی۔ میرے حصے میں صرف ایک قاش آئی تھی۔ اس کا ذائقہ برسوں گزرنے کے باوجود آج بھی اپنی تازگی لیے مجھے یاد ہے۔ آنے والے برسوں میں ٹین کے ڈبوں میں بند باسی انناس کئی بار کھائے لیکن اس پہلی تازہ قاش کا ذائقہ نہیں بھولا۔
انناس کی شکل اور ذائقے کی طرح میں رومنی اور اس کے بوسے کو نہ بھول سکا۔ صرف ذائقے رہ گئے، رومنی مجھ سے کھو گئی۔ زندگی میں دوبارہ اس سے ملنے کا کوئی امکان نہیں تھا۔ مندر میں یادیں مستقل ڈیرا جما چکی تھیں۔ شام کے بعد پاؤں قبر سے نکل کر مندر میں گھومنے لگتے۔ میں نے مسائل کے بڑے بڑے درخت جڑ سے اکھاڑ پھینکے لیکن رومنی کی یاد کے ننھے سے پودے کو نہ اکھاڑ سکا۔
مجھے کئی ماہ سے مسلسل کھانسی رہنے لگی تھی۔ اس روز ہسپتال کی طویل راہ داریوں میں اپنے ایکسرے، بلڈرپورٹ اور یورین ٹیسٹ کے سلسلے میں مجھے سرجن سے ملنا تھا۔ چھپاکا سا ہوا اور مندر میں ہلچل کچ گئی۔ پرندوں اور روحوں نے وہ شور مچایا کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ تیز ہوائیں مندر میں بین کرنے لگیں۔
وہ ایک جھلک اتنی اچانک اور غیرمتوقع تھی کہ یقین نہیں آ رہا تھا وہ رومنی ہے، نہیں۔۔۔ کوئی اور ہے۔۔۔؟ رومنی۔۔۔ شاید۔۔۔ نہیں۔۔۔ ہاں رومنی ہے۔ میری آنکھ دھوکا نہیں کھا سکتی تھی۔ لیکن ہونٹوں پر پینٹ اس بوسہ پر یقین تھا کہ وہ رومنی ہے۔ ہاتھ سلگنے اور ہونٹ پگھلنے لگے۔ رومنی اپنی ماں اور بہن کے ساتھ سرجیکل وارڈ کی طرف جا رہی تھی۔ علاقے کے ڈاکٹر کی شہرت کی وجہ سے لوگ دوردراز سے علاج کے لیے آتے۔ کلینک کے سامنے کاروں کا میلہ سا لگ جاتا، ایک جھلک اور ہو جاتی، بلڈ اور یورین ٹیسٹ کے بعد مجھے سرجیکل وارڈ میں جانے کو کہا گیا۔ گیلری میں بچھی کرسیوں پر میں اپنی باری کا انتظار کرنے لگا۔ گھنٹی بجنے پر اگلے مریض کو بلایا گیا۔ میرے سینے میں سانس تیز ہوگیا۔ لیڈیز ویٹنگ روم سے رومنی اپنی ماں کے ساتھ نکل کر ڈاکٹر کے کمرے میں داخل ہوئی، دروازہ بند ہو گیا۔
گھنٹی بجنے پر رومنی ڈاکٹر کے کمرے سے نکلی تو اس کے چہرے پر کوئی تحریر نہیں تھی۔ میں اپنی باری پر اندر گیا۔ سرجن، فزیشن کے ساتھ رومنی کے بارے میں بات کر رہا تھا۔
’’آپ کا کیا خیال ہے، مریضہ بچ جائےگی؟‘‘ پیپر ویٹ سے کھیلتے ہوئے فزیشن نے پوچھا۔
’’مشکل ہے۔۔۔ دماغ میں رسولی اور دوسرا ٹی بی کی وجہ سے پھیپھڑے کمزور ہو گئے ہیں۔ میں نہیں سمجھتا وہ Survive کر سکےگی۔ ‘‘
چیک اپ کرا کے میں باہر نکلا تو رومنی نہیں تھی۔ میڈیکل اسٹور کی بھیڑ میں بھی وہ نظر نہ آئی۔ میں کاروں کی طرف گیا۔ سلیٹی رنگ کی کار میں رومنی اپنی ماں کے کندھے پر سر ٹکائے چپ تھی۔ اس کی آنکھیں بند تھیں۔ میں نے جرأت کی اور کہا، خالہ! میں احمد دین کا بھتیجا ہوں۔
خالہ نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا۔ سب گھر والوں کا حال پوچھا۔ رومنی نے آنکھیں کھولیں، آنکھیں خاموش اور ویران تھیں۔ ان میں کوئی پہچان نہ تھی۔ بے رونق اور زرد آنکھیں۔ میں پریشان ہو رہا تھا کہ اتنے سالوں بعد اچانک ملنے پر رومنی کے چہرے پر کوئی خوشی کیوں نہیں ابھری۔
میں نے ہمت کی اور ہولے سے پکارا۔
رومنی۔۔۔
بیٹا، یہ پچھلے سال سے یادداشت کھو بیٹھی ہے۔ دن بھر غسلخانے کی ٹونٹی چلا کر چھینٹے اڑاتی ہے یا گھر بھر میں اپنے پاؤں پر گیلی مٹی ڈال کر قبریں بناتی ہے۔
یہ سن کر میری جیب میں رکھے اکیلے بوسے سے خون رسنے لگا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.