Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

روح میں دانت کا درد

خالد جاوید

روح میں دانت کا درد

خالد جاوید

MORE BYخالد جاوید

    ہم سب صرف اس شرط پر زندہ ہیں کہ پیار اور محبت کا ہر بندھن انجام کار توڑ دیا جائے گا۔

    ڈاکٹر سیموئل جانسن

    ڈینٹل کلینک کے باہر شام ہو رہی تھی۔

    آخرکار مجبور ہوکر آج وہ ڈاکٹر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر زبردستی ہنسنے لگا۔

    ڈاکٹر کے ہاتھ میں بال برابر پتلی سوئی تھی۔ وہ بھی ہنسنے لگی، بولی، ’’آپ نے دانت بہت خراب کرلیے ہیں۔‘‘

    ’’مجھے بہت پہلے سے معلوم تھا کہ انہیں خراب ہونا ہے۔‘‘ وہ افسردگی سے بولا۔

    ’’منھ کھلا رکھیے گا۔ ہاں اس طرح۔‘‘ ڈاکٹر نے کہا اور پتلی سوئی دانت کے اندھیرے میں بھٹکنے لگی۔

    ہاں جیسے خدا نے ازل کے پرے خواب دیکھا تھا دنیا کو خرابے میں تبدیل ہوتے ہوئے۔ جنم لیتے ہوئے شیطان کی کلکاریاں سنتے ہوئے۔ ایسے ہی کتنی بار اس نے خواب میں دیکھا۔ اس نے کلی کی۔ وہ کلی کے ساتھ فرش پر بکھر گیے۔ خون میں تر، اس کے کریہہ بدنما دانت۔

    ’’چلیے کلی کرلیجیے۔‘‘ ڈاکٹر مسکرائی۔

    تو دنیا واقعی کیا ایک دندان ساز کا شیشے سے گھیرا ہوا مطب تھی؟ انہیں سڑی، گلی کیڑے لگی داڑھوں کے ذریعے ’’برائی‘‘ کا وجود اور ’’شر‘‘ کااحساس واضح کرنے کے لیے؟ ایسے دکھتے ہوئے جبڑوں اور چڑچڑے ہوتے ہوئے کمرے کے ساتھ شیشے کی ان دیواروں کے اندر تمہیں داخل ہونا ہی پڑے گا۔

    یہاں بہت ٹھنڈا ہے۔ ایک قسم کی بے حسی اور بے رحمی بھی۔ اس بے حسی اور بے رحمی کو گھٹنوں سے نیچا سفید کوٹ پہنے وہ سانولی قبول صورت ڈاکٹر اور اس کی مسکراہٹ کم نہیں کرسکتی تھی۔ وہ جب اس کے دانتوں کا جائزہ لینے اس کے اوپر جھکی تو اس کا سینہ اس کے سر کے پچھلے حصے کو ہلکے سے چھو گیا۔ نہیں، وہاں کچھ نہیں تھا، یا شاید کچھ نہ ہونے کا احساس تھا۔ صرف سفید کوٹ نے ہلکی سی جنبش کھائی ہوگی۔ دہشت اپنی جگہ قائم تھی۔ دانتوں کے درمیان کیڑا نہ جانے کدھر سے کدھر ٹہل رہا تھا۔

    ’’کیا واقعی دانتوں میں چلنے پھرنے والا کوئی کیڑا ہوتا ہے؟‘‘ ایک بار اس نے ڈاکٹر سے پوچھا تھا۔

    ’’عام طور سے جراثیم اور انفیکشن کو کیڑا کہہ دیا جاتا ہے۔‘‘ ڈاکٹر اپنے ہاتھوں پر دستانے چڑھاتے ہوئے بولی۔

    ’’تم بولا ہی مت کیا کرو۔ جواب مت دیا کرو کسی بات کا۔‘‘ وہ کہہ رہی تھی۔ اتنے پیار سے کوئی بس اپنے آپ سے ہی بول سکتا ہے۔ لیکن وہ اسے کسی بڑے اخلاقی فریضے سے نہیں جوڑ سکتا۔

    ’’دیکھو تمہارے خاموش رہنے ہی میں کسی حد تک ’خیر‘ کا عنصر شامل ہے۔ ورنہ پتہ نہیں کیا کچھ نہ تباہ ہوجائے۔‘‘ وہ اسے سمجھانے لگی۔تب دانتوں میں ایک کیڑا رینگتا تھا۔ اس کا رینگنا دراصل درد تھا اور بدبو کا بھپکا تھا۔ بدبو کا بھپکا تو سانس کے ساتھ ساتھ ہونٹوں کے کناروں اور بانچھوں کے کونوں سے اڑ رہا تھا۔ مگر یہ محبت تھی۔ خالص محبت۔ اپنے سینے میں دونوں چھاتیوں کے درمیان چھپاکر رکھی گئی ایک چھوٹی سی گول چپاتی۔ وحشی اور بے یقینی سے بھری عجیب جنگلی آنکھیں جو دور سے بہت پرکشش نظر آتی ہیں مگر قریب جانے پر ان آنکھوں سے اسے ہمیشہ ایک ناقابل فہم قسم کا خوف محسوس ہوا۔

    ’’تم مجھے پیار تھوڑی کرتے ہو۔‘‘ اس نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا اور اس کی قمیص کا کالر پکڑ کر اپنا سر اس کے گریبان میں چھپالیا۔

    دانتوں کی اندھی سرنگ میں کیڑا گھبراکر اور آگے کو چلا۔ بدبو کا بھپکا آیا مگر ابلتی ہوئی محبت اور بے لوث دعا نے سب کچھ اس وقت ’خیر‘ میں بدل دیا۔ اس کی جنگلی آنکھیں اوپر اٹھیں۔ ان میں آنسو بھٹک رہے تھے۔ یہ آنسو بھی اس دنیا کے نہیں تھے۔ یہ بھی جنگل سے آئے تھے۔ ڈرے، سہمے اور پریشان سے۔ ڈر تھا کہ اگر وہ باہر آئے تو دوبارہ جنگل کو لوٹ جائیں گے۔

    ’’وہ تم سے آخر اتنی نفرت کیوں کرتی ہیں؟‘‘ اس نے کالر کو زور سے ہلایا۔تب اس نے واقعی نفرت کے بارے میں سوچا۔ لوگ کسی سے نفرت کیوں کرتے ہیں؟ مگر سب سے بھیانک بات یہ ہے کہ وہ شخص جس سے نفرت کی جاتی ہے، کبھی کبھی اسے اس نفرت کے بارے میں کچھ بھی علم نہیں ہوتا۔وہ اپنے وجود میں بالکل اکیلا ہوتا ہے۔ بغیر کسی ردعمل کے وہ مرکز نفرت تنہا جگمگاتا ہے۔ ایک آوارہ اور خود مکتفی جگنو کی طرح جس کے جگمگانے کا کوئی مطلب، کوئی معنی نہیں ہوتے۔

    یہ کتنی خوفناک بات ہے کہ جب اس سے نفرت کی جارہی ہوتی ہے تو وہ اکثر کتاب پڑھ رہا ہوتا ہے، یا آدھی رات میں کسی ریل گاڑی کے تیسرے درجے کی بوسیدہ کھڑکی سے سرٹیکے، ادھ کھلی آنکھوں سے چھوٹے ویران اسٹیشنوں کی خالی تپائیاں دیکھ رہا ہوتا ہے، یا کہیں بیٹھ کر اپنے حصے کا رزق اپنے نوالے کھا رہا ہوتا ہے۔ کیسی عجیب بات ہے کہ ان لمحات میں بھی، جب وہ کسی عمل یا ردعمل کا مجموعہ نہیں ہوتا، اس سے نفرت کی جاسکتی ہے۔ جب وہ خالص وجود کی تنہائیوں میں گم رہتا ہے یا پھر جبلی سطح کی مجبوریوں میں۔

    مگر ہم نفرت کرسکتے ہیں۔ ہم کسی کو بھی نفرت کا موضوع بنا سکتے ہیں۔ یہ تشدد ہے۔ دانتوں کا کیڑا اندر ہی اندر نہ جانے کون سی سرنگ بنارہاہے۔ ایک منھ سے دوسرے منھ تک بدبودار آندھیاں چل رہی ہیں۔ خواہش اور محبت سے بھرے ہوئے بوسوں کو تباہ کرتی ہوئی، اڑتی ہوئی بدبودار آندھیاں۔ ان کے آلودہ جھگڑوں میں کیا کیا نہ مٹ جائے گا۔ مگر زندہ رہنے کے لیے نفرت کو برداشت کرنا پڑے گا۔

    ’’تم بولا ہی مت کرو۔ جواب ہی نہ دیا کرو۔‘‘

    یہ کون سا اخلاقی فریضہ تھا؟

    ’’دونوں طرف کی ڈاڑھیں کیڑا چاٹ گیا۔‘‘ قبول صورت ڈاکٹر تاسف سے کہہ رہی تھی۔

    نہیں۔ ڈاڑھ سڑ بھی جائے تو وہ اسے نکلوائے گا نہیں۔ اسے گلی سڑی ہڈیاں سنبھال کر رکھنے کا شوق ہے۔ ایک سنکی شوق۔ اسے علم ہے کہ جب ڈاڑھ جبڑے سے کھنچ کر نکال لی جائے گی تو اس کا آخری سرا خون میں ڈوبا ہوا ہوگا۔ گلتا ہوا، جھڑتا ہوا۔

    اسی لیے سرنگ کھودنا ہی بہتر تھا۔

    ’’میں روٹ کینال (Root Canal) ہی کرالوں گا۔‘‘ اس نے کہا۔

    ’’لیکن وہ بہت مہنگا پڑتا ہے۔‘‘ ڈاکٹر خوش دلی سے بولی۔

    تو کیا فرق تھا؟ بات تو ایک ہی تھی۔ مہنگاپن اپنے آپ میں ایک تشدد تھا۔ اگر تشدد ہی ہر مسئلے کا حل تھا تو سڑی ہوئی ڈاڑھ نکلوا کر پھینکنے سے زیادہ اسے سینت سینت کر پیوند لگا لگا کر رکھنا زیادہ معنی خیز تشدد تھا۔ تیس سالہ ازدواجی زندگی کے اس سلسلے کو بھی باقاعدگی سے برقرار رکھنا ایک اوچھا تشدد تھا جو یوں تو بہت مہنگا پڑ رہا تھا کیونکہ وقت کے ایک خاص نقطے پر کم از کم اسے تو یہ صاف صاف پتہ چل گیا تھا کہ وہ دونوں آپس میں صرف ٹکراسکتے تھے۔ قریب آنے پر چیزیں یا تو جڑجاتی ہیں یا پھر ٹکراکر رہ جاتی ہیں۔ ٹکرانے کی اس گونج میں بڑی بے رحمی ہوتی ہے۔ بڑا تشدد ہوتا ہے۔

    اس تشدد کا سب سے فنکارانہ پہلو دو شخصوں کا بظاہر ایک دوسرے سے جڑے رہنے کا التباس ہے۔ روحیں کچھ اور مانگتی ہیں۔ وہ شمولیت چاہتی ہیں۔ ایک شئے میں دوسری شئے کی شمولیت اور گڈمڈ ہوجانا چاہتی ہیں۔ مگر جب یہ ممکن نہ ہو تو پھر صرف ہاتھ ناچتے رہ جاتے ہیں مکے تنتے ہیں۔ کبھی کبھی وہ بڑھنا چاہتے ہیں ایک دوسرے کے جبڑوں کی طرف۔ ٹھیک ڈاڑھ کی جانب۔ مگر دانت جبڑوں کے اندر آپس میں ہی پس کر رہ جاتے ہیں۔ آوازیں اپنا چولا بدلتی ہیں۔ لہجہ تبدیل ہوجاتا ہے۔ پھر باقی کچھ نہیں بچتا سوائے بھیانک شرمندگی کے۔

    اس دن جب زیادہ جھگڑا ہوگیا تھا تو اس کا پیٹ خالی تھا۔ دانتوں کے درمیان صرف ہوا تھی۔ اس کے دانت اس ہوا کو چبانا چاہتے تھے محض اس لیے کہ دانت موجود تھے۔ خواب میں کتنی بار کلی کرنے میں نکل کر وہ دور جاگرے ہیں۔ دراصل دانت تو کب سے کمزور ہو رہے تھے اور ان کے درمیان ایک خالی جگہ، ایک آسیبی فاصلہ پیدا ہوتا جارہا تھا۔ مگر اسے اس فاصلے کا پتہ کبھی نہ چل سکا۔

    تو پیٹ خالی تھا۔ دانتوں کے درمیان بھی ایک لمحہ، ایک وقفہ خالی تھا۔ اسی لیے وہاں ایک بھوت جیسی ہوا آکر بیٹھ گئی تھی۔ دکھتے ہوئے مسوڑھوں اور درد کے ناقابل سراغ مرکز پر بھی صرف ہوا چکرا رہی تھی۔ ویسے یقیناً کچھ اور بھی تھا، ہوا میں الجھی ہوئی سگریٹ کی بو، ایک کپ پھیکی چائے کی تلخی اور اس کے اپنے منھ کی بساندھ اور رطوبت۔

    ’’تم اس قابل نہیں ہو کہ تمہیں منھ لگایا جائے۔ اب آنا رات کو میرے پاس۔‘‘ وہ ہانپ ہانپ کر کہہ رہی تھی۔ اس کے کھلے ہوئے چوڑے دہانے سے سامنے کے سفید دانت باہر کو جھپٹ رہے تھے۔ نیلے ہوتے ہوئے ہونٹوں سے تھوک کے ذرّات ٹھوڑی پر بہہ رہے تھے۔

    ’’رات کی مجھے کوئی پروا نہیں۔ خاطر جمع رکھو۔‘‘ اس نےناقابل یقین صبر و تحمل کے ساتھ جواب دیا۔ اگرچہ اس صبر و تحمل کا تشدد بھی بالکل عیاں تھا۔

    ’’ہونہہ!‘‘ اس نے دانت بھینچے اور دیوار کو گھورنے لگی۔

    یہ صبر و تحمل کامظاہرہ وہ کیسے کرسکا؟ اس نے خود بھی حیرت سے سوچا تھا۔ اور تب ہی اسے خیال آیا کہ اس سب سے ماورا وہ جو معصوم بو سے دانتوں کے درمیان اس موہوم ہوا میں اڑے پھرتے تھے، وہی دراصل اس صبر و تحمل کے نفیس ترین اور کمینہ ترین تشدد کا ماخذ تھے۔ یہ محبت کا بخشا ہوا تشدد تھا۔

    جنگلی آنکھوں والی لڑکی نے اس سے کہا تھا۔

    ’’گھبرانا مت۔ میں ہوں نا، اے معصوم انسان۔‘‘

    مگر معصوم انسان کے جسم سے کمینہ پسینہ پھوٹ رہا تھا۔ یہ کمینہ پسینہ کہاں سے آیا تھا؟ یہ جسم کے کسی گہرے بدبودار نالے سے آیا تھا۔ اس پسینے میں ایک بو تھی، بہت پرانی بو، جس میں اس کے سارے گناہ، لغزشیں اور کوتاہیاں گھل گھل کر بہی جارہی تھیں۔ اس پسینے کی بو کو وہ برداشت نہ کرسکا۔ وہ گھبرا اٹھا۔ اس کا دل پتے کی طرح کانپنے لگا۔ معصوم انسان اپنے ٹھنڈے پسینے میں اپنے جرائم کے سناٹے میں اکیلا کھڑا لرز رہا تھا۔ ایک بے ہنگم پرچھائیں کی طرح۔

    ’’تو دونوں طرف کی ڈاڑھیں کیڑا چاٹ گیا۔‘‘ اس نے لمبی سانس لے کر دہرایا۔

    ’’جی ہاں۔ مگر بائیں جبڑے کی حالت زیادہ خراب ہے۔‘‘ ڈاکٹر ایک چھوٹے سے ایکسرے کا معائنہ کرتے ہوئے مسکرائی۔

    ڈاکٹر قبول صورت تھی۔ اس کا جسم مگر بے حد دبلا پتلا تھا۔ اس نے کرسی پر لیٹے لیٹے اس کے جسم کابھرپور جائزہ لیا۔ مگر عورت کے جسم کے بارے میں اس طرح کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ اس نے سوچا نسوانیت کی اپنی ایک پراسرار صلابت ہوتی ہے اور ایک خاص طرح کی چھپی ہوئے بے رحمی بھی جو صرف اور صرف مقاربت کے موقعے پر ہی خود کو آشکار کرتی ہے۔ ایک خودغرض تشدد آمیز قوت جس کاسامنا محض مردانگی سے نہیں کیا جاسکتا۔ اس کی شدت کو صرف محبت کم کرسکتی ہے۔ محبت ہی تو ہے جو مقاربت میں مبتلا عورت کے سر پرخلوص، ممتا، شفقت اور قربانی کا شامیانہ تانے خاموشی سے کھڑی رہتی ہے۔

    مگر افسوس کہ وہی تو غائب تھی۔ وہ وہاں تھی ہی نہیں۔ وہ دونوں ایک دوسرے سے محبت نہیں کرتے تھے۔ وہ تو خیر شاید کسی سے بھی محبت نہیں کرتا تھا مگر اس کی بیوی کے بارے میں یہ وثوق کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا تھا۔ ایسی صورت حال میں وہ فعل اپنی تمام تر کمینگی کے ساتھ ایک ناقابل برداشت تشدد بن رہا تھا۔ وہ سب اس کے حصار میں قید تھے۔ وہ اس خودغرضی سے خوف زدہ ہوکر جنگلی آنکھوں والی لڑکی سے اپنے دکھتے ہوئے بھدے جبڑوں پر بوسے ثبت کراتا اور صبر و سکون کا وہ جذبہ اپنے اندر پیدا کرلیتا جو اور بھی زیادہ ٹھنڈا، بے رحم تشدد تھا۔ یہ ایک دلچسپ مگر خطرناک کھیل تھا۔ نفرت اور بے رحمی کا کھیل جو دنیا میں جاری تھا۔ دراصل نفرت اور بے رحمی کی بشریات ہی پراسرار ہے۔ یہ ’’شر‘‘ اور ’’برائی‘‘ کا وہ عنصر ہے جو دنیا میں موجود ہے لیکن راستے میں بیٹھے ہوئے بے زبان کتے کو چلتے چلتے لات ماردینے والے اس کی وضاحت یا تعریف بیان نہیں کرسکتے۔

    مگر اس مسئلے کا سب سے خطرناک مقام تو وہ ہے جہاں تشدد اور نفرت کا شکار ہونے والے رہتے ہیں۔ یہ لوگ ایک خاص قسم کے انتہائی نفیس ذہنی نفرت کو ڈھال کی طرح استعمال کرتے ہیں۔یہ بہت گہری نفرت ہے۔ یہ دعاؤں، کوسنوں اور بھیانک خوابوں اور اندیشوں سے بھری ہوئی ایک پراسرار نادیدہ نفرت ہے۔ یہ دانتوں کے ڈاکٹرکے چیمبر میں داخل ہونے جیسا ہے۔ اپنے دانتوں کے درمیان اگتے ہوئے پھوڑے کی دکھن کے ساتھ ساتھ، تاریک گاڑھا اور اندیشہ ناک انسانی زندگی کا سب سے گھناؤنا پہلو۔

    اس بے حد سرد رات میں وہ بار بار اپنی پنڈلی کھجا رہی تھی۔

    ’’کیا کر رہی ہو؟‘‘ اس نے پوچھ ہی لیا۔

    ’’دیکھ لو۔‘‘ اس نے اپنی بے ہنگم شلوار گھٹنوں تک سرکائی۔ سفید خشک پنڈلی پر خراشیں ہی خراشیں تھیں۔

    ’’یہ کیا ہوا ہے؟‘‘ اس نے سوال کیا، حالانکہ اسے اس میں کوئی واقعی دلچسپی نہ تھی۔

    ’’بہت زور کی کھجلی مچتی ہے۔ جہاں ناخن لگاتی ہوں، خون چھلک آتا ہے۔‘‘ اس نے پھر پور طاقت سے پنڈلی پر ناخن مارے۔

    ’’تمہیں شاید خارش ہوگئی ہے۔‘‘ اس نے کچھ سوچ کر کہا۔

    ’’تمہارے ساتھ رہ کر اور کیا ہوگا؟ اپنے چیکٹ میلے کپڑے لے کر روز بستر میں چڑھ آتے ہو۔ یہی دعا مانگوگے کہ مجھے کتے بلیوں کی بیماری لگ جائے۔‘‘ وہ جھنجھلاتے ہوئے تلخ لہجے میں بولی۔ سفید خشک پنڈلی پر لال لال خراشیں اور گہری ہوگئیں۔

    ’’میں نے یہ کب کہا؟ اور اس وقت تو تمہیں یہ گندے نظر آتے نہیں!‘‘ وہ آہستگی اور سکون کے ساتھ بولا اگرچہ اس کے لہجے میں طنز کا عنصر بھی شامل تھا۔ لیکن یہ سکون اور اطمینان اس کے دل کے کسی پوشیدہ گوشے میں سر ابھارتی ہوئی اس خواہش یا امید کا رہین منت بھی تھا کہ شاید کبھی وہ درحقیقت کسی گندی خارش زدہ کتیا ہی کی طرح گلیوں میں گھسٹتی پھرے۔

    یقیناً یہ سب جاہلانہ تھا۔ جہالت، بدذوقی، ناسمجھی، بددماغی، یہ سب کتنی حقیر اور نظرانداز کردینے کے قابل چیزیں تھیں۔ مگر جب یہ تمام چیزیں تمہاری زندگی میں منظم طریقے سے داخل ہوتی ہیں اور باقاعدگی سے اپنے وجود کا احساس دلاتی ہوئی تمہارے کاندھے سے کاندھا ملاکر کھڑی ہوجاتی ہیں تب تشدد اور نفرت کی یہ قسم پیدا ہوتی ہے۔ خطرناک، چالاک اور ٹُچا تشدد جو اپنی طرف اٹھی ہوئی ایک خشمگیں آنکھ کا بدلہ بھی دوسرے چہرے پر دعا پڑھواکر لیتا ہے۔ یہ نیچ پن ہے۔

    اور واقعی ایسا ہی تھا۔ اس جنگلی آنکھوں والی لڑکی کے ابھرے ابھرے اداس ہونٹوں پر اس کے لیے جنگل جنگل دعائیں تھیں مگر وہ لڑکی! اس لڑکی کی محبت بھی اس کے لیے ایک پیچیدہ تشدد سے کم نہ تھی۔ وہ تو اچھا تھا کہ وہ خوبصورت نہ تھی ورنہ خوبصورتی بجائے خود ایک تشدد ہے جس طرح امیری اپنے آپ میں ایک تشدد ہے۔

    اسے یاد آیا۔

    اس کی عمر تقریباً بارہ سال کی رہی ہوگی۔ موٹی چینی کی ایک رکابی میں سوجی کا خشک حلوہ لیے، شب برات کے موقع پر وہ اپنے ایک عزیز کے گھر گیا تھا۔ وہ لوگ بہت مالدار تھے۔ ان کا گھر کسی روشن محل سے کم نہ تھا،جس میں زرق برق کپڑے پہنے ان کی تین لڑکیاں ادھر سے ادھر جارہی تھیں۔ ان کی چال میں بڑا تکبر تھا۔ پھر وہ اس کے سامنے بیٹھ گئیں۔ تب اسے اپنے کئی بار کے دھلے ہوئے سوتی پاجامے اور ٹکی ہوئی بوسیدہ چپلوں پر بے حد شرم آئی تھی۔ ایک نوکرانی نے جب اس کے ہاتھ میں موٹی چینی کی وہ بھدیلی رکابی تھمادی تو اسے ایک قسم کی گھٹن اور جکڑن کااحساس ہوا تھا۔ اب وہ صاف سمجھ سکتا ہے۔ اب وہ بچہ نہیں ہے۔ وہ صاف سمجھ سکتا ہے کہ وہ تشدد تھا۔ نرالا، انوکھا، ناقابل فہم جو اس کی بے زبان غربت پر شکاری کتے کی طرح جھپٹ رہا تھا۔

    کیسی ہے یہ دنیا، وہ اکثر سوچا کرتا۔ کہاں، کون سی برائی آکر بیٹھ گئی ہے؟ غیرمعین ناقابل تعریف برائی۔ کیا اس برائی کو جھاڑو لگاکر صاف کیا جاسکتا تھا؟ جھاڑو؟ کمر جھک جاتی ہے۔ انسان مضحکہ خیز بنتا ہے۔ دنیا میں جھاڑو لگانے کیسے کیسے عظیم لوگ، اداس چہرے لیے آئے اور چلے گیے۔ برائی صاف نہیں ہوتی۔ وہ جھاڑو کے تنکوں سے گرتی ہے۔ ٹپکتی ہے، پھیلتی جاتی ہے۔ اسی لیے تو اپنے میلے گندے پاجامے کو رگڑ رگڑ کر دھونے کی ایماندارانہ کوشش بھی مضحکہ خیز ہی قرار پاتی ہے۔

    شلوار یونہی گھٹنوں تک چڑھی رہی۔ پنڈلی پر سرخ خراشیں نظر آتی رہیں۔ آہستہ آہستہ اس کے منھ سے بے ہنگم خراٹے پھوٹنے لگے۔ سانس کے ساتھ اس کا منھ بھی بے تکے پن سے اوپرنیچے ہو رہا تھا۔ ’’سوتے میں بھی اس کے چہرے کی درشتگی اور کرختگی نہیں جاتی۔‘‘ اس نے افسوس کے ساتھ سوچا۔نہ جانے کیوں اسے ٹھیک سے یاد نہیں کہ جنگلی آنکھوں والی لڑکی سے اس کی پہلی ملاقات کب اور کس طرح ہوئی تھی۔ مگر اسے اتنا ضرور یاد ہے کہ شروع شروع میں یہ بڑی بڑی وحشت زدہ آنکھیں صرف تیز کتھئی رنگ کی تھیں اور ان میں کوئی خاص بات نظر نہ آتی تھیں۔

    ایک دن وہ اس کے پاس ایک ایسی زبان سیکھنے کے لیے آئی جس میں وہ مہارت رکھتا تھا۔

    ’’سر آپ مجھے سکھادیں گے؟ بس اتنا کہ میں تھوڑا سا لکھ پڑھ سکوں؟‘‘ اس نے اپنی تیز کتھئی بڑی بڑی آنکھوں کو اس کے چہرے پر مرکوز کرتے ہوئے پوچھا۔اس نے پہلی بار لڑکی کو غور سے دیکھا۔ عام سے کچھ زیادہ ہی چوڑے نسوانی کاندھے مگر بے حد کمزور چھاتیاں جو اس کے آسمانی رنگ کے دوپٹے کے ڈھلک جانے کے باعث نمایاں لگتی تھیں مگر انہیں نمایاں ہونا بھی نہیں کہا جاسکتا تھا۔ وہ نمایاں ہونے کے امکان بھرتھے۔ مگر ٹھیک اسی وقت اسے ایک عجیب و غریب امر کا احساس ہوا۔ اس احساس نے لڑکی کے جسم پر کہیں اور دیکھنے کی تمام راہیں مسدود کردیں۔ اسے لگا جیسے اس کے چوڑے نسوانی کاندھوں سے اس کے کمزور پستانوں تک دودھ کا ایک پوکھر ہلکورے مار رہا تھا۔ اپنے کناروں سے باہر چھلکتا ہوا ایک نادیدہ پراسرار پوکھر۔ وہ ایک آوارہ کتے کی طرح اس دودھ میں منھ ڈالنے کے لیے بڑھا۔

    ’’مجھے کتنے دن لگیں گے؟‘‘ لڑکی نے سوال کیا۔

    وہ جب اس زبان کے ابتدائی حروف پڑھا رہا تھا تو یہ سب کچھ نئے سرے سے پیدا ہوجانے جیسا تھا۔ حروف کو سیکھنا ایک معصوم کھیل تھا۔ زبان کی دہشت اور شرانگیزی ابھی کوسوں دور تھی۔ اس کے مسخ شدہ ادھیڑ ہوتے چہرے پر خالص حروف ہیرے کی طرح چمک رہے تھے۔

    ’’جسم میں ڈھیروں عمر آچکی ہے۔ وقت کہاں سے کہاں آپہنچا۔‘‘ اس نے سوچا۔

    ’’کیا آپ کے دانت میں تکلیف ہے؟ بایاں جبڑا سوجا ہوا ہے۔‘‘

    اس نے غیرارادی طور پر اپنے جبڑے کو ہاتھ سے ڈھک لیا۔

    ’’ہاں۔ یہ مصیبت تو بچپن سے میرے ساتھ ہے۔ دانتوں کے درمیان خلا ہوگیا ہے۔ رات کھانے کے دوران کچھ پھنس گیا تھا۔‘‘ اس نے شرمندگی سے جواب دیا۔

    ’’کیا بہت تکلیف ہے؟‘‘ لڑکی کی آواز سے دودھ کے پوکھر میں لہریں اٹھیں۔ اس نے اس پوکھر میں اپنا عکس دیکھا اور پھر بڑے بے صبری اور بھدے پن کے ساتھ اسے سب کچھ بتانے لگا جیسے وہ یہ سب سنانے پر ہی تلا بیٹھا تھا۔بچپن میں سب اس کا مذاق اڑاتے تھے۔ وہ گنے یا بھٹے نہیں کھاسکتا تھا۔ مسوڑھے سوج جایا کرتے تھے۔ لوگ کہتے تھے کہ اس کے دودھ کے دانت گرنے میں ہی نہیں آرہے ہیں اس لیے ایسا ہوتا ہے۔

    اسے یاد ہے ایک بار اس کا ایک بچپن کا ساتھی کھیل میں بھاگتے بھاگتے منھ کے بل گرپڑا۔ کولتار کی تپتی ہوئی سڑک سے ٹکراکر اس کا سامنےکا ایک دانت چوٹ کی وجہ سے نیلا پڑگیا تھا۔ مگر دوسرے ہی دن اس نے اس نیلے دانت کو باہر ابھار کر اخروٹ کا چھلکا توڑ دیا اور پھر فاتحانہ انداز میں بھاگتے ہوئے ایک چھلاوے کی طرح نظرسےاوجھل ہوگیا۔ نیلے پڑے ہوئے، چوٹ کھائے ہوئے مگر طاقت ور دانت کو باہر نکالے اس کا منھ چڑاتا ہو وہ بچپن کا ساتھی اکثر اسے خواب میں دکھائی دیتا تھا۔ وہ اس سے پریشان ہوجاتا تھا۔ مگر اس سے بھی زیادہ پریشان کن خواب کوئی اور تھا۔

    ’’گوشت کھایا ہے۔ ٹھیک سے دانت صاف کرو۔ انگلی سے ملو اور زور زور سے کلی کرو۔‘‘ دادا اپنے پوپلے منھ سے باندوں کے جھلنگے پر لیٹے لیٹے حکم دیتے۔

    وہ پیتل کا بھاری لوٹا اٹھائے گھر کے دروازے کے قریب پتلی نالی پر اکڑوں بیٹھ جاتا۔

    ’’غرغر۔ غرغر۔‘‘ وہ کلی کرتا۔ شہادت کی انگلی سے دانتوں کو اوپر نیچے آگے پیچھے زور زور سے رگڑتا۔ اچانک انگلی میں انار کے دانے جیسا کچھ چپک جاتا۔ وہ منھ سے انگلی نکال کر دیکھتا۔ خون میں لتھڑا ہوا چونا لگا پیلا پیلا دانت تھا۔ وہ گھبرا کر زور سے کلی کرتا۔ وہاں وہ سب منہ سے نکل کر نالی میں بکھر جاتے۔ دہشت زدہ ہوکر نالی میں سے خون میں ڈوبے ہوئے اپنے سارے دانت وہ بٹورنےلگتا۔ کاغذ کی ایک پڑیا میں باندھ کر رکھنے کے لیے۔ شاید یہ دودھ کے دانت ہوں۔ انھیں کہیں زمین میں گڈھا کھود کر داب دیا جائے گا یا پھر چوہیا کے بل میں ڈال دیا جائے گا تاکہ خوبصورت دانت نکلیں۔ وہ سسکنے لگتا۔ رونے لگتا۔ دانت ادھر ادھر بکھرجاتے۔ ہاتھ میں نہ آتے۔

    ’’کیا بات ہے سوتےمیں رو رہا ہے۔ کیا ہوا بیٹا؟ کیا کوئی خواب دیکھا؟‘‘ دادی بے چین ہوکر اٹھ جاتیں۔ وہ کہتی تھیں کہ دانت گرنے کا خواب دیکھنا دراصل درازیٔ عمر کی بشارت ہے۔ اور فجر کے وقت کا خواب ہمیشہ سچا ہوتا ہے۔ وہ بستر پر اکڑوں بیٹھ جاتا۔ فجر کی اذان کے ساتھ رات کی آخری ہواؤں میں چھت کے کنڈے سے لٹکی لالٹین ہلتی رہتی، پھر بھڑکنے لگتی۔

    ’’کیا بہت تکلیف رہتی ہے؟‘‘ لڑکی کاآسمانی دوپٹہ اس کے بائیں جبڑے کو چھو چھو کر لہرا رہا تھا۔ وہ بہت پاس کھسک آئی تھی۔

    ’’ہاں۔ بہت تکلیف۔ اس کا درد میرے کندھے تک پہنچتا ہے۔‘‘

    یہی وہ لمحہ تھا جب لڑکی کی کتھئی آنکھوں کا رنگ بدلا تھا۔ وہاں سبز سبز گھنا جنگل اگنے لگا۔ پھر یہ آنکھیں بھی جنگلی سی بن گئیں۔ ایک پل کو اسے محسوس ہوا جیسے وہ اپنی جنگلی ہوتی ہوئی آنکھوں کے ساتھ اس کے درد کے مارے کندھے پر اپنا سرٹیک رہی تھی۔

    ’’آپ کچھ زیادہ ہی گھبرا رہے ہیں۔ کچھ نہ ہوگا، اب میں علاج شروع کر رہی ہوں۔‘‘ ڈاکٹر کھل کر مسکرائی۔ اس کے ہاتھ میں پتلی پتلی سوئیاں ہیں۔ وہ بس سے پونے دو گھنٹے کا سفر طے کرکے یہاں پہنچا کرتا ہے۔ اس ڈینٹل کلینک کے ایک دم سامنے تیر کمان کی شکل کا ایک فلائی اوور بن گیا ہے۔ جہاں یہ شہر اپنی پوری دہشت کے ساتھ بہتا چلا جاتا ہے۔ اس علاقے کے فٹ پاتھ عجیب ہیں۔ ان پر لگائے ہوئے درخت نیچے کو جھک آئے ہیں۔ وہ اس کے سر سے ٹکراتے ہیں۔ وہ سڑک پر اترتا ہے تو ٹریفک کا ایک خوفناک طوفانی ریلا گزرتا چلا جاتا ہے۔ یہ ریلا اس کے لیے یکسر بےمعنی ہے مگر وہ سہم کر دوبارہ فٹ پاتھ پر چڑھ آتا ہے۔ فٹ پاتھ ویران ہے۔ اس پر صرف درخت جھومتے ہیں، پتیوں کی طرح لہراتے ہیں۔ وہ کمر اور شانے جھکاکر چلتا ہے۔

    ڈینٹل کلینک تک پہنچنے کے لیے تمہیں اس فلائی اوور کو پار کرنا ضروری ہے۔

    ایک بھرے پرے بازار سے گزر کر، ایک پتلا سازینہ چڑھ کر جب اس ڈینٹل کلینک کے سامنے کھڑے ہوتے ہو تو پہلی نظر میں تمہیں یہ جوتوں اور چپلوں کا کوئی شوکیس نظر آئے گا اور ممکن ہے کہ تم ٹھٹک جاؤ۔ مگر ایسا نہیں ہے۔ دراصل ڈینٹل کلینک میں تمہیں جوتے یا چپل اتار کر داخل ہونا ہوتا ہے۔ یہ سب دکھتے اور سڑتے دانتوں والے انسانوں کے اتارے ہوئے جوتوں کے ڈھیر ہیں جو اندر پہلے ہی سے موجود ہیں۔ یقیناً یہاں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنے پیدائشی ٹیڑھے یا ہونٹوں پر نمودار ہوتے ہوئے دانتوں پر صرف تار بندھوانے آئے ہیں یا دانت کی کسی خودرو نوک کو ریتی سے گھسوانے آئے ہیں جو ان کی زبان میں یا گال کے اندرونی حصے میں چبھنے لگتی تھی۔ مگر زیادہ تعداد ان لوگوں کی ہے جو اپنی ڈاڑھ یا دانت نکلوانے آئے ہیں۔

    کبھی کبھی اسے یہ سوچ کر ڈر لگتا ہے کہ اگر دانت اتنی تیزی سے نکلوائے جاتے رہے تو ڈینٹل کلینک سے باہر آیا ہوا ہر چہرہ پچکا ہوا نظر آئے گا۔ ڈینٹل کلینک چاروں طرف سے شیشے سے گھرا ہوا ایئرکنڈیشن چیمبر ہے۔ یہاں سب سے پہلے تمہاری نظر ایک عجیب و غریب ساخت والی مشین پر پڑتی ہے جو ایک دیوزاد مکھی کی صورت ایک بڑی سی آرام کرسی پر بھنبھنارہی ہے۔ ادھر ادھر چھوٹے چھوٹے اسٹول پڑے ہیں۔ دیواروں پر جگہ جگہ انسانی دانتوں کی تصویریں چسپاں ہیں۔ رنگین اور سیاہ دونوں، سفید اوورکوٹ پہنے دو لیڈی ڈاکٹر اور نرسیں اپنی اپنی جگہ روبٹ کی طرح کھڑی ہیں۔ کچھ عجیب الخلقت قسم کے بے رحم اوزار اپنے تمام جبر اور تشدد کے ساتھ یہاں وہاں بکھرے ہوئے ہیں۔

    یہ اوزار ہی ہیں جن کے سہارے کبھی کبھی وہ اندر کلینک میں یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ ہم ایک زیادہ روشن مسکراہٹ تمہارے چہرے کو بخش سکتے ہیں۔ وہ مسکراہٹ جو خدا نے تمہیں نہیں بخشی تھی، وہ ہم تمہیں عطا کریں گے۔ کیونکہ دانتو ں پر ہی گال اور جبڑے کے عضلات منحصر کرتے ہیں۔ دانتوں کو درست کرکے، ان کی مرمت کرکے ایک خوشنما مسکراہٹ کے ساتھ ہم تمہیں ڈینٹل کلینک سے وداع کرسکتے ہیں۔ بھلے ہی وہ ایک زخمی خوشنمائی ہو۔ چوٹ کھائی ہوئی مسکراہٹ۔ مگر اس کلینک کا سب سے دلفریب پہلو یہاں کی قبول صورت، بظاہر نرم دل اور ہمدرد نظر آنے والی پیشہ ورانہ مہارت سے لبریز مسکراہٹ ہونٹوں پر سجائے ہوئے ڈاکٹر عورتیں ہیں۔ یہ عورتیں ہی اس بے رحم، خطرناک ڈینٹل کلینک کو تھوڑا سا قابل برداشت بناتی ہیں۔ ٹھیک اسی طرح جیسے حوا نےدنیا کو قابل برداشت بنایا تھا۔ مگر یقیناً ایسی دنیائیں بھی تو ہوں گی جہاں بی بی حوا نہ ہو، اس کے صرف چڑچڑے بھوت ہوں۔

    وہ صبح صبح ہی غصے سے بھر کر چلانے لگی۔

    ’’تم آخر اس قدر چیختی کیوں ہو؟‘‘ وہ آہستہ آہستہ سے بولا، ’’چڑیل کی طرح۔‘‘ اس کے اندرکوئی اور بھی آہستہ سے بڑبڑایا جسے وہ نہ سن سکی۔

    ’’تم صبح صبح بغیر دانت صاف کیے میرے منھ میں کیوں گھسے آتے ہو؟‘‘ وہ دوبارہ چیخی اور اس کے سوکھے بغیر کنگھی کیے ہوئے کھچڑی بال اس کے چہرے پر دیوانہ وار گھومنے لگے۔

    ایسی چیخ چلاہٹ کا اپنا انفرادی تشدد تھا۔ انفرادی اور اجتماعی تشدد دو الگ الگ شئے نہیں ہیں۔ وہ اسے برداشت نہ کرسکا۔ اس کا سر گھومنے لگا۔

    ’’مجھے کوئی شوق نہیں۔ غنودگی میں ایسا ہوگیا ہوگا۔‘‘ وہ بڑبڑایا۔

    ’’دانتوں میں کیڑا لگا پڑا ہے۔ بدبو کے بھبکے اڑتے ہیں۔‘‘ وہ زہر خند لہجے میں بولی، ’’جب دیکھو میٹھا نگل رہے ہو۔ حلوہ بھرے جارہے ہو۔ سوتے جاگتے حلوہ، اٹھتے بیٹھتے حلوہ۔‘‘

    ’’حلوے کی برائی مت کرنا۔ حلوہ کھانا سنت ہے۔‘‘ وہ ایک بے معنی غرور سےتن گیا۔

    ’’بس یہی ایک سنت تو رہ گئی ہے۔۔۔ ہے نا بدعتیوں کا خاندان۔‘‘ اس کے ہونٹوں پر سفید تھوک کے ذرّات نمایاں ہوگیے۔

    مگر وہ شاید نہیں سن رہا تھا۔

    ’’دیکھو بیٹا!‘‘ دادی اسے گود میں بیٹھاکر اپنے پوپلے منھ سے سمجھا رہی تھیں، ’’حلوہ کھالو۔ اسے منع نہیں کرتے۔ حلوہ حضورؐ کو بے حد مرغوب تھا۔ ایک دفعہ جنگ میں جب ان کا دندان مبارک شہید ہوگیا تو حضرت اویس قرنی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے سارے دانت پتھر سے مار کر توڑ ڈالے۔ جانتے ہو کیوں؟‘‘

    دادی نے حلوے کا چمچہ اس کے منھ میں دے دیا۔ اس کا منھ کھلے کا کھلا رہ گیا۔

    ’’اس لیے کہ وہ حضورؐ سے بہت محبت کرتے تھے حالانکہ انہوں نے کبھی حضور کو دیکھا بھی نہیں تھا۔ تب ہی سے شب برات کے حلوے پر حضرت اویس قرنی کی فاتحہ بھی دی جاتی ہےکیونکہ وہ کچھ اور کھانے کے قابل نہ تھے۔‘‘

    ڈینٹل کلینک کی آرام کرسی پر لیٹے لیٹے اس نے اچانک سوچا۔ پتھر سے اپنے تمام دانت توڑ ڈالنا اپنی ماہیت میں کون سا جذبہ تھا؟ اور یہ بھی کہ پوپلے منھ والے حلوہ ہی کھا سکتے ہیں۔ حلوے اور دانت کا تعلق تو بہت پرانا ہے۔ لیکن صرف زندہ لوگ ہی کیوں، مردوں سے بھی اس کا ایک پراسرار رشتہ ہے۔

    وہ جاڑوں کی دھوپ سے بھری دوپہر تھی۔ دادی کی لاش دالان میں بستر پر سفید چادر میں لپٹی پڑی تھی۔ ظہر کی اذان ہو رہی تھی۔ محلے کی چند عورتیں آئیں اور انہوں نے گھر کے چولہے پر ایک دیگچہ چڑھا کر اس میں کفگیر چلانا شروع کردی۔ گھر میں سوجی کے حلوے کی سوندھی مہک سلگتے ہوئے عود و لوبان کے ساتھ مل کر دادی کے مردے جسم کے گردآکر بھٹکنے لگی۔ تھوری دیر میں آس پاس کے ننگ دھڑنک بچے گھر کی چوکھٹ پر بھکاریوں کی طرح آکر کھڑے ہوگیے۔ ایک عورت نے حلوہ نکال نکال کر تقسیم کرنا شروع کردیا۔

    وہ آہستہ آہستہ چلتا ہوا دادی کے بے جان جسم کے پاس آیا۔ اس نے ان کے چہرے سے چادر سرکا دی۔ اسے لگا جیسے وہ مسکرارہی تھیں مگر ان کے مردہ اور پوپلے منہ کی وجہ سے یہ مسکراہٹ چہرے سے پھسل کر کہیں اور گر رہی تھی۔ کہاں؟ وہ تلاش نہ کرسکا۔

    اورتب وہ مطمئن ہوگیا کہ یہ تو قبول کرنا ہی پڑے گا۔شیشوں سے گھرے اس ایر کنڈیشنڈ چیمبر میں داخل ہونے سے پہلے تم کو اس کراہت اور بدہیئتی کو قبول کرنا پڑے گا۔ وہ موجود ہے تمہاری کھوکھلی ہوتی ہوئی ڈاڑھوں میں، دانتوں سے جھڑتے ہوئے چونے میں اور سوجے ہوئے سرخ مسوڑھوں میں۔

    نرس نے اس کے سر پر ایک تیز روشنی والا بلب روشن کیا۔

    اس نے کپکپاتے ہوئےہاتھوں سے اپنا چشمہ اتار کر الگ رکھ دیا۔

    ’’آپ زیادہ ہی گھبرا رہے ہیں۔ کچھ نہ ہوگا۔‘‘ ڈاکٹر ہنسی۔ اس کے ہاتھ میں بال برابر موٹائی کی کئی سوئیاں ہیں۔ وہ اس کا ’’روٹ کینال‘‘ کرے گی۔ دانتوں کے اندر مٹیالی نہریں بہتی ہیں۔ ان میں سیاہ کیڑے تیرتے ہیں۔

    وہ اکیلا، حواس باختہ آرام کرسی پر پڑا تھا۔ تیز روشنی والے بلب نے اچانک اسے ساری کائنات سے جدا کردیا۔ دیوز ادمکھی جلتی ہوئی بھیانک آنکھ کے سامنے اس کو کس جرم کے لیے جواب دہ بناکر اس کا مقدر لکھ دیا گیا تھا؟ یہ شاید کنفیشن چیئر (Confession Chair) تھی۔ یہ ایک قسم کی پوچھ گچھ تھی۔ تھرڈ ڈگری۔ تیز روشنی والے بلب کے اس پار، ڈینٹل کلینک کے شیشے کی دیوار سے لگی کھڑی وہ اسے نظر آتی ہے۔ شیشے کی دھول صاف کرتے ہوئے۔ڈاکٹر کی ماتحت جوان اور پرکشش تھی۔ اس کی بڑی بڑی آنکھوں پر چشمے کا خوبصورت فریم تھا۔ وہ اچانک اس کے اوپر جھک آئی اور نرمی سے بولی:

    ’’آپ کانپ رہے ہیں۔‘‘

    نہیں۔ اس کے جسم سے کوئی خوشبو نہیں آتی۔ وہاں صرف دواؤں اور کلوروفارم کی مہک ہے۔ ایک پتلی سی سوئی جبڑے کی گہرائیوں میں کوئی نہر، کوئی سرنگ بناتی چلی جاتی ہے، وہ تیز تیز سانسیں لینے لگتا ہے۔ہفتے میں ایک بار اسے اس علاج کی خاطر یہاں آنا پڑتا ہے اور تشدد برداشت کرنا پڑتا ہے۔ وہ تشدد کے بارے میں تفصیل سے سوچنے لگتا ہے۔

    دو تین بار یہاں آنے کے بعد جی کو صبر بھی آگیا تھا۔ اب وہ اس طرح نہیں گھبراتا تھا۔ یہ ایک قسم کی بے حسی تھی جو ایک خاص طرح کے تشدد کے لیے ذہنی راہ ہموار کرتی ہے۔ پھر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یہ تشدد کا فاعلی روپ ہے یا مفعولی۔ جب انسان اپنے عقب میں تیز بھاگتی ہوئی روشنیوں کو کچلتا ہے تو یہ تشدد ہے۔ جب انسان اپنے میلے جانگیے کو رگڑ کر صاف کرتا ہے تو یہ تشدد ہے۔ جب انسان آدھی رات میں دور سے آتی ہوئی کسی ننھے بچے کے رونے کی آواز کو نظراندازکرتا ہے تو یہ تشدد ہے۔

    تشدد کہاں نہیں تھا۔ اب صورت حال بدل جانے کے بعد بھی وہ موجود ہے اس طرح کہ ایک تمسخرانہ مسکراہٹ میں شامل ہے۔ انسانوں کے درمیان تمام رشتوں میں گندھا ہوا یہ بے زبان تشدد مگر بے رحمی کے ساتھ سب کو ستاتا ہوا، کچلتا ہوا۔

    جب وہ دانت کی تاریک گہرائی میں سوئی داخل کرتی ہے تو منھ کھلا رہنا چاہیے۔ تم مضحکہ خیز حدتک اپنا منھ پھاڑے رکھوگے۔ یوں نیم دراز ہوکر بدنیت دیوازدمکھی کی کٹنی روشنی میں تمہارے دانتوں کے نہاں خانے روشن ہوجاتے ہیں۔ کیا یہ ایک قسم کی عریانیت اور خطرناک فحاشی نہیں؟ ایسے میں اگر اس ڈاکٹر کے چہرے پر چشمہ بھی ہو تو اپنا یہ قابل رحم حدتک کھلا ہوا بھدا اور بے تکا منھ ٹھیک اس کے لینس پر دیکھ سکتے ہو۔ یہ سب اس لیے اور بھی زیادہ بے شرم ہے کہ وہ سوئیاں اندر کہیں بہت اندر جاکر چبھتی ہیں۔ ان کی چبھن کا احساس اکثر وہاں نہیں ہوتا جہاں وہ موجود ہیں۔ تھوڑا ادھر ادھر محسوس ہوتا جیسے ناک میں، کان میں یا حلق کی نالی میں۔

    وہ تنگ آکر آنکھیں بند کرلیتا ہے۔ ڈاکٹر کی آنکھیں بہت زیادہ سیاہ ہیں۔ اس نے اتنی سیاہ آنکھیں پہلے کبھی نہیں دیکھیں مگر اسے ان آنکھوں سے اکتاہٹ کا احساس ہو رہا ہےآنکھیں بند کیے کیے اس نے پھر اسی تشدد کے بارے میں سوچنا شروع کردیا۔ یہاں۔۔۔ اندر وہ نہ جانے کب سے لیٹا تھا۔ دکھتے دانتوں اور جبڑوں کے اندر پیوست ہوئی سوئیوں سے پریشان ہوکر، گھبراکر مضبوطی سے کرسی کا ہتھا پکڑ لینا، ہاتھ برف کی طرح ٹھنڈا اور پھر ردعمل کے طور پر اپنے منھ کو اور بھی زیادہ پھاڑ کر، ڈاکٹر کی کالی آنکھوں میں بے معنی انداز میں گھورنا بھی اس بدبخت تشدد کا جواب تھا۔

    ہاتھی کے مقابلے چیونٹی کو مارنا یقیناً زیادہ بڑا تشدد ہے۔ ایک طرح کا اوچھا پن بھی۔ کمزور کا تشدد زیادہ نیچ اور کمینہ ہوتا ہے۔ وہ طاقتور کے تشدد سے زیادہ چالاک، مکار اور فنکارانہ ہوتا ہے۔ بارہا اس نے سوچا تھا کہ دنیا میں لاکھوں لوگ روز مرجاتے ہیں، آخر وہ کیوں نہیں مرجاتی؟ کاش وہ مرجائے تو وہ دنیا میں بہت اطمینان اور سکون کے ساتھ زندگی بسر کرسکتا تھا، پھر دنیا کتنی خوبصورت ہوجاتی۔

    ظاہر ہے کہ اس طرح سوچنا گٹھیا، بے معنی اور مضحکہ خیز تھا۔ مگر دراصل یہ ایک بڑی دہشت گردی تھی۔ ایک عظیم تشدد، کہ رشی،دیوتا اور مجذوب تو شراپ یا بددعا دے کر جس کے متحمل ہوسکتے تھے مگر عام انسان کے لیے یہ بہت نیچ، شرمناک اورٹچا ہتھیار تھا۔ یہ ناقابل معافی تھا۔

    مگر کیا کوئی کسی کو معاف کر رہا تھا؟

    کبھی کبھی وہ اپنے مرے ہوؤں سے مدد کی دعا مانگتا تھا اوریقیناً یہ بھی تشدد تھا۔ دنیا جہاں سے ماورا ان پاک روحوں کو دوبارہ گھسیٹ کر کھینچ کر دنیا میں لانا یا ان سے دنیا کے کاموں میں مدد لینا ان کی روحوں کو شدید کرب اور چڑچڑاہٹ میں مبتلا کردینے کے علاوہ اور کیا تھا؟ یہ تشدد کا حصار تھا جو اپنی ماہیت میں دنیا کے رگ و ریشے میں سما گیا تھا۔

    ’’ٹھنڈا گرم کب سے لگ رہا تھا؟‘‘ ڈاکٹر نے سوئی کو دانت سے باہر نکالتے ہوئے پوچھا۔

    ’’گرم نہیں۔ ٹھنڈا لگتا تھا۔ نہ جانے کب سے۔‘‘ وہ زبردستی مسکرایا۔

    دراصل جن دنوں منھ سے بدبو آنا شروع ہوئی تھی ان ہی دنوں ذرا سا ٹھنڈا پانی بھی دانت پر نشتر کی سی کاٹ کرتا تھا۔ ایک ٹھنڈی برفیلی آگ جبڑے کو جھلساتی ہوئی ناک، ہڈی اور آنکھ سے گزرتی ہوئی کنپٹی تک پہنچتی تھی۔ مسئلہ بدبو کا بھی تھا۔ تب دانتوں میں پس پڑگیا تھا۔ برش کرتے وقت واش بیسن میں خون کے ذرّات شامل ہونے لگے۔ آہستہ آستہ وہ خراب ہو رہے تھے۔

    ’’تم بتاؤ۔ میں تمہیں پیار کرتا ہوں تو کیا میرے منھ سے بدبو آتی ہے؟‘‘ ان دنوں وہ جنگلی آنکھوں والی لڑکی کے ہونٹ چومتے ہوئے پوچھتا۔

    ’’نہیں۔‘‘ وہ سادگی سے جواب دیتی۔

    ’’سچ بتاؤ۔ تمہیں میری جان کی قسم۔‘‘

    ’’نہیں۔ تمہاری قسم۔‘‘ وہ جواباً اسے چومتی اور اس کا بدن اچانک بھرا بھرا نظر آنے لگتا۔

    کیا کوئی معمولی بات تھی؟ منھ کی یہی بدبو تھی جو اس بدنصیب شیر کے منھ سے آرہی تھی۔ وہی شیر جو اپنے بیمار دوست لکڑہارے کی عیادت کے لیے جنگل سے اس کے گھر آیا تھا۔ اپنی جان پر کھیل کر، مگر اس دن لکڑہارے نے اپنے پلنگ کے پائنتی بیٹھے ہانپتے ہوئے شیر کے منھ کی بدبو کو برداشت نہ کیا تھا۔ اپنا ٹوٹا ہوا دل لے کر شیروہاں سے چپ چاپ واپس جنگل کو لوٹ گیا تھا۔ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔ اس انوکھی دوستی کو توڑ کر۔ وہ کئی سال پہلے کی بات تھی جب وہ تمام خدشات کی پروا نہ کرتے ہوئے اکثر اس کے گھر اس کی کتابوں کی دھول صاف کرنے کے لیے آجایا کرتی تھی۔ تیز روشنی والے بلب کے اس پار اب وہ اسے ڈینٹل کلینک کے شیشے کی دھول صاف کرتی نظرآتی ہے، اس کے سوکھے ہوئے ہاتھوں پر نیلی لکیریں نظر آتی ہیں، وہ دھول صاف کر رہی ہے۔ مگر اس کی جنگلی آنکھوں کے سہمے ہوئےآنسو اس شیشے کو دھندلا کر رہے ہیں۔

    وہ کوئی دعا پڑھ رہی تھی؟ کم نصیب دعا جو شیشے سے باہر رہ جاتی ہے۔ چمگادڑ کے مردہ پروں کی طرح شیشے سے چپکی ہوئی۔ آرام کرسی پر لیٹے لیٹے، برف جیسے ٹھنڈے ٹھنڈے مطب میں اس نے انھیں صاف صاف دیکھا۔ دو مایوس ہاتھ دھول صاف کرتے وقت گویا کنفیشن چیر پر لیٹے اس کے مجرم وجود کو چڑا بھی رہے تھے۔

    دھول جھاڑنا اور دھول صاف کرنا دو قطعی مختلف باتیں ہیں۔ یکسر متضاد۔ وہ دھول جھاڑتی نہیں، صاف کرتی ہے۔ اس وقت اسے ان ہاتھوں کی لازمی بےچارگی، مایوسی اور بے معنویت صاف نظرآجاتی ہے۔ ان ہاتھوں پر ابھری نیلی لکیریں آہستہ آہستہ موت کی طرف جانے والی زہریلی راہیں ہیں۔وہ کہاں جارہی تھی؟ وہ کہاں چل رہی تھی؟ وہ اپنے ان دو افسردہ ہاتھوں پر چل رہی ہے۔ وہ ان زہریلی نیلی لکیروں پر آگے بڑھتی جارہی ہے اور کم ہوتی جاتی ہے۔

    ’’وہ میرے لیے گم ہو رہی ہے۔‘‘ شیشے کے اندر لیٹے لیٹے اس نے سوچا۔

    شیشے کا یہ چیمبر ہر قسم کے امکان سے خالی ہے۔ اس کی بے حس مسکراہٹوں کے جواب میں اس کے پاس بھی ایک بے حس مکراہٹ ہے، کوئی چیخ نہیں۔ کلی کرنے سے پہلے اور کلی کرنے کے بعد بھی، اگرچہ کرسی کے ہتھے پر ٹکے ہوئے واش بیسن میں خون شامل ہوتا جاتا ہے۔

    کسی نے کہا تھا، ’’ظلم جب بارش کی طرح آتا ہے تو کوئی چیخ بلند نہیں ہوتی۔‘‘

    آخری روز فیصلہ کن جھڑپ سے تقریباً دو ہفتے پیشتر اچانک اس کے دانت کی تکلیف بہت بڑھ گئی تھی۔ ناقابل برداشت۔ اسے ہر وقت ہلکا ہلکا بخار بھی رہنے لگا تھا۔ بائیں طرف کا جبڑا سوج کر نیچے کو لٹک آیا تھا۔ بولنے میں بہت دقت ہوتی تھی۔ چہرے کی نرمی اور اس کے اپنے فطری خدوخال نہ جانے کہاں چھپ گیے تھے۔ اب تو ہر وقت یہ چہرہ ایک بے حد غصہ ور، چڑچڑے اور بددماغ انسان کا نظر آنے لگا تھا۔ مگر اصل عذاب تو کھانا کھانا اور چبانا تھا۔ سارا چہرہ درد کی شدت سے پسینے میں تر ہوجاتا تھا۔ کسی طرح کھاچکنے کے بعد وہ گھنٹوں اپنا جبڑا ہتھیلی سے دبائے بیٹھا رہتا۔ درد کم کرنے والی دوائیں آہستہ آہستہ اس پر اپنی تاثیر کھو رہی تھیں۔ کھانا ٹھیک سے نہ چباسکنے کی وجہ سے مستقل طور پر اس کا پیٹ بھی خرا ب رہنے لگا تھا۔ حلوے کے علاوہ وہ جوبھی کھاتا، ہضم نہ ہوپاتا اور سخت قسم کی مروڑ کے بعد آنتیں اسے فضلے اور خون کی شکل میں باہر نکال پھینکتیں۔

    اس دن شام ہی سے اوس بہت پڑ رہی تھی۔ گھر میں عجیب نظر نہ آنےو الی نمی نمی سی تھی۔ ہمیشہ کی طرح معمولی سی بات تھی مگر وہ دو الگ الگ ذہن تھے۔ دوالگ الگ ذہن دراصل دو الگ الگ مذہب ہیں۔ دو مختلف کلچر۔ وہ آپس میں مل کر صرف غصہ، برہمی، احتجاج اور غارت گری پیدا کرسکتے ہیں۔ اگرچہ کبھی کبھی روروایت یا رواداری کا التباس بھی پیدا ہوتا ہے۔ ’’میں پوچھتی ہوں وہ حرافہ کیوں منھ اٹھائے چلی آتی ہے۔‘‘ وہ اسی طرح سے چیختی کہ اس کے سر کے بال اس کے سر پر ایک پل کے لیے بونڈر کی طرح کھڑے ہوگیے۔

    ’’خبردار جو اسے بیچ میں لائی۔‘‘ وہ بھی تقریباً اسی طاقت سے دہاڑنا چاہتا تھا۔ مگر محبت سے چھپا کر لائی گئی ایک سفید گول چپاتی نےاسے شانت کردیا اور اس کا لہجہ عام سے زیادہ بلند نہ ہوسکا۔

    ’’کیوں بہت برا لگا؟ پاگل ہوگئی ہے کتیا، نہ جانے تجھ جیسے بڈھے میں کیا دیکھ رہی ہے۔ دانت تک تو سڑنے لگے ہیں تمہارے، ویسے جوانی میں بھی چکنے چپڑے لونڈیوں جیسے چہرے کے علاوہ تمہارے پاس تھا کیا؟ ایک بچہ تک تو پیدا کر نہ سکے۔‘‘

    اپنے بھاری بھاری پستانوں کو ہلاتے ہوئے اس نے کچھ ایسی عجیب پراسرار نفرت اور حقارت سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ ایک پل کو اس کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔ کچھ دیر وہ آنکھیں بند کیے اس ذلّت و نفرت کے نئے جھونکے میں فرش پر کھڑا جھومتا رہا اور بس یہی وہ لہجہ تھا جب اس کے اندر کا کمینہ تشدد بااخلاق بن گیا۔

    ’’ایسی بدمزاج عورت کو دنیا میں رہنے کا کیا حق تھا؟ میں اس عورت کو قتل کردوں گا۔ چھوڑوں گا نہیں۔ گلا کاٹ کر رکھ دوں گا۔ سر الگ۔ دھڑ الگ۔ بس یہی ایک راستہ ہے۔‘‘ اس کے اندر پتہ نہیں کون بے حد اطمینان اور فیصلہ کن لہجے میں چالاکی کے ساتھ غرائے جارہا تھا۔ پھر اسی طرح فرش پر نظریں جمائے جمائے اس نے اپنی سیاہ پرچھائیں کو خود سے جدا ہوتے ہاتھ میں بڑا سا خنجر لیے عورت پر ایک لمبی چھلانگ لگاتے دیکھا۔ وہ اپنی اس جواں مرد اور غصہ ور پرچھائیں سے بھڑک کر بھاگا۔ اوس سے بھیگی ہوئی رات میں وہ جہاں بھی بھٹکا اس کا بدن چپچپاتا رہا اور ایک ناقابل تشریح قسم کی کمزوری اور خوف کے باعث تمام رات اس کے پیر کانپتے رہے۔

    اور پھرجنگلی آنکھوں والی لڑکی نےاس کی قمیص کے کالر کو پکڑ کر جھنجھوڑ دیا۔

    ’’کہاں جا رہے ہو۔ تم مجھے چھوڑ کر ہر گز نہیں جاسکتے۔‘‘

    وہ خاموش سرجھکائے کھڑا رہا۔

    ’’کیا پھر جھگڑا ہوا؟ میں نے تمہیں کتنی بار سمجھایا کہ تم بولامت کرو۔ کسی بات کا جواب ہی نہ دیا کرو۔‘‘

    وہ زمین تکتا رہا۔

    ’’بولو، کہاں جارہےہو؟‘‘ اس نےاپنے دانت پوری طاقت سے اس کے سینے میں گاڑ دیے۔

    ’’میں اپنے دانت ٹھیک کروانے جا رہا ہوں۔‘‘ اس نے اداسی کے ساتھ جواب دیا۔

    ’’لیکن کہاں؟‘‘

    ’’پتہ نہیں۔‘‘

    ’’تم نہیں جاسکتے، جانے سے پہلے تمہیں مجھے زہر لاکر دینا ہوگا۔‘‘ اب وہ زور زور سے ہچکیاں لے کر رو رہی تھی۔ تو یہ تھا اصل میں محبت کا تشدد۔ اور بھی زیادہ آسیبی اور ہڈیوں کوگلادینے والا۔ اس نے آخرکار سوچا۔ مگر اس تشدد کو خوش دلی سے برداشت کرنےکے لیے مضبوط اور زندہ دانت ہونا ضروری تھے۔

    ’’بتاؤ پہلے مجھے زہر لاکر دوگے نا؟‘‘ اس نےایک بار پھر اس کے سینے میں کاٹا۔

    وہ تکلیف سے بلبلا اٹھا۔

    ’’ہاں زہر لاکر دوں گا۔‘‘ اس نے کمزور لہجے میں کہا۔

    اب تو زمانہ گزر گیا جب قتل کی خواہش اور زہر کی فرمائش دونوں کو ایک اپنی پوٹلی میں بھرے ہوئے آدھی رات میں ایک بے حد تیز رفتار بس میں سوار ہوکر اپنےآگے پیچھے بھاگتی ہوئی روشنیوں، بددماغیوں، جہالتوں اور محبتوں کو کچلتا ہواآخر کار وہ اس شہر تک آپہنچا تھا۔ یہ بڑاشہر جہاں صرف فلائی اوور اور انسانوں کو اچھالتی، پھینکتی اور قتل کرتی دیوانی بسیں ہی دوڑتی بھٹکتی نظر آتیں۔

    اس رات اسے نیند تو آئی مگر وہ بالکل ہی سیاہ نیند نہ تھی۔ وہ آنکھوں پر پنڈول کےگاڑھے نالے کی طرح بہتی ہوئی آئی۔ ٹھنڈی، پرانی،جانی پہچانی۔ اس میں ایک خفی سے اجالے کا احساس باقی تھا۔ ایسا اجالا جو دل کو روشن نہیں کرتا۔ دنیا کے بے ہنگم پن میں کھڑے ہوئے افراد، اشیا اور منظروں کو روشن کرتا ہے۔ یہ افسردگی کی انتہا تھی۔

    آدھی رات میں کہیں دور کوئی چھوٹا بچہ دردناک آواز میں روئے جا رہا تھا۔

    ’’اس کے دانت نکل رہے ہوں گے۔‘‘ اس نےافسوس کے ساتھ سوچا۔

    وہاں پانی سا پانی تھا۔ وہ ٹھاٹھیں مارتا تھا۔ بہت اونچے کراڑے تھے، پنڈول کے رنگ کے کراڑے۔ پنڈول جیسی مٹیالی ندی مگر یہ بڑا، چوڑاپاٹ، سب کچھ کالا سفید تھا، کوئی رنگ نہ تھا۔ ہریالی تو بالکل ہی نہیں۔ کنارے پر بےشمار کیکڑے گھوم رہے تھے۔ اچانک ایک کیکڑے نےاس کا پیر پکڑ لیا، وہ چیخ اٹھا۔

    اچھا تھا کہ کیکڑے نے اس کے جوتے کو پکڑ رکھا تھا۔

    اب اسے بہت زور کا پیشاب لگ رہا تھا۔ وہ حواس باختہ ایک گھر میں گھستا چلا گیا۔ آنگن میں بیٹھی ایک بیمار اور افسردہ نظر آنےوالی ادھیڑ عمر کی عورت نے اسے حیرت کے ساتھ دیکھا۔ عورت کے سامنے مٹی کی ہانڈی میں حلوہ رکھا تھا۔ وہ اس کے آگے ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہوگیا۔

    ’’پیشاب کرنے کے لیے۔ یقین کرو۔ صرف پیشاب کرنےکے لیے۔ میں اسے روک نہیں سکتا۔ اور باہر کوئی زمین، کوئی نئی نالی، کوئی سڑک نہیں ہے۔ خدا کے لیے، میں چور نہیں ہوں۔‘‘ وہ پھوٹ پھوٹ کر رو رہاتھا۔

    گھر میں مٹی اور حلوے کی مہک پھیلتی جارہی تھی۔ ادھیڑ عمر کی بیمار اداس عورت کچھ نہ بولی۔ اس نے کوئی شور نہ مچایا مگر اس کی آنکھوں میں اس کے لیے کچھ بھی نہ تھا۔ نہ رحم،نہ دہشت، نہ نفرت نہ ممتا۔ یہ خالی آنکھ تھی، اس کی خالی آنکھ میں بے تکی دنیا بہی جاتی تھی۔

    ’’آپ نہ جانے کیوں گھبرا رہے ہیں جناب۔ لیجیے کلی کیجیے۔‘‘

    وہ کلی نہیں کرپاتا۔ اس کا پورا منھ سن ہوگیا ہے۔

    ’’زور سے کلی کیجیے۔‘‘

    ’’مجھے پیشاب لگا ہے۔ بہت زور کا پیشاب۔‘‘ وہ گڑگڑاکر کہتا ہے۔

    ’’اس ڈینٹل کلینک میں کوئی پیشاب گھر نہیں ہے۔‘‘ ڈاکٹر کی آواز اچانک بے رحم ہوجاتی ہے۔

    ’’یاخدا!‘‘ اس کے کھلے ہوئے منھ سے آہستگی کے ساتھ نکلا۔

    سوئی ڈاڑھ کی گہرائیوں میں چھپے نہ جانے کس گوشت کے ریشے سے ٹکرائی تھی۔ مگر خدا، وہ ڈینٹل کلینک میں نہیں تھا۔ وقت کے کتنے ٹیلوں کے پیچھے وہ لمحہ کب کا گزر چکا تھا جب انسان اور خدا دونوں نےایک دوسرے کو نمناک آنکھوں سے وداع کیا تھا۔ خدا کا وجود کلینک سے باہر عدم میں گمشدہ ہوکر کائنات کا سب سے بڑا سانحہ بن چکا تھا۔

    ’’آپ کو ایسا اکثر ہوجاتا ہے؟‘‘ ڈاکٹر پوچھ رہی تھی۔

    ’’کیسا؟‘‘ وہ حیران ہوا۔

    ’’آپ کا بلڈ پریشر کبھی کبھی اچانک کیا اتنا بڑھ جاتا ہے؟‘‘

    ’’پتہ نہیں۔ مجھے کبھی احساس نہیں ہوا۔‘‘ وہ بولا۔

    ’’شاید گھبراہٹ کی وجہ سے ایسا ہوا ہو۔ آپ کا بلڈپریشر بہت زیادہ بڑھ گیا تھا۔ ہمیں آپ کو خواب آور انجکشن دینا پڑا۔ اب تو نارمل ہے۔‘‘ ڈاکٹر نے اطمینان دلایا۔اسے ہلکی سی کھانسی آئی تو بائیں طرف کا جبڑا بلکہ پوری بتیسی ہل کر رہ گئی۔ وہاں دانتوں کے خالی بل تھے۔ اسے اپنی آنتوں میں بے چینی کااحساس ہوا۔ اس نے بے حد اداس ہوکر سوچا۔

    ’’انسان کے اندر ایک نہیں، شاید بہت سی روحیں رہتی ہیں۔ مگر وہ کون سی روح ہے جو سب کچھ تباہ کردینا چاہتی ہے۔ اس جسم کو بھی ختم کردینا چاہتی ہے،جس کی آنتوں سے خون آرہا ہو اور اس روح کو بھی مٹادینا چاہتی ہے جو صدیوں سے جسم سے الگ کھڑے ہوکر اسے فاصلے سے دیکھتی ہے او رروح اور جسم کی دوئی تشکیل کرتی ہے۔ یہ کون سی روح تھی؟ یہ کوئی اور پراسرار دبیز شئے ہے۔ ایک کٹنی کی طرح کریہہ، بدنیت اور حاسد۔ یہ روح اور جسم دونوں سے ماوراآوارہ گھومتی ہے اور تشدد اور نفرت کا نازک شرانگیز فنکاری کے ساتھ رچا ہوا کھیل کھیلتی ہے۔ شطرنج کی طرح۔

    ’’بس اب ایک بار کلی اور کرلیجیے۔ آخربار۔ اچھی طرح۔‘‘ ڈاکٹر کہتی ہے۔

    ’’آپ کی پچھلی ڈاڑھیں تو تقریباً غائب ہیں۔ آپ کو کئی بار آنا پڑے گا۔ دانت بالکل گل چکے ہیں۔ آپ نے آنے میں بہت دیر کی۔ ایسی صورت میں تو روٹ کینال بھی پورا کامیاب نہیں رہتا۔‘‘

    ’’درد تو چلاجائے گا؟‘‘ اس نے کمزور سی امید کے ساتھ پوچھا۔

    ’’ہاں۔ مگر یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ ساری سڑن نکال دینے کے بعد ہم اسٹیل کا کراؤن لگادیں گے۔ اگر آپ چاہیں گے تو سونے یا چاندی کا بھی لگاسکتے ہیں۔ ہم ڈاڑھ بھردینے میں تو کامیاب ہوجائیں گے مگر صاف بات تو یہ ہے کہ یہ اندر ہی اندر پھر بھی گلتی ہی رہیں گی اور ان کی گہرائی میں خون اور مواد بھی موجود رہے گا۔‘‘

    وہ اس کا چہرہ تکتا رہا۔ ڈاکٹر نے اپنے دستانے اتارے اور بولی، ’’اگلے ہفتے اسی دن آپ کو پھر یہاں آنا ہے۔ میں نوٹ کرلیتی ہوں۔ اپنے بلڈپریشر کا بھی خیال رکھیے۔ اگر ممکن ہو تو کسی ماہر نفسیات سے بھی مل لیجیے گا۔ اب آپ اٹھ سکتے ہیں۔‘‘

    اپنا چشمہ آنکھوں پر لگاتے ہوئے اس نےاٹھنے کی کوشش کی مگر ایک بار میں اٹھ نہ سکا۔ سارا جسم سن پڑگیا تھا۔

    تو کیا اس سے باہر کوئی دنیا تھی یا سارا تماشا اندر ہی ہو رہا تھا؟ نہیں اب خون، تھوک، روئی اور پیپ بھری سڑتی گلتی ڈاڑھوں کے پرے کچھ نہ تھا۔اور تب اس نے پہلی بار سوچا، شدت کے ساتھ۔کاش میں اسی کرسی پرلیٹا لیٹا ڈینٹل کلینک میں ہی مرجاتا۔ مگر ڈینٹل کلینک میں موت کا گزر نہیں۔ یہاں کسی کو مرنے کی اجازت نہیں۔ اب باہر کچھ نہ تھا۔ موت بھی نہیں، صرف سناٹا تھا۔

    اسے محسوس ہوا جیسے روز ازل ہی سے وہ اس مطب کے باہر اکڑوں بیٹھا اپنی باری کا انتظار کر رہا تھا۔ اور اب ایک بار اپنے جوتے اتار کر اندر داخل ہونے کے بعد باہر کے کوئی معنی نہ تھے۔ وہ تو گویا صدیوں سے یہاں لیٹا تھا۔ مضحکہ خیز، بے تکے انداز میں بھاڑ سا منھ کھولے، اس کنفیشن چیئر پر۔وہ بڑی تکلیف سے اٹھ پاتا۔ کسی کسی طرح اس نے اپنے سن ہاتھوں سے شیشے کا دروازہ کھولا اور سونے سونے قدموں سے خلا میں آگے ہوئے ایک بھیانک فلائی اوور کی طرف بڑھنے لگا۔

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے