Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

روٹھی رانی

پریم چند

روٹھی رانی

پریم چند

MORE BYپریم چند

     

    (اُمادے بھٹانی)

    شادی کی تیاری
    ہندوستان میں بہت سی رانیاں گزری ہیں، جنہوں نے کسی نہ کسی بات میں شہرت حاصل کی ہے۔ کوئی اپنے حسن وجمال کے لئے، کوئی اپنے انتظامی قابلیت کے لئے، کوئی اپنی مردانہ ہمت کے لئے، کوئی اپنی عصمت کے لئے ہمیشہ یادرہے گی، مگراُمادے بھٹانی نے سب سے نرالی اورانوکھی شہرت حاصل کی ہے۔ میاں بیوی کابگاڑ، ساون بھادوں کی بوچھارہے۔ مگررانی امادے اپنے شوہر سے ایسی روٹھی کہ زندگی بھر سہاگ میں رنڈاپے کا سوگ اٹھاتی رہی۔ اس کی کہانی عجیب وغریب ہے۔ 

    امادے جیسلمیر کے راول لون کرن کی بیٹی تھی جو ۱۹۸۶ میں فرمانروامی کی گدی پرجلوہ افروز ہوا تھا۔ بیٹی کے پیدا ہونے سے پہلے توذرادل شکستہ ہوا، مگرجب اس کے حسن وجمال کی خبرپائی توآنسوپچھ گئے۔ تھوڑے ہی دنوں میں اس لڑکی کے حسن کی دھوم سارے راجپوتانہ میں مچ گئی، سکھیان سوچتی تھیں کہ دیکھیں یہ نازنین کس بھاگو ان کوملتی ہے، وہ اس کے آگے دیس دیس کے راجوں مہاراجوں کے اوصاف بیان کیا کرتیں اور اس کے جی کی تھاہ لیتیں، لیکن امادے اپنے حسن کے غرور میں کسی کوخیال میں نہ لاتی تھی اورصرف اوصاف ظاہری پراسے نازنہ تھا، وہ اپنے دل کی مضبوطی، حوصلہ کی بلندی اورفیاضی میں بھی اپنی نظیر نہ رکھتی تھی۔ عادات سارے عالم سے نرالے تھے۔ چھوئی موئی کی طرح جہاں کسی نے انگلی دکھائی اور وہ کمھلائی۔ ماں کہتی، بیٹی! پرائے گھر جاناہے، تمہارا نباہ کیوں کر ہوگا۔ باپ کہتا، بیٹا! چھوٹی چھوٹی باتوں پربرا نہ مانناچاہئے۔ پر وہ اپنی دھن میں کسی کی نہ سنتی تھی، سب کاجواب اس کے پاس خموشی تھی، کوئی کتنا ہی بھونکے جب وہ کسی بات پراڑجاتی تو اڑی ہی رہتی تھی۔ 

    آخر لڑکی شادی کرنے کے قابل ہوئی۔ رانی نے راول سے کہلا کہ بے خبر کیسے بیٹھے ہو، لڑکی سیانی ہوئی اس کے لئے برڈھونڈو۔ بیٹی کے ہاتھوں میں مہندی رچاؤ۔ 

    راول نے جواب دیا، جلدی کیاہے، راجالوگوں میں چرچاہورہاہے۔ آج کل میں شادی کے پیغام آیاچاہتے ہیں، اگر میں اپنی طرف سے کسی کے پاس پیغام بھیجوں گا تو اس کامزاج آسمان پرچڑھ جائےگا۔ 

    ماڑوا کے بہادرراجہ مالدیونے بھی امادے کے حسنِ جہان سوز کاشہرہ سنا اوراس کا غائبانہ عاشق ہوگیا۔ اس نے راول سے کہلابھیجا کہ مجھے اپنی فرزندی میں قبول فرمائیے۔ ہمارے اورآپ کے درمیان زمانہ قدیم سے رشتے ہوتے چلے آئے ہیں۔ آج کوئی نئی بات نہیں ہے۔ 

    راول نے یہ پیغام پاکردل میں کہا، واہ! میرا سارا راج توتاخت وتاراج کرڈالااب شادی کاپیغام دیتے ہیں، مگرپھر سوچا کہ شیر پنجرے ہی میں پھنساہے، ایسا موقع پھر نہ ملے گا، ہرگز نہ چوکناچاہئے۔ یہ سوچ کرراول نے سونے چاندی کے ناریل بھیجے۔ راؤ مالدیو جی برات سجاکرجیسلمیر بیاہ کرنے آئے۔ جیتااورکونپاجو اس کے سورماسردارتھے اس کے دائیں دائیں چلتے تھے۔ 

    راول نے اپنی رانی کوبلایا اور قلعہ کے جھروکے سے راؤمالدیو کی سواری کو دکھاکر کہا کہ یہ وہی شخص ہے جس کے خوف سے نہ مجھے رات کونیند آتی ہے اور نہ تجھے کل پڑتی ہے۔ یہ اب اسی دروازہ پرتورن باندھے گا، جو اکثر اسی کے خوف سے بندرہتا ہے۔ مگردیکھ! میں بھی کیا کرتا ہوں۔ اگر چونری میں سے بچ کرچلاگیاتو مجھے راول مت کہنا۔ بیٹی تو بیوہ ہوجائے گی پرتیرے دل کاکانٹا جنم بھر کے لئے نکل جائے گا، بلکہ سارے راجپوتانہ کوامن وامان حاصل ہوجائے گا۔ 

    رانی یہ سن کر رونے لگی۔ راول نے ڈانٹ کرکہا، چپ! روئے گی تو بات پھوٹ جائے گی پھرخیریت نہیں۔ یہ ظالم سبھی کونوش کرجائے گا۔ دیکھ ذرا، شادی کرنے آیاہے۔ مگرفوج کتنی ساتھ لایاہے۔ گویا کسی سے لڑنے جارہاہے۔ اتنی فوج توگھڑ سولسزکاسارا پانی ایک ہی دن میں پی جائے گی۔ ہم تم اورسب شہرکے باشندے پیاسے مرجائیں گے۔ رانی کوبیٹی کے بدھواہوجانے کے خوف سے صدمہ توبہت ہوا۔ مگرشوہر کی بات مان گئی، اورچھاتی پر پتھررکھ کر چپ ہورہی، تاہم اس کی گھبراہٹ اورپریشانی چھپائے نہیں چھپتی تھی۔ 

    بیٹی، ماں کرگھبرائی ہوئی دیکھ کرسمجھ گئی کہ دال میں کچھ کالاہے۔ مگر کچھ پوچھنے کی ہمت نہ پڑی۔ بیٹی ذات اتنی ڈھٹائی کیسے کرتی۔ ماں کارونا، محبت کارونانہ تھا۔ جب اس نے ماں کا اضطراب لمحہ بہ لمحہ بڑھتے دیکھاتو تاڑگئی کہ آج سہاگ اوررنڈاپا ساتھ ساتھ ملنے والاہے۔ جی میں بہت تڑپی، تلملائی، مگرکلیجہ مسوس کررہ گئی۔ کیا کرتی۔ ہمارے یہاں بیٹی بن سینگوں کی گائے ہے۔ ماں باپ اس کے رکھوالےہیں۔ مگرجب ماں باپ ہی اس کے جان کےگاہک ہوجائیں تو کون کس سے کہے۔ 

    سکھی سہلیاں پھولی پھولی پھرتی تھیں۔ راج محل میں شادیانے بج رہے تھے۔ چوطرفہ مسرت کے جلوے نظرآتےتھے۔ ادھرباراتیوں میں بھی خوب تیاریاں ہورہی تھیں۔ رقص وسرور کی محفل گرم تھی مگرافسوس! کسی کوکیا معلوم کہ جس دلہن کے لئے یہ سب ہورہا ہے وہ اندرہی اندرگھلی جارہی ہے۔ سکھیاں اسے دلہن بنارہی ہیں۔ کوئی اس کے ہاتھ پاؤں میں مہندی رچاتی ہے۔ کوئی موتیوں سے مانگ بھرتی ہے۔ کوئی چوٹی میں پھول گوندھتی ہے، کوئی آئینہ دکھاکرکہتی ہے، خوب بنی ہو۔ پریہ کوئی نہیں جانتا کہ بنی کی جان پرآبنی ہے۔ جوں جوں دن ڈھلتا ہے اس کے چہرے کارنگ اڑتا جاتاہے۔ سکھیاں اور ہی دھیان میں ہیں۔ یہاں بات ہی اورہے۔ 

    اُمادے یکایک سکھیوں کے جھرمٹ سے اٹھ گئی۔ اوربہاریلی نام کی ایک سگھڑ سہیلی کو اشارے سے الگ بلاکر کچھ باتیں کرنے لگی۔ 

    بہاریلی روپ بدل کر چپکے سے راگھوجی جوتشی کے پاس گئی اور پوچھنے لگی کہ کیا آپ نے کسی کنواری کنیاں کے بیاہ کامہورت نکالاہے۔ انہوں نے جواب دیا۔ اور کسی کاتو نہیں راول جی کی بائی کے بیاہ کامہورت البتہ نکالاہے۔ 

    بہاریلی ’’کیا آپ پھیروں کے وقت بھی جائیں گے؟‘‘

    جوتشی ’’نہ جاؤں گا تومہورت کی خبرکیوں کرہوگی۔‘‘

    بہاریلی ’’کیا اس شہرمیں آپ اور بھی کہیں مہورت بتاتے، اورشادیاں کرواتے ہیں؟‘‘

    جوتشی ’’سارے شہرمیں میرے سوا اورہےہی کون۔ راجہ پرجاسب مجھ ہی کوبلاتے ہیں۔‘‘

    بہاریلی ’’جوتشی جی! ناراض نہ ہوجائے گا۔ جن لڑکیوں کی شادیاں آپ کرواتے ہیں، وہ کتنی دیرتک سہاگن رہتی ہیں۔‘‘

    جوتشی (چونک کر) ’’ایں! یہ تونے کیا کہا، کیامجھے دل لگی کرتی ہے؟‘‘

    بہاریلی ’’نہیں جوتشی جی، دل لگی نہیں کرتی، سچ مچ کہتی ہوں۔‘‘

    جوتشی ’’ان باتوں کا جواب میرے پاس نہیں۔ تیرامطلب جو کچھ ہو صاف صاف بیان کر۔‘‘

    بہاریلی ’’کچھ نہیں، آپ اپنے مہورت کوایک باراورجانچ لیجئے۔‘‘

    جوتشی ’’کچھ کہے گی بھی؟‘‘

    بہاریلی ’’آپ اپنی ساعت پھر سے دیکھ لیجئے توکہوں۔‘‘

    جوتشی ’’چل دورہو، بوڑھوں سے کھیل نہیں کرتے۔‘‘

    یہ کہہ کر جوتشی جی اندرچلے گئے۔ مگرپھر سوچ بچار کرپٹی نکالی۔ ساعت کو خوب اچھی طرح جانچا اورانگلیوں پر گن گناکربولے، ’’مہورت میں کوئی نقص نہیں ہے۔‘‘

    بہاریلی (افسردگی سے) ’’توپھرقسمت ہی پھوٹی ہوگی۔‘‘

    جوتشی (بھوچک ہوکر) ’’نہیں میں نے جنم پتردیکھ کرمہورت نکالاتھا۔‘‘

    بہاریلی ’’اجی کرم پتر بھی دیکھاہے، تمہارے مہورت میں توبائی جی کودکھ بھوگنالکھا ہے۔‘‘

    جوتشی (تہہ کوپہنچ کر) ’’توکیاراول جی کچھ دغافریب کرنےوالےہیں؟‘‘

    بہاریلی ’’ہاں! راؤمالدیو کویوں تو مارنے سے رہے۔ اب صلاح ہوئی ہے کہ شادی کے وقت چونری میں انہیں مارڈالیں۔‘‘

    جوتشی ’’ارے، رام! رام! رام! ایسے راجاؤں کودھتکارہے۔‘‘

    بہاریلی مہاراج! اس وقت ان باتوں کوتورکھو، اگررہائی کی کوئی تدبیر ہوتوبتلاؤ۔ 

    جوتشی ’’جب راول جی ہی کوبیٹی پررحم نہیں آتا تو میں غریب برہمن کیاکرسکتاہوں۔‘‘

    بہاریلی ’’انسان چاہے توسب کچھ کرسکتاہے۔‘‘

    جوتشی ’’توہی بتا میں کیا کروں؟‘‘

    بہاریلی ’’اچھے جوتشی ہو، راج درباری ہوکر مجھ سے پوچھتے ہوکہ میں کیا کروں۔‘‘

    جوتشی ’’راج درباری ہونے سے کیا ہوتاہے۔ تونے سنا نہیں۔ گرو، گروبدیا اور سرسدبدھ۔‘‘

    بہاریلی ’’توپھرمیری تویہی صلاح ہےکہ راؤمالدیو کوآگاہ کردیناچاہئے۔‘‘

    جوتشی ’’ہاں ایسا ہوسکتا ہے۔‘‘

    بہاریلی ’’توکیامیں جان کربائی جی سےکہہ دوں کہ تمہارا کام ہوگیا۔‘‘

    جوتشی (پہچان کر) ’’ارے! کیا توبہاریلی ہے؟‘‘

    بہاریلی ’’جی ہاں۔‘‘

    جوتشی ’’اچھامیں جاتاہوں۔‘‘


    شادی
    دن ڈھل گیا۔ بازارمیں چھڑکاؤ ہوگیا۔ لوگ بارات دیکھنے کے لئے گھروں سے امڈے چلے آتے ہیں۔ جوتشی نے دریامیں جاکرراول سے کہا، اب خیرمقدم کرنے کا وقت قریب آگیاہے۔ آپ سواری کی تیاری کاحکم دیجئے۔ 

    راول ’’بہت اچھا، بارات والوں کوبھی اس کی خبرکردو۔‘‘

    جوتشی ’’ہاں خوب یادآیا، ایک بات مجھے ماڑوارکے نجومیوں سے پوچھنی ہے۔‘‘

    راول ’’وہ کیا؟‘‘

    جوتشی ’’جنم پتر سے تونہیں۔ پربولتے نام سے راؤجی کوآج چوتھا چندرمان اورآٹھواں سورج ہے۔‘‘

    راول ’’تواس سے کیا۔ مہورت توآپ نے جنم پترہی سے نکالاہے۔‘‘

    جوتشی ’’مہاراج! پکارنے کےنام سے بھی گرہ دیکھے جاتےہیں۔ چوتھا چندرمان اور آٹھواںسورج نحس ہوتا ہے۔ کوئی گرہ بارہواں نہیں ہے نہیں تو۔۔۔‘‘

    راول (جی میں) ’’کیااچھا ہوتا جو کوئی بارہواں گرہ بھی ہوتا تاکہ تینوں نحوستیں یکجاہوجاتیں(زور سے)ماڑواربڑی سلطنت ہے۔ وہاں نجومیوں کی کمی نہیں ہے۔ انہوں نے ضرورسب باتوں کی احتیاط کرلی ہوگی۔ آپ کچھ نہ کیجئے گا۔ نہیں تو انہیں خواہ مخواہ شک ہوجائے گا۔‘‘

    جوتشی ’’نہیں آگاہ کردینا میرافرض ہے۔ میں آپ کے خاندان کاخیرخواہ ہوں۔ میں ابھی جاکر ان سے کہتا ہوں کہ ردّبلاکی کوئی تدبیرکیجئے۔‘‘

    راول ’’کیاتدبیرہوسکتی ہے؟‘‘

    جوتشی ’’یہی خیرات وغیرہ۔‘‘

    راول ’’یہ سب میں اپنی طرف سے کرادوں گا ان سے کہنے کی کیاضرورت ہے۔‘‘

    جوتشی ’’نہیں! یہ خیرات انہیں کی طرف سے ہونی چاہئے۔‘‘

    راول ’’کیامیری طرف سے ہونے میں کچھ نقصان ہے؟‘‘

    جوتشی ’’اپنی طرف سے توتب دان کرایاجاتاجب بائی جی کاستارہ گردش میں ہوتا۔‘‘

    راول ’’آج بائی جی کاستارہ کیساہے۔‘‘

    جوتشی ’’نہایت مسعودومبارک۔ پرعورت کے ستاروں کااچھایا برا ہونازیادہ تر اس کے شوہر کے ستاروں پرمنحصرہے اس لئے بائی جی کی بھی وہی گرہ سمجھنی چاہئے جو راؤ جی کی ہے۔‘‘

    راول ’’اچھا تو برات میں ہوآئیے۔ دیرنہ کیجئے گا یہاں بھی کام ہے۔‘‘

    جوتشی (چٹکی بجاکر) ’’گیااورآیا۔‘‘

    راول سے حکم پاکر جوتشی جی خوش خوش وہاں سے چلے۔ راؤمالدیو جی کو خبر ہوئی کہ جوتشی راگھوجی آتےہیں۔ راؤجی نے کہا، ’’ان کا بڑی عزت سے استقبال کرو وہ بڑے نامی نجومی ہیں، وہ کیا ان کے بیٹے چندوجی بھی علمِ نجوم کے بڑے ماہر ہیں۔‘‘ چوبداراورڈیوڑھی دار دوڑے اورجوتشی جی کوہاتھوں ہاتھ لے آئے۔ جوتشی جی دعا دے کربیٹھ گئے۔ راؤجی نے خیروعافیت پوچھ کرکہا، ’’آپ کیوں کر تشریف لائے۔‘‘

    جوتشی (ادھر ادھردیکھ کر) ’’کچھ ساعت بتلانی ہے۔‘‘

    یہ سنتے ہی لوگ ہٹ گئے اور جوتشی جی راؤصاحب سے دودوباتیں کرکے چل دیئے۔ راؤ جی کو بڑی فکردامن گیر ہوئی۔ فوراً سرداروں کوبلاکر مشورہ کیا کہ ایسی حالت میں کیا کرناچاہئے۔ 

    جیتااورکوپا، سرداروں نے کہا، ’’آپ تشویش کوپاس نہ پھٹکنے دیجئے۔ ہم سب بندوبست کرلیں گے۔‘‘

    اتنے میں نقاروں کی آوازآئی، چوطرفہ شور مچنے لگا کہ راول جی کی سواری آئی۔ تب راؤجی بھی سرپرموراورماتھے پرسہرا باندھ کراپنے ڈیرے سے نکلے۔ اور گھوڑے کی پوجا کرکے اس پر سوار ہوئے۔ برات چڑھی۔ کچھ دورجاکر سب جلوس تھم گیا۔ فرش فروش تکیہ مسندلادیئے گئے۔ راول اورراؤدونوں اپنے اپنے گھوڑوں سے اترے اور گلے ملے۔ پھرنشان کاہاتھی آگے کی طرف بڑھا، اور اس کے ساتھ دونوں مہاراجے قلعے کی طرف چلے۔ دروازہ پر پہنچ کر راول جی تواندرتشریف لے گئے اور راؤ جی تورن باندھنے کی رسم اداکرکے پیچھے پہنچے۔ محل سرا میں پھردونوں مل کر باہم مسندپرمتمکن ہوئے۔ 

    راج محل میں شادی کی تیاری ہوگئی۔ ناظرراؤ جی کوبلانے آیا۔ راؤجی کے ساتھ راول جی بھی اٹھے۔ مگرراؤ کے سرداروں نے انہیں روکا کہ آپ ہمیں تنہا چھوڑکر کہاں جاتے ہیں۔ راول جی نے جھانسہ دے کر چاہاکہ یہاں سے چلاجاؤں۔ مگر کون جانے دیتاہے۔ راؤکے سرداروں نے ان کاہاتھ پکڑکربیچ میں بٹھالیا اب تو لینے کے دینے پڑگئے۔ جاتے تھے راؤ کومارنے اب اپنی ہی جان کے لالے پڑگئے۔ ان کے سردار بھی اپنی سب سٹی پٹی بھول گئے۔ ادھر راؤجی بے کھٹکے خراماں خراماں نواس میں داخل ہوگئے۔ 

    زنانی دہلیزمیں پہنچتے ہی امادے کی ماں نے راؤجی کی آرتی اتاری۔ ان کے ماتھےپر دہی کاٹیکہ لگایا اورجی میں کہاکہ ایسے ہی میرا کلیجہ ٹھنڈاہے۔ بعدازاں ناک کھینچ کر اپنادوپٹہ ان کے گلے میں ڈال کرانہیں چونری میں لے آئی۔ 

    برہمن ویدمنتربڑی خوش الحانی سے پڑھنےلگے۔ آگ میں آہوتی پڑی۔ ہون ہونے لگا۔ راؤ جی کاہاتھ امادے کے ہاتھ سے ملایاگیا۔ امادے آگے ہوئی اور راؤ جی پیچھے پیچھے چلتے تین بار ہون کنڈ کاطواف کیا۔ تب عورتیں یہ گیت الاپنے لگیں، 

    پھلے پھیرے بائی کا کاری بھتیجی
    دوجے پھیرے بائی ماماری بھانجی
    تیجے پھیرے بائی بواری بھتیجی۔ 

    چوتھے پھیرے میں راؤجی آگے ہوگئے اورامادے ان کے پیچھے چلنے لگی۔ تب عورتوں نے یہ پچھلابند گاکراپنا گیت پورا کیا، 

    چوتھے پھیرے بائی ہوئی رے پرائی

    گیت سنتے ہی ماں اوربہنوں کے دل بھرآئے۔ آنکھوں سے آنسوٹپکنے لگے کہ اب پیاری امادے پرائی ہوگئی۔ اس طرح یہ شادی بیساکھ سدی ۳ سمت ۱۳۹۳کی شب کوبحسنِ تمام انجام کوپہنچی۔ 

    رنگ میں بھنگ
    شادی ہوجانے کےبعدلڑکی اپنے محل میں چلی گئی۔ بڑی بوڑھی عورتیں ادھر ادھر کھسک گئیں۔ بہوکی سہیلیاں راؤجی کواس کے محل کی طرف لے چلیں۔ راستہ میں ایک جگہ گاناہورہا تھا۔ کتنی ہی حوروش مہ پارہ نازنین سہاگ کے گیت الاپ رہی تھیں۔ راؤجی چلتے چلتے وہاں پھسل پڑے۔ عورتوں کے گانے اورروپ رنگ نے ان پرجادو کردیا۔ وہیں ڈٹ گئے۔ خواصین دوڑیں، ایک نے چاندنی، دوسری نے سوزنی اور تیسری نے تکیے لگادیئے۔ پانچ سات سکھیوں نے مل کرچھوٹا سا شامیانہ کھڑا کردیا۔ راؤجی لٹو ہوگئے۔ پھرکیاتھا۔ وہیں بیٹھ گئے۔ دوخواصین دائیں بائیں مورچھل لے کر کھڑی ہوگئیں۔ دوچنورہلانے اورپنکھا جھلنے لگیں۔ گرمیوں کی سہانی رات۔ چاندنی چھٹکی ہوئی تھی۔ ٹھنڈی ہواچل رہی تھی۔ بھینی بھینی خوشبوچاروں طرف پھیلی ہوئی تھی اورراؤجی اس پرستان میں اِندر بنے، پریوں سے چھل اورچھیڑچھاڑ کررہےتھے۔ گائنیں چپ تھیں اورسامنے کچھ فاصلہ پر چندناچنے والیاں بنی ٹھنی کھڑی اشارے کی منتظرتھیں۔ 

    کلول کرنے والیوں میں سے ایک نازنین نے آگے بڑھ کرراؤجی کوسلام کیااورسوزنی سے کچھ ہٹ کر بیٹھی۔ گانے والیوں کواشارہ کیا کہ ہاں کچھ چھیڑو۔ کھڑی منہ کیا تکتی ہو۔ 

    بس طبلے پرتھاپ پڑی، اورگانے والیاں اونچے اورمیٹھے سرمیں گانے لگیں، 

    بھرلا! اے سگھڑکلالی
    پیون والولاکھان رو

    اس نازنین نے جوچندرجوت کے نام سے مشہورتھی، پنّے کے ہرے پیالے میں لال شراب بھر کرہنسنتے ہوئے راؤجی کے سامنے پیش کی۔ انہوں نے بڑے شوق سے لے کرشراب پی اورپیالہ اشرفیوں سے بھرکرلوٹادیا۔ چندرجوتی نے اٹھ کرسلام کیا اوراپنے گلے کا چندرہار توڑکر اس کے موتی راؤ جی پرسے نثارکرکے گانے والیوں کی طرف پھینکنے لگی۔ گائنیں سورٹھ کے سروں میں گانے لگیں۔ 

     ’’دیسوں میں برج، بنوں میں چندن، پہاڑوں میں میرو، چڑیوں میں مور اورقلعوں میں لنکا سب کا سرتاج ہے۔ ویسےہی سب شاہی خاندانوں میں راٹھور کا خاندان سب سے اعلی ہے۔ 

    چندرجوتی نے پھرپیالہ بھرکرراؤ جی کودیا اورگائنیں گانے لگیں۔ 

     ’’شراب پیواور لڑنے کوچڑھو، آنکھیں لال رکھو جس سے تمہارے دشمن جل مریں اوردوست خوش ہوں۔‘‘

     ’’شراب ہی دلی، آگرہ ہے۔ اورشراب ہی بیکانیر۔ اے صاحب! شراب نوش کیجئے، اس کا ایک ایک دور سوسوروپے کا ہے۔‘‘

     ’’شعروں میں دوہرہ۔ سفیدکپڑا۔ نازنین عورت اورکمیت گھوڑا اچھےہوتے ہیں۔ اے نازنین! شراب لا! 

    اس گانے بجانے اورزاہدفریب عورتوں کے لبھانے، رجھانے نے راؤجی کا دل چھین لیا، اس پر طائفہ کاباہم آوازملاکرتان لگانااور بھی ستم ڈھاگیا۔ راؤ جی ایسے ازخود رفتہ اوربادہ نشاط میں ایسے مخمور ہوئے کہ اپنی نئی نویلی دلہن کو بھول گئے، جو ان کے انتظارمیں آغوش نازکھولے کھڑی تھی۔ 

    راؤجی کی راہ دیکھتے دیکھتے امادے کی نشیلی آنکھیں جھپکنےلگیں۔ کتنی ہی باندیاں ان کے بلانے کوگئیں۔ پرراؤجی اس پر یوں کے جمگھٹ سے نہ اٹھ سکے۔ یہاں تک کہ رات بہت کم باقی رہ گئی۔ 

    رانی نے جب دیکھا کہ وہ اورکسی کے بلانے سے نہیں آتے ہیں تو اپنی شوخ وسنگ سہیلی بہاریلی سے کہاکہ اب راؤ جی کولاناتیراہی کام ہے۔ اسے کہا کہ راؤ جی اس وقت آپے میں نہیں ہیں۔ مجھے نہ بھیجئے۔ مگرامادے نےنہ مانا، اوراسی کو بھیجا۔ 

    ادھرمحفلِ عروسی بھی آراستہ تھی۔ گائنیں تیاربیٹھی تھیں۔ شراب کی بوتلیں چنی ہوئی تھیں۔ گزک طشتریوں میں دھری ہوئی تھی۔ صرف راجہ کے آنے کی دیرتھی۔ رانی کویقین ہوگیاکہ بہاریلی گئی ہے توراجہ کو ضرورہی کھینچ لائےگی۔ گانے والیوں کواشارہ کیاکہ کچھ چھیڑواوروہ میٹھے سروں میں گانے لگیں۔ 

     ’’مہاراج محلوں میں تشریف لے چلئے۔ اے شراب کا مزااڑانے والے محلوں میں چل۔ میں بہت دیر سے سیج پرتیری انتظار میں بے تاب ہورہی ہوں۔‘‘

    موقع ومحل کے مطابق گیت سن کر امادے مسکرائی اورپھر لجاکر آنکھیں نیچی کرلیں اس وقت اس کے نشہ شباب سے مست دل کی جوکیفیت ہورہی تھی بیان نہیں کی جاسکتی۔ خواصین سہیلیاں دم دم پردوڑائی جاتی تھیں کہ دیکھ! راجا جی آتو نہیں رہے ہیں۔ معشوق عاشق کے انتظار میں بے چین ہورہا تھا۔ گانے والیوں نے گیت کا دوسرا بند گایایا۔ 

     ’’متھرا۔ پنگل۔ پریاگ۔ ماڑوار۔ لاہور۔ غزنی۔ دیراوربھٹیزاورجیسلمیر۔ یہ سب دیس بھاٹیوں کےہیں۔ اے مہاراج محلوں میں تشریف لے چلئے۔‘‘

    اب کی سہیلیوں نے امادے پرسے کچھ اشرفیاں نثارکرکے گائنوں کودیں اور انہوں نے خوش ہوکر یہ دوسرا گیت شروع کیا۔ 

     ’’اے میرے راؤ! شباب کے مزے لوٹئے۔ رات تاروں سے سیج پھولوں سے۔ اور نازنین جوش مستی سے بھری ہوئی ہے۔ پیارے! جلد آکر سکھ لوٹو۔‘‘

    اتنے میں ایک خواص نے کہاکہ وہاں راؤجی نشہ میں چوربیٹھے ہیں اورشیشہ و جام کے نغمے الاپے جارہے ہیں۔ یہ سن کر گانے والیوں نے یہاں بھی گیت شروع کردیا۔ صرف مصرعے بدل دیئے۔ 

     ’’اے سگھڑساقن! انگوری شراب بھرلا۔ سونے کی بھٹی اورچاندی کابھبکابتاؤں۔ رانی اپنے ہاتھ میں پیالہ لئےکھڑی کہتی ہے، راج کمار تم پیو۔‘‘

     ’’آم پتوں کے ساتھ پھلتاہے اورمہوا پنے کھوکر۔ اس کا رس ساجن پیتاہے۔ پھر اسے لاج کیوں کرآئے۔‘‘

     ’’محلوں میں پکارپڑی ہے اورمتوالے گلی گلی بھٹک رہے ہیں۔ اے البیلے راج کمار کیا تم کوآنے کی فرصت نہیں۔‘‘

    ادھرچنچل، شوخ، بہاریلی کچھ اس اندازسے اٹھلاتی۔ لچکتی۔ بل کھاتی راؤ جی کے پاس پہنچی کہ وہ جوانی اورشراب کی مستی میں اسی کورانی سمجھ کراس کے ساتھ چل دیئے۔ بہاریلی نے بھی انہیں وہاں سے ہٹالے جانا ہی زیادہ مناسب سمجھا، مگر وہ بھی چلبلی طبیعت کی نازنین تھی۔ راؤجی کی نظراپنے اوپرڈھب پڑتے دیکھ کرللچاگئی۔ یہ نہ کہا کہ بندی رانی نہیں۔ باندی ہی ہے۔ بلکہ راؤجی کواسی مغالطہ میں ڈال کر اپنے گھر لے گئی۔ رانی امادے نے جب یہ سنا تو سناٹے میں آگئی اور اس کی گائنیں گانے لگیں۔ 

     ’’بھرلا اے سگھڑکلالی۔ انگوری شراب لا۔ پہلے توکلالی اس کی آشناتھی۔ پراب تو اس عالی جاہ کی گھروالی ہوگئی ہے۔‘‘

     ’’جیسلمیر دیس میں جب کلیاں چمکتی ہیں وہ اوپر ہی اوپرچلی جاتی ہیں۔ ایسے ہی پردیسی ساجن سے ملنے کا یقین نہیں ہوتا۔‘‘

     ’’بھیڑلی توتھی ان کےلئے پراب وہ بندھی ہوئی کپاس چرتی ہے۔ لونڈی جہیزمیں دی گئی تھی۔ اب وہ پیاسے ہل مل گئی ہے۔‘‘

    امادے کاعشرت کدہ راؤجی کی اس بے اعتنائی سے سردپڑگیا۔ اس کی چڑھتی جوانی تھی نہیں معلوم دل میں کیاکیا امنگیں جوش ماررہی تھیں۔ کیا کیا حوصلے پیدا ہورہے تھے اس نے شوہر کے خیرمقدم کی کیا کیاتیاریاں نہ کی تھیں۔ شیشہ وجام، سازوسرود۔ بناؤ چناؤ میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیاتھا۔ مگرافسوس سب سامان دھرا رہ گیا۔ وہ جھلاکر اٹھی۔ گانے والیوں سے کہا تم لوگ جاؤ۔ صراحی اورجام اٹھاکر پٹک دئے۔ وہ تھال جو آرتی کے لئے اس نے بڑی تکلف سے سجایاتھا اورجو زرین چراغوں سے جگمگارہا تھا اس نے اوندھادیا اور غم وغصہ کی عالم میں پلنگ پرمنہ لپیٹ کر سورہی۔ محفل میں سناٹاچھاگیا۔ اس وقت جوخیالات اس کے دل میں پیدا ہوتے تھے ان کا اندازہ لگانامشکل ہے۔ اگرراؤمالدیوجی یوں نہ بہک جاتے تو اب تک یہی کمرہ رشکِ جنت بناہوتا۔ مئے ناب کےدورچلتے ہوئے سریلی راگوں سے کمرہ گونجتا ہوتا اور عاشق ومعشوق باہمی دیدار کے مزے لوٹتے ہوتے۔ مگر یہ باتیں اب کہاں۔ 

    سویراہوا راؤجی کا نشہ اترا۔ جس نازنین کورانی سمجھے ہوئےتھے اسے دیکھا توپانی کا گھڑا اورسلفچی لئے محل شاہی کی طرف جارہی ہے۔ سمجھ گئے بڑا دھوکہ کھایا۔ اسی وقت شرمائے ہوئے محل میں گئے۔ وہاں کا سناٹا، محفل کی ویرانی اوررانی کی سردمہری دیکھ کر دل بیٹھ گیا، بولے، ’’اے بڑے رتبہ والی نازنین اُمادیوی توضد میں آکر کیوں اپنے عاشق سے روٹھی سیج پربیٹھی ہوئی ہے۔‘‘

    راؤجی کودیکھتے ہی وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ پرمنہ سے کچھ نہ بولی۔ 

    کمانِ ابروکوکھینچ کر اس میں تیرِمژگان کانشانہ لگائے ہوئے ہاتھ مڑوڑے منہ موڑے نازنین پی سے بھری بیٹھی ہے۔ 

    خواصین دوردور تک چپ کھڑی تھیں۔ بہاریلی کامارے خوف کے لہو سوکھا جاتاتھا پرگانے والیاں بندن ہویں وہ گانے لگیں، 

    اے شراب میں مست مہاراج! 
    تمہیں شراب کس نے پلائی۔ 

    راؤ جی نے بہت کہا کہ میں نشہ میں تھا۔ اس وجہ سے ایسی حرکت سرزدہوئی مگر رانی نے ایک نہ سنی۔ گانے والیوں نے بھی راؤ کے اشارے سے بہت سے منانے کے گیت گائے، مگر رانی پرکچھ اثرنہ ہوا۔ اس جھمیلے میں دن بہت چڑھ آیا۔ آخر کار راؤ جی یہ سوچ کر کہ پھرمنالیں گے محل سے باہرنکل آئے۔ اسی وقت ان کے سرداربھی راول جی کے پاس سے اٹھے۔ 

    راؤجی نے پھرمحل کے اندرجاکر اپنی جان خطرے میں ڈالنا مناسب نہ جانا۔ باہر ہی سے رخصتی کی درخواست کی۔ راول جی بھی یہی چاہتے تھے کہ بھید نہ کھلے۔ چپ چپاتے بدائی ہوجائے۔ 

    امادے، راؤ جی کے ساتھ جانے پرراضی نہیں ہوتی تھی۔ راگھوجی جوتشی نے یہ سنا تو اس سے کہا کہ کل تمہیں راؤجی کی جان پیاری تھی۔ کیا آج وہ پیارجاتارہا؟ ان کی جان ابھی تک خطرہ میں ہےاور اس وقت روٹھنے کاموقع نہیں ہے۔ 

    یہ سن کررانی نرم ہوئی۔ ہندوراجہ کی لڑکی تھی۔ اورہندودھرم کی ماننے والی جو عورتوں کوشوہر کے پرستش کی تعلیم دیتا ہے۔ ماں کے پاس گئی۔ کچھ دیر سکھیوں کے گلے مل کرروتی رہی پھردوگھونٹ پانی پیا۔ اورچپ چاپ سکھپال میں بیٹھ گئی۔ 

    راؤجی کے کہنے سے امادیوی نے بہاریلی کوبھی الگ ایک رتھ میں بٹھالیا گویا اپنی تباہی کواپنے ساتھ لے چلی۔ جوتشی جی بھی پہنچانے کےبہانہ سے ساتھ ہوگئے۔ ان کےبیٹے چنڈوجی پہلے سے راؤ کے لشکر میں آگئےتھے۔ کیوں کہ ان دونوں کوخوف تھا، مباداراول جی پیچھے سے ان کی سرکوبی کریں۔ کیوں کہ راول جی کوشبہ ہوگیا تھا کہ انہیں دونوں کی سازش سے شکارہاتھ سے گیا۔ 

    رانی کی ہٹ
    رانی اماوے اپنی ضدرپرقائم ہے۔ راؤجی سے نہ بولتی ہے۔ نہ انہیں اپنے پاس بیٹھنے دیتی ہے۔ راؤجی آتے ہیں تو وہ ان کی بڑے ادب سے تعظیم کرتی ہے۔ مگرپھر الگ جابیٹھتی ہے۔ اس کے معشوقانہ انداز اورشکل شباہت نےراؤجی کوبہت فریفتہ کرلیاہے۔ وہ بہت چاہتے ہیں کہ کچھ نہ ہوتووہ ذراہنس کر بول ہی دے۔ مگررانی ان کو بالکل خاطرمیں نہیں لاتی۔ علیٰ ہذا وہ بہاریلی سے بھی کھچی رہتی ہے۔ بہاریلی اپنے معمولی کام کئے جاتی ہے اورآنکھ بچاکر راؤ جی سے ہنس بول بھی لیتی ہے۔ 

    راؤجی سمجھتے تھے کہ بہاریلی ہی نے میری جان بچائی، وہ ان سے کہتی کہ آپ ہی کی بدولت میری یہ ناقدری ہورہی ہے۔ اب میری لاج آپ کےہاتھ ہے۔ اگر آپ نے من میلاکیاتو میں کہیں کی نہ رہوں گی۔ راگھوجی جوتشی نے بھی راؤجی سے کہاکہ اگربہاریلی مجھ سے بھید نہ بتاتی تو جوخدمت میں نے آپ کی کی ہے، وہ ہرگز نہ کرسکتا۔ 

    راؤجی اتناتوجانتے تھے کہ راول جی کی بری نیت کی خبرمجھے جوتشی جی نے دی۔ اورجوتشی جی کوبہاریلی سے اسکاپتا لگا۔ مگریہ نہ وہ جانتے تھے کہ بہاریلی سے کہنے والا کون تھا۔ اس کا حال توجب معلوم ہوتا کہ رانی امادے سے اپنے منہ سے کچھ کہتی۔ مگر وہ تو بہاریلی، راؤجی اورجوتشی سبھوں سے ایسی بیزار ہورہی تھی کہ زبان ہی نہ کھولتی تھی۔ اس کا دھرم کہتا کہ تیرایوں روٹھے رہنا زیبانہیں۔ مگراس کا دل نہیں مانتا تھا۔ وہ جب طبیعت کودباکر کچھ بات چیت کرنے کی نیت کرتی توکوئی زبان پکڑلیتا۔ بے چاری اپنے دل سے لاچارتھی۔ 

    بہاریلی امادے کی اس خموشی سے ڈرتی رہتی تھی کہ کہیں یہ مجھ پر برس نہ پڑیں۔ ایک دن دل کڑاکرکے وہ اس کے پیروں پرگرپڑی۔ اورگڑگڑاکرکہنے لگی کہ بائی جی آپ جوچاہیں خیال فرمائیں۔ آپ کواختیارہے۔ مگرمیں نے تو اس وقت بھی آپ کی بھلائی ہی کی جب آپ نے مجھے راؤ جی کولینے کے لئے بھیجا تھا۔ کیوں کہ محل سے باہرنکلتے ہی مجھے شبہ ہوا کہ کوئی شخص زنانے بھیس میں راؤجی پرتاک لگائے ہوئے ہے اس لئے میں نے انہیں آپ کے محل میں لاناخطرہ سے خالی نہ سمجھا۔ اوراپنے گھر لِواگئی۔ راؤجی نشہ میں متوالے ہورہے تھے رات بھر سوتے رہے اور میں کٹارلئے کھڑی رہی۔ جب ان کی نیند کھلی اووہ اپنے ہوش میں آئے تومیں آپ کی خدمت میں حاضر ہوگئی۔ اگراس میں کچھ میری خطا ہوتو آپ معاف کریں۔ امادے نے یہ سب باتیں سن تولیں۔ پرمنہ سے کچھ نہ بولی۔ بہاریلی کھسیانی ہوکرچلی گئی۔ 

    بارات جودھرپورپہنچ گئی۔ دیوان اور وزیربڑی دھوم دھام سے استقبال کوآئے۔ کوسوں تک فوج اورتماشائیوں کاتانتالگ گیا۔ قلعہ میں پہنچتے ہی زنان خانہ کی طرف سے باجوں کے ساتھ پھول پتوں سے سجا ہوا ایک کلساآیا۔ راؤجی اس میں اشرفیاں ڈال کراندرچلےگئے۔ وہاں ان کی ماں رانی پدماجی نے بیٹے اوربہو پر سے اشرفیاں نچھاور کیں۔ بیٹے اوربہو نے ان کے پیرچومے۔ اندرجاکر دیوی دیوتاؤں کی پوجاکی گئی اورامادے ایک آراستہ پیراستہ محل میں اتاری گئی۔ 

    راؤجی کے اوربھی کئی رانیاں تھیں اوران کے بال بچےبھی تھے۔ پٹ رانی(خاص محل)آمبیر کے راجہ بھیتم کی صاحبزادی لاچھل دئی تھی۔ راؤجی کافرزند اکبررام اسی رانی سے پیدا ہواتھا۔ جھالے کی رانی سروپ دئی سب رانیوں میں حسین تھی۔ اس نے راؤجی کامزاج بالکل اپنے قابومیں کررکھا تھا۔ مگرجب سے اس کو معتبر خبرملی تھی کہ امادے مجھ سے حسن میں کہیں بڑھ چڑھ کر ہے، تب سے اس کی چھاتی پرسانپ لوٹ رہاتھا۔ ڈرتی تھی کہ کہیں راجہ صاحب مجھے نظروں سے گراکر اسی کے بس میں نہ ہوجاویں، لیکن جب آج اس نے سنا کہ وہ توپہلے ہی شب کو روٹھ گئیں اوریہاں آکربھی وہی کشیدگی ہے تب اس کی جان میں جان آئی۔ 

    ماں سے رخصت ہوکر راؤجی جھالی رانی سروپ دئی کے محل میں تشریف لے گئے اس نے بڑی خوشی سے دوڑکرراؤ جی کے قدم چھوئے اوراپنا موتیوں کابیش بہاہار توڑکر ان پرموتی نثارکئے، وہ امادے کی کشیدگی اور جھلے پن سے بہت بیزار اوررنجیدہ ہورہے تھے۔ رانی سروپ دئی کی اس گرماگرمی اورجوش وتپاک سے بہت مسرور ہوئے اور اسے شادی کا سب حال سنانے لگے۔ رانی نے سب سن کر عرض کی کہ اگر ارشادہوتو ایک دن میں بھی بھٹانی جی سے مل آؤں۔ 

    راؤجی ’’بھٹانی کیا ہے، ایک بھاٹا (پتھر) ہے۔‘‘

    سروپ دئی ( ہنس کر) ’’واہ! آپ نے بڑی عزت کی۔ بھاٹاکیوں ہونے لگیں؟ بھٹانی ہیں۔‘‘

    راؤجی ’’ہاں! بھٹانی توہے۔ مگرپتھر کی بنی ہے، غرور کی سچی مورت۔‘‘

    سروپ دئی ’’ایشور نے حسن دیاہے توغرور کیوں نہ کریں۔ کیاآپ کویہ بات بھی نہ بھائی۔‘‘

    راؤ جی ’’آخر غرور کی بھی کوئی حد ہے۔‘‘

    سروپ دئی ’’بھلاجوایک بڑے گھرکی بیٹی ہو۔ ایک بڑے راؤ کی رانی ہو۔ نئی نویلی دلہن ہو، نوجوان ہو، حسین ہو، اس کے گھمنڈ کی کیا حدہوسکتی ہے۔ مجھ جیسے غریب گھر کی کیاگھمنڈ کرے گی؟‘‘

    راؤجی ’’یہ سب تم نے ٹھیک کہا۔ مگراس کا مزاج واقعی بہت سخت اور روکھا ہے تم اس سے مل کرخوش نہ ہوگی۔‘‘

    سروپ دئی ’’اچھا توآپ تشریف لے چلئے۔ ہم سب آپ کے ساتھ ساتھ چلے چلیں گے۔‘‘

    راؤجی (ہنس کر) ’’ٹھیک ہے! تمہارے ساتھ چل کر اپنی بے عزتی کراؤں۔‘‘

    سروپ دئی (گرم ہوکر) ’’وہ کیا اس کا باپ بھی آپ کی بے عزتی نہیں کرسکتا۔‘‘

    راؤ جی ’’عورت چاہے تو شوہر کی بہت کچھ توہین کرسکتی ہے۔ اگرتمہارے روبرو وہ مجھے مخاطب نہ ہوئی تو بتلاؤ میری بے عزتی ہوئی یا نہیں۔‘‘

    سروپ دئی ’’جب آپ اتنی سی بات میں اپنی بے عزتی سمجھیں گے تو اس کاگھمنڈ کیوں کر نبھے گا، اورکون نبھائےگا؟‘‘

    راؤ جی ’’ہاں! یہی دیکھناہے۔‘‘

    اُمادے اور اس کی سوکنیں

    رانی سروپ دئی نے سب رانیوں سے کہلابھیجا کہ بھٹانی سے ملنے کے لئے تیاری کیجئے۔ دوسرے دن سب رانیاں بن ٹھن کربڑے ٹھسے سے امادے کے محل میں آئی۔ امادے نے اٹھ کررانی لاچھل دئی کوسب سے اوپربٹھایا اور زیادہ تراسی سے بات چیت کی۔ باقی سب رانیوں سے معمولی طورپر ملی اوربہت کم بولی۔ اس لئے وہ دل میں بہت کڑبڑائیں، اوراس کی شکل وشباہت کودیکھ کرتو ان کے دلوں پر داغ پڑگئے۔ 

    لوٹنے پرلاچھل دئی تواپنے محل میں چلی گئی۔ باقی رانیاں سروپ دئی کے محل میں جمع ہوکر مشورہ کرنے لگیں۔ اوربہت دماغ خرچ کرنے کے بعدیہ رائےطے پائی کہ امادے توروٹھی ہی ہے۔ راؤجی کوبھی جوڑتوڑلگاکر اس سے خفاکرادینا چاہئے تاکہ وہ اس کے محل میں جانا بالکل ترک کردیں۔ کیونکہ اگرکبھی اس نے ہنس کر راؤ جی کی طرف دیکھ لیاتووہ اسی کے ہوجائیں گے۔ 

    اتنے میں راؤجی آگئے اورپوچھاکہوبھٹانی جی کیسی ہیں۔ 

    سروپ دئی ’’ہیں توبہت اچھی۔ پرالھڑبچھیڑی ہیں۔‘‘

    راؤجی ’’تب تودولتیاں بھی جھاڑتی ہوں گی۔‘‘

    سروپ دئی ’’ہمیں اس سے کیا، جوپاس جائے وہ لات کھائے۔‘‘

    راؤجی ’’جسے دولتیاں کھاناہوں گی، وہی پاس جائے گا۔‘‘

    سروپ دئی ’’سوبات کی ایک بات تویہی ہے۔‘‘

    تب راؤجی نے دوسری رانیوں سے بھی رائے پوچھی۔ رانی پاربتی نے کہا،‘‘مہراج وہ بڑی گھمنڈن ہیں۔ اپنے برابرہمیں کیا، ماجی کوبھی نہیں سمجھتیں۔‘‘

    جھالی رانی ہیرادئی نے فرمایا، ’’مہراج کچھ نہ پوچھئے۔ اپنے سوا وہ سب کوجانور سمجھتی ہیں۔‘‘

    آہڑی رانی لاچھودئی بولیں، ’’میں توجاکر بہت پچھتائی، اس کی ماں ایسی ضدی چھوکری نہ جانے کہاں سے لائی۔ اس کی آنکھوں میں نہ لاج ہے، نہ بات چیت میں لوچ، میں تو آپ کو اس کے پاس نہ جانے دوں گی۔‘‘

    سوگری رانی لاڈانے کہا، ’’وہ تومارے گھمنڈ کے مری جاتی ہے، نہ آئے کی عزت، نہ گئے کی خاطر۔ ایسی مہرانی کے پاس کوئی جاکرکیاکرے۔‘‘

    چوہانی رانی اندابولیں، ’’مہراج میں نے بہت عورتیں دیکھیں۔ ایک سے ایک سندر، مگرایسا پھرا ہوا مزاج کسی کانہ دیکھا۔ نہ جانے اس کے گورے بدن میں کون سا بھوت سماگیا ہے۔‘‘

    رانی بائی نے فرمایا، ’’گوری چٹی ہے توکیا۔ لچھن دوکوڑی کے بھی نہیں ہیں۔ بڑے گھر آگئی ہیں۔ نہیں تو ساراگھمنڈ دھرارہتا۔‘‘

    جھالی رانی نورنگ دئی بولیں، ’’جوانی کے نشے میں دیوانی ہورہی ہے۔ یہ نہیں جانتی جوانی سب پرآتی ہے۔ کچھ اسی پرنہیں ہے۔ کل جوانی جاتی رہیں گی تویہ سب دماغ خاک میں مل جائے گا۔‘‘

    یہ سب زہریلی باتیں سن کر سن کر راؤجی کوبھی غصہ آگیا۔ انہوں نے امادے کے یہاں آناجانا کم کردیا۔ کبھی جاتے بھی تو اسے ایک نگاہ دیکھ کر چلے آتے۔ امادے بھی صرف ان کی تعظیم کے لئے کھڑی ہوجاتی۔ کچھ بات چیت نہ کرتی۔ 

    راؤجی کے دواوربھٹانی رانیاں تھیں۔ ان سے وہ امادے کی نسبت کچھ گفتگو کرتے کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ انہیں اُما کی شکایت ناگوار گزرے گی۔ وہ بھی راؤ جی سے کچھ کہتیں پرجی میں یہی چاہتی تھیں کہ اگران کا اُما سے ملاپ ہوجاتا تو بہت اچھا ہوتا۔ ایک دن موقع ڈھونڈھ کرانہوں نے کچھواہی رانی لاچھل دئی سے کہاکہ امادے نادانی سے اپنے پیرمیں آپ کلہاڑی ماررہی ہے۔ ابھی کمسن ہے سوتوں کے داؤ پیچ کیاجانے۔ اگریہی کیفیت رہی توبے چاری کی زندگی اجیرن ہوجائے گی۔ آپ دیکھتی ہیں۔ اب راؤجی بھی ان کے یہاں بہت کم جاتے ہیں۔ مگراس کی اکڑابھی تک جوں کی توں ہے۔ راؤجی کوایسی بے مہری نہ کرنی چاہئے، وہ توابھی الھڑہے۔ اگر نادانی کرے توقابل معافی ہے۔ مگرراؤجی عقلمند ہوکرکیوں اس سے روٹھتے ہیں۔ 

    لاچھل دئی بہت نیک بخت، دوررس عورت تھیں۔ انہوں نے وعدہ کیاکہ میں راؤجی سے اس کاتذکرہ کروں گی۔ پس ایک دن شام کے وقت وہ راؤجی کی خدمت میں حاضرہوئیں۔ اورادھرادھر کی بات چیت کرتے کرتے پوچھا، ’’اپنی نئی رانی کے پاس آناجانا کیوں کم کردیا۔‘‘

    راؤجی ’’میں توبرابر آتا جاتاتھا۔ مگراسی نے روٹھ کرمزہ کرکراکردیا۔‘‘

    رانی لاچھل ’’وہ روٹھی کیوں مجھے اس کابھیداب تک نہ کھلا۔‘‘

    راؤجی ’’بہاریلی کی بدولت۔‘‘

    لاچھل ’’پھرآپ بہاریلی کوکیوں اتنامنہ لگاتے ہیں وہ اُماکے برابر کی نہیں ہے۔‘‘

    راؤجی ’’اس میں میری کیا خطا ہے۔ امادے ہی نے اسے میرے پاس بھیجا تھا۔‘‘

    لاچھل ’’ٹھیک ہے۔ مگرچاہئے کہ بہاریلی، بہاریلی کی جگہ رہےاور اما، اما کی جگہ۔ 

    راؤجی ’’میں بھی تویہی چاہتا ہوں۔ پر امانہیں مانتی۔ اس کے جی کاکچھ حال ہی نہیں کھلتا کہ آخر اس کا کیامنشاہے۔ تم ذراپتا تولگاؤ۔‘‘

    لاچھل ’’بہت اچھا، کوئی موقع آنے دیجئے۔‘‘

    رانی لاچھل دئی نے یہ سب باتیں اما سے کہیں۔ اس نے ان کاشکریہ ادا کیا۔ مگر اس کاکچھ نتیجہ نہ نکلا۔ ہاں اما کو یہ معلوم ہوگیا کہ یہاں بھی ایک ایسی عورت ہے جومیرے دکھ سمجھ سکتی ہے۔ اب سے وہ اکثرلاچھل سے ملاقات کرکے اس سے دل بہلاتی۔ اوراسے جیجی بائی کہتی۔ اس کے لڑکے کماررام کوبھی بہت پیار کرتی تھی۔ 

    منانے کی کوششیں
    دوسرے سال راؤمالدیو نے اپنے سلطنت میں دورہ کرناشروع کیا، اور گھومتے ہوئے اجمیرجاپہنچے۔ وہاں کچھ دنوں تک قلعہ میں ان کاقیام رہا، جوکسی زمانہ میں بیل دیواورپرتھی راج جیسے پرتاپی مہاراجوں کے تخت زرنگار سے مزین ہوتا تھا۔ راؤجی کواس قلعہ پرحکمراں ہونے کابہت نازتھا۔ ایک روزاتراکر اپنے چوہانی رانیوں سے کہنے لگے اسے خوب اچھی طرح دیکھ لو، یہ تمہارے بزرگوں کی راجدھانی ہے۔ 

    چوہانی رانیوں کویہ طنزیہ جملہ شاق گزرا۔ راؤجی راٹھورتھے۔ بھلاچوہان کسی راٹھور کی زبان سے ایسی بات سن کر کیوں کر ضبط کرسکتا۔ دونوں خاندانوں میں اگرچہ شادی بیاہ ہوتا تھا، مگر وہ پرانی رقابت دلوں سے صاف نہ ہوئی تھی۔ چنانچہ میاں بیوی میں بھی بسااوقات درشت کلامیوں کی نوبت آجاتی تھی۔ 

    رانیوں نے جواب دیا، آپ ہمارے آقاہیں۔ ہم آپ کے منہ نہیں لگ سکتے مگرہمارے بڑے جیسے تھے انہیں آپ کے بڑے ہی خوب جانتے ہوں گے۔ 

    یہ جواب راؤجی کے سینہ میں تیرکی طرح لگا، کیونکہ رانی سنجوگیتا اورپرتھی راج کے سویمبرکی طرف اشارہ تھا۔ غصہ میں بھرے ہوئے زنان خانہ سے باہر نکل آئے۔ اس وقت کالی گھٹائیں چھائی ہوئی تھیں۔ کچھ کچھ بوندیں بھی پڑرہی تھیں۔ راؤجی کے آنکھوں میں نشہ تھا۔ دل میں غصہ اورہاتھ میں خنجر، باہر نکلتے ہی انہوں نے آواز دی، کون حاضرہے، ایشورداس چارن نے آگے بڑھ کر مجرا کیا اور بولا، ’’حضور عالی! خیراندیش حاضرہے۔‘‘

    راؤجی ’’ابھی آپ جاگتے ہیں، مجھے اندرنیندنہیں آئی۔ ذرا کوئی کہانی توکہو۔ میں یہیں لیٹوں گا۔ ٹھنڈی ہوا ہے۔ شایدنیند آجائے۔‘‘

    ایشورداس ’’جوارشادہو۔ تشریف رکھئے۔‘‘

    راؤجی بیٹھ گئے اورایشورداس کہانی کہنے لگا۔ کہانی کے بیچ میں اس نے یہ دوہرہ پڑھا۔ 

    ماڑوارنر، ناری جیسلمیر
    توری توسندھا نران، کرمل بیکانیر

    یعنی ماڑوارمیں مرد۔ جیسلمیرمیں عورتیں۔ سندھ میں گھوڑے اوربیکانیر میں اونٹ اچھے ہوتے ہیں۔ 

    راؤجی نے اس دوہرے کوسن کرفرمایا، ’’چارن جی! بیشک جیسلمیر کی عورتیں بہت اچھی ہوتی ہیں، پرمجھے تو وہ ذرا بھی راس نہ آئیں۔‘‘

    ایشورداس ’’یہ حضور عالی کیا ارشادرماتے ہیں۔ جیسلمیر کی اچھی عورت امادے تو۔۔۔‘‘

    راؤجی (باٹ کاٹ کر) ’’اجی وہ توپھیروں کی رات ہی سے روٹھی بیٹھی ہے۔‘‘

    ایشورداس ’’حضورگستاخی معاف! آپ نے اسے بھی معمولی عورت سمجھا ہوگا۔ خیر، چلئے بندہ ابھی میل کرائے دیتا ہے۔‘‘

    راؤجی نے بھی خیال کیا یہ چرب زبان شخص ہے، کیا عجب ہی رانی کی باتوں میں لگاکر ڈھرے پرلے آئے۔ اس کے ساتھ اماوے کے محل کی طرف چلے۔ یکایک چلتے چلتے رک گئے۔ اورایشورداس سے بولے، ’’آپ چلتے توہیں۔ مگر وہ بولیں گی بھی نہیں۔‘‘

    ایشورداس ’’حضورمیں چارن ہوں، چارن چاہئے توایک بار مردے کوجگاسکتا ہے، و ہ توپھر بھی جیتی ہے۔‘‘

    دروازے پرپہنچ کرایشورداس نے راؤجی کواپنے پیچھے بٹھالیا اور امادے سے کہلا بھیجا کہ میں راؤجی کے پاس سے کچھ کہنے کے لئے حاضر ہواہوں۔ امادے فوراً پردہ کے پاس آبیٹھی۔ ایشورداس نے بڑے ادب سے مجرا عرض کرنے کے بعد کہا، ’’بائی جی! سلام قبول ہو۔‘‘

    امادے نے کچھ جواب نہ دیا۔ ایشورداس نے پھر کہا، ’’بائی جی! میرا مجرا قبول ہو۔‘‘جب اس کا بھی جواب نہ ملاتوراؤجی نے ایشورداس کے کان میں آہستہ سے کہا۔ ’’دیکھا میں نہ کہتا تھا کہ وہ نہ بولیں گی۔ مردہ بولے توبولے مگران کا بولنا غیرممکن ہے۔‘‘

    ایشورداس ’’بائی جی! میں بھی آپ کے گھرانے کا ہوں۔ اسی لئے بائی جی بائی جی کرتا ہوں۔ اگرایسا نہ ہوتا تو تم دیکھتیں کہ تمہارے خاندان کواورتم کو کیسا شرمندہ کرتا۔ یہ کون سی انسانیت ہے کہ میں تومجرا عرض کرتا ہوں اورتم جواب تک نہیں دیتیں۔‘‘ امادے نے اس کابھی کچھ جواب نہ دیا۔ 

    ایشور داس نے پھر کہا، ’’بائی جی آپ نے سنا ہوگا کہ آپ کے بزرگوں میں ایک راول دوداجی تھے، وہ مسلمانوں سے لڑکرکام آئے تھے، ان کی رانی نے چارن ہوپانجی سے کہا کہ بابا جی! اگرراول جی کا سرلادوتومیں ستی ہوجاؤں۔ ہوپانجی میدان جنگ میں گئے۔ مگروہاں کٹے ہوئے سروں کے ڈھیرمیں راول جی کاسرپہچانانہ جاتاتھا۔ اس وقت ہوپانجی نے بڑی باریک فہمی کوکام میں لاکرراول جی کی تعریف کرناشروع کی اور اس کوسنتے ہی راول جی کا سرہنس پڑا۔ ہوپانجی اسے پہچان کر رانی کے پاس لایا۔ اس کے متعلق اب تک ایک دوہامشہورہے، 

    چارن ہونپے سیوبوصاحب درجن سل
    بردانتاں سربولیو، گیتان دوہان کل

    یعنی ہونپاچارن نے اپنے آقادوداجی کی خدمت کی تھی۔ اس لئے دوداجی کا سراپنے وفاکیش خادم کے زبان سے اپنی تعریف سن کرہنس پڑا۔ یہ بات گیتوں اور دوہوں میں مشہورہے۔ سوبائی جی تم بھی اسی راول دوداجی کے گھرانے کی ہو، وہ مرکربولا، تم جیتی بھی نہیں بولتیں۔ کیا تمہاری رگوں میں بزرگوں کاخون نہیں دوڑتا؟ 

    امادے (جوش میں آکر) ’’بابا جی! میں بھی یہی دیکھناچاہتاتھی کہ دیکھوں تمہاری زبان میں کتنی قدرت ہے۔ کہو کیا کہتے ہو اورکیوں آئے ہو۔‘‘

    ایشورداس ’’تمہاری سوتن کہتی ہیں کہ اگرچہ چندرہنس میں پیدا ہوئیں، خودبھی چاند کی طرح روشن ہیں، مگر چہرہ پرمیل ابھی تک باقی ہے۔ میں یہی پوچھنے آیا ہوں کہ وہ میل کیساہے، اورکیوں باقی ہے۔‘‘

    امادے ’’انہیں سے کیوں نہ پوچھ لیا۔‘‘

    ایشورداس ’’وہ توکچھ صاف صاف نہیں بتلاتیں۔‘‘

    امادے ’’میں صاف صاف بتلادوں۔‘‘

    ایشور ’’اس سے بڑھ کر اورکیاہوگا۔‘‘

    امادے ’’مجھ میں یہی میل ہے کہ میں چاہتی ہوں۔ راؤجی بیوی باندی کی پہچان رکھیں۔‘‘

    ایشور ’’اب سے ایسا ہی ہوگا، رانی رانی رہے گی، اورباندی باندی۔‘‘

    امادے ’’تم اس کا پکاقول دے سکتے ہو۔‘‘

    ایشور ’’ہاں! ابھی۔‘‘

    امادے ’’اچھا ہاتھ بڑھاؤ۔‘‘

    ایشورداس نے راؤجی کاہاتھ پکڑکر پردہ میں کردیا۔ اُما نے اسےدیکھ کرکہا، ’’آہ! یہ توہوہی سخت ہاتھ ہے جس نے میرے ہاتھ میں کنگن باندھاتھا۔‘‘

    ایشور ’’تودوسراہاتھ کہاں سے آوے۔‘‘

    یہ سن کرامادے اندرچلی گئی اورراؤجی بھی شکستہ خاطرہوکر اٹھ گئے۔ مگرایشور داس وہیں نقش قدم کی طرح جمارہا۔ ساری رات بیت گئی، دن نکل آیا، سورج کی گرم شعائیں اس کی پیشانی پرلہرانے لگیں، پسینے کے قطرے اس کی پیشانی سے ڈھلنے لگے، مگراس کا آسن وہیں جمارہا۔ امادے نے ایک تھال میں کھاناپرس کر اس کےلئے بھیجا، مگراس نے اس کی طرف آنکھ اٹھاکربھی نہ دیکھا۔ بلکہ اندر کہلابھیجا، ’’بائی جی نے میرا ذرابھی لحاظ نہ کیا۔ مجھے ان پر بڑا بھروسہ تھاکہ وہ میری بات ہرگز نہ ٹالیں گی۔ اسی لئے راؤجی کواپنے ساتھ لایاتھا، اب مجھے یہاں مرناہے۔ کیا بائی جی نے کبھی چارنوں کےچاندی کرنے واقعہ نہیں سنا۔ جب چارن کسی جھگڑے میں ہاتھ ڈالتے ہیں اور راجپوت ان کی بات نہیں مانتے تو وہ اپنی مرجاوااورآبروقائم رکھنے کےلئےخودکشی کرلیاکرتے ہیں۔ یہ سنتے ہی امادے گھبرائی ہوئی اس کے پاس آئی اورپوچھا، ’’کیاآپ مجھ پر چاندہی کریں گے؟ 

    ایشور ’’ضرور کروں گا۔ نہیں تو راؤجی کوکون سا منھ دکھاؤں گا۔‘‘

    امادے ’’توآپ نے مجھے قول کیوں نہیں دیا۔‘‘

    ایشور ’’راجا، رانی کے جھگڑے ہیں، میں کیوں کرذمہ داری لیتا۔ بیچ میں پڑنے والے کا کام صرف میل کرادیناہے۔ سومیں راؤجی کوآپ کے پاس لے ہی آیاتھا۔‘‘

    امادے ’’انہیں لانے سے کیافائدہ ہوا؟‘‘

    ایشورداس ’’اورتوکوئی فائدہ نہ ہوا۔ ہاں میری جان کے لالے پڑگئے۔‘‘

    امادے ’’خیر! یہ باتیں پھر ہوں گی، اس وقت کھاناتوکھائیے۔‘‘

    ایشور ’’کھانا اب دوسرے جنم میں کھاؤں گا۔‘‘

    امادے چلی گئی۔ تھوڑی دیرکے بعدبہاریلی آئی اورگھبراہٹ کے لہجہ میں بولی، ’’چارن جی آپ کیا غصب کررہے ہیں۔ بائی جی نے اب تک کچھ نہیں کھایا۔‘‘

    ایشور ’’اگربائی جی چارنوں کی اتنی عزت کرتی ہیں۔ توان کی بات کیوں نہیں مانتیں۔‘‘

    بہاریلی ’’آپ کیا کہتے ہیں؟‘‘

    ایشور ’’میں یہی کہتاہوں کہ بائی جی راؤجی سے یہ کھچاوٹ دورکردیں۔‘‘

    اتنے میں امابھی نکل آئی۔ بولی، ’’راؤجی بھی کچھ کریں گے یا نہیں۔‘‘

    ایشور ’’جوتم کہوگی وہ کریں گے۔ ہاتھ جوڑنے کہوگی ہاتھ جوڑیں گے۔ پیر پڑنے کہوگی پیر پڑیں گے، جیسے مانوگی منائیں گے، میں نے یہ سب طے کرلیاہے۔‘‘

    اما ’’باباجی آپ سمجھدارہوکرایسی باتیں کیسے منہ سے نکالتے ہیں۔ کیا میرے خاندان کی یہی ریت ہے اورمیرا یہی دھرم ہے! راؤجی میرے سوامی ہیں۔ میں ان کی کنیزہوں۔ بھلامیں ان سے کہہ سکتی ہوں کہ آپ ایسا کیجئے یاویسا کیجئے۔ میں تو روٹھنے پر بھی ان کی طرف سے دل میں ذرہ برابرکدورت نہیں رکھتی اور وہ بھی جیسی چاہئے میری عزت کرتے ہیں، میرا غرور، میری خودداری انہیں کے نبھانے سے نبھ رہی ہے۔ وہ چاہتے تو دم کے دم میں میراگھمنڈ دورکرسکتے تھے۔ یہ انہیں کی عنایت ہے کہ میں اب تک زندہ ہوں، خودداری ہاتھ سے کھوکرمیں زندہ نہیں رہ سکتی۔‘‘

    ایشور ’’شاباش! بائی جی شاباش!! باعصمت عورتوں کےیہی اندازہیں۔۔۔‘‘

    امادے ’’باباجی! ابھی سے شاباش نہ کیجئے۔ جب یہ دھرم آخردم تک نبھ جائے تو شاباش کہیئے گا۔‘‘

    ایشور ’’اچھاتوپھرتم کیاچاہتی ہو۔‘‘

    اما ’’کچھ نہیں۔ تم بھوجن کرو۔ تومیں بھی کچھ کھاؤں۔‘‘

    ایشور ’’تم جاؤ، کھاناکھاآؤ۔ میں توجب کھاؤں گا۔ جب تم میراکہنا مان لوگی۔‘‘

    اما ’’اچھا کہو، کون سی بات کہتے ہو۔‘‘

    ایشور ’’راؤجی سے روٹھنا چھوڑدو۔‘‘

    اما ’’راؤجی اگرمیری جان مانگیں گے، تودے سکتی ہوں۔ مگرمیرا دل ان سے اب نہ ملے گا۔‘‘

    ایشور ’’میرے کہنے سے ملاناپڑے گا۔‘‘

    تھوڑی دیرتک امادے سوچتی رہی۔ پھر بولی، ’’میراتوجی نہیں چاہتا کہ جو بات ٹھان لی اسے پھرتوڑدوں۔ یہ میری عادت کے بالکل خلاف ہے۔ مگرآپ کی ضد سے لاچارہوں۔ خیر! آپ کی بات منظور۔۔۔‘‘

    ایشور (خوش ہوکر) ’’بائی جی! تم نے میری لاج رکھ لی۔ یقین مانو راؤجی تم سے باہر نہیں۔ جوکچھ تم کہوگی وہیں کریں گے۔‘‘

    اما ’’میں ان سے کچھ نہیں کہہ سکتی۔ انہیں سب باتوں کا اختیار ہے۔ مگر ہاں اگر اپنی عادت کے خلاف پھرکوئی بات دیکھوں گی توایک دم ان کے یہاں نہ ٹھہروں گی۔‘‘

    ایشور ’’بہت اچھا یہی سہی۔ کہوتو راؤجی کولے آؤں، یا اگر تم چلناقبول کروتو سکھ پال کاانتظام کروں۔‘‘

    اما ’’ابھی نہیں رات کوچلوں گی۔ آپ اب کھاناکھائیں۔‘‘

    ایشور ’’پہلے میں ذرا راؤجی کومبارکباد دے آؤں۔‘‘

    ایشورداس خوش خوش راؤجی کی خدمت میں حاضرہوا۔ اورامادے نے پھر سے کھانا بنواکر اس کے ڈیرے پر بھجوایا۔ 

    رانی پھرروٹھ گئی
    راؤجی مارے خوشی کے جامہ میں پھولے نہیں سماتے۔ معشوق کے انتظار میں گھڑیاں گن رہے ہیں۔ راج محل سجایاجارہاہے۔ ناچنے گانے والیاں جمع ہوگئی ہیں۔ گانا ہورہاہے۔ شراب کادورچل رہاہے۔ امادے کوبلانے کے لئے لونڈی پرلونڈی بھیجی جارہی ہیں، مگرابھی تک رانی کا بناؤسنگار پورا نہیں ہوا۔ مانگ میں موتی بھرے جارہے ہیں۔ چوٹی گوندھی جارہی ہے۔ مشاطہ اسے حوروبنادینے کی کوشش کررہی ہے۔ اس کاجی ابھی تک راؤجی کی طرف مائل نہیں ہے۔ خودداری الگ دامن کھینچ رہی ہے۔ دل الگ مچل رہاہے۔ ابھی تک جی پس وپیش میں ہے کہ جاؤں یا نہ جاؤں۔ طبیعت کسی بات پرنہیں جمتی۔ کیسے جاؤں، کون سامنہ لے کرجاؤں۔ کہیں وہ یہ نہ خیال کرنے لگیں کہ آخر جھک مارکے آئیں۔ نہیں نہیں میراجانامناسب نہیں، مگرقول ہارچکی ہوں۔ نہ جاؤں گی تو جھوٹی ٹھہروں گی۔ وہ اسی پس وپیش میں تھی کہ پھربلاواآیا، امانے بہاریلی سے کہاتوجاکر کہہ دے۔ آتے آتے آویں گی۔ ایسی جلدی کیاہے۔ بہاریلی یہ سن کر سہم گئی۔ کانپتے ہوئے بولی۔ بائی جی کیااندھیر کرتی ہو۔ مجھے کیوں بھیجتی ہو۔ کیا اورخواصین نہیں ہیں۔ امادے نے کہاکوئی ہرج نہیں۔ یہ جواب دے کرجلدی سے چلی آنا۔ وہاں ٹھہرنانہیں۔ تجھے پھرمیرے ساتھ چلناہوگا۔ 

    لاچارہوکربہاریلی گئی۔ راؤجی کی نظرجوں ہی اس پرپڑی وہ رانی کوبھول گئے۔ اس کا ہاتھ پکڑکربٹھالیا، وہ بہت کہتی رہی کہ جومیں کہنے آئی ہوں اسے سنئے اورمجھے جانے دیجئے۔ نہیں تورنگ میں بھنگ پڑجائے گا۔ راؤجی بولے کچھ نہیں ہوگا۔ تو جھوٹ موٹ ڈرتی ہے۔ بھٹانی نے تجھے میری دل لگی ہی کے لئے بھیجا ہے۔ جب تک وہ نہ آویں تویہیں رہ۔ پھرچلی جانا۔ راؤجی شراب کے نشہ میں چورہیں۔ بہاریلی سے چمٹے جاتے ہیں۔ اپنی دھن میں نہ اس کی بات سنتے ہیں۔ نہ اسے جانے دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ ناچنے گانے والیاں بھی محفل کارنگ دیکھ کر وہاں سے کھسک جاتی ہیں۔ 

    تھوڑی دیر کے بعدرانی امادے بناؤسنگار کئے آئیں۔ دیکھا توراؤ جی بہاریلی کو لئے بیٹھے ہیں۔ اسی دم الٹے قدم واپس ہوئیں۔ جی میں کہااچھا ہوا، میں بھی یہی چاہتی تھی کہ میری خودداری ہاتھ سے نہ جانے پائے۔ 

    ادھربہاریلی نے جوں ہی رانی کودیکھا گھبراکر اٹھی۔ اورکھڑکی سے نیچے کودپڑی۔ وہاں باگھانام کاایک سنتری پہرہ پرتھا۔ زیورکی جھنکار سن کرچوکناہوا۔ اوپر کودیکھا توبہاریلی نیچے کوگررہی ہے۔ لپک کراسے بچالیا اور اس سے پوچھنے لگا، توکون ہے۔ پرستاں کی پری ہے۔ یا اندرکے اکھاڑے کی حور۔ بہاریلی نے انگلی لبوں پررکھ کرکہا چپ! اپنی جان کی خیرچاہتی ہے تو ابھی مجھے یہاں سے نکال لے چل۔ نہیں توہم تم دونوں مارے جائیں گے۔ باگھانے کہا میں راؤجی کانوکرہوں۔ بلاحکم یہاں سے ہل نہیں سکتا۔ پہرہ پورا کرلوں۔ تب جوکچھ توکہے گی وہ کروں گا۔ بہاریلی نے کڑکڑاکرکہا اس وقت تومجھے اپنے ڈیرے پرپہنچادے۔ پھرجیسا ہوگا دیکھا جائے گا۔ باگھا کاڈیرہ ایشورداس کے پاس ہی تھا۔ چارن جی نے جوں ہی اسے دیکھا پہچان گئے۔ جھٹ پٹ راؤجی کے پاس پہنچے۔ وہ گھبرائے ہوئے بیٹھے تھے۔ سب نشہ ہرن ہوگیاتھا۔ ایشورکودیکھتے ہی بہت اداس ہوکربولے، ’’میرے ہاتھوں سے تودونوں ہی توتے اڑگئے۔‘‘

    ایشور ’’ان میں ایک تواڑجانے ہی کے قابل تھا۔ اس کاکیا، افسوس۔ باگھا سپاہی سے فرما ئیےاسے اسی دم جیسلمیر پہنچاآوے۔ نہیں تو دوسرا طوطاکبھی آپ کے ہاتھ نہ آئے گا۔‘‘

    راؤجی ’’اگرآپ کی یہی مرضی ہے توباگھا سے جوچاہے کہہ دیجئے۔‘‘

    ایشورداس نے اسی وقت جاکربہاریلی کوایک سانڈنی پرسوارکراکے باگھا کی محافظت میں جیسلمیر کی طرف روانہ کردیا، اورواپس آکرراؤجی سے اطلاع کی۔ 

    راؤجی ’’اب توبھٹانی جی راضی ہوں گی۔‘‘

    ایشور ’’یہ میں نہیں کہہ سکتا، کیوں کہ آپ ان کامزاج جانتے ہیں۔‘‘

    راؤجی ’’ہاں! اسی خوف سے تومیں ان کے پاس گیانہیں، آپ جاکر دیکھئے اگر ہوسکے تومنالائیے۔‘‘

    ایشور ’’اب ان کا آنانہایت مشکل ہے۔ پرمیں جاتاہوں۔‘‘

    ایشورداس نے جاکردیکھا، راج محل سونا پڑا ہے، اوررانی برج میں جابیٹھی ہیں۔ خواصوں نے سفیدچاندنی تان کر پردہ کردیاہے۔ لونڈیاں باندیاں پہرے پر ہیں۔ پردہ کے قریب اردوبیگمات برہنہ تلواریں لئے کھڑی ہیں۔ 

    ایشورداس کی جرأت نہ ہوئی کہ نزدیک جائے۔ دورہی سے دیکھ کرلوٹ آیا اور راؤجی سے سب ماجرا کہہ سنایا۔ 

    راؤجی (جھنجھلاکر) ’’کیابھٹانی جی برج میں جابیٹھیں، یہ کیا حرکت کی؟‘‘

    ایشورداس ’’شاید اس برج کے بھاگ جاگنے والے تھے۔ آج وہاں وہ رونق ہے جو کبھی پرتھی راج چوہان کے تخت کوبھی نہ نصیب ہوئی ہوگی۔ چاندنی کا پردہ پڑا ہے۔ ننگی تلواروں کا پہرہ ہے۔ میری تووہاں جانے کی ہمت نہ پڑی اور کیا عرض کروں۔‘‘

    راؤجی (استعجاب سے) ’’کیا واقعی ننگی تلواروں کا پہرہ ہے؟‘‘

    ایشورداس ’’جی ہاں مہراج! یقین نہ ہوتو چل کرخودملاحظہ فرمالیجئے۔‘‘

    راؤجی ’’تب توان کاماننابالکل ناممکن ہے۔‘‘

    ایشورداس ’’حضور صحیح فرماتے ہیں، رانی نے مجھ سے پہلے یہ شرط کروالی تھی۔ آپ نے بڑاغضب کیاکہ ایسے نازک معاملہ میں ان کے مزاج کے خلاف کیا۔ جب ایک مرتبہ ایسی حرکت کاناگوارتجربہ آپ کوہوچکاتھا تودوسری مرتبہ ضرور ہوشیار ہوجانا چاہئے تھا۔ رانی کی جانب سے بھی کچھ غلطی ہوئی۔ انہیں بہاریلی کوایسے موقع پر بھیجنامناسب نہ تھا، مگر جہاں تک میراخیال ہے آپ کی جانب سے ان کے دل میں دغدغہ موجودتھا، اورمحض آپ کی آزمائش کے لئے انہوں نے بہاریلی کو بھیجاتھا۔‘‘

    راؤجی ’’ہونہار نہیں ٹلتی۔ میں بھی اب بہت پچھتاتاہوں۔ پہلی باربھی بہاریلی ہی کی بدولت بگاڑہوا تھا۔‘‘

    ایشورداس ’’خیروہ توکسی طرح سے دورہوئی، بلاٹلی۔‘‘

    راؤجی ’’اس کابھی مجھے افسوس ہی رہے گا۔ اس بے چاری کی کوئی خطا نہ تھی۔‘‘

    ایشورداس (قطع کلام کرکے) ’’ابھی توبھٹانی جی دوچاردن تک محل میں آتی نہیں دکھائی دیتیں۔ ان کے لئے کیا انتظام کیاجائے۔‘‘

    راؤجی ’’میں توکل چلاجاؤں گا۔ مجھے بیکانیر پرچڑھائی کرنی ہے۔ یہاں کاجوکچھ انتظام مناسب تھا، پہلے ہی کردیاگیا ہے۔ ہمایوں بادشاہ کے آنے کی خبرتھی۔ وہ بھی نہیں آیا۔ پھر بیکارکیوں وقت ضائع کروں۔ تم یہاں رہو، اوراس برج کے پاس قناتیں کھڑی کرواکے پہرہ چوکی کاپورا پورا بندوبست کرو۔ جب بائی جی کا مزاج ذرادھیماہوتو سمجھا بجھاکرجودھپور لے آنا۔ میں قلعہ دار سے کہہ دوں گا۔ وہ سب انتظام کردے گا۔‘‘

    راؤجی یہ کہہ کر دوسرے دن اجمیر سے روانہ ہوگئے۔ دیوان نے ان کے حکم سے رام سرپرگنہ رائی، امادے کی جاگیرمیں لکھ کرپٹہ اس کے پاس بھیج دیا۔ اب اجمیر میں رانی کی عمل داری ہے۔ قلعہ دار اس کی ڈیوڑھی پر پردہ قنات کا انتظام کرکے روزشام سویرے سلام کوحاضرہوتاہے۔ اجمیر کا فوجدار روزرانی کی ڈیوڑھی پر مجرے کے لئے آتاہے اور اسی کی صلاح وحکم سے اپنا کام انجام دیتاہے۔ امادے کا نام اب روٹھی رانی مشہورہوگیاہے۔ وہ برج بھی اب روٹھی رانی کا برج کہلانے لگا ہے اورآج تک اسی نام سے مشہورہے۔ 

    جودھپورپہنچ کر راؤمالدیونے سناکہ بنگال میں ہمایوں اورشیرشاہ سے لڑائی چھڑگئی اوردلی، آگرہ خالی پڑاہے۔ پس اس وقت انہوں نے بیکانیر کاخیال ترک کردیا اور پورب کی طرف ٹوٹ پڑےاورہندؤں بیانا تک فتح کرتےچلے گئے۔ وہاں سے لوٹ کرسمبت ۱۵۹۲میں بیکانیر بھی جیت لیا۔ 

    اس اثنامیں شیرشاہ ہمایوں کوسندھ میں بھگاکر آگرہ آپہنچا۔ اس کے آتے ہی وہ سب راجے، رئیس، ٹھاکر، جن کے علاقے مالدیو نے دبالئے تھے۔ بیکانیر کی سرپرستی میں شیرشاہ کے دربارمیں فریادکےلئے حاضرہوئے اوراسے راؤپر حملہ کرنے کےلئے آمادہ کرنےلگے۔ مالدیوبھی بے خبرنہ تھا۔ اسی ہزار سوارشیرشاہ کے مقابلہ کے لئے فراہم کئے۔ اورایشورداس کولکھا کہ آٖپ روٹھی رانی کو لے کرچلے آئیے، اوراجمیر کے قلعہ میں جنگی بندوبست کرادیجئے۔ 

    روٹھی رانی نے اس پرکہا مجھے کیا ڈرپڑا ہے۔ میں راجپوت کی بیٹی ہوں۔ قلعہ پر کوئی چڑھ آوے گا تومیں کرمیتی ہانڈی کی طرح آگ میں جل کرنہ جان دوں گی۔ بلکہ مردوں کی طرح لڑکرمروں گی۔ راؤجی کولکھ دویہ قلعہ میرے بھروسے پرچھوڑدیں اور باقی سلطنت کی محافظت کاانتظام کریں۔ 

    راؤجی نے جواب دیا کہ اجمیر میں توہم شیرشاہ سے لڑیں گے۔ وہاں رانی کا رہنا مناسب نہیں، اگرانہیں ایسی ہی راجپوتی دکھانے کی خواہش ہے تو جودھپور کا قلعہ حاضرہے۔ ہم اسے بالکل انہیں کے بھروسے پرچھوڑدیں گے۔ ان کوبہت جلدلاؤ۔ 

    ایشورداس نے تب رانی سے کہا، ’’بائی جی! مہاراج کو آپ کی بات منظور ہے مگراجمیر کے بدلے جودھپور کاقلعہ آپ کوسونپا جائے گا۔ آپ وہاں تشریف لے چلیے وہ اپناگھر ہے۔ اجمیر توپرائی جائیداد ہے۔ تھوڑے ہی دنوں سے ہمارے قبضہ میں آیاہے۔‘‘ رانی نے کہا، ’’بہت خوب۔ جوراؤجی کی مرضی ہو۔ اجمیر نہ سہی جودھپور سہی، سواری کاانتظام کرو۔ اگریہ موقع نہ آجاتا تو میں یہاں سے ہرگزنہ جاتی۔ 

    سوتیاڈاہ
    ایشورداس نے اجمیرکے حاکم اورقلعہ دار سے جنگی تیاریوں کا انتظام کرنے کے لئے کہا۔ اسی اثنا میں جودھپور سے سروپ دئی اوردیگررانیوں نے اس کے پاس ایک بڑی رشوت بھیجی۔ اوراستدعا کی کہ جس طرح ممکن ہو اس بلاکووہیں رہنے دو۔ وہ کسی طرح جودھپور نہ آنے پائے۔ اجمیر سے چلتے وقت ہم نے آپ سے یہی بات کہی تھی۔ اوراب تک آپ نے اس بات کا خیال رکھاہے۔ اب بھی وہ تمہارے ہی روکے رک سکتی ہے۔ دوسرا اسے کوئی نہیں روک سکتا۔ آپ راؤجی کوسمجھائیے کہ ایسا ہرگز نہ کریں۔ ہم اس عنایت کے لئے آپ کے بہت احسان مندہوں گے۔ چارن جی رشوت پاکرننانوے کے پھیرمیں پڑگئے۔ کہاں توروزتیاری کی بہت تاکید کیا کرتے تھے۔ کہاں اب ڈھیلے پڑگئے اورتیاری میں بھی توقف ہونے لگا۔ 

    ایک اورنیاگل کھلا۔ ہمایوں نے جوشیرشاہ سے شکست کھاکر سندھ بھاگ گیاتھاجب سنا کہ راؤجی لڑائی کی تیاری کررہے ہیں توان کے پاس اپنا ایک ایلچی یہ پیغام دے کر بھیجاکہ آپ تنہا شیرشاہ سے ہرگزجنگ آزمائی نہ کیجئے گا۔ میں بھی آپ کاساتھ دینے کو آرہاہوں۔ ہم دونوں مل کراسے شکست دیں گے۔ اس مدد کے عوض میں آپ کو گجرات فتح کرادوں گا۔ راؤجی نے یہ بات مان لی اور بادشاہ کولکھا کہ آپ جیسلمیر ہوکرتشریف لائیے گا وہاں والے میرے رشتہ دارہیں۔ وہ آپ کا ضرورساتھ دیں گے۔ ادھر ایشورداس کوتاکید کی کہ رانی کو لے کرجلدآؤ۔ ہم تمہیں کچھ ضروری کام کے لئے راول جی کے پاس جیسلمیر بھیجیں گے۔ راؤجی کا منشا تھا کہ اس طرح ہمایوں کی اعانت کرکے اسے تخت پربٹھادیں۔ اوراس کے نام سے ساراملک اپنے تخت میں لائیں۔ 

    ایشورداس نے ان اہم فرائض کی بجاآوری میں اپنا زیادہ فائدہ دیکھا۔ جلدحاکمِ شہر اور قلعہ دار سے سواری کاانتظام کرالیا۔ اورروٹھی رانی کو بڑے کروفرکے ساتھ جودھپورروانہ کردیا۔ دوسری رانیوں نے جب یہ خبر سنی توہاتھ پیرپھول گئے۔ اب یہ بلاآپہنچی۔ نہیں معلوم اس کے پاس کیا جادوہے کہ راؤجی اس کے بات نہ پوچھنے پربھی خوشامد میں لگے رہتے ہیں۔ اب اسے قلعہ سونپ کرآپ لڑنے جائیں گے۔ خوب! عورت کیاہے جادوکی پڑیاہے۔ بھلاجب قلعہ اس کے اشارے پرچلے گا توہماری کیا گت ہوگی۔ وہ توہماری زندگی دوبھر کردے گی۔ ہم سے اس کی حکومت برداشت نہ ہوگی۔ اس میں کیاسرخاب کاپرلگاہے کہ قلعہ اس کوسونپا جاتاہے۔ وہ جادوگرنی ہے۔ جادوگرنی! ساٹھ کوس سے وہ منترماراجسکا اتارنہیں۔ ظالم۔ دغاباز۔ ایشورداس بھی اپنی طرف آکرپھر ادھرہوگیا۔ 

    ایک خواص نے رانی کی یہ گفتگو سن کر کہاکہ ایشور داس پھوٹ گیاتوکیاہوا۔ اس کا چچا آساجی تویہیں موجودہے۔ اس سے کام لیجئے۔ وہ ایشور سے بہت زیادہ ہوشیار ہے۔ رانیو ں کویہ صلاح پسندآئی۔ جہاں رانی نے اسی خواص کوآساجی کے پاس بھیجا اور کہلایاکہ تمہارا بھتیجا وہاں بیٹھے بیٹھے بڑی بے انصافی کررہاہے۔ ہمیں اب آپ کے سواکوئی دوسرا نظرنہیں آتا۔ آپ ہی ہمارا کام کرسکتے ہیں۔ کسی طرح اس بلاکو روکئے ورنہ ہم کہیں کے نہ رہیں گے۔ آسانے کہاوہ ناخلف میرے کہنے میں نہیں ہے۔ اورجوکچھ حکم ہواسے بجالاؤں۔ 

    جہانی رانی ’’بھٹانی یہاں ہرگزنہ آنے پائے۔‘‘

    آساجی ’’بہت اچھا۔ ایساہی ہوگا۔ نہ آنے پائیں گی۔‘‘

    جہانی رانی ’’نہ کیسے آئیں گی۔ وہ توچل دیں ہیں۔ کل پرسوں تک آپہنچیں گی۔‘‘

    آساجی ’’آپ خاطر جمع رکھئے۔ میں اسے راستہ میں روک دوں گا۔‘‘

    رانیوں نے زورمال سے آساجی کومالامال کردیا۔ اورکہاکہ اگرآپ ہمارا کام کردیں گے توہیرے جواہر سے آپ کاگھربھردیاجائے گا۔ آساجی نے راؤجی سے یہ بہانہ کیاکہ ایک ضروری کام سے گھر جارہا ہوں۔ اوراجازت پاتے ہی اجمیر کی طرف چلا۔ جب جودھپور سے پندرہ کوس پورب کوسانہ گاؤں کے قریب پہنچا تو اسے دور سے نشان کاہاتھی دکھائی دیا۔ اورنقارے کی صداکان میں آئی۔ سمجھ گیاکہ روٹھی رانی کی سواری آرہی ہے۔ 

    سواری کا دورتک تانتالگاتھا۔ ہاتھی کے پیچھے اونٹوں کانوبت خانہ تھا۔ اس کے پیچھے گھوڑوں پرنقارہ بج رہاتھا۔ ذرااورپیچھے سجے ہوئے اونٹ اورپھر چیلوں کاجھنڈاہوامیں لہراتادکھائی دیا۔ جھنڈے کے پیچھے جنگجو۔ دلاور۔ راٹھوروں کا ایک رسالہ تھا۔ پھربندوقچیوں کی ایک قطار۔ ان کے عقب میں تیرانداز۔ اور اس کے بعدڈھال تلوار ڈالے راجپوت تھے۔ ذرا اور پیچھے ہٹ کر کوتل ہاتھی اور گھوڑے سونے چاندی میں غرق۔ زری وزربقت کے سامان سے لیس خوش خرامی کرتے چلتے تھے۔ ان کے بعدنقیب اورچوبدارسونے چاندی کے عصا لئے راستہ صاف کرتے چلتے تھے۔ چارن ایشور داس جی بھی پانچوں ہتھیارلگائے۔ اوپچی بنے۔ ایک سبک خرام رہوار پر اکڑے بیٹھے تھے۔ جیوں ہی ان کی نظراپنے چچا آساجی پرپڑی گھوڑے سے اترکرمجراکیا۔ اورپوچھا آپ یہاں کہاں۔ آساجی بولے بائی جی کی پیشوائی کرنے آیاہوں۔ دونوں وہیں کھڑے ہوکرباتیں کرنے لگے جلوس بڑھتا چلاگیا۔ 

    نقیبوں کے پیچھے ایک جماعت مسلح عورتوں کی آئی جو تیروکمان اورخنجر لگائے ہوئے تھیں۔ انہیں کے جھرمٹ میں رانی امادئی کاسنہرا سکھپال تھا۔ اس پرزری کاگہرا گلابی پردہ پڑا تھا۔ جابجا بیش بہا جواہرات اورنگینے جڑے ہوئے تھے۔ جن پرنگاہ نہیں ٹھہرتی تھی۔ کہا راطلس وکمخواب کے لباس پہنے ہوئے تھے۔ اس مغرق سکھپال کے پیچھے ننگی تلواروں کاپہرہ تھا۔ پھر کئی زنانی سواریاں پالکیوں پنسوں اوررتھوں میں تھیں۔ ان کے بعد راٹھوروں کا ایک رسالہ۔ اوررسالہ کے پیچھے جلوس کے باقی کوتل ہاتھی۔ گھوڑے اوراونٹ تھے۔ سب کے پیچھے فراش خانہ۔ توشہ خانہ۔ رسدخانہ اوردیگر لوازماتِ سپاہ کی اونٹ گاڑیاں تھیں۔ 

    آساجی کے ہمراہی کہتے تھے کہ دیکھیں آساجی کیسے اس دھوم دھڑکے سے چلتی ہوئی شاہانہ سواری کوروک دیں گے جس کے آگے کوئی چوں نہیں کرسکتا۔ اتنے میں روٹھی رانی کاسکھپال آساجی کے برابرآپہنچا۔ اس نے بڑے ادب سے چوہدار کوآواز دے کر کہابائی جی سے عرض کروکہ آساچارن مجرا کرتاہے۔ اورکچھ عرض بھی کیا چاہتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ دوہاپڑھا، 

    مان رکھے توپیوتج۔ پیورکھے تج مان
    ددی ہاتھی باندھیئے ایکڑ کھمو ٹھان

    یعنی اگرخودداری نبھانا چاہتی ہوتو شوہر کوترک کرو۔ اورشوہر کی خاطرچاہتی ہو تو خودداری چھوڑو۔ کیوں کہ ایک ہی تھان میں دوہاتھی نہیں باندھے جاسکتے۔ 

    یہ دوہے سنتے ہی روٹھی رانی کاجوش پھرتازہ ہوگیا۔ اوردل قابو میں نہ رہا۔ فی الفورحکم دیاکہ ابھی سواری لوٹے۔ جوایک قدم بھی آگے رکھے گا گردن زدنی سمجھا جائے گا۔ سب لوگ حیرت میں آگئے کہ یہ کیاہوا۔ یکایک یہ کایاپلٹ کیوں کرہوئی۔ ایشورداس نے بہت زورمارا۔ ہاتھ جوڑے۔ پیروں پڑا۔ ساری لسّانی خرچ کرڈالی۔ مگرآساجی کے جادوبھرے لفظوں کے سامنے اس کی کچھ پیش نہ گئی۔ سردار، سپہ سالار۔ ہرچندآرزومنت کرتے رہے مگر اس نے کسی کی نہ سنی۔ اسی کوسانہ گاؤں میں ڈیرے ڈلوادیئے۔ 

    آساجی کوابھی تک دغدغہ تھا کہ کہیں لوگوں کے کہنے سننے سے رانی کا ارادہ پھر نہ پلٹ جائے۔ پس جوں ہی ڈیرے پرگئے وہ دردولت پرحاضرہوا۔ اورمجرا کرکے کہا، ’’بائی جی! آپ پر ہزارآفریں ہے۔ آپ نے جو ٹھان ٹھانی ہے وہ آپ ہی کاحصہ ہے۔‘‘

    رانی ’’باجی وہ دوہاپھرپڑھئے۔ بہت اچھا اورسچا ہے۔ میں اپنی ٹیک کبھی نہ چھوڑوں گی۔‘‘

    آساجی (دوہاپڑھ کر) ’’بائی جی! راجاؤں میں سچامانی دریودھن ہوا۔ اسی کل میں آپ ہیں۔ رانیوں میں آپ کاسا اپنی بات پرقائم رہنے والاکوئی اورنہیں ہے۔‘‘

     ’’باباجی! دریودھن نام کا توایک ہی راجاہوا۔ پھرابھاگی اما کے نام کی توکئی رانیاں ہوئیں۔ ان میں ایک کے نام کایہ دوہامشہورہے۔ 

    ہاردیو۔ چھنددکیو۔ موکیومان مرم
    اُما پیونہ چکھیو۔ اڑو لیکھ کرم

    یعنی ہاردیا۔ چھپایا۔ عزت کھوئی۔ پھربھی اماکوشوہر کاسکھ نہ نصیب ہوا۔ اس کی قسمت کی لکیرآڑی پڑگئی۔ 

    آسا ’’بائی جی! وہ تو اما سانکھیلی تھی۔ اورتم امابھٹانی ہو۔ دونوں کا گھرانا بھی ایک نہیں۔‘‘

    رانی (روکر) ’’بابا جی دوہے میں توصرف اما کہا ہے۔ سانکھیلی اوربھٹانی کون جانے۔‘‘

    آسا ’’کیوں نہ جانے۔ یہ دوہا اچل داس کاکہا ہواہے۔ آمادیئی سانکھیلی اس کی رانی تھی۔ اسے سب جانتے ہیں۔ کیاتم نہیں جانتیں؟‘‘

    رانی ’’میرے اورتمہارے جاننے سے کیاہوتاہے۔ دوہے میں توکوئی تشریح نہیں کی۔ میرے اورتمہارے پیچھے کون جانے گا؟‘‘

    آساجی ’’تمہارے پیچھے تک اگرجیتارہاتوتمہارے نام کوزندہ جاوید بناجاؤں گا۔‘‘

    رانی ’’بڑی خیریت ہوئی کہ آپ آگئے۔ اگرآپ نہ آتے تونہ جانے کیاہوتا۔ آپ کے بھتیجے کے دم دھاگوں میں آکرمیں اپنی مرجاداچھوڑدیتی توسوتیں مجھ پر ہنستیں اورکہتیں کہ بس اتناہی پانی تھا۔‘‘

    اتنے میں چوبدار نے التماس کی ایشورداس حاضر ہے۔ آساجی یہ سنتے ہی کھٹک گئے۔ ایشورنے آکرکہا، ’’بائی جی۔ یہ آپ نے کیا ستم کیا۔ چلتی سواری راہ میں ٹھہراکرراؤ جی آپ کاراستہ دیکھ رہے ہیں۔ کماررام سنگھ۔ رائے مل۔ اودے سنگھ اورچندرسین وغیرہ آپ کی پیشوائی کے لئے تیارہیں۔ سارے شہرمیں جشن ہورہاہے کہ روٹھی رانی تشریف لاتی ہیں۔ اورراؤجی انہیں قلعہ سونپ کر لڑنے جاتے ہیں۔ بھلا یہاں رک جانے سے لوگ اپنے دل میں کیاسمجھیں گے۔ 

    رانی ’’تم راؤجی کوخبردے دوکہ میں تواب یہاں ہی رہوں گی۔ یہاں کا جو کچھ انتظام ہووہ میرے سپردکریں۔ اورخودشوق سے لڑنے جاویں۔ راجپوتوں کودشمنوں سے لڑنے میں تامل نہ کرنا چاہئے۔‘‘

    ایشور ’’کیا اندھیرکرتی ہو۔ یہاں رہ کرکیا کروگی۔ راؤجی نے اپنے پرائے سب سے دشمنی پیدا کررکھی ہے۔ سارے خاندان میں نفاق پھیلا ہواہے۔ بیرم جی میٹرتیا اورماڑوار کے دوسرے ٹھاکراورجاگیردارجن کی زمین راؤجی نے چھین لی ہے، شیر شاہ کے پاس فریاد کرنے گئے ہیں۔ ایک طرف شیرشاہ اوردوسری طرف سے ہمایوں کے آنے کی خبریں اڑرہی ہیں۔ ایسی حالت میں تویہی مناسب ہے کہ آپ جودھپور چل کرقلعہ کی نگرانی کیجئے۔ 

    رانی ’’بادشاہ آتے ہیں توآنے دو۔ مجھے ان کا کیاڈرپڑا ہے۔ میں نے تو تم سے بات اجمیرمیں کہی تھی وہی یہاں بھی کہتی ہوں۔ راؤجی اگرکوئی کام میرے سپردکردیں گے اوراپنی آدھی فوج بھی میرے ساتھ کردیں گے تو میں یہاں بیٹھے بیٹھے جودھپور سنبھال لوں گی۔ راؤجی جہاں چاہیں جائیں۔ میں اب جودھپور نہ جاؤں گی۔ ہاں اگر راؤجی کی مرضی ہوتوراؤسرمیں جارہی ہوں۔‘‘

    ایشورداس کہہ سن کرہارگئے۔ جب کچھ بس نہ چلا تو جودھپور آکرراؤجی سے عرض کی کہ میں نے توبائی جی کویہاں آنے پرراضی کرلیاتھا۔ مگرآساجی نے بنی بات بگاڑدی۔ ساری محنت پرپانی پھیردیا۔ آپ نے اسے بھیجاکیوں! رانی امادیئی کو توآپ جانتے ہیں۔ آساجی نے جاتے ہی مان مرجادکاذکر چھیڑدیا۔ بس وہ مچل گئیں۔ اور کوسانےمیں ڈیرے ڈال دیئے۔ میں نے بہت عرض معروض کی مگرانہوں نے ایک نہ سنی۔ کسی نے پاگل سے پوچھا گاؤں کیوں جلایا؟ اس نے کہاخوب یاددلایا اب جلاتاہوں۔ 

    راؤجی ’’پھر اب کیا کرناچاہئے۔ کسے بھیجوں۔‘‘

    ایشور ’’مجھے توایسا کوئی نظرنہیں آتا جو انہیں جاکرمنالادے۔ اوروہ بھی آساجی کے ہوتے۔‘‘

    راؤجی ’’آساجی تومجھ سے گھرجانے کی رخصت لے گئے تھے۔‘‘

    ایشور ’’بس اسی میں کچھ چال ہوئی۔‘‘

    راؤجی ’’چال کیسی؟‘‘

    ایشور ’’کوئی خاص بات نہیں۔‘‘ (کہتے کہتے رک گئے کیوں خود بھی رشوت ہضم کئے بیٹھے تھے)

    راؤجی ’’توکچھ سوچوکیاکرناچاہئے۔‘‘

    ایشور ’’فی الحال توآساجی کوحکم ملنا چاہئےکہ یہاں سے چلے جائیں۔ پھر دیکھا جائے گا۔ ’’

    اتنے میں ہمایوں سندھ سے مارواڑمیں آیا۔ اورآگرہ سے شیرشاہ کےسفیر راؤجی کے پاس یہ پیغام لے کرپہنچے کہ ہمایوں کوپکڑنا۔ ہرگز نہ جانے دینا۔ اس کے بدلے میں گجرات فتح کرکے تمہیں دیاجائے گا۔ یہ سن کر راؤجی دبدھا میں پڑگئے۔ یہ خبرہمایوں نے بھی سنی۔ ادھر نہ آیا۔ اوپرہی اوپرلوٹ گیا۔ اس کے ہمراہیوں نے ماڑوار میں گاؤکشی کی تھی۔ راؤجی نے اس شررانگیزی کا انتقام لینے اور شیرشاہ کی نظروں میں وفادار بننے کی غرض سے اپنی فوج ہمایوں کے پیچھے روانہ کی۔ مگروہ بچ کرنکل گیا۔ 

    راجپوتوں کی بہادری
    شیرشاہ نے جب سنا کہ ہمایوں صاف بچ کرنکل گیاتو اسے شک ہواکہ راؤجی کی ضرور اس سے سانٹھ گانٹھ ہے۔ بگڑگیا۔ اورفوراً ماڑوار پرچڑھ دوڑا۔ راؤ جی اجمیر جانے کو توپہلے ہی تیار تھے۔ اب میٹرتے کاراستہ چھوڑکرجتیارن کے راستہ سے چلے۔ جودھپور کے فوجدار نے راؤجی کے حکم سے کوسانہ میں جاکررانی امادیئی کے جلوس کا انتقام میٹرتہ کے حاکم سے لے لیا۔ میٹرتہ کے حاکم اورآساجی دونوں نے رخصت ہوتے وقت رانی کے سرکارسے خلعت پائے۔ حاکم میٹرتہ کوگیا۔ آساجی جیسلمیر سدھارے۔ راؤجی نے نادرشاہی حکم دے دیاتھا کہ تم آج سے ہماری سلطنت میں نہ رہنا۔ 

    جب راؤجی اجمیرپہنچے تو شیرشاہ نے سناکہ ان کے پاس ۸۰ہزار سوارہیں۔ سنتے ہی سناٹے میں آگیا۔ ہیاؤچھوٹ گیا۔ آگے قدم نہ اٹھے۔ مگربیرم جی میٹرتے نے کہاکہ آپ چلیں توسہی۔ میں راؤجی کودم کی دم میں میدان سے بھگائے دیتاہوں۔ ہندوؤں میں ناچاقی ونفاق نے ہمیشہ ملک ویران کئے ہیں۔ اورغیروں سے ہمیشہ زکیں دلائی ہیں۔ اکبرکو ناکوں چنے چبوائےتھے۔ اورجس کے نام پرآج تک سارا راجستھان نازکرتاہے۔ راؤجی نے اسے میٹرتہ سے نکال دیاتھا۔ اسی کاانتقام لینے کے لئےوہ شیرشاہ سے جاملاتھا۔ 

    شیرشاہ کوبیرم جی کے کہنے کایقین نہ ہوا۔ وہ پھونک پھونک کرقدم دھرتا آگے کوچلا۔ مگرجب اجمیر بہت قریب رہ گیا تو اس نے ان سے کہاکہ اب آپ اپنی ہوشیاری دکھائیے۔ بیرم نے کہاکہ بہت خوب چنانچہ اس نے راؤمالدیوجی کے سرداروں کے نام فارسی میں اس مضمون کے فرمان لکھئے۔ 

     ’’ہم آپ صاحبوں کے متواتر تقاضوں سے مجبورہوکر یہاں تک آپہنچے ہیں۔ اب آپ لوگ اپنے عہدوپیماں کے مطابق راؤجی کوگرفتار کرکے ہمارے پاس لے آئیں۔ خرچ کےلئے فیروزیاں بھیجی جاتی ہیں۔‘‘

    بعدازاں متعددڈھالیں منگاکر ایک ایک فرمان ان کی گدی میں رکھ کر سی دیئے اور جس ڈھال میں جس سردار کے نام کافرمان تھا وہ اُسی سردار کے پاس بیچنے کے لئے بھیجا اوربیچنے والے سے کہہ دیاکہ وہ جس دام میں لیں دے آنا۔ نفع نقصان کا خیال نہ کرنا۔ پھرکئی لاکھ فیروزیاں شیرشاہی خزانہ سے لے کر کچھ توآپ رکھ لیں اورباقی اپنے آدمیوں کے ہاتھ راؤجی کے اردوبازارمیں بھجواکرسستے داموں بکواڈالیں۔ اس طرح راؤجی کے سرداروں نے لڑائی کی ضرورت سے ڈھالیں سستی مہنگی خریدلیں۔ 

    یہ کارروائی کرکے رات کو بیرم جی راؤمالدیو کی خدمت میں حاضرہوا۔ اور عرض کی کہ آپ نے میٹرتہ مجھ سے چھین لیا۔ اوربیکانیر کے راؤجیتی کومارڈالاؤ لہٰذا اگرہم شیرشاہ سے مل جائیں تو حق بجانب ہے۔ پرآپ کے اورسردار اس سے کیوں مل گئےہیں۔ غالباً انہوں نے خوب رشوت لی ہے۔ 

    راؤجی ’’باباجی مجھے تواس کی خبرنہیں۔ اس کاکوئی ثبوت بھی ہے۔‘‘

    بیرم ’’ثبوت کیوں نہیں ہے۔ اپنے سرداروں کی ڈھالیں دیکھئے۔ ان کی گدیوں میں بادشاہ کے فرمان ہیں۔ اس کے علاوہ لاکھوں فیروزیاں بادشاہ سے لی گئی ہیں۔ کیا بازار میں نہ بکی ہوں گی؟‘‘

    بیرم یہ پھلجھڑی چھوڑکرچلتابنا۔ پرراؤجی پھیرمیں پڑگئے۔ آدمی بھیج کر فیروزیوں کاپتہ لگایاتو وہ سب رئیسوں کے پاس نکلیں۔ ان سے پوچھا توجواب ملاکہ اپنے ہی آدمی بیچ گئے ہیں۔ اب توراؤجی کوشک کی جگہ یقین ہوگیاکہ سردار ضروربادشاہ سے مل گئے ہیں۔ دوسرے دن جب سب سردارمجرے کو آئے توراؤجی نے ان کے پاس نئی نئی ڈھالیں دیکھ کر کہاکہ یہ کہاں سے آئیں۔ جواب ملا کہ بیوپاریوں سے خریدی گئی ہیں۔ 

    راؤجی نے دیکھنے کے بہانے سے سب ڈھالیں رکھ لیں۔ درباربرخاست ہوجانے کےبعدانہیں چرواکر دیکھا تووہی فرمان ملے جن کا ذکر بیرم نے کیاتھا۔ منشی بلواکر پڑھوایا تومضمون بھی وہی نکلا۔ اب یقین کامل ہوگیاکہ سردارلوگ مجھے ضرور دغا دیں گے اس میں شک نہیں کہ بیرم جی کی چال کام کرگئی۔ مگراس کا باعث یہ نہیں تھا کہ چال بذات خودبہت اچھی تھی۔ بلکہ اس لئے کہ راؤجی کواپنے سرداروں پرپہلے ہی سے کچھ شبہ تھا۔ اگرایسا نہ ہوتا تو وہ کل سرداروں کے ڈھالوں میں فرمان دیکھ کر فوراًتاڑ جاتے کہ مجھے دھوکہ دیاگیاہے۔ یہ کیوں کرممکن ہوسکتا تھا کہ سب سردار ڈھالوں ہی میں یہ فرمان چھپاتے۔ کیاانہیں اورکوئی جگہ نہ ملتی تھی۔ اورپھر سب کے سب نئی نئی ڈھالیں خریدتے! یہ نکتے راؤجی کے ذہن میں نہ آئے۔ کماررام سے توپہلے ہی بدظن ہورہے تھے۔ اب سرداروں پرسے بھی اعتبار جاتارہا۔ اسی دم حکم دیاکہ فوج یہاں سے کوچ کرے۔ 

    اس حکم نے تمام فوج میں کھلبلی مچادی۔ پرجوش راجپوت اپنے اپنے ارمان نکالنے کی تیاریاں کررہے تھے۔ کوئی تلوارصاف کررہاتھا۔ کوئی وردی سنبھال رہا تھا۔ کوئی تیروکمان پرمشق کررہاتھا۔ ساری فوج میں دوسرے دن لڑنے کی خوشی پھیلی ہوئی تھی کہ یکایک راؤجی کا یہ حکم صادرہوا۔ 

    سرداروں کوفوراً کھٹکا ہواکہ راؤجی ہم سے بدظن ہوگئے۔ ورنہ جیتی جتائی لڑائی چھوڑکر یوں کوچ کاحکم ہرگزنہ دیتے۔ سب کے سب جمع ہوکر راؤجی کی خدمت میں حاضرہوئے اورعرض کی کہ آپ ہماری طرف سے دل میں کسی قسم کی بدگمانی نہ رکھئے۔ ہم مرتے دم تک آپ کاساتھ نہ چھوڑیں گے۔ ہم لڑکر جان دے دیں گے مگرمیدان سے منھ نہ موڑیں گے۔ ہم شیرشاہ سے ہرگزنہیں ملے۔ ضرور آپ کو کسی نے مغالطہ میں ڈال دیاہے۔ پرراؤجی کویقین نہ آیا۔ نہ آیا۔ اورفوج کوچ کرنے کی تیاری کرنے لگی۔ 

    شیرشاہ نے غنیم کویوں میدان سے بھاگتے دیکھ کر بیرم جی اوردوسرے سازشی سرداروں کےہمت دلانے سے راؤجی کاپیچھا کیا۔ جب راؤجی بابرہ ضلع جیتارن کے پاس سمبل ندی سے اترے تو ان کے سورماسردار جینا اورکونپانے عرض کی کہ یہاں تک جوسرزمین ہم پیچھے چھوڑآئے ہیں وہ آپ کی جیتی ہوئی تھی اور ہمارے قبضہ میں تھوڑے ہی دنوں سے تھی۔ مگراب یہاں سے آگے ہمارے بزرگوں کی جائیداد ہے۔ ہم ایسے کپوت نہیں ہیں کہ اپنے باپ دادوں کے ملک کویوں سہج میں چھوڑکر چلے جائیں۔ آٖ پ جاتے ہیں۔ خوشی سے جائیے۔ ہم تو شیرشاہ سے یہیں جم کرلڑیں گے۔ وہ بھی تو دیکھے کہ راجپوت زمین کے لئے کیسی بے دردی سے لڑکر جان دیتے ہیں۔ راؤجی نے کہایہاں لڑنافضول ہے۔ اب چلے ہیں توجودھپور ہی پہنچ کر لڑیں گے۔ مگرجیتا، کونپا نے نہ مانا۔ وہ اپنے دس ہزار جانباز۔ دلاور راٹھوروں کولے کرپلٹے اور بادشاہی فوج پرپل پڑے۔ اورایسا جی توڑکرلڑےکہ بادشاہ سمجھا اب ہارااوراب ہارا۔ مگردس ہزار راجپوت پچاس ہزارآدمیوں کے مقابلہ میں کیا کرسکتے تھے۔ ہاں انہوں نے اس راجپوتی دلیری کانمونہ دکھادیا جو فتح پور سیکری۔ ہلدی گھاٹ۔ چتوڑگڑھ کے میدانوں میں بارہاظاہر ہوچکی ہے۔ اور اگرچہ سب کے سب کھیت رہے مگراپنی بہادری کاسکہ بادشاہ کے دل پرجماگئے۔ شیرشاہ نے خداکا دوگانہ شکریہ اداکیا۔ اورسرداروں سے کہا، ’’بڑی خیریت ہوئی ورنہ مٹھی بھرباجرے کےلئے ہندوستان کی سلطنت ہاتھ سے گئی تھی۔‘‘

    دوسرے دن اس ہار کی خبرپاکر راؤجی نے سیوانے کی طرف باگ موڑی۔ جودھپور کے قلعہ دارکولکھا کہ قلعہ کی خوب تیاری کرو اور رانیوں کوہمارے پاس بھیج دو۔ روٹھی رانی کوبھی یہی پیغام دے دیا۔ قلعہ دار نے حکم پاتے ہی سب رانیوں کوسیوانے بھیج دیا۔ جوجودھپور سے پچھم میں تیس کوس پرواقع ہے۔ اورخود قلعہ درست کرکے لڑنے مرنے کے لئے تیار ہوبیٹھا۔ جوراٹھور سردارراؤجی کی بدگمانی سے رنجیدہ خاطرہوکر الگ ہوگئے تھے اورنیزوہ جوجیتاکونپا کے ہمراہیوں میں سے بچ رہے تھے وہ سب مل کر کوسانے میں روٹھی رانی کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔ اس طرح رانی کے پاس جانبازوں کی ایک خاصی جماعت تیارہوگئی۔ رانی نے باوجودقلعہ دارکے متواتر تقاضوں کے کوسانے سے کوچ نہ کیا۔ 

    شیرشاہ خودتونہ آیامگر اس نے اپنے سردار خواص خاں کو پانچ ہزار سپاہیوں کے ساتھ جودھپور فتح کرنے کے لئے بھیجا۔ اس نے آکرقلعہ گھیرلیا۔ قلعہ دار اس سے کئی دن تک لڑا۔ مگرجب قلعہ کاسب پانی خرچ ہوچکا تواس نے دروازہ کھول دیا اور ایک گھمسان لڑائی لڑکرمرگیا۔ قلعہ پرخواص خاں کا قبضہ ہوگیا۔ اس طرح راؤجی کی بدگمانی اوربزدلی نے دشمنوں کے ہاتھ میں زبردستی فتح کاجھنڈا دے دیا۔ 

    جیتااورکونپاکے مارے جانے کے بعدبھی راؤجی کے پاس سترہزار سپاہ تھی۔ اگروہ بجائے سیوانے کے جودھپورآتے اورساری جماعت سے مقابلہ کرتے تو یقین تھا کہ بادشاہ کو شکست ہوتی۔ ورنہ یہ نوبت آگئی کہ پانچ ہزار آدمیوں نے جودھپور کا محاصرہ کرکے اسے فتح کرلیا۔ راجپوتوں نے جہاں بے حددلاوری دکھائی ہے۔ وہاں بسااوقات فنون سپہ آرائی اورنقل وحرکت کی خامی کابھی ثبوت دیاہے۔ 

    خواص خاں نے قلعہ پر اپنا تسلط جماکرفوج کاایک حصہ بیکانیر کوروانہ کیا کہ وہ راؤ جیستی کےلڑکے کلیان مل کا وہاں عمل دخل کرادے۔ اسی طرح بیرم جی کے ساتھ بھی تھوڑی سی فوج میٹرتہ فتح کرنے کےلئے بھیجی۔ 

    اتنے میں خواص خاں کوخبرملی کہ راٹھور کوسانے میں جمع ہورہے ہیں۔ وہ فوراً وہاں پہنچا۔ اورروٹھی رانی سے کہلایا کہ یاتوہم سے لڑو۔ یا جگہ خالی کردو۔ رانی نے جواب دیاکہ میں لڑنے کوتیارہوں۔ تیراجب مزاج چاہے آجا۔ میں عورت ہوں تو کیا۔ مگرراجپوت کی بیٹی ہوں۔ 

    خواص خاں نے اپنے سرداروں سے صلاح کی کہ اب کیا کرناچاہئے۔ انہوں نے کہاابھی توتھوڑے سے راجپوتوں نے بادشاہ سے لڑکرآفت مچادی تھی۔ ان کے ساتھ راجابھی نہ تھا۔ اگروہ ہوتا تو نہیں معلوم کیاغضب ہوجاتا۔ اب پھر انہیں سے خواہ مخواہ جھگڑامول لینا کیا ضرورہے۔ اگرچہ راجہ یہاں نہیں ہے۔ مگررانی تو ہے۔ اس کے سرادراپنی رانی کی عزت بچانے کے لئے جی توڑکرلڑیں گے۔ اور رانی خودبھی دینے والی نظرآتی۔ خواص خاں نے کہا یہ توٹھیک ہے پراگر یہاں سے بلالڑے چلاجاؤں گا تو لوگ کہیں گے کہ مردہوکر ایک عورت کے سامنے بھاگ گیا۔ سرداروں نے جواب دیاکہ عورت سے نہ لڑنے میں اتنی ذلت نہیں جتنی اس سے ہارجانے میں۔ آخرکار یہ فیصلہ ہواکہ اس امرمیں بادشاہ کی رائے کی استدعا کی جائے۔ 

    بادشاہ اس وقت اجمیرمیں تھا۔ اورانااودے سنگھ پرچڑھائی کرنے کی فکر میں تھا۔ خواص خاں کی عرضی پہنچتے ہی اس نے جواب دیاکہ اب اس بھڑوں کے چھتے کونہ چھیڑو۔ جوملک قبضہ میں آگیاہے اسی کو غنیمت سمجھو۔ ہاں اگروہ خود لڑنے آئیں تو میدان سے نہ ہٹو۔ یہ جواب پاکر خواص خاں نے روٹھی رانی سے لڑائی کرنے کاارادہ ترک کردیا۔ ہاں اس کے پاس کہلابھیجا کہ جہاں میرالشکر پڑاہے حکم ہوتو وہاں ایک گاؤں بساکر چلاجاؤں۔ تاکہ آپ کے ملک میں میرابھی کچھ نشان رہ جائے۔ 

    رانی نے فرمایا، ’’نام نیکی سے رہتاہے۔ گاؤں بسانے سے نہیں۔ اس وقت تو جودھپور کاحاکم ہے۔ اگرتورعایا کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے گا۔ اسے آرام چین سے رکھے گا تولوگ آپ تیری یادگاربنادیں گے۔‘‘

    خواص خاں نے گزارش کی، ’’خداآپ کی زبان مبارک کرے۔ میں جواپنے ہاتھ سے کرجاؤں۔ وہی اچھا ہے۔ پھرنہیں معلوم یہاں میرا رہناہویا نہ ہو۔‘‘

    رانی نے اپنے سرداروں سے مشورہ کیا۔ انہوں نے کہاکہ کیا نقصان ہے۔ اپنے دیس میں ایک گاؤں اوربڑھ جائے گا۔ چنانچہ رانی نے خواص خاں کی درخواست منظورکرلی۔ اوروہ نیک مردخواص پوربساکر سمبت ۱۶۰۰میں وہاں سے چل دیا۔ 

    راؤجی کی وفات
    سمبت ۱۶۰۲میں شیرشاہ اس دارفانی سے سدھارا۔ اس نے سلطنت کا انصرام بڑی خوبی سے کیاتھا اوراس کی انصاف پسندی ہندوستان کی تاریخ میں ہمیشہ یادرہے گی۔ راجہ ٹوڈرمل اسی بادشاہ کے دربارمیں پہلے نوکر ہواتھا۔ اور وہ آئینِ لگان جواکبرکے نام سے منسوب ہیں اسی بادشاہ کی تدبیر کے نتیجے ہیں۔ 

    شیرشاہ کی وفات کی خبرپھیلتے ہی راؤجی کے راجپوت ادھرادھرسے خواص خاں پرحملے کرنے لگے۔ وہ بھی کچھ دنوں تک ان کا بڑی جواں مردی سے سامنا کرتارہا۔ آخر کار جودھپور کی بازارمیں ماراگیا۔ روٹھی رانی کی ہدایت سے اس نے جودھپور والوں کے ساتھ بہت اچھا برتاؤ کیاتھا۔ اسلئے وہ لوگ اس کی لاش کوبڑی عزت سے خواص پور لے گئے۔ وہاں اس کا ایک مقبرہ بنوایا۔ اس کے نام کا گاؤں بسایا۔ باغ لگوایا۔ ایک اوریادگاری قبرجودھپور میں بنوائی۔ دونوں جگہ اس کی قبرپرمنتیں چڑھنے لگیں۔ ہندومسلمان دونوں آج تک وہاں چڑھاوے چڑھاتے ہیں۔ فاتحہ پڑھتے ہیں اوراس کا نام عزت سے لیتے ہیں۔ یہ سب اس کی نیکی کاپھل ہے جو بہت کم بادشاہوں کومیسرہواہے۔ 

    راؤجی بھی سیوانے سے راستہ کے افغانی تھانوں کواٹھاتے ہوئےلڑتے بھڑتے جودھپورپہنچ گئے۔ اورپھر سے جودھپورمیں راٹھوروں کاراج ہوا۔ اس کے ساتھ ہی خانگی جھگڑے بھی شروع ہوئے۔ جن کا باعث جھالی رانی سروپ دیئی تھی۔ 

    راؤجی کابڑا بیٹا کماررام رانی لاچھل دیئی کچھواہی سے پیدا ہواتھا۔ وہ زیادہ تر روٹھی رانی کے پاس رہاکرتا تھا۔ اس سے چھوٹا رائے مل جھالی رانی ہیرا دیئی سے تھا اور اودے سنگھ اورچندرسین رانی سروپ دیئی سے تھے۔ ہیرادیئی اورسروپ دیئی دونوں چچیری بہنیں تھیں۔ وہ اپنے اپنے بیٹوں کے فائدے کے خیال سے راؤجی کوکماررام کی طرف سے جھوٹی سچی باتیں بنابناکر بدظن کیا کرتی تھیں۔ رام بھی راؤجی کواپنی طرف سے کھنچادیکھ کر کھنچارہتاتھا۔ اوراراکینِ سلطنت راؤجی کی تلونِ طبعی وکمزوری کودیکھ کر رام کوبھڑکاتے رہتے تھے۔ 

    ماڑوار کے امیرگھرانوں میں مردوں کے لئے داڑھی ترشوانے اورعورتوں کے لئےہاتھی دانت کاچوڑا پہننےکے دوبڑی خوشی کے موقع ہیں۔ ان تقریبوں میں خوب محفلیں آراستہ ہوتی ہیں۔ خوب دعوتیں کھلائی جاتی ہیں۔ رام سمبت ۱۶۰۴ میں سولہ برس کاہوگیا۔ اس کے تھوڑی تھوڑی داڑھی موچھیں بھی نکل آئیں۔ داڑھی جب تک ٹھڈی کے اوپر بیچ میں سے نہیں تراشی جاتی اس وقت تک ہندومسلمان میں کوئی امتیازی علامت نہیں رہتی۔ گویا ہندواورمسلمان داڑھی کی ہی پہچان ہے۔ 

    رانی لاچھل دیئی نے اپنے بیٹے کماررام کی داڑھی چھٹوانے کاسامان کرکے راؤ جی سے اس رسم کے ادا کرنے اورجشن منانے کی اجازت مانگی۔ انہوں نے منظورکرلیا۔ مگرچونکہ جودھپورمیں بہت گرمی تھی اس لئے رام کی تجویز ہوئی کہ منڈور میں جاکرخوشیاں منائے جودلکش باغوں اور نظاروں سے بھرا ہواہے۔ اس بہانہ سے وہ منڈورچلا آیااور یہاں اپنے دوستوں اورمعاونوں اوررازداروں کوجمع کرکے بولا کہ راؤجی ضعیف ہوگئے ہیں۔ ان کی بدانتظامی سے ملک میں جھگڑے مچے ہوئےہیں۔ اپنے عزیزلوگ روزبروز دشمنوں سے ملتے جلتے ہیں۔ پس آج یہاں سے چلتے ہیں انہیں پکرلو اور قیدکردوتاکہ ملک میں امن وامان ہوجائے۔ یہاں یہ صلاح ہوتی ہی رہی ادھر راؤجی کوبھی اس کی خبرلگ گئی۔ انہوں نے جھٹ پٹ کچھواہی رانی لاچھل دیئی کی ڈیوڑھی پرپالکی بھجوادی۔ اورکہلایاکہ ابھی قلعہ سے نیچے آجاؤ۔ رانی نے پوچھا میری خطا؟ جواب ملا کہ تیرابیٹاتجھ سے بتلادے گا۔ رانی کو اسی دم قلعہ چھوڑناپڑا۔ شام کورام بھی نشہ نخوت میں جھومتاہوا آیااور قلعہ میں جانے لگا۔ توقلعہ دار نے کہا آپ کو اندرجانے کاحکم نہیں ہے۔ رام نے کہاجاکر راؤجی سے پوچھومیں نے کیا خطا کی ہے۔ انہوں نے جواب دیاتم ناخلف ہو۔ اورقلعہ میں رہنے کے قابل نہیں۔ بہترہے تم گونڈوج چلے جاؤ۔ وہیں تمہارے لئے سب انتظام کردیاجائے گا۔ مجبوراً رام اپنی ماں کے ساتھ گونڈوج چلا گیا۔ جہاں رانیوں نے جب یہ کام اپنی مرضی کے مطابق کرالیا تواب روٹھی رانی کے درپے ہوئیں۔ کہ کسی طرح یہ سل چھاتی پرسے سرک جاتی توپھر کسی بات کاکھٹکانہ رہتا۔ ہمارے ہاتھ میں راؤجی ہیں ہی جوچاہتے کرتے۔ چنانچہ راؤ جی کے کان بھرنے لگیں کہ روٹھی رانی ہی کے اشارے سے رام ایسانافرمانبرداراور مفسددپردازہوگیاہے۔ رانیوں کے ایما سے اورلوگوں نے بھی روٹھی رانی کی شکایت کی۔ یہاں تک کہ راؤجی نے اسے بھی گونڈوج بھیج دیا۔ اب کی بار شوہر کاحکم اس نے بڑے شوق سے مانا۔ کیوں کہ کچھواہی رانی اوررام کمار سے اس کوبہت محبت ہوگئی تھی۔ اس کے علاوہ راؤ جی کواتنی تشویشوں میں مبتلادیکھ کر انہیں دق کرنامناسب نہ سمجھتی تھی۔ جس دن اس کے گونڈوج جانے کی خبر رنواس میں پہنچی اس کے سوتوں کے گھرگھی کے چراغ جلے۔ 

    کمار رام کی شادی رانااودے سنگھ کی لڑکی سے ہوئی تھی۔ گونڈوج میں اپنانباہ نہ دیکھ کر وہ اودے پورچلا گیا۔ رانا نے اس کی بڑی خاطر مدارات کی۔ اورموضع کیلوہ اس کے قیام کے لئے دیا جوماڑوار سے بہت نزدیک ہے۔ تھوڑے دنوں میں رام اپنی ماں اور امادیئی دونوں کواسی جگہ لے گیا۔ اس طرح جھالی رانیوں کے آنکھ کا کانٹا نکل گیا۔ راؤجی بھی اندرونی اورخارجی ترددات سے فرصت پاکر تسخیرِممالک میں مصروف ہوگئے۔ اوربہت سے کھوئے ہوئے علاقے پھرلے لئے۔ بلکہ کئی نئے علاقے بھی فتح کئے۔ 

    مگرفتوحات کاسلسلہ بہت جلدٹوٹ گیا۔ اکبرکے تخت پرآنے اورزورپکڑنے سے راؤجی کواپنی ہی پگڑی سنبھالنی دشوار ہوگئی۔ رفتہ رفتہ کتنے ہی علاقے ہاتھ سے نکل گئے۔ جوان بخت بادشاہ کے پرجوش یلغاروں کابوڑھا راؤ کیا سامنا کرتا اس کی زندگی کے دن بھی پورے ہوگئے تھے۔ آخرسمبت ۱۶۱۹ کے کاتک مہینہ میں راؤمالدیو نے بڑی کامیابی سے سلطنت کرنے کے بعد جنت کی راہ لی۔ 

    روٹھی رانی کاستی ہونا
    رانیاں ستی ہونے کی تیاریاں کرنے لگیں۔ جھالارانی کواس کے بیٹے چندرسین نے ستی ہونے سے روک لیا۔ اورکہاکہ دوچاردن میں سب سردار باہرسے آجائیں گے ان سے میری اعانت کرنے کاوعدہ کراکے تب ستی ہونا۔ جھالی رانی نے چندرسین کوباوجود اودے سنگھ سے چھوٹےہونے کے راؤجی سے کہہ سن کر ولی عہد بنوادیاتھا۔ رانی ہیرادیئی نے بھی سمجھایا کہ چندرسین کواس طرح چھوڑکرستی ہونے میں بہت نقصان ہوگا۔ آخررانی سروپ دیئی ٹھہرگئی۔ اس وقت ستی نہ ہوئی۔ دوسری رانیاں خواصین۔ رکھیلیاں جوشمارمیں اکیس تھیں راؤجی کے لاش کے ساتھ جل مریں۔ 

    راؤجی کے مرنے کی خبربہت جلدسارے دیس میں پھیل گئی۔ ان کے بڑے بڑے سرداراپنے سرمنڈواکر جودھپور میں آنے لگے۔ رانی سروپ دیئی نے وفات کے پانچویں دن سب سرداروں کو اکٹھاکیااور ان سے کہا کہ راؤجی نے میرے بیٹے چندرسین کواپنے ہاتھ سے ولی عہدبنایاتھا۔ اب میں آپ کے ہاتھوں میں فیصلہ چھوڑکرستی ہوتی ہوں۔ سرداروں نے یک زبان ہوکرکہاکہ چندرسین ہمارے راؤ ہیں اورہم ان کے چاکر۔ 

    اس جھمیلے میں اورکئی دن کی دیرہوگئی۔ رانی روزستی ہونے کی تیاری کرتی مگر ایک نہ ایک ایسا سبب پیدا ہوجاتا جس سے اسے رکناپڑتا۔ آخر اسے غصہ آگیا بیٹے سے جھلاکر بولی۔ تونے اپنے راج کے لئے مجھے راؤ جی کے ساتھ جانے سے روک لیا اورابھی تک تو خودغرضی کی دھن میں میرے پیچھے پڑا ہوا ہے۔ مگرجس راج کے لئے میرا دھرم تونے توڑا اس راج سے تویاتیری اولاد کوئی فائدہ نہ اٹھاسکے گی۔ یہ بددعا دے کررانی سروپ دیئی نے چتابنوائی اور راؤجی کی پگڑی کے ساتھ ستی ہوگئی۔ 

    دوسری پگڑی وفات کے تیسرے ہی دن کیلوہ میں پہنچی جہاں کچھوائی رانی اورامادیئی کماررام کے ساتھ رہتی تھیں۔ اس پگڑی کودیکھتے ہی روٹھی رانی نے اسی وقت اپنی ٹیک چھوڑدی۔ اس کاساراگھمنڈ دورہوگیا۔ روکر کہنے لگی اب کس سے روٹھوں گی۔ جس سے روٹھی تھی وہی اب نہ رہاتوجی کرکیاکروں گی۔ اس نے میری مان رکھ لی۔ اس نے میراگھمنڈ نباہ دیا۔ اب میں کس کے لئے جیوں۔ میری چتا ابھی بنواؤ۔ میں راؤجی کا ساتھ نہ چھوڑوں گی۔ ادھرلاچھل دیئی بھی ستی ہونے کی تیاری کرنے لگی۔ مگراس کابیٹارام اپنے باپ کاجانشیں بننے کی دھن میں ماں کے ستی ہونے تک نہ ٹھہرا۔ اودےپورچل دیا۔ اس کی یہ عجلت اوربے ادبی ماں کو بہت ناگوار گزری۔ کفِ افسوس مل کربولی۔ رام! تیرے لئے ہمیں جودھپورچھوڑ کر یہاں دن کاٹنے پڑے اورتوہمیں اس طرح چھوڑکر بھاگاجاتاہے۔ جا! اگرمیری زبان میں کچھ اثرہے تو تجھے کبھی ماڑوار میں رہنا نصیب نہ ہوگا۔ تویاتو تیری اولادکبھی ماڑوار کاراج نہ کرے گی۔ ہمیشہ دوسرے ملکوں کی خاک چھانتی پھرے گی۔ 

    چتاتیارہوتے ہی یہ خبردوردور تک پھیل گئی کہ روٹھی رانی بھی راؤ جی کی پگڑی کے ساتھ ستی ہوتی ہے۔ چارچارپانچ پانچ کوس سے لوگ اس ستی کادرشن کرنے کے لئے دوڑے۔ سب ہاتھ جوڑکر کہتے تھے کہ ستی ماتا! تجھے آفریں ہے۔ سچی ستی اس کلجگ میں توہی ہے۔ دھن ہے تجھ کو اورتیرے ماں باپ کو۔ دھن ہے اس دیس میواڑ کوجسے توستی ہوکرپاک کررہی ہے۔ لاچھل دیئی! تجھے بھی دھن ہے تم دونوں عصمت کی دیویاں ہو۔ تمہیں ہمارا پرنام ہے۔ 

    چتاتیارہوگئی۔ باجے بجنے لگے۔ دونوں رانیاں یادونوں دیویاں گھوڑے پر سوار ہوکر بازاروں سے نکلیں۔ جوق کے جوق لوگ دیکھنے کوپھٹےپڑتے تھے۔ روپے، زیور اورجواہرات لٹائے جارہے تھے۔ چتا پر پہنچ کر دونوں آمنے سامنے ہوئیں۔ اورشوہر کی پگڑی بیچ میں رکھ لی۔ آگ دینے والا کوئی نہ تھا۔ سب لوگ کھڑے دیکھ رہے تھے۔ فرطِ ادب سے کسی کے منھ سے آوازبھی نہ نکلتی تھی۔ روٹھی رانی کا چہرہ چاند ساچمک رہاتھا۔ یکایک کماررام کی بے غیرتی کا خیال آتے ہی سرخ ہوگیا۔ اس کے دھڑکتے ہوئے دل سے، نازک زبان کو جھلساتے ہوئے، یہ کلمے نکلے، ’’میں تواپنے شوہر سے روٹھ کر آئی سو آئی۔ پرکوئی دوسری عورت اس طرح سوت کے بیٹے کا ساتھ کبھی نہ دے۔‘‘ لاچھل دیئی اس کایہ جلال دیکھ کر ڈری کہ کہیں میرے بیٹے کو کوئی سخت بددعانہ دے دے۔ خودبیچ میں بول اٹھی تاکہ روٹھی رانی خاموش ہوجاوے۔ ’’بائی جی! اس ناخلف نے سگی ماں کاتو کچھ خیال ہی نہ کیا۔ اورکیا کرتا۔ وہ ذرادیرٹھہرجاتا توہمیں راؤجی کے ساتھ جانے میں اتنی تاخیر نہ ہوتی۔ اس کوروکتا کون تھا۔ آگ دے دیتاتو چلاجاتا۔‘‘

    شوہرکا پیار انام سن کر امادیئی کوجوش آگیا۔ شوہرکی سچی محبت، سچا عشق اس پرچھاگیا۔ اس وقت اس کی نگاہ جس پرپڑتی تھی وہ متوالاہوجاتاتھا کسی نے کیا خوب کہا ہے، 

    تین چھکے بینا چھکے۔ چھکے ادھر مسکارے
    چھکی درشت جاپر پڑے۔ روم روم چھک جائے

    یعنی آنکھیں، باتیں اورتبسم کرنے والے ہونٹ سب نشہ میں مست ہیں اورمست نگاہیں جس پرپڑتی ہیں اس کارویاں رویاں مست ہوجاتا ہے۔ 

    پھرروٹھی رانی نے ذرا سنبھل کرکہا، ’’دیکھویہاں کوئی راٹھور تونہیں ہے؟‘‘ حسن اتفاق سے جیت مالوت نام کاایک کنگال راٹھورملا۔ وہ ڈرتا ڈرتا آیا اور ہاتھ جوڑکر بولا، ’’ستی ماتا! مجھ پردیا کیجئے۔ میں توبھوکوں سے تنگ ہوکرچھوڑآیا ہوں اور میواڑ میں محنت مشقت کرکے پیٹ پالتا ہوں۔ میں چتا میں آگ دینے کے قابل نہیں ہوں۔‘‘

    امادیئی نے کہاکہ ’’ٹھاکرڈرومت! اشنان کرکے چتا میں آگ دے دو۔ تم راٹھور بنس سے ہو۔ اس لئے تمہیں بلایاہے۔‘‘

    اس نے پھرعرض کی، ’’ستی ماتا! آگ تو میں دوں گا۔ پرماتمی فرش بچھاکر بارہ دن کہاں بیٹھوں گا۔ میراتوگھربھی اتنا بڑانہیں ہے کہ جودھپور کی رانی کو داہ کرکے اس میں ماتم کرسکوں۔ میں توپیڑوں کے تلے، تاروں کی چھاؤں میں رات کاٹا کرتا ہوں۔‘‘

    امادیئی نے یہ سن کر منشی کواشارہ کیا۔ اس نے اسی دم راناجی کے نام ستیوں کی طرف سے خط لکھا کہ رام ہم کو بغیرستی کئے چلا گیاہے آپ یہ کیلوہ گاؤں اس سے چھین کر جیت مالوت راٹھورکودے دیں۔ اس طرح ستی نے دس ہزارنفع کا گاؤں اس غریب راٹھور کودلادیا۔ 

    جیت مالوت نے چٹھی ہاتھ میں لی۔ اورفوراً نہا دھوکرچتا میں آگ دے دی۔ دم کی دم میں وہاں ایک تودہ خاکستر کے سوا کوئی نشان نہ باقی رہا۔ گھڑی دو گھڑی میں ہوا نے راکھ کے ریزوں کو ادھرادھر منتشرکرکے اوربھی قصہ تمام کردیا، 

    تاسحر وہ بھی نہ چھوڑی تونے او بادِصبا
    یادگار ِرونقِ محفل تھی پروانے کی خاک

    مگرخاک نہ رہی توکیا۔ روٹھی رانی کانام ابھی تک چلاجاتاہے۔ لوگ ابھی تک اس کے نام کی تعطیم کرتے ہیں۔ اس طرح شادی کے ستائیس برس بعدامادیئی کا مان ٹوٹا۔ اورمان کے ساتھ زندگی کا پیالہ بھی ٹوٹ گیا۔ 

    ’’امادیئی بھٹانی! تجھے دھنہ ہے۔ جب تک توزندہ رہی تونے اپنی آن نباہی۔ اورمری بھی توآن کے ساتھ مری۔ توبمان پرچڑھ کرجا۔ فرشتے ہاتھوں میں پھول لئے تیری انتظار میں کھڑے ہیں کہ تجھے دیکھیں اور پھولوں کی برکھاکریں۔ اے پاک دیوی! جا! عصمت اورعفت تجھ پرنثارہونے کو تیارہیں۔ اورتیرا پیاراشوہر جس کے نام پرتونے جان دی آنکھیں فرشِ راہ کئے تیرا منتظرہے۔‘‘

    امادیئی بھٹانی کے ستی ہونے کی خبر جب جودھپور پہنچی تو لوگ آفریں کرنے لگے۔ قائم رہے وہ بھاٹی بنس جس میں ایسی ایسی راج کماریاں پیدا ہوتی ہیں۔ شوہر سے روٹھنے پربھی جن کی چادرعصمت پرکوئی دھبہ نہیں لگتا۔ جس سے روٹھتی ہیں اسی کے قدموں پراپنے کونچھاور کردیتی ہیں۔ ایسا روٹھنا کہیں کس نے دیکھا ہے؟ 

    راؤجی کے انتقال کے بارہویں دن جیت مالوت کےلئے جودھپور سے پگڑی آئی۔ اس نے سب کریاکرم کرکے پگڑی باندھی۔ پھر اودے پور جاکروہ چٹھی رانا اودے سنگھ کودی۔ انہوں نے چٹھی پڑھ کر فرط ِتعظیم سے اسے سرپررکھ لیا۔ اورکیلوہ کاپٹہ اس کے نام لکھادیا۔ اس نے لوٹ کر اس گاؤں پراپنا قبضہ کرلیا اورجہاں روٹھی رانی ستی ہوئی تھی وہاں ایک پختہ چھتری بنوادی تھی جس کا نشان ابھی تک موجود ہے۔ روٹھی رانی کی سفارش سے جس طرح جیت مالوت کوکیلوہ مل گیااسی طرح اس کی بددعا بھی بے اثرنہ ہوئی۔ کماررام کوجودھپور کی گدی پربیٹھنا نہ نصیب ہوا۔ اودے سنگھ اوراکبر کی متفقہ کوششیں بھی اسے وہاں کاراج دلانے میں ناکام رہیں۔ اسی ناکامی سے وہ کچھ دنوں جلاوطنی کی مصیبتیں جھیل کر آخرکارمرگیا۔ اوراپنے ارمان اپنے ساتھ لیتا گیا۔ اس کے پوتے کیشوداس کوجواکبر اورجہانگیر کے تذکروں میں کیشوناردکے نام سے مشہورہے۔ الوہ میں ایک چھوٹی سی جاگیرملی تھی۔ جس کا نام امجھیراتھا مگر ۱۸۵۷کے غدرمیں یہ بھی ضبط ہوگئی۔ 

    جھالی رانی سروپ دیئی کی بددعابھی آخرکار رنگ لائی۔ اس وقت توچندرسین جودھپور کاراؤ ہوگیاتھا۔ مگربعد کوجب اکبر نے راؤمالدیو کے مرنے کی خبر پاکر مارواڑ پرفوجیں بھیجیں توکماررام رائے مل اوراودے سنگھ تینوں راج کمارشاہی فوج سے آملے جس کا نتیجہ یہ ہواکہ سمبت ۱۶۲۲ بکرمی میں چندرسین نے جودھپورخالی کردیا۔ اکبر نے اس ملک کو سولہ برس تک اپنے تصرف میں رکھ کر سمبت ۱۶۴۰ میں اسے اودے سنگھ کے حوالے کردیا۔ اس کی اولادیں اب تک جودھپور کاراج کرتی ہیں۔ چندرسین کے پوتے کرم سین کوجہانگیر نے اجمیر کے علاقہ میں بھنائے کاپرگنہ دیاتھا۔ اس کی اولاداب تک وہاں ہے۔ اس طرح روٹھی رانی کی کہانی پوری ہوئی۔ وہ نہیں ہے۔ مگراس کا نام آج ساڑھے تین سوسال گزرجانے پر بھی جوں کاتوں بناہواہے۔ 

    اڑوارکے کبیشروں نے امادیوی کی تعریف میں جوطبع آزمائیاں کی ہیں وہ ایسی پراثر اورپردردہیں کہ انہیں پڑھ کرآج بھی رقت آتی ہے۔ اوردل امنڈآتا ہے۔ اگرچہ اس وقت ستی ہونے کارسم نہیں ہے۔ مگران نظموں اورگیتوں کوپڑھ کر اس وقت کاحسرت ناک نظارہ آنکھوں کے سامنے آجاتاہے۔ آساجی چارن جس نے ایک دوہا پڑھ کر امادیوی کوہمیشہ کے لئے شوہر سے الگ کردیاتھا اس وقت ایک موضع میں بہاریلی اوربھاگھاکے ساتھ رہتا تھا۔ جب اس نے روٹھی رانی کے ستی ہونے کی خبرپائی تو بولا، ’’اے امادیوی! تجھے دھنہ ہے۔ تونے کہاتھا جب آخردم تک میرا مان رہ جائے تب تعریف کرنا۔ جیساتو نے کہا تھا کردکھایا۔ تیری ہمت وحمیت کوہزار آفریں ہے۔‘‘

    آساجی نے اسی وقت چودہ بندوں کی ایک نظم لکھی۔ اوراس کی نقلیں سارے راجپوتانہ میں بھجوائیں۔ کیونکہ اس نے وعدہ کیاتھا کہ اگرمیں تمہارے بعدتک زندہ رہا تو تمہارے نام کوزندہ جاویدبناجاؤں گا۔ بات کےپکے نے وعدہ وفاکیا۔ 

    یہ اشعارآج تک مارواڑ میں بچہ بچہ کی زبان پرہیں۔ اورجب تک ان شعروں کے پڑھنے والے باقی رہیں گے روٹھی رانی کانام روشن رہے گا۔ 

    (ماخوذ وترجمہ ازہندی)
    زمانہ اگست ۱۹۰۷

     

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے