Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ساجو کی ماں کی۔۔۔

ظہیر عباس

ساجو کی ماں کی۔۔۔

ظہیر عباس

MORE BYظہیر عباس

    میرا ننیہال اور سابقہ گاؤں بی آربی نہر کے کنارے واقع ہے۔ لاہور سے نارروال،شکرگڑھ کی طرف جائیں تو کالی صوبہ اور قلعہ کالر والا کے درمیان مانگا پل کا سٹاپ ہے جو نہر کے عین کنارے پر ہے۔پانی کا رخ مشرق کی طرف ہے اگرنہرکے دائیں کنارے کے ساتھ ایک میل تک چلتے چلے جائیں تو ایک دوسرا پل آتا ہے جو کچاپل کے نام سے مشہور ہے۔وہاں دو تین جامن کے درخت ہیں۔ درختوں کے سائے میں ایک چھوٹی سی بغیر چھت کے مسجد ہے۔ ساتھ ہی ایک نلکا ہے جس کا پانی مبالغہ کی حد تک ٹھنڈا اور میٹھا ہے۔ وہاں سے جنوب کے رخ تقریباً ایک کلو میٹر کے فاصلے پر کھیتوں کے درمیان رینگتی ہوئی کچی سڑک جہاں ختم ہوتی ہے، جاتری کے نامی گاؤں کی حدوہاں سے شروع ہوتی ہے۔ گاؤں کی مٹی بہت چکنی اور سخت ہے گرمیوں میں دھول اڑاتی ہے اور بارشوں میں تو صورت حال بہت دلچسپ ہوجاتی ہے۔کمزورو ں کے لیے دوقدم چلنا محال ہو جاتاہے مٹی پاؤں جکڑ لیتی ہے آدمی سنبھل سنبھل کے گرتا ہے۔اور ہمت والے اپنے پیروں سے چمٹاکر حسب ضرورت اپنے گھروں کو بھی لے جا سکتے ہیں ۔میرا بچپن اسی مٹی میں لوٹ پوٹ ہوتے، رینگتے ،لڑکھڑاتے اور گرتے سنبھلتے گزرا ہے۔

    ستر کی دہائی کے آخری سالوں کی بات ہے ۔یہ وہ زمانہ تھا جب پڑھنے لکھنے کی وبا دیہی علاقوں میں نہ ہونے کے برابر تھی ۔کوئی اکا دکا پڑھنے والا ڈھونڈے سے کہیں ملتا تھا۔ جو ملتا وہ بھی پرائمری یا مڈل سے زیادہ نہ ہوتا۔میں اور میرے علاوہ دو اور خوش نصیب ایسے تھے جو اس زمانے میں یونیورسٹی تک پہنچے۔ہم میں سے جو بھی چھٹیوں میں گھر آتا، اس کی غیر معمولی آؤ بھگت کی جاتی۔کوئی باؤکہتا، کوئی ماسٹر، کوئی نواب کہتا ۔ہمیں رشک کی نگاہ سے دیکھا جاتا۔ گاؤں میں شدت سے ہمارا انتظار ہوتا کوئی بیمار پڑ جاتا، کوئی چٹھی پڑھنی ہوتی ، تھانے کچہری کاکوئی کام ہوتا، شادی بیاہ پہ نیوتا کی تفصیل لکھنی ہوتی یا اس طرح کا کوئی اور معاملہ ہوتا تو خاص طور پر ہماری خدمات حاصل کی جاتیں۔شروع میں تو احساس تفاخر سے سینہ پھول جاتا کہ ہم کتنے پڑھے لکھے ہیں اور ضروری ہیں۔اگر ہم نہ ہوتے تو بیچارے لوگوں کا گزارا کیسے ہوتا۔ لیکن بہت جلد یہ خوبصورت احساس اپنی موت آپ مر گیا۔ صبح سے شام تک گاؤں والے بڑی بے دردی سے جہاں دل کرتا ساتھ لیے پھرتے۔ رات جب تھکن سے چور ہو کر بستر پر گرتے تو خود پر بہت غصہ آتا۔ جلتی پر نمک اماں ابے کے وہ سوالات چھڑکتے جب وہ سارے دن کی کارروائی کے بارے میں کرید کرید کر پوچھتے۔ میں توجتنے دن وہاں رہتا ہوش ٹھکانے آ جاتے، لاہور واپس آکر شکرانے کے دو نفل ادا کرتا۔

    گندم پک کر تیار ہو چکی تھی، گندم اور چاول کی کٹائی کے وقت مجھے ہر صورت گھر پہنچنا ہوتا تھا۔اپنی فصل کے ساتھ ساتھ عزیز و اقارب کی فصل کا حساب کتاب بھی مجھے ہی کرنا ہوتا تھا۔ ہماری زمین فصل بہت فراخ دلی سے اگلتی ہے۔ زمیندار بھی زمینوں کی طرح عالی حوصلہ ہیں۔ ان کے ساتھ ساتھ ماڑے دگڑے لوگوں کے بھی وارے نیارے ہو جاتے ہیں۔ کٹائی کا وقت جوں جوں قریب آتا ہے، خانہ بدوشوں کی کئی ٹولیاں گاؤ ں کے گردا گرد اپنا عارضی شہرآباد کر لیتی ہیں۔ مرد سارا دن کھیتوں میں دانے دانے کی تلاش میں، اس زمیندار کی خوشامد، تو کبھی اس کی شان میں قصیدہ سرائی کرتے، جواب میں زمیندار بھی ان سے خوش دلی سے ہنسی ٹھٹھول کرتے۔شام جب لوٹتے تو فصل کے وزن تلے لڑکھڑاتے، ڈگمگاتے ہوئے چلتے لیکن ان کے چہرے مسرت سے تمتما رہے ہوتے۔ ان کی عورتیں صبح شام لوگوں کے گھروں سے راشن پانی جمع کرتیں، بچے منہ اندھیرے خالی بوریاں کاندھوں پہ دھرے شام تک گندگی کے ڈھیروں سے کھانے کی اشیا کریدتے پھرتے۔گلے سڑے پھل، ماس لگی ہڈیاں، کاغذ اور پتہ نہیں کیا کیا کچھ اکٹھا کر کے جھگیوں کی طرف لوٹتے۔

    اس روز جب لوگ کام کاج نپٹا کر گھروں کو لوٹ رہے تھے ،سب نے عجیب منظر دیکھا۔ ایک بہت بڑی اور چمکیلی گاڑی کچے پل سے دھول اڑاتی ہوئی اتری اور پلک جھپکتے میں خانہ بدوشوں کی ایک جھونپڑی کے پاس آ کر رک گئی۔ گاؤں والوں میں سے کوئی اتنا کھاتا پیتا نہیں تھا کہ وہ کوئی عام سی گاڑی بھی رکھ سکتا۔ کسی کے کسی عزیز کے پاس بھی کوئی گاڑی نہیں تھی۔ سب کے لیے یہ نظارہ بہت حیران کن تھا۔ تمام لوگ تجسس اور رشک سے گاڑی کی طرف دیکھ رہے تھے۔ نامحسوس طریقے سے لوگ وہاں اکٹھے ہونا شروع ہو گئے۔چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں، گاڑی والے کون لوگ ہیں؟ ان کا معمولی خانہ بدوشوں سے کیا لینا دینا؟ ابھی سوالات کے کیڑوں نے دماغوں میں کلبلانا شروع ہی کیا تھا کہ جھونپڑوں کی طرف سے چیخم دھاڑ اور رونے کرلانے کی شدید اور زوردار آوازیں آنا شروع ہو گئیں۔ جس طرح اچانک ہو جانے والے حادثے کے ردعمل پر پہلے تو لوگ ٹھٹھک کر رک جاتے ہیں، پھر دوڑ کر سارے ایک دم جائے وقوعہ پر جا پہنچتے ہیں۔ یہاں بھی ایسا کچھ ہی ہوا۔صورت حال کسی کی سمجھ میں نہیں آرہی تھی۔ خانہ بدوشوں کا ایک لڑکا جس کی عمر آٹھ نو سال کے قریب تھی، بھاگ بھاگ کر گاڑی میں داخل ہونے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس کا تقریبا ہم عمرگاڑی سے نکل کر خانہ بدوشوں کے جھونپڑے میں گھسنے کے درپے تھا۔ بہت مہنگے اور نفیس سوٹ میں ملبوس ایک درمیانی عمر کا شخص ایک لڑکے کو بھاگنے سے اور خانہ بدوش بچے کو گاڑی میں داخل ہونے سے روکنے کی کوشش کر رہا تھا۔ لڑکے کے خدوخال سے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں تھا کہ وہ اس شخص کا بیٹا ہے۔ لڑکا جو نفاست میں اپنے باپ سے کسی طور کم نہیں تھا، ٹھیٹ پنجابی زبان میں اپنے باپ کو نہ صرف ماں بہن کی گالیاں دے رہا تھا بلکہ اپنے باپ کو باپ کہنے کی بجائے اس خانہ بدوش کو ابا ابا!! کہہ رہا تھا جس کا اپنا بیٹا گاڑی میں بیٹھنے کے لیے تگ ودو کر رہا تھا۔خانہ بدوش باپ پتھرائی آنکھوں سے یہ سارا منظر دیکھ رہا تھا، اس کا چیتھڑوں میں ملبوس بیٹا انگلش میں باتیں کر رہا تھا اور گاڑی کے مالک کو ڈیڈ ڈیڈ کہہ کر گاڑی بھگا لے جانے کو کہہ رہا تھا۔منہ زور لڑکے قابو میں نہیں آ رہے تھے۔ بالآخرگاڑی سے نکلنے والا لڑکا جھونپڑی میں غائب ہو گیا جبکہ خانہ بدوش بچہ گاڑی میں یوں بیٹھا تھا جیسے پیدا ہی گاڑی میں ہوا ہو۔ دونوں بچوں کے باپ ایک دوسرے کو یوں گھور رہے تھے جیسے بہت پہلے سے جانتے ہوں کہ ایسا ہی ہونا تھا۔ ان کے مضطرب چہروں پر کھیلتے اطمینان سے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں تھا کہ عرصہ سے ان کا سابقہ ایک ناقابل برداشت اذیت سے تھا۔

    کچھ دیر تو سب کے چہروں پر موت کا سکوت طاری رہا، پھر جھونپڑے سے ایک عورت بین کرتی ہوئی نکلی'' مینڈا کاکا مینڈا سا جو ہائے مینڈا کاکا مینڈا سا جو!'' اس نے گاڑی کا دروازہ کھول کر لڑکے کو گاڑی سے نکالنے کی کوشش کی لیکن فلک نے عجیب منظر دیکھا۔ لڑکا گاڑی سے اترا اور اس عورت پر حملہ آور ہو گیا جو چیخ چیخ کر اس کی ماں ہونے کا دعوٰی کر رہی تھی۔ اس نے پیٹ میں لات مار کر اسے نیچے گرایا اور بے رحمی سے زدوکوب کرنا شروع کر دیا۔اس عورت کے شوہر نے مشکل سے اس کی جان چھڑائی ۔''ڈیڈ چلو گھر چلیں۔ ان کتوں کے درمیان ہم کیا کر رہے ہیں ؟''اس نے چیختے ہوئے اس شخص کو مخاطب کیا جو گاڑی کا مالک تھا ۔ہر زبان گنگ تھی ۔سب کے سر چکرا رہے تھے، الہی رشتے ایسے بھی گتھم گتھا ہو سکتے ہیں؟ گتھی کو سلجھانے کے لیے سب نظریں مجھ پر اٹھیں کہ میں اس گاڑی کے مالک سے بات کروں اور پوچھوں کہ کیا ماجرا ہے؟ یہ سب کیا ہو رہا ہے؟ جب سب لوگ مجھ سے یوں مخاطب ہوئے تو اس خانہ بدوش بچے کے باپ کا بھی حوصلہ بڑھا ''سائیں مینڈے کاکے دا کج کرومیں جیندے جی مر ویساں'' اس نے گڑگڑا کر میرے آگے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا۔ میں نے اس کا کندھا تھپتھپاکر اسے حوصلہ دینے کی کوشش کی اگرچہ دوسروں کی طرح سمجھ مجھے بھی کچھ نہیں آ رہا تھا۔

    میں نے باقی لوگوں سے کہا کہ آپ ادھر ہی رکیں ،میں اس سے بات کرتا ہوں۔ وہ کروڑ پتی اس وقت بہت ہی قابل رحم نظر آ رہا تھا۔ میں اسے مجمعے سے ذرا دور لے گیا۔

    ''سر یہ قصہ کیا ہے، آپ کہاں سے تشریف لائے ہیں''؟ میں نے یہ باور کراتے ہوئے کہ اس کی پریشانی کا مجھے پورا احساس ہے، پوچھا۔

    کچھ دیر تو وہ چپ رہا ،پھر مخاطب ہوا ''محترم کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ ہم یہاں یہ بات نہ کریں ؟دراصل اس وقت میرا دماغ منتشر ہے میں تھوڑا پرسکون ہوکر ہی کچھ بتا سکتا ہوں''۔

    ''جیسا آپ چاہیں لیکن ہم کہاں بات کر سکتے ہیں؟''

    ''کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ ایک روز کے لیے آپ میرے مہمان بنیں، میں لاہور کا رہنے والاہوں، آپ کو واپس اسی جگہ چھوڑ جاؤں گا'' اس نے یوں التجا کی جیسے جلد ازجلد یہاں سے نکلنا چاہتا ہواور اس معاملے میں میری مدد کا طلبگار ہو۔

    ''ٹھیک ہے میں ذرا مشاورت کر لوں، آپ پرسکون رہیں''۔ سچی بات ہے میں بھی ہجوم کے سامنے اس سے بات نہیں کرنا چاہتا تھا۔

    ساجو کے والدین کو میں نے یقین دلایا کہ میں اس شخص کے ساتھ جا رہا ہوں۔ بہت جلد آپ کا بیٹا واپس لے کے آؤں گا، آپ حوصلہ رکھیں ۔ویسے وہ شخص بھی تو اپنے جگر کا ٹکڑا آپ کو دے کے جا رہا ہے۔ شکر ہے یہ دلیل کارگر ہوئی۔ پھر میں نے گاؤں کے بڑوں کو ساری صورت حال سے آگاہ کیا اور گاڑی میں آن بیٹھا۔ میں بھی بہت جلد اس الجھن سے چھٹکارا پانا چاہتا تھا۔ کسی کار میں بیٹھنے کا یہ میرا پہلا تجربہ تھا۔ انتہائی ملائم اور گداز سیٹ میں تقریبا دھنس جانے کے بعد باہر کھڑے انسان بہت ہیچ اور کمتر محسوس ہوئے۔ اندر کی پراسرار خاموشی اور ان دیکھی خنکی نے چند لمحوں کے لیے مجھے مدہوش کر دیا۔ بڑی مشکل سے میں نے اپنے آپ کو سنبھالا۔ کچے پل سے مڑتے ہوئے میں نے پلٹ کر گاؤں کی طرف دیکھا تو میرے جاننے والے دھول میں ہلتے ہیولوں سے دکھائی دیے۔ اب ہم لاہور کے راستے پر رواں تھے۔ گاڑی میں گھمبیر خاموشی طاری تھی۔ منظر پیچھے کی طرف دوڑے جا رہے تھے۔''ڈیڈی میری سمجھ میں نہیں آرہا ،میں ان کتوں سے بھی بدتر لوگوں میں کیسے آپہنچا؟'' خاموشی کے طلسم کو بچے کے ان الفاظ نے توڑا۔ڈیڈی نے میکانکی انداز میں سر جھٹکا ،پھر وہی بیکراں سناٹا۔ میری حیرت دہشت میں بدلتی جا رہی تھی، کچھ بھی تو واضح نہیں ہو رہا تھا۔ میں اس راستے پر سینکڑوں بار سفر کر چکا تھا لیکن اب کے یوں لگ رہا تھا جیسے یہ میرا پہلا سفرہو۔ راستے میں آنے والے سنگِ میل، سڑک کنارے آتے جاتے انسان، جانور، گھر، دوکانیں، درخت، بس سٹاپ؛ یہ سارے مناظر میں نے آج یوں دیکھے جیسے کوئی پہلی بار دیکھتا ہے۔کتنی دیر میں گاڑی نے کتنا سفر طے کیا، راستے میں کتنے درخت آئے، یہ سب شمار کرتے وقت یوں گزراکہ پلک جھپکتے میں ہم راوی پل پر تھے۔

    ڈھلتی شام میں گاڑی عالیشان گیٹ کے سامنے رکی، فوراً ہی ایک مستعد باوردی دربان نے دروازہ کھولا۔ سامنے روشنیوں سے مزین باغیچہ تھا جس کا رقبہ محتاط اندازے کے مطابق ایکڑ بھر تھا۔ عین درمیان میں فوارے لگے ہوئے، مالی ادھر ادھر اپنے اپنے کاموں میں مصروف، سامنے پر شکوہ عمارت جہاں چار پانچ گاڑیاں کھڑی تھیں۔ گاڑی رکی، لڑکا ہمارے اترنے سے پہلے ہی نکل کر اندر کی طرف بھاگا۔ ایک نوکر نے اسے پکڑنے کی کوشش کی لیکن صاحب نے اسے ہاتھ کے اشارے سے منع کر دیا۔ ''مہمان کو ڈرائینگ روم میں بٹھاؤ'' یہ کہہ کر وہ بھی اندر کی طرف لپکا۔

    ملازم مجھے ڈرائینگ روم میں پہنچاکر چلا گیا۔ ڈرائینگ روم میری توقع کے عین مطابق بہت کشادہ تھا۔دونوں دیواروں کے ساتھ بیس کے قریب بیش قیمت صوفے تھے۔ درمیان میں خالی جگہ پر سبز رنگ کا قالین بچھا ہوا تھا جس پر ایک شیر اورتالاب پر پانی پیتی ہرنی کی تصویر بنی ہوئی تھی۔ ہرنی اپنے دھیان پانی پی رہی تھی اور شیر اس پر نظریں جمائے جست لگانے کو تیار۔میں دروازے کے ساتھ ہی ایک صوفے میں دھنس گیا۔ جھولتے پردوں کی اوٹ میں ڈائیننگ روم تھا۔ دیوارو ں پر مصوری کے اتنے نمونے تھے، کہ لگ رہا تھا جیسے میں کسی آرٹ گیلری میں بیٹھا ہوں۔ ابھی میری نگاہوں نے کمرے کا اور طواف کرنا تھاکہ ملازم ایک نفیس ٹرالی کے ساتھ کمرے میں داخل ہوا۔ اس نے ٹرالی لا کر میری کرسی کے عین سامنے روک دی اور چپ چاپ کمرے سے نکل گیا۔ ٹرالی پر کئی مشروب اور پھل تھے۔ حسب ضرورت میں نے کھایا پیا اور کمرے کا جائزہ لینے میں پھر مشغول ہوگیا۔ میری نگاہ کسی ماہر مصور کی بنی ہوئی ایک تصویر پر رک گئی۔ یہ تصویر ایک پانچ چھ سال کے معصوم بچے کی تھی جو سامنے کہیں گھور رہا تھا۔ اس کے ہونٹوں پر ایک شریر مسکراہٹ کھیل رہی تھی جو اس بات کی غماز تھی کہ اسے پورا احساس ہے کہ اس کی تصویر بن رہی ہے۔ یہ بچہ وہی تھاجسے ہم تھوڑی دیر پہلے گاؤں چھوڑ آئے تھے۔ خیالات نے ایک بار پھر مجھے بند گلی میں دھکیل دیا۔ میں ایک خیال کو جھٹک کر دیوار سے مارتا تو دوسرا دماغ میں آن گھست، ادوسرے کو مارتا تو تیسرا۔۔۔ خبر نہیں یہ سلسلہ کب تک چلتا رہا۔

    اس عذاب سے میری جان تب چھوٹی جب ڈائیننگ کی اوٹ سے بچے کا باپ برآمد ہوا۔ وہ چپ چاپ میرے بالکل ساتھ والی کرسی پر آن بیٹھا۔ وہ بیٹھتے ہی مجھ سے یوں گویا ہوا جیسے خود کو اور مجھے بھی اس الجھن سے نکالنا چاہتا ہو۔ ''میرا اکلوتا بیٹا، میری جائیداد کا وارث۔ کوئی ایک ماہ پہلے جب صبح بیدار ہوا تو اپنے کمرے سے روتا چیختا اور کپڑے پھاڑتا ہوا باہر کی طرف بھاگا۔ نوکر اسے بڑی مشکل سے پکڑ کر واپس لائے۔ اس نے ہم سب کو پہچاننے سے انکار کر دیا۔ جب میں نے اس کے سر پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا کہ'' ارسلان بیٹا کیا ہوا؟ ''تو اس نے غصے سے میرا ہاتھ جھٹک کر گستاخی سے جواب دیا،'' کون ہو تم؟ارسلان کون ہے میں تو ساجو ہوں اور میرے اماں ابا کہاں ہیں؟ ''اس کی یہ بات سن کر میرے قدموں تلے سے زمین نکل گئی۔ ہم لوگ اردو بولنے والے ہیں اور وہ ٹھیٹ پنجابی بول رہا تھا۔ ارسلان تو پنجابی سے بالکل نابلد تھا بلکہ وہ تو انگریزی میں بھی بات کر سکتا تھا۔ اس دن پہلی بار ایسا ہوا کہ وہ اتنی بدتمیزی سے میرے ساتھ بولا حالانکہ ڈیڈ ڈیڈ کرتے اس زبان نہ تھکتی تھی۔ اسی وقت میں اسے اپنے ایک جاننے والے سائیکا ٹرسٹ کے پاس لے گیا۔ وہ کافی دیر اس سے سوال جواب کرتا رہا، اس نے ارسلان سے اس کے ماضی، والدین وغیرہ کے بارے میں سوال کیے لیکن اس کے جوابات بہت حیران کن تھے۔ میرے گھر والوں کے ہر جگہ گھر ہیں۔ ہم جہاں چاہے رہ سکتے ہیں۔ کوئی ہمیں نہیں روک سکتا۔ ابالوگوں سے دانے مانگ کے لاتا ہے۔ اماں گھروں سے روٹیاں اور چاول مانگ کے لاتی ہے اور میں توڑالے کر بھر بھر کے پھل اور سبزیاں اور گوشت لاتا ہوں۔ ساری باتیں چکرا دینے والی تھیں۔ بیٹا میرا تھا مگر پتہ نہیں اس کے اندر کون بول رہا تھا۔ اس کی سمجھ میں کوئی بات نہیں آئی''اپنی نوعیت کا یہ پہلا کیس ہے جو اتنا پیچیدہ ہے کہ جس کا کوئی سرا پکڑائی نہیں دے رہا'' ارسلان سے کافی سوال جواب کرنے کے بعد اس نے ہار مان لی۔

    کوئی ڈاکٹر، حکیم ایسا نہیں ہے جس کے پاس اسے ہم نہ لے کے گئے ہوں لیکن نتیجہ وہی صفر ہی رہا۔ ہم اس کے ماں باپ تھے لیکن وہ ہمارا بیٹا نہیں رہا تھا۔ ڈاکٹروں کے نزدیک وہ دماغی اور جسمانی طور پر بالکل فٹ تھا۔ اس صبح سے آج تک اس نے ہمارے ساتھ ڈائیننگ ٹیبل پر کھانا نہیں کھایا۔ وہ چپ چاپ ہمیں کھاتا دیکھتا رہتا لیکن خود کھانے کو ہاتھ تک نہ لگاتا۔ ہم مجبوراً زہر مار کرتے رہتے۔ وہ موقع پاکر ڈسٹ بن سے بچے کھچے کھانے اور گلے سڑے پھل کھانا زیادہ پسند کرتا اور بھاگ بھاگ کر گھر کے کونوں کھدروں سے گندگی صاف کرتا رہتا۔ اگر اسے کوئی روکنے کی کوشش کرتا تو چیخنا شروع کر دیتا بلکہ اسے گالیاں دیتا۔ اس کی نگاہوں میں شناسائی کی چمک کی جگہ اجنبیت کے کورے پن نے لے لی۔چند دن تو اس نے صرف اس طرح کی حرکتیں ہی کیں لیکن پھر تو باقاعدہ دھاڑیں مار مار کر روتا رہتا کہ مجھے میرے اماں ابا کے پاس لے چلو۔اب اسے کون بتاتا کہ اس کے ماں باپ کوئی اور نہیں ہمیں ہیں۔ سب رشتہ دار اور یار دوست اس مصیبت کی گھڑی میں میرے ساتھ تھے لیکن سوائے ہمدردی کے کچھ کر نہیں سکتے تھے۔ اگرچہ میرا پیروں فقیروں پر کوئی خاص یقین نہیں ہے لیکن مسئلہ بیٹے کی یادداشت کا تھا، سو کوئی جدھر کا راستہ دکھاتا میں نکل کھڑا ہوتا۔ آج صبح میرے مالی نے مجھے بتایا کہ'' صاحب نارروال کے قریب ایک علی پور سیداں نامی گاؤں ہے، وہاں پیر جماعت علی شاہ نامی ایک مشہور بزرگ گزرے ہیں۔ ان کے گدی نشین صاحب کرامت ولی ہیں، ان کے پاس اس طرح کے کئی معاملات گئے ہیں، وہ پلک جھپکتے میں مریض کو ٹھیک کر دیتے ہیں۔ اگر آپ ارسلان کو وہاں لے جائیں گے تو یقیناً اللہ مہربانی کرےگا''۔ میں ارسلان کو اس کے ماں باپ سے ملانے کے بہانے گھر سے لے کر نکل کھڑا ہوا۔

    گاڑی جب مریدکے سے نارروال روڈ کی طرف مڑی تو ارسلان کی طبیعت بگڑنا شروع ہو گئی۔ اس کے چہرے پر ایک رنگ آ رہا تھا، ایک جا رہا تھا۔ جوں جوں ہم آگے بڑھ رہے تھے اس کی حالت غیر ہوتی جا رہی تھی۔ کبھی اس کا چہرہ خوشی سے تمتما اٹھتا تو کبھی اضطراب کے عالم میں سیٹ پر کروٹیں بدلنے لگتا۔ میں اس کے لیے اجنبی ضرور تھا لیکن وہ تو میرا بیٹا ہی تھا۔ میں کتنا مجبور تھا کہ اسے اس کے اس نام سے نہیں بلا سکتا تھا جو میں نے اسے دیا تھا۔ ''ساجو بیٹا کیا بات ہے؟'' میرے اس سوال کے جواب میں اس نے تفاخر سے میری دیکھا اور بولا ''بس اب ہم میرے اماں ابا کے پاس پہنچنے ہی والے ہیں۔ گاڑی تیز چلائیں''۔ جتنے یقین سے وہ کہہ رہا تھا، میرے وجدان نے کہا کہ آج کچھ ضرور ہونے والا ہے۔

    جب ہم بی آ ربی نہرکے قریب پہنچے تو اس نے چیخنا اور رونا شروع کر دیا کہ مجھے اس طرف لے چلو۔ میرے اماں ابا ادھر ہیں۔ جدھر اس نے کہا میں نے گاڑی موڑ لی۔ باقی جو کچھ تماشا ہوا وہ تم سب لوگوں نے بھی دیکھا۔ یہ سب میرے لیے بھی بہت حیران کن اور چکرا دینے والا تھا۔ ''یہاں تک کہہ کر وہ چپ ہوگیا۔‘‘

    رات کا کھانا لگ چکا تھا۔ ہمارے ساتھ اب پرانا ساجو اور نیا ارسلان بھی تھا جو عین میرے سامنے والی میزپر براجما ن تھا، اس خاندان کا اکلوتا وارث۔ اتنے بہت سارے کھانوں کے درمیان مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ میں کیا کھاؤں اور کیسے کھاؤں؟ اس کے کھانے ،بیٹھنے اور بات کرنے کے انداز سے کوئی یقین ہی نہیں کر سکتا تھا کہ اس بچے کی پیدائش اس گھر میں نہیں ہوئی۔ صرف اس کا ڈیل ڈول اور شکل و شباہت اس بات کی چغلی کھاتے تھے کہ یہ کسی اور ہی دنیا کی مخلوق ہے۔ سوچنے کے ساتھ ساتھ میں کھانے میں اس کی نقل بھی کئے جا رہا تھا۔

    صبح جب میں ناشتے کے بعد وہاں سے نکلا تو اس کا باپ مجھے گاڑی میں سٹاپ تک پہنچانے آیا۔ ''ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہم اپنے بیٹے کی واپسی کے لیے ضد نہیں کریں گے۔ جو ہمارے ساتھ ہی نہیں رہنا چاہتا، ہمیں پہچاننے سے انکاری ہے، ظاہر میں ہمارا اور باطن میں ہمارا بیٹا نہیں ہے۔ اسے زبردستی اپنے پاس رکھ کر ہم اس کے ساتھ زیادتی کریں گے۔ ویسے بھی ہم خود کون سا سکھ میں رہ سکیں گے۔ آپ کوشش کر کے ان کو بھی یہی بات سمجھائیں۔ ان سے بے شک یہ کہہ دیں کہ اگر کبھی ہمارے بچے دوبارہ پہلی حالت میں واپس آ جائیں تو ہم بخوشی ان کا تبادلہ کر لیں گے۔ آخر میں ایک درخواست ہے کہ انہیں آپ کبھی ہمارا پتہ نہ بتائیےگا''۔ اس نے اپنا فون نمبر دیتے ہوئے کہا ''یہ میرا نمبر ہے، براہ کرم مجھ سے رابطہ میں رہیےگا۔ مجھے آپ کی ضرورت ہے۔آپ کے فون کرنے پر آپ جہاں بھی ہوں گے میں آپ کے پاس پہنچ جاؤں گا''۔ لاری اڈاچھوڑنے سے پہلے اس نے تقریباً گڑگڑاتے ہوئے کہا، ''بھول نہ جائیےگا''۔

    یہ پہلا اور آخری موقع تھا جب مجھے کسی خانہ بدوش کے جھونپڑے میں جانے کا اتفاق ہوا۔ میرے ساتھ گاؤں کا نمبردار اور دو بزرگ بھی تھے۔چار بچے جو سب لڑکیاں تھیں اورجن کی عمریں ایک سے پانچ سال کے درمیان تھیں الف للا، ننگ دھڑنگ ایک دوسرے سے چھینا جھپٹی کر کے کچھ کھانے کی کوششوں میں مصروف تھے۔ لڑکے کے باپ نے جلدی سے اکلوتی چارپائی سے چادر کھینچ کر ہٹائی اور ہمیں بیٹھنے کو کہا ۔اس کے غمزدہ چہرے پرلمحہ بھر کے لیے شرمندگی کی لہر دوڑ گئی۔ اس کی بیوی چپ چاپ اندر داخل ہوئی، ہمیں دیکھ کر ٹھٹکی، متلاشی نظر دوڑائی اور دھاڑیں مارمار کر رونا شروع کر دیا۔ بچیاں جو ہمیں دیکھ کر ایک کونے میں دبک گئی تھیں، اس کے گرد جا کھڑی ہوئیں۔ وہ خشک روٹی کے ٹکڑے چباتے ہوئے اسے گھورے جا رہی تھیں۔ مرد نے جا کر اپنی عورت کو دلاسا دیا اور دبے لفظوں میں کچھ سمجھایا۔ اگلے ہی لمحے وہ بچیوں کے حصار میں کونے میں بچھی ہوئی بوری پر بیٹھ کر ہولے ہولے سسکیاں لینے لگی۔ وہ ہماری چارپائی کے ساتھ آکر زمین پر ہاتھ جوڑ کر بیٹھ گیا ''سائیں بابا مینڈا کاکا کدھاں ہے۔ تسی تاں وعدہ کر کے ونجے سی اس کوں ول لئی آسو، تساں تے اکلے ای آونجے او۔ ساجو کی ماں کی (اس نے ایک موٹی سی گالی دی)۔۔۔اگر وہ اسے پیدا نہ کرتی تو ہمیں یہ دن دیکھنا نصیب نہ ہوتا'' اس نے بڑی مشکل سے ضبط کرتے ہوئے کہا۔ ایک بزرگ نے اسے دلاسا دیتے ہوئے کہا کہ زیادہ پریشان نہ ہوں ان کا بچہ بھی تو آپ کے پاس ہے ناں ابھی۔ ''میں آپ کو ساری بات بتاتا ہوں کہ وہاں کیا ہوا۔ پہلے آپ ہمیں بتائیں کہ آپ کے بچے کے ساتھ ماجرا کیا پیش آیا، جو آپ کو یہ بدترین دن دیکھنا نصیب ہوا''، میں نے چارپائی سے اٹھ کر اس کے ساتھ بیٹھتے ہوئے پوچھا۔ ایک لمحہ کے لئے اس نے سوچا پھر یوں گویا ہوا جیسے بتائے بغیر چارہ نہ ہو۔

    ''اج توں کوئی اک، آج سے کوئی چار ہفتے پہلے (وہ اپنی مادری زبان میں شروع ہوا) ہمارا ٹھکانہ پسرور کے پاس تھا۔ صبح جب میرا بیٹا سا جو، جس کا نام اس کے نانا بہشتی نے ساجد رکھا تھا بیدار ہوا تو اس نے اٹھتے ہی اپنی بہنوں کو مارنا شروع کر دیا اور اونچی اونچی آواز میں سب کو گالیاں دینے لگا کہ مجھے کون ادھر لے کے آیا۔صاحب وہ ہماری زبان بھی نہیں بول رہا تھا۔ ایسے باتیں کرتا تھا جیسے کوئی انگریز ہو۔ میں نے پاس جا کر اسے سمجھانے کی کوشش کی تو اس نے میرے پیٹ میں بھی ایک دو مکے مارے''۔ اس نے پیٹ کو یوں ہاتھ لگایا جیسے تصدیق کرنا چاہتا ہو، درد کی ایک لہر اس کے چہرے پر دوڑ گئی۔ شور سن کر ساری برادری اکٹھی ہو گئی۔ سب نے یہی کہا کہ اسے سایہ ہو گیا ہے۔ اسے کسی کامل پیر فقیر سے دم کراؤ، اک دم ٹھیک ہو جائےگا۔ ہم اسے اسی دن علی پور سیداں لے گئے۔ شاہ جی کسی مرید کے ہاں گئے ہوئے تھے، شام کو ان کی واپسی ہوئی تو انہیں دکھایا۔ فرمانے لگے'' منڈا مکر کر رہا ہے دو چار دن میں خود بخود ٹھیک ہو جائےگا''۔ ساتھ انہوں نے دم بھی کیا۔ پانچ چھ دن ہم نے انتظار کیا لیکن کوئی فرق نہیں پڑا بلکہ حالت اور خراب ہو گئی۔ اس نے کھانا پینا چھوڑ دیا۔ ہمیں کہتا کہ تم گندے لوگ ہو ،میرے ماما ڈیڈی بہت امیر ہیں۔ ہماری بہت سی گاڑیاں ہیں۔ اتنا کہہ کر اپنی بہنوں کو مارنا شروع ہو جاتا، چیختا چلاتا اور رو رو کر کہتا کہ مجھے میرے ماما ڈیڈی کے پاس لے چلو۔جب وہ اس طرح کرتا تو اس کی ماں اور میں بھی رونا شروع ہو جاتے اور اس سے کہتے کہ تمہارے اماں ابا تو ہم ہیں تم کس کے پاس جانا چاہتے ہو؟۔ وہ ساجو جو سارا سارا دن کوڑے کے ڈھیروں سے کاغذ، پھل، کھانے کی اشیأ توڑے بھر بھر کے لایا کرتا تھا، اب سب کو پہچاننے سے بھی انکاری تھا۔ اتنا محنتی تھا میرا بچہ، وہ تو کتے کے منہ سے بھی بوٹی چھین لیتا تھا۔وہ گندی جگہیں جہاں کوئی بھی جانا گوارا نہیں کرتا تھا، ساجو وہاں بھی بے خوف پہنچ جاتا تھا''۔ اس نے بھرائی ہوئی آواز میں یہا ں تک کہا اور پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کر دیا۔

    ''کہاں کہاں نہیں لے کے گیا میں اسے(وہ جیسے ہم سے بے خبر ہو گیا) جہاں جس نے بھیجا میں گیا لیکن میرا بیٹا۔۔۔ میرا ساجد ٹھیک نہیں ہوا۔ ہم تو یہی سمجھتے تھے کہ اس پر کسی جن بھوت کا سایہ ہے، ٹھیک ہو جائے گا لیکن کل والی انہونی نے تو ہمیں سودائی کر دیا ہے۔ صاحب یہ کیا ہو رہا ہے، کچھ ہمیں بھی سمجھائیں'' (اب وہ مجھ سے مخاطب تھا)۔ میں تو خود سمجھنا چاہتا تھا، اسے کیا سمجھاتا۔ میں نے اسے ساری بات بتائی اور خاص طور پر یہ بتایا کہ اس کا بیٹا وہاں بہت خوش ہے۔یہ سن کر اسے کچھ طمانیت ہوئی، وہ ذراپرسکون ہوا، اس نے میرے ہاتھ چوم کر میرا شکریہ بھی ادا کیا۔اس نے مجھے احساس دلایا کہ وہ میرا بہت احسان مند ہے۔

    '' صاحب ہمارے بچے ہم سے زیادہ قابل رحم ہیں۔ پہلے ان کے دماغ پلٹ گئے اور اب وہ اگرچہ اپنے ٹھکانوں پر لوٹ آئے ہیں، ہم ان کے والدین ہیں لیکن وہ ہمارے بچے نہیں ہیں۔ یہ جو خوبصورت بچہ ہمارے گھر آیا ہے تمام رات جاگتا رہا ہے۔ اٹھ اٹھ کر اپنی بہنوں کا منہ چومتا تھا لڑکیاں ابھی اس سے مانوس نہیں ہیں۔ اب پتہ نہیں کب تک یہی صورت حال رہے۔میں کیسے اپنی بیٹیوں کو یقین دلا پاؤں گا کہ یہ تمہارا بھائی ہے؟ کبھی میرے پاس آکر لیٹ جاتا تھا تو کبھی اپنی ماں کے پاس۔صبح منہ اندھیرے ہی وہ بوری لےکر گھر سے جا چکا ہے، جیسے پچھلے سارے دنوں کی کسر نکالنا چاہتا ہو۔ رات روتے ہوئے اس نے مجھ سے پوچھا ''ابا آپ نے مجھے تلاش کرنے کی کوشش کیوں نہ کی''؟میں نے اس بتایا بیٹا میں نے کہاں کہاں تمہیں تلاش نہیں کیا۔ میرے پوچھنے پر کہ تم کہاں تھے؟ اس نے مجھے بتایا کہ'' میری آنکھ کھلی تو میں ایک بہت بڑے گھر میں تھا۔۔۔آگے جو تفصیل اس نے بتائی یہ وہی تھی جو میں رات سن کر آیا تھا۔ میرا سر چکرانا شروع ہو گیا میں جھونپڑے سے باہر نکل آیا اور وہ اندر میرے بڑوں کو ساری کہانی سناتا رہا۔

    اس واقعہ کو آج پچیس سال ہونے کو آئے ہیں ۔خانہ بدوش ہر سال فصلوں کی کٹائی کے وقت گاؤں آتے ہیں ۔اس بچے کو میں نے جوان ہوتے دیکھا ہے وہ شکل و صورت سے کوئی شہزادہ لگتا ہے۔خانہ بدوشوں میں اس کے حسن کی دھوم ہے۔ اب وہ اپنے باپ کے ساتھ کھیتوں میں جاتا ہے۔ ہر کوئی بساط سے بڑھ کر اسے دیتا ہے۔ آج سے کوئی دس سال پہلے گاؤں جب خاندانی دشمنی کی بھینٹ چڑھا تو عین گندم کی کٹائی کا زمانہ تھا ۔خانہ بدوش اس سال بھی گاؤں کے گرد ڈیرے جمائے ہوئے تھے۔ جب لاشیں گر رہی تھیں تو وہ اپنا کچھ سامان

    وہیں چھوڑ،کچھ ساتھ لیے کچے پل کی طرف جان بچا کر بھاگ رہے تھے۔ یہ پہلا موقع تھا جب وہ ہمارے گاؤں سے خالی ہاتھ لوٹے۔ وہ دن اور آج کا دن کسی فصل میں بھولے سے بھی کسی خانہ بدوش نے گاؤں کا رخ نہیں کیا۔

    اس واقعہ کے بعد بہت سے لوگ گاؤں چھوڑ گئے جن میں ہمارا خاندان بھی شامل تھا۔ کافی عرصہ ہوا میرا ارسلان کے باپ سے رابطہ نہیں ہو۔ آخری بار جب بات ہوئی تھی تو اس نے بتایا تھا کہ ارسلان بار ایٹ لا کرنے کے لئے لندن جا رہا ہے۔ یقیناوہ کسی بہت بڑے انتظامی عہدے پر فائز ہوگا اور ساجو بھی کہیں اپنے بچوں میں بیٹھا نئی فصل کے پکنے کا انتظار کر رہا ہو گا۔ جب بھی میری ارسلان کے باپ سے بات ہوتی وہ ساجو کے باپ کی طرح ہر بار یہی خواہش کرتا کہ کاش اس کا پہلا بیٹا اسے واپس مل جائے۔ کبھی کبھی میں بھی سوچتا ہوں کہ اگر ایسا ہو جائے تو۔۔۔ لیکن آدمی کی ہر خواہش پوری ہونے کے لئے کب ہوتی ہے۔ جھنجھلاہٹ میں میرے دماغ میں ساجو کے بےبس باپ کی اس گالی کی گونج دوبارہ زندہ ہو جاتی ہے جو اس نے مجھے خالی ہاتھ لوٹتے دیکھ کر ساجو کی ماں کو دی تھی۔ساجو کی ماں کی۔۔۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے