سانپ
کھڑکیوں کے گیلے وارنش سے گذرکر اندر آتی ہوئی تروواترا 1 تہوار کے دنوں کی چاندنی ایک سنہری چمک سے بھرپورتھی اوریہی چاندنی کھڑکی کی جالیوں سے چھن کر گیرومیں رنگے چکنے فرش پرپڑتی ہوئی سورج مکھی کے پھولوں جیسااحساس دے رہی تھی۔
یہ کس کی آہٹ ہے؟ آدھے کٹے اورترچھے رکھے ناریل جیسے چھوٹے چھوٹے گھنے بالوں سے بھرے منھ والا ایک کوتاہ قدآدمی، جس نے اپنا کان کاٹ کراپنی محبوبہ کونذرکردیاہے۔ پاگل وان گوگ کٹے ہوئے کان کا آدھاحصہ فیلٹ ہیٹ میں چھپائے کچھ کہتاجارہاہے۔
نیک تمنائیں یاہمدردیاں؟ چاندنی میں کھلتے سورج مکھی کے پھول! اس نے اپنے دل سے سوال کیا۔ ’’کیا تونے اس پردھیان دیا!‘‘ یہ سب دل کے قریب ہیں۔
وان گوگ کافن دماغی مرض میں ہوئی خودکلامی ہے۔ خوداپنے آپ گنگناتاہوا میں اپناہی نغمہ گاتاہوں۔ مختلف رنگوں کی آمیزش کاایک ایک رنگ اس نغمہ کی دھن پرناچتا ہوامیری تصویروں کومنقش کرتاہے۔ یہ قول نصف غلط ہے کہ فن اظہارذات ہے۔ صحیح تو یہ ہے کہ ہراک فن خودکلامی ہے۔ وہ خودکلامی میں کھویا ہوا ہے۔ فنکار بننے کی خواہش نہیں مگروہ اس کی ایسی فطری خصوصیت ہے جوتھن میں دودھ بھرتے ہی اسے اندر کھینچنے والی ایک گائے کی سی ہے۔ سہاگ رات میں بھی وہ اپنی نرالی عادت سے اپنے آپ کو بچانہیں سکا۔ دلہن پلنگ پرلیٹی ہے، دولہا چارگھوڑے والی تصورکی سواری میں سیرکرتا ہے۔ اس سیر کے درمیان آنکھوں سے دیکھتے تمام مناظر سے وہ من ہی من میں کھیلتاہے۔ انسان کے دل کے تین جذبات ہیں! یقین، تصوراور اضطراب۔ ہرایک کی شخصیت ان جذبات کے اتارچڑھاؤ کے مطابق ہی ہوتی ہے۔ اس میں تصور اوربے قراری زیادہ مقدار میں رہتی ہے اس لیے وہ شکی، متفکر اور چنچل مزاج کا ہوگیا۔
اس نے علم نفسیات کے اصولوں کوکبھی تسلیم نہیں کیا، یہ نیک روحیں ہوائی قلعے بنانے کے بدلے تحت الثریٰ میں کنویں کھودتی ہیں۔ جیسے اونچائی میں فرشتوں کی بستی ہے ایسے ہی دل کی گہرائیوں میں شیطان بستے ہیں۔ یہی ان کی سوچ ہے۔ وطن میں جھلس کر بھنی ہوئی تہذیب کی گھڑی لیے ’’ویانا‘‘ شہر کی گلیوں اور ہسپتالوں کے دالانوں میں گھومے پھرے۔ سگمنڈ فرایڈدوسرے نقطہ نگاہ سے سوچ نہیں سکتے۔ گناہ کے نشانات نے یہودا کے ذریعہ اس یہود کی روح میں تہیں بنائیں پھر ہرایک تہہ کے لیے ڈھکن کی شکل میں تبدیل ہوئی۔
یونگ محترم؟
ایک دوسرا کھوٹاسکہ۔
انہوں نے علم نفسیات کی تشریح میں ذراسی مشرقی فکر بھی ملاکر انڈیل دی۔ فنکار کانسے کے بنے ان کھوٹے سکوں کو جیب میں ڈال کر جھن جھن بجاتے ہوئے تجارت کرتے ہیں۔ نقاد اسی کومعیار رٹتے ہوئے تنقیدوتبصرے کاقانون بناتے ہیں۔ یہ جان لو کہ پرانے گناہ سے پرانی شکل تک زیادہ دوری نہیں۔ یہ قلاش ہیں۔ تسلیم کیاجاتاہے کہ فن ایسی چیز ہے جوقلب انسانی کے بیکراں سمندر میں پودے لگاکرافزائش نسل والی مگربچوں کی جماہی میں ٹھہری رہتی ہے۔ ساحل تک پہنچے بغیر واپس جانے والی لہروں کے متعلق تو، کچھ جانتاہے؟ خود ہی جھلمل کرتے وقت بھی آنکھوں میں، تاریکی میں پھیلے ہوئے ستاروں کے نوحہ غم سنا ہے؟ کیاتونے اس پردھیان دیاہے کہ منھ سے سیٹی بجاتے وقت لبوں سے نکلنے والی گرمی سے چاروں طرف کے خش و خاشاک مرجھاجاتے ہیں۔
شادی کی تقریب کے بعددلہن کے کمرے میں داخل ہوتے ہی سورج مکھی کے پھولوں کے دن کے خواب کے نشے میں توپڑگیا، اس کی کیاوجہ ہوسکتی ہے؟ خطا یا بے قراری؟ کیا وہ سورج مکھی کاپھول ہے اوردلہن سورج ہے؟ کیایہی اشارہ ہے کہ اس کی ہرایک چال کے مطابق قطار میں کھڑا ہوناصرف ایک مہرہ کی طرح ہے۔
سایہ اور رنگ پیش کرنے والے سجے پتلوں کی حرکت تھوڑی دورپرلہلہاتے آم کے پتے ہوامیں ہلتے ہیں تب سائے سورج مکھی کے گالوں کوسہلاتے ہیں۔ اس منظر کے دیکھنے پراس کی یاد دوسری طرف یوں گئی گویادھیمی دھوپ میں اینٹھاسرخ ناگ کچھ دیرپھن پھیلاکر ایک دوبارہل کرجھومتا ہوابجلی کی چمک کے ماننددوسری سمت سرک گیا۔ اس کے پتے کپڑوں پرکی جانے والی استری کی نوک کی شکل کے ہیں۔ استری کی نوک! وہ ایک بہت اچھااستعمال ہے نا؟
چہرے پرمہاسے والی دیدی، پسینے کی بوندوں کوانگشت شہادت سے پوچھ کر کالی اورلال بنکیوں والے بلاؤز پراستری کرتی ہے۔ استری ہویاکچھ بھی ہو، وہ ہنس پڑا۔
چیختی چیختی کاوکچی
چیرنیٹے چورٹلے ماکاچی
(دیدی دیدی کاکلی (کوے کی بیوی)
(چیر۲ کے نیچے کامینڈک)
ایک دن دیدی اس لڑکے کولے کرسہیلیوں کے ساتھ چاول کی ہنڈکلیاں پکانے کاکھیل کھیلنے لگی۔ اس وقت اس کے منھ سے مندرجہ بالا الفاظ نکلے تھے۔ اس نے یہ کہانی بھی سنائی،
چیرکے پیڑ کی ڈالی پرایک کوا اورنیچے ایک مینڈک رہتے تھے۔۔۔ بعدمیں جب کبھی وہ اس بچے کولے کرچلتی تھی تب وہ وہی شعرپڑھتا تھا۔ اس کی پہلی نظم جس کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے نامہ نگار اپنی بیاض اورآدھی پنسل لیے آئے گا۔ وہ مبارک دن کون سا ہوگا۔
جب دیدی سیانی ہوگئی تب ایک دن گھیرے کے قریب کھڑے ایک مرغ نے ککڑوں کوں کرکے بانگ دی۔ اس شوخ جوان نے لاڈپیارکی باتیں کہیں۔ طبیب نے مشورہ دیاکہ بال کی گرہ باندھ کر اکھاڑنے سے مسّا جھڑجائے گا۔ ماں نے کہا ’’میرے محترم طبیب صاحب وہ تو اس کے چہرے کی زینت ہے۔ اس کے چہرے پرچار چاندلگاتاہے۔ اسے اکھاڑا نہ جائے۔ وہ تودل کی با ت ہے۔‘‘ ہشت رُخی دل کی نہیں۔‘‘ پڑوسیوں نے کہا جب مسا گھنگھچھی کی شکل کابنے گاتب اس کے لیے ایک دولھاآئے گا۔ دبلا نوجوان پتلی نوک دار مونچھوں کا نایرنوجوان! کچھ دور سے دیکھنے پردیدی کے چہرے کامسّا ان کونیلم جڑاآئینے سالگے گا۔ خاص کر ان دنو ں میں جب املتاس پرپھول لگتے ہیں اور جھیلوں کے کناروں پر کالی مچھلیوں کاغول پانی بھرے کھیتوں کی طرف اتراتاکودتاہے۔ جب کالج بندہونے کے بعدوہ آیا تب دیدی سے اس کی آنکھیں چارہوئیں۔ پھاگن کے مہینے کی مستی گلیوں، پوکھروں، تالابوں میں ناریل کے پتوں کے بنے پنکھوں کی سی سرسراہٹ پیدا کررہی تھی۔ اس وقت شادی کی تجویزطے ہوناکپڑوں کادیناوغیرہ شادی کی رسوم سب کچھ بات کی بات میں ہوا۔ آگ برسانے والے بادل (چیت) کے گذرنے پراورموسم برسات کے بادلوں کی کڑک، بجلی کی چمک اوربرسات کے پہنچتے ہی پڑوس کے احاطے کے باہرانتظار کرنے والا وہ مونچھوں والا نوجوان اس کابہنوئی بن گیا ایسا ہوجانے پر تب نہ جانے کیوں اسے غصہ آیا۔ دیدی کے شوہر کو اس نے صرف’’وہ‘‘ کہہ کرمخاطب کیا۔
ماں نے کہا’وہ‘‘ نہیں تیرابھائی بہنوئی ہے۔
نہیں نہیں بہنوئی نہیں دیدی کاشوہرہے۔
تب اس نے سمجھاہوگاکہ دیدی کی ناک پرکامسّا کھونٹلانہیں تھا اسی لئے اس نے اسے اکھاڑنا نہیں چاہا۔ وہ دونوں کی قسمت کا نشان تھا۔ پتلی نوک دارمونچھوں والے کوملی مسّے والی عورت، یقین، تصوراور اضطراب۔
دیدی کی شادی دھوم دھام سے تمام ہوئی۔ اس دن سویرے اتفاق سے اپنے اس چھوٹے بھائی کوساتھ لے کرمندر کے تالاب میں نہانے گئی۔ پنگھٹ پرصرف وہ، دیدی اور ’’منجپاوٹا‘‘ نام کے پیڑ کی ڈالی پرچونچ مارتے ہوئے دوبگلے تھے۔ دیدی نے پہلے اسے نہلایا۔ وہ پتھر کی سیڑھی پرکھڑا ہوگیا اس کے گیلے کچھے (کوپین) کے کنارے سے پانی کے قطرے ٹپک کرگھاس کی نوک پرپڑے۔
’’میرے چلے جانے پر تجھے دقت ہوگی نا؟‘‘
سینہ پرصابن کے بلبلے سی چمکتی اس نوجوان حسینہ کے سوال کا اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اس کی آنکھیں ایک دم گھاس پربیٹھی ایک لال چیونٹی پرپڑیں۔
توخط لکھے گا تومیں تیرے پاس فورا پہنچوں گی۔ آنے کے وقت تیرے لیے کچھ ساتھ بھی لے کرآؤں گی۔‘‘
وہ ہنسا۔
لیکن اس نے دیدی کوخط نہیں لکھا جتنے خطوط لکھے گئے تھے۔ سب پھاڑڈالے گئے۔ پھاڑکرپھینکے ہوئے خطوط کے ٹکڑوں کویادکرکے وہ ہنسا۔ وہ اپناکیاہواوعدہ ’’کچھ بھی نہ لائی‘‘ اس کی دیدی کے صرف اچھا دکھائی دینے والے مخصوص تل سے مزین ناک ہی نہیں، بہت خوبصورت سفیدپتلی انگلیاں بھی ہیں۔ شادی کے دوسرے ہی دن شوہر نے اس کی انگوٹھی کے سرے پرہاتھ پھیرا تھا۔ سرے پرایک حرف’بی‘ منقش تھا۔
اس نے پوچھا’’یہ‘‘ بی ’’کیا ہے؟‘‘
اگرچہ وہ یہ بات جانتا تھا پھربھی اس کے متعلق پوچھ تاچھ کی۔
بفون‘‘
دیدی ہنسی۔ وہ بھی ہنسا۔
نہیں بل ڈاگ۔ اس نے سدھارتے ہوئے کہا۔
بھوں۔ بھوں۔ بھوں۔۔۔ وہ بھونکی۔
اس نے پانڈن کی طرح دانت نکالے فورا اس کی دیدی نے اس کوچھاتی سے لگالیا۔ تب وہ کیاروئی، روئے بھی تو کس لیے؟
اب اپنی انگلی میں بھی ایک انگوٹھی ہے۔ جس عورت نے اسے انگوٹھی پہنائی تھی وہ پلنگ پر دیوار کی طرف چہرہ کرکے لیٹی ہے‘‘ انگوٹھی پرحرف ’’ایس‘‘ منقش ہے۔ جس پر حرف منقش ہے اس کارنگ نیلانہیں، مگرسانولا ہے۔
کل سویرے دیدی آکرمیری انگلی پکڑکرمجھ سے انگوٹھی پرمنقش حرف کامطلب پوچھے تو میں کیا کہوں گا۔
سورج مکھی؟
سُرسندری؟
سپریا؟ 2
سننامکی؟ 3
صرف یہ نام نہ کہوں گا۔۔۔ سرلاجومہربانی اور آرزوبھرادلارانام ہے اورجسے ادا کرتے وقت میری زبا ن پرلذت اورٹھنڈک کا احساس ہوتاہے۔ خیالی نعمہ کے آغاز کی طرح، یہ لفظ منی کانچی 4 چھندمیں تحلیل ہوجائے گا۔ کل کانچی 5اوراپسر 6 پنی بحروں میں بھی ہوجائے گا۔
سانولااس کامحبوب رنگ ہے۔ منی کانچی بحر کی نظمیں بھی اس کوپسند ہیں گہرے رنگ کی ملی جلی چیز دلفریب ہے۔ اس کی پسنداورناپسند۔ دھندلے پن کے لیے وہاں کوئی مقام نہیں زندگی اور موت کی طرح اس کی پسند اور ناپسندآپس میں ملے جلے رہنے پربھی بے میل جذبے سے اس کی زندگی میں نافذ ہوتی ہیں۔
بسم اللہ خاں کی شہنائی کاگیت اسے بہت اچھا لگتاہے۔ روح کی سسکیوں اور حرکتوں کوصاف نازک ملکہ ترنم! اس کی پسند کے رنگ کی تخلیقات بہت کم ہی ہیں۔ وان گوگ کے تئیں اس کا جذبہ احترام کا ہے۔ وان گوگ کی تصویروں میں رنگوں کی گرمی نہیں، مگر ٹھوس جذباتی محویت ہے۔ رنگوں کی حسینائیں تن کرکھڑے جھولے پر جھولتی ہیں تب ’’مجنٹا‘‘ نام کی حسینہ جھولنے کے اس کھیل سے الگ رہ کرکہتی ہے۔ ’’میں رنگوں کی شہزادی ہوں۔ تمہارے ساتھ کھیلنامجھے پسند نہیں‘‘ روح کے فن رقص سے اس کوذرابھی دلچسپی نہیں۔ اس کاکہنا ہے کہ اعضائے جسم میں جذبہ مباشرت اورانگلیوں کے لمس میں مکروہ خواہش پوشیدہ ہے۔
اس کی پسندیدہ کتاب ہے۔ ’’ایک زمانے میں ایک بے وقوف تھا‘‘
یہ ایک ہزارتین سوسے زیادہ صفحات کاناول ہے۔ اس کے تخلیقی کارمسٹرایس برگس ہیں۔ وہ ایک مشہور عالم اور زندہ جاوید ادیب ہیں توبھی انکے ساتھ تمہارا تعارف نہیں ہو سکتا۔ مسٹرایس برگس کی شاہکارکتاب اب تک شائع نہیں ہوئی۔ تخلیق ابھی تک نامکمل ہے۔ سارے عالم میں برگس ہی ایک ایسے تخلیق کار ہیں جن کاناول دنیا میں ابھی تک غیرمطبوعہ مسودات میں سب سے عظیم ہے۔
اچھی طرح اپنے آپ کو ڈھکے کچھ اوڑھے لپیٹے خواب کی اداکاری کرنے والی حسینہ! تو اس دنیا کے بارے میں کیاجانتی ہے؟
’’ایک زمانہ میں ایک بے وقوف تھا‘‘ بے وقوفی کے موجودہ کھیت میں حیرتوں کاپلنااوربڑھنا ہوتاہے۔ میں نے اس کے لیے حیرت کومحفوظ کر رکھاہے۔ میرے جادو سے شگفتہ ہونے کے سبب ان کے گالوں پر گل اورگلوں پرلعل اورہیروں کے دائروں کی روشنی دکھے گی۔ وہ ان ہیروں کی چمک اپنے لبوں پرڈالے گا۔ کیچک کے بالوں والے بنگل شنکر پائیکر کے سبزاورنارنگی رنگ سے رنگین چہرے پرابرک ذرے کی چمک دمک بھی اس کی نگاہ میں رچی بسی ہے۔ ہاتھ کے گداز کے کانٹے کے چراغ کی بتیوں کی مشعلوں کے درمیان ہالے کی سرخی لیے لبوں پر اور سبزرنگ کے رخسارپرسنہری ترنگوں میں چمکتے ابرک کے ذرے کیچک کی محبت بھری التجا پر ان جذبات نے چارچاند لگائے اس نارنگی رنگ، ابرک کے ذرے اور وضع قطع کوصاف کرنے سے پہلے ہی ایک نوجوان کیچک جیسے ملبوس پائیکر سے جنس میں خودرفتہ ہوکر اس کے پیچھے پڑگئی۔ یہ سنی سنائی بات بھی اسے یادآئی۔ اس لڑکی کوکس کی محبت تھی کیچک یاکیچک جیسے ملبوس شنکر پائیکر کی۔ کیچک کی وضع قطع کے لیے اس کی محبت نمودار ہوئی۔ ورنہ رنگ سجاوٹ اور وضع قطع اختیارکیے ہوئے شخص کی وہ کبھی خواہش نہ کرتی۔ آدمی نے نہیں بلکہ فن نے اس میں محبت کوبیدارکیا۔ لیکن میں کیچک نہیں میرے قریب پڑی ہوئی یہ دوشیزہ سیرنگھری بھی نہیں۔ یہاں درد کوبھی درد نہیں ہوتا۔
کمرے میں چاروں طرف خوشبوپھیل رہی تھی۔ خوشبوؤں کی حکمرانی میں مختلف عطریات کی پراسرار کارفرمائی تھی۔ عرق گلاب، چمیلی، جلتی اگربتی۔ زعفران ملی کالی 7 چاندپاؤڈر۔ بلرام پورکی زری دارساڑھی، باریک دادر۔ گیلاوارنش۔ سایہ ڈالے سرکتی آم کی کوئلیں۔ سورج مکھی پھول، عطر سیز، کل کل چھلکتی آواز کا راگ ان سب کے بیچ میں سے ایک ہی عطرفروش بسم اللہ خان کی شہنائی کی آواز الگ الگ ہوکر باریک دھاگوں کی شکل میں اس کی ناک میں، شریانوں میں، جوڑوں میں اورمحوکرلینے والی تمناؤں میں پہنچتی ہے۔ یہ سب اس کی خوشبو ہے، دلکش خوشبو کی طرح، شہنائی کی سریلی آواز اس کے کانوں میں آتے وقت اس کے سامنے جنسی جذبات سے متوالی ایک دوشیزہ گھونگھٹ ڈالے موجودہوتی ہے۔ پیشانی پر چندن کی بندیا، باریک گھونگھٹ کے اندر سے بھوؤں کے اوپر کی ٹیڑھی لکیروں میں چمکتے نشان دکھائی دیتے ہیں۔ اس کے گال موٹے ہیں۔ وہ بیچ بیچ میں گھونگھٹ ہٹاکربائیں آنکھ کی ترچھی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ ہندی یا گجراتی میں دوچارلفظ اپنے پاس ہی بیٹھی سہیلیوں کے کانوں میں کہتی ہے۔ شرم سے تتلاتی ایک لڑکی دل کوسرمست کرنے والی ایک مہک۔
خوشبو اور زندگی کے درمیان چولی دامن کاساتھ ہے۔ تامل زبان میں ترورمنم کا مطلب ہے شادی۔ دولہا کی دلہن۔ جس طرح کا خوشبواورپھول میں ایک دوسرے سے الگ نہ ہونے والا تعلق ہے۔ اسی قسم کاخوشبواور دوشیزگی میں تعلق ہے۔ زندگی کا بنیادی ثبوت عورت اورمرد ہے۔ ان کے لیے مقررہ خوشبو کی تلاش میں مرد اور عورت کے باہمی اتصال کی کوشش ہوتی ہے اسے شادی کااتحادواقرارکہتے ہیں۔ ان کی خوشبو بڑھتی گھٹتی رہنے کے ساتھ تکمیل کے آہنگ اختیارکرتی ہے تب زندگی کی نئی نئی کونپلیں نمودارہوتی ہیں۔ شادی کے ملاپ میں جنم پتری کی بہ نسبت خوشبو کی زیادہ اہمیت ہے۔ ستاروں میں صرف چمک اوررنگ ہوتاہے مہک نہیں۔ اپنی شادی کی تجویز اورتائید کے وقت ان باتوں سے بالکل قطع نظر کیاگیا اس وقت ناک میں ایک دوسری خوشبو بسی ہوتی تھی۔ اس دوشیزہ کی یعنی کسی دوسری لڑکی کی۔
اس دوسری کی
بازگشت اورآواز
یہ سطریں غیرشائع شدہ مشہور عالم افسانہ کی ہیں اورکتنے دلکش اسالیب اورطول طویل تخلیقات اشاعت کے انتظار میں ہیں۔
مسٹربرگس
جینس آف دی ایجز۔ زمانے کی شان وشوکت یانشان وشوکت کازمانہ؟
کیا زمانہ شان وشوکت کی تخلیق کرتاہے؟
کیاجلال کی تخلیق کاری کے کارناموں کوزمانہ کانتیجہ نہیں کہا جاتا؟
’’ہیلوگڈمارننگ‘‘
’’مارننگ‘‘
’’کیامیں مسٹربرگس سے ملاقات کرسکتاہوں ‘
''کیوں ملنا چاہتے ہو''؟
’’ایک بہت ضروری کام ہے‘‘
’’ملاقات ہوناممکن نہیں۔‘‘
’’مجھے ان سے خصوصی شمارے کے لیے ایک مضمون، افسانہ، نظم، ڈرامہ۔۔۔ لیناہے۔‘‘
’’مسٹر برگس خصوصی شمارے کے لیے نہیں لکھتے رقص کے پروگراموں کا افتتاح بھی نہیں کریں گے۔‘‘
’’کم از کم ایک پیغام یاچندسطریں تحریر کرکے تودے دیں۔‘‘
’’نہیں یہ ممکن نہیں ہوگا۔‘‘
’’ہزارروپے نقد دیے جائیں گے۔‘‘
’’تم ناشائستہ آدمی کی طرح کیوں بک بک کرتے ہو؟‘‘
’’تم مسٹربرگس کی قیمت کا اندازہ نہیں کرسکتے۔‘‘
’’مس ذراملاقات کرانے کی کوشش توکرو۔‘‘
’’یوگیٹ آؤٹ۔‘‘
اچھاتم چالاک ہو نہ، ایسی ہی عورت لوگوں سے بے شرمی کاسلوک کرسکتی ہے۔ سکریٹری بہت ہی چالاک ہے اس کے لبوں کارنگ گلابی ہے۔ بریف کیس لیے لفٹ کے پاس پہنچے برگس نے مسکرادیا۔ سکریٹری اسپینی ناشر کے لیے ٹائپ کررہی ہے۔
مسٹر برگس از ویری پلیزڈ۔۔۔ ٹٹ۔۔۔ ٹ۔۔۔ ٹٹ۔۔۔ ٹ۔۔۔ ٹٹ۔۔۔ ٹائپ کرنے والی حسیناؤں کی انگلیوں کے ایلـاو۔ وی ـای کے چارحروف پرپڑتے ہی ان کے دل میں نموپذیر پروردہ اورشگفتہ نازوانداز کی رنگین مدہوشی کیسی ہوگی اس کویاد کرنے کے وقت اس یادکی لہروں کے حباب جیسی مسکراہٹ ہونٹوں پر جھلکتی ہے تب اونچی آوازمیں کھلکھلاہٹ کی آواز سنائی پڑی۔
او۔۔۔ قیراط، شیطان۔
بریف کیس لیے لفٹ کی طرف جانے والے زمانے کے جینیس مسٹر برگسسہاگ رات میں دلہن کے پلنگ پر اس خوشبو کامزہ چکھنے والا مرد اپنے کومحسوس کرنے لگا۔ اس وقت انڈین اسٹینڈرڈٹائم کے مطابق دوبج کر پینتیس منٹ ہوئے تھے۔
شادی کی تقریب کے دوسرے دور کی بھیڑ اورشوروغل ختم نہیں ہوا۔ پیٹرومکس چراغوں اورکارکنوں کی آنکھوں بندنہ ہوئیں۔ یہ اچھا ہواکہ گراموفون ریکارڈ اب نہیں چلتابرسوں پرانا ’’پوکان ونود‘‘ میں نغمہ سے لے کر’’پونیلاونودچلل‘‘ ایسی نئی فلموں کے نغمے تک گاتے گاتے گراموفون سوگیاہے پھربھی لوگ آنکھوں میں رات کاٹتے ہیں۔
وہ آہستہ آہستہ پلنگ پرسے اٹھا اور کھڑکی کے قریب جاکر کھڑاہوا۔ گھر کے بڑے لوگ پاندان کے سامنے بیٹھے میٹھی گفتگو میں مشغول ہیں۔ گنجے، بڑی توندوالے، کوئی کوئی ہیرے کے ہار پہنے سرپر چوٹی رکھے پیشانی پرلمبی لمبی لکیروں کاٹیکہ کمہلائے ہوئے تلسی کے پھول کانوں پرکھونسے ایسے بہت سے لوگ یہاں موجود ہیں۔ ان کی موجودگی لاپروائی اورشاطرانہ گفتگو نے اس کوحیران کردیا۔ سچ مچ یہی نسل خوش قسمت ہے ان سب نے میری طرح دلہن کی خواب گاہ میں آرام کرسی پر، بسترپر، یا باریک گھاس کی رنگین چٹائی پرسہاگ کی پہلی راتیں گذاری ہیں۔
اس وقت ان کے بیٹے بیٹیاں، بہو، داماد، دولہا دلہن بن چکے ہیں پھربھی وقت کے سہارے یہ مہک بہت ہی مضبوط، ساتھ ہی نرم ونازک بھی ہے! شادی کے بڑے کارکنوں میں ایک شنکونایر ہے جواپنی سہاگ رات کے تجربات کاذکررہاہے۔ ویلپ مینن اور ان کے ساتھی ان رسیلی باتوں پرکان دیتے رہتے ہیں۔ ویلپ مینن کودیکھ کر اسے ہنسی آئی۔ ایک گورا موٹاحسین جوان رنگ روپ کے اعتبارسے کوئی کمی نہیں، گھی کے بنے حلوے کی طرح چمک دمک اوررنگ والے اس گدازجسم کو خالق نے اپنی مہربانی سے جوخوبصورتی عطا کی ہے وہ ایک سراپاروشنی سابن گیا۔ ہلکی آواز اورموٹے بدن کا کسی طرح بھی میل نہیں تھا چاہے وہ کتنی ہی اہم باتیں کہے لوگ مذاق اڑائیں گے۔ بھگوان کی حیرت انگیز لیلا۔ بھگوان بھی عورت کے لیے جوکچھ کرتاہے مقررکرتا ہے اسے مرد کو اورمرد کے لیے جو کچھ مقررکرتاہے اسے انجانے دے دیتاہے نتیجہ کے طورپرمرد کے ڈھانچے میں نسوانیت اورعورت کی شکل میں مردانہ پن کی خاصیت سماجاتی ہے۔
بڑے لوگوں کی رات کی گفتگو اس کواچھی لگی ہنسی مذاق میں مشغول بزرگ پھربھی اچھے مزاج والے ہیں۔ خواہ شادی ہو، یاکرکٹ کامقابلہ یامردہ کوجلانا ہووہ کبھی ہنسی دل لگی نہیں چھوڑتے۔ تماشہ اور تفریح ان کی زندگی کی جوانی ہے۔ بال سفید ہوجانے پر بھی وہ ہمیشہ جوان رہتے ہیں۔ ’’میں اورمیری نسل؟‘‘
ان ہٹے کٹوں کے ساتھ موازنہ کیاجائے تویہ نسل صرف چھوئی موئی ہے۔ اتناہی نہیں، چھونے سے پہلے کمہلانے والی نسل۔
ہوہلا، گانا، عورتوں کی آواز، مذاق وغیرشوروغل سے متعارف ان کی زندگی میں جنسی جذبات کی گنگناہٹ نہیں۔ ہرے بھرے مشترک ترانے ہیں۔ عیش وعشرت کا جذبہ ان کے افکار میں شامل ایک سرمست کرنے والا نشہ ہے۔
’’لیکن ایک بات یادرکھنا‘‘
میرے افکار میں کون خلل ڈالتاہے؟
اس نے مڑکردیکھا۔
کوئی بھی نہیں۔ وہ وہاں نہیں ہے۔
مسٹر برگس۔
پرانے عیش وعشرت کی خواہش نے نازک اور تروتازہ جذبات کی سادگی حاصل نہیں کی ہے وہ اس سے متفق نہیں ہوسکتا۔
مسٹر برگس کابھی یہ قو ل اس کے دل کی گہرائی یں جڑنہ پکڑے گا۔ اس نے اپنے اندر کے برگس سے سوال کیا۔ کونارک اورکھجوراہوگئے توہم نے نہ دیکھا؟ پتھروں پرنقش شہوانی جوش وجذبات۔ گرووایورمندکی تصویروں کے متعلق اس نے کہناچاہا، مگران دونوں نے وہاں کی دیواروں کی تصویریں نہیں دیکھی ہیں۔
پتھر کوبھی گوشت اورخون کی شکل واحساس دینے میں کامیاب مجسمے۔ ہاں بالکل ٹھیک برگس نے کہا۔ انہوں نے جنسی جذبات کوتختہ سنگ پرنقش کیا۔ پھربھی وہ زندگی میں بالکل کھردرے اور سخت منظم زندگی کے معمول میں لگ گئے۔ مگروہ مجسمے شعوریافتہ۔۔۔ ہوکر اٹھ آویں تو؟ ہمارے بزرگ ہی ان سب کوشیطانوں کے تہہ خانے میں بندکردیں گے۔ بالمیکی کے ذریعہ رامائن میں رام لفظ کی جورٹ ہوئی ہے، اس سے بڑھ کرفرائڈاوریونگ کے نام ہرایک مضمون میں رٹنے والے موجودہ سرریلسٹ بالمیکی لوگ بھی ان بزرگوں کے جیسے ہی ہیں۔ ایک گروہ کے لوگ زندگی کوغیرجاندارپتھر بناتے ہیں تودوسرے گروہ کے لوگ اپنے بکھرے راگ میں مرلی بجاکر اپنے پھیپھڑوں کوبے کار کرتے ہیں۔ ذیابیطس کی وجہ سے خون کے مخصوص جز کے بیکار ہوجانے سے مریض انسولین کاانجکشن لے کربچ جاتے ہیں۔ انسولین دوشیطانوں کانام ہے ان کورٹنے پرانجکٹ ہوجاتاہے۔
مسٹربرگس ویساہی ہے ان کے لیے کوئی درمیانی راستہ ہی نہیں ہے۔ ان کا ایسایقین ہے کہ یہ وجود جلدہی ختم ہوجائے گا وہ ایسے شک پیدا کرنے والے خیالات کو جگہ دینے کوتیار نہیں۔ کھجوراہو کے فنکاروں نے پتھروں پر جنس کو مصورکیا۔ تب برگس؟ حروف کے انبار کے اندر اسے چھپارکھتے ہیں موجودہ رومان پسند لوگ توموسیقی کی لے کے مرجھائے پتوں کی پوٹلی بنائے اس کوکافورسمجھ کرسونگھتے ہیں۔ جنسیات نہ توپتھر ہیں اور نہ حروف۔ دھندلے راگ کی کافور کی پوٹلی بھی نہیں۔ غیرمعمولی طورپرمیں اوربرگس ایک ایسے مباحثہ میں کیوں کرلگ گئے اسے حیرت ہوئی جوبھی ہویہ عالم بے مزہ کرنے والے ہیں۔ اس کے ناول کاعنوان اچھاہے۔ وہ منھ پر ہاتھ رکھ کر ہنسا۔ ڈھکے منھ سے ہنسی کی جھانجھ کی تال کے درمیان برگس پھربولا۔ وہ بہت غصہ میں تھا۔
’’ہمیں بہت آگے بڑھناہے جنسیات کی جذباتی کایاپلٹ ہونی چاہئے آنے والی نسل کوحقیقت پسندی اورمنصوبہ بندی سے عملیت کے نشان کی طرف گامزن ہوناچاہئے۔ پرانی اورنئی نسل کے لوگوں کی طرززندگی میں بھی تبدیلی ہونی چاہئے۔ عصرحاضر کی فکر اس طرف لگی ہے نہ؟ یہ زمانہ عصمت فروشوں کانہیں عوام دریاؤں کوپسندکرتے ہیں نئے زمانہ کے مندرسنیماگھر اورتمثیل خانے ہیں۔ وہاں آدمی کوغلام بناکردیوواسیاں رقص کرتی ہیں۔ وہ اداکاروں کوقابو میں کرکے ایسے پرفریب رجحان سے پیش آتے ہیں گویاکہ اداکار ان کے بس میں ہیں۔ ایسے رجحان سے عمل کے بغیر ہی وہ روحانی تسکین حاصل کرتے ہیں۔
جنسی خواہش یہاں خواب کی شکل اختیار کرتی ہے عمل اداکاری کی شکل میں تبدیل ہوتاہے۔ اداکارہ بھی رجاوی فکرکی تشہیرکاسبب بنتی ہے۔ دکھاوا اور جادوٹونا۔
اس نے نرمی سے پوچھا’’اس تقریر کوپھرجاری رکھناہے؟‘‘
مسٹربرگسنے مضبوطی سے کہا ہاں ضرور۔ سچائی کے ساتھ سیدھے راستے سے جاکر ملنا۔ گریزکرنے والے سے حفاظت نہیں ہواکرتی۔‘‘
’’تم آج بھی علم نفسیات کے ماہروں کی من مانی کے جال میں پھنسے ہوجلد ہی وہ تمہیں چھوڑجائیں گے۔ ایڈیس اوراینٹگن بھی آوارہ بنیں گے۔ وہ زمانہ بھی ختم ہوگا جس میں اندھے لوگ اندھوں کو راستہ دکھاتے ہیں۔ تم کومعلوم ہے کہ ایڈیس نابینا تھا۔ اساطیری دور کے باشندوں کی فنکاری کاجینوپہناکر پجاری بنانے والے ماہرنفسیات کامستقبل خطرے میں ہے۔ ان کے بدلے معاشرہ میں فنکار لائق پرستش بنیں گے۔ جنس ہنرنہیں بلکہ ہنرجنس بنے گا۔ ایسا ہی ہوگا اپنی محنت کے پھل کو اپنے معیارتک پہنچاکر مستقبل کے عوام شاعری، تلاوت کتاب، نمائش تصویر، تمثیلوں کی پیش کش، افسانہ، ذکرمجلس، موسیقی وغیرہ سے حاصل خمار یں جنسیات کی مسرت حاصل کریں گے۔ ایک دوسری جنسی آگ کی توقع ہے۔ ماہرنفسیات کی طرف سے جنسی آگ پرانے اورفطری خیالات کی جگہ پرویسا ہی نتیجہ دینے والی تہذیب کی پراسرار غزلیں حاصل ہوں گی۔ انسان کی نبضیں بہت ہی باریک ہیں۔ تہذیب کے ذریعہ وہ اورزیادہ باریک بنتی ہیں۔ ماہرین نفسیات اس طرززندگی کی بنیاد پر نتیجہ نکالتے ہیں۔ ان نتائج کا موجودہ حقیقتوں سے کوئی بھی تعلق نہیں اس لیے نئے نئے تخیلات کی بڑی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘
الفاظ کے اس جال میں بچ کر جائے تواچھا ہو۔ اس نے سچی خواہش کی۔ ’’میں یہ حلیفہ تسلیم کرتا ہوں کہ زندگی ایک ڈرامہ ہے۔ زندگی ایک انشائیہ نہیں تم اسے ایساتشکیل دیتے ہو۔‘‘
’’برگس نے پھربھی اپنا بیان جاری رکھا۔‘‘ زندگی نہ تمثیل ہے نہ انشائیہ۔ تمثیل ہے تو انشائیہ ہونے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ اتناضرورہے کہ خصوصی تعلق کی صورت میں اس کے معانی ومفہوم میں وسعت ہونی چاہیے۔ تشریح وتفسیر کے مسائل اس وقت یہیں چھوڑدیں۔ ایک زمانہ میں انسانیت فنکاروں کی جنسی دیوتاؤں کی شکل میں پرستش کرے گی۔ پرانے وقت کے دیوی دیوتا جیسے کالی کی طرح لذت فن سے نئی نئی عبادت کی رسمیں پیداہوں گی وہ فن اور فنکار بڑی بلندیوں پر فکر کی پرواز کرتے ہوں گے پھربھی ایک بات ضرور کہوں گا کہ کوئی بھی تجریدی صناعی کو استعمال میں لانے والا نہیں ہوگا۔‘‘
’’تم نے ذرا بھی سوچا ہے؟‘‘
برگس گویاکچھ حمایت کرنے جارہے ہیں، اتنی جلدی اورزور سے پوچھا تجریدی فنکاری کا سرچشمہ کہاں ہے؟ عیش ونشاط کے لیے اٹھاجذبہ۔ روندی ہوئی نبضوں کے اکٹھا ہونے سے پیدا سرخی سے محروم حالت بگڑی ہوئی شکل، شوخ طبیعت اورروندی شرائن کے فریب ہیں۔
زمانہ قدیم کی تجریدی فنکاری میں کوئی تعلق نہیں۔ اول الذکر شعور کی بیداری، نغمہ وآہنگ ہے اوردوسری کمزوری کی یہ کریہہ شکلیں ہیں۔ جیسے پوشیدہ بیماری کا گوراپن حسن بنتاہے۔ جنسیات کے بارے میں ہمارا جوفیصلہ ہے اس پرمنحصر ہے کہ فنکار سرچشمہ اور اصلیت، شکل اورجذبہ احساس اور جنسی لذت ہی فن کی بنیادہے۔ یہ کیاکیا بکتا ہے اس کی سمجھ میں کچھ نہ آیا۔ وہ کشمکش میں پڑگیا۔ وہ برگسکی ذہانت ہے وہ ان نظریات کے برخلاف اصول کبھی کبھی آسانی سے پیش کرسکتا ہے اس وقت میں حیران وششدررہ جاتاہوں گویا بھولابھٹکا آندھی میں پھنساہوں اوربھاری بوجھ اپنے سینے پر رکھے ہوئے ہوں۔
اس نے اپنی روح میں کہیں ڈوب کرگھومتی پھرتی لکیروں اور رنگوں کوشکل دینے کی کوشش کی۔ تصور کی روشنی نہ پھیلانے والے جذبات بانجھ ہیں یہ تخیل غیرمعروف ہے کہ جنسی خواہش ایک زمانہ میں زندگی سے ختم ہوجائے گی اوراس کی باقی کل میں فن کی کلی پھوٹ نکلے گی اس نے دھیمی آواز میں کہا تاکہبرگسنہ سننے پائے تب تکبرگس اپنی لاٹھی ٹیکتے ہوئے اس کے سامنے سے جاچکے تھے۔
مسٹربرگس!
جنسیات کے متعلق اس کے بھی تصورات ہیں۔ اس کی علامت کلی ہے۔ بہت ہی نرم ونازک اورخوشبودارایک حسین کلی کی کونپلیں۔ رونق زینت اورخوشبو کوچکھنے کے لیے ترستے لوگوں کوان کے حاصل کرنے کے خاص رسوم اپنانے میں خشک برتاؤ کرے تونغمہ کی سرخی دھندلی ہوجائے گی۔ نوچ کرمجروح کرنے سے وہ سب کچھ خراب ہوجائے گا۔
سہاگ رات کے دوسرے دن گالوں اورلبوں پرورم اورنشان لیے چلنے والی شرمیلی لڑکیوں کے بارے میں اس نے سوچا۔ غیرضروری مقامات پرکھرونچنے کی حیوانیت، بدتمیزی اورزخم۔ اس نے ان عرب افسانوں میں مذکور حسیناؤں کے دلی جذبات کوسراہاجوتہہ خانہ میں بندمردوں کورات کے وقت شربت انگور اور بکرے کا پکاگوشت کھلانے کے بعدحرم میں لاکر اونٹ کے بالوں سے لپٹے چابک سے مارتی ہیں۔ ان متولیوں کے سامنے ان مردوں کوبھیجناہے۔
جمالیات کی بلندیوں پر پروازکرنے والی جنسیات میں سرمست افتاد طبیعت ہی دراصل شہوانیت ہے۔ پھر مسٹربرگس کہنے لگے۔ وہ جہاں رکتا ہے، وہاں سے وہ شروع کرتاہے کبھی وہ جدلیاتی بحث ہوکرپھرکبھی ایک عدم وجود کی تیزی لیے ہوئے۔
گھڑی کی سوئیاں اس جذبہ سے سرکتی ہیں کہ وہ اورمسٹربرگس زندہ ہی نہیں رہتے۔ وقت کے دل کی دھڑکن زمانے کے دل کوبدل رکھنے کا وقت گذرچکا ہے۔ ’’موسم دنیا کی لافانی آواز ہے‘‘ زندگی وسعت بیداری کے ذرہ کی طرح ہے۔ گھڑی موسم کے مختصربندھن کی طرح ہے۔ تیرا، تیری زمین کا، سورج کی، جان تک کاایک جزاس میں ہے۔ اس کی رفتار کے مطابق توبھی انجانے چلتاہے۔ سسکتے، رینگتے، تجھ سے ہی دورہوتاہے۔
اس’’تو‘‘ کے استعمال نے اس میں خشک جذبات پیداکیے۔ برگس اپنی تخلیق ہے۔ وہ ’’بوس‘‘ نہیں خالق کی خلاف ورزی نہیں کرتی۔ پھربھی یہ برگس ویساسلوک کرتے ہیں۔ اس کی مخالفت کرنے کواس کی زبان اٹھتی ہی نہیں۔ اس کی زبان کی زنجیریں ٹوٹ جاتی ہیں۔ گھڑی کی سوئیاں ہرایک ٹک ٹک کی آوازمیں وہ ان کوکھودلیتی ہے۔ توبھی، میں بھی زندہ رہوں گا۔ خواہ اپنے مددگار سبھی تبدیلی موسم کی طرح مٹ جائیں۔ مسٹربرگس ایک متغیر شکل کی طرح ہیں۔ ’’ایک زمانہ میں ایک بے وقوف تھا‘‘ اس کی تخلیق کارشریانوں میں خوشبو اورحرارت پھیلاکرزندہ جاوید بنیں گے۔ میں موجودہ زمانہ ہوں۔ میرامستقبل برگس، برگس کی انگلیوں کے درمیان زمانے کے دھاگے بتلائیں گے۔ ہم کوصورت بخشیں گے۔ گیرولگائے فرش پرچاندنی جیسے پھیلے مسائل پیچھے ہٹنے لگے ہیں۔ سینے کے اندرپوشیدہ رازداخل ہوتے ہیں۔
نیندمیں نہ ہوتووہ کیا سوچتی ہوگی؟ دورکہیں بجھتی شام کی سرخی میں پوربی پہاڑیوں کی قطار کی مانندوہ پلنگ پرایک طرف لیٹی ہے۔ تھوڑی دور پربحرعرب کی لہروں کی طرح میں یادوں کے بیچ میں پڑا ہوں۔ کیااس کے اندربھی اس کااپنا ایک برگس ہے؟ تنہائی پر اٹھلانے والے ہرعورت مرداپنے دل کی گہرائی میں کتنوں کوڈھونڈتے ہوں گے؟ وہ اکیلی نہیں رہ سکتی آدمی معاشرے کے کئی ٹکڑوں کوایک دوسرے کے ساتھ ملاکر جوڑا گیا ایک رومال ہے۔ جوڑ اندر ہے باہرنہیں۔
ہاراورانگوٹھی کا لین دین ہوا۔ گھنٹے گذرگئے اب تک ان دونوں نے گفتگو نہیں کی ہے وہ شرمیلی نہیں دیکھتے ہی معلوم ہواکہ وہ نٹ کھٹ ہے ایسے نٹ کھٹوں میں بھی خاموش گفتگو ہوئی ہوگی۔
گیلی مٹی میں پڑاایک بیج بھی اب تک روئے زمین پرنہیں نکلا۔ بچپن میں مونگ کے کھیتوں میں چڑیوں کوبھگانے کے وقت نکلے ہوئے مونگ کے دانوں نے اسے اپنی طرف کھینچا۔ ڈنٹھل کے دونوں کنارے جھکے سکڑے کھڑے ہیں جیسے سینے میں آدمی کابچہ سکڑا پڑاہے۔ بڑا ہونے پرہی مجھے ایسامحسوس ہوا۔ سبھی بیجوں کے دوحصے ہیں خواہ ظاہر میں ایک سالگے۔ ترتیب تخلیق، علم اکائی کے متضاد کیوں ہوگیا توبھی اسے کچھ کہنا چاہئے تھا نہ؟ پرانے ڈھنگ میں توویسے ’’ادھردیکھیے یاجانتے ہوایک کے دل میں کیاکیاخیالات ہیں؟‘‘ کسی بھی قسم سے آغاز۔ میں بھی اس سے کچھ نہ بولا۔ یادوں کوچباتے اور شک وشبہات کوزیور پہناتے ہوئے برگسسے بحث ومباحثہ کرتے وقت سرک گیا۔
اس نے ایک سگارسلگایا۔ وہ کوئی بڑا حادثہ نہیں۔ کتنی ہی سگارجلاکر پینے ہیں اور دورپھینکے ہیں لیکن یہ معمولی حادثہ رہا۔ سگارمیں آگ سلگنے پربھی سلگتی دیاسلائی کو نہیں بجھایا۔ انگلی کے جھلسنے تک وہ اسے پکڑے رہا۔ زری کی ساڑھی، ہرے ریشم کی چولی اور ہاتھ بھر کنگن پہنے اس نوجوان نے بھی اس روشنی میں اسے ہی مڑکردیکھا۔ کنگنوں کی جھنجھناہٹ سن کراس کی آنکھیں بھی اس طرف مڑیں۔ بجھتی روشنی میں اس نے وہ آنکھیں دیکھیں۔ برسوں پہلے دیکھی ہوئی آنکھیں۔ ان آنکھوں کو اس نے کب دیکھا ہے؟ وہ سوئی نہ تھی۔ سونے کامحض بہانہ تھا۔
کیااس کی پلکیں نم ہیں؟ وہ انجانے ہی چونک گیا۔ دیوار سے ٹکی آرام کرسی کوسیدھی کرکے ایک کونے میں بیٹھا جہاں سے وہ اس کواورباہر کے نظاروں کودیکھ سکتاتھا۔
کیا دونوں آنکھیں ابھ اسے دیکھ رہی ہیں؟ اندھیرے میں کچھ ظاہر نہیں ہوتا۔ باہر جلتے ہوئے پیٹرومکس کی روشنی سے پیدا ہلکی روشنی میں ان آنکھوں کی پتلیوں کوڈھونڈنامشکل ہے۔
آدھی را ت گذرنے کے وقت خوابوں کالاڈپائی آنکھوں میں پرلگنے کی خوشی سے جوابرو کھلنے کوتھی، وہ گیلی سکڑی پڑی ہے۔
سہاگ رات کے لیے آراستہ کمرے میں اپنے درمیان کچھ نہ رکھنے کی خالی جگہ کی طرح شرماتی ملزمہ کی طرح بغل کے بل لیٹی ہے جو ان حسینہ! چاپلوسی کے گرم رسیلے پن میں ہنسنے ڈبکی لگانے کوترستا نازک بدن۔۔۔
فورا اس کی گفتگو شروع ہوگئی۔ ایک بار اوروہ خیال دل میں جاگاکہ وہ آنکھیں شناساہیں اسے ایسا محسوس ہوا گویا یاد کے لٹکے دھاگے میں اس کانازک دل لڑھکتے لڑھکتے سرک جاتاہے۔ دل اسے انار کے درخت کے نیچے کی طرف لے جاتاہے۔ انارکارنگ اورشکل تقریبا قلب انسانی جیساہے۔ اس کے چھلکے کے اندرجمے ہوئے خون کے نشانات ہیں۔ ہرایک میں زندگی کے آثار پوشیدہ رہتے ہیں۔ فریڈریکوگرلیشلارک نے اس کے متعلق نظم لکھی ہے کہ انار کاپھل انسانی دل کی طرح ہے۔ جوبھی ہواس نظم کوپڑھنے کے بہت پہلے اس نے اس حقیقت کاپتہ لگایاتھا۔
ہرایک نغمہ محبت کی خاموشی ہے، ہرایک ستارہ وقت کا بیش بہاجذبہ اظہار ہے وقت کی پیچیدہ گرہیں۔ ہرایک سانس گریہ وزاری کا سکوت ہے۔
لارک سے اسے عقیدت ہے۔ کون زیادہ تخیل پسندتھا۔ لارک یارلکے؟ مسٹر برگس ان دونوں کی بہ نسبت زیادہ ذہین ثابت ہوگا۔
گھرکی تقسیم سے پہلے صحن میں ایک انارکا درخت تھا۔ اس کے نیچے ہی پہلے ان آنکھوں نے اسے دیکھا۔ انار چگنے کے لیے آئی دوچڑیاں انسانی دل کی طرح انارکے پھلوں پر اڑتی پھرتی تھیں، چونچ مارتی تھیں۔ خون کی بوندیں ٹپک پڑیں۔ ہونٹ میں لگے خون کے ساتھ چڑیاں شاخ شاخ سے پھل کی طرف اورپھل سے شاخ کی طرف پھرپھرچہچہاتی اڑتی پھرتی تھیں۔ ان چڑیوں نے اپنے تن بدن سے ملائے پنکھ میں چھپائے کل کل کی آواز کے ساتھ جنسی آرام کاتجربہ کیا۔ یکایک مادہ چڑیانیچے گرپڑی، گویابے ہوش ہوگئی ہو۔ چڑابھی ڈر سے یاکسی اور وجہ سے اڑکر اوجھل ہوگیا۔
اس نے یادکیاکہ انارکے درخت کی ایک منحوس تاریخ ہے۔
پہلے یعنی بہت برسوں پہلے جب تک یہ درخت، درخت نہیں بناتھا۔ اس نے نہ جڑپکڑی تھی، نہ تناآسمان کی طرف بڑھا تھا۔ انارکادرخت زمین –اورآسمان پر مساوی طورسے تفریح کرتے ہوئے ایک راکشش کی طرح تھا، اس کی مرغوب غذا انسانی دل تھا۔ اکتالیس دل روزانہ ہڑپ لینے پرہی اس کی بھوک مٹتی تھی۔ زندگی بھر ہزاروں انسانوں کاقتل کرکے ان کے چوڑے سے سینے کھرونچ کے دل نکال کروہ کھاتاتھا۔ ایک دن اسے انسانی دل نہ ملا۔ اس کے ذریعہ مارے گئے انسانوں میں سے کسی میں بھی دل نہ تھا۔ تھوڑی دیرکے لیے وہ رک گیا۔ بھوک بڑھ گئی تواس کی حیرت بھی ختم ہوئی۔ وہ ڈرگیا کہ ایسے وہ بھوکوں مرجائے گا۔ انسانوں کودل پیش کرنے کی التجا کرنے کافیصلہ کرکے وہ غار سے باہرنکلاتب اس نے جنگل کے تالاب میں جنسیات میں غرق دیوتاؤں کی بیویوں کوغسل کرتے دیکھا۔ راکشش نے ایک شہزادے کابھیس بدل کر انہیں مسخرکیا۔ وہ ہرایک دیوتا کی لڑکیوں کولے کر غارمیں آیا۔ ان کا سینہ پھاڑکراس کا دل درخت کی شاخ پرلٹکایا۔ اس وقت اسی راستے سے غسل کرنے آئی ہوئی ایک منی کی بیوی نے یہ ہیبت ناک منظر دیکھ کر غصہ میں راکشس کوبددعادی۔ ’’ارے سنگدل سے سنگدل تر، کمینہ، توایک درخت بن جائے۔‘‘ دوسرے ہی لمحہ وہ ایک درخت بن گیا۔ یوں کہا جاتاہے کہ یہ وہی انارکادرخت ہے۔ جب تک راکشس اپنے کھائے درختوں کوانارکی شکل میں چھتیس پھل دیوتاؤں کواورباقی انسانوں کوواپس نہ دے تب تک شیطان کوبددعا سے نجات نہ ملے گی۔ یہ افواہ مشہورہے کہ اس نے سارے انسانی دلوں کوواپس کردیا۔ باقی چھتیس دیوتاؤں کے دلوں کو دینے کے لائق دیوتاؤں کوزمین پرنہ دیکھنے سے وہ آج بھی درخت کی شکل میں بددعا بھگت رہاہے۔ کہانی سننے کے بعد اس نے انارنہیں کھایاہے۔ دیوکادل کھائے ہوئی چڑیاکا حال کیاہے۔ کیا وہ جنت کوچلی گئی؟ انار کے نیچے پڑی چڑیا کواس نے ہاتھ میں لے لیا۔ چڑیا نے اس کورحم کی نگاہ سے دیکھا۔ کچھ دیر کے بعدٹھنڈی پڑگئی۔ تب بھی اس کی آنکھوں کی روشنی کم نہ ہوئی تھی۔ اس چڑیاکی آنکھیں،
اس دوشیزہ کی آنکھیں!
اس چڑیاجیسی یہ دوشیزہ بھی۔۔۔ وہ آگے نہ سوچ سکا۔ یوں ہی غیرضروری باتیں سوچ کرکیوں کو مصیبت زدہ بناؤں؟
یہ دل کیسی عجیب چیز ہے۔ وہ انارنہیں گندہ پیکدان ہے۔ کتنی جلدی برائیاں بھرجاتی ہیں۔ کمتر سے کمترمباشرت کے برے مناظر کواس نے دیکھا۔ بکری، گائے، باز، کتا، سانپ، نیولا ان سبھی کی مباشرت کے طریقے۔ اس یاد سے اپنی ہی ذات سے نفرت ہوئی کہ اس کے دل میں ان سب کے جھاگ امنڈرہے ہیں۔ دل گندے مناظر کی تہوں کی گٹھڑی ہے۔ دل کے مناظرکوکھرونچ لینابھی ممکن نہیں۔ ایسامعلوم ہوتا ہے کہ نیند بھی اسے چھوڑگئی۔ اس نے نظم کی طرف خیال کیا۔
نیندکی چڑیا میری آنکھوں میں
انڈا دینے کوتیار ہوئی
ابرو جال ہیں ایسا سمجھ کر
گھبراکروہ اڑگئی
ہزاروں سال پہلے ایک مراقشی شاعر نے نغمہ گایاتھا۔ اس رسم ورواج کی ایک دوسری نظم وہ دل ہی دل میں گنگناتارہا۔
وہ نثار ہونے کوحاضر ہوئی
لیکن وہ پیچھے ہٹ گیا
شیطان کے فریب میں نہ پڑا
ایک گھنی رات میں
گھونگھٹ بغیر ڈالے وہ پہنچی
اس کے چہرے کی چمک میں
رات نے پردہ ہٹادیا
میرے دل کے فوری
جنسی خواہش سے گریز
کے وسیع تر علم
میری ہوسوں کی بیٹھک کے دروازے پر
بھلائی سے مضطرب ہونے کوتیار
مجھے روکے رکھنے والے پہریدار کی مانند
ہدایت کی روشنی لے کرکھڑا رہا
اس طرح اس کے ساتھ
رات گذارنے کے بعدمیں
جال باندھے اونٹ کا بچہ ساہوں
پستان چوسے بغیر یا
دیکھے اورسونگھے
ایک باغیچہ میں
مجھے کرنے کو اورکیا رہتاہے
باغوں کو چراگاہ بنانے والے
آوارہ مویشیوں کے مقابلے کاہوں کیامیں؟
وہ جہاں سے نکلا وہیں پہنچ گیا۔ دیکھا اورسونگھا اس پربھی خیالوں اورنظاروں کواوربھی وضاحت ملی۔ جال باندھے ایک اونٹ کے بچے کی مانند اس نے بھی اس نوجوان حسینہ کودیکھا۔
وہ پلنگ پرلیٹی ہے
جال دھیرے دھیرے کھول کرہٹایا
آہستہ آہستہ اس کے قریب جاکر
بستر کے خالی حصے میں
ایک طرف کو لیٹے ذراسرکا
اس کی ادھرادھر پڑی زلفوں کوسنوارا۔ پیشانی پرہاتھ پھیرا۔ مژگان کوسہلایا اس کاگولاپن رومال سے پونچھا۔ انگلی ذرااوپر کرکے ابروؤں کے ٹیڑھے پن کی لمبائی چوڑائی ناپی۔ ناک پرچھنگلیاں دوڑاکراس پربین کے تاروں کوبجایا۔ پھربھی غیرمتحرک رہی، اس کے لبوں سے لب لگائے ایک باراور دبائے، ایک گہری سانس لی۔ اس نے بھی ایک لمبی آہ بھری۔ گرم لب، مست کن خوشبورگوں کی پرشوخ لرزش، ایسے ایسے۔
باہرکاشوروغل رک گیاصرف چراغ جلتے رہے۔ تھکی آنکھوں کی پلکیں بندہورہی ہیں۔ آدھی رات کوسبھی بے جان پڑے ہیں۔ زمین بھی آرام کی نیندمیں پڑی ہے۔ بے چاری زمین! وہ بدبخت ہے۔ آفتاب جیسے سلطان کے حرم کی حسینہ۔ سلطان کے پاس اوربھی حسینائیں ہیں داشتاؤں اور بیویوں کی شکل میں۔ سلطان ان کے پاس جانے کے وقت زمین پرپہرہ دینے کے لیے ایک سیاہ فام غلام کومقررکرتاہے۔ وہ نیند میں پڑا ہے نامراد؟
صرف ایک شخص سویانہیں ہے۔ ایک دوشیزہ کے قریب بیٹھنے والا۔ میں نہ پہریدار ہوں نہ سیاہ فام غلام پھر۔۔۔ خیالات پوری آزادی کے ساتھ گھومتے پھرتے ہیں۔ ایک کھیت سے دوسرے کھیت کی طرف چوکڑی لگاتے ہیں۔ مینڈپرچرانے کے لیے آزاد رکھے جائیں وہ بے قابوہوکرکھیت میں ہی کودپڑتے ہیں۔ پھرایک کھیت سے دوسرے کھیت میں دوشیزہ نے سوال کیا۔ ’’نیندآتی ہے نا‘‘ اس کایہ سوال سن کرغصہ آیا۔
سوناہے نا؟ سہاگ رات شیوراتری کیسے ہوسکتی ہے؟ پھروہ مجھ سے کیوں ایسا سوال کرتی ہے۔ اری لڑکی! سوجا۔ میری پیاری بیوی خواب میں کھوجا۔ کیاوہ محبت بھری باتوں کی منتظرہے۔؟ یاوہ مجھے سلانے کی کوشش کرتی ہے۔ وہ آئی ہے لوری گاکرسلانے۔ کیا سبھی عورتیں اپنے اپنے شوہروں سے ایساہی سلوک کرتی ہیں؟
’’را را رِ رارو۔۔۔ میراکرشن پیدا ہوا، ایسی لوری گاکرلاڈپیار کرکے ہاتھ پرلٹائے سلا ئے جانے والے ننھے بچوں کی مانند۔ ہوسکتا ہے اس کی جنسی ہوس بھی ایک لوری کاگیت ہو۔ عورت مرد کی محافظ اورکفن ہے۔ وہ لوری گاتی ہے۔ پھراسے ختم کرکے الاپ شروع کرتی ہے۔
سوناہے نا؟
پھروہی لفظ۔ لیکن دوسرے کی آواز اپنی ہے۔ اس کے لفظوں کودوسرے کی آواز میں لپیٹ کردیناہے۔ تب اس کے لفظوں کوکیاہوا؟ مسٹربرگسنے سب کچھ ہڑپ لیا؟
اس حسینہ نے کہا’’نیندنہیں آتی‘‘
وہ کچھ نہ بولا!
تب اس نے پھرکہا ’’کالی چیونٹی کاٹتی ہے‘‘
’’بسترکوجھٹکو‘‘
’’چیونٹی ویسے جانے والی نہیں ہے‘‘
اچانک اسے اپنا ایک جملہ، یعنی مسٹربرگس ہی کااسلوب یادآیا۔ اس کی ایک سوآٹھ معشوقاؤں میں سب سے ناسمجھ مس دلاسنی کے ڈیسوزا نے اس بے وقوف سے یوں کہا تھا۔ ’’اے خدا، آپ کے سہاگ کے تماشا گاہ کی ایک کالی چیونٹی بننے کی میری ذرا بھی خواہش نہیں تھی‘‘ اس نے اس سے پوچھا، بیوقوف نے دلاسنی سے نہیں، شوہر نے بیوی سے پوچھا ’’کالی چیونٹی کہاں ہے؟ چارپائی پر یا سینے کے اوپر۔‘‘
’’سینے کے شاہ نشین پر‘‘
کالی چیونٹی ایسی ہے۔ برگس کو یادکرکے اس نے اس کا حوالہ دیا۔ اس کے کاٹنے پرناقابل برداشت درد اور ٹیس ہوگی۔ کالی چیونٹی کئی طرح کی ہوتی ہے۔ سب سے بدمعاش نیلے رنگ کی اوردبلے پتلے بدن کی سنگدل ہے۔ اس کے خاردار ڈنک میں خوفناک زہر ہے زہرمیں موت ملی ہوئی ہے۔
اس دوشیزہ نے جواب نہیں دیاتاکہ وہ ایسا نہ سمجھے کہ اس کا گلا روندھ گیاہے —اندھیرے میں آنکھوں سے ٹپکنے والے اشک کے قطرے، اس نے نہیں دیکھے۔ وہ اچھا ہی ہوا۔ تب پڑوس کے مرغ نے بانگ دی۔ جب عورتیں آنسوبہاتی ہیں تب مرغ کی بانگ سنائی پڑتی ہے۔ اب مرغ کے سرپرکلغی گھوڑسوار کی پگڑی کے کنارے کی مانند ہلتی ہوگی۔
آدھی رات کویہ شوروغل کیسے رک گیا۔
شکستہ تصور کی طرح شکستہ آواز بھی ہوتی ہے؟ کون جانتاہے؟ کہ جن ماہرین نفسیات کی میں ناقدری کرتا ہوں، میرے افکار میں ان کا اسلوب کیسے آگیا۔ شرم کی بات ہے۔
کمرے میں کچھ آوازیں؟ ہوا اور زری کی ساڑی ایک دوسرے سے ٹکراتی ہیں۔ کنگن کی جھنکار۔ وہ آرام کرسی کے پیچھے آکرکھڑی ہوگئی ہے۔ پہاری کے پیچھے کی صبح کی طرح اس کی قربت مجھ میں شعر کا خمارپیداکرتی ہے۔ اس مبارک گھڑی میں عورت مرد کے جوڑے میں سے ایک کومارگرانے والے شکاری کے نوکدار تیرکی مانند دل میں دوسری یادچبھ گئی۔ وہ وقت، جب میں بارات میں نکلنے کے لیے خود آراستہ ہورہاتھا ایک چھوکرا، ایک خط لے کرداخل ہوا۔ دولھا کے مانند ملبوس کووہ خط سونپاتھا۔ چھوٹے چھوٹے حسین حروف میں لکھی سطریں اس میں خیال کرنے کے لائق اورعلامت نگاری کا ایک جملہ۔
’’لومیری مبارکبادیاں۔ آپ کی مقدس راہ کاایک خاربننے کی تمنامجھ میں ذرابھی نہیں۔‘‘ نیچے ایک تصویر، ایک راستہ چارپانچ کانٹے بھی۔
ببول کے کانٹے اورسیاہ چیونٹی۔
خواب گاہ اورراستہ۔
پیرپرلگاکانٹا خود بخودکھسک گیا۔ سینے پرلگی چیونٹی رینگتی باہر جائے گی یا ڈنک مارکرزہرپھیلائے گی؟
اندھیرے میں دھوئیں کے مرغولے بناتاوہ یوں ہی بیٹھارہا۔ ان دائروں کے درمیان اس کے بہت پیچیدہ مسائل رہتے ہیں۔ آخردھوئیں کے ان دائروں کی مانند وہ مسائل بھی ہلکے ہوکرغائب ہوگئے۔ دائرے ہی نہیں۔ ان کوشکل دے کرباہر نکالے ہونٹ، چہرہ انسان، اس کی آرام کرسی، اس پرہاتھ رکھے کھڑی دوشیزہ، وہ کمرہ، وہ دیہات، سبھی غائب ہوگئے۔ کتنی جلدی میں یہ سب تبدیلیاں ہوئیں۔
جس کی شکل کے بدلے اب خودمسٹربرگس ظاہرہوئے۔ وہ کچھ غرور میں ہے۔ مسٹربرگس سگارنہیں پیتے۔ ہونٹ کے بائیں کونے میں زیادہ لمبا پائپ، اصلی اون کی بنی پوشاک، لمباکوٹ، کشمیری ٹوپی، گلے میں چاروں طرف لپٹاہوا مفلر، پانچ دنوں کی بڑھی داڑھی مونچھ اس کنول جیسے کھلتے چہرے کوزینت بخش رہے ہیں۔
مقام ملک سویڈن کی راجدھانی۔ وہاں کاسرکاری باغ۔ باغ میں ہرخاص وعام کی بھیڑ۔ آدمی، عورتیں، بچے، کتے سبھی کہرے کی زدمیں ہیں۔ پازیب کی ہلکی رن جھن کی آوازسے برف کے ٹکڑے جھڑتے ہیں۔ ’’ایک زمانہ میں ایک بیوقوف تھا‘‘ نام کے بڑے ناول کو اس سال کا نوبل انعام ملاتھا۔ سویڈن کے راجہ سے مرحمت کے ساتھ حاصل شدہ تاریخی تقریب کے دوسرے دن شام کاوقت تھا۔ مسٹربرگس اپنے عقیدت مندوں سے بچنے کے لیے باغ میں چکرلگارہے تھے۔
تب وہ اس کے پیچھے پیچھے چلی۔ اس کوانٹرویو چاہئے۔ دن بھر ملاقاتیوں کی بھیڑتھی۔ ہوٹل کے کمرے کاسارا ماحول بازار کی طرح لگ رہاتھا۔ پھولوں کی بیلیں۔ پھولوں کے ہار۔ بیئرکی بوتل کے ڈھکن، وہسکی کالیبل، سگارکے ٹکڑے، راکھ، مبارک بادی کی تقریر، نظمیں، ٹیلی فون کی آواز، جواب، اے خدا، کیساشوروغل ہے۔ کیا آدمی کوانعام دے کرمارڈالناہے۔ اب اس باغیچہ میں بھی تحفظ نہیں۔ شکاری کتوں سے بچ کر آیاتھا مگر یہاں بھی پھندے کے درمیان پڑگیا۔ مشہورادیب کوکہیں تحفظ نہیں۔
انسان جہاں بھی ہو، ہرجگہ اس کاشکار کیاجاتاہے۔ شکاریعنی قربانی، گفتگو، خوشامد، سوال وجواب۔ بھینسے کی شکل میں پیداہونے کی وجہ سے ہل میں چلائے جانے کی مخالفت نہیں کی جاسکتی۔ ادیب ہوتو اس کوقربانی اور گفتگوکے لیے تیاررہنا ہی چاہئے۔ لکھنے کے وقت آپ پشت کے بل لیٹتے ہیں یا اچک کر کسی تخت پربیٹھتے ہیں؟ صاحب حرف ث لکھتے وقت اس کے تخلیقی ردعمل کے جوش میں تاکید اً ث کے بدلے ش لکھا کرتے تھے؟ لیکن ادب کے باہرکی باتیں کہنا ہی مناسب ہوگا۔
پکے پھل کی مانندیہ وینتارتن بہت ہی ہوشیارمعلوم ہوتی ہے۔ کیاکیااسلحے لیے آئی ہے؟ وہ میرے قدم سونگھتی آئی ہے۔ اسے ناخوش کرنابے وقوفی ہوگی۔ ’’لاہو مانتے‘‘ یا ’’نیویارک ٹائمز‘‘ کی نمائندہ ہوگی۔ لاکھوں آدمی پڑھیں گے۔ مسٹربرگس نوبل پرائز سے نوازے گئے۔ رویندر ناتھ ٹھاکر کے بعد۔۔۔‘‘
’’یومین ٹیگور‘‘
’’یا (جی ہاں)‘‘
’’فنی اولڈمین، آف کورس‘‘
سامنے بونس کی پرجلال سنگ مرمرکی بنچ پرمسٹربرگس بیٹھ گیا۔ سنگ مرمر کے مجسمہ کی جانگھوں کی اتنی موٹائی ضروری تھی۔ کسی کی دستکاری ہے؟ مجھ سے ملاقاتی گفتگو کرنے کے لیے آراستہ ہوکرآئی للیتابھی منی اسکرٹ والی ہے۔ اس کی جانگھیں اتنی موٹی نہیں۔
و ہ سب سوال تیارکرلائی ہے۔ ملاقاتی گفتگو کے حملوں کے لیے ضروری سبھی ہتھیار پہلے ہی اکٹھا کرلائی ہے۔ وہ ایک معمولی ملاقاتی گفتگو لکھنے والی نہیں ہے۔ سچی مریدہ ہے۔ زمانے کے بنیادی مسائل اس کے موضوع ہیں۔
سنجیدہ مزاج کے مسٹربرگس کویہ سوچ کر ہنسی آئی کہ گھٹنوں تک ہی محدودمنی اسکرٹ والی اس عورت کی لال آنکھیں دنیاکے اہم مسائل پرغورکرنے کے لیے بڑا اشتیاق ظاہر کرتی ہیں۔ لیکن اس نے روکی۔ ہنسی نہیں اڑانی ہے۔ اس کی دی ہوئی فہرست سوال سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ یہ ایک عقلمند انسان ہے۔ عقلمندانسانوں کودیکھنے کے وقت بھویں تاننا اور کھلکھلاکرہنسنانہیں چاہئے۔ ننگے دانت دماغ کی ناقدری کرتے ہیں۔
مس مریاکروسی کہہ کر اس نے اپنا تعارف کرایا۔ ایڈیٹر ’’لابرگسی، لابرگسی ایک چھوٹا رسالہ ہے۔ کل ایک سوستر کی تعدادمیں چھپتاہے جوپتھر کے مطبع میں چھاپا جاتاہے۔ یہ سہ ماہی دنیاکے ڈیڑھ سوعظیم انسان پڑھیں گے۔
اس ماہنامہ کے قارئین ایساکرنے سے ہی بڑائی کی طرف بڑھتے ہیں۔ آرترملر سے لے کر شولوکوف تک اس روایت میں منسلک ہیں۔ لابرگسی میں سارتر ے کاارسال کردہ مضمون کافی فلسفیانہ نہ ہونے کی وجہ سے شائع نہیں کیاتھا۔ جس مہینے میں وہ خط چھپا اسی مہینہ میں کامو کونوبل انعام ملا۔ نوبل انعام کے پانے والے حضرات ہی اس شمارے میں مضمون لکھ سکتے ہیں۔ مرتب ہی پڑھنے والوں کا انتخاب کرتاہے۔ مسٹربرگسکاانٹرویو لینے والے لابرگسی کی خاص صلاحیتیں یہی نہیں اور بھی بہت ہیں۔
ایک ہاتھ میں نوک دارپنسل اوردوسرے ہاتھ میں کاپی لیے ہوئے وہ میرے سامنے کھڑی ہے۔ ایک حسین سنجیدہ جوان لڑکی۔ وینس کے وجدانی پس منظر میں وہ بہت حسین دکھائی دی۔ مسٹربرگس اس حسینہ کودیکھتارہا۔ اس چتون کی دلکشی یاطعن وطنز کے زخم سے پتہ نہیں کیوں وہ میرے سامنے گھاس کے میدان میں حاضرہوئی۔ وہ گھاس کی نوک سے اپناچہرہ کھجلانے لگی تومسٹر برگس کے دل میں ایک مست ہندوستانی فلمی اداکارہ کی تصویر ابھری پھربھی بات کی بات میں وہ گندی تصویرغائب ہوگئی۔ اصل میں وہ ایک مبارک حادثہ ہے۔ تم اندازہ کرسکتے ہوکہ ایک منی اسکرٹ والی نیچے گھاس پربیٹھی ہے۔ اورتم اونچائی پر بیٹھے ہو تمہاری کرگس نگاہی لٹوکی مانند کہا ں کہاں چکرلگائے گی؟ بغیرکنارے والی گھاگھری سے اس نے اپنی جانگھوں کوآڑمیں رکھنے کی کوشش کی۔ آخراپنی جانگھوں پرکاپی رکھ کربرگس کی سنہری باتوں کوقلم بندکیا۔ احترام سے دی گئی فہرست سوال پرآنکھیں گاڑے، منھ سے پائپ نکالے بغیر، اس نے دھوئیں سے ڈھکے ہوئے لفظوں میں اپناخیال ظاہرکیا۔
’’ابدال یونیورسٹی میں منعقدہ بین الاقوامی ادبی کانفرنس کی صدارتی تقریر میں ان میں سے زیادہ ترمسائل پرتذکرہ ہواہے۔ کیاتم نے اسے پڑھاہے؟‘‘
’’نہیں پڑھا‘‘
’’میزکی درازمیں رکھاہے‘‘ لابرگسی کی مدیرہ نے کہا۔
’’عظیم فکری عنصرمیز کے اندر رکھنے کے لیے نہیں۔ دل میں محفوظ رکھنے کے لیے ہیں‘‘ مسٹربرگس نے اپنی باتیں جاری رکھیں۔ اس دہائی میں مدیروں کے افکار دماغ میں نہیں، مگر الماری میں ہیں۔ میں صرف ان پرالزام نہ لگاؤں گا۔ اس زمانے میں جب کہ وہ ویدجیسا صحیفہ تک مذہبی قائدکی گدی کواونچاکرنے کاذریعہ بناہواہے۔‘‘
وہ ہنس پڑی۔ وہ بھی ہنسا۔ اس کے دانتوں کارنگ نیلاہے۔ سگارپینے سے شاید رنگین ہوگئے ہوں۔ وٹامن سی کی کمی سے بھی ایسا ہوسکتاہے۔ اپنے صندوق میں رکھی گولیوں میں ے چنددے دی جائیں تو۔۔۔؟ مغربی گوری دوشیزاؤں کی کئی کمزوریاں ہیں خامیوں کودورکرکے ان کی اصلاح کے لیے میں کیوں زحمت اٹھاؤں۔ خاص طور پرجب کہ میں نوبل انعام یافتہ ایک ایشیائی باشندہ ہوں۔
’مسٹر برگس! آپ نے میرے ساتویں سوال پردھیان نہیں دیا؟ جنسیات اور معاشرہ کے آپسی تعلقات کے بارے میں‘‘
’’یہ موجودہ تہذیب کے فیصلہ کن مسائل ہیں نا؟‘‘
’’اس مسئلے پر بے حجابانہ طورپرغورکرنا ہے۔‘‘
’’نیکڈازدی ورڈ‘‘ مس میریاکوروسی نے مان لیا۔
’’وجود کی طاقت اورحسن جنسیت ہے۔ تخلیقی ردعمل بھی جنسیت ہی ہے۔ دوسرا تخلیقی ردعمل جنسیات کاہی عکس ہے۔ شاخیں بھی کہہ سکتے ہیں۔ مغربی اقوام فراریت پسندفکر رکھتی ہے۔ آرٹ سے متعلق کوئی بنیادی تصوران کے یہاں نہیں۔ اب یہاں بس اتناہی کہنا ہے۔ وجودیت نے اس سمت میں کچھ تحقیقات شروع کی مگرمقصدتک پہنچے بغیرشکست ہوئی۔ بے باک ہوکر کہوں توتمہیں برالگے گانہ؟ تم کومرد اورعورت کی جنسی ترقی کے ممکنات کے بارے میں معلومات نہیں۔ مثال کے طورپرسارتر ے اور مادام بودے پیش ہیں۔ سارترے نظریہ وجودیت کے قائدہیں۔ اورمادام بودے مدرسپریر ہیں۔ وہ مقدس روح کا لباس اختیارکرکے صرف اداکاری کرتے ہیں۔ نئے نئے جملوں کی مشق کرکے رٹتے ہیں۔ لاقانونیت کی طرف لڑھکتے پھلستے مغربی بوژروا کی پرانی اخلاقیات پرہی وہ بنیادی طورپریقین رکھتے ہیں۔ ایک فرق یہ ہے کہ اشتراکی نظریہ میں اسے رنگ دیاگیاہے۔ وہ انقلابی نہیں ہیں چکنے چپڑے ادہام کے ایک تقسیم کارہیں۔ کیا میں اپنی بات واضح کرپایا؟‘‘
’’ہاں جناب من‘‘
’’وجودیت نابالغ لڑکے لڑکیوں کافلسفہ ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے جوانی کی شوخی بڑھاپے کی ہمت بنتی ہے۔ سامی طبقہ سچے ایشیائی باشندوں کی طرح پھل پھول نہ سکا۔ اس طبقے کے خودساختہ مذہبی گروہ نے مغربی تہذیب اور مغربی رہن سہن کی تشکیل کی۔ مغربیوں کی دماغی طاقت ان کی ایجادوں کے ذریعہ ہی قائم رہ گئی۔ انہوں نے سمجھا کہ جنسیات کی علامت سانپ ہے۔ یہ جانتے ہی سانپ کے دشمن بن گئے۔ یہ ایسا ہے جیسے ان دنوں ایٹم بم بناکر اس کاپھیلاؤ کرکے اس کی روک تھام کرنے کے لیے نعرہ لگایاجاتاہے۔ ’’کئی دنوں سے ان کی نظر مشرق کی طرف ہے۔‘‘
’’اس کامطلب کیاہے؟‘‘
’’تم جانتے ہو کہ پرانے آدم وحوا کی طرح مغربی تہذیب کے عدن باغیچے (جنت) سے خودبخودسماج سے کٹ کر لڑکے لڑکیاں گروہ درگروہ کلکتہ، دلی اورکیرل میں گھومتی پھرتی ہیں۔ فطرت کی سچائیوں کی طرف لوٹنے کووہ ترستے ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ جنسیات کے چاروں طرف سامی مذہبی عزائم کے ذریعے لپیٹے گئے بندھنوں کودورکیاجائے۔‘‘
’’نہیں‘‘ ایسا ایک بڑا بورڈ سامنے رکھ کرکون زندہ رہ سکتاہے۔ سانپ شیطان نہیں مگرخالق ہے۔ خدا کا دشمن نہیں مددگارہے۔ ہندودیوتاؤں کو دیکھو وشنولازوال ہے۔ سانپ ان کے گلے کاہارہے۔ سانپ نے ہی بھگوان بدھ کوچھتری لگادی۔ سانپ کی غیرموجودگی میں دیوتاتخلیق نہیں کرسکتے۔‘‘
’’اسی پس منظرمیں ایشیاکی آبادی کی کثرت اوریورپ کی آبادی کی کمی کے عمل کا موازنہ کرناہے۔ ہم جنگلی ہونے کی وجہ سے نسلوں کوپیدا کرتے ہیں، اس بات کا تم پرچارکرتے ہو نہ؟ تہذیبی شعورہونے کی وجہ سے تم فیملی پلاننگ کرتے ہو۔ اس پہیلی پرنئی نسل یقین نہیں رکھتی کیازندگی کے ہوش وشعورکوختم کرنا تہذیب وثقافت ہے؟ نامردی اس کا پرچمی نشان ہے۔ مغربی تہذیب مشین کی داشتہ کی شکل میں بدل گئی ہے۔ مشینوں کے ساتھ گفتگو کرنے میں تمہیں مسرت حاصل ہوتی ہے۔ گیت سننے کے لئے ریڈیو، تصویردیکھنے کے لئے ٹیلی ویژن، سیرکرنے کے لیے موٹراورجہاز، حساب کتاب کرنے کے لیے کمپیوٹر، لاش کوجلانے کے لیے بھی بجلی کی مشین۔ مغربی لوگوں کی ایسی زندگی کاکوئی فطری تعلق نہیں ہے۔ تم نتیجہ کے زینے سے ابھی گرپڑوگے۔ اس کے درمیان تمہارا مذہب پابندی کابوجھ لیے آگے بڑھتاہے۔ ایک نئے مذہب کی شکل میں علم نفسیات کی بھی ترقی ہوتی ہے۔ ان سب نے جنسیات پرپردہ ڈال رکھاہے۔ نتیجہ کے طورپر ہوسوں کااشتعال نہیں مگرخاتمہ ہوتاہے۔ مذہب اور علم نفسیات تمہارے تب وتاب کوختم کرتے ہیں۔ یورپی آدمی کانقلی روپ ہے۔ وہ اپنے اقتدار سے ہاتھ دھوچکاہے۔ تم ریاکاری میں حفاظت کی تلاش کرتے ہو۔ مصنوعی دانت، مصنوعی بال، مصنوعی سینہ، مصنوعی رنگ، مصنوعی بو، مصنوعی کمر، اب تومصنوعی دل بھی—مصنوعی انسان۔ جونوجوان اس زوال سے بچناچاہتے ہیں، وہ مشرق کی پناہ لیتے ہیں۔ روشنی کا ظہورہمیشہ مشرق میں ہوا، مگر بجھ گئی مغرب میں جاکر۔ نئی تخلیق کے وید، طرززندگی کے اور خدا کے جائے ظہور کوتلاش کرتے ہوئے آوارگی کی طرف خودبخودکودپڑنے والے مغربی حکومتوں کے مذہبی ڈھنگوں کا مقابلہ کرنے والے اور تازہ پیاس رکھنے والے نوجوان بے روک ٹوک کے جنسی نظارہ چاہتے ہیں۔ جنسی نظارہ کا مطلب ہے زندگی کی نشاۃ ثانیہ والی طاقت کاانقلاب۔ مغربی حکماء انقلاب کے آخری رسوم کی تیاری میں مشغول ہیں۔ ان سے صرف ایک ہی توقع ہوسکتی ہے۔۔۔ ٹھنڈی موت‘‘
مریا نے تتلاکرکہا’’زندگی کی پھرنشاۃ ثانیہ کہاں ہوگی مہربانی فرماکر اس بات کی وضاحت توفرمائیں۔ آپ کی بڑی مہربانی ہوگی۔‘‘ برگس کی دماغی طاقت سے وہ متاثرہونے لگی۔ اس نے بھی باتوں کوہجے کرنے کے اشتیاق سے یوں کہا ’’ہندوستان میں ہی اس کاامکان ہے۔‘‘
مسٹربرگس نے مضبوط آوازمیں کہا’’ہندوستان میں ہی! تم جانتی ہو کہ ہندوستان میں کیرل نام کاایک صوبہ ہے۔ چھوٹی سی ریاست، انسانوں سے بھرپور۔ نئے فلسفہ کاظہور وہاں سے ہی ہوگا۔‘‘
وہ نیلے رنگ کے دانت نکالے بول اٹھی، یہ نتیجہ پراسرار ہے۔‘‘ تب اس نے اپنے وطن مالوف فرانس کویادکیا۔ کیسازوال! وہاں کے دانائے حقیقت اور ادیب کتنی نیچی سطح کے ہیں۔ برگس کی پیدائش فرانس میں ہوئی ہوتی تو وہ ایک تیسرے انقلاب کا بانی بنتا۔ اس کے دل میں اس بھورے رنگ کے تئیں بیکراں عقیدت پیدا ہوگئی۔ وہ برگس کے قریب ہی بنچ پربیٹھ گئی۔
’’یوآراے جینیس۔‘‘ تھوڑی دیر تک وہ ایک دوسرے کودیکھتے رہے۔ ایک سراپاتجسس۔ اس نے کیرل کے بارے میں سوال کیا۔
’’نہایت ازمنہ قدیم سے ہی مالابار کے لوگ ناگ کے پرستارتھے۔ ازمنہ قبل ازتاریخ سے ہی وہاں کے متحدہ خاندان کے احاطے میں سانپ کے کمرے ہیں۔ وہ منقش کالے پتھر، بڑے بڑے سایہ داردرخت، سانپ کی مورتیاں وغیرہ ہیں۔ سانپ کاکمرہ سانپ کاشامیانہ ہے، مندر ہے۔ سانپ پتھر کے نیچے لیٹے سوتے ہیں۔ کبھی پتھرپردم کے بل کھڑے پھن پھیلاکر ناچتے ہیں۔ کالے سانپ، سنہرے سانپ، سنہرے نشان والے، اڑنے والے، سرپرہیرے والے ایسے کئی طرح کے سانپ ہیں۔ ہم لوگ سانپوں کاتیوہار مناتے ہیں۔ ہماری حسین دوشیزائیں سانپوں کے ناچ کے تال سے تال میل کرکے ترنگوں سی ناچتی ہیں۔ بال بکھیرے ابھری ہوئی پستان کوہلاتے ہوئے، پسینے کے قطرے ٹپکاتے، برسات کے بادل کی طرح وہ ناچتی ہیں۔ ایسے رقص وسرود کے ذریعہ مضمحل نرم ونازک کیرل عورتوں کادل بہت لطیف ہوسوں میں ڈوب جاتاہے۔ ایسی نمی کا احساس ہوتاہے جیسے مباشرت کے بعد۔ یہ خلاقانہ جنس کا فروغ رقص ہے۔ زندگی کے تئیں محبت سے بھری دعوت۔ مریاکوروسی! تم نے بائبل کاقدیم قانون مذہب پڑھا ہے نا؟‘‘
’’جی ہاں مگرکئی حصے بھول گئی ہوں۔‘‘
’’لیکن مجھے کچھ یاد ہے۔ نسیان بھی مغربی لوگوں کے لیے لاعلاج ہوگیاہے، ایسا مرض جس کاعلاج نہیں ہوتا۔ تمہاری تاریخی معلومات پرصدمہ پہنچاہے۔ سانپ کے ساتھ ربط قائم کرنے کے بعد ہی آٓدم وحوا کومباشرت کا علم ہوا۔ حوا نے سانپ کی عبادت کرکے اسے ظاہر کردیا۔ اسے وہ علم سانپ سے حاصل ہواجسے خدا نے دینے سے انکارکردیا۔ اس نے ہی پہلے سانپ کے رقص کا آغازکیاتھا۔ سانپ کے ناچ سے اس میں جذبہ پیداہوا۔ اس سے اس میں جنسی جذبہ منقش ہوا۔ جسے اس نے آدم میں بیدار کرکے اسے متاثرکیا۔ اس لمحہ سے وہ دونوں شرم میں پڑگئے۔ شرم جنسی ہوس کی تازہ پوشاک ہے۔ وہ جنسیات کوپوشیدہ نہیں کرتی بلکہ پرکشش بناتی ہے۔ یہ جان لوکہ شرم قوت تخلیق کا ایک دلآویزپردہ ہے۔ سانپ کے روپ میں جنس مجسم سے نفرت کرنااس پربھی اس کی ہدایت کے مطابق مباشرت سے لطف اندوز ہونا ان دونوں کے بیچ کشمکش مغربی زندگی کا شیرازہ بکھیرتی ہے۔ سینکڑوں برسوں سے تمہارے دل میں یہ کشاکش جاگزیں ہے، اسی پس منظر میں تمہارے اہم علم نفسیات کوایجادکیاگیاہے۔ تم نے کبھی عضوتناسل کے بارے میں سوچاہے؟ ایک کمزور لمحہ میں بھی؟‘‘
’’کبھی کبھی!‘‘
’’اس وقت تمہیں کیا تجربہ ہوا؟‘‘
’’کیسے بتاؤں؟‘‘
’’کہنے میں شرم آتی ہوتو نہ بتاؤ۔ کوئی زبردستی نہیں‘‘ برگس نے مزیدکہا۔
’’پہلے مرداورعورت کے اعضائے تناسل نہیں تھے۔ کیا تم اس تاریخی سچائی کوجانتی ہو؟‘‘
’’جی نہیں۔ اس نتیجہ کی بنیادکیاہے؟‘‘ وہ بہت زیادہ مشتاق دکھائی پڑی۔
’’عضوتناسل خداکی د ین نہیں۔ مگرسانپ کی دین ہے۔ مرداورعورت میں سانپ کاجزوہے۔ صرف وہی ایک آدمی کومرد یاعورت بناتاہے۔ یہوداشکل کے خدا نے اپنے غلاموں کے ساتھ سنگدلانہ سلوک کیاتھاتب غلاموں پرسانپ کااثرپڑا۔ پھربھی خدارحم دل ہے۔ کمزوری کی حالت میں اورغصہ کی حالت میں بھی اپنی تخلیق کا درد دینے والے بلوں کوبھی اس نے احسان مندکیا۔ پہلے ویساہی ہوا۔ تم کومعلوم ہے کہ خدا نے پہلی چیرپھاڑکی۔ عدن باغیچہ سے آدم اورحوا کوماربھگانے کی پہلی والی رات کو۔‘‘
’’یہ بات عہدنامہ قدیم میں مذکورنہیں۔‘‘
’’اب نہیں مگرپہلے تھی‘‘ مذہبی رہنماؤں نے ان سطور کونکال دیا۔ انہوں نے مقدس ویدوں میں بھی تحریف کردی ہے۔ خدا کی مقدس آوازمیں بھی۔ وہ ہی سانپ کے جانی دشمن ہیں۔ ہمیشہ سانپ کی طرف اشارہ کرکے انسان کواپنے آپ عملوں کی یاددلانے والے۔
’’خدا نے ازلی سانپ کومارڈالا۔ اس کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے۔ ایک ٹکڑا لے کر آدم کی جانگھوں کے بیچ میں سلوادیا۔ دونوں بغل میں سانپ کے دوانڈے بھی۔‘‘
’’رئیلی‘‘ مریاخوشی سے چلااٹھی۔
’یقینا ً ہی، پھر رحم دل خدا نے حوا کاپیٹ چیرڈالا۔‘‘
’’او، ہی دازکروول‘‘ اس کوتکلیف ہوئی۔
’’ایک گھونسلہ ٹانک د یا۔ اس کے لیے ایک دروازہ بھی۔ تم سانپ کے دوست ہو، اس لیے لگاتارسانپ کی پوجا کرکے افرائش نسل کرواورچین سے زندہ رہو، یوں ان دونوں کے کانوں میں کہا۔‘‘
’’زہر(منی) ہی تخلیق کاشعورہے۔ مرداپنے اندرپوشیدہ زہرکوشامل کرکے عمل تخلیق میں شریک بنتاہے۔ یہی ازلی گناہ ہے اور انسان کی نسل میں سب سے اہم کامیابی بھی۔۔۔ جنسیات اورسانپ ایک ہی ہیں۔ سانپ کے مخالف شہوانی لذتوں کے مخالف اورفطرت کے مخالف بھی ہوتے ہیں۔ خداکارشتہ داربننے کے لیے کمرکسنے والوں کوضبط نفس کی تکمیل کرنا ہوگی۔ اس اصول کا بنیادی عنصریہی ہے۔ ایک سانپ کی نسل بھی اپنے بل میں پہنچنے کوترستی ہے۔ ہرایک سانپ کابل بھی اس کازہر لینے کے لیے آرزومند رہتاہے۔ دوپھن پھیلائے، ناچتے، جنسی کھیل کوایک کھیل کی شکل دیتے ہیں۔‘‘
’’اس قسم سے میں اورتم بھی ہیں۔‘‘
’’ہاں سانپ کاجزوہمارے اندربھی پوشیدہ ہے۔ خلاقانہ جزو۔ نسلی رسوم کوقائم رکھنے کے لیے زہر۔ زندگی کا اقتدار۔‘‘
نہ معلوم کیوں اس نے ہتھیلی اوپراٹھائی۔ برگس نے کہا۔ ہتھیلی کی بناوٹ سانپ کے سرکی ہے۔ پھن پھیلاکر جھومنے والے سانپ کے سرکی۔ دیکھو، مرداورعورت ہاتھ ملاکرناچتے ہیں تب وہ سانپ بن کراداکاری کرتے ہیں۔‘‘
برگس نے اس کا ہاتھ پکڑلیا۔
اس نے مزاحمت نہیں کی۔ وہ اٹھا۔ وہ بھی اٹھی۔ اس کی دونوں ہتھیلیاں اس کی ہتھیلیوں میں سمٹ گئیں۔ برگس نے گیت گایا۔ ’’آتو پانے مے یوں من ووں کلنارتوپانپے‘‘ 8 اس کاگیت برگس کی سمجھ میں نہ آیا۔ وہ فرانسیسی زبان میں تھا۔ جنسیات کی کوئی زبان نہیں۔
یکے بعددیگرے دونوں نقش مٹ گئے۔ اسٹاک ہوم کاباغ، وینس کامجسمہ اور دھندلی روشنی کاکمرہ۔ کمرے کے اندردوسانپ، نرسانپ پھن پھیلاکرجھومتاہے۔ مادہ سانپ لیٹی ہے۔ نرسانپ نے اس کے سرکوآہستہ سے چوم لیا۔ مادہ سانپ بھی آگ کے شعلوں کی مانند چونک اٹھی اورپھن پھیلاکرجھومنے لگی۔ نرسانپ اورمادہ سانپ جھومتے ہوئے لپٹ گئے۔
آخرگیرولگے چکنے فرش پرجہاں سورج مکھی کے پھول مرجھائے پڑے تھے، وہاں سورج کی روشنی میں بغیر ہلے جلے چمکتادمکتا دو سروالا ایک ہی۔
حاشیہ
(۱) کام دیو کے دوبارہ جنم لینے کا تیوہار
(۲) ایک طرح کا پیڑ ہے جو نشان لگانے کے کام آتاہے۔
(۳) ایک کڑوی دوا۔
(۴۔ ۵۔ ۶) ملیالم شاعری کی مخصوص بحروں کے نام۔
(۷) پیشانی پر تلک لگانے کی ایک رقیق شئے
(۸) ناچوناگ۔ تن من لگاکرخوشی سے ناچوناگ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.