صدی کا سب سے بڑا آدمی
لڑائیاں ڈھیر ساری لڑی گئیں سورماؤں کی اس دھرتی پر اور دھرتی پر ہی کیوں، پانی پر بھی اور آسمان میں بھی، یہاں تک کہ گھر گھر میں۔ چاہے وہ راجپوتوں کازمانہ رہا ہو، چاہے مغلوں کا، چاہے انگریزوں کا۔ لیکن گلی میں لڑائی صرف ایک لڑی گئی ہے اور وہ بھی اسی نگر میں۔ یہ اسی لڑائی کی داستان ہے۔
دیس کو آزاد ہوئے مشکل سے چار پانچ سال ہوئے تھے۔ انہیں دنوں اس گلی میں کوئی خاندانی رئیس رہتے تھے، جن کا پورا نام رانا سے شروع ہوتا اور چندیل پر جاکر ختم ہوتا تھا۔ اتنے لمبے نام سے انہیں کوئی نہیں جانتا تھا، لوگ جانتے تھے ان کے تخلص ’’شوق‘‘ سے۔ انہیں اس بات کا بہ خوبی علم تھا کہ اردو کے جتنے بھی بڑے بڑے شاعر ہیں، ان میں زیادہ تر کے تخلص مختصر رہے ہیں۔ مثلاً میر، سودا، ذوق، جوش وغیرہ۔ اسی کی د یکھا دیکھی جب انہوں نے شاعری شروع کی تھی تو اپنا نام شوق رکھا تھا۔۔۔ اور یہ نام کہیں چلا ہو یا نہ چلا ہو، کوٹھے پر خوب چلا۔
لیکن جب عمر کے ساتھ ساتھ یہ شوق چھوٹا تو ان پر ایسا شوق چڑھا، جس نے ان کی شہرت دیس کے کونے کونے تک پھیلائی۔ جسے دیکھو وہی اس گلی کی طرف چلا جا رہا ہے، جہاں شوق صاحب کا غریب خانہ ہے۔
شوق صاحب چار منزلوں والی اپنی کوٹھی میں تیسری اٹاری کی اس کھڑکی کے پاس بیٹھے رہتے تھے جو گلی کی طرف کھلتی تھی۔ ان کے پاس سبھی کچھ تھا، لیکن سب ان کے نزدیک ماٹی کے مول تھا۔ ہاتھی تھا لیکن چڑھتے نہیں تھے، گھوڑے تھے لیکن دوڑاتے نہیں تھے، بگھی اور کار بھی تھی لیکن ہوا کرے۔ یہ سب کچھ اس لیے تھا کہ رئیس کے پاس ہونا چاہیے۔ یہ سب کوٹھی کے پچھواڑے والے باغیچے میں، جہاں نوکروں چاکروں کے لیے ڈربے بنے ہوئے تھے، پڑے پڑے چنگھاڑا یا، ہنہنایا کرتے تھے۔ کہیں دور دیہات میں ان کے سیکڑوں فارم بھی تھے جن میں اچھی پیداوار ہوتی تھی لیکن شوق صاحب کاان سب سے نہیں، بس پان، کتھے، سپاری اور چونے سے مطلب تھا۔
شوق صاحب جس کھڑکی کے پاس بیٹھتے تھے اس کی بغل میں چاندی کی پنیوں میں لپٹی پان کی گلوریوں سے سجی ایک طشتری سجی رہتی، جس میں مہنگی خوشبودار زردے کی ڈبیاں پڑی رہتیں۔ وہ موڈ کے مطابق گلوری اور تمباکو منھ میں ڈالتے، دیر تک طبیعت سے گھلاتے اور تاک تاک کر کھڑکی سے باہر گلی میں تھوک مارتے۔
جب بھی ان کی پیک کھڑکی سے باہر آتی، کسی نہ کسی کے سر اور کپڑوں پر پڑتی۔ تاریخ بتاتی ہے کہ منھ کا ایسا سٹیک نشانے باز اس نگر میں کبھی نہیں ہوا، کوئی نہیں ہوا۔ کہنے والے تو کہتے ہیں کہ کبھی کبھی لوگ ان کے نہ چوکنے والے نشانے کا امتحان لینے کے لیے نیچے سے اکنی یا اٹھنی اچھالتے تھے اور جب وہ ٹنٹناتی ہوئی سڑک پر گرتی تو پیک میں بھیگی ہوئی ہوتی تھی۔
تو جس آدمی کے کپڑے، کرتا اور دھوتی لال ہوتے، اس پر ہونے والا ردعمل شوق صاحب بڑے شوق سے دیکھتے۔ کیا وہ بائیں دائیں تاک کر چپ چاپ نکل جانا چاہتا ہے؟ کیا وہ کھڑکی کی طرف سر اٹھاتا ہے، بھنبھناتا اور انہیں کوستا ہے اور آخر میں کپڑے جھاڑ کر چل دیتا ہے؟ ایسے شریف اور بزدل قسم کے آدمیوں سے انہیں گھن آتی اور وہ بچی کھچی پیک کی سٹھی پیک دان میں تھوک دیتے۔
انہیں ایسے بہادروں کی تلاش رہتی جو کپڑے خراب ہوتے ہی ماں بہن کی دھواں دھار گالیاں بکنا شروع کر دیں، اچھلیں کودیں، آسمان سر پر اٹھالیں، رو گاکر محلے والوں اور راہ چلتوں کو اپنے اردگرد جٹا لیں۔ پھر بلکیں، بلبلائیں اور رحم کی بھیک مانگتے ہوئے انصاف کا واسطہ دیتے ہوئے کہیں کہ اب وہ کیا پہنیں گے، ان کا کیا ہوگا۔
عین اس وقت جب وہ ماتھا پیٹ پاٹ کر اوپر والے کو گالیاں دے رہا ہوتا، اسی کوٹھی سے دو نوکر نکلتے اور ادب کے ساتھ اسے اوپر لے جاتے۔ اسے چندن کے صابن سے مل مل کر نہلایا جاتا، نیا کرتا اور نئی دھوتی پہنائی جاتی، عطر سے بدن آراستہ کیا جاتا، اچھے سے اچھا کھانا کھلایا جاتا اور آخر میں اسے ہاتھی یا گھوڑے پر، جو اس کے لیے سپنا ہوتا، بٹھاکر گلی کے نکڑ تک وداع کیا جاتا۔
ایسے مہمان کو پاکر شوق صاحب پھولے نہ سماتے۔
دھیرے دھیرے ان کا نام گاؤں اور نگر کے باہر دور دور تک پہنچنے لگا۔ لوگ ہر جگہ چرچا کرتے کہ غریب نواز کی ایک کوٹھری دھوتیوں سے بھری ہوئی ہے اور دوسری ادھی اور تن زیب کے کرتوں سے۔ برآمدے میں برابر دو تین درزی سلائی کا کام کرتے رہتے ہیں۔ ان خبروں کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگ طرح طرح کی گالیاں سیکھتے، رونے کلپنے کی عادت ڈالتے اور پھر گلی کے چکر لگانا شروع کر دیتے۔ پتا نہیں کب سرکار کا من بن جائے اور تھوک بیٹھیں۔
لہٰذا اپنے اوپر تھکوانے والوں کی جو بھیڑ بڑھنی شروع ہوئی، اس کا کوئی انت نہیں تھا۔
لیکن صاحب، تعریف کیجیے تو شوق صاحب کی۔ پیک کی طرح ان کی نظر بھی نہ چوکنے والی تھی۔ آپ دوچار دن تو کیا، مہینوں تک اس گلی میں ٹہلا کیجیے، وہ آپ پر نہیں تھوکیں گے سو نہیں تھوکیں گے۔ وہ آدمی کو اس کی چال سے پہچان لیتے کہ ایسی قابلیت کس شخص میں ہے۔ کون گالیاں دیتے دیتے رو سکتا ہے۔ یہی نہیں، کوئی لاکھ انجان بن کر کھڑکی کو ان دیکھا کرتے ہوئے، نیچے سے گزرنے کی کوشش کرے، وہ سمجھ جاتے کہ ابھی کتنے دن یا ہفتے یا مہینے پہلے یہ کم بخت سور اپنے پر تھکوا چکا ہے۔ کبھی کبھی تو، جب برداشت سے باہر ہو جاتا، جھلاکر بول بھی پڑتے، ’’ابے حرام خور، ابھی مہینا بھی نہیں گزرا کہ پھر آ پہنچا؟‘‘ یا ’’تیں کیسے آگیا رے؟ میں نے کیا کہا تھا، تیرے کو ٹھیک سے گالیاں بھی نیں آتیں؟ آ گئیں کیا؟‘‘ یا ’’ارے، یہ کون ہے؟ چیتھڑو کا باپ؟ سسرے نہیں تو! میں نے کوئی ٹھیکا لیا ہے تیرے گھر بھر کا؟ بھاگ یہاں سے۔‘‘
کچھ دن تک تو کئی ایسے لوگ بھی، جو گھرانے دار تھے لیکن وقت کی مار سے خستہ حال ہو رہے تھے، پگڑی کے نیچے اپنا چہرہ چھپائے اور سرجھکائے اس گلی میں سے گزرتے اور پیک کی امید میں کھڑکی کے نیچے پہنچتے ہی اپنی چال دھیمی کر دیتے، شوق صاحب کی پکڑ میں آجاتے اور وہ بےمروت ہوکر ٹوک دیتے، ’’کیوں مجھے نرک میں ٹھیل رہے ہو مہاراج! میں تو ایسے بھی کرتا دھوتی دے دیتا، لیکن کیا کروں، اپنے قول سے ہارا ہوں!‘‘ یا ’’بس کرو بابو صاحب، گالیاں تو دے لوگے، مگر روکیسے پاؤگے؟ عادت تو ڈالی نہیں اور خواہ مخواہ اوپر سے مجھے بدنام کروگے کہ اپنی ہی جات پر تھوکتا ہے۔‘‘
اسی طرح شوق صاحب نے جنتا کو یہ احساس کرا دیا کہ ان کی پیک کے سچے حق دار کون ہیں۔
ایسے لوگ، جن کی تعداد بے حساب تھی، کھڑکی کے نیچے میلہ سا لگائے ہوئے گھومتے گھامتے رہتے اور ایک دوسرے سے یہ جاننا چاہتے کہ انہیں بھلا گالیوں سے اتنی محبت کیوں ہے۔ ان کے شاندار اور الوہی چہرے پر براق مونچھیں کتنی پھبتی ہیں! ہماری اتنی منت کے باوجود سرکار کبھی درشن دینے نیچے کیوں نہیں اترتے؟ کیا وہ سچ مچ چلنے پھرنے لائق نہیں ہیں؟ کوئی تو ملتا جس نے انہیں کھڑکی کے سوا بھی کہیں دیکھا ہوتا! لیکن یہ پکا جان لو کہ اتنا رعب دار اور خرانٹ مرد کہیں ڈھونڈھے نہ ملےگا۔ ذرا دھن دھناتی بلند آواز تو سنو، ’’لے سالے، حرام خور، چرکٹ!‘‘
مگر لوگوں کے نہ چاہتے ہوئے بھی، جب شوق صاحب کی نشانے بازی اپنے شباب پر تھی، وہ دن آ گیا جسے کبھی نہیں آنا چاہیے تھا اور جس کے بارے میں کسی نے سوچا تک نہ تھا۔ ایک مریل سا، سیکیا نوجوان، جو مہینوں سے گلی میں آ رہا تھا اور کرتا دھوتی لیتے لوگوں کو دیکھا کرتا تھا، ایک دن گھناؤنی حرکت کر بیٹھا۔ اس نے ایک ایسے شخص کو جس پر پان کی پیک بس گرنے کو تھی، جانے کدھر سے دوڑ کر دھکا مار دیا۔ وہ آدمی لڑھکتا ہوا دور جاگرا اور پیک موری کے پانی پر چھپاک کرکے رہ گئی۔
اس وقت بھیڑ نے اسے صرف بےعزت کرکے چھوڑ دیا۔
لیکن اس نوجوان نے جب وہی حرکت اگلے دن بھی کی اور کسی دوسرے آدمی کے ساتھ، تو بھیڑ کا غصہ بڑھ گیا۔ وہ برداشت نہ کر سکی۔ اس نے اسے دس پانچ ہاتھ مارے اور سمجھایا کہ ’’صبر سے کام لے، اتنے لوگ مہینوں سے لٹکے ہوئے ہیں مگر اب تک باری نہیں آئی اور تو آناً فاناً میں ہتھیا لینا چاہتا ہے!‘‘ اس نے جیسے ہی کچھ بولنے کی کوشش کی، بھیڑ دوبارہ اس پر ٹوٹ پڑی۔
’’چھوڑ دو اسے!‘‘ کھڑکی میں سے شوق صاحب نے للکار کر کہا، ’’اسی حرام زادے کو کرتا دھوتی لے جانے دو۔ چل بے، سامنے آ!‘‘
جب سامنے آیا تو شوق صاحب نے اس کا پورا جائزہ لیا، اس کا، قد کاٹھی کا، ہاتھ پیروں کا۔ سب کچھ ٹھیک ٹھاک تھا۔ عمر کا اندازہ نہیں لگ پا رہا تھا کیوں کہ مونچھیں تو پوری طرح آگئی تھیں لیکن داڑھی کے بال صرف ٹھوڑی پر ہی تھے۔ چپٹی اور گانٹھ جیسی ناک کے باوجود وہ پرکشش تھا۔ ذرا سی کھٹکنے والی بات بس یہ تھی کہ اس کی آنکھیں ٹھنڈی تھیں، ان میں کسی طرح کی بھوک یا لالچ نہیں تھی۔
اگر اس کے کپڑے گندے ہوتے تو شوق صاحب نے اسے بھگا دیا ہوتا، کیوں کہ چیتھڑے اور مٹ میلے کپڑوں پر تھوکنے سے انہیں گھن آتی تھی اور لوگ اسے جانتے بھی تھے۔
’’ہاں، تو آسامنے!‘‘ انہوں نے آسن بدلا۔
اور پھر انہوں نے اسے نچانا شروع کیا۔ بھیڑ نے یہی دیکھا کہ شوق صاحب اسے نچانچا کر مار رہے ہیں۔ ادھر تھوک ہی نہیں رہے ہیں جدھر وہ اچھل کر کھڑا ہو رہا ہے۔ اگر وہ اسے کپڑے دینا چاہتے تو جانے کب کاتھوک کر وداع کر دیا ہوتا، لیکن وہ ابھی بچے کو پڑھا رہے ہیں۔ ’’ہاں، چل بے!‘‘
شوق صاحب کو مزہ آ گیا۔ ایک مدت لمبے انتظار کے بعد انہیں کوئی مرد کا بچہ ملا تھا، جس نے اپنی چستی اور چالاکی سے ان کی نشانے بازی کو چنوتی دی تھی۔ شام کے وقت جب نوجوان نے اپنے کپڑے ٹھیک کیے، ماتھے کا پسینہ پونچھا اور ہانپتے ہوئے کھڑکی کی طرف اپنا سر اٹھایا، تو اس کے چھریرے بدن کا جائزہ لیتے ہوئے شوق صاحب نے اعلان کیا، ’’دیکھ، مرد کی زبان ایک! نہ اس کھڑکی سے میں ہٹوں گا اور نہ سڑک سے تو! چاہے رات ہو جائے چاہے دن، نہ کوئی کھائےگا نہ پیےگا نہ آرام کرےگا۔ اگر اب سے سو بار بچا لے گیا اور ایک بھی چھینٹ تیرے بدن پر نہیں گری تو کپڑوں کے سوا میرے گھوڑوں میں جو تجھے پسند آئے لے جا! اسے تانگے میں جوت چاہے بیچ کھا، جیسی تیری مرضی!‘‘
بھیڑ نے جے جے کار کیا اور کہا کہ سرکار اس بددماغ لونڈے پر کچھ زیادہ ہی مہربان ہو رہے ہیں۔
’’مجھے کچھ نہیں چاہیے۔‘‘ نوجوان نے پاؤں بدل کر کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔
’’اچھا، تو یہ مجال!‘‘ شوق صاحب نے نشانہ سادھا۔
پہلی بار، گلی میں، دروازے، کھڑکی، چھت پر براجے، پیڑ پر بیٹھے سارے عالم نے، پہلی بار اس سوال جواب سے محسوس کیا کہ یہ کوئی کھیل تماشا نہیں، کچھ دوسری ہی بات ہے، کیوں کہ یہ لونڈا نہ گالیاں دے رہا ہے نہ رو رہا ہے، صرف اپنا بچاؤ کر رہا ہے، جب کہ سرکار سچ مچ، ایمان داری سے، سچے دل سے اس پر تھوکنا چاہتے ہیں۔ پھر بھی انہیں یہ کھل رہا تھا کہ اس سسرے کو کپڑے لتے اور اب تو گھوڑا بھی، لے کر کنارے ہونا چاہیے اور دوسروں کو موقع دینا چاہیے۔ اتنے لوگ اپنا کام دھندا چھوڑ کر اتنی دیر سے، اتنے دن سے کھڑے ہیں، کچھ تو سوچنا چاہیے۔
نوجوان قاعدے سے پیک کے دائرے ہی میں تھا، اس کے باہر نہیں اور اجازت بھی یہی تھی۔ طے ہوا تھا کہ تھوکے جانے کے وقت باہر سے کوئی بھی اشارہ نہیں کرےگا اور اس کا بھی سختی سے پالن ہو رہا تھا۔ شوق صاحب اس کے غافل ہونے یا جھپکی لینے یا جھکنے کا انتظار کرتے اور بھوچک میں ہلابول دیتے۔ نوجوان کاچوکنا پن غیر معمولی تھا۔ وہ بائیں یا دائیں گھومتے گھومتے اچھل کر آگے یا پیچھے کھڑا ہو جاتا۔ کبھی کبھی تو بےمطلب گھنٹے بھر پیک کا انتظار کرنا پڑتا، لیکن موقعے کے وقت اچانک جھک کر یا اچھل کر اپنے چوکنے پن کا ثبوت دے دیتا۔
یہ سب کچھ جتنا اکتا دینے والا اور بور تھا، اتنا ہی تناؤ بھرا بھی، لیکن واہ رے شوق صاحب! وہ اوپر اپنی کھڑکی کے پاس بیٹھے بیٹھے کھابھی سکتے تھے، سو بھی سکتے تھے۔ نیچے سے کون دیکھتا ہے! اور دیکھنا بھی چاہے تو کسے دکھائی پڑے گا۔ لیکن نہیں، اصول تو اصول، راجا ہو یا رنک! وہ سست پڑنے لگے اور ادھر صبح ہونے لگی۔
’’چھوکرے!‘‘ انہوں نے سورج اگتے اگتے دوسرا اعلان کیا، حالانکہ آواز تھوڑی مدھم اور کمزور تھی، ’’میں تیری ہمت اور دلیری سے خوش ہوا۔ چاہتا تو یہی تھا کہ تو راضی خوشی اپنے گھر جا، بیوی بچوں سے، ماں باپ سے مل، ا نہیں گھوڑا دکھا، ان کے ساتھ جشن منا لیکن لگتا ہے تجھے منظور نہیں! اچھا جا، اگر آج بھی بچ گیا تو نولکھا ہاتھی تیرا! فیل بانی کر، اپنی اور اپنی دس پشتوں کی قسمت بنا!‘‘
نوجوان لڑکھڑا رہا تھا، جیسے ہوش میں نہ ہو۔ اس نے اپنی بےقابو ہوتی ہوئی زبان میں کہا، ’’مجھے کچھ نہیں چاہیے۔‘‘
’’پھر سالے کس لیے مر رہا ہے؟‘‘ بھیڑ گالیاں دیتی ہوئی اسے پیٹنے کے لیے لپکی لیکن پہلے ہی سے اس کے سر پر شوق صاحب کے نوکروں چاکروں کی تنی ہوئی لاٹھیاں دیکھیں تو ساکت ہوکر اپنی جگہ کھڑی ہو گئی۔
’’خبردار!‘‘ شوق صاحب نے اوپر سے ڈپٹ کر سب کو ہٹایا اور کھڑکی سے، ہونٹوں کو بندوق کی نالی بناکر، سدھی ہوئی پیک ماری۔
نوجوان اچھلا، کھڑا ہوتے ہوتے گرا مگر بچ گیا۔
شوق صاحب جھلا اٹھے۔ ان کا چہرہ تمتما اٹھا، نتھنے پھڑکنے لگے۔ ان کا گورا چٹا رنگ تانبے جیسا ہو گیا۔ ہمیشہ مسکراتے رہنے والے دیالو سرکار کا یہ بھیانک روپ کسی نے دیکھا نہیں تھا۔ اس کے بعد ہی انہوں نے فیصلہ ہونے تک مسلسل جنگ کا اعلان کر دیا۔
اور پھر گھنٹوں جو لڑائی چلی، اس کا اب تک کوئی ثانی نہیں ہے۔ اس کا بیان وہی کر سکتا ہے جس کی زبان میں بجلی کی چمک، بادلوں کی گرج اور موسلادھار بارش کو جذب کرنے کی طاقت ہو۔ دیکھتے دیکھتے کھڑکی سے نظر آنے والی ساری سڑک اور دیواریں لال ہونی شروع ہو گئیں۔ اس دوران نوجوان اچھلتا رہا، کودتا رہا، ناچتا رہا، گرتا پڑتا رہا۔ اس کے کپڑے تار تار ہوئے، کہنی اور گھٹنے پھوٹے، سینے پر کھرونچ آئی، مونڈھوں اور کندھوں پر موچ آئی، چھاتی دھونکنی کی طرح چلتی رہی، پسلیاں باہر جھانکنے لگیں لیکن اس کے بدن پر ایک بھی چھینٹا نہ پڑا۔
اسے شوق صاحب کے لیے ہمدردی کہیے یا اپنی لالچ، بھیڑ نے بھی اس کے ساتھ مروت نہیں دکھائی۔ الٹے وہ اس کا مذاق اڑاتی رہی، اس پر طنز کرتی رہی، بیچ بیچ میں کنکر اور لکڑیوں ک ٹکڑے تک پھینکتی رہی، لیکن اسے ڈگا نہ سکی۔
’’چھوکرے، میرے سے کوئی چال تو نہیں چل رہا ہے؟‘‘ آخر میں تھک کر کھڑکی کے پلے سے اپنے گال سٹائے ہوئے شوق صاحب نے پوچھا۔ پسینے سے تربتر نوجوان نے سر اٹھایا، ’’کیسی چال؟‘‘
’’گھناؤنی چال، یعنی کہ جادو ٹونا!‘‘
نوجوان لمبی لمبی سانسیں لیتا ہوا تاکتا رہا۔
’’پھر مجھے کیوں لگتا ہے کہ تیری گردن لمبی ہوکر کھڑکی کے سامنے آ رہی ہے، تیری آنکھیں میری آنکھوں میں گھسی آ رہی ہیں، میری پیک اوپر ہی اوپر اڑی جا رہی ہے؟ تو جہاں کھڑا ہے وہاں نظر نہیں آ رہا ہے؟‘‘
’’چال وہ چلے صاحب، جو اپنی ماں سے گھات کرے!‘‘ نوجوان ہانپتے ہوئے بولا۔
’’شاباش!‘‘ پان کی گلوری طشتری سے اٹھاتے ہوئے شوق صاحب نے خوش ہوکر سنایا، ’’شاباش بہادر، تو تیار ہوجا!‘‘
دوپہر کے بعد بھیڑ نے غور کیا کہ شوق صاحب اور چھوکرا، دونوں کھائے پیے سوئے بغیر سست پڑ چکے ہیں۔ چھوکرے سے نہ ٹھیک سے کھڑا ہوا جاتا ہے، نہ اچھلا جاتا ہے، نہ چلا جاتا ہے۔ اسی طرح شوق صاحب کے نشانے میں نہ پہلی جیسی دھار ہے، نہ طاقت، نہ سیدھاپن۔ کبھی کبھی تو وہ کھڑکی سے گردن باہر کرتے اور پیک ان کے کھلے منھ سے باہر تھوڑی سے ہوتی ہوئی بوند بوند کرکے ٹپکنے لگتی۔ ایسی بھی نوبت آئی، جب منھ کھلا رہتا اور کچھ بھی نہ گرتا۔ شام تک تو ایسا ہوا کہ نہ کھڑکی سے پیک گری اور نہ نوجوان کھڑا رہ سکا۔ وہ بائیں طرف جھکا جھکا کچھ دیر جھولتا رہا، پھر لڑھکا اور پیٹ کے بل ڈھیر ہو گیا۔ پھر کسی طرح بڑی مشقت کے بعد چت ہو سکا۔ اس نے زبان کی نوک سے اپنے ہونٹ ترکیے، دھیرے دھیرے پلکیں کھولیں اور ادھر ادھر کچھ دیکھنے کی کوشش کی۔ آخر اس کی آنکھوں نے کھڑکی ڈھونڈلی اور وہیں ٹک گئیں۔
پھر بھی سب کاخیال تھا کہ اوپر سے پیک کی ایک بھی بوند گری تو کروٹ بدلنے کی بات تو چھوڑیے، اس میں ہلنے ڈلنے تک کی طاقت نہیں رہ گئی ہے۔
لوگ تناؤ اور بے چینی سے بھرے ہوئے تھے لیکن موسم خوش گوار اور جوش بھرا تھا۔۔۔ ٹھیک ویسا ہی جیسا ہونا چاہیے۔ دن کی دھوپ اور انگ انگ کو گرما چکی تھی اور شام کی ٹھنڈ نس نس میں نیند اور چین کا نشہ گھولے جا رہی تھی۔ ندی کی طرف سے آنے والی بسنت کی ہوا پکڑی کے بچے کچھے پتوں سے چھیڑ چھاڑ کرتی اور پھر کھڑکی سے گھس کر شوق صاحب کے سفید بالوں کو سہلا جاتی۔
نیلے اور کھلے آسمان میں پہلے بڑی دیر تک صرف ایک تارا ٹمٹماتا رہا لیکن جیسے جیسے اندھیرا گھنا ہوتا گیا، سارا نیلا پن سفید کانپتے تاروں سے بھرنے لگا۔ لوگ ٹکٹکی لگائے کھڑے رہے کہ دیکھیں اس قتل کی رات میں کیا ہوتا ہے، بوند کب گرتی ہے!
اسی بوند کا انتظار کرتے کرتے اور ہوتے ہواتے صبح ہوئی تو چاروں طرف ایک سنسنی اور دہشت پھیل رہی تھی۔ نوجوان وہاں نہیں تھا جہاں پڑا تھا۔ وہ ادھر ادھر بھی کہیں نہیں تھا۔ بھور میں تھوڑی دیر کے لیے لوگوں کو جھپکی آئی اور اس نے موقعے کا فائدہ اٹھا لیا۔ جتنی منھ اتنی باتیں۔ کسی نے اندھیرے میں نہورے نہورے اسے بھاگتے ہوئے دیکھا تھا تو کسی نے کچھ لوگوں کو اسے بھگالے جاتے ہوئے۔ شوق صاحب کے آدمی بھی شک سے بری نہیں تھے لیکن یہ بھی تھا کہ ان کے لیے اس کی اوقات مکھی سے زیادہ نہ تھی۔ جو کام کبھی بھی ہو سکتا تھا، اس کے لیے چوری کی کیا ضرورت؟
لوگوں نے شوق صاحب سے کہا، ان کے اپنے لوگوں نے بھی اور بھیڑ نے بھی، کہ حضور کے آگے ایک لونڈے کی کیا بساط؟ وہ کیا کھاکر ٹکتا؟ یہ کیا کم ہے کہ اتنے دن ڈٹا رہ گیا؟ لہذا اس کی چنتا چھوڑیں اور دنیا کو دیکھیں، اس کے دکھ درد اور تکلیف کو سنیں، لیکن ان پر ان باتوں کا کوئی اثر نہیں پڑ رہا تھا۔ وہ کھڑکی کے پاس اداس اور گم سم بیٹھے تھے۔ نہ کچھ کھا پی رہے تھے اور نہ بول بتیا رہے تھے۔ انہوں نے چاروں دشاؤں میں اپنے ہاتھی، گھوڑے اور بگھی دوڑا رکھے تھے۔ کبھی کبھی تو ان کی گردن کھڑکی سے باہر آتی اور وہ اس اطمینان کے لیے نیچے جھانکتے کہ نوجوان سچ مچ غائب ہے یا ان کے ساتھ مذاق کیا جا رہا ہے۔
یہ اعلان کرتے ہوئے ان کی آنکھوں میں آنسو تھے اور وہ آنسو گالوں پر ڈھلک ڈھلک آ رہے تھے کہ وہ کسی پر نہیں تھوکیں گے، جب تک جرم کرنے والا، اسے بھگانے والا، خود سامنے آکر قبول نہیں کرتا۔
اس اعلان کا بڑا دردناک اثر ہوا۔ اسے سنتے ہی بھیڑ کے دکنی چھور پر، جہاں پکڑی کا پیڑ تھا، جس کی ڈالیں چھوٹے بڑے، ادھ ننگے جسموں اور سروں سے لدی ہوئی تھیں، کوئی بولا، ’’ہائے کرتا!‘‘ دوسر ے کسی کونے سے ایک اور آواز آئی، ’’ہائے دھوتی!‘‘ دھیرے دھیرے ہر کونے سے آوازیں آنی شروع ہوئیں اور یہ کیرتن سا سنائی پڑنے لگا، ’’۔۔۔ ہائے کرتا، ہائے دھوتی! ہائے چاول، ہائے روٹی!‘‘
کچھ، جو چپ چاپ کھڑے تھے اور گا نہیں رہے تھے، شک کی نگاہوں سے آگے پیچھے تاک رہے تھے اور سب کی بھلائی کو دیکھتے ہوئے آگے آنے کے لیے ایک دوسرے کو اکسا رہے تھے۔
’’حضور!‘‘ آخرکار ایک بوڑھا آگے بڑھا اور دونوں ہاتھ اٹھاکر چلایا، ’’یہ قصور میرا ہے!‘‘
شوق صاحب نے اپنی آنکھیں پونچھیں، ’’کون ہے تو؟‘‘
’’اس ابھاگے کا باپ۔‘‘ بوڑھا بولا۔
’’کیا کرتا ہے تو؟‘‘
’’تھا تو ہل واہا حضور، لیکن جب سے زمین داری گئی، اس نگر میں رکشا کھینچ رہا ہوں۔‘‘
’’اور تیرا بیٹا، وہ کیا کرتا ہے؟‘‘
’’کچھ نہیں سرکار! آوارہ اور نکما ہے۔ رات رات بھر دوستوں میں گپیں لڑاتا ہے، گھر سے غائب رہتا ہے اور بھی جانے کیا کیا کرتا ہے۔‘‘
’’انقلابی تو نہیں ہے؟‘‘
’’پتا نہیں حضور!‘‘
شوق صاحب اسے چپ چاپ گھورتے رہے۔ اطمینان سے ان کی آنکھیں چمک رہی تھیں۔
’’مگر ایسا کیوں کیا تونے؟‘‘
’’حضور، وہ میرا خون ہے اور میں اسے جانتا ہوں۔ وہ نہیں مرتا، ہرگز نہیں مرتا، لیکن آپ، سرکار۔۔۔‘‘ وہ ہکلانے لگا، ’’اگر آپ کو کچھ ہوجاتا تو ہم کہیں کے نہ رہتے۔‘‘
’’لیکن تو نے دنیا کو جو بتایا کہ سرکار تیرے بیٹے کے مقابلے میں کمزور اور بزدل ہیں، اس کے لیے کیا کہتا ہے؟‘‘
بوڑھا سوچ میں پڑ گیا۔ اس نے یہ نہ سوچا تھا کہ اس کا مطلب ایسا بھی ہو سکتا ہے۔ اس نے مدد کے لیے ادھر ادھر دیکھا۔ لوگ باگ پیچھے سے گردن اچکا اچکاکر دیکھ رہے تھے اور اسے سننے کی کوشش کر رہے تھے۔
’’سرکار، بزدل وہ ہے جو میدان چھوڑ دے، آپ نہیں!‘‘
’’یہ بات نہیں ہے بڈھے!‘‘ شوق صاحب کچھ دیر سوچتے رہے، ’’صاف صاف بول، تونے کس کی جان بچائی؟ میری یا اپنے بیٹے کی؟‘‘
’’اپنے بیٹے کی حضور!‘‘
’’وہ کیسے؟‘‘
’’اگر آپ نہ ہوتے تو یہ لوگ، جو چاروں طرف پھیلے ہوئے ہیں اور کیرتن کر رہے ہیں، اسے زندہ نہ چھوڑتے۔‘‘
’’سو کب؟ کب نہیں چھوڑتے؟‘‘
’’پہلے بھی اور اب بھی۔‘‘
’’اب بھی؟ یہ بھلا کیوں؟‘‘
’’یہ اس لیے کہ آپ ہیں تو ہم ہیں، آپ نہیں تو ہم نہیں۔‘‘
شوق صاحب ہنسے اور بڑی زور کی ہنسی ہنسے۔ ان کا بھاری بدن جب شانت ہوا تو بولے، ’’بڈھے، بہت چالاک ہے تو! میں تیرے سے خوش بھی ہوں اور ناراض بھی۔ خوش اس لیے کہ تو نے میری جان بچائی لیکن نام بیٹے کا لیا اور ناراض اس لیے کہ تونے ایک ساتھ سب کو ذلیل کیا، مجھے بھی، اس جمہوریت کو بھی اور بیٹے کی بہادری کو بھی۔۔۔ تو بول، تیری منشا کیا ہے؟ کیا چاہتا ہے تو؟‘‘
’’سرکار!‘‘ بڈھے نے س جھکا لیا۔
وہ چوب داروں کے بیچ کھڑا تھا اور سوچ نہیں پا رہا تھا کہ کیا کہے۔ اسے سرکار کے رخ کا بھی اندازہ نہیں ہو رہا تھا کہ وہ اس سے کیا سننا چاہتے ہیں۔ جب کافی دیر تک بڈھا شش و پنج میں کھڑا رہا اور کچھ نہ بول سکا تو شوق صاحب بھیڑ سے مخاطب ہوئے، ’’لوگو!‘‘ انہوں نے بھیڑ میں اعلان کیا، ’’وہ نوجوان جہاں کہیں بھی ہو، آسمان میں ہو تو آسمان میں سے، پاتال میں ہو تو پاتال میں سے، دھرتی پر ہو تو دھرتی پر سے، پکڑ کر حاضر کرو! جو حاضر کرےگا وہ بخشش کا حق دار ہوگا۔ جاؤ!‘‘
بھیڑ دھیرے دھیرے چھٹنے لگی۔ لوگ دوڑتے گھومتے نظر آئے۔ شوق صاحب نے اپنے اعلان میں پانچ دن کی مہلت دی تھی اور کہا تھا کہ اس دوران وہ یہ وچار کریں گے کہ تھوکنے کا سلسلہ آگے بھی چلایا جائے یا بند کر دیا جائے۔ ان کی اس دھونس نے ہر آدمی کو چست اور بےچین کر دیا تھا۔
دیکھتے دیکھتے گلی سونی ہو گئی۔
’’بڈھے!‘‘ جب سارے لوگ چلے گئے اور کوئی نہیں رہ گیا تو شوق صاحب بولے، ’’تونے اپنے بیٹے کی قیمت نہیں جانی بڈھے! بڑی قیمتی چیز ہے وہ! بول کتنا لگائےگا اس کا مول؟‘‘
’’سرکار!‘‘ بوڑھے نے تذبذب میں سڑک پر اپنا ماتھا رکھ دیا۔
’’میں تھک گیاں ہوں اور زیادہ تھوکنا میرے بس کا نہیں۔ اب یہ کام تیرا بیٹا کرے تو کیسا رہے؟ اسی گدی پر بیٹھ کر، اسی کھڑکی کے پاس!‘‘
بڈھا اٹھ کھڑا ہوا اس کا منھ کھلا تھا اور دیر تک کھلا رہا۔ وہ بے یقینی کے ساتھ کھڑکی کی طرف دیکھ رہا تھا۔ اس نے سورج کو گواہ کرکے دونوں ہاتھ جوڑے اور آنکھیں بند کر لیں، ’’پیر کی دھول کو چندن بنانے والے پروردگار! ایسا نہ کریں، نہیں تو میں پاگل ہو جاؤں گا۔ مارے خوشی کے مر جاؤں گا!‘‘
جب اس نے آنکھیں کھولیں تو اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ اس نے بےچینی سے بےحال ہوکر کہا، ’’سرکار، آپ نے جو ابھی ابھی کہا، اسے بھول تو نہ جائیں گے؟‘‘
’’بڈھے! شوق جو کہتا ہے اسے کبھی نہیں بھولتا۔‘‘
بڈھے کی خوشی کا ٹھکانا نہ تھا لیکن اس کی گھبراہٹ بڑھتی جا رہی تھی۔ بیٹا آنے میں دیر کر رہا تھا۔ اب تک اسے لے کر ہاتھی لوٹے تھے، نہ گھوڑے، نہ بگھی۔ اسے خود پتا نہیں تھا، ورنہ دوڑا ہوا گیا ہوتا اور پکڑ لایا ہوتا۔
’’سرکار!‘‘ اس نے التماس کیا، ’’اگر اجازت دیں تو میں خود دیکھوں؟‘‘
’’نہیں، تو یہاں سے نہیں ہل سکتا!‘‘ شوق صاحب نے درشت لہجے میں کہا۔
بڈھا سر جھکاکر سوچنے لگا کہ اس کا بیٹا جو بڑا ہی بے کہا اور ضدی ہے، کہاں کہاں جا سکتا ہے۔ ٹھیک اسی وقت نہ جانے کہاں سے ان کے من میں ایک شک پیدا ہوا۔
’’لیکن حضور! وہ نیچ جات، دوسروں پر تھوکنا اسے کیسے سوبھےگا؟‘‘ اس نے شوق صاحب سے عرض کیا۔
’’کیوں؟‘‘
’’اس کے بھائی بند یہ کیسے برداشت کریں گے؟‘‘
’’جیسے مجھے کرتے ہیں۔‘‘
بڈھا ہنسا، ’’آپ کی بات اور ہے سرکار!‘‘
’’ہاں، یہ بات تو ہے۔‘‘ شوق صاحب گمبھیر ہو گئے اور سوچنے لگے۔ انہوں نے کئی بار چٹکیوں سے اپنی بھنویں مسلیں، پان کی گلوریاں جمائیں، پیک دان اٹھایا اور آخر میں راحت کی سانس لی، ’’میں نے فیصلہ کر لیا بڈھے! اگر وہ تھوکے اور سب سے پہلے تجھی سے شروع کرے تو کیسا رہے؟‘‘
بڈھا ہچکچایا، ’’کیا مطلب سرکار؟‘‘
’’مطلب یہ کہ کسی اور پر تھوکنے سے پہلے، اپنے باپ پر تھوکے، تو دوسروں کو کیا اعتراض؟‘‘
بڈھے کا جی دھک سے رہ گیا۔ وہ گھبرا اٹھا، ’’غضب ہو جائےگا سرکار! وہ جان دے دےگا لیکن یہ نہیں کرےگا۔‘‘
’’وہ کیا کرےگا، کیا نہیں کرےگا، یہ مجھ پر چھوڑ!‘‘ شوق صاحب نے اسے ڈانٹ کر ترنت چپ کرا دیا۔
شوق صاحب اب کچھ بھی سننے کو تیار نہیں لگ رہے تھے۔ وہ پرسکون ہو گئے تھے اور بڑی تیزی سے ان کا موڈ بدل رہاتھا۔ وہ کچھ گنگنا رہے تھے اور ران پر تال دے رہے تھے۔ جانے کتنے دنوں کے بعد کام دھام سے فرصت ملی تھی انہیں۔ انہوں نے جمائی لی اور منھ کے آگے چٹکیاں بجائیں۔
کیا کریں کہ دن کٹے؟ یہ بات ان کے اندر اٹھنے لگی تھی۔ انہوں نے باہر دیکھا۔ نہ لوگ تھے، نہ گریا نا تھا، نہ گھگھیانا تھا۔ پان سے لال سڑک پر جان لیوا سناٹا تھا اور اس سے وقت نہیں کٹ سکتا تھا۔ انہوں نے اپنا سر کھجلایا اور تب تک کھجلاتے رہے جب تک ہاتھ درد نہیں کرنے لگا۔ پھر پیٹھ کھجلائی، پھر ہاتھوں کی انگلیاں چٹخائیں، پھر دانت کریدے اور کریدتے رہے۔ آخر میں شیشہ اٹھاکر جب چہرہ دیکھ رہے تھے تو کوٹھے کے دن یاد آنے لگے۔ خاص طور سے بیلا کی یاد آئی۔ ائے ہائے! کیا گلا پایا تھا، کیا ترنم تھا اور کیا لوچ تھا۔۔۔
’’ایک بار پھر سوچ لیں حضور! یہ اس پر بھی ظلم ہوگا اور مجھ پر بھی۔ ہم کسے منھ دکھائیں گے؟‘‘ بڈھے سے رہا نہ گیا، اس نے پھر فریاد کی۔ شوق صاحب جھلا اٹھے، انہیں غصہ آ گیا۔
’’بےوقوف بڈھے! بھاگ سراہ اپنا کہ تیرا بیٹا، جو تیرے خیال سے آوارہ اور نکما ہے، تجھے وہ سب کچھ مہیا کرنے آ رہا ہے جس کے لیے ہر باپ جھینکا کرتا ہے، سمجھا؟‘‘ یہ کہہ کر انہوں نے نیچے جھانکا اور تھوڑی دیر چپ رہے۔ پھر بولے، ’’دیکھ! دماغ مت چاٹ۔ زندگی کے مزے لے۔ جب بڑے آدمی کی صحبت کی ہے تو عیش کر۔ بول، کیا سنےگا؟ ٹھمری یا دادرا؟ ویسے موسم چیتا کا ہے۔ آہاہا! کوہی ٹھیاں جھولنی حیرانی ہوراما!‘‘ شوق صاحب نے آنکھیں بند کیں اور اندر کسی کو آوازدی، ’’او، کون ہے ادھر؟ بیلا بائی کو بھیج تو!‘‘
بڈھے نے اپنے کانوں میں انگلیاں گھسیڑ لیں۔ اس کاماتھا چکرانے لگا۔ اگر چوب داروں نے اسے سہارا نہ دیا ہوتا تو وہ بہرا پڑا ہوتا۔ اس کے دماغ میں اتنا تو آ رہا تھا کہ سرکار ٹھیک ہی کر رہے ہیں۔ وہ پکا آم، جانے کب چو جائے۔ کے دن کی زندگانی ہے اس کی! لوگ بال بچوں ہی کے لیے جیتے ہیں اور یہاں بیٹے کو راج مل رہا ہے اور وہ بھی اپنے آپ۔ دنیا اسے ’’حضور‘‘، ’’مالک‘‘ اور ’’سرکار‘‘ کہا کرےگی اور تھوکوانے کے لیے ترسا کرے گی لیکن من کہہ رہا تھا کہ ایسے جینے سے تو مرجانا اچھا۔ وہ بھی کیا باپ جس پر بیٹا تھوکے!
اچانک جانے کہاں سے، شاید اس کی انتر آتما سے، آواز آئی کہ لاکھ ڈھونڈھو، وہ نہیں ملےگا! اسے گدگدی سی محسوس ہوئی اور اس نے اوپر تاکا۔ گراموفون کا ریکارڈ پورے سر میں بج رہا تھا اور کھڑکی پر بیٹھے بیٹھے شوق صاحب جھوم رہے تھے۔
’’سرکار، اگر وہ نہ آئے تو؟‘‘ بڈھے نے خوشی میں چلاکر پوچھا۔
شوق صاحب کا دھیان ٹوٹا۔ انہوں نے ناک بھوں سکیڑی۔ انہیں یہ کھٹ راگ بڑا ہی بے سرا لگا، پھر بھی انہوں نے ضبط سے کام لیا، ’’ابے الو کے پٹھے! اسے بلا کون رہا ہے؟ وہ لایا جا رہا ہے!‘‘
’’لیکن وہ نہ ملے تو؟‘‘ بڈھا اسی رو میں چلایا۔
شوق صاحب نے بیلابائی کو، یا جو بھی رہی تھیں انہیں، تھوڑی دیر کے لیے چپ کروایا اور غصے سے بڈھے کو دیکھا۔ بڈھا سڑک کے بیچوں بیچ کھڑا، منھ اٹھائے، مچمچاتی آنکھوں سے ان کی طرف تاک رہا تھا۔ اس کے ہاتھ جڑے تھے اور کانپ رہے تھے۔ اغل بغل چوبدار اس کی بانہہ پکڑے ہوئے اسے دھتکار رہے تھے۔
غصے میں تو بہت تھے شوق صاحب، لیکن انہیں رحم آ گیا۔ ادھر چیتا نے بھی ان کے دل کو نرمی اور سخاوت سے بھر دیا تھا۔ وہ ونود میں مسکرا اٹھے، ’’بھانڈوں اور لونڈوں کے ناچ کے رسیا بڈھے! تجھے مجرے کا مزہ کیا معلوم! تبھی تنگ جوتی کی طرح بیچ بیچ میں کاٹ رہا ہے۔ اچھا، اب ساری باتوں کا لب لباب سن لے اور یہ ہائے ہائے بند کر۔ رعایت نہیں چلےگی یہاں۔ اگر تونے تھوکنے والے کو بیٹا جان کر گالیاں دینے میں، رونے میں، گڑگڑانے میں کوتاہی کی، چوک کی، تو یاد رکھ! ایک بار نہیں، دوبار نہیں، تین بار نہیں، وہ تب تک تھوکتا جائےگا جب تک ہمیں سنتوش نہ ہو، بس! ہاں، تو بیلا رانی، اب شروع کر!‘‘
گراموفون کی آواز پھر کھڑکی سے باہر آئی اور دھوپ میں بل کھانے لگی۔ شوق صاحب تال ہی نہیں دے رہے تھے، سمے سمے پر سر بھی ملا رہے تھے۔ بڈھے نے اونچی آواز میں کچھ کہا، لیکن خود نہیں سن سکا کہ کیا کہہ رہا ہے۔
وہ پالتی مارکر وہیں سڑک پر بیٹھ گیا۔
شوق صاحب انتظار کر رہے تھے آنے کا۔
بڈھا انتظار کر رہا تھا نہ آنے کا۔
یہ پہلا دن تھا۔ چار دن اور باقی تھے۔
شوق صاحب کے نام پر بنے اس نگر کے اس چوراہے پر، جسے لوگ ’’شوق‘‘ کی جگہ ’’’چوک‘‘ کہتے ہیں، سال میں ایک بار برہا دنگل ہوتا ہے، جس میں برہا گانے والی دونوں پارٹیاں آپس میں سوال جواب کرتی ہیں۔ حالانکہ ہر کوئی جانتا ہے کہ چھٹے روز کیا ہوا تھا، پھر بھی برہیوں کی آخری لڑنت ہوتی ہے بھور میں، جس کے فیصلے کا دارومدار ان سوالوں کے جواب پر ہوتا ہے کہ نوجوان ملا یا نہیں، گدی پر بیٹھنے کے لیے کہا گیا تو بیٹھا یا نہیں، اپنے باپ پر تھوکا یا نہیں، تھوکا تو باپ نے کچھ کیا یا نہیں۔۔۔
اس میں شک نہیں کہ جواب تو اچھے سے اچھے دیے جاتے ہیں مگر سننے والوں کا من نہیں بھرتا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.