Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

صدیوں بھرا لمحہ

نجیبہ عارف

صدیوں بھرا لمحہ

نجیبہ عارف

MORE BYنجیبہ عارف

    شہر کے مرکز میں یہ کیتھڈرل ہے۔ بہت اونچا اور شان دار۔ ایک خوب صورت عمارت ، جو دل موہ لیتی ہے۔

    رات کے نو بجے ہیں اور ملگجے اندھیرے میں اس بڑے چوک کے عین بیچ میں مینار کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر میں سوچ رہی ہوں کہ کچھ نہ سوچوں،

    نہ یہ کہ آج اس شہر میں میرا آخری اتوار ہے،

    نہ یہ کہ ابھی کچھ خریداری باقی ہے،

    نہ یہ کہ پرسوں صبح صبح برلن جانا ہے اور اس کی تیاری ابھی کرنا ہے،

    نہ یہ کہ دعوت کے برتن دھلنے والے ہیں،

    اور نہ یہ کہ بچے بھی دور ہیں اور محبوب بھی۔

    مگر کچھ نہ سوچنا کس قدر دشوار ہوتا ہے۔ جب انسان کچھ نہیں سوچتا تب یہ سوچ رہا ہوتا ہے کہ اب کچھ نہیں سوچ رہا اور لطف و لذت کے لمحات کو شعوری طور پر محسوس کرنا تو اس سے بھی زیادہ مشکل ہے۔ ذرا شعور جاگا نہیں کہ لطف کا احساس اڑ گیا۔ یہی تھا وہ لمحہ جس کے انتظار میں دل میں سرسراہٹ سی ہونے لگتی تھی۔ اب کہاں ہے وہ سرسراہٹ۔ سارا لطف تو انتظار میں تھا۔ طلب میں جو پیاس بھڑکاتی ہے، اسے بجھا کر آدمی کس قدر نڈھال اور خالی ہاتھ سا ہو جاتا ہے۔

    اسی لیے انسان کسی نہ کسی بےخودی کی تلاش میں رہتا ہے۔ یہ گرجا، یہ خانقاہیں، یہ شراب خانے۔

    میرے دائیں طرف شراب کی ایک ٹوٹی ہوئی بوتل پڑی ہے۔

    شاید کسی نے پی کر توڑ ڈالی۔

    بائیں طرف گرجے کی بلند و بالا عمارت ہے جو روشنیوں کے نرغے میں اس وقار و تمکنت سے کھڑی ہے جیسے ابھی ابھی بادشاہ وقت نے اس کی چوکھٹ چومی ہو، ہوا میں بوسوں کی آہٹ ہے، اکا دکا جوڑے ادھر ادھر پھر رہے ہیں، گرجے کی سیڑھیوں پر بیٹھے ہیں، تصویریں کھینچ رہے ہیں یا ایک دوسرے سے لپٹ رہے ہیں۔ جدائی کا خوف بھینچے ڈالتا ہے۔

    چند ایک بارفلیش چمکی پھر سب آہستہ آہستہ غائب ہو گئے یا نظروں سے اتنی دور چلے گئے کہ ان کی موجودگی کا احساس مٹ گیا۔ خاموشی بڑھتی گئی، باہر بھی اندر بھی۔ یہ اتوار کی شام ہے، کہنے کو تو نو بج رہے ہیں، مگر آسمان پر سرخی ادھ کھلے ہونٹوں کی لالی کی طرح کنارے کنارے نظر آ رہی ہے۔ یہ سرخی تھوڑی دیر میں دھل جائےگی اور ایک سیاہ رات کانزول ہوگا۔ مگر یہاں ایفرٹ کے اس مرکزی چوک میں رات، رات بھر اس کے دروازے پہ کھڑی رہتی ہے اور اندر نہیں آ پاتی۔

    آج خاموشی کچھ زیادہ ہے۔ مجھے لگتا ہے اس خاموشی کا اہتمام میرے لیے کیا گیا ہے۔ جیسے نئے نئے شادی شدہ جوڑے کو گھر والے شروع شروع میں خلوت مہیا کر دیا کرتے ہیں۔ شاید اس فضانے میری خواہش کی بو سونگھ لی ہے اور سب کو اس طرف آنے سے روک دیا ہے۔ دور چوک کے کنارے، کرسیوں پر لوگوں کے ہیولے دکھائی دیتے ہیں مگر ان کی آواز نہیں آتی۔ میں نے ایک بار پھر اس لمحے کی تعظیم میں کچھ نہ سوچنے کی کوشش کی۔ لیکن ماضی اس شہر کا پرانا باسی ہے، وہ ہر راہ چلتے کا ہاتھ تھام لیتا ہے۔ پاس آکر بیٹھ جاتا ہے۔

    اس وسیع و عریض چوک میں گھوڑوں پر بیٹھ کر، چست لباس میں ملبوس سپاہی گشت کرتے تھے، ہاتھ میں ٹھوٹھے تھام کر گرجے کے تپسوی، اپنی خانقاہ سے نکل کر سیڑھیاں اترتے اور شہر والوں سے خیرات لینے جاتے تھے۔ انہیں اس شہر کی رونقیں کیسی لگتی ہوں گی۔ گلیوں سے گزرتی ناریوں کے سفید ہاتھ اور بادامی آنکھیں انہیں کچھ نہیں کہتی تھیں؟ گھروں کی کھڑکیوں سے لٹکے پھولوں بھرے گملے اور پردوں سے چھن چھن کر آتی بچوں کی ہنسی اور گرم سوپ کی خوشبو، انہیں لوٹ کر اپنی تاریک کوٹھڑی میں جانے سے روکتی نہیں تھی؟ انہیں یہ بازار نہیں بلاتے تھے؟ یہ چوک، جہاں میلے سجتے تھے، منڈی لگتی تھی، اس علاقے کی بڑی منڈی، جہاں ملک ملک کے تاجر اپنا مال بیچنے آتے تھے۔ قریب ہی وہ لمبا بازار ہے جو دراصل سارے کا سارا ایک پل ہے۔ یہ پل ایک دریا پر تعمیر کیا گیا ہے جو شہر کے بیچوں بیچ گزرتا ہے۔ مگر کئی صدیاں پہلے اس دریا کے ایک طویل حصے پر ایسا پل بنایا گیا تھا جس کے دونوں طرف تین منزلہ عمارتیں ہیں اور درمیان میں بازار ہے۔ اس پل کا نام ہی مرچنٹس برج ہے۔ یہاں وسط ایشیاء، یورپ اور دنیا بھر سے تجار سامان تجارت لے کر آتے تھے اور اپنی اپنی دکانیں سجاتے تھے۔ یہ بازار اس زمانے میں بھی شہر کا سب سے مہنگا بازار تھا اور آج بھی اس کے دونوں طرف سونے چاندی اور قیمتی پتھروں کی دکانیں ہیں جہاں سے خریداری کرنے کے لیے ذوق کافی نہیں۔ یہ تاجر ذوق بھی خرید لیا کرتے تھے۔ ان دکانوں کے اوپر تب بھی مختلف فنون سے تعلق رکھنے والے لوگ بستے تھے اور آج بھی یہ فنکارروں کی گلی ہے۔ ان مہنگی دکانوں کے اوپر سادہ اور پرانی طرز کے مکانوں میں آرٹسٹ رہتے ہیں یا پھر ان کے سٹوڈیو ہیں۔ فن کو بھی بازار کی قربت پسند ہے۔

    کل اور آج میں کتنا فرق ہے، مگر دونوں کتنے ایک جیسے ہیں۔ کل اس کیتھڈرل میں کسی عام آدمی کا گز ر آسان نہیں تھا۔ یہ صرف بادشاہ، امرائے سلطنت اور خواص کی عبادت قبول کرتا تھا۔ آج یہاں کوئی بھی جا سکتا ہے۔ وہ بھی جسے عبادت کرنی ہے اور وہ بھی جسے سیاحت کرنی ہے۔ کل جن لوگوں نے کثر سرمایہ خرچ کر کے اس گرجے میں تدفین کا بندوبست کیا تھا، ان کی قبریں اب گرجے کا فرش بن گئی ہیں۔ چلتے چلتے اچانک نیچے دیکھو تو کسی شبیہ کا احساس قدم روک لیتا ہے۔

    ارے! یہ تو قبر کی سل ہے۔ کسی کا نام بھی لکھاہے۔ تاریخ پیدائش اور تاریخ وفات بھی درج ہے اور کئی ایک پر مرنے والے کی تصویر بھی کھدی ہے۔ لاطینی زبان کی عبارتیں بھی درج ہیں۔ شاید انجیل مقدس کی آیات ہیں۔ اب انہیں پڑھنے والا خال خال ہی ملتا ہے۔

    مگر تب تو انجیل مقدس کاکسی اور زبان میں ترجمہ ناجائز تھا۔

    چودھویں صدی سے لے کر انیسویں صدی تک کی قبریں یہاں موجود ہیں۔ ان قبر نشینوں نے اس گرجے میں دفن ہونے کے لیے کیا کچھ نہ کیا ہوگا اور ان کی اولاد سالوں اس بات پر اتراتی رہی ہوگی کہ ان کے باپ دادا اس عظیم الشان کیتھڈرل میں دفن ہیں۔ ان سنگی کتبوں کی تیاری میں کتنا وقت لگا ہوگا، کتنا اہتمام ہوا ہوگا۔ ان کی تدفین کے مناظر کس قدر یادگار رہے ہوں گے۔ شاید شاہی فوجوں نے سلا می دی ہوگی۔ شاید عوام الناس نے آنسو بہائے ہوں گے، نہ جانے خوشی کے یا غم کے۔ ان میں کچھ عورتیں بھی ہیں۔ اکثر تو اسی گرجے کی راہبائیں ہیں۔ شاید وہ جو زیادہ نیک اور عبادت گزار ہوں گی، یا پھر زیادہ مقبول اور دل پسند۔ کون جانے، قبر دیکھ کر دل کا حال کون بتا سکتا ہے، یہاں تو چہرہ دیکھ کر بھی دل کا حال نہیں بتایا جا سکتا اور اب یہ قبر نشیں، مگر شاید قبر نشیں کا لفظ ان کے لیے مناسب نہیں۔ تو پھر کیا ہو نا چاہیے، قبروں کے مکیں؟

    مگر کیا واقعی یہ ان قبروں کے مکیں ہیں؟

    کیا انسان کی ہڈیوں، ناخنوں اور بالوں کا اس کی خودی سے رشتہ ہمیشہ قائم رہتا ہے؟

    انسان کا سانس جب ہوا میں تحلیل ہونے کے بعد دوبارہ بدن میں نہیں لوٹتا اور اس کے سارے نظام آکسیجن کی غیر موجودگی کے باعث کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں اور انہیں فوراً ٹھکانے لگا دیا جاتا ہے تو اس کے بعد کیا وہ گیا ہوا سانس اس برباد بدن کو پہچانتا ہے اور اس سے اپنا تعلق قائم رکھتا ہے؟

    آدمی کو ہمیشہ سے امید رہی ہے، کہ اس کا گیا ہوا سانس پھر لوٹ کر بدن میں آئے گا۔ اسے پھر زندگی ملےگی۔

    فرعونوں کی ممیوں کا بندوبست، چین، جاپان اور کوریا کے شاہی مقبروں میں مرنے والے کے ساتھ دفن کی جانے والی اشیائے ضرورت اور بعض اوقات غلاموں کی پلٹن اور سزا، جزا کے تمام تصورات اس امید پر قائم ہیں کہ مرنے والا پھر جلایا جائےگا۔

    زندگی سے آدمی کی محبت۔۔۔

    اوہ! یہ محبت کتنی ناقابل انکار ہے،

    کتنی گہری اور شدید ہے،

    اس کی مزاحمت نہیں کی جا سکتی،

    اس کو دل سے نہیں نکالا جا سکتا،

    جو لوگ کسی اورمحبت کے نام پر مر جاتے ہیں انہیں بھی دراصل زندگی کی محبت ہی مرنے پر مجبور کرتی ہے۔

    ایک ابدی زندگی کی محبت، ابدیت کی تمنا، لازوال ہونے کی آرزو، ہمیشہ جیتے رہنے کی خواہش۔

    اور میں جواب اس مینار کی سیڑھیوں پر ٹوٹی ہوئی بوتل کی کرچیوں کے قریب بیٹھی ہوں اور میرے چاروں طرف سلیٹی سا اندھیرا ہے۔ اگر اگلے لمحے میں اس زمین کے اندر ہوں،

    اگلا لمحہ جو کبھی بھی آ سکتا ہے،

    اگلے لمحے، کل، پرسوں، اگلے ہفتے، اگلے سال، کبھی بھی،

    عمر کے دوسرے نصف میں تو اس کا امکان دور جلتی ہوئی لالٹین کی طرح دل میں ہمیشہ ٹمٹماتا رہتا ہے۔ یاد اور فراموشی کے بیچ کے کسی منطقے میں۔

    تو کیا زمین کے اندر ہونے کے تجربے کو محسوس کیا جا سکتا ہے، بیان کیا جا سکتا ہے۔ مجھے ایک پرانی نظم یاد آ گئی:

    ’’مجھے اک رات اپنی قبر میں سونے کی خواہش ہے‘‘۔

    یہ نظم کسی اخبار میں چھپی بھی تھی شاید۔ پھر نہ جانے کہاں گئی۔ آج اچانک کیسے یاد آ گئی۔ میرے پاس تو اس کی کوئی نقل بھی نہیں۔

    مرنے والے بھی اسی طرح دوبارہ آ سکتے ہیں؟ ان کی بھی کوئی نقل نہیں ہوتی۔

    میں نے ایک لمبا سانس لے کر اردگرد کی روشن خاموشی کو پینے کی کوشش کی۔

    اس وقت یہاں اکیلے بیٹھنا بالکل خواب جیسا لگ رہا ہے۔ جیسے کوئی صدیوں تلک کسی تہ خانے میں رہنے کے بعد اچانک باہر نکل آئے اور خود کو محسوس کرنے کی کوشش کرے کہ یہ وہی ہے جو اپنے خواب میں جیتے جیتے خواب کو حقیقت بنتے دیکھ لیتا ہے اور تب اسے معلوم ہوتا ہے کہ جب خواب حقیقت بنتے ہیں تب بھی کچھ نہیں ہوتا ۔ ارد گرد کے حقائق بدل بھی جائیں تو کیا ہے، خوشی کا مرکز اردگرد میں نہیں ہوتا۔ وہیں ہوتا ہے جہاں خواب میں تھا۔

    کل اور آج میں کتنا فرق ہے، مگر دونوں کتنے ایک جیسے ہیں، کل بھی سورج یونہی دیر تک گرجے کا مینار تھامے گنگ کھڑا رہتا تھا، کل بھی ان پتھروں کی سیڑھیوں پر انسانی قدموں کی آہٹ گونجتی تھی، کل بھی اس میدان میں منڈی لگتی تھی، آج یہ منڈی اس میدان سے باہر نکل گئی ہے، شہروں میں، گلیوں میں، گھروں میں، دلوں میں، گرجوں اور خانقاہوں میں، مسجدوں اورمندروں میں، کتابوں اوردانش گاہوں میں، افکار اور اظہار میں، خاموشی اور اخفا میں۔

    ہر طرف منڈی کھلی ہے،

    کاش کہیں کوئی ایسی جگہ ہو، جہاں خریدو فروخت منع ہو۔ جہاں سو دوزیاں کا اضطراب نہ ہو، جہاں ناپ تول کا نظام نہ ہو۔

    میں نے صرف ایک جگہ ایسی دیکھی ہے جہاں نہ کچھ بکتا ہے ، نہ خریدا جا سکتا ہے۔ نہ اس کی کوئی قیمت ہے نہ کسی قیمت پر بھی دستیاب ہے، یہ بس ’’ہے‘‘۔

    عارف کا دل۔

    یہ دل سبز مخملی گھاس کے حد نظر تک پھیلے ہوئے میدان کے مشابہ ہے۔

    اس مخمل پرلیٹ کر آسمان کے نیلے پانی میں ڈوبا جا سکتا ہے،

    اندر کے کالے پانی میں اترا جا سکتا ہے،

    اس میدان کے خود رو پھول رنگین بھی ہیں اور خوش بودار بھی۔ انہیں توڑنا منع نہیں ہے۔

    ایسی جگہ کہیں اور نہیں ہے۔ ایسی کشادگی کا احساس کہیں اور نہیں ہے۔

    یہ کشادگی کا احساس محبت ہے یا خوشی؟

    دور اس بنچ پربیٹھے ہوئے جوڑے کو یہ احساس میسر ہے؟

    ایک دوسرے سے جڑے ہوئے جسموں کے مابین اس کشادگی کا تیقن ہوا کی طرح بہہ رہا ہے؟

    یا محض ایک خلا ہے؟

    کون جانے، کیا ہے؟

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے