Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

سفرہے شرط۔۔۔

صغیر افراہیم

سفرہے شرط۔۔۔

صغیر افراہیم

MORE BYصغیر افراہیم

    بشارت حسین کا ریٹائرمنٹ پچھلے کئی ہفتوں سے موضوعِ بحث بناہواتھا وہ خود بھی کئی دنوں سے اپنی سبکدوشی کے بارے میں ہنس ہنس کر بڑے حوصلے کا اظہار کررہا تھا مگر اندر ہی اندر ایک اُداسی اور بوجھل پن کااحساس تھا ۔ اللہ اللہ کرکے وہ دن آہی گیا جب بشارت حسین اپنی تیس سالہ ملازمت کے بعد ریٹائر ہو گیا ۔ کل شام جب وہ دفتر سے الوداعیہ تقریب کے بعد گھرلوٹا تھاتو اُس نے بیوی بچوں کی دبی دبی مسکراہٹ کے پیچھے ایک اُداسی کی جھلک بھی دیکھی تھی اور گھر کے ماحول میں ایک عجیب سی سنجیدگی اور بوجھل پن کا احساس ہواتھا ۔ اُسے دہلیز پرقدم رکھتے ہوئے ایسا لگاتھا جیسے کوئی بڑی بازی ہارکر گھرلوٹا ہو۔ جبکہ وہ اپنی زندگی کی تمام ذمہ داریوں کوپوری طرح نبھاچکاتھا ۔ بی ۔ اے۔ کرنے کے بعد ہی اُس نے شاہینہ کی شادی کردی تھی اور اب وہ ماشاء اللہ دوبچوں کی ماں تھی، خوشحال تھی۔ اقبال کو ایم ۔ کام۔ کرتے ہی نوکری مل گئی تھی اور پچھلے سال اُس نے اقبال کی بھی شادی کردی تھی۔ ورثے میں ملے ہوئے مکان کو بھی اُس نے اپنی سہولت کے تحت بنوالیاتھا ۔ اُسے معقول پینشن ملنے والی تھی۔ مالی طور پر اُسے کبھی بھی پریشانی نہیں رہی تھی اس لیے اب وہ گھر والوں کی تجویز سے متفق نہیں تھا۔ دونوں بچے اِس بات پراصرار کر رہے تھے کہ پاپا پرائیویٹ ملازمت کے آفر کو قبول کر لیں اور اس کی بیوی زرینہ بضد تھی کہ وہ پی۔ سی۔ او۔ کے ساتھ فوٹو اسٹیٹ کاپی کی مشین لگا لے۔ اس نے اپنی بات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے تمام کاغذی کارروائیاں پوری کرا دی تھیں، باہری بیٹھک کے حصہ کو دوکان میں منتقل کرا دیا تھا۔ رنگ و روغن ہونا باقی تھا۔ آخرکار بچے بھی ماں کے ہمنوا ہو گئے تھے مگر بشارت حسین ملازمت کی قیدوبند سے رہا ہوکر اپنے آپ کو کسی جھمیلے میں ڈالنا نہیں چاہتا تھا بلکہ کھلی فضاؤں میں آزاد پنچھی کی طرح اڑنا چاہتا تھا۔

    وہ نگر پالیکا میں ہیڈکلرک تھا۔ یہ نوکری اس نے معمولی کلرک سے شروع کی تھی اور زندگی کے تیس سال اسی دفتر میں گذار دیئے تھے۔ کئی بارتو اس نے ترقی اس لیے قبول نہیں کی تھی کہ تبادلے کے تحت دوسری جگہ جانا پڑتا اور جس طرح وہ اپنے قصباتی مکان کو نہیں چھوڑنا چاہتا تھا اسی طرح دفتر سے بھی تبادلہ اسے منظور نہیں تھا۔ تیس سال وہ پچیس کلومیٹر کا سفر صبح شام طے کرتا رہا تھا۔ اسے اپنے چھوٹے سے کنبے کے ساتھ ان ریلوں سے بھی پیار ہو گیا تھا جو اسے گھر سے آفس تک پہنچاتی رہی تھیں، جانے انجانے چہروں سے ملاتی رہی تھیں۔

    محض چھٹیوں کو چھوڑ کر دن میں دو مرتبہ تو اسے ٹرین کا سفر کرنا ہی پڑتا تھا صبح آفس جانے کے لیے اور شام کو گھر لوٹنے کے لیے۔ وہ سوچتا کہ ہر روز اسے دو مرتبہ تو جہنم کے عذاب سے گذرنا ہی ہے۔ اسی لیے اس کے اندر سے نفاست کا احساس بھی ختم ہو چکا تھا۔ وہ تو خدا بھلاکرے زرینہ کا جو اسے ٹپ ٹاپ بنانے کا برابر جتن کرتی رہتی اور اس کی لاپرواہی پر جھلّاتی رہتی اور بشارت حسین کا سابقہ تھا نت نئے مسافروں سے، کھچا کھچ بھرے ہوئے ڈبوں سے ، قمیض،دوپٹوں اور ساڑیوں سے، ہاتھوں میں تھامے ہوئے اخباروں اور ناشتہ دانوں سے جو پسینہ پونچھنے کی جدوجہد میں کلبلاتے رہتے۔ پھبتیاں کستے، مسکراتے اور جمائیاں لیتے ہوئے لوگوں سے جو بڑی بے صبری سے اپنے اپنے اسٹیشن کی راہ تکتے رہتے یا پھر دودھ والوں کے بڑے بڑے بالٹوں سے جو بیٹھنے کی بنچوں کے درمیان کی جگہوں میں بھرے رہتے تھے۔ کبھی کبھار تو بھیڑ اِس حد تک ہوتی کہ سیٹ حاصل کرنا تو دور اندر داخل ہونا بھی مشکل ہو جاتا۔ اس پرکسی کی چند یا کا پسینہ، کسی کی داڑھی کی کھونٹیاں تو کسی کی گردن پر پاؤڈر کی چپکی تہوں سے اس کا روز کا واسطہ تھا اور اس پر چپ چاپ کھڑے رہنے پر بھی ایک دوسرے کی سانسیں اور پسینے کی بو، ناک اور منھ میں گُھس کر کراہیت پیدا کرتی رہتی۔ اس طرح شام کو جب وہ گھر واپس آتا تو خود بخود سارے جسم کی مالش ہو جایا کرتی۔ اس کے باوجود واپسی کا سفر تھوڑا سکون بخش لگتا کیونکہ صبح کو عموماً گاڑی پکڑنے کے لیے بھاگنا پڑتا، ڈبے میں دھکے کھانے پڑتے پھراسٹیشن سے آفس تک پیدل چلنا پڑتا۔ اس اتھل پتھل میں صبح کے غسل اور زرینہ کے ہاتھوں کپڑوں پر کی ہوئی پریس کا ستیاناس ہو جاتا۔ اس پر آفس میں مغزماری۔ یوں تو شام کو بھی گاڑی میں بھیڑ اور دھکم پیل ہوتی مگر گھر جاکر اطمینان سے منھ ہاتھ دھونے، آرام سے کھانا کھانے اور سکون سے سو جانے کے معمولات، تھکن اور گھٹن بھول جانے کے لیے کافی تھے۔

    لیکن اب یہ سب باتیں اس کے لیے بیتے ہوئے کل کی ہونے والی تھیں۔ اسی لیے وہ رات میں کسی بحث و تکرار میں پڑنے کے بجائے گپ شپ کرتا رہا اور کافی دیر سے یہ کہہ کرسویا تھا کہ اب اپنے دن اور اپنی راتیں ہوں گی اور کل آرام سے آٹھ، نوبجے اُٹھوں گا لیکن وہ علی الصبح معمول سے پہلے ہی اٹھ گیا تھا۔ حقیقت تو یہ تھی کہ وہ رات کو بہت ہی کم سویا تھا۔ زیادہ وقت اُس نے سوچنے، دور اسٹیشن سے گزرتی ہوئی گاڑیوں کی گڑگڑاہٹ اور انجنوں کی سیٹیوں کی آوازیں سنتے ہوئے گذارا تھا اور پھر ہلکا سا اجالا پھیلتے ہی وہ ٹہلتاہوا اسٹیشن آ گیا۔ ویران پڑے پلیٹ فارم پر رفتہ رفتہ بہار آنے لگی۔ جانے پہچانے لوگ اس کے خیالات کے تانے بانے منتشر کرنے لگے۔ اس نے دیکھا کہ بالا مؤ پسنجر اسٹیشن میں داخل ہو رہی تھی۔ یہ اس کی اپنی ٹرین تھی۔ وہ اُس کے دوڑتے بھاگتے ڈبوں اور کبھی نہ تھکنے والے پہیوں کو دیکھتا رہا۔ اسے ایسا محسوس ہوا کہ ناشتہ دان لیے ہوئے وہ ڈبے میں داخل ہو رہا ہے۔ ٹرین چل رہی ہے اور وہ کھڑکی سے باہر جھانک رہا ہے کہ اچانک انجن کی سیٹی نے اسے جھنجھوڑ دیا۔ چھُک چھُک کرتی ہوئی گاڑی روانہ ہوئی تو اسے لگاکہ رواں دواں قافلہ جس میں وہ شامل تھا، اسے چھوڑکر چل پڑا ہے۔ اسے لگا جیسے اکیلا مسافر کارواں سے بچھڑ گیا ہو۔

    وہ رخصت ہوتی ٹرین کے ہیولے کو دیرتک دیکھتا رہا۔ دیکھتا رہا۔ پھر تھکے ماندے ہوئے جسم وذہن کے ساتھ گھر کی جانب چل دیا۔ باہری بیٹھک کے اس حصہ کو جو اب دوکان میں منتقل ہو چکا تھا، غور سے دیکھا۔ اس کی بے رنگ وروغن دیواریں آفتاب کی شعاعوں سے جگمگا رہی تھیں۔ اسے ایسا لگا جیسے یہ سنہری کرنیں امن وعافیت کی بشارت دے رہی ہوں، اسے اپنی آغوش میں لے رہی ہوں یکایک اس کے جسم میں ایک حرارت سی دوڑ گئی۔ وہ مسکراتا ہوا گھر میں داخل ہوا۔ زرینہ حیران و پریشان اس کے سامنے کھڑی تھی۔ آپ کہاں چلے گئے تھے؟ ناشتہ بھی ٹھنڈا ہو گیا۔ چلئے آپ منھ ہاتھ دھو لیجئے میں ناشتہ لے کر آتی ہوں۔ بشارت چُپ چاپ کھاتا رہا۔ زرینہ نے چائے پیالیوں میں انڈیلی اور ریڈیو کی آواز کو ذرا سا تیز کیا۔ بیگم اختر، خوا جہ حیدر علی آتش کی غزل گا رہی تھیں؂

    سفر ہے شرط مسافر نواز بہتر ہے

    ہزارہا شجر سایہ دار راہ میں ہے

    ’’آج کتنا اچھالگ رہا ہے!!!۔۔۔ ہم دونوں اطمینان سے بیٹھے چائے پی رہے ہیں‘‘۔

    ’’زرینہ سچ کہا تم نے‘‘۔ اس نے پیار بھری نظروں سے زرینہ کو دیکھا۔

    ’’آپ تو ایسے دیکھ رہے ہیں جیسے پہلی بار دیکھ رہے ہوں‘‘ زرینہ نے شرماتے ہوئے کہا۔

    ’’تم آج بھی موسمِ بہار کی طرح خوبصورت ہو‘‘

    وہ سوچنے لگا پھول سے چہرے پر خزاں کے آثار نمودار ہونے کے باوجود اس کے خوبصورت نقش و نگار اس کے عزم واعتماد کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ وہ اپنی خوش نصیبی پر مسکرا دیا۔

    ’’کیوں مسکرا رہے ہیں‘‘؟ زرینہ نے اپنے ڈوپٹہ کو سنبھالتے ہوئے پوچھا۔

    ’’تمہاری رفاقت، محبت اور وفا شعاری کے لمحات کو سوچ رہا ہوں۔‘‘

    ’’جو آپ نے بویا ہے وہی کاٹا ہے‘‘۔ اس نے برجستہ جواب دیا۔

    اس نے دل کی گہرائیوں سے قہقہہ لگایا اور زرینہ کے دائیں ہاتھ کو اپنے ہاتھوں میں سمیٹ کر کہا۔

    ’’ریٹائرمنٹ کو اپنی منزل سمجھ بیٹھا تھا جبکہ سفر کی شروعات تو اب ہوئی ہے۔‘‘

    یہ سن کر زرینہ کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو چھلک پڑے جیسے وہ جیت گئی ہو۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے