سفید موتی
وہ ہم سے پانچ گھر چھوڑ کے رہتا تھا لیکن یہ بات میں نہیں جانتا تھا۔ میں تو اسے سکول میں دیکھتا ہے۔ اس دن بالکل یہی موسم تھا، اکتوبر کے آغاز کا۔ تب دھوپ میں گرمی نہیں تھی۔ وہ کھلے گراونڈ میں کرسی پر بیٹھا، اتنا پُرسکون تھا، جتنا کوئی خزاں رسیدہ درخت ہو سکتا ہے۔ پشت کو کرسی پر ٹکا کر، دونوں پاؤں زمین پر سیدھے رکھے، اُس کی نظر آسمان کی بلندی پر دائرے میں اڑتی ان دو چیلوں پر تھی، جو ہر چکر کے بعد مزید بلند ہو جاتیں اور اب وہ نقطوں کے برابر رہ گئیں تھیں۔ میں اس کے پیچھے کچھ فاصلے پر کھڑا، اسے دیکھتا رہا۔ مجھے یقین تھا، میں اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاؤں گا۔ جب وہ سفید موتی جیب سے نکالےگا تو میں ضرور دیکھ لوں گا لیکن کافی دیر کھڑے رہنے کے باوجود ایسا نہ ہوا۔ وہ ہر طرف سے ساکت، دونوں بازو کرسی کی دستیوں پر رکھے رہا۔
البتہ اب اس کی نظر چیلوں سے ہٹ کر، سکول کی چاردیواری سے باہر، آموں کے باغ کی طرف مڑ گئیں، جہاں رنگ رنگ کے پرندے سبز پتوں میں جھول رہے تھے اور تین بچے اچھل اچھل کر آم کی موٹی شاخوں سے الٹے سیدھے ہو کر لٹکنے کی کوشش کر رہے تھے۔ میں دل ہی دل میں اس پر تلملا نے لگا۔ آخر وہ کیوں اپنا ہاتھ جیب کی طرف لے جاکر انڈے کے برابر کا سفید مو تی نہیں نکالتا۔ اسی بےدھیانی میں آگے ہوتا گیا۔ نہ جانے کب اُس نے میرے قدموں کی چاپ سن لی۔ اسی وقت اس نے مڑکر دیکھا۔ میں چار قدم پر تھا، اس کے دیکھتے ہی بھاگ اٹھا اور ہانپتا ہوا اپنی کلاس میں آ گیا، جو ایک دوسرے گراونڈ میں گھاس کے فرش پر بیٹھی تھی۔ کلاس میں داخل ہوکر میں لڑکوں کے درمیان میں بیٹھ گیا۔
سکول کافی بڑا تھا۔ بہت بڑا، لیکن چار دیواری چھوٹی تھی۔ اتنی چھوٹی کہ تین فٹ کا بچہ مضافات کو دیکھ سکتا تھا۔ سامنے کی مسجد کے اونچے منار اور ان کے سفید گنبدوں پر بیٹھے اور اڑتے ہوئے کبوتر ایک طرح سے سکول کا حصہ تھے۔ چار دیواری کے ارد گرد ہری فصلوں کے پھیلے ہوئے کھیت اور بڑے باغوں کے سیاہ جھرمٹوں کا سایا یوں سکو ل میں چلا آتا کہ گرانڈوں کی سبز گھاس سے مل کر اس میں طلسم پیدا ہو جاتا اور وہ طلسم دھوپ کو اپنے حصار میں لے لیتا۔
مجھے سکول میں تیسرا سال تھا۔ اس عرصے میں کبھی نہیں دیکھا، وہ اساتذہ کے پاس بیٹھا ہو یا اس نے سٹاف روم کا رخ کیا ہو۔ میں نے اسے کسی استاد کے ساتھ سلام لیتے یا ہاتھ ملاتے بھی نہیں دیکھا۔ بس کرسی پر، کسی گراونڈ کے دور کونے میں خموش بیٹھا، آسانی سے نیلے، بھورے اور کالے بادلوں والے آسمان کو دیکھتا رہتا۔ کبھی کتاب کھول کے پڑھنے لگ جاتا، جسے وہ گھر سے لانا نہ بھولتا۔ بعض اوقات سکول کے مغربی کونے میں چہل قدمی شروع کر دیتا، جہاں ایک چھوٹا سا پلاٹ تھا۔ اس میں چوکیداروں نے سبزیاں کاشت کر رکھی تھیں۔ وہ ان کا رکوع کی حالت میں ہو کر اور اپنی لاٹھی کو سبزیوں کی جڑوں میں مار مار کر باریکی سے جائزہ لیتا، مگر چوکیداروں سے بول چال کو راستہ نہ دیتا۔ میری سمجھ میں نہیں آتا تھا، یہ کون ہے؟ کلاس لیتے یا بچوں کو پڑھاتے میں نے اسے نہیں دیکھا۔ لیکن میرے لیے حیرانی کی بات یہ تھی کہ سکول کے استاد اور سب لڑکے اس کو استاد کے لقب سے ہی منسوب کرتے۔ پتا نہیں کیوں؟
ان دنوں کلاسیں بھی گراونڈ میں لگتی تھیں۔ کھلے آسمان تلے۔ ایسا نہیں کہ کمرے نہیں تھے۔ بس استاد اور بچے گراونڈ کو ہی ترجیح دیتے۔ اس کو مَیں نے کبھی پڑھاتے نہیں دیکھا، پھر بھی سکول سے ناغہ نہ کرتا۔ کسی سے سلام نہ دعا۔ بس کرسی پر خموش بیٹھا ہے اور گھنٹوں بیٹھا ہے۔ البتہ گراونڈ اور کرسی کا زاویہ بدلتا رہتا تھا۔ ساٹھ کنال رقبے کے سکول میں، وہ کبھی ایک کونے میں ہوتا، کبھی دوسرے کونے میں۔ مجھے اس کے ڈھونڈنے میں دقت پیش نہ آتی۔ میں اسے کیوں ڈھونڈتا تھا؟ یہ میں نہیں جانتا، مگر اسے جب تک ایک نظر دیکھ نہ لیتا، طبیعت بے قرار رہتی۔ میں نے کبھی اس سے بات بھی نہیں کی۔ نزدیک بھی نہیں گیا۔ ہر کوئی جانتا تھا کہ اس کے پاس ایک انڈے کے برابر سفید رنگ کا موتی ہے اور اُس موتی میں ایک جِن بند ہے۔ وہ جِن اسے لوگوں کے راز اور غیب کی باتیں بتاتا ہے اور گیت بھی سناتا ہے۔ کچھ نے تو یہ تک دعوہ کیا کہ انہوں نے استاد فضل حسین کو خود بھی کئی بار گنگناتے سنا ہے۔
اس جن نے اسے بہت سارا خزانہ بھی دیا تھا، جو اِس نے اپنے گھر میں گڑھا کھود کر چھپا رکھا تھا۔ کیونکہ وہ چاہتا ہے، اس کے بیٹے بڑے ہوں تو اسے نکال لیں۔ یہ موتی وہ ایک ڈبیا میں چھپا کے دائیں جیب میں رکھتا ہے اور کسی کو نزدیک نہیں آنے دیتا، نہ خود کسی کے قریب جاتا ہے۔ کئی لڑکوں نے اُس کے بیٹوں سے (جو اِسی سکول میں پڑھتے تھے) اُس موتی کے بارے میں پوچھنا چاہا لیکن وہ بھی اتنا ہی بے خبر تھے جتنا کہ عام لڑکے۔ ان کا کہنا تھا، ان کی والدہ نے اباجی کے برتن، کمرہ اور بستر الگ کر رکھا ہے۔ اس لیے انہیں اس بارے میں زیادہ معلومات نہیں۔ اتنا ضرور ہے کہ اس کے پاس پھٹی پرانی کتابوں کا ایک ڈھیر ہے، جس میں عجیب و غریب باتیں لکھی ہیں۔ دلچسپی سے یکسر خالی۔ مکمل نا سمجھ آنے والی۔ بڑے بیٹے کا کہنا تھا، سفید موتی ان پرانی کتابوں میں کہیں چھپاکر رکھا ہو تو اور بات ہے، ورنہ پورے گھر میں موجود نہیں۔
میری شدید خواہش تھی، میں وہ انڈے کے برابر سفید موتی دیکھوں لیکن جِن سے ڈرتا تھا۔ دو تین بار، جب وہ کرسی چھوڑ کر ہی چہل قدمی کے لیے آگے پیچھے ہوا، مَیں بھاگ کر کرسی کے پاس جا کھڑا ہوا مگر مجھے وہاں سوائے گھاس کے تنکوں اور کرسی کے، کوئی چیز نظر نہ آئی۔ کرسی کو ہلاکر اس کے پایوں کے نیچے دیکھنے کی مجھے جرات نہ ہوئی کہ کہیں نیچے جِن نہ بیٹھا ہو۔ اس کے پاس جِن کے موجود ہونے کی ایک اور دلیل بھی تھی کہ اُس سے سب سکول کے ماسڑ ڈرتے تھے اور اس کا نام آتے ہی باادب ہو جاتے حالانکہ اتنا کمزور تھا کہ دس سال کا بچہ بھی اسے چت کر لے۔ بالکل ہڈیوں کا ڈھانچا۔ چلتے ہوئے اکثر لڑکھڑا جاتا۔ مَیں ایک دفعہ سائنس ڈیپارٹمنٹ کی لیبارٹری میں ایسے ہی چلا گیا۔ وہاں ایک آدمی کی ہڈیوں کا پنجر پڑا ہوا تھا، اُستاد فضل حسین کو دیکھ کر اکثر مجھے لگتا کہ وہی پنجر کپڑے پہن کر آ گیا ہے۔ اس کے باوجود میں نے کئی بار دیکھا، جو بھی استاد سکول میں تھا، وہ چاہے بوڑھا داڑھی والا یا جوان مونچھوں والا تھا، وہ اس کے کبھی قریب نہیں آتا تھا۔ سٹاف روم میں البتہ چائے بنتی تو چوکیدار اس کے لیے بھی لے آتا جسے وہ بغیر شکریے کے قبول کر لیتا۔ یا وہ چوکیدار حاضری رجسڑ لاکر حاضری لگوا لیتا۔ مجھے اس کو مسلسل اِس حالت میں دیکھ کر مکمل یقین ہو چکا تھا کہ وہ سکول میں در اصل کسی کو نہیں پہچانتا۔ مگر اُس کو سب جانتے ہیں۔
جس دن میں نے اس کے پیچھے جا کر دیکھنے کی کوشش کی، یہ اس سے دوسرے دن کی بات ہے۔ میں اپنی کلاس میں بیٹھا ریاضی کی ایک مشق کر رہا تھاکہ لنگڑا چوکیدار، جو اسے چائے دے کر آیا تھا، اس نے میرا نام لیا اور کہا، منشی فضل حسین صاحب بلاتے ہیں۔ اس وقت میری عمر محض سات سال تھی۔ مجھے نہیں معلوم اس وقت میری حالت کیا ہوئی۔ دل میں یہ شدید خواہش پیدا ہوئی کہ ریاضی پڑھا نے والا استاد کہہ دے، لڑکا کلاس چھوڑ کر نہیں جا سکتا مگر ایسا نہ ہوا۔ اُستاد نے میری طرف دیکھا، جیسے اٹھنے کا حکم دے رہا ہو اور میں مردہ ٹانگوں کے ساتھ اٹھ کر چوکیدار کے پیچھے چلنے لگا۔ بھاگنے کی طاقت اول تو ٹانگوں میں تھی نہیں، دوم اس کا جِن مجھے ایک قدم نہ بڑھنے دیتا۔ چند لمحوں میں ہم وہاں جا پہنچے اور آج یہ پہلا دن تھا، جب میں اس کے اتنا قریب کھڑا تھا کہ اس سفید موتی کی خوشبو لے سکتا تھا لیکن اب اس کا خیال ڈر کی وجہ سے محو ہو گیا۔ چوکیدار جا چکا تھا۔ پچاس قدم کے دائرے میں اب نہ تو کوئی کلاس تھی، نہ لڑکا تھا، نہ اُستاد۔ فقط وہ تھا اور میں مجرموں کی طرح سامنے کھڑا تھا۔ مجھے اس بات کی حیرانی بالکل نہیں تھی کہ اس نے میرا نام کیسے جانا۔ ظاہر ہے جِن کے لیے یہ مشکل بات نہیں تھی۔
اس کے کہ چہرے کی بجائے وہاں باریک ہڈیاں تھیں لیکن ان کے اوپر جلد اتنی نرم اور سفید تھی کہ ہڈیاں بری معلوم نہیں ہوتی تھیں۔ ہاتھوں کی ناڑیں نیلی اورماس کے نیچے کی تہیں ہڈیوں کو مزید واضح کر رہیں تھیں۔ آنکھیں چمکدار تھیں لیکن زیادہ ہی اندر کو دھنس چکی تھیں، جن کے نیچے سیاہ ہلکے بھی پڑ گئے تھے۔ بال سارے سر پر موجود تھے مگر اِتنے کم کہ کنپٹیوں کی درزیں صاف دیکھ سکتا تھا۔ سر پر دوپلی ٹوپی بھی جما کر آتا لیکن وہ چلتے وقت ہی سر پر رکھتا تھا۔ جیسے ہی کُرسی پر بیٹھتا، ٹوپی اتار لیتا۔ مجھے اس سے آنکھیں ملانے میں مشکل پیش آ رہی تھی اور میں مسلسل سکول کی دیوار کے ساتھ کچی سڑک پر جاتے اس چرواہے کو دیکھ رہا تھا، جو بےشمار بھیڑوں کو ہانکتا ہوا سکول کے عقب میں موجود نہر کی طرف بڑھ رہا تھا۔ بھیڑوں کے گزرنے سے غبار اور بو کی ہلکی لہر ہمارے ناکوں کو چھو نے لگی۔ یہ بھیڑیں اور چرواہا اتنی خاموشی سے گزر رہے تھے جیسے ان کے قدموں کے نیچے روئی بندھی ہو۔ اسی لمحے میں نے سوچا، یہ چرواہا کیسا آزاد ہے کہ اسے منشی فضل حسین نے اپنے سامنے حاضر نہیں کیا۔
بیٹے بیٹھ جاؤ۔
یہ آواز منشی فضل حسین کی بجائے کہیں غیب سے آئی تھی، جسے سنتے ہی میں گھاس پر بیٹھ گیا اور پہلی دفعہ میں نے اس چھڑی کو غور سے دیکھا، جو کرسی کے دائیں پائے سے سہارا دے کر کھڑی کی گئی تھی۔ اُس کی مٹھی اتنی ملائم نظر آ رہی تھی کہ میرا جی چاہا، اُسے پکڑ کر دیکھوں اور مُٹھی کی ملائمت محسوس کرنے کے لیے اُس پر ہاتھ پھیروں۔ مگر یہ ایسا خیال تھا جس پر عمل کرنا مضحکہ خیزی کے ساتھ ناممکن بھی تھا۔ مَیں بیٹھ گیا اور اُس کی ٹانگوں کے درمیان (جو پتلون کے اندر بھی صندل کی دو لاٹھیاں محسوس ہو رہی تھیں) سے جگہ بناکر کُرسی کے چاروں پایوں کے کو دیکھنے لگا، جہاں منہ چڑانے والے خلا کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔
کس درجے میں بیٹھتے ہو؟
استاد جی ابھی تیسرے درجے میں ہوں۔ ماسٹر خالق صاحب پڑھاتے ہیں۔
کیا کچھ پڑھا؟
اس کا میرے پاس جواب نہیں تھا۔ میں ایک تنکے سے محض زمین کریدنے لگا اور کچھ نہ بولا۔
تم جانتے ہو مَیں کون ہوں؟
میں اس بات پر بھی چپ رہا اور انگلیوں سے گھاس کی جڑیں اکھاڑ نے لگا۔ مجھے یقین تھا کہ مجھے کل والے واقعے کی وجہ سے بلایا گیا ہے اور کچھ ہی لمحوں بعد اس بات کی پرسش ہونے والی ہے۔ چنانچہ اسی کا جواب سوچنے لگا، جس کے متعلق ابھی تک مجھے کچھ نہیں سوجھا تھا۔
بیٹا آپ میری بات کا جواب کیوں نہیں دیتے؟ میں تمھیں کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ اگر تم جوا ب نہیں دو گے تو بات کیسے بڑھے گی۔ میں تو اس وقت سے تم کو جانتا ہوں جب تم ابھی سکول میں داخل نہیں ہوئے تھے۔ اچھا، یہ بتاو، تمھیں کوئی شعر آتا ہے؟
جی استاد جی، آتا ہے۔ اس کے لہجے کی ملائمت نے میرے اندر اب کچھ حوصلہ پیدا کر دیا تھا۔
سناؤ؟
جنگل میں شیروں سے ہوئی لڑائی
سکندر کے بیٹے نے گولی چلائی
سکندر کا بیٹا کھڑا رہ گیا
لہو کا پیالہ بھرا رہ گیا
واہ، کمال کر دیا تونے۔ یہ کس کے شعر ہیں؟ کہاں سے یاد کیے؟
اس بات کا بھی میرے پاس جواب نہیں تھا اور نہ یہ پتا تھا کب اور کیسے یاد ہو گئے۔ اس لیے پھر چُپ ہو رہا۔
اچھا کوئی اور سناؤ۔
وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا
مرادیں غریبوں کی بر لانے والا
شاباش، بہت ہی خوب۔ اچھاِ اِس شعر کا تو آپ کو پتا ہوگا، کس کا ہے؟
جی استاد جی، اب میں جلدی سے بولا، یہ مولوی عنایت کا شعر ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ میں نے سینکڑوں بار اس کی زبان سے سُنا تھا، جب وہ جامع مسجد کے سپیکر پر چندہ مانگتے ہوئے ایک لمبی نعت پڑھتا تھا۔ اس میں مجھے صرف یہ شعر ہی یاد رہ گیا تھا اور یہ کتنا اچھا ہوا کہ مَیں نے منشی کو صحیح صحیح جوا ب دے دیا۔
اچھا، ادھر میرے نزدیک آؤ۔
میں تھوڑا سا آگے ہو گیا۔ میں جانتا تھا، لڑکے دور کھڑے تماشا دیکھ رہے ہیں اور میرے انجام کے بارے میں کسی فیصلہ کن بات پر نہیں پہنچ پا رہے۔ سب کو یقین تھا کہ اب میں منشی فضل حسین بلکہ اس کے جِن کے شکنجے میں پھنس چکا ہوں۔
اور نزدیک ہو جاؤ
میں اور نزدیک ہو گیا۔ اس نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور کاندھے پر تھپکی دی۔ مَیں نے محسوس کیا، اس کے ہاتھ کا وزن کاغذ سے زیادہ نہیں تھا۔ اس کی شفقت سے میرے اندر دو سال سے پنپتا ہوا تجسس، سوال بن کر بےاختیارانہ زبان پر آ گیا، استادجی! لڑکے کہتے ہیں، آپ کے پاس انڈے برابر سفید موتی ہے۔
ہاں بیٹا۔ وہ ٹھیک کہتے ہیں (منشی فضل حسین رواں آواز میں بولا، جس کی مجھے اس سے توقع نہیں تھی) میرے پاس موتی ہے لیکن یہاں کوئی اس کے دیکھنے کا اہل نہیں۔ اس لیے میں اس کو چھپا کے رکھتا ہوں۔ کیا تم کل وہ موتی دیکھنے کے لیے میرے پیچھے آکر کھڑے تھے؟
اب میں سر ہلاکر رہ گیا اور وہ ہلکا سا مسکرا دیا۔
اگر میں نے دکھایا اور تم لے کر بھاگ گئے؟
اللہ کی قسم، نہیں لے کر بھاگتا، میں نے بچگانہ اصرار کے ساتھ کہا،
وہ ہنس دیا اور زانو سے ٹوپی اٹھا کر سر پر لے لی۔ پاؤں میں جوتے اڑسنے لگا۔ یہ تیاری اس کے اُٹھنے اور کسی طرف جانے کی تھی۔
اچھا، ہم ایک کام کرتے ہیں۔ میرے ساتھ آؤ۔
لاٹھی، اسے آپ عصا بھی کہہ سکتے ہیں، اس کے ہاتھ میں تھی۔ جسے اس وقت پکڑنے کی شدید خواہش مجھ میں پیدا ہوئی۔ اس کے پاؤں میں پتلی ریکسین کے جوتے تھے۔ ان کے اندر پاؤ ں کے علاوہ مزید بھی جگہ تھی۔ میں نہیں جانتا، اسے بازار سے اِس سے زیادہ تنگ جوتے نہیں ملے یا کھلے جوتے پہننے میں راحت محسوس کرتا تھا۔ میں اس کے پیچھے چلنے لگا۔ مجھے کیا معلوم، وہ کدھر جا رہا تھا؟ لیکن یہ سفر اسی سکول کے گراونڈ میں ہونے کے باوجود، جہاں مَیں روز دوڑتا پھرتا تھا، آج ایک طلسماتی سا ہو گیا۔ میری نظریں اُس کی لاٹھی پر تھیں، جو بغیر آواز پیدا کیے، سیدھی چلی جاتی تھی اور مَیں عین اس کے نشانوں پر عادتاً اپنے پاؤں رکھتا ہوا بڑھ رہا تھا۔ یہ میرے لیے ایک کھیل تھا۔
ہم نے ایک گراونڈ کو عبور کیا پھر دوسرے کو اور پھر تیسرے کو۔ اس کے بعد جنوبی سمت میں ایک دیوارکے ساتھ کھڑے آسمان قامت پیپل کے نیچے آگئے، جس کی جڑیں دیوار میں اس طرح گھل مل کے دور تک نکل گئیں تھیں کہ دیوار کی بوسیدہ اینٹیں مڑ تڑکر اس کے تنے کا حصہ بن چکیں تھیں۔ بہت سی جڑیں گراؤنڈ کی زمین میں موٹی موٹی گول چوکیوں کی شکل میں ابھری ہوئی تھیں۔ ان کے نیچے بلیوں اور خرگوشوں نے اپنے ڈربے بنا رکھے تھے۔ پیپل کی شاخوں اور پتوں نے ایک دنیا کو گھیرا ہوا تھا۔ گراونڈ کا چوتھائی حصہ اِس کی لپیٹ میں تھا اور پرندے اِتنے کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی۔ یہی وہ پیپل تھا، جس کے بارے کسی کو شک نہیں تھا کہ اس پر بھوت اور جن رہتے ہیں۔ اگر کوئی شخص دن کے بارہ بجے یا رات کے بارہ بجے اِس کے تنے کے گرد سات چکر لگاکر جڑوں میں پیشاب کر دے تو اسی وقت چڑیلیں اس کی گرن توڑ دیتی ہیں۔ ابھی تک کسی کو اس کے نیچے پیشاب کرنے کی جرات نہیں ہوئی تھی۔
منشی فضل حسین نے مجھے ایک بھاری اور ابھری ہوئی جڑ پر بیٹھنے کو کہا، جو ایک بڑی سی چوکی بن گئی تھی۔ میں اس کی حکم عدولی کیے بغیر آرام سے بیٹھ گیا۔ لڑکے دور جھرمٹ بناکر مجھے دیکھ رہے تھے۔ میں کانپنے لگا کہ مجھے جنو ں کو پکڑوانے کے لیے لے آیا ہے۔ میں ایک ہی دم پسینے سے شرابور ہو گیا۔
اس جگہ کو پہچان لو۔ روزانہ میں تمھیں یہیں پر تین گھنٹے تک کچھ منتر پڑھاؤں گا۔ جب تک وہ منتر تم یاد نہیں کر لیتے۔ مَیں وہ سفید موتی تم کو نہیں دکھا سکتا۔ کیا تم کو منظور ہے؟ منشی فضل حسین نے لاٹھی سے اس چوکی نما جڑ پر ٹھوکر لگاتے ہوئے کہا۔
سچ تو یہ تھا کہ ابھی مَیں موتی کو بھول کر اپنی جان چھڑانے کے چکروں میں تھا۔ کجا منتر یاد کرتا پھروں۔ لیکن منشی کا ڈر اور خوف مجھ پر اتنا سوار ہو چکا تھا کہ انکار کرنا میرے بس سے باہر تھا۔ چنانچہ میں نے ہاں میں سر ہلا دیا۔
بس کل سے سکول کی کتابیں اور منتر سب کچھ یہیں دو گھنٹے تک میں تم کو پڑھاؤں گا۔ تم اپنی کلاس میں جانے کی بجائے یہیں آ جایا کرنا۔ اگر نہیں آؤگے تو میں تمھارے پیچھے جن لگا دوں گا۔
اس کے بعد حکم ہوا کہ اب کلاس میں جانے کی بجائے گھر چلے جاؤ۔ میں اسی انتظار میں تھا۔ حکم ملتے ہی الٹے پاؤں بھاگا اور گھر چلا آیا، جو سکول سے مشکل سے پچاس قدم کے فاصلے پر تھا۔ گھر آکر میں نے سارا واقعہ والدہ کو سنایا۔ لیکن وہ سُن کر بجائے پریشان ہونے کے ہنستی رہی۔ جب میں اپنی بات مکمل کر چکا تو اس نے کہا، دیکھ بیٹا یہ استاد فضل حسین تمھارے ابا کا دوست ہے۔ بڑا اچھا استا د ہے۔ پچھلے چار سال سے اس نے کسی کو نہیں پڑھایا لیکن اب تم کو پڑھائےگا۔ تیرے ابا نے اس کی منت کی ہے۔
لیکن یہ دوسروں کو کیوں نہیں پڑھاتا؟ سارا دن خالی بیٹھا رہتا ہے۔
بیٹے جِن نے اس پر سایا کیا ہوا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ زیادہ دیر پڑھا نہیں سکتا۔
میری سمجھ میں والدہ کی باتیں نہیں آئیں لیکن چُپ ہو گیا۔ دوسرے دن صبح آٹھ بجے بستہ لے کر سکول پہنچا اور ارادہ کیا کہ اپنی کلاس کی طرف جاؤں۔ اسی لمحے اس نے دور ہی سے مجھے دیکھ لیا۔ دراصل پیپل سکول کے مرکزی گیٹ سے اندر داخل ہوتے ہی جنوبی دیوار کے ساتھ تھا، جو سامنے بیس تیس قدم پر موجود تھی۔ اس کے اور گیٹ کے درمیان کوئی شے حائل نہیں تھی۔ مجھے دیکھتے ہی اس نے لاٹھی ہلا دی اور مجھے اس کی طرف جانا پڑا۔
لو جی، آج منتر کاپہلا سبق شروع کرتے ہیں لیکن پہلے ایک سوال آپ کی درسی کتابوں کا ہو جائے۔ اس نے میرے ہاتھ سے بستہ لے کر اسے ٹٹولتے ہوئے کہا۔ میں نیچے اسی جڑ کی چوکی پر بیٹھ گیا، جس پر کل بیٹھنے کو کہا گیا تھا۔ اس کے بعد ڈیڑھ گھنٹے تک اس نے مجھے اس طرح درسی کتب پڑھا ئیں گویا با تیں ہو رہی ہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ اس نے مجھے کچھ پڑھایا تھا، ہاں جو باتیں کیں وہ سب یاد ہو گئیں۔ اچانک اس نے کہا اب آپ کو منتر سکھائیں گے اور دو چھوٹے چھوٹے پھٹے سے قاعدے نکال لیے۔ جس کی زبان کچھ عجیب سی تھی لیکن اس کو پڑھنے میں مزا آتا تھا۔ دو منتر وہیں بیٹھے بیٹھے یاد بھی کرا دیے۔ اس کا نام اس وقت اس نے مجھے امیر خسرو کی پہیلیاں بتایا تھا اور سختی سے منع کیا کہ کسی کو اس منتر کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں بتانا ورنہ سارا اثر زائل ہو جائےگا۔ اس نے کہا، ایک اور بات کا دھیان رہے، جس دن یہ موتی میں نے تیرے حوالے کیا، اس کے بعد میں زندہ نہیں رہوں گا۔ اس لیے پہلے تمام منتر سیکھ لو پھر مو تی لینا کہیں کام ادھورا نہ رہ جائے اور جن تم پر چڑھ دوڑے۔ جلدی نہیں کرنا کہ جلدی کرنا شیطان کا کام ہے۔ وہ تم کو بار بار بہکائےگا مگر تم اس کی باتوں میں نہ آنا۔ یہ باتیں جاری تھیں اتنے میں ایک طوطے نے اوپر سے وہ بیٹ پھینکی کہ استاد جی کی پوری ناک اور دامن کا کرتہ سرخ رنگ بیٹ سے بھر گیا۔ جس کے اندر پیپل کی گوہلوں کے چھوٹے چھوٹے بیج صاف نظر آتے تھے۔
او تیرا ستیاناس، نالائق جگہ بھی نہیں دیکھتے۔ منشی فضل حسین نے ہش ہش کرتے ہوئے اوپر کی طرف دیکھا۔
استادجی آپ فکر نہ کریں، میں کل غلیل لے کر آؤں گا۔ سب کو تاک تاک کر ماروں گا، میں نے منشی کی خوشامد کی اور ایک مٹی کا ڈھیلا اٹھاکر اوپر پھینکا۔
نا بیٹا نا، ان کو مارتے نہیں، یہ پرندے خدا کی اولاد ہیں، انہیں ماروگے تو خدا ناراض ہوگا اور وہ بھی تمھیں مارےگا۔
استادجی خدا تونہیں مارتا۔ میں نے پہلے بھی کئی بار انہیں غلیل سے مارا ہے۔
اچھا یہ بتاؤ، تمھیں کبھی بخار ہوا ہے؟
کئی بار۔ ایک دفعہ تو میں بے ہوش ہو گیا تھا۔
بس یہی خدا کی مار ہے۔ وہ کوئی تھپڑوں سے تھوڑی مارتا ہے؟ بلکہ کل سے تم ایک اور کام بھی کرو۔ گھر سے روزانہ ایک روٹی اِن کے لیے لاؤ اور اُس کے ٹکڑے کرکے ان کے آگے پھینکا کرو۔ ہم اِن کے گھر آ کر بیٹھے ہیں۔ اس کا معاوضہ بھی تو ان کو دینا ہے۔
استادجی کی بات پر میں کھلکھلا کر ہنس دیا۔ یہ کوئی ان کا گھر تھوڑی ہے؟
تو اور کس کا گھر ہے؟ کیا کبھی تم نے انسانوں کو درختوں پر رہتے دیکھا اور پرندوں نے کبھی مکان بنائے؟
نہیں تو۔
اگر نہیں تو پھر میری بات پر ہنسنے کی کیا تک ہے؟ بھئی خدا نے درخت اِن پرندوں کے لیے ہی تو بنائے ہیں۔ یہ تو اِن کی مہربانی ہے کہ ہمیں سائے میں بیٹھنے کی اجازت دے دیتے ہیں۔ اگر ہمارے سروں پر ٹھونگے مار مار کر نکال باہر کریں تو ہم ان کا کیا بگاڑ لیں گے۔ انسان تو اتنا کم ظرف ہے، ان درختوں کو کاٹ کر اپنا سایا اور ان کا گھر تباہ کر دیتا ہے۔
بات کچھ کچھ میری سمجھ میں آ رہی تھی۔ واقعی استاد جی سچ کہتے تھے۔ ان کا ٹھونگا بہت بُرا ہو تا ہے۔ مجھے فوراً یاد آیا جب میرے سر کی ٹنڈ کو ابھی دو دن ہی ہوئے تھے۔ میں گھر کے صحن میں کھڑا جلیبی کا ٹکڑا کھا رہا تھا تو ایک کوئے نے میری ٹنڈ پر وہ زور کا ٹھونگا مارا کہ خون نکل آیا آیا اور جلیبی ہاتھ سے گر گئی تھی۔ جسے دوسرا کوا فوراً جھپٹ کر لے گیا تھا۔
میں نے کہا، استادجی یہ کوئے بہت بُرے ہوتے ہیں۔ بہت سخت ٹھونگا مارتے ہیں۔
میری بات پر منشی فضل حسین کی ہنسی نکل گئی۔ وہ بولا، اسی لیے تو میں کہتا ہوں، ایک ایک پرندے کا نام یاد کر کے ان کو دوست بنا لو۔
یہ میرے دوست کیسے بنیں گے؟ یہ تو ڈر کے اڑ جاتے ہیں۔
جب تم ان کو غلیل سے ماروگے تو کیا آ کر تمھارے گلے ملیں؟
اتنے میں تفریح کی گھنٹی بجی اور میں نے للچائی ہوئی نظروں سے منشی کی طرف دیکھا، کہ وہ مجھے چھٹی کا کہے مگر اس نے ایک اور کام کیا۔ خود اٹھ کر کھڑا ہو گیا اور کہا، میرے ساتھ آؤ۔ وہ مجھے کیاریوں اور پھولوں کے پاس لے آیا اور ایک شاخ کو جھکاکر اس کے اُوپر نہا یت خوبصورت پھول کو میرے سامنے کیا۔
یہ کیا ہے؟
یہ پھول ہے، میں نے فوراً جواب دیا۔
اور اس کی پتیوں کے اندر کیا ہے؟
اب پھر میرا علمی سرمایہ ختم ہو گیا۔ پتیوں کے اندر کیا ہو سکتا تھا، کچھ بھی نہیں تھا۔ میں کیا جواب دیتا؟
میں نے مسکراکر کہا، کچھ بھی تو نہیں ہے۔
کیوں کچھ نہیں ہے؟ اس کی پتیوں کے اندر جو یہ نیلے پیلے اور گلابی ریشے نظر آتے ہیں، یہ اصل میں خداکی نرم روحیں ہیں اور یہ جو ہلکی ہلکی خوشبو سونگھ رہے ہو، جسے تم دیکھ نہیں سکتے، یہ خدا ہے۔ یہی وجہ ہے، جو انسان جتنے زیادہ پھول اور درخت لگاتا ہے، اللہ میاں اس سے اتنا ہی خوش ہوتا ہے اور اسے بڑے بڑے سفید موتی دیتا ہے۔
اس کے بعد وہ مجھے دیر تک ایک ایک پھول کی کہانی بتانے لگا، جن کے اندر جنوں اور پریوں کے مسکن تھے۔ اب مجھے یاد آیا کہ یہ جو بار بار پھولوں اور درختوں کی طرف دیکھتا رہتا تھا، دراصل یہی راز تھا۔ مجھے دوسرے لڑکوں پر ہنسی آئی جن کو اس بات کا پتا نہیں چل سکا تھا کہ اصل میں منشی فضل حسین کے ہاتھ یہ موتی اور جن کیسے لگا۔
میں نے دیکھا، تمام لڑکے کھیل چھوڑ کر ہمارے نزدیک آ گئے تھے۔ لیکن اتنا نزدیک بھی نہیں کہ منشی کی باتیں سن سکیں۔ بلکہ ایسے فاصلے پر، جہاں سے خطرہ بھانپتے ہی بھاگ سکیں۔
یہ وقت ایسے گزرا کہ مجھے پتا ہی نہ چلا، کب تفریح ختم ہوئی اور کب لڑکے اپنی کلاسوں میں چلے گئے۔ میں اس وقت چونکا جب منشی نے کہا، اب تم کو جازت ہے، گھر چلے جاؤ اور میں گھر چلا آیا۔
اب کیا تھا، میں سب کچھ خوش خوش یاد کرنے لگا اور جی ہی جی میں انڈے برابر سفید موتی کے خواب دیکھنے لگا۔ پھر یہ خواب راتوں کو بھی آنے لگے۔ کئی بار ایسے ہوا، مَیں خواب میں موتی کو لیے چھپاتا اور بھاگتا پھر رہا ہوں لیکن نیند سے بیدار ہوتے ہی اپنے خالی ہاتھ دیکھ کر مایوس ہو جاتا۔ اسی عالم میں مجھ پر دن اور مہینے گزرنے لگے۔ پہیلیاں پڑھیں، کلیلہ و دمنہ پڑھی، بیتال پچیسی اور بیتال بتیسی حفظ کی۔ کچھ منتر جلدی یاد ہو جاتے تھے اور کچھ دیر میں۔ خاص کر جو شعروں میں تھے وہ منٹوں میں حفظ ہو جایا کرتے۔ دن مہینے اور مہینوں نے چار سال کا منہ دیکھ لیا۔ پیپل کی جڑ، جس پر میں بیٹھتا تھا، وہ گھِس کرمنشی فضل حسین کی لاٹھی کی طرح سفید اور ملائم ہو گئی۔ مجھے ایک ایک جڑ کا حلیہ اور نقشہ اِتنا ازبر ہو گیا کہ ذرا سی تبدیلی کو فوراً بھانپ لیتا اور پیپل کی شاخیں اور ان پرپرندوں کے گھونسلوں کی تعداد تک یاد ہوگی۔ اب مجھے منشی کی لاٹھی کی مٹھی کو بھی بلا اجازت چھونے میں جھجک نہ تھی اور میں کئی بار اُس کو پکڑ کے چلا بھی تھا۔
ہم دونوں شام کے وقت قصبے کے مضافات میں نکل جاتے۔ وہ آگے آگے میں پیچھے پیچھے۔ باغ، فصلیں، چرواہے، گائیں اور بھینسیں اور ان کے گلے میں بجتی ہوئی گھنٹیاں، کوئلوں اور فاختاؤں کے نغمے، اور قصبے سے جنگلوں کی طرف شام کو اڑ اڑ کر جاتے ہوئے ہزاروں پرندے اور کھیتوں سے واپسی پر کسان بیلوں کی جوڑیاں ہنکاتے ہمارے رازداں تھے اور ہم ان کے۔ پانچ سال گزر گئے۔
دن کیا، رات کیا، مَیں منتر پڑھتے تھکتا نہیں تھا۔ ایسی ہڑک لگی کہ بعض دفعہ ساری رات جاگتا اور جادو کے ملکوں کی سیریں کرتا۔ آنکھیں سرخ ہو جاتیں۔ منتر ختم ہونے میں نہیں آتے تھے۔ الف لیلہ، امیر حمزہ کا عمر عیار، سامری جادو گر اور قصہ چہار درویش، طوطا کہانی، قصہ حاتم طائی، مثنوی سحر البیان اور زہر عشق کے منتروں نے وہ رونق پیدا کی اور ایسے ایسے سفید موتی دکھا دیے کہ ان کے آگے منشی جی کے موتی کی کچھ حیثیت نہ رہی۔ ان منتروں کے علاوہ ساتویں کی درسی کتابوں میں بھی لڑکے تو ایک طرف استادوں کے کان کاٹنے لگا۔ ہزاروں ہی شعر، تاریخی قصے، اور حکائتیں یوں زبان سے پھسلنیں لگیں کہ سبحان اللہ کہیے۔
مگر اس کے ساتھ ہی ساتھ منشی فضل حسین کی کھانسی اور خون کی تھوکیں بہت زیادہ بڑھ گئیں۔ لیکن وہ لکڑی کی چھوٹی چھوٹی پٹیوں کی قینچی نما کرسی، جس کو تہہ بھی کیا جا سکتا تھا، پر اسی طرح اکڑوں بیٹھا، مجھے میر اور انیس کی ساحری تک لے گیا۔
ایک دن جب ہم شام کو ٹہلتے ہوئے ٹیوب ویل کے کنویں تک پہنچے، جس کی نال سے ٹھنڈا پانی شراٹے بھر بھر کر ایک نالی میں گر رہا تھا، اس نے مجھ سے کہا، اب وہ موتی تمھارے حوالے کرنے کا وقت آ گیا ہے جس کا تم سے وعدہ کیا تھا۔ میں ہنس دیا۔ کیونکہ اب میں جان گیا تھا کہ موتی کی حقیقت کیا تھی۔ اس کے پاس کوئی موتی نہیں تھا۔ اُسی وقت اسے شدید کھانسی کا دوررہ پڑا، جس میں بہت دیر تک ہلکان ہوتا رہا اورکھانسی کے ساتھ خون کے چھینٹے باہر پھینکتا رہا۔ یہ ٹی بی کی آخری اسٹیج تھی۔ آخر بڑی مشکل سے میں اسے اس کے گھر تک لایا۔ جب اس کی طبیعت سنبھلی تو اس کی بیگم نے کہا (جو اب مجھے بیٹوں برابر خیال کرنے لگی تھی) بیٹا اب تم چلے جاؤ۔ آپ کے اُستاد اب ٹھیک ہیں۔ میں گھر چلا آیا۔
اسی رات وہ مر گیا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے، جب میں آٹھویں درجے میں تھا اور غالب نامی ساحر کے منتر یاد کر رہا تھا۔
اس کے بعد میرا جی اس اسکول میں نہیں لگا اور مَیں والد سے ضد کر کے دوسرے اسکول میں داخل ہو گیا۔ لیکن چھُٹی کے بعد اور شام کے قریب، جب ہر شے پرسکون ہوچکی ہوتی اور میرے ہم عمر اس کے گراسی گراونڈ میں کھیل رہے ہوتے، مَیں اُس پیپل کے پاس جا کر بیٹھ جاتا اور ناغہ نہ کرتا۔ پرندوں کو روٹیاں ڈالتا اور ان کے ساتھ مل کر نغمے گاتا۔ اس ملائم ابھری ہوئی جڑ پر بیٹھ کر کچھ منتروں کا ورد کرتا۔ اب میں خود بھی اتنا ہشیار ہو گیا تھا کہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر ساحری کے خزینے جمع کرنے لگا۔ میں چاہتا تھا، زیادہ نہیں تو اپنے قصبے میں کوئی مجھ سے بڑا جادوگر نہ ہو۔ اس طرح موتیوں کا ایک بےبہا خزانہ میرے پاس اکٹھا ہو گیا۔ باغوں، کھلیانوں، ہواؤں، چرواہوں اور جانوروں کے گلے میں بجتی ہوئی گھنٹیوں اور ہلوں سے تلپٹ ہوتی زمینوں سے کیڑے مکوڑے چنتی لالیوں اور ہوا میں قلابازی کھاتے پرندوں سے میری دوستی پکی سے پکی ہوتی گئی اور مَیں خود منتر بنانے لگا، جو گائے بھی جا سکتے تھے اور پڑھے بھی جا سکتے تھے۔ منتر پڑھتا پڑھتا میں کسی دوسرے علاقے میں چلا گیا، جہاں مجھے اپنے دور کا سب سے بڑا جادوگر مان لیا گیا۔ اب وہ جِن مکمل طور پر میرے قبضے میں آ گیا تھا۔ اس کے بعد اِسی شغل میں زندگی کے اڑتیس سال نکل گئے اور میں گھاک جادو گر ہو گیا۔ ایک دن میں اپنے ساحرانہ نغمے سناتا سناتا اسی قصبے میں واپس آ گیا، جو اب شہر بن چکا تھا۔
بالکل یہی دن تھے۔ یہی موسم تھا۔ میں بھی وہی تھا۔ سکول بھی وہیں تھا لیکن وہ پیپل نظر نہیں آ رہا تھا۔ بالکل اِسی جگہ پر تھا، جہاں دیو ہیکل بھدی عمارت کھڑی تھی اور اس کی پیشانی پر انتہائی سیاہ عبارت میں پرنسپل ڈیپارٹمنٹ لکھا تھا۔ میں پیپل کی جڑوں کو بوسہ نہیں دے سکتا تھا کہ وہ میری دسترس سے باہر تھیں۔ پرندے غائب تھے۔ پھولوں کی کیاریوں کی جگہ پکی روشیں بن گئیں۔ سکول کے مضافات غائب تھے۔ چاروں طرف اونچی اور بڑی دیوار تھی، جس کے باہر چرواہے اور بھیڑیں بھی نہیں تھیں۔ لڑکوں کی تعداد بہت زیادہ اور ان کی پوشاکیں بدل چکی تھیں۔ ہاتھوں میں نوٹس کے بھاری رجسڑ تھے۔
اتنے بڑے سکول میں نہ کسی استاد کو پتا تھا، نہ طالب علم کو کہ یہاں کوئی منشی فضل حسین بھی تھا، جس کے پاس انڈے برابر سفید موتی ہوتا تھا۔ نہ کسی کو یہ پتا تھاکہ میں کون ہوں؟ اور میرے پاس کئی سفید اور نایاب موتیوں کا خزانہ ہے۔
میں آہستہ اور دبے پاؤں وہاں سے نکلا جیسے مجھ پر چوری کا شُبہ ہو۔ سکول سے نکل کر قبرستان کا رخ کیا اور منشی فضل حسین کی قبر کے سرھانے جا پہنچا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.