ساکت وقت
دروغ نگر کی مشرقی فصیل کے باہر بیٹھا بوڑھا خاروت اب بھی جاگ رہا تھا۔ یہ دور پچھلے ادوار سے زیادہ تاریک تھا اوراب اپنے اختتام کا منتظر کا تھا۔ یہ وہی بوڑھا خاروت تھا جسے نابیناؤں کی بستی میں بسارت عطا ہوئی۔ ہر تاریک دور کے اختتام پر یہ بوڑھا نقارہ بجاتا اور اعلان کرتا ’’شفق پھولنے والی ہے۔‘‘ اس اعلان کے ساتھ ہی جشن کا آغاز ہوتا اور دروغ نگر کے باسی اپنے حکمران ’’کاذب زماں‘‘ کا انتخاب کرتے۔ آج پھر مشرقی فصیل کی جانب سے خاروت دوڑتا ہوا شہر کے میں داخل ہوا اور شہر کے درمیان ’’گلستان خواب‘‘ میں نقارے کی آواز گونجنے لگی۔ دروغ نگر کے باسی اپنے گھروں سے نکل آئے اور نقارے کے سامنے جمع ہوگئے۔ بینا خاروت نے اپنا خطاب شروع اور اس کی آواز بے حس سماعتوں سے ٹکرانے لگی۔
’’اے اہل دروغ نگر سنو! میری التجا غور سے سنو۔ ایک لمبے تاریک دور کے بعد آفتاب امید پھر سے طلوع ہونے کو ہے۔ چنو اپنا حاکم۔ وہ حاکم کہ جو آفتاب امید کی روشنی بن کر ابھرے اور یہ تاریک دور ختم ہو جائے۔ دیکھو چننے کا حق امانت ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ امانت میں خیانت کر بیٹھو اور پھر ’’آفتاب امید‘‘ کا انتظار طویل تر ہو جائے۔‘‘
اس دن شفق پھر سے پھولی اور جو ہمیشہ سے نابینا تھے کچھ دیر کے لیے بینا ہوئے۔ اہل دروغ نگر کو ہر منظر صاف دکھا ئی دینے لگا۔ جشن شروع ہوا۔ وہی جشن جس میں ’’کاذب زماں‘‘ کا انتخاب ہونا تھا۔ ایک شخص لوگوں کے کندھوں پر سوار ہو کر میدان میں داخل ہوا اور چبوترے پر چڑھ کر یہ دعویٰ کیا کہ وہ سچا ہے۔ ایک بوڑھا شہر کی عبادت گاہ سے باہر آیا اور عبادت گاہ کے زینوں پر کھڑا ہو کر اس نے یہ اعلان کیا کہ خود کو سچا کہنے والا یہ شخص جھوٹا ہے۔ اسی دوران ایک اور شخص جلوس کی قیادت کرتے ہوئے میدان میں داخل ہوا اور اس نے عبادت گاہ کے زینے پر کھڑے شخص کی حمایت کا اعلان کر دیا اور لوگ اس بوڑھے کے حق میں نعرے لگانے لگے۔ پھر دروغ نگر کے باسیوں نے دیکھا کہ ایک شخص سنہری رتھ پر سوار ہو کر میدان کی جانب بڑھ رہا ہے۔ اس کے پیچھے غلاموں کی ایک فوج ہے اور ان کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہے۔ ہر غلام کے ہاتھ میں ایک سنہری تھال ہے جس پر خواب رکھے ہیں۔ وہ شخص میدان میں داخل ہوا اور اعلان کیا کہ میدان میں موجود یہ سچائی کے سب دعوے دار در حقیقت کاذب ہیں۔ کاذب کاذب کے نعرے بلند ہو نے لگے۔ اس نے غلاموں کو حکم دیا کہ تھالوں میں سجے سب خواب ہجوم میں بانٹ دیئے جائیں۔ ان خوابوں نے، ان کو جو کچھ دیر کے لیے بینا ہوئے تھے، پھر سے نا بینا کر دیا۔ دروغ نگر میں جھوٹ اور سچ کا مفہوم ایک سا ہو گیا اور اس شہر کے باسیوں نے ’’ کاذب زماں‘‘ چن لیا۔ یہ دور سابقہ دور سے زیادہ تاریک اور طویل ہے۔ شہر کی مشرقی فصیل کے باہر بیٹھا بوڑھا خاروت مر رہا ہے اور دم مرگ یہ کہہ رہا ہے ’’اے اہل دروغ نگر سنو! وقت بدلا نہ جائے تو رک جاتا ہے۔‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.