Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

سلاخیں

ایمن تنزیل

سلاخیں

ایمن تنزیل

MORE BYایمن تنزیل

    وہ ایک بوسیدہ کمرے میں بیٹھا کسی چیز کو درست کر رہا تھا۔ اس کمرے میں تاروں کے کچھ گچھوں اور اوزاروں کے علاوہ ایک طرف کپڑوں کا بکسہ رکھا ہوا تھا جس کے ادھ کھلے منھ سے کچھ کپڑے نکل کر زمین پر بکھرے ہوئے تھے۔ کمرے کی دوسری طرف چھوٹی سی میز پر ایک گلاس اور پانی کا جگ رکھا ہوا تھا۔ جگ کی صورت بتا رہی تھی کہ کافی دنوں سے دھلا نہیں ہے۔ وہیں پاس میں ایک کرسی رکھی ہوئی تھی جس کو جگہ جگہ سے تاروں سے جوڑ کر بیٹھنے کے قابل بنایا گیا تھا۔ کمرے کے دروازے اور کھڑکی میں زیادہ فاصلہ نہیں تھا۔ دیواروں کا چونا ختم ہو چکا تھا۔ بلب کی پیلی روشنی میں وہ کچی دیواریں منھ چمکا کر اپنے بوڑھے وجود کا احساس دلا رہی تھیں۔ ٹین شیڈ کی چھت میں ٹنگا پنکھا اس سست رفتاری سے چل رہا تھا مانو جبراًً ہوا دے رہا ہو۔

    بادل گرجنے کی زوردار آواز نے اس کے ذہن کو منتشر کر دیا۔ تیز ہوا کے جھونکوں سے کھڑکی کا دروازہ خود ہی کھلنے اور بند ہونے لگا۔ موسم نے کروٹ لی چند لمحات قبل کی گرم ہوا میں نمی اور خنکی پیدا ہو چکی تھی لیکن مختلف خیالات اس کے ذہن میں اس طرح ٹکرانے لگے کہ خوش گوار موسم کی فضا بھی اس کے اندر کی گھٹن کو دور نہ کر سکی۔ تبھی ایک عجیب سا شور اس کو سنائی دینے لگا۔ اس سے نجات پانے کے لئے کبھی اپنے ہاتھوں کو کانوں پر رکھتا تو کبھی تکیے سے اپنا پورا چہرہ ڈھانپ لیتا۔ اتنی دیر میں وہ پسینے سے تر ہو گیا اور عجیب سی سنسناہٹ اس کو اپنے جسم میں محسوس ہوئی۔ وہ بیڈ سے اٹھا اس کو اپنا ایک ایک قدم ایسا محسوس ہوا جیسے میلوں کا سفر پیدل طے کرکے آیا ہے۔ ہمت کرکے زمین پر گرے پردہ کو اٹھایا جو تیز ہوا کے جھونکوں سے گر پڑا تھا۔ سگریٹ کی ڈبی جیب سے نکالی، کچھ دیر سگریٹ کو اپنی انگلیوں کے درمیان رکھے وہ سوچتا رہا پھر اپنے خیالات کو جھٹک کر لائٹر سے سگریٹ سلگا کر کش لگانے لگا۔ کھانسی کا ایک پھندہ پہلا کش لیتے ہی اس کے حلق میں پھنس گیا لیکن سگریٹ پینے کا سلسلہ اسی طرح برقرار رہا۔ دھواں بند کمرے کی فضا میں تحلیل ہو چکا تھا۔ تھوڑی دیر بعد اس کے چہرے پر طمانیت کے آثار نظر آئے لیکن مختصر وقت کی مہمان طمانیت اس کو مغموم کر گئی۔ وہ عجیب کشمکش میں مبتلا تھا لیکن انسانی فطرت کا تقاضہ اس کے ساتھ بھی وہی تھا۔ وہ ہر اس سوچ سے چھٹکارا چاہتا تھا جو اس کے دل میں کچوکے لگائے۔ ابھی وہ مختلف خیالات سے پیچھا چھڑانے کے بارے میں سوچ ہی رہا تھا کہ بہت سے کردار اس کے ارد گرد گھومنے لگے جو اسے حقیقی نظر آرہے تھے۔ کوئی چیخ رہاتھا۔۔۔کوئی بلک بلک کر رو رہا تھا۔۔۔مختلف سماعتوں کا ارتعاش تھا۔۔۔ہاں ارتعاش!

    اس کی آدھی سگریٹ تو کب کی راکھ ہو کر زمین پر بکھر چکی تھی بچی ہوئی سگریٹ بھی کپکپاتے ہاتھوں سے چھوٹ کر گر پڑی وہ ہڑ بڑا سا گیا۔ اس کی آنکھوں کے سیاہ پپوٹے پانی سے بھر گئے۔

    ‘’اب یہ آنسو کس لئے ہیں؟‘‘

    ک۔۔۔کس۔۔۔کس لئے مطلب؟‘‘

    اس کی آنکھیں خوف سے بڑی ہو چکی تھیں۔ وہ گھبراکر اپنے آس پاس دیکھنے لگا۔

    ‘’کیا ہوا ۔۔۔؟ جواب دو!‘‘

    دوبارہ وہی آواز اس کو سنائی دی اور وہ اپنے رندھے گلے سے اتنا ہی کہہ سکا:

    ‘’جب انسان ٹوٹ جاتا ہے تب آنسو ہی ہوتے ہیں اور کوئی نہیں ہوتا۔‘‘

    بارش اور تیز ہو گئی تھی۔ کچھ چھینٹیں کمرے میں آرہی تھیں لیکن ان چھینٹوں کا ٹھنڈا لمس بھی اس کو سکون نہ دے سکا اور اس پر وہی کیفیت طاری رہی۔ وہی پسینہ، وہی ابلی لال آنکھیں اور اب تو اس کو اپنا وجود بھی کہیں دھنستا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔

    ‘’اوہ۔۔۔! تم ٹوٹ چکے ہو۔۔۔!‘‘

    ایک طنزیہ آواز پھر اس کے کانوں سے ٹکرائی۔

    ‘’ہاں۔۔۔!‘‘

    اس کی سانس پھولنے لگی اور دھڑکنیں اس قدر تیز ہو گئیں جیسے اس کا دل ابھی حلق میں آجائےگا۔۔۔چہرہ سرخ ہو گیا اور کنپٹی کی نسیں پھول کر اپنی نیلی رنگت ظاہر کر رہی تھیں۔

    ‘’لیکن تم کون ہو۔۔۔؟ اور یہاں کیا کر رہے ہو؟‘‘

    کچھ دیر پہلے اس کی جس آواز پر دہشت طاری تھی اب وہ اسی آواز کو پر اعتماد بنانے کی کوشش کر رہا تھا حالانکہ اس کا جسم پوری طرح پسینے سے تر تھا۔

    بارش رک چکی تھی۔ دونوں طرف خاموشی تھی۔ اس نے پریشان ہو کر اپنی آنکھیں بند کر لیں ۔چند منٹ بعد آنکھیں کھولیں تو سامنے کوئی نہیں تھا۔ اس نے سکون سے ایک سانس لی اور بیڈ کے نزدیک رکھی کرسی پر بیٹھ گیا۔

    ‘’پہلے تم ہی اپنے بارے میں بتا دو۔۔۔!‘‘

    پھر وہی آواز اس کی سماعتوں سے ٹکرائی۔ گھبرا کر ادھر ادھر دیکھا تو وہ کرسی کے پیچھے کھڑا تھا۔

    ‘’کبھی کہانی سنی ہے تم نے؟‘‘

    کچھ دیر اپنے سر کو دونوں ہاتھوں سے پکڑا خاموش بیٹھا رہا پھر چیخ کر کہنے لگا:

    ‘’ہاں سنی ہیں۔۔۔بہت سنی ہیں۔۔۔بس! اب جاؤ یہاں سے اور مجھ سے فالتو سوال کرنا بند کرو۔‘‘

    کھڑے ہوتے ہوئے اس نے اتنا کہا اور اپنے پیر زمین پر پٹخنے لگا۔۔۔اتنے میں آنکھوں میں سرخی چھائی اور وہ نمکین پانی سے بھر گئیں۔

    ‘’ایک ریلوے پلیٹ فارم پر لاشیں ہی لاشیں تھیں اور کچھ لاشوں کے نیچے ادھوری سانسیں!‘‘

    ‘’لاشیں۔۔۔؟ کہاں۔۔۔؟‘‘

    وہ گھبرا کر اس سے پوچھنے لگا۔

    ‘’آگے سنو۔۔۔کوئی بچہ تھا، کوئی عورت یا پھر۔۔۔شناخت نہیں ہو رہی تھی کیونکہ جسم خون کی سرخ چادر سے ڈھکے ہوئے تھے۔‘‘

    ‘’افف!‘‘

    اس نے سن کر ایک درد بھری آواز میں کہا۔

    ‘’ہاں دوست بہت مشکل سے ان لوگوں کو نکالا جن کے اندر کچھ ٹوٹی ہوئی سانسیں ٹکرا رہی تھیں شاید زندگی ان کو مہلت دے رہی تھی ورنہ ہر طرف خون ہی خون تھا۔

    ایمبولینس کا ہوٹر دلوں کو دہلا رہا تھا اور پولیس وہاں ہجوم کو روکنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔

    ‘’یہ واقعہ کب ہوا تھا۔۔۔؟ اور کس شہر میں؟‘‘

    اس کی آنکھیں ٹکٹکی باندھے اپنے سوال کے جواب کا انتظار کر رہی تھیں لیکن۔۔۔کہانی پھر آگے بڑھی!‘‘

    ‘’کچھ لوگوں کی آواز روتے روتے تھک چکی تھی ان کا کرب وہاں موجود ہر شخص کو لرزا رہا تھا اور۔۔۔اور ایک عورت اپنی سرخ ہتھیلیوں سے زمین پر کچھ تلاش کرتی اور پھر بےبس ہوکر اپنے ہاتھوں کو زمین پر پٹخ دیتی۔’‘

    کہانی سنتے سنتے اس کا گلا خشک ہو گیا۔ پانی پینے کے لئے اس نے اٹھنا چاہا تو ایسا محسوس ہوا گویا اس کے پیر زنجیر سے جکڑے ہوئے ہیں، جسم پر بہت سا وزن لدا ہوا ہے اور دماغ تو اس قدر بھاری ہو گیا کہ اس کی آنکھیں بھی پوری طرح نہیں کھل رہی تھیں۔

    ’’ماتم۔۔۔!‘‘

    یہ الفاظ اس کے کانوں میں سیسے کی مانند پگھلتے ہوئے گزرے۔

    ‘’ہاں۔۔۔! ماتم سناٹے میں بدل چکا تھا جس نے بہت سے حوصلوں کا گلا گھونٹ دیا تھا، چہکتی امنگوں کے لب ہمیشہ کے لئے بند کر دئے تھے اور خوابوں کے لئے پھول تو کھلنے سے پہلے ہی دم توڑ چکے تھے۔‘‘

    اس کے کانوں میں شور گونجنے لگا، چیخیں اس کے دماغ کی ایک ایک نس سے میں چبھ رہی تھیں، روتے بلکتے منظر اس کی آنکھوں میں سما گئے۔

    ‘’تم کون ہو؟ یہ تو بتا دو۔۔۔‘‘

    بہت مشکل سے اس نے یہ الفاظ ادا کئے۔

    ‘’تمہیں معلوم ہے کہ میں کون ہوں؟‘‘

    وہ کچھ سوچنے لگا تھا، اس کے ماتھے کی سلوٹیں اور پلکوں کی بےچینی نے تیزی سے ماضی کے اوراق پلٹ دئے۔

    اس کے دوست نے اس پہاڑی کے بارے میں نہ جانے ایسا کیا بتایا تھا کہ وہ وہاں کسی بھی قیمت پر جانا چاہتا تھا۔ ہر وقت اپنے بوڑھے ماں باپ کوراضی کرنے کی کوشش میں تھا۔ انہوں نے اجازت نہیں دی تو ایک دن بن بتائے اپنے گھر کو چھوڑ کر اس پہاڑی پر پہنچ گیا۔ وہ خوش تھا۔۔۔وہاں پہنچا تو کھٹ پٹ آوازیں خاموشی کو چیرتے ہوئے فضا میں گونج رہی تھیں۔ بہت سے لوگ بڑے بڑے پتھروں پر ادھر ادھر بکھرے بیٹھے تھے۔ وہاں کا منظر دیکھ کر اس کی خوشی بھک سے بجھ گئی اور دل دھک سا ہو گیا۔

    خیالات اس کا پیچھا نہیں چھوڑ رہے تھے۔ وہ اپنی دنیا میں واپس لوٹا۔۔۔آسمان نیلا ہو گیا تھا۔ بارش کے آثار نمودار ہوئے۔ کالی گھٹا سے فضا خوش گوار تھی۔ کمرے میں سناٹا چھا گیا تھا پھر آواز گونجی:

    ‘’اچھا! اب تو بتا دو کون ہو؟‘‘

    وہ کپکپا رہا تھا۔۔۔دانت کٹ کٹ بول رہے تھے۔

    ‘’میں کون ہوں؟ بھلا یہ تمہیں کیسے نہیں معلوم؟ اس وقت میری آواز سن لیتے تو شاید۔۔۔!‘‘

    بارش، اولوں اور بجلی کوندنے کی آوازوں نے پھر اسے وہ لمحات یاد کرنے پر مجبور کر دیا تھا جنہیں وہ بھلا دینا چاہتا تھا۔ اس لئے آخر میں اس نے ندامت کے آنسو بہاتے ہوئے خود کو اپنی ذار کی سلاخوں میں قید کر لیا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے