گلی کے آوارہ کتوں نے میاں صاحب کے دروازے پر بھونک بھونک کر تاروں بھرا آسمان سر پر اٹھا رکھا تھا۔
میاں صاحب کی بہت ہی لاڈلی کتیا “سلونی” بھی کہاں خاموش تھی، باہر سے ایک بار بھونکنے کی آواز آتی تو وہ دس مرتبہ اس کا جواب دیتی۔ وہ آزادی چاہتی تھی، وہ چاہتی تھی کہ زنجیر کھلے اور وہ اچھلتی کودتی باہر نکل جائے، پھر گلی کے آوارہ کتے چاؤں چاؤں کرتے اس کے آگے پیچھے پھریں۔ وہ ان کے ساتھ گلیوں میں گھومے، اسی طرح بہت سارا وقت گزارنے کے بعد گھر لوٹ آئے، گھر میں بھی میاں صاحب پیار سے “سلونی سلونی ” کہہ کر پکاریں، انکی بہن بوا جی تھالی میں بسکٹ رکھے، میاں صاحب کی بیٹی سارہ اس کے قریب آکر بیٹھے اور اپنے مرمریں ہاتھوں سے اس کے سر کے سفید ریشمی بال سہلائے۔ ہاں لیکن۔۔۔ میاں صاحب کی بیوی سے سلونی کو بالکل بھی پیار کی توقع نہیں تھی کیوں کہ وہ آتے جاتے سلونی کو گھر سے نکالنے کی ہی بات کرتی تھیں۔
دراصل سلونی کو گھر سے باہر نکلنے کی لت سی پڑ گئی تھی جس کے نتیجے میں وہ دو بار “ماں” بن چکی تھی، سلونی کا یوں ماں بننا میاں صاحب کو بھی سخت ناگوار گزرا تھا۔ اسی لیے انھوں نے یہ فیصلہ کیا کہ سلونی کو بچوں سمیت دوست کے ہاں بھیج دیں گے۔ کیوں کہ سلونی بقول میاں صاحب “آوارہ” ہو چکی تھی۔ دونوں مرتبہ بچے تو تقسیم کر دیے مگر اپنی لاڈلی سلونی کو کسی کے ہاتھوں میں دینے کے لئے اتنا بڑا دل کہاں سے لاتے؟ سو گھر میں سخت ہدایات جاری کر دی گئیں کہ سلونی کی زنجیر نہ کھولی جائے اور باہر کے دروازے پر کنڈی چڑھا کر رکھی جائے۔ ان ہدایات پر سختی سے عمل درآمد ہونے لگا۔ سلونی باہر جاتی نہ آوارہ کتے اندر آتے۔۔۔ نتیجاً سلونی بھونک بھونک کر پاگل ہو تی جا رہی تھی۔ اس نے اپنے پنجوں سے زمین کھود کر ایک گڑھا سا بنا دیا تھا۔ جب تھک جاتی یا میاں صاحب کی بیوی کی گالیاں سُنتی تو “چاؤں چاؤں” کر کے پیروں پر سر رکھ لیتی اور بالوں میں چھپی آنکھوں سے گھر والوں کو تکنے لگتی۔
سلونی کی ا س “چوؤں چوؤں” کا انداز سب گھر والوں کے لئے الگ الگ تھا، جیسے کہ میاں صاحب کی بیوی کو گالیوں کا جواب اپنی زبان میں دے رہی ہو، میاں صاحب کو کوس رہی ہو یا پھر بوا جی اور سارہ سے آزادی کی التجا کر رہی ہو۔
سلونی کی آواز سنی تو میاں صاحب کی بیوی صحن میں آکر چلائیں “کیوں بھونکے جا رہی ہے؟ کمینی کہیں کی۔۔۔ سو بار کہا کسی کو دے آئیں پلید اورنجس چیزوں سے گھر بھر رکھا ہے۔ نہ دن کو چین نہ رات کو۔۔۔”
یہ کہنے کے بعد جب وہ چلی گئیں تو بوا جی نے کچھ بسکٹ تھالی میں رکھے، سلونی نے بوا جی کو دیکھتے ہی مخصوص انداز میں چوؤں چوؤں کیا اور اگلے پاؤں اٹھا کر آزادی کی بھیک مانگنے لگی۔ سلونی کا انداز قابل رحم تھا لیکن بوا جی بھی کیا کرتیں؟ بےبس تھیں، بھائی کا ڈر نہ ہوتا تو نجانے کب کا سلونی کو آزار کر چکی ہوتیں (چاہے کچھ دیر کے لئے ہی سہی)۔
بسکٹ تھالی میں رکھ کر بوا جی کمرے میں آ گئیں جہاں سارہ پہلے سے موجود تھی۔
“ہر وقت بھونکتی رہتی ہے جیسے پگلا گئی ہو۔بھائی جان بھی تو ایک پل کے لئے نہیں کھولتے اسے” بوا جی صوفے پر بیٹھ گئیں۔
سارہ قریب آئی اور بوا جی کے قدموں میں بیٹھ کر اپنا سر انکی گود میں رکھ دیا۔
“کیا بات ہے؟ کیوں بجھی بجھی سی ہے؟” بوا جی نے سارہ کے بالوں میں ہاتھ پھرتے ہوئے بہت شفیق انداز میں پوچھا۔
“کچھ نہیں”
“کچھ تو ہے۔۔۔ بول امی نے ڈانٹا ہے؟”
“نہیں۔۔۔”
“پھر؟”
کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد سارہ بولیں”بوا جی۔۔۔ ایک بات پوچھوں؟”
“ہاں پوچھ” بوا جی ابھی تک سارہ کے بالوں کو سہلا رہی تھیں۔
“بوا جی۔۔۔ وہ۔۔۔ مجھے پوچھنایہ تھا کہ۔۔۔ پہلے آپ بتائیں غصّہ تو نہیں کریں گی ناں؟”
“پاگل تیری بات کا پہلے کبھی غصہ کیا جو اب کروں گی؟ بول کیا بات ہے؟”
“بوا جی۔۔۔ آپ نے کبھی۔۔۔ آپ نے کبھی کسی سے محبت کی ہے؟” سارہ نے جھجکتے ہوئے پوچھا۔
بوا جی کا ہاتھ سارہ کے بالوں پر رک گیا “محبت؟ محبّت۔۔۔ کی تو ہے۔۔۔ اپنے ابا جان سے بہت محبت تھی مجھے” بوا جی کی آواز کچھ لرز رہی تھی۔
“نہیں نہیں، وہ والی نہیں۔۔۔ جب آپ جوان تھیں تو اپنی عمر کے کسی لڑکے کے ساتھ محبّت ہوئی؟”
“بےشرم ہو گئی ہے تو” بوا جی نے سارہ کا سر اپنی گود سے اٹھایا اور صوفے سے اٹھنے لگیں، سارہ نے بوا جی کا ہاتھ پکڑ لیا ”بتائیں ناں۔۔۔” بوا جی نے ایک پل کے لئے سارہ کے معصوم چہرے پر نظر دوڑائی اور پھر دوربارہ صوفے پر بیٹھ گئیں۔
“کیا بات ہے؟ کیوں پوچھ رہی ہے ایسی باتیں؟ لگتا ہے بہت رسالے پڑھنے لگی ہے۔۔۔ یہ سب بکواس کہاں سنتی ہے؟ کالج کی لڑکیوں سے؟”
“بتائیں ناں بوا جی” سارہ نے ضد جاری رکھی۔
بوا جی نے کمرے کے دروازے کی طرف دیکھا اور پھر سارہ کی طرف دیکھتے ہوئے بولیں؛
”بیٹا ایسی محبت تو ایک نا جائز سا تعلق ہے، لڑکیوں کے لئے۔۔۔ اور شادی سے پہلے تو بالکل بھی جائز نہیں”
“مگر محبت تو ایک جذبہ ہے تو پھر یہ جائز ناجائز کیسے ہوا؟” سارہ نے بھولے پن کے ساتھ اپنا معصوم سا فلسفہ سامنے رکھا۔
“بکواس ہے۔۔۔ کچھ نہیں ایسا، کہانیوں میں ہوتا ہے، فلموں میں ہوتا ہے۔ یہ ایک گندا غلیظ اور گھناؤنا کھیل ہے۔۔۔ اور بس۔۔۔ ” بوا جی کی آواز پہلے کی نسبت کچھ زیادہ بھری ہوئی تھی۔
“مگر کیسے؟ کیوں؟ کس لیے۔۔۔؟” سارہ کی جبیں پر بل آئے۔۔۔ ادھر صحن میں سلونی کے بھونکنے کی آواز بھی گونجی۔
“کیوں کہ بیٹا ہماری زندگیوں کے فیصلے ہمیشہ ہمارےماں باپ، بھائی اورشوہر طے کرتے ہیں۔ شادی سے پہلے محبت ناجائز تعلق کی طرف پہلا قدم ہی سمجھا جاتا ہے۔ یہ روایت ہے، الجھو گی تو بدنام ہو جاؤگی، لڑو گی تو بے موت مروگی۔۔۔ نصیب ہار ہی ہے۔۔۔ تو نہیں جانتی ہمارے ہاں لڑکی کا محبّت کرنا جرم ہے، کرنا ہی نہیں ہو جانا بھی جرم ہے” بوا جی کا لہجہ بہت شکستہ تھا۔۔۔ لفظوں میں کرب تھا۔
“بوا جی۔۔۔ کیا میں اپنی مرضی سے شادی بھی نہیں کر سکتی؟” سارہ کی آنکھوں میں آنسو ابھر آئے۔۔۔
“شاید کر سکتی ہو، لیکن محبّت نہیں۔۔۔ بالکل بھی نہیں۔۔۔” بوا جی نے ایک ٹھنڈی آہ بھری۔
صحن میں میاں صاحب داخل ہوئے تو سلونی بھونکنے لگی، میاں صاحب جو چند قدم چل کر آگے آ چکے تھے سلونی کی آواز سنتے ہی پیچھے مڑے اور باہر کے دروازے پر کنڈی چڑھا دی۔
جب بواجی نے کھڑکی میں سے انھیں آتے دیکھا تو فوراً اٹھ کھڑی ہوئیں؛
“چل وضو کر لے، نماز کا وقت ہو گیا”
سارہ نے بجھے لہجے میں جواب دیا “نہیں پڑھنی ہے مجھے نماز۔۔۔ آپ جائیں۔۔۔”
سلونی شام سے بہت زیادہ بھونک رہی تھی۔
جب وجود کو جوانی کی میٹھی دھوپ چھوتی ہے تو فطرت کا بانکپن بھی دیکھنے کے لائق ہوتا ہے۔ چاہنے اور چاہے جانے کا دل کرتا ہے۔ چھوٹی چھوٹی خواہشات پانی کے بلبلوں کی طرح بنتی اور ٹوٹتی ہیں۔ جہاں قہقہے لگانے کو جی چاہتا ہے، دل ضد کرتا ہے کہ اس کی بھی سنی جائے۔۔۔ وہ بھی کسی سے کچھ کہے۔
جوانی فطرت کی طرف سے ایک انمول تحفہ ہے۔۔۔ لیکن جہاں خوشبو بکھیرتی یہ پھول کی پتی کی طرح نازک ہے، وہاں اتنی سخت بھی کہ ہواؤں کے دباؤ سے چٹخنے میں دیر نہیں لگتی۔ چنچل، شریر، نٹ کھٹ اور شگفتہ ہے تو ادھر مغرور، خودار، خودسر، منہ زور اور باغی بھی۔۔۔ غضب تو یہ ہے کہ ان تمام خصوصیات کے ساتھ ساتھ یہ کمبخت معصوم بھی ہے۔
کچھ ایسا ہی تھا کہ سلونی اور سارہ کی گھٹن کی وجہ ایک ہی تھی لیکن دونوں کی آرزؤں میں فرق واضح تھا۔ سلونی شعور سے عاری تھی اور اپنی فطرت میں الگ تھی، دوسری طرف سارہ۔۔۔ باشعور تھی اور اپنے اخلاقیات کے پیمانوں کی قدر کرنا جانتی تھی۔ دونوں میں یہ بھی مماثلت تھی کہ دونوں کے گلے میں زنجیریں تھیں۔ ایک کو آہنی زنجیر نے باندھ رکھا تھا دوسری کو کسی غیر مرئی زنجیر نے۔۔۔ اور فطرت کو یہی نامنظور تھا۔
سارہ کبھی کبھی سلونی کے قریب بیٹھ کر اس کے سفید ریشمی بالوں کو سہلاتی اور محسوس کرتی کہ سلونی اور اس کے بیچ میں کچھ تو ہے، لیکن کیا ؟ یہ سمجھ سے باہر تھا۔
بوا جی کی آواز سنائی دی؛
“سارہ بیٹا کھانا کھا لے، اتنی آوازیں دی ہیں۔۔۔ آ جا میری بچی”
“نہیں کھانا کچھ بھی۔۔۔ بھوک نہیں مجھے”
“بیٹا تھوڑا سا تو۔۔۔”
“کہا ناں، نہیں ہے بھوک۔۔۔” سارہ کا لہجہ کرخت تھا۔
بوا جی نے چند بسکٹ سلونی کی تھالی میں رکھے سلونی نے اگلے پیر اٹھا کر بوا جی کے سامنے وہی چوؤں چوؤں کی۔
ساری رات گلی کے آوارہ کتے بھونکتے رہے، سلونی بھی پاگلوں کی طرح برابر بھونکتی رہی اپنے پنجوں سے زمین کریدتی رہی اور سارہ کے بستر کے ساتھ لیٹی بوا جی سارہ کی سسکیاں سنتی رہیں۔
صبح میاں صاحب کی بیوی کمرے میں داخل ہوئیں۔
“حرامزادی سلونی نے ساری رات سونے نہیں دیا، کہو تو کہیں چھوڑ کر نہیں آتے منحوس کو۔۔۔ سارہ اٹھ جا، کالج نہیں جانا؟ کیسے پڑی ہے۔۔۔ اٹھ جا”
“نہیں جانا کہیں بھی۔۔۔” سارہ کا جواب آیا
“نہیں جانا؟ کیوں نہیں جانا؟ اٹھ۔۔۔ ہڈیاں توڑ دوں گی”
سارہ اٹھی اور زور سے بولی “توڑ دو ہڈیاں۔۔۔ میں تمہاری پالتو ہوں ناں؟ جو دل کرےگا وہی کرو گے، جب دل کرےگا نکال کے باہر کروگے۔۔۔ پتہ نہیں کیا سمجھا ہوا ہے۔۔۔”
میاں صاحب کی بیوی نے دانت بھینچتے ہوئے بوا جی کی طرف دیکھا مگر بات سارہ سے ہی کی “تو جس کی زبان بول رہی ہے میں سمجھ رہی ہوں، اتنی سی بات پہ اتنا کیوں اکڑ رہی ہے؟ کیا کہہ دیا تجھے؟”
“کسی کی زبان نہیں بول رہی، آپ اپنے کام سے کام رکھیں، مجھے سلونی مت سمجھیں” سارہ نے منہ پھٹ بن کر جواب دیا۔
میاں صاحب کی بیوی آگے بڑھیں اور کڑکتا تھپڑ سارہ کے منہ پر رسید کیا اور کمرے سے باہر بولتے ہوئے نکل گئیں”کمینی حرامزادی۔۔۔ سلونی۔۔۔ تو ہے ہی سلونی، اس کی زبان بھی اندر نہیں پڑتی تیری بھی۔۔۔ حرامزادی آنے دے اپنے باپ کو، بدزبان۔۔۔”
ادھر سلونی اور زیادہ بھونکنے لگی۔۔۔ میاں صاحب کی بیوی پھر چلائیں ”ایک اسکا بھونکنا بند نہیں ہوتا، آج تو بس اسے گھر سے نکلوا کر ہی رہوں گی، آجائیں وہ۔۔۔ ایک پل کو سکون نہیں لینے دیتی۔۔۔” وہ بولتے بولتے چھت کی سیڑھیاں چھڑنے لگیں۔
بوا جی اور سارہ نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا، سارہ کے گالوں پر آنسو تھے اور بوا جی کی آنکھوں میں۔۔۔
سلونی مسلسل بھونکے جا رہی تھی، اسکا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ زنجیر توڑ ڈالے۔۔۔
بوا جی چپ کے سے اٹھیں اور باہر کا دروازہ کھولا، سر نکال کر گلی کے اطراف میں دیکھا اور پھر سلونی کے قریب جا کر اس کے گلے میں بندھے پٹے میں سے زنجیر نکال دی۔۔۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.