Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

سمجھوتہ

بلونت سنگھ

سمجھوتہ

بلونت سنگھ

MORE BYبلونت سنگھ

    وہ مجھ کو نیے مکان میں چھوڑکر دفتر چل دیے۔

    سامان ابھی بکھرا ہوا ہی تھا۔ میں ایک کرسی لے کر بیٹھ گئی۔ سوچا، ذرا سستا لوں تو کپڑے بدل کر سامان ٹھکانے سے رکھوں۔ عجب سنسان مکان تھا۔ شہرکی ایک نئی آبادی تھی۔ مکانات کی تعداد نہ صرف کم تھی بلکہ جو تھے وہ بھی دور دور۔ مجھ کو تو ان کے دوست کے ہاں اور زیادہ ٹھہرنا دوبھر ہو رہا تھا۔ مکان کا مسئلہ بھی آج کل ایک معمے سے کم نہیں۔ انہوں نے کوچے کوچے کی خاک چھانی۔ ہر واقف کار سے کہا۔ ہزار مصیبتوں کے بعد یہ مکان ملا۔ ان کا خیال تھا کہ سرکاری کوارٹرز میں سے کوئی نہ کوئی کوارٹر مل ہی جائےگا لیکن بدقسمتی سے کوئی کوارٹر خالی تھا نہیں۔ اگر ان کو معلوم ہوتا کہ رہائش کے لیے جگہ ملنے میں اتنی دشواری ہوگی تووہ مجھ کو ہمراہ ہرگز نہ لاتے۔

    مرد آپس میں گذارہ کر ہی لیتے ہیں لیکن عورتوں کا نباہ ممکن نہیں۔ جس کے ہاں ہم اتنے دنوں ٹھہرے رہے، وہ دراصل ان کا دوست نہ تھا۔ بس یہی کہ وہ دفتر میں ان کے نیچے کام کرتا تھا۔ بے چارے کی تنخواہ کم اور ہماری حیثیت بھی افسرانہ تھی۔ ہماری وجہ سے ان کو تکلف بھی کرنا پڑتا تھا۔ اپنے گھر میں تو ہر کوئی گذارہ کر ہی لیتا ہے۔ میں نے ہرچند چاہا کہ گھر کے کام میں میزبان عورت کا ہاتھ بٹاؤں لیکن وہ بے چاری مجھ کو ایسا کرنے کی اجازت کیوں کر دیتی۔ ایک تو میں اس کے شوہر کے افسر کی بیوی، دوسرے نئی نویلی دلہن، پھر پڑھی لکھی بھی۔ ادھر میں حساس، ان سب باتوں کو سوچتی اور دل مسوس کر رہ جاتی۔ ان کے دل کا حال پرماتما جانے۔

    ادھر وہ بھی پریشان، ابھی بالکل نوعمر ہی تو ہیں۔ نئی نویلی پیاری پیاری بیوی سے چوبیس گھنٹوں میں ایک لمحہ کے لیے بھی کھل کربات کرنے کا موقع نہ ملتا۔ مردانے میں بیٹھے گپ ہانک رہے ہیں، کبھی تاش کھیلتے ہیں، کبھی شطرنج مگر دل میں بیوی کا تصور۔ سو سو بہانوں سے آتے ہیں، دبی زبان سے کچھ پوچھتے ہیں۔ میں شرماتی ہوں۔ آخر دوسروں کے سامنے شرمانا ہی پڑتا ہے۔ ہوں ہاں کرکے ٹالتی ہوں۔ کبھی کبھی غصہ آنے لگتا ہے۔ کیوں بار بار بےمطلب کی بات پوچھنے یا کہنے کے لیے آ جاتے ہیں۔ لیکن پھر سوچتی ہوں کریں بھی کیا۔ ہمارے میزبان بھی حالات سے غافل نہ ہوں گے لیکن ناچار تھے۔ جگہ تنگ اور کنبہ بڑا۔

    اب جو نئے مکان میں آئے تو دفتر جانے سے پہلے مجھ کو گلے سے لگایا اور میرا منہ چوما۔

    میں چونکی۔ آخراب یہ نئے خیالات کیا سوجھنے لگے۔ ہاتھ اٹھاکر لمبی لمبی سی جماہی لی۔ پھرا ٹھی، کمروں کا جائزہ لینے کے بعد سوچنے لگی کہ اب ان کی تقسیم کیوں کر ہو۔ دو بڑے کمرے تھے، ایک چھوٹا، ایک غسل خانہ، ایک کچن اور ایک پائخانہ سامنے کی چھت پر۔ سامنے کا حصہ مالک مکان کا تھا مگر تسلی بخش بات یہ تھی کہ مالک نے اس حصے کو گودام بنا رکھا تھا، ورنہ جس مکان میں مالک خود بھی رہے وہاں مجھ کو رہن اپسند نہیں کیوں کہ اس طرح ضرور جھگڑے کی کوئی نہ کوئی صورت نکل آتی ہے۔

    کمروں کی بابت تو میں نے یہی طے کیا کہ ایک بڑا کمرہ توان کے لیے مخصوص ہوگا، دوسرے میں سامان اور ہمارے پلنگ، چھوٹا کمرہ گودام کا کام دےگا۔ چلوچھٹی ہوئی۔ دل میں کیا کیا ارمان تھے لیکن مکان ملتے کہاں تھے۔

    شام کے پانچ بجے اسٹوو پر پانی ابل رہا تھا۔ سوچتی تھی وہ آئیں تو چائے ڈالوں۔ ان کو دیکھنے کے لیے چھت پر چڑھ گئی۔ ایک بات سے میں بہت خوش تھی، وہ یہ کہ جگہ اگرچہ محدود تھی لیکن تھی ہوادار۔ ایک تو دوسری منزل پر، دوسرے شہر سے بالکل باہر۔ پرے کھیتوں کی ہریالی تک نظر جاتی تھی۔ سوچا وہ آئیں تو کھیتوں کی ہوا کھانے چلیں۔ سامنے لکڑیوں اور کوئلے کی ٹال تھی۔ دو چار کاشمیری کلہاڑیاں لیے گھوم رہے تھے۔ ہمارے ساتھ ہی دھوبیوں کے مکانوں کی قطاریں تھیں۔ بائیں ہاتھ پربڑا میدان سا تھا، پھر مکانوں کے سلسلے۔ سب سے نزدیکی مکان ہمارے پچھواڑے تھا۔ اس مکان کے مکین ہی ہمارے پڑوسی تھے۔ انہیں سے کچھ بات چیت ہو سکتی تھی۔ حالانکہ میں زیادہ جھک جھک پسند نہیں کرتی۔ عام ہندوستانی عورتوں کی صحبت مجھے راس نہیں آتی۔ لیکن کیا کیا جائے، آخر ہماری بہنیں ہی تو ہیں اور پھر انسان کہاں تک چپ سادھے رکھے۔ کتابیں پڑھے تو کہاں تک، سینا پرونا کرے تو کہاں تک، آخر دو باتیں کرنے کو جی چاہنے ہی لگتا ہے۔

    ’’کوئی بڑا کنبہ ہوگا۔۔۔‘‘ میں نے پڑوسیوں کے مکان کا جائزہ لیتے ہوئے سوچا۔ تقریباً آدھا حصہ ادھر سے نظر آتا تھا اور باقی آدھا ہمارے مکان کے عین پچھواڑے تھا اور ہماری اپنی چھت کو سیڑھی تک نہ تھی، ورنہ دوسرا حصہ بھی دیکھا جا سکتا۔ سامنے دو کمرے تھے۔ دروازوں کے آگے چقیں پڑی ہوئی تھیں۔ تیسری منزل پر دو کمرے نظر آ رہے تھے۔ ان کے درمیان چھوٹا ساصحن بھی تھا۔ لکڑی کے چوڑے چوڑے تختوں والی سیڑھی سب سے اوپر والے کمرے کی چھت پر چلی گئی تھی۔ نیچے کا صحن بڑا وسیع تھا۔ صحن میں ہماری طرف کو ایک دستی نل بھی لگا ہوا تھا۔ معلوم ہوتا تھا کہ گھر کے لوگ گھر میں نہیں تھے۔ کوئی صورت دکھائی نہ دیتی تھی۔

    میں پھر ان کو دیکھنے کے لئے گلی کی طرف کو جھک گئی۔ ابھی تک نہ لوٹے تھے۔ غصہ آنے لگا۔ پانچ سے اوپر وقت ہو گیا۔ آخر ان کواتنا بھی خیال نہیں کہ گھر میں اکیلی گھبراتی ہوگی۔ کچھ خاص کام پڑ گیا ہوگا ورنہ وہ بچارے تو پر لگاکر مجھ تک پہنچ جاتے۔

    میں اس وقت سیڑھیوں میں کھڑی تھی۔ ہوا خوش گوار تھی۔ میں سینہ پھلاپھلاکر گہرے سانس لینے لگی جیسے کہ ہمارے اسکول میں ہم کو سکھایا گیا تھا۔ اتنے میں مجھ کو احساس ہواکہ کوئی شخص میری طرف دیکھ رہا ہے۔ نظر اٹھائی ہمارے ساتھ والے وسیع مکان کے صحن میں ایک سکھ صاحب زادے کھڑے تھے۔ نظریں ملتے ہی انہوں نے احترام سے جھک کر مجھ کو فرشی سلام کیا۔ میں بوکھلاکر بھاگتی ہوئی سیڑھیوں سے اتری اور ادھر سے بڑے زور سے ہوہو کی آوازیں آئیں اورمنہ سے بلیاں لڑانے کی سی آوازیں نکالی گئیں۔

    مارے شرم کے فرش میں گڑی جا رہی تھی۔ آخر میں کیسی بےشرم دکھائی دیتی ہوں گی۔ بال کھلے ہوئے، دوپٹہ نیچے لٹکا ہوا اورمیں سینہ پھلاپھلاکر گہرے سانس لے رہی تھی۔ پھر ہاتھ سے اپنے پیٹ کو دبادبا کر اس بات کا جائزہ بھی لے رہی تھی کہ پیٹ کتنا دب رہا تھا۔ اسی پربس نہیں کی بلکہ میں اپنا ہاتھ چھاتیوں کے اوپر سے پیٹ تک پھیرتی جا رہی تھی اور دل ہی دل میں اسے پھیپھڑوں کے پھلاؤ پر اپنے آپ کو مبارک باد بھی دیتی جا رہی تھی۔ لیکن کیا معلوم تھا کہ کوئی شخص مجھ کو اس حالت میں دیکھتا ہوگا۔

    اتنے میں سب سے اوپر والے کمرے کی چھت پر سے کوئی پکار کر بولا، ’’لو بھئی مبارک، پورے پانچ مہینوں کے بعد ہمارا پڑوس آباد ہوا۔‘‘ پھر نیچے کے بڑے صحن سے جواب میں کسی کی تیر سی آواز سنائی دی، ’’خدا کرے ہمیشہ آباد رہے۔ کنواروں کی بھی خدا نے سنی۔‘‘

    ’’کچھ نہ پوچھو غضب ہے غضب۔‘‘

    اور میں دم بخود۔

    دوسرے دن ان کے فتر چلے جانے کے بعد میں گھر کے کام دھندوں سے فارغ ہوکر موزے لے کر بیٹھ گئی۔ برآمدے میں ٹھنڈک تھی۔ سوچا دھوپ میں ہو بیٹھوں۔ پھر خیال آیا کہ اگر دھوپ میں بیٹھی تو ممکن ہے پڑوس سے پھر داد ملنے لگے۔ اپنی جگہ سے اٹھ کرمیں نے پڑوسیوں کے مکان پر نظر ڈالی۔ وہاں کوئی نہ تھا۔ اس بات کا تو کل ہی پتہ چل گیا تھا کہ وہاں بےگھربار والے ہی رہتے ہیں۔ سوچا ممکن ہے اپنے اپنے کام پر گئے ہوں۔ چار بجے سے پہلے تو واپس نہ آتے ہوں گے۔

    میں نے صحن کی بجائے چوڑی دیوار پر بیٹھنا زیادہ مناسب سمجھا۔ وہاں دھوپ سامنے کی تھی۔ احتیاط سے دیوار پر چڑھ گئی اور آہستہ آہستہ کھسکتی ہوئی اس جگہ پر پہنچی جہاں سے دیوار اوپر کو اٹھ گئی تھی۔ میں مونڈھے پر بڑی دیوار سے ٹیک لگاکر بیٹھ گئی۔ ایک طرف سے بلندی اس قدر زیادہ تھی کہ نیچے دیکھنے سے خوف معلوم ہوتا تھا۔ میں چست وچالاک لڑکی تھی، کوئی بدھی موٹی عورت تو تھی ہیں۔ یہاں بیٹھ کر میں ایسے محسوس کرتی تھی جیسے کوہ ہمالیہ کی چوٹی پر بیٹھی ہوں۔ پہلے تو ادھر ادھر کے مناظر سے لطف اندوز ہوتی رہی، پھر پاؤں شلوار کے پائچوں سے ڈھک کر میں نے ٹوکری میں سے بجائے موزوں کے کتاب نکالی اور پڑھنے لگی۔

    کھانسنے کی آواز آئی۔ چونکی۔ دیکھا کونے کے سب سے اوپر والے کمرے میں سے ایک صاحب نکلے اور بغلوں میں ہاتھ دے کر کھڑے ہو گئے۔ آپ کی داڑھی بےترتیب تھی۔ سر کے بال الجھے ہوئے، موٹے بھدے سے۔ آپ نے مجھ کو دیکھ کر بڑے تعجب کا اظہار کیا۔ ہاتھوں کے اشارے سے سطح زمین اورمیرے درمیان کے فاصلے کو ناپا۔ پھر ابروؤں کے اشارے سے اس خطرناک حرکت کا سبب پوچھا۔ پھر ہاتھوں کو جھٹکاکر اور شانوں کو حرکت دے کر تعجب کا اظہار کیا اور قدرے توقف کے بعد غائب ہو گئے۔

    میں نے چھوٹا سا گھونگھٹ نکالا اور منہ پھیر کر پڑھنے میں مصروف ہو گئی۔ اتنے میں آپ ایک ٹوٹا پھوٹا مونڈھا لیے نمودار ہوئے۔ اپنے صحن کی دیوار پر اسے رکھ دیا، پھر نچلے صحن سے اوپر تک کے فاصلے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مونڈھے پر بیٹھ گئے۔ ایک موٹی سی کتاب نکال کر گھٹنوں پر رکھ لی اور بڑے انہماک سے پڑھنے لگے۔ میں نے بظاہر ان کی حرکتوں پر کچھ دھیان نہ دیا۔

    ’’ارے مر جائےگا بھئی مر جائےگا۔‘‘ کہیں سے آواز آئی۔

    ’’مرنے دو ہمیں، جیتے رہے تو کیا مل جائےگا۔ کسی کی نظر میں سما جائیں گے کیا۔‘‘

    میں بڑی زچ ہوئی۔ یک نہ شد دو شد۔ خیر اسی میں سمجھی کہ کھسک جاؤں۔ بوریا بستر سنبھال کر گھسٹتی گھسٹتی اپنے صحن تک آئی۔

    ’’ارے پکڑنا بھئی پکڑنا۔‘‘

    میں دھڑام سے چھلانگ لگاکر کمرے کے اندر۔۔۔

    دو تین آدمیوں کے نعرے، ’’کیا بات ہے بھئی کیا بات ہے، ارے جوبات ہے خدا کی قسم لاجواب ہے۔‘‘

    اس کے بعد بےپناہ شور و غوغا۔ وہی منہ سے بلیوں کے لڑنے کی سی آوازیں۔

    یہ تھے ہمارے پڑوسی۔ سب کے سب سکھ تھے۔ اندازے سے معلوم ہوتا تھا کہ زیادہ تر طالب علم تھے یا کلرک۔ صبح وشام دھماچوکڑی مچی رہتی۔ دن کے وقت ذرا امن رہتا۔ شام کے وقت پھر وہی ہنگامہ۔

    برائے نام ہی سہی لیکن صبح کے وقت تھوڑا بہت پاٹھ کرنا میرا معمول تھا لیکن اب وہ بھی نہ رہا۔ ادھر صبح کے آثار نمودار ہوئے ادھر پڑوسیوں میں سے کسی ایک نے موٹی سی گالی سے اعلان صبح کر دیا۔ پھرعجیب عجیب آوازیں، بھانت بھانت کے لہجے، گندے لطیفے، پھیپھڑوں کی پوری قوت کے ساتھ دہرائے جاتے اور وہ اس شان سے کہ بولنے والا سب سے اوپر والی چھت پر اور سننے والے نیچے کے صحن میں کھڑے ہائے وائے کے نعرے لگا رہے ہیں۔

    پھر داتن کرتے، زور زور سے کھانستے، ہنستے، ہی ہی، ہاؤ ہاؤ، قہ قہ قہ، کھ کھ کھ کھ۔۔۔ اتنی قسم کی اس قدر بیہودہ ہنسیاں میں نے کبھی نہ سنی تھیں۔ بدن پر مالش کی جاتی، ڈنڈ پیلے جاتے، بیٹھکیں لگائی جاتیں۔ اگر کہیں میری جھلک دیکھ پاتے تو پھر جوش میں الٹی سیدھی قلابازیاں کھانے لگتے۔ سیٹیاں بجاتے، چیختے اور آوازے کستے۔ کوئی خوانچے والا، سبزی فروش یا اخبار والا ایسا نہ تھا جس کی آواز کی وہ نقل نہ اتارتے ہوں۔ اس کھلے میدان میں اگر کوئی مرد پیشاب کرنے بیٹھ جاتا تو اس پر ڈھیلے پھینکتے اور گالیاں دیتے، ’’ارے شرم کرو، یہاں عورتیں بھی رہتی ہیں۔‘‘ جیسے خود تو عورتوں کا بڑا احترام کرتے تھے۔

    شام کے وقت دوسری مجلس بیٹھتی تھی۔ ایک دوسرے پر فقرے چست کیے جاتے۔ بیہودہ گانے گائے جاتے۔ پھر بغلیں بجاتے دس عاشقوں کے کارنامے معشوقہ کی زبانی سنائے جاتے اور دسویں عاشق کی کارستانی پر ’ہوہو‘ کا شور مچاتے۔ بےڈھنگے طریقے سے ناچتے، آنکھیں مٹکاتے۔ ایسے موقعوں پر ان کے سرکے بال بکھر جاتے، داڑھیاں بےترتیب ہو جاتیں، گال دہکنے لگتے اور وہ پسینے میں تر ہو جاتے۔۔۔ تب کوئی نہ کوئی گالی کی ایک پھلجھڑی چھوڑتا اوراس کے بعد بےہودگی کی انتہا ہو جاتی۔

    ایک چھوٹے سے دریچے میں ان کے صحن کا آدھا حصہ بھی نظر آتا تھا۔ اب میں ان کے چہرے بھی پہچاننے لگی تھی۔ انہوں نے ایک دوسرے کے نا م بھی دھر رکھے تھے۔ ایک تو وہ موٹے، کدو سے حضرت جو میرے مقابل دیوار پر بیٹھتے تھے، داڑھی قینچی سے کتری ہوئی، مونچھیں کبھی ڈھیلی کبھی تنی ہوئیں، چہرہ گول، آنکھیں چھوٹی، سر کے بال عموماً شانوں پر گرے رہتے، ان میں چکنائی نام کو بھی نہ ہوتی۔ معلوم ہوتا تھا، نہ کبھی بال دھوتے ہیں نہ تیل لگاتے اور نہ کنگھی کرتے ہیں۔ گردن موٹی اور اس قدر لمبائی نہ ہونے کے برابر۔ جب ہنستے تو درویوار ہل جاتے۔ کئی قسم کی ہنسیاں ہنسنے میں ماہر تھے۔ آواز بڑی کرخت، بدزبانی، بےہودگی، گپ بازی میں سب کے سردار، عموماً بھینسا کہہ کر ان کو چڑایا جاتا تھا۔ کافی بےشرم تھے لیکن زیادہ چڑانے پر چڑ بھی جاتے تھے۔ کبھی میں ان کے سامنے آجاؤں تو بڑی بےتکلفی سے رازدارانہ لہجے میں پوچھتے، ’’صبح سے درشن نہیں ہوئے۔۔۔ ہم نے بھی کھانا نہیں کھایا آج۔‘‘

    ان کے بالمقابل ایک صاحب تھے۔ لمبے تڑنگے، دبلے پتلے، صورت سے یرقان کے مریض، آواز باریک، چھدری داڑھی، سر پر چھوٹا سا جوڑا اور اس کے بیچوں بیچ سے بالوں کا ایک گچھا اوپر کو ہوا میں لہراتا ہوا۔ ان کو ’’ککڑ‘‘ یعنی مرغ کہا جاتا تھا۔ ہر آنے جانے والے پر رعب ڈالتے۔ آوازے کم کستے لیکن بک بک پر اتر آئیں تو شیطان پناہ مانگے۔ جسم کی بناوٹ خوبصورت تھی۔ یعنی ’بھینسے‘ کی طرح بے ڈول نہ تھے۔ مجھ کو دیکھ پاتے تو منہ سے کچھ نہ کہتے۔ آنکھیں مٹکاتے، پہلے سر ہلاتے، پھر شانے، تب کمر اور کولہے اس شدت سے ہلاتے کہ شاید نازک سے نازک لڑکی بھی نہ ہلاسکے اور پھر کمر اور کولھوں کی لرزش ٹانگوں پر سے ہوتی ہوئی پاؤں میں غائب ہو جاتی۔ کلاسیکل ناچ کی دھجیاں اڑاتے، اس وقت عموما ’بھینسا‘ ستار بجاتے، ستار بھی ایسی کہ اس کے تین چار تار ٹوٹ کر ہمیشہ نیچے لٹکتے ہوتے تھے۔

    ایک گورا سابلی کی سی آنکھوں والا لڑکا بھی تھا۔ اس کے بال سنہری تھے۔ داڑھی کے بال بڑے باریک اور غالباً ملائم۔ اس کا قد بھی ’’انکار محبوب‘‘ کی مانند مختصر، اس کا ایک دانت سونے کا تھا۔ وہ ہمیشہ ایک ملائم سی ہنسی ہنستا رہتا۔ اپنی دونوں کہنیاں دیوار پر رکھے، ہتھیلیوں پر تھوڑی لٹکائے وہ مجھ کو دیکھا کرتا۔ دیر تک میری طرف دیکھتا رہتا اور کبھی کبھی بڑے اہتمام کے ساتھ ایک آنکھ بند کرکے آہ بھرتا اور پھر برش ہاتھ سے لے کر آہستہ آہستہ تصویر بنانے لگتا۔

    ایک تھے باقرٹیز۔۔۔ عام فہم زبان میں ان کو بکرا کہا جاتا تھا۔ ان کے سر کے بال بہت لمبے تھے۔ جوڑا اتنا بڑا تھا جیسے ’بھینسے ‘کے سر پر گوبر کر دیا ہو۔ ہنستے تو بڑے بڑے دانت نمایاں طور پر نظر آنے لگتے۔ اس رعایت سے کبھی کبھی ان کو ’’دانتین‘‘ بھی کہا جاتا تھا۔ گالوں پر لکیریں بھی بہت پڑتی تھیں۔ داڑھی دیکھ کر سرپیٹ لینے کو جی چاہتا تھا یعنی صرف ٹھوڑی پر چند بال۔ خمیدہ گردن۔ بہرحال سانس کی آمدورفت جاری تھی۔ سب سے زیادہ شریف اور نیک دل تھے۔ آسمان کی بادشاہت انہیں کی تھی۔۔۔ مجھ کو چق کے پیچھے سے دیکھنے کے عادی تھے۔

    ایک اور’’ڈھل مل‘‘ سا شخص تھا۔ اس کی داڑھی عموماً بندھی رہتی تھی۔ رنگ سیاہی مائل گندمی۔ بڑے ترنم سے بولتے۔ صورت سے متانت ٹپکتی تھی۔ گال پھولے ہوئے۔ عموماً بڑے وقار سے قدم اٹھاتے۔ بات کرتے تو ذرا سنجیدگی کے ساتھ مجھ کو دیکھنے کی کوشش کرتے تھے۔ دیکھ پاتے تو خوب منہ پھاڑ کر ہنستے۔ آوازے نہ کستے، زیرلب ہی رائے کااظہار فرما کر رہ جاتے۔ دزدیدہ دزدیدہ نظروں سے مجھ کو دیکھتے رہتے۔

    کہیں پرلے کونے کے کمرے میں ایک صاحب اور تھے۔ ان کی صورت کا کچھ تعین نہ تھا اور نہ ہی میں ان کو سمجھ سکی۔ بقول موپاساں سب سے زیادہ دکھی شخص وہ ہے جسے کوئی سمجھ نہ سکے۔ کبھی وہ سکھ ہیں تو کبھی بال انگریزی طرز پر اور داڑھی صفاچٹ اور کبھی فرنچ کٹ بھی۔ کبھی ایک مونچھ غائب ہے توکبھی دوسری۔ سر پر کبھی کبھی پگڑی، کبھی ہیٹ، ہر آن گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے تھے۔ بات کم کرتے، ہنستے زیادہ اور ہنسنے سے زیادہ شرماتے۔ کمرے سے باہر ان کو کم ہی دیکھتی تھی۔ جب نکلتے تو شرماتے ہوئے۔

    ’’بھینسا‘‘ سب سے اوپر کی چھت پر کھڑے ان کے شرمانے کی ’’پیروڈی‘‘ کرتے۔ ادھر ’’بھینسا‘‘ شرمانے میں سو سو ڈھنگ سے منہ بناتے، شانوں کو حرکت دیتے، نہ ہل سکنے والی کمر کو ہلاتے، سکڑتے، کبھی پہلو بدلتے۔ ادھر ہنسی کے مارے میرے پیٹ میں دکھن، لیکن شرمانے والے کو اس پیروڈی سے ذراعبرت حاصل نہ ہوتی اور وہ شرمائے ہی جاتے۔ مجھ کو کم دیکھتے، آوازے بالکل نہ کستے۔ لیکن معلوم ہوتا تھا کہ منہ میں زبان رکھتے ہیں۔

    دو لڑکے اور بھی تھے۔ گھوڑے کے بچھیروں کی طرح۔ کبھی ڈلکی چال سے ادھر آتے، کبھی ادھر جاتے۔ مجھ کو دیکھ کر بڑا مچلتے تھے۔ ہائے، وائے، مار ڈالا، مار ڈالا، کے نعرے لگاتے۔

    وہ لوگ مجھ سے عشق جتلاتے وقت اپنی صورت آئینے میں دیکھنے کی ضرورت نہ سمجھتے تھے۔ سب کے سب بیچ کھیت، ڈنکے کی چوٹ میرے دام عشق میں مبتلا تھے۔

    مالک مکان کا بوڑھا نوکر کہتا، ’’اب تویہ کچھ زیادہ ہی شور مچانے لگے، ورنہ پہلے اتنی وقت بے وقت دھماچوکڑی نہ مچتی تھی۔‘‘ لیکن میں کچھ مانوس سی ہو گئی۔

    ایک دفعہ میں ان کی نظروں کی زدسے ہٹ کر صحن میں ایک طرف کو بیٹھی تھی۔ ’’بھینسا‘‘ چھت سے پکار کر بولے، ’’بھئی ایک بات پوچھوں۔۔۔؟ فرض کر لو تم عورت ہو۔‘‘

    ’’میں عورت؟ ‘‘

    ’’اماں۔۔۔ بھئی فرض کر لو۔‘‘

    ’’فرض کر لیا۔‘‘

    ’’اور ہم کو دیکھنے کے لیے بےقرار ہیں۔‘‘

    ’’بےشک۔‘‘

    ’’تو ہم دیکھا کریں۔ تمہارا کیا لیتے ہیں۔ یعنی (منہ پھاڑکر) ھونچو۔‘‘

    مجھ پر چوٹ تھی۔

    بھئی پڑے دیکھیں، پڑے چلائیں، چھت پر نہ جائیں؟ سبزی کے چھلکے میدان کی طرف نہ پھینکیں؟ کسی خوانچے والے کو آواز بھی نہ دیں؟ کپڑے نہ پہنیں؟

    ایک دن مالک مکان کی اماں چلی آئیں۔ ادھر ادھر کی باتوں کے بعد، میں نے دیواروں پرسفیدی کے لیے کہا، پانی کی نالی کی مرمت کی ضرورت کا احساس دلایا۔ وہ حامی بھرتی گئیں۔ میں نے چائے پلائی۔ اتفاقاً ہم صحن کے اس حصے میں چلے گئے جہاں وہ مجھے دیکھ سکتے تھے۔ کپڑے بھی ذرا شوخ رنگ کے پہن رکھے تھے۔

    ’’بیٹی! اگر دل نہ لگے تو ہمارے گھر آ جایا کرو۔ وہ کونے پر تو گھر ہے۔‘‘

    ’’جی نہیں، دل کا کیا ہے۔ فرصت ہی کہاں، مصروف رہتی ہوں۔‘‘

    آواز آئی، ’’بھئی! ہے ہے! دھرم سے حد ہو گئی۔ آج تو نظر نہیں ٹکتی۔‘‘

    میں بدکی۔ بڑھیا نے آواز سنی یا نہیں۔ لیکن بشرے سے اس نے کچھ ظاہر نہیں ہونے دیا۔ میرا دماغ کھول رہا تھا۔ نہ معلوم بڑھیا کیا سوچتی ہوگی۔ یہی کہ آخر دل کیوں نہ لگے۔ میری مصروفیت کی ’’حقیقت‘‘ بھانپ گئی ہوگی۔

    اس کے جانے کے بعد جنون کی سی کیفیت طاری ہونے لگی۔ یہ وہ مرض تھا جس کا کچھ علاج نہ تھا۔ کہیں شنوائی نہ ہو سکتی تھی۔ صبر کا دامن ہاتھ سے جاتا رہا۔ میں خود کو روک نہ سکی۔ انتہائی غضب کی حالت میں ان کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔ وہ تعجب سے میری طرف دیکھنے لگے۔ غصے کے مارے میرے ہاتھ پاؤں لرز رہے تھے۔ مٹھیاں کس کر غضب ناک آواز میں چلائی، ’’ تم لوگوں کو واقعی شرم نہیں آتی۔۔۔ میں آپ لوگوں کے پاؤں پڑتی ہوں۔۔۔‘‘ میں روپری۔۔۔ ریت کے گھروندے کی طرح گرنے لگی لیکن بہ مشکل سنبھل کر ہٹ گئی۔

    بڑی دیر بعد طبیعت سنبھلی۔ منہ ہاتھ دھویا۔ اتنے میں ’’وہ‘‘ بھی آ گئے لیکن میں نے اس بات کا ذکر نہ کیا۔ آخر ان لفنگوں کا کیا بگاڑا جا سکتا تھا؟ یہی نا! مردوں میں تو تو میں میں ہو جائے تو پھر بےپر کی بچہ بچہ کی زبان پر ہوں۔

    دوسرے دن میں پانی کا لوٹا لے کرچھت پر گئی۔ مجھ کو دیکھ کر کسی نے چوں تک نہیں کی۔ آتی مرتبہ بھی کوئی نہ بولا۔ میں نے اس طرف دیکھا ہی نہیں۔ نظریں جھکائے کمرے میں چلی آئی۔

    دن گذرتے گئے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے ہمارے پڑوس میں انسانوں کی بستی نہیں مرگھٹ ہے۔ حسب معمول صبح ہوتی، شام ہوتی لیکن کوئی آوازہ، کوئی بےہودہ کلمہ سنائی نہ دیتا۔ ہائے دل، ہائے جگر کی صدائیں بالکل بند۔ نہ رقص ہوتے، نہ لطیفے کہے جاتے، نہ بازاری گانے گائے جاتے، نہ منہ سے بلیاں لڑانے کی سی آوازیں ہی نکالی جاتیں۔

    پہلے پہل دل کو یک گونہ تسکین سے محسوس ہوئی لیکن آہستہ آہستہ طبیعت الجھنے لگی۔ کیا بدتمیز اخلاق کے اس قدرہی قائل ہو گئے ہیں۔ وہ کون سا احساس یگانگی تھا جس کی شدت میں پہلے ہی دن وہ مجھ سے اس قدر بے تکلف ہو گئے تھے۔ پانچ مہینوں کے طویل وقفے کے بعد پڑوس کے آباد ہو جانے پر پہلے پہل انہوں نے اتنی خوشیاں کیوں منائی تھیں۔ تعداد میں اتنے ہوتے ہوئے بھی ان میں تڑپتی ہوئی زندگی کے آثار کیوں مفقود ہو گئے تھے۔ وہ اس قدر تنہا کیوں محسوس کرتے تھے۔ وہ کون سی خلاتھی جو پر ہونے سے رہ گئی تھی۔ یہ کیسے عاشق تھے۔ ان میں کوئی دوسرے کا رقیب نہ تھا۔ وہ سب جانتے نہ تھے کہ ان کے ہاتھ نہیں آ سکتی؟ ان کومعلوم نہ تھا کہ مشرقی، بالخصوص ہندوستانی لڑکی کن قوانین کی پابند ہوتی ہے اور اس کا کیا ایمان ہوتا ہے! پھر بھی ان سب کو بلا کسی جھجک کے مجھ سے بےپناہ عشق تھا۔

    اب وہ بھوت دکھائی دیتے تھے۔ وہ کسی اور ہی دنیا کی مخلوق معلوم ہوتے تھے۔ اب وہ شریف تھے۔ اب میں اپنے پڑوسیوں پر فخر کر سکتی تھی۔ لیکن وہ کس قدر عمررسیدہ معلوم ہوتے تھے۔ بوڑھے۔۔۔! بوڑھے!!

    جیسے صدیاں گزر چکیں، جب وہ جوان تھے۔

    اتوار کو ہم دونوں ’’ان‘‘ کے ایک دوست کے ہاں چلے گئے۔ وہاں سے سنیما گھر پہنچے۔ سارا دن ہنسی خوشی گذارنے کے بعد لوٹے۔ گھر کے پاس وہ محلے کے ایک آدمی سے بات کرنے لگے، میں چلی آئی۔ پڑوسیوں کے ہاں آج کچھ شور و غل سن کر میری خوشی کی انتہا نہ رہی۔

    دریچے میں جھانک کر دیکھا۔ دو بڑی بڑی چارپائیوں پرسب کے سب بیٹھے تھے۔ وہ ’’بھینسا‘‘، وہ ’’ککڑ‘‘ وہ بچھیڑے، وہ باقرٹیز وغیرہ کیسے معصوم دکھائی دیتے تھے۔ اس آسمان تلے چند بندے تھے پرتماکے۔۔۔ بھینسا آہستہ آہستہ ستار ٹنٹنا رہے تھے۔ جی چاہا وہ مجھ کو بھی شامل کر لیں۔ کچھ آوازے ہی کس لیں، کچھ شور و غل ہی کر لیں۔ کچھ الٹی قلابازیاں ہی لگا لیں۔۔۔

    میں باہر صحن میں اس انداز سے کھڑی ہو گئی کہ ان کو نظر آ سکوں۔ دور کھیتوں کی طرف لے گئی۔ اس سے بھی زیادہ بےشرمی کی بات یہ کہ میرے سرسے میرا رنگین دوپٹہ کھسک کر شانوں پر آرہا لیکن میں نے دوپٹہ نہ ڈھانپا۔۔۔

    باتیں نہ رہ گئیں۔ میں نے چھپی نظروں سے دیکھا، وہ آنکھیں جھکائے صحن کے اس حصے کی طرف لپک رہے تھے جدھر نہ وہ مجھ کو دکھائی دے سکتے تھے اورنہ میں ہی ان کو نظر آ سکتی تھی۔ شام کے دھندلکے میں میلی میلی چادریں لپیٹے، آگے پیچھے سے چارپائیاں ہونا ہے۔۔۔

    اور پھر موت کی سی خاموشی طاری ہو گئی۔

    میں کرسی پربیٹھی کیا، گرپڑی۔ جب میں نے آئینے میں اپنی صورت دیکھی تو مجھ کو ایسا محسوس ہوا جیسے میری آنکھوں کی شراب غائب ہے اور ہونٹوں کی مٹھاس کم، گالوں کی سرخی ندارد، سینے کی کشش ختم اور میں بوڑھی کھوسٹ ہو چکی ہوں۔ بڑھیا! بڑھیا!!

    رات کو جب ’’وہ‘‘ واپس آئے تو میں نے کہا کہ میں یہاں نہیں رہ سکتی۔ گھر جلدی ہی بدل لیں۔

    ’’کیوں؟ ‘‘

    ’’میراجی نہیں لگتا۔‘‘

    طے پایاکہ اگلے اتوار کو ہم یہ گھر چھوڑ دیں گے، کیوں کہ اس وقت ایک کوارٹر مل سکتا تھا۔

    دوسرے اتوار کو ہمارا سامان ٹھیلوں پر لد رہا تھا۔

    وہ سب لوگ چھپی نظروں سے ہمارا سامان لدتا دیکھ رہے تھے۔ ان کے پڑوس کا مکان پانچ مہینوں کے طویل عرصے تک خالی رہنے کے بعد مختصر عرصے کے لئے آباد ہوا اور اب پھر خالی تھا۔

    ان کی صورتیں رنجیدہ ہیں۔ چادریں لپیٹے کاہلی سے ادھر ادھر ٹہل رہے ہیں۔ مالش نہیں کرتے، ناچتے نہیں، الٹی قلابازیاں نہیں لگاتے۔ سب سے اوپر کی چھت پر’’بھینسا‘‘ نیچے ککڑ، بکرا نل سے پانی بھر رہا ہے۔ وہ بلی کی سی آنکھوں والا گورا سا لڑکا اداس نظروں سے دوسری طرف کو دیکھ رہا تھا۔۔۔

    ہم تانگے پر بیٹھے ہیں۔ تانگے والا گھوڑے کو چنا کھلاتا ہے۔

    میں محسوس کرتی ہوں جیسے مجھ کو چاہئے تھا کہ ان کو اپنی حفاظت میں لے لیتی، جیسے میں نے ہی ان کو جنم دیا تھا، جیسے میں نے ہی ان کو پال پوس کر۔۔۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے