سمندر کا پیٹ
چمکتی روپہلی دھوپ میں غراتی، زرد دھول اڑاتی جیپ، نئی اسفالٹ سڑک پر جھٹکے سے رکی تو ڈھلوان میں جوہڑ کے کنارے کھڑی چہچہاتی نوخیز لڑکی، کمر کمر سبز پانی میں چیختے چلاتے، چھینٹے اُڑاتے، مٹی میں اٹے، زردی مائل ننگے بچے، سب سہم کر چپ ہو گئے۔
دو لاغر بوڑھے کھانستے ہوئے لاٹھیوں اور ڈرائیور کا سہارا لئے سڑک پر اترے اور گاؤں کی طرف دیکھتے ہی ایک دوسرے کی آنکھوں میں آئینے بن گئے۔
ہاں، ہاں، وہی ہے، وہی ہمارا گاؤں ہے، بس بس، اب ہمیں سہاروں کی ضرورت نہیں، ہم خود ہی چلے جائیں گے۔ اب تم جاؤ ہم اب کل ہی سے اپنے کھیتوں؟
گھنے درختوں میں گھرے گاؤں سے ان کی نظریں آہستہ آہستہ ہرے بھرے کھیتوں میں چھپی پگڈنڈی کے ساتھ ساتھ اڑتی جوہڑ تک آپہنچیں اور خوف زدہ، اپنی اپنی جگہوں پر ساکت بچوں کی آنکھوں میں اتر گئیں۔ مبہم سوالوں سے اٹی، دم سادھے، نظروں میں ویرانی پھیلی تھی۔ ان کا دم گھٹنے لگا، مگر فرار؟ مقناطیسی کشش انہیں وہیں جکڑ کر بیٹھ گئی۔ دھیرے دھیرے ڈوبی ہوئی، پھولی لاش کی طرح نظریں ابھریں، اور سڑک پر خاک اڑاتی، دور ہوتی جیپ کا تعاقب کرنے لگیں اور جب سیاہ دھبا سارہ گیا تو پلٹ پڑیں۔
آؤ بچو آؤ، دوڑو، بوڑھوں کے گلے لگ جاؤ،ہم اس گاؤں میں۔۔۔
ڈری ڈری نظریں ایک دوسرے سے سوال کرتی، آہستہ آہستہ ان کے گرد جمع ہو گئیں۔
تم بھی اس گاؤں کے؟
اور ان کے ساکت، ستے ہوئے چہرے اثبات میں ہلنے لگے۔
تم کس کے بیٹے ہو۔ میرے بھی وہاں دو بیٹے رہتے ہیں۔ شاید، شاید۔ شاید انہوں نے شادی بھی کرلی ہو اور شاید تم ہی جیسے میرے پوتے۔ تم انہیں جانتے ہو کیا؟ میرے، میرے، وہاں کھیت۔
سڑک کے دوسری طرف اس کے پھیلے بازو کے ساتھ ہی آنکھیں بھی اتریں، مگر یک دم زخمی ہوکر پلٹ پڑیں۔وہ۔وہ وہاں؟ اور خود ہی مبہم و ساکت ٹکٹکی باندھے، ادھر تکتا رہ گیا۔۔
یہ میری، میری آنکھوں کو کیا ہو گیا ہے، تم ہی بتاؤ بچو، مجھے، مجھے تو، مجھے تو اور کچھ بھی نظر نہیں آتا۔ صرف!
تمہاری تو آنکھیں بڑی تیز ہیں، ابھی تو ان پر زمانے کی دھول بھی نہیں پڑی، تم ہی بتاؤ۔ سڑک کے پار دیکھو اور بتاؤ کہ تمہیں، خاردار آہنی باڑیں۔ اور ان کے پیچھے کیمو فلاج جالوں سے ڈھکی خندقیں۔
کیمو فلاج جال؟
نہیں نہیں کیمو فلاج جال نہیں ہیں وہاں۔ یہ سب کچھ جو میں نے دیکھا ہے،میری، میری بوڑھی آنکھوں کا سراب ہے۔
تم، تم سب۔ ان نحوستوں، ویرانیوں، ان مکڑی کے جالوں کو چیر کر تو دیکھو، بتاؤ جلدی بتاؤ، ان کے پیچھے کیا ہے؟
نو خیز لڑکی کی لرزتی سسکیاں ان کے سینوں پر چر کے لگاتی چلی گئیں۔
بابا۔ان کے پیچھے اندھیرے میں چھپی ٹامیوں کی چھاؤنی ہے! ان کو مت دیکھو،توپیں، مارٹر اور مشین گنوں کے ساتھ دہشت ناک آوازیں بھی ہیں، جن سے کان پھٹ جاتے ہیں اور کیا تمہیں ان کی پشت پر ہیلی کاپٹروں کی قطار نظر نہیں آتی۔
مگر۔۔؟ مگر۔۔؟؟ میرے کھیت، اس کے کھیت، وہ۔ وہ؟ تمہارے کھیت؟
تم خود ہی ڈھونڈ نکالو بابا، اگر تم۔
آنکھیں، خودرو، گھنی جھاڑیوں سے پھسلیں، خاردار باڑوں سے الجھیں اور چند ہی ثانیوں میں اتنی جکڑی گئیں کہ زخم گہرے گھاؤ میں پھیل گئے۔
وہ۔؟
تم، تم کہاں سے آئے ہو۔
بچوں کی سہمی سہمی مدھم آوازیں اس سے جلے چھتے کی مکھیوں کی طرح چمٹ گئیں۔
میں کہاں سے آیا ہوں۔۔۔؟ ہم کہاں سے آئے ہیں؟ یہ تو ہمیں بھی پتا نہیں، ہمارے آس پاس خمیوں اور بیماروں کا اژدھام تھا، آہ و بکا کا طوفان، وہاں کوئی کسی کا پرسانِ حال نہیں، کل تک بچو ہم۔! ہم وہیں تھے۔ ان شورو غل کی چادروں میں لپٹے پڑے تھے اور اس سے پہلے؟ اس سے پہلے؟ اس سے پہلے کہاں تھے؟؟ اس کی آنکھیں جنگل کے چھتنار درختوں کا سبزہ چوستی، گہرے نیلے آسمان میں سوال بن کر پھیل گئیں۔
کہاں تھے؟ کہاں تھے؟؟
ہاں یاد آیا، آہنی سلاخوں کے پیچھے، چھوٹے چھوٹے کابکوں میں، سورج کی گرماہٹ کو ہماری آنکھیں ترس گئی تھیں۔
کیوں گئے تھے تم لوگ؟
ہم؟ کیوں گئے تھے؟
بچو، ہم خود سے تو نہیں گئے تھے، لے جائے گئے تھے۔
کیوں، کیا تم نے؟تم لوگوں نے کسی کا خون کیا تھا؟
خون!
نہیں نہیں، یہ ہاتھ تو خون کرنے والے نہیں، کیا تمہیں نظر آتے ہیں۔
انہوں نے تو صرف ہل کی ہتھی پکڑنی سیکھی ہے اور ان بازوؤں نے سارا زور زمین کا سینہ چیرنے میں صرف کیا ہے۔
نہیں بچوں نہیں، خون تو انہوں نے اپنا کیا ہے، صرف ہریالی کے لیے۔
ہمارا جرم تھا پناہ دینا۔
کس کو۔؟
وہ کہتے ہیں شمال والوں کو، مگر کیا ان کو اپنے کام نہیں تھے جو وہ ادھر آتے؟
بچو؟ کیا تم نے کبھی شمال والوں کو یہاں دیکھا ہے؟
یہ تو دس بارہ سال ادھر کی بات ہے۔ ہم جوان تھے، ان دنوں۔ ندی کے اس پار سے وہ دونوں ہمارے ہاں آئے تھے، آخر پرانے لنگوٹیے تھے، بھلا اس میں کیا بری بات تھی۔ رات بھر ہم باتیں کرتے رہے۔ یہی اپنی زمینوں کا رونا، کچھ بڑے زمینداروں کی سختیاں اور پھر باہر سے آنے والوں کی چلتر بازیاں۔ اب تم ہی سوچو نا کہ ان کی باتیں کہاں غلط تھیں۔ اگر یہ بدیشی یہاں نہ آتے تو ہماری زمینیں یوں ویران ہوتیں؟ اور یہ باڑیں، ہم اپنے مویشیوں کو بھی اس طرح جدا نہیں رکھتے۔ پھر ہمیں کیا خبر تھی کہ ہمارے پیچھے ان کے کتے بھی لگے ہیں۔
میری بیوی۔ ہائے بے چاری، اب نجانے کس حال میں ہوگی؟صبح اس نیک بخت نے مکھن، پنیر، شہد اور چاول کی شراب سے ان سب کی تواضح کی اور پھر ہم سب انہیں ڈونگے میں بٹھا کر کھیتوں میں چلے گئے۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے، بچو۔۔
میں نے دھان کے پہلے کھیت میں پانی لگایا ہی تھا کہ پانچ چھ جیپیں چنگھاڑتی ہوئی رکیں، چاروں اطراف کے کھیتوں میں، چاول کی پنیری لگاتے، ساری عورتیں، سارے مرد سیدھے ہوتے چلے گئے، دور سے آنے والے حیرت زدہ نظروں سے ایک دوسرے کو تکتے ہوئے انہیں گھورنے لگے اور پھر وہ بھوکے بھیڑیے اپنے پنجے سمیٹے یک دم ہم پر ٹوٹ پڑے، کچھ کہے سنے بغیر ہی بیدوں، لاتوں، گھونسوں کی ضربوں کی بےتحاشا اتنی بوچھاڑ پڑی کہ ہم ان کھیتوں میں ہی ڈھیر ہو گئے۔
اور جانتے ہو،اس روز نالیوں میں بہتا پانی ہمارے خون کی چاشنی لیے دھان کی جڑوں میں رستا رہا۔ سوتے جاگتے کا سماں تھا، جب انہوں نے ہمیں لاشوں کی طرح گھسیٹ کر جیپوں میں لاپھینکا تھا اور بھاگوان کی چیخیں، اف۔
اور وہاں تم لوگ؟
ہم بھوکے پیاسے دھوپ میں ان کی ضربیں سہتے رہے۔ ہر تازہ دم سپاہی چوکی میں وارد ہوتے ہی بنا کچھ پوچھے، گالیوں سے ہم پر حملہ آور ہوتا۔ پھر مار پیٹ کا تو حساب ہی نہ تھا۔ہر شام جب چاول کا ایک گولہ اور پانی کا ڈبا ہمارے حوالے کیا جاتا تو ہم سمجھتے کہ ہماری سختیاں تمام ہو گئیں۔ مگر وہ سب کچھ تو آٹے میں نمک تھا۔ چار دن پولیس چوکی میں ایسے ہی گزرے تھے کہ وہ آ گئے، وہ سب پچیس تھے۔۔ایک سارجنٹ اور چوبیس دوسرے فوجی۔
تم لوگوں کو ہمارے ساتھ چلنا ہے۔
کہاں۔؟
تمہیں پتا چل جائےگا۔ اور اب یہ بات اچھی طرح اپنے خر مغزوں میں بٹھاؤ کہ آئندہ تم کبھی سوال نہیں کروگے۔ ورنہ!
آخر ہمارا قصور کیا ہے، ہم بے قصور ہیں، ہمیں گوریلوں کی کوئی خبر نہیں اور نہ ہی وہ کبھی ہمارے گاؤں آئے۔
یہ سب کہنے کی ضرورت نہیں۔ ہم سب کچھ تم سے اگلوالیں گے۔ چلو۔
ایک فوجی کی ایم سولہ کے بٹ کی ضرب نے قدموں کو اٹھنے پر مجبور کردیا۔ ڈھلوان پر بکھری جھاڑیوں سے ہوتے ہوئے وہ خاک آلود، چھوٹی، شکستہ سڑک پر پہنچے اور ابھی ان کی نظریں سڑک کو تلاش کر ہی رہی تھیں کہ ایم سولہ کے بٹ پھر ان کی پشت پر برسنے لگے۔
چلو۔
پیدل ہی۔؟
نہیں تمہارے لئے ہیلی کاپٹر آئیں گے، چلو وقت مت خراب کرو۔
اور فوجیوں میں گھرے وہ آٹھوں سڑک کی جنوبی ڈھلوان پر اتر گئے۔ گھنی جھاڑیوں اور گھاس، بیلوں سے ڈھکی چھوٹی سی پگڈنڈی سے ہوتے ہوئے وہ گھنے جنگل میں داخل ہو گئے۔ پرپیچ پگڈنڈی نے انہیں ایک قطار میں آگے پیچھے چلنے پر مجبور کر دیا۔ وہ سب کرخت لہجے میں آوازیں کستے، ایم سولہ کے دستوں سے کچوکے لگاتے، تیز چلنے پر اکساتے رہے۔ وہ آٹھوں مڑمڑ کے بڑی مایوس، ہراساں نظروں سے ایک دوسرے کو تکتے، تھکے تھکے قدموں سے ڈولتے لڑکھڑاتے چلتے رہے۔پگڈنڈی کہیں کہیں تو اتنی تنگ ہو جاتی کہ دونوں طرف سے خاردار جھاڑیاں ان کے پہلوؤں میں کچوکے دینے لگتیں اور لمبے کانٹوں نے کئی جگہوں سے ان کے کپڑے نوچ لئے، پژمردہ قدموں سے کبھی آہستہ، کبھی تیز اور کبھی چند لمحے رک کر، بھیڑ بکریوں کی طرح، ہانکنے کی آوازوں میں بندوقوں کی ضربیں کھاتے وہ سب ایکا ایکی کھلے جنگل میں داخل ہو گئے۔ پتلے پتلے پست قامت تاڑ کے اس جنگل میں، کٹی ہوئی بھوری گھاس اور سوکھے چڑچڑاتے پتے ان کے ننگے پاؤں کو بڑی تسکین دے رہے تھے۔ جنگلی کَیلوں کے درختوں پر ننھے ننھے سرخ رنگ کے خوشوں سے پھوٹتی ہلکی ہلکی مہک ان سے بار بار رکنے کو کہتی۔
کہاں جا رہے ہو اس موسم میں۔ یہ تو چاول کو پانی لگانے کے دن ہیں۔
اب ان کی پیاس کون بجھائے گا، رک جاؤ۔
اور وہ ٹھنڈی آہیں بھرتے تھکاوٹ سے سر جھکائے، سہ پہر کے وقت ایک چھوٹے سے خشک برساتی نالے کی ریتلی گزر گاہ سے ہوتے ہوئے پار چڑھے۔ چھتری نما جنگلی بادام کے درختوں کے بیچوں بیچ چھوٹی سی پگڈنڈی پر ان کے کندھے کانٹوں بھری جھاڑیوں سے بچنے کے لئے مزید سکڑ گئے۔ ان کا ایک ساتھی ایک درخت کے جھکے تنے سے ٹکرا کر چھوٹے چھوٹے پیلے پھولوں سے ڈھکی گھاس پر ڈھیر ہو گیا۔ اس کی پشت پر پے در پے برستے ایم سولہ کے دستوں سے جنگل میں اس کی چیخیں پھیل گئیں، قہر انگیز نظروں نے فوجیوں کا محاصرہ کر لیا۔
چند لمحے رک جاؤ۔ اس طرح تو یہ مرجائےگا۔
مرجائےگا؟
اتنا ہی ڈر ہے تو اٹھا لو اِسے اپنے کندھوں پر۔
وہ اسے اٹھانے کے لئے جھکا ہی تھا کہ سارجنٹ کی پھنکارتی آواز انہیں ڈستی چلی گئی۔
پڑا رہنے دو اِسے ،تم لوگ اپنا کھانا کھالو۔ جب تک یہ ٹھیک ہو جائےگا۔
وہ ساتوں اس کے گرد جمع ہوکر اس کے ہاتھ پاؤں دبانے لگے۔ چند ہی قدم دور سب ٹامی فوجی مزے لے لے کر بھنی مچھلی کے خشک قتلے کھاتے ہوئے، ان کو اپنی آنکھوں میں جکڑتے رہے۔
پانی، پانی،
ساتوں کی نظریں ان کی پانی کی بوتلوں پر پڑیں۔ تو ہاتھوں کے شکنجوں نے بوتلوں کو جکڑا اور کارک کھینچ کر گھونٹ گھونٹ پانی ان کے حلقوں سے اترنے لگا۔ وہ ساتوں اپنے خشک ہونٹوں پر کانٹوں بھری زبانیں پھیرتے رہے، پژمردہ نظریں ایک دوسرے کے چہرے سے ہوتی ہوئی بوتلوں پر جم گئیں۔ ان بوتلوں میں دو چار قطرے تو باقی ہوں گے۔ بےچارے کے ہونٹ ہی تر ہو جائیں گے۔ کیوں نہیں دے دیتے یہ ظالم۔
لیکن کسی کا بھی ہاتھ ان کی طرف نہیں پھیلا۔ یہ ظالم بھلا کیا جانیں، ہم کسان ہیں۔ ہمارے ہاتھ بھیک لینا نہیں، دینا جانتے ہیں۔ مرجائیں گے مگر دو قطروں کے لئے، ان سے سوال نہیں کریں گے۔
یکے بعد دیگرے کئی ایک لمبی زوردار ڈکاریں مارتے ہوئے سارجنٹ اٹھا اور انگڑائی لیتے ہوئے اس نے اپنی سب مشین گن کندھے پر لٹکائی۔
چلو۔
اور وہ پھر سے چپ چاپ، لڑکھڑاتے قدموں سے، آسمان سے باتیں کرتے اونچے بانسوں کے گھنے جنگل میں آگے بڑھنے لگے۔
سرسبز گھاس سے ڈھکے راستے کو آہستہ آہستہ پتھریلے خشک راستے نے نگل لیا اور پھر مختلف ڈھلوانوں سے ہوتے ہوئے کیچڑ والی دلدلی زمین میں مدغم ہوتا گیا۔ پیروں اور پنڈلیوں پر چھوٹی چھوٹی پتلی جونکوں کے تیز دانتوں کی سوزش سے ان کے دل کئی بار متلا اٹھے مگر چارہ؟ راستے کی پھیلی گھنی جھاڑیوں سے جنگلی سبز کبوتر، تیتر اور چکور حیرت زدہ چہکاروں میں سوال کرتے، پھڑ پھڑاکر اڑتے چلے گئے۔
کہاں، کہاں،
کہاں جارہے ہو؟ ادھر پیچھے تمہاری زمینیں تمہاری منتظر ہیں، لوٹ جاؤ۔
کیسے لوٹ جائیں، کیا تمہیں ان کے ہاتھوں میں کچھ نظر نہیں آتا، اگر فرار بھی ہوجائیں تو جائیں گے کہاں۔ یہ ہمارے کھیتوں کی راہ جان گئے ہیں۔
جب وہ کیمپ میں پہنچے تو مکمل تاریکی چھائی ہوئی تھی۔ قد آدم گھاس اور بانس کے جنگل کے وسط میں لمبی لمبی جھاڑیوں اور خاردار آہنی باڑوں میں چھپا، چھوٹا، سادہ سا کیمپ، جس کا چاروں طرف سے باڑوں کے ساتھ ہی ساتھ، ہر چالیس پچاس فٹ کے فاصلے سے بلند و بالا چھتارا برگدوں کی اوٹ میں چھپے دیدبانوں نے محاصرہ کر رکھا تھا۔ کیمپ کے بالکل درمیان کافی بڑے میدان میں سیاہ دیو قامت ہیلی کاپٹر کھڑے تھے۔میدان کے شمالی سرے پر چھوٹی چھوٹی پست قامت بارکیں بنی ہوئی تھیں، جن کی کھڑکیوں کے ہاف ڈارک شیشوں سے مدھم پھیکی پھیکی روشنی پھوٹ رہی تھی اور دوسری جانب بانسوں کے کابک۔
پانچ فٹ، ضرب چھ فٹ، ضرب پانچ فٹ اونچے جھونپڑیوں میں سب کو جدا جدا دھکیل کر دروازے بند کردیئے گئے اور وہ موٹی خشک پیال پر بیٹھا، سیاہ تاریکی میں، ٹخنوں، پنڈلیوں اور رانوں سے چمٹی، خون چوس چوس کر پھولی ہوئی جونکوں کو ٹٹول ٹٹول کر اتارنے لگا۔ جوں ہی وہ پیال پھیلا کر لیٹا تو جھونپڑی کی دیوار کے دوسری طرف اسے کسی کے کروٹ بدلنے کا احساس ہوا۔ بانس اور خشک گھاس کی لپی ہوئی دیوار کو تھپتھپاکر اس نے سوال کیا۔ مگر جواب اس کے ساتھیوں میں سے نہیں تھا۔اس نے دماغ میں اٹھنے ہیجان کو تھپکیاں دے کر سلانا چاہا، مگر اس بیابان میں نیند کیسے آتی، باہر سارے جھونپڑوں پر گہرا سناٹا طاری تھا اور اندر عمیق تاریکی۔ اجنبیت بڑی کٹھور ہوتی ہے اور اپنی ہی زمین پر بیگانہ بن جانے کا احساس بڑا ہی کربناک، اس سے لپٹے، ڈستے کرب نے اس کے اندر ایک طوفان بپا کر رکھا تھا اور وہ بڑی بیچارگی سے کروٹیں بدلتے ہوئے، زور زور سے کھانس رہا تھا۔ آہستہ آہستہ بڑھتی سردی میں ٹوٹتے اعضا سے گرم گرم سی بھاپ پھوٹ رہی تھی۔پرندوں کی چہکار پھوٹتے ہی اس نے لوٹ لگائی اور دروازے کی ایک جھری پر آنکھ ٹکا دی۔ میدان اور ان کے دوسرے سرے پر پھیلی بیرکوں پر سپیدہ سا چھایا ہوا تھا۔وہ اپنی دکھتی کمر کو مسلتا، جسم کے مختلف حصوں کو کھجاتا، اُٹھ بیٹھا۔ نیم تاریک اجالے میں مچھروں کے کاٹنے کے سرخ نشانات اور کچھ سفید سفید، چھالوں کی طرح اُبھرے ہوئے نشانات کہ جن سے بچھوؤں کے ڈنک مارنے کی شدید سوزش اُبھر رہی تھی۔ اس کی آنکھیں ایک ایک ابھار اور نشان پر ہوتی ہوئی پھر جھری پر آ ٹکیں۔ سورج ابھی تک وہاں نہیں اترا تھا۔ لیکن خود رو سبز گھاس میں چھپی بھورے رنگ کی گھاس پھونس کی لپی ہوئی جھونپڑیاں روشن ہو چکی تھیں۔ پتلے پتلے سرکنڈوں کے جھاڑ، گھنے اونچے اونچے بانس۔ آلوچے کے درختوں میں سرخی مائل زرد دمکتے آلوچے بالکل ساکت و جامد اس کی آنکھوں میں اتر گئے۔
یہ تم کہاں آ پھنسے ہو؟، یہاں سے چھٹکارا؟
اور سرد طویل آہ اس کے منہ سے ابل پڑی اور بےاختیار اس کے ہاتھ سفید چھالوں پر مالش کرنے لگے۔
درختوں کی چھتارا اوٹ سے چھنتی دھوپ کا بڑا سا ٹکڑا میدان میں اترا تو پھیکی پھیکی شفاف کہر اڑ گئی۔ گمبھیر سناٹے کو چیرتے ہوئے دو ہیلی کاپٹر اسٹارٹ ہوئے اور نیلے آسمانوں میں کھو گئے اور اس کے ساتھ ہی بیرکوں کی پشت کے بانسوں سے دہشت ناک چیخیں پھوٹنے لگیں اور وہ بڑی بیچارگی سے دونوں ہاتھوں کو مسلتے ہوئے بڑبڑایا۔ نجانے کس غریب کی کمبختی آئی ہے؟ اور اب، میری نوبت آئےگی! اور آہستہ آہستہ چیخیں، راتوں کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں روتے کتے کی سی لمبی کراہوں میں ڈوب گئیں۔ایکا ایکی دروازہ کھلا اور کوٹھڑی کے دروازے پر گرجتی ہوئی آواز حملہ آور ہوئی۔
چلو۔
آنکھوں نے اپنی طرف ایم سولہ کی نالیاں امنڈی دیکھیں۔ وہ جھر جھری لیتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا اور ان کے آگے چلتاہوا میدان کی طرف بڑھ گیا۔ مشرقی کنارے گڑے لکڑی کے ستونوں کے پاس اس کے قدموں میں گرجتی آواز نے زنجیریں ڈال دیں۔
کاش تمہارے ہاتھوں میں یہ لوہے کے ٹکڑے نہ ہوتے اور تم مجھے، میرے گاؤں میں اس طرح آواز دے کر دیکھتے۔ مگر، مگر ہماری بے بسی نے تمہیں شیر بنا دیا ہے۔ ورنہ تم تو گیدڑوں سے بھی بدتر ہو۔
دوسرے لمحے میں ہی اسے کھینچ کر کھمبے کے ساتھ سینے کے بل باندھ دیا گیا اور اس کی قمیض پشت سے پھاڑ ڈالی گئی، مضبوط جثے والے فوجی کی کمر سے لپٹا ہوا سیاہ کوڑا لہرایا اور طویل سسکاری کے ساتھ اس کی کمر کو ڈس گیا۔ سر سے پاؤں تک تیز سنسناہٹ سی پھیل گئی۔ درد کی شدت سے اس نے اپنے دانتوں کو بھینچ لیا۔
مارو ظالمو۔ مگر میرے منہ سے وہ کچھ نہیں نکل سکتا، جس کی تمہیں توقع ہے۔
سارجنٹ کے پوچھنے اور اس کے مسلسل انکار پر کوڑے تھے جو اس کی کمر کی کھال کو چاٹتے چلے گئے۔ درد کی شدت میں وہ اپنے آپ سے لڑتے، نوچتے کھسوٹتے، بےدم ہوکر چمڑوں کی بندشوں میں جھول گیا۔ لیکن دوسرے لمحہ میں ہی اس کی کمر پر آگ برسی اور اس کی دہشت ناک چیخیں نکل گئیں۔
اف ظالموں۔ زخموں پر نمک کا پانی! ہم سب بے قصور ہیں۔
لیکن سوال پھر وہی تھے اور انکار کے ساتھ کوڑا اس کی کمر ادھیڑ رہا تھا۔ لمبے لمبے سانس اور آہستہ آہستہ کراہوں میں اس پر تاریکی نے غلبہ پالیا۔ پھر وہی درندگی۔ بھوک و پیاس کی شدت میں دوسرا سورج بھی ڈوب گیا۔ رات کی یخ بستہ سردی میں مچھر اس پر ٹوٹ پڑے۔ لیکن دھیرے دھیرے اس کی تمام سوزشوں پر مرہم سی رکھی گئی اور وہ تاریک کنویں میں چکر کھاتے، تہہ میں جاگرا۔ دوسرے روز جب اس کی آنکھ کھلی تو سورج اس کی آنکھوں میں جھولا بنا ہوا تھا۔ اس کی ٹانگیں برگد کی مضبوط شاخ سے بندھی ہوئی تھیں اور اس کا سر دہکتے کوئلوں سے ذرا سا اوپر تھا۔ کمر پر برستے کوڑے اور نمک کا پانی اسے لمبی نیند سے کھینچ لائے تھے، کراہیں تو اس کے بس میں ہی نہ تھیں، ہر ضرب پر منہ سے اچھل پڑتیں۔ ایکا ایکی دہکتی آگ سے دھواں سا اٹھا اور اس کے حلق اور ناک میں سوزش کا لاوا ابل پڑا۔
ظالموں، اب سرخ مرچوں کی دھونی!
ہم سب بے قصور ہیں، ہم نے کسی بھی شمال والے کو پناہ نہیں دی، ہم بے قصور ہیں۔
چوتھے روز بھوک، پیاس اور سختیوں سے نڈھال، مگر بےحس، وہ پیال پر سینے کے بل لیٹا، اپنے انگنت، ڈستے اندیشوں سے لڑ رہا تھا۔
میرے ساتھی۔ وہ، وہ بے چارے، نہ جانے کس حال میں ہیں؟ میری بیوی؟؟، میرے بچے؟؟؟
اس کے کانوں میں بیوی کی گھٹی گھٹی سسکیاں ابھریں اور ساتھ ہی اس کی خشک آنکھوں سے دو آنسو نکلے اور رخساروں پر لڑھک گئے۔ دفعتاً ہی دروازہ کھلا، تاریکی کو چیرتی روشنی اس پر ٹوٹ پڑی، شدت درد سے آنکھیں خود بخود مچتی چلی گئیں۔ زمین پر دو ڈبے پٹخ کر دروازہ پھر بند کر دیا گیا۔ بے حس سناٹے میں دھیرے دھیرے اس کی آنکھیں کھلیں اور ایک ڈبے میں چاول کا چھوٹا سا گولہ اور دوسرے میں پانی دیکھ کر اس کے جسم میں برق سی لہرا گئی۔ خشک کانٹوں بھری زبان اور حلق کی دشوار گزار راہ سے صرف دو ہی گھونٹ نیچے اتر سکے۔ اور پھر وہ پھیکے، بدمزہ اور سخت چاولوں کو انگلیوں سے مسلتے ہوئے نگلنے لگا۔
میں بھی کتنا سخت جان ہوں، یہ تو مجھے آج پتہ چلا، مگر نجانے میرے ساتھیوں پر کیا بیتی ہوگی؟ نجانے ان میں سے کوئی جیتا بھی ہے کہ نہیں؟ نہیں نہیں وہ سب زندہ ہیں۔ یہ ظالم ہم سے کیا چاہتے ہیں، کون جانے؟ پھر بچو، جانتے ہو کہ کیا ہوا؟
ہم ایک کیمپ سے دوسرے کیمپ اور دوسرے سے تیسرے کیمپ میں، دو سال کے بعد جانتے ہو کہ ہمارے کتنے ساتھی بچے؟
صرف چار اور وہ بھی مردوں سے بدتر۔ مگر میں بھی کتنا سخت جان ہوں، مجھے دیکھتے ہی کہتے تھے کہ اسے ذبح کر ڈالو۔ یہی ان کا لیڈر ہے۔ مگر دیکھ لو، ان سارے عذابوں کے باوجود بھی، میں تہارے سامنے کھڑا ہوں اور دلاور کا حال سنو تو تمہارے دل میں دلاور کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بننے کی آرزو تیز تر ہو جائےگی۔ وہ ان تمام مظالم کے باوجود بھی جب خود ہی ہمت ہار بیٹھے تو مشینوں کا سہارا لینے پر مجبور ہو گئے۔ لیکن دو ماہ کی زور آزمائی کے باوجود ان کے شکنجے پوری طرح نہیں جکڑ سکے۔ سچ تو یہ ہے کہ کچھ ہوتا تو نکلتا بھی۔ جو کچھ بھی اس چکی میں پِس کر نکلا، اس پر ہم چاروں کو فوجی عدالت نے کچھ پوچھے بنا ہی دس سال کے لئے آہنی دروازوں کے پیچھے دھکیل دیا اور وہ دن کیسے بیتے؟ تم کیا جانو۔ ابھی تم نے ان تنہائیوں اور سختیوں کی ہلکی سی بو بھی نہیں سونگھی۔ ابھی تمہارے منہ میں ماؤں کے دودھ کی باس رچی ہوئی ہے۔
ان دنوں نے ہم سے دو اور ساتھیوں کی بھینٹ لے لی، بیماری اور بڑھاپے کا طوق ہمارے جسموں کو پہنا دیا گیا اور اس بڑھاپے اور بیماری نے ہمیں دو سال کے لئے وہاں لا پھینکا، جہاں کوئی کسی کا دکھ سکھ نہیں دیکھتا۔ صرف بیماروں اور زخمیوں کی چیخ و پکار ہوتی ہے اور فینائیل کی بو اور اب ہم لوٹ آئے ہیں بچو۔ مگر ہمارے کھیت؟ وہ کہاں کھو گئے؟ نجانے ہمارے بچے کس حال میں ہوں گے اور وہ نیک بخت؟ اس کی سسکیاں، اب وہ سب کچھ بچو، جو سو گیا تھا، وہ پھر سے جاگ اٹھا ہے، یہ زخم پھر سے ہرے ہو گئے ہیں، نجانے ان پر کیا بیتی؟ وہ بے چاری تنہا دونوں لڑکوں کے ساتھ کھیتوں میں جتی رہتی تھی۔ گاؤں والے تو دہشت کے مارے ان کے نزدیک بھی نہ جاسکتے تھے۔ گاؤں کا ہر شخص مجرم بنا ان کی آگ میں جلتا رہتا تھا۔
اس چھاؤنی کی بنیاد میں اس کا بھی خون شامل ہو گیا ہے! مگر، مگر میرے بچے؟ وہ دونوں تو جنگلوں میں اتر گئے ہیں اور آئے دن، اپنی زمینیں چھیننے کے لئے ان پر حملے کرتے رہتے ہیں۔ ان کی راتوں کی نیندیں ان مٹھی بھر لوگوں نے حرام کر دی ہیں۔
یہ باڑیں جو دیکھتے ہو نا بابا، یہ تو خوف کو چھپانے کا اک حصار ہے۔
تم جانتے ہو نا بابا۔ پچھلے پہاڑوں نے ان پر خزانے کھول دیئے ہیں۔
لیکن، لیکن وہ تو سب کچھ یہاں سے دس میل دور ہے، میں جب یہاں ہی تھا تو وہاں کان کنی شروع کر چکے تھے ٹامی۔
مگر۔؟
مگر میری زمینوں نے ان کا کیا بگاڑا تھا؟ یہ کھیت کیوں ویران ہو گئے؟ چھاؤنی کی ایسی کیا ضرورت تھی؟
شمال والوں کا ہوا! کہتے تھے کہ یہ شمالی گوریلوں کی پناہ گاہ بن گیا ہے۔ اف، بارہ سال پرانے قصّے۔جھوٹے فریبی، خود ہی قابض رہنے کے لئے یہ ڈھکوسلے، اس چھاؤنی کے لئے انہیں کوئی اور جگہ نہ ملی۔
بابا۔ ابھی تو یہ اور بڑی ہوگی، پہاڑوں نے اپنی ساری پہنائیاں ان پر کھول دی ہیں۔
کیا؟
ہاں ان کھیتوں اور گاؤں کو سمیٹنے کا حکم نامہ بھی آ چکا ہے۔
کیوں، کیوں؟
وہ ہی خوف، گوریلوں کی دہشت۔
اف۔
اس نے پلٹ کر کھیتوں اور گاؤں کو آنکھوں میں سمیٹنا چاہا۔ مگر وہ آنسوؤں کی گرفت سے پھسل کر باڑوں کی اوٹ میں پنہاں ہو گئے۔ ہمیں یہ غلط جگہ پر لے آئے ہیں، کونسی طرف ہمارے بچے رہتے ہیں۔؟
اس نے مٹی سے اٹے بچوں کے سر پر ہاتھ پھیرتے، آنکھوں میں جمع ہوتے ہوئے آنسوؤں کو نچوڑا۔
جاؤ بچو جاؤ تم بھی اپنے گھر جاؤ۔
ہم اپنے گاؤں کے لئے، اپنے کھیتوں کے لئے۔ سبزے کے لئے، ضرور لوٹیں گے۔ جاؤ۔
اور زرد دھوپ میں لرزتے، لڑکھڑاتے دو سائے، دھیرے دھیرے گھنے جنگلوں میں اتر گئے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.