اس کا پورا نام سنتوکھ سنگھ تھا پر پاس پڑوسی اور ناطے رشتے دار اسے سنتا کے نام سے جانتے تھے۔ سنتا جموں کے چاند پورہ گاوں میں اپنے چھوٹے سے پریوار کے ساتھ رہتا تھا۔ اس کا خاندان بہت ہی چھوٹا تھا۔ ایک تو بیٹا بنتا سنگھ تھا جو بالی عمر سے گزر رہا تھا۔ ایک سات سال کی بیٹی رانو تھی جو سنتا کی آنکھ کا تارا تھی۔ ان کے علاوہ چاچی پریتم کور تھی جو بیوہ تھی اور لاولد تھی۔ وہ سنتا کو ہی اپنا بیٹا مانتی تھی۔ پریتم کور کافی ضعیف ہو چکی تھی۔ اب تو چلنے پھرنے کے لئے لاٹھی کا سہارا لینا پڑتا تھا۔ اُسکے شوہر پریم سنگھ کی دس سال پہلے گولی لگنے سے موت ہوئی تھی، جب سے سنتا ہی اپنی چاچی کی تن من سے سیوا کئے جا رہا تھا۔
دراصل سنتا سنگھ کا گھر لائن آف کنٹرول سے بالکل سٹاہوا تھا۔ بس یوں سمجھ لیجئے کہ یہ گاوں سرھد سے چار ہاتھ کے فاصلے پر تھا۔ سرحد پر رہنا کتنا خطرناک ہوتا ہے اس کا ثبوت وہ گولیوں کے نشان تھے جو اس چھوٹے سے گاؤں کے ہر مکان کے سینے پر چیچک کے بدنما داغوں کی طرح نمایاں تھے۔ آئے دن کی گولہ باری نے اب تک کئی قیمتی جانیں لی تھیں۔ پریم سنگھ بھی اس گولہ باری کا اس وقت شکار ہوا تھا جب وہ اپنے کھیتوں پر کام کر رہا تھا۔ اُس کی لاش آٹھ گھنٹے تک کھیتوں میں پڑی رہی کیونکہ دونوں طرف سے جم کے گولہ باری ہو رہی تھی۔ ایسے حالات میں گاؤں والے گھروں میں بنائے گئے خندقوں میں جائے پناہ لینے پر مجبور ہوتے تھے۔ کبھی کبھی تو گاوں والوں کو کئی کئی راتیں بھوکے پیاسے انہی خندقوں میں اوندھے پڑے پڑے گزارنی پڑتی تھیں۔
ان لوگوں کا آبائی پیشہ کھیتی باڑی تھا۔ کھیتی باڑی کے علاوہ یہ لوگ ڈھور ڈنگر بھی پال لیا کرتے تھے۔ فوج نے کئی بار انہیں یہ صلاح دی کہ وہ یہ علاقہ چھوڑ کر کہیں اور چلے جائیں کیونکہ یہاں رہ کر ان کے جان و مال کو ہمیشہ خطرہ بنا رہےگا۔ فوج کے اس صلاح و مشورے کو ان ہوں نے سرے سے ہی خا رج کر دیا۔ کسان کی پہچان تو اس کے کھیت سے ہوتی ہے۔ جب ان کے پاس کھیت ہی نہیں رہیں گے تو وہ کریں گے کیا؟ جئیں گے کیسے اور رہیں گے کہاں؟ چناچہ کافی سوچ و بچار کے بعد یہی فیصلہ لیا گیا کہ چاہے ان کی جان رہے یا چلی جائے وہ ان کھیتوں کو چھوڑ کر کہیں نہیں جائیں گے۔ وہ جب تک زندہ ہیں وہ موت کے سایے میں جینا پسند کریں گے مگر اپنی زمین جائیداد سے کسی بھی قیمت پر الگ نہیں ہوں گے کیونکہ کسان اور کھیت کا چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے۔ ان کی اس ہٹ کے آ گے فوج بھی کمزور پڑ گئی۔
سنتا سنگھ کے پاس کافی زمین و جائیداد تھی۔ زمین جائیداد کے علاوہ اُسکے پاس چار بھینسیں، دو بیل اور ایک گائے تھی۔ سنتا کو ان سارے ڈنگروں میں سے سب سے زیادہ اپنی گائے پیاری تھی جس کا نام اس نے گوری رکھا تھا۔ گوری کو تو اس نے حرز جان بنا کے رکھا تھا۔ گوری بڑی سندر اور اصیل تھی۔ وہ گھر کے ہر فرد سے بہت پیار کرتی تھی۔ خاص طور پر وہ رانو کو بہت ہی زیادہ چاہتی تھی۔ جب بھی رانو اس کے قریب جاتی تھی تو وہ اسے اس طرح سے چاٹنے لگتی تھی جیسے رانو کو اسی نے جنم دیا ہو۔ گوری کا چتلا رنگ و روپ، اس کی کجراری آ نکھیں اور اس کا شان بے نیازی سے چلنا اسے سب سے منفرد اور ممتاز بنا دیتا تھا۔ سنتا صبح جب نیند سے اٹھتا تھا تو وہ سب سے پہلے گوری کا منہ دیکھ لیا کرتا تھا۔ اس کے دل میں یہ یقین پیوست ہوکر رہ گیا تھا کہ گوری کا منہ دیکھ کے آج تک اسے کبھی کھونچ کھرونچ تک نہیں لگی تھی اس لئے وہ گوری کو پیار ہی نہیں بلکہ ایک طرح سے اس کی پوجا کرتا تھا۔ گوری بھی اپنے مالک کے اشاروں کو بخو بی سمجھتی تھی۔ اس نے گوری کو اس طرح ٹٹکاری پر لگا لیا تھا کہ وہ چاہے کتنی بھی دور نکل جا ئے اس کی ایک سیٹی سن کر دوڑ تی ہوئی چلی آ تی تھی جب کہ باقی کے ڈنگر صدا ڈنگر ہی رہے۔
سنتا اکثر و پیشتر اپنے ڈنگروں کو خود ہی چرانے لے جاتا تھامگر مارچ کے مہینے میں جب کھیتی باڑی شروع ہو جاتی تھی تو یہ کام بنتا کے ذمہ تھا۔ سنتا سنگھ کے لئے بسنت کے دو مہینے بڑے کٹھن اور دھوڑ دھوپ بھرے ہوتے تھے۔ کھیتوں کی جتائی، پھر نلائی۔ نلائی کے بعد سہاگہ پھیرنا پھر بوائی۔ یہ دو مہینے اس قدر تگ و دو سے بھرے ہوتے تھے کہ بسا اوقات سنتا کو روٹی کھانے کی بھی فرصت نہیں ملتی تھی۔ بس بوائی ہو گئی تو سمجھو محنت ٹھکانے لگ گئی۔ اسکے بعد ہر طرف ہریالی ہی ہریالی چھا جاتی تھی۔ مکئی کی فصل ہو یا گہیوں کی، یہاں کا ہوا پانی اتنا موافق تھا کہ کسانوں کے گھر لہر بہر ہو جایا کرتے تھے۔
اپریل کے مہینے کی بات ہے، سنتا سنگھ کھیتوں پر کام کر رہا تھا اور بنتا ڈنگروں کو چرنے کے لئے سرحد کے بالکل قریب لے گیا۔ سنتا نے بنتا کو ڈھور ڈنگر سرحد کے قریب لے جانے سے ممانعت کرکے رکھی تھی کیونکہ ڈھور ڈنگر ذرا سا بھی ادھر ادھر بھٹک جاتے تھے تو اس طرف کے کسان ان جانوروں کو اٹھا کر لے جاتے تھے۔ یہاں کے کسان بھی دودھ کے دھلے ہوئے نہیں تھے۔ ان کے جانوروں کے ساتھ وہ بھی یہی سلوک روا رکھتے تھے۔ ان کا ڈنگر ذرا سا ادھر ادھر کیاہو لیا کہ یہاں کے
کسان انہیں پکڑکر سیدھے گھر میں باندھ کے آ جایا کرتے تھے۔ مویشی چوری کا یہ سلسلہ بہت پرانا تھا۔ اب حالات ایسے دوستانہ نہ تھے کہ ایک دوسرے کے علاقے میں در آنے والے جانوروں کو واپس کرکے دوستی کی مثال قائم کر پاتے۔ جب دلوں میں رنجیشیں، عداوتیں اور نفرتیں بھری پڑی ہوں تو ایسے میں اخلاق اور شرافت کے سارے فلسفے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ بس یاد رہ جاتی ہیں گزرے زمانے کی کڑواہٹیں اور تلخیاں۔
اس دن بنتا باپ کے منع کرنے کے باوجود اپنے ڈنگر سرحد کے بالکل قریب لے کے گیا۔ ڈنگر بڑے اطمینان سے گھاس چرتے رہے اور بنتا ایک پیڑ کے نیچے بیٹھ کر سستانے لگا۔ کب اسے جھپکی لگی۔ کب اس کا سر اس کے گھٹنوں میں لٹک گیا اسے پتہ ہی نہیں چلا۔ جب آ نکھ کھلی تو اس نے کیا دیکھا کہ گوری کہیں دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ ایک خوف کی لہر بجلی کی سرعت سے اس کے اندر دوڑ گئی۔ اس نے گوری کا نام لے کر زور زور سے آ واز لگائی پراُسے گوری کہیں نظر نہ آ ئی۔ بنتا نے اسے ادھر ادھر ڈھونڈا پر وہ کہیں نہ ملی۔ اب کے بنتا کے ہاتھ پاؤں پھول گئے اور وہ ہڑ بڑا ہٹ میں باقی کے مویشی ہانکتا ہوا اپنے باپ کے پاس چلا گیا اور روتے روتے اُس سے بولا ”پاپاجی، گوری کتھوں نس گئی۔“
سنتا سنگھ یہ خبر سن کر پہلے تودھک سے رہ گیا پھر وہ بے تحاشہ کھیتوں کی طرف دوڑا اور بد حواسی کے عالم میں زور زور سے گوری کو پکارنے لگا۔ وہ جانتا تھا کہ گوری جہاں بھی ہوگی اس کی آ واز سن کر دوڑتی ہوئی چلی آ ئےگی۔ وہ چلاتا رہا۔ کھیت کھلیانوں میں، ہرے بھرے اور چٹیل میدانوں، وہ کہیں نہیں ملی۔ وہ دروں اور کھایؤں میں ٹٹکاریاں لگاتا رہا مگر وہ کہیں دکھائی نہ دی۔ وہ سمجھ ہی نہیں پا رہا تھا کہ آ خر وہ گئی کہاں۔ اسے زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا۔ جب شام کے سیاہ دھندلکے چار سو پھیل گئے تو وہ بھرے من اور بھیگی آنکھوں کے ساتھ گھر لوٹا۔ گھر پہونچ کر جب ماں نے گوری کے بارے میں پوچھا تو جواب میں وہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑا۔ اسے روتے دیکھکر رانو بھی رو پڑی۔ دیکھتے ہی دیکھتے گھر میں کہرام مچ گیا۔ رونے کی آ واز سن کر پاس پڑوسی دوڑے دوڑے چلے آئے۔ لگا کہ سنتا کے گھر کوئی آفت افتاد پڑی ہے۔ جب ماجرا واضع ہوا تو وہ بھی دکھ اور افسوس کا اظہار کرکے چلے گئے۔ سنتا اپنی گوری کی یاد میں اسطرح سیاپا کرتا رہا جیسے کوئی عزیز بچھڑ گیا ہو۔
رات کو کھانا کھانے کے بعد جب بنتابے خیالی میں باپ کے کمرے میں چلا گیا تو اسے دیکھ کر سنتا کے سر پر جیسے شیطان سوار ہو گیا۔ اسنے آو دیکھ نہ تاو۔ وہ بھوکے بھیڑیے کی طرح بنتا پرپل پڑا اور اُسے بے بھاو کی دینے لگا۔ پہلے ہاتھوں اور لاتوں سے اس کی پٹائی کی پھر اُ سکے جھونٹے کھسوٹتے ہوئے وہ اُسے زمین پر پٹخنے لگا۔ چاچی پریتم کور، پرمیت اور رانو دوسرے کمرے میں بیٹھ کر کھانا کھا رہے تھے۔ انہوں نے جب بنتاکی چیخ و پکار سنی تو پرمیت اور رانو کھانا چھوڑکر اس کی مدد کے لئے دوڑ پڑے۔ چاچی پریتم کور جو آٹھوں پہر اپنی کھاٹ پر ہی جمی رہتی تھی، وہ بھی بنتا کی چیخیں سن کر اپنے آپ کوروک نہیں پائی۔ اسنے لاٹھی تھامی اور گرتے پڑتے سنتا کے کمرے تک پہونچنے کا جتن کرنے لگی۔ کمرے میں تو کہرام مچا ہوا تھا۔ ایک طرف پرمیت چھاتی پیٹ پیٹ کر رو رہی تھی اور دوسری طرف رانو چیخ چیخ کر ہلکان ہوئے جا رہی تھی۔ ان سب سے بےنیاز سنتا، بنتا کو پیٹتا چلا جا رہا تھا اور بار بار ایک ہی سوال پوچھے جا رہا تھا۔
”کھوتے دے پتر!بول کتھے مار چھڑیا میری گوری نو؟“
وہ رو رہا تھا اور مار کھائے جا رہا تھا۔ سنتا کے سر پر تو جیسے خون سوا ر ہو چکا تھا۔ پرمیت اور رانو اسے قابو کرنے میں ناکام ہو چکی تھیں اس لئے وہ بےبسی اور لاچارگی کے عالم میں ایک طرف کھڑی ہوکر چھاتیاں پیٹ رہی تھیں۔ اتنے میں چاچی اندر آ گئی۔ اندر کا منظر دیکھ کر اس کی بوڑھی ہڈیوں میں ابال آ گیا۔ وہ خشم ناک ہوکر سنتا کی طرف بڑھی اور پھر اس پر تابڑتوڑ لاٹھی برسانے لگی۔ سنتا اس اچانک یلغار سے ہکا بکا رہ گیا۔ چاچی زخمی شیرنی کی طرح دہاڑنے لگی۔
”ہائے ہائے مر جانیا۔ ایک گائے کے واسطے منڈے نو مار ڈالےگا کیا؟“
سنتا مار کھا کے پیچھے ہٹ گیا۔ بنتا جو چار چوٹ کی مار کھانے کے بعد ادھ موا سا ہو گیا تھا بمشکل تمام اٹھا اور بھاگ کر ماں کے پیچھے جا کر چھپ گیا۔ سنتا لاٹھی کھا کے بچوں کی طرح پھپھک پھپھک کر رونے لگا۔ چاچی نے اُ سے سہارا دیا، اسے سینے سے لگا یااور پھر اسے سمجھا بجھا کر کمرے سے باہر لے گئی۔
سنتا گوری کے کھو جانے کے بعد بجھا بجھا سا رہنے لگا۔ اسے آ ٹھوں پہر گوری کی یاد ستاتی رہتی تھی۔ جب سے اس بات کی تصدیق ہو گئی تھی کہ گوری سرحد کے اس پار چلی گئی ہے وہ سوتے میں ہڑ بڑا کر اٹھتا تھا اور پھر گوری کو یاد کرکے سبکنے لگتا تھا۔ شوہر کی اس روز روز کی اشک شوئی سے پرمیت کا کلیجہ پک چکا تھا۔ جب دیکھو سوکھا سا منہ لئے بیٹھا ہے۔ نہ کسی سے ہنسی نہ ٹھٹھول۔ وہ دل ہی دل میں گوری کو کوستی رہتی تھی جو سوت بن کر اس کی زندگی میں در آئی تھی۔ سنتا رات کو ہوتا تھا پرمیت کے ساتھ مگر اسکے دل و دماغ میں گوری بسی ہوئی ہوتی تھی۔ اس کی ذہنی کیفیت کا یہ عالم تھا کہ کہو دن کی سنے رات کی۔ اس کی ذہنی افراتفری اور پراگندگی کو دیکھ کر پرمیت اپنا من مسوس کر رہ جاتی تھی۔ اس نے اس کے من کو کئی بار ٹٹولا۔ دل کو کھنگالا کہ پتا چلے کہ آ خر اس کے اندر کیا ٹوٹ پھوٹ چل رہی ہے۔ کون سی بات اسے اندر ہی اندر کھائے جا رہی ہے پر وہ نہ منہ سے بولے نہ سر سے کھیلے۔ جب پرمیت کور اس کے سر پڑ گئی تو ایک دن اس نے پرمیت کو اپنی فکر و تشویش سے آگاہ کر دیا جو اسے رات دن کھائے جا رہی تھی۔ اسے اس بات کا ملال نہ تھا کہ گوری کہیں گم ہو گئی ہے۔ اسے اس بات سے بھی کوئی دکھ نہیں ہوتا اگر کوئی اس سے یہ کہتا کہ گوری مر گئی ہے۔ اسے اگر غم تھا تو اس بات کا کہ گوری جن لوگوں کے ہتھے چڑھ گئی ہے وہ اسے جینے نہیں دیں گے بلکہ کسی بے رحم چھرے سے اُسے ذبح کر ڈالیں گے۔ بس یہ خیال اسے رنجیدہ اور پریشان کئے جا رہا تھا۔ اس نے گوری کو بڑے جتن سے پالا تھا اس لئے اسے اس کا یہ انجام منظور نہ تھا۔ اس انجام کے احساس سے ہی اس کا کلیجہ منہ کو آ نے لگتا تھا۔ گوری کی یاد اسے لہو لہو رلا دیتی تھی۔ اب جب کہ پرمیت پر یہ باعث کھلا تھا کہ سنتا گوری کے لئے اتنا دکھی اور پریشان کیوں ہے تو ایک دن وہ اسے سمجھاتے ہوئے بولی۔
”یہ بےفجول کی گلاں سوچنا چھڑ دوجی۔ جس طرح برے چنگے بندے اتھے رہندے ہیں اسی طرح اس پار بھی کچھ بھلے چنگے بندے ہونگے۔ کے پتا ساڑھی گوری ایسے کسی چنگے بھلے بندے کے ہتھ لگی ہو۔ ویسے ایک گل دسوں۔ ساڑھی گوری ہے اینی سندر کہ کوئی اُسے مار ڈالنے کی کدی سوچ بھی نہیں سکدا۔ واہ گورو پر پروسا رکھو۔ گوری جتھے بھی ہوگی بھلی چنگی ہوگی۔“
پرمیت کے دم دلاسے نے مرہم کا کام کر دیا۔ سنتا کے بےچین دل کو تھوڑا سا قرار مل گیا البتہ اس کے دل سے وہ ڈر پوری طرح سے خارج نہ ہو ا تھا جو اس کے اندر گھر کر چکا تھا۔ پرمیت بھی اتنی جلدی ہار ماننے والی نہ تھی۔ وہ دھیرے دھیرے اس کے دل و دماغ میں نئی امیدیں جگاتی چلی گئی۔ آہستہ آہستہ سنتا رنج و غم کے اُس خول سے باہر آ نے لگا جس میں اس نے اپنے آپ کو قید کرکے رکھا تھا۔
دیکھتے ہی دیکھتے ایک سال بیت گیا۔ زندگی نے پھر سے رفتار پکڑ لی تھی۔ ایک شام جب وہ سبھی آ نگن میں کھٹیا ڈال کے بیٹھے تھے کہ دفعتاََ ایک دھماکہ ہوا۔ کسی نے پھاٹک پر اتنی زور کی ٹھوک ماری کہ کنڈی کہیں دور جا کے گری اور پھاٹک کھل گیا۔ پھاٹک کھلتے ہی ایک معجزہ ہو گیا۔ گوری اپنے بچھڑے کے ساتھ دم اٹھائے دندناتے ہوئے اندر آ گئی۔ ایک پل کے لئے سب دم بخود ہو کر رہ گئے۔ ایسا لگا جیسے وہ کھلی آ نکھوں سے کوئی خواب دیکھ رہے ہوں۔ سنتا پھٹی پھٹی آنکھوں سے گوری کی طرف دیکھنے لگا۔ گوری اپنے لوگوں کو دیکھ کر دم اٹھائے کودنے پھاندنے لگی۔ کد کڑے مارنے لگی۔ سبھی لوگ خوشی سے اچھل کر گوری کی طرف لپکے اور پھر اسے چومنے چاٹنے لگے۔ سنتا جو ا بھی تک حیران و ششدر ہو کے بیٹھا تھا، ایکدم اپنی کھاٹ چھوڑ کر گوری کی طرف بڑھا اور پھر اس کے گلے سے لگ کر رونے لگا۔ گوری بھی جواب میں اس کے سر کو چاٹنے لگی۔ سنتا بہت دیر تک اسے چومتا چاٹتا رہا اور پھر دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر بولا۔
”واہ گورو تیرا لکھ لکھ شکر ہے۔ تو نے میری گوری مینوں لوٹا دی۔ پرمیتے تو سچ ہی کہندی تھی کہ چنگے بھلے لوک ہر جگہ ہوندے ہیں۔“
سبھی خوشی سے جھوم رہے تھے۔ چاچی پریتم کور بھی گوری کو دیکھ کر اسقدر ترنگ میں آ گئی کہ وہ بغیر کسی سہارے کے کھٹیا چھوڑ کے نیچے آ گئی اور بچوں کے ساتھ بھانگڑا کرنے لگی۔ پرمیت تو گوری کو بار بار جھپیاں ڈال رہی تھی۔ جونہی وہ ایکطرف ہٹ گئی تو اچانک سنتا کی نظر گوری کے پیچھے چھپے ہوئے بچھڑے پر پڑی۔
بچھڑے کو دیکھ کر ایکدم اس کے تیور بدل گئے۔ آنکھیں نیلی پیلی ہونے لگیں۔ وہ بچھڑے کی طرف تیوریاں چڑھاتے ہوئے بولا۔
”پرمیتے!یہ حرامی دا پتر کتھوں آ گیا؟“
پرمیت بچھڑے کی طرف وارفتگی سے دیکھ کر بولی، ”آیا کتھوں۔ یہ اسی دا جنا ہے جی۔“ کہہ کر وہ اسے پیار کرنے لگی۔
سنتا کے تن بدن میں آگ لگی۔ وہ غصے سے ابل کر بولا، ”یہ اتھے نہیں رہ سکدا۔ یہ دشمن کا پلا میرے کار وچ کدی نہیں رہ سکدا۔“
پرمیت اور چاچی پہلے تو دم بخود رہ گئے۔ پھر انہوں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی مگر اس نے کسی کی ایک نہ سنی۔ حد تو تب ہو گئی جب وہ ہاتھ میں ایک موٹا سا ڈنڈا لےکر بچھڑے کو بھگانے لگا۔ پرمیت کور اُسے روکتے ہوئے بولی، ”یہ توسی کی کر رہے ہو جی؟ اسے کتھے بھگا رہے ہو۔ یہ ساڑی گوری دا بچھڑا ہے۔ یہ اتھے نہیں رہے گا تو پھر کتھے رہےگا؟“
”جتھے مرضی ہو اتھے رہے پر میں اس حرام دی اولاد کو اپنے کار وچ کدی رہنے نہیں دوں گا۔“ یہ کہہ کر وہ اسے لاتیں مار کر اور کان پکڑ پکڑ کر گھسیٹتا ہوا صحن سے باہر کھدیڈ نے لگا۔ اب کے گوری بے چین و بےقرار ہونے لگی۔ وہ پاگلوں کی طرح ادھر ادھر ایسے دوڑنے لگی جیسے وہ سب کے سامنے فریاد کرنا چاہتی ہو۔ وہ کبھی خشم سے پرمیت کی طرف دیکھتی تو کبھی سنتا پر غصہ کرنے لگتی تھی۔ سنتا اس کے غصے اور ناراضگی کی پرواہ کئے بنا بچھڑے کو گھر سے باہر کھینچتے ہوئے لے گیا۔ اسنے باہر سے دروازہ بند کر دیا تاکہ گوری بچھڑے کے پیچھے نہ چلی آئے۔ وہ اسے کھینچتے کھانچتے بورڑر کی طرف لے گیا اور لاٹھیاں مار مار کر اسے سرحد کی اُ س اور دھکیلنے لگا جہاں سے وہ آیا تھا۔ بچھڑا مار کھا کے بے سدھ ہوکے بیٹھ گیا۔ اس بیچ اندھیرا ہو گیا۔ سنتا چین کی سانس لے کر گھر لوٹا۔
گھر پہونچا تو کیا دیکھا کہ گوری اداس اور غمگین ہوکے ٹکٹکی باندھے دروازے کی اور دیکھ رہی ہے۔ اسکے سامنے ہری ہری گھاس پڑی تھی جسے وہ منہ تک نہیں لگا رہی تھی۔ اسے تو بس اپنے بچھڑے کے لوٹ آنے کا انتظار تھا۔ سنتا نے سوچا کہ ایک دو دن میں گوری اپنے بچھڑے کو بھول جائے گی۔ وہ یہی سوچ کر رات کا کھانا کھا کے سو گیا۔ بھور کا وقت تھا کہ صحن میں دھڑام دھڑام کی آ وازیں آنے لگیں شور سن کر سبھی جاگ گئے۔ سنتا معاََ اٹھا اور وہ بھاگ کر نیچے چلا گیا۔ نیچے جاکر اُسنے کیا دیکھا کہ گوری پھاٹک پر زور زور سے سر پٹخ رہی ہے۔ سنتا نے پریشان ہوکر سرعت سے جو دروازہ کھولا تو باہر کھڑا بچھڑا دوڑ کر اندر آ گیا اور جاکے ماں کے تھن چاٹنے لگا۔ بچھڑے کو دیکھ کر سنتا کا خون کھول اٹھا۔ جی میں آیا کہ ابھی میان سے کر پان نکال کر بچھڑے کا سر قلم کر دے جو اس کے صبر و ضبط کا امتحان لے رہا تھا۔ اُسنے جیسے تیسے سینے پتھر رکھ کر دن میں بچھڑے کو تو گوارہ کر لیا مگر شام ہونے سے پہلے ہی اس نے گوری کو باندی خانے میں لوہے کی زنجیروں سے باندھ کے رکھ دیا۔ جونہی چراغ میں بتی پڑ گئی اس نے بچھڑے کی آنکھوں پر پٹی باندھ لی اور اسے گھسیٹتا ہوا بستی سے دور ایسی جگہہ لے گیا جہاں سے سرحد کی دوری محض دو ہاتھ تھی۔ وہاں پر پہونچ کر اس نے پہلے بچھڑے پر جھونجھل اتارتے ہوئے اسے خوب مارا پیٹا اور پھر اس کی پٹی کھول کر وہ وہاں سے کھسک گیا۔
وہ رات گوری کے لئے قیامت کی رات ثابت ہوئی۔ اس نے ساری رات تڑپ تڑپ کر آنکھوں ہی آنکھوں میں گزار دی۔ بس ہر پل، ہر لمحہ وہ لوہے کی زنجیر سے آزاد ہونے کی جدوجہد میں لگی رہی۔ کھونٹے سے لڑتے لڑتے اس کی گردن چھل گئی تھی پھر بھی وہ کھونٹے سے زور آزمائی کرنے سے باز نہ آئی۔ کھونٹا بھی اتنی مظبوتی سے گڑا ہوا تھا کہ گوری لاکھ کوششوں کے باوجود اسے اکھاڑ پھینکنے میں کامیاب نہ ہو سکی۔ رات بھر یہ کشا کشی اور زور آزمائی چلتی رہی۔
صبح جب سنتا گوری کا منہ دیکھنے کے لئے باندی خانے میں گھسا تو گوری کی حالت دیکھ کر وہ اپنا من مسوس کر رہ گیا۔ گوری اپنے بچھڑے سے ملنے کے لئے ماہی بے آب کی طرح تڑپ رہی تھی۔ سنتا کو دیکھ کر اُس نے ترحم اور فریاد بھری نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا اور پھر اس کی آ نکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو بہنے لگے۔ سنتا نے آگے بڑھکر اس کی گردن پر ہاتھ پھیرا اور اسے پیار کرنے لگا تبھی اُسکی نظر اچانک دروازے پر کھڑی پرمیت پر پڑی جس کی آنکھوں سے آنسؤں کی جھڑی لگی ہوئی تھی۔ سنتا نے بیوی کو اس طرح روتے دیکھا تو وہ اُس کی طرف لپکا اور سراسیمہ ہوکے اس نے پرمیت سے پوچھا، ”اوئے تینوں کی ہوئیا۔ تو کاہے کو رو رہی ہے“
پرمیت نے خشمگیں نظروں سے سنتا کی طرف دیکھا اور پھر گوری کی طرف اشارہ کرکے بولی، ”گوری دی حا لت دیکھ رہے ہو توسی۔ کنی دکھی ہے بیچاری۔ توسی اس دا درد کے سمجھوگے اس دا درد اک ماں ہی سمجھ سکدی ہے۔ مینوں اک گل دسو۔ ایک ماں سے اُس دالال الگ کرکے توڑا کلیجہ نہیں پھٹا؟ ارے توسی کیسے انسان ہو جسے ماں کی ممتا دا ذرا بھی پاس نہیں۔ آخر اس معصوم نے توڑا کیا بگاڑا تھا جو تو نے اسے اپنی ماں سے الگ کر دیا۔ ارے وہ تو ہون یہ بھی نہیں جانداہے کہ اپنا کون اور پرایا کون۔ بڑا جلم کیتا ہے تونے اس بے زبان نال۔ بڑا جلم کیتا ہے تو نے۔“ کہہ کر وہ پھر سے رونے لگی۔ سنتا ایک مجرم کی طرح سر جھکائے بیوی کی پھٹکار سنتا رہا۔ پرمیت کی باتیں تلخ و ترش سہی پر تھیں صداقت پر مبنی۔ آخر اسے کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ ایک معصوم کو اپنی نفرت اور عداوت کا شکار بنا دے۔ وہ پرمیت سے نظریں چراتے ہوئے گوری کی طرف بڑھا اور پھر اسے پیار کرتے ہوئے بولا۔
”تیرا بچھڑا تیرے قول واپس آ جائےگا۔ یہ سردار سنتا سنگھ دا وعدہ ہے تیرے نال۔“ کہکر اسنے گوری کی گردن تھتھپائی اور پھر تیزی سے باندی خانے سے باہر چلا گیا۔ پرمیت کور جو ابھی تک دروازے پر کھڑی تھی، سنتا کے باہر جاتے ہی گوری کی طرف بڑھی اور پھر اس سے لپٹ کر بولی۔
”حوصلہ رکھ گوری۔ حوصلہ رکھ۔ تیرا منڈا تیرے قول واپس آ جائےگا۔“
سنتا بچھڑے کو ڈھونڈنے اس جگہہ پہونچ گیا جہاں اسنے اسے کل رات چھوڑا تھا پر یہ دیکھ کر وہ دھک سے رہ گیا کہ بچھڑا وہاں پر نہیں تھا۔ وہ تو سرحد کے اس اور چلا گیا تھا جہاں سے اسے واپس لانا اب اس کے حد ِاختیار میں نہ تھا۔ وہ چوکی پر طعینات سنتری کے پاس چلا گیا اور اسے سب کچھ سچ سچ بتا دیا۔ سنتری بھی اسی علاقے کا رہنے والا تھا۔ وہ سنتا کو بڑے پیار سے سمجھاتے ہوئے بولا، ”دیکھ پرا وہ دشمن دا علاقہ ہے۔ تو نے اگر اس اور پاؤں بھی رکھ دیا نا تو وہ تم پر سیدھے گولی چلا دیں گے۔ دیکھ بچھڑے سے زیادہ تیری جان قیمتی ہے۔ دیکھ میری گل مان بچھڑے کو بھول کر اپنے کار چلا جا۔ جا“
سنتا بڑا مایوس اور دل برداشتہ ہو گیا۔ اس کی گوری کی ممتا کو کوئی سمجھ نہیں پا رہا تھا۔ اس نے سنتری کے آگے خوب آہ و زاری کی۔ اس کے پاؤں پکڑے، رویا گڑگڑایا پر وہ ٹس سے مس نہ ہوا۔ وہ سوچنے لگا کہ اگر گوری کا بچھڑا نہ ملا تو وہ گوری کے سامنے کیسے جا پائےگا جو پتھرائی آ نکھوں سے اپنے بچھڑے کا انتظٓار کر رہی ہوگی۔ وہ پرمیت کو کیا منہ دکھائےگا۔ وہ اسی ادھیڑ بن میں پڑا رہا۔ ادھر سنتا کے گھر والے سنتا کے لئے کافی فکر مند اور پریشان تھے۔ وہ صبح کا بھوکا پیاسا گھر سے نکلا تھا۔ اب تو شام بھی ہونے کو آئی تھی۔ سنتا ابھی تک گھر نہیں لوٹا تھا۔ جوں جوں وقت ڈھلتا گیا پرمیت کور کی تشویش بڑھنے لگی۔ اُ سکا دل ڈوبا جانے لگا۔ من میں طرح طرح کے وسوسے اور اندیشے سر اٹھانے لگے۔ وہ دل ہی دل میں سنتا کی صحت و سلامتی کی دعائیں مانگنے لگی۔
رات ہوئی تو سنتا ایک ٹیلے کے پیچھے سے نکلا جہاں وہ بہت دیر سے چھپا بیٹھا تھا۔ دراصل آج وہ یہ طے کرکے بیٹھا تھا کہ وہ بچھڑے کو لے کر ہی گھر لوٹےگا۔ وہ دھیرے دھیرے سانس روکے وہ پیٹ کے بل سرحد کی طرف رینگتا ہوا آگے بڑھنے لگا۔ وہ اس علاقے کے چپے چپے سے واقف تھا اس لئے اس مقام تک پہنچنے میں اسے کوئی دقت نہیں ہوئی جہاں پر بچھڑا بیٹھا تھا۔ گٹھا ٹوپ اندھیرا تھا۔ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دے رہا تھا مگر سنتا کی دیوانگی اور لگن کا عالم دیکھئے کہ وہ سر پر کفن باندھ کر بچھڑے تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔ پتوں کی چرمراہٹ سے دونوں اطراف کے سنتریوں کے کان کھڑے ہو گئے۔ انہوں نے اندھیرے کو جو ٹٹولا تو سنتا بھاگنے لگا۔ بس پھر کیا تھا۔ دونوں اطراف سے گھمسان چھڑ گیا۔ بہت دیر تک گولیوں کی آواز سے ماحول تھرا اٹھا۔ یہ گولہ باری صبح تک جاری رہی۔
صبح جب پرمیت سنتا کی تلاش میں گھر سے باہر آ گئی تو وہ یہ دیکھ کر خوشی سے اچھل پڑی کہ بچھڑا دروازے پر کھڑا تھا۔ پرمیت بے تحاشہ اس کی طرف بڑھی اور اس سے لپٹ کر اسے پیار کرنے لگی۔ وہ اس کے پیار میں ایسی ڈوبی ہوئی تھی کہ اسے پتا ہی نہ چلا کہ اسکے سامنے پولیس کی جیپ کب آکے رکی۔ اُہوں نے جونہی جیپ میں سے گولیوں سے چھلنی سنتا کی لاش نیچے اتار دی تو پرمیت کی نظر اس لاش پر پڑی۔ ا یک پل کے لئے پرمیت کور جامد و ساکت کھڑی رہی لیکن دوسرے ہی پل اس کے منہ سے ایک بھیانک چیخ نکل گئی جو بہت دیر تک فضاؤں میں گونجتی رہی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.