سپنوں کے دیس میں
کہانی کی کہانی
"فلسفایانہ اسلوب میں سرگزشت آدم بیان کی گئی ہے۔ اب تک کی معلوم انسانی تاریخ اور قوموں کے عروج و زوال کو اس افسانے میں سمیٹنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ارتقائے آدم کے مختلف مرحلوں، جسم و روح کے ہزارہا انقلابات، فلسفہ، مذہب، ادب اور انسانی نفسیات کی مختلف جہتوں کو منضبط انداز میں پیش کیا گیا ہے۔"
میں ایک کہانی لکھنے لگا ہوں۔ کہانی اس لئے کہہ رہا ہوں کہ کہانی کہنے سے، اپنے آپ اور اپنے ماحول کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے یا کم از کم مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دھندلکے صاف ہو ر ہے ہیں، لکیریں ابھر رہی ہیں، ہیولے صورتیں اختیار کر رہے ہیں اور صورتیں جہت در جہت ناچتی ہوئی کیفیتوں اور معنوں میں تبدیل ہو رہی ہیں۔ یہ رقص دیر تک ہوتا رہتا ہے، یہاں تک کہ کیف و معنی کو محسوس کرنے اور سمجھنے والی حالت بھی مدھم ہوتے ہوتے ختم ہو جاتی ہے۔ شاید کہانی کا یہی نقطۂ انجام ہوتا ہے لیکن کہانی پھر بھی لمبی معلوم ہوتی ہے۔ حلقۂ دام خیال کی ان گنت آنکھیں خوابِ عدم سے بیدار ہونے لگتی ہیں اور تماشا ئے عالم کرتی ہیں۔ عدم خواب تھا یا یہ زندگی خواب ہے کون جانے۔
سوتا سنسار، جاگتا پروردگار۔ زمان و مکان کی حدوں سے آزاد خلد میں ایک بسیط و عظیم دماغ نے اپنی بیکراں بیداری میں تنوع پیدا کرنے کے لئے ایک عجیب و غریب خواب دیکھا۔ جلد، جو لامحدود روشنی سے پر تھی، اتھاہ اندھیرے سے بھر گئی۔ ہر سو خواب چھا گیا۔ خواب جو لامحدود کو محدود دائرہ میں لاتا ہے، خواب جو دریائے رواں کو کوزہ میں بند کر دیتا ہے، خواب جو ازل و ابد کو ایک لمحے میں تبدیل کرنے پر قادر ہے۔
عالم خواب میں سکون مطلق تھا۔ شدہ شدہ سکون میں تناؤ پیدا ہوا۔ ایسی کیفیت تھی جیسے سکون ذہن پر تنا ہوا ہے۔ بے جھول، صاف، بے شکن، مکمل سکون اپنی انتہا پر پہنچ کر ڈھول کی جھلی کی طرح تناؤ کی شدت سے پھٹ سا گیا۔ خلا میں لہریں پیدا ہوئیں۔ لامکان ان خواب ناک لہروں سے بھر گیا۔ لامتناہی لہریں، پیچیدہ لہریں، متصادم لہریں۔ اندھیرے میں بجلیاں سی کوند نے لگیں۔ عظیم خواب کے دھند لکے میں کائناتیں رقص کرنے لگیں۔ بسیط خواب ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔ کچھ روشن اور نیم روشن دائر ے بنے۔ عظیم و لامحدود دماغ کی خوابناک فضا میں کچھ دائرے شعلہ بداماں ہو کر بھڑ کے اور فنا ہو گئے۔ کچھ کجلا گئے اور عالم میں روشنیوں کے ساتھ ملی جلی کجلاہٹیں بھی پھیل گئیں۔
اب اٹوٹ سپنے کی کہانی کون کہے۔ سپنے تو سپنے ہی ہیں۔ ان کا اور نہ چھور۔ اس دنیا میں انہونی ہوتی ہے۔ سپنے میں کبھی ایسا لگتا ہے کہ یہ سپنا ہے اور عام طور پر تو ایسا ہی ہوتا ہے کہ سپنا سچ مچ کی دنیا معلوم ہوتا ہے۔ میں سپنے کے ایک سنسار کی کہانی کہتا ہوں، محض ایک سنسار بیکراں سپنے میں ایک حقیر نقطے سے بھی حقیر تر ہے، مگر بندو اور برہما کی حقیقت کوئی نہیں پا سکا۔ نارائن کے سپنے کے ایک نقطہ پر کیا گذری، سنئے، سپنے کا ایک نقطہ ابھرنے لگا، ابھر کر پھیل گیا۔ بالائی جانب سے ایک عریض پردہ سا لہراتا ہوا گرا، پھر پردہ ساکن ہو گیا۔ اس پر کج مج لکیریں، زاویے، دائرے، مثلثیں، قوسین، بیضوی دائرے، متوازی خطوط، چلیپائی، ہئیتیں، ان گنت قماشیں آہستہ آہستہ رونما ہونے لگیں۔ یہ ساری قماشیں بنتی بگڑتی ایک دوسرے میں خلط ملط ہوتی رہیں۔ ہوتے ہوتے باضابطہ اجسام، شکلیں اور صورتیں پر دے پر منقوش ہو گئیں۔ سپنے کا پردہ بڑا گنجان اور آباد ہو گیا۔ اچانک نقوش خواب میں جنبش پیدا ہوئی۔ صورتیں اور اجسام آنکھیں جھپکاتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے۔ ان میں تہ داری، دبازت اور ابعاد ظاہر ہوئے۔ سپنے کے پتلے طرح طرح کی حرکتیں کرنے لگے۔
پہلے تو ایسا ہوا کہ پتلوں کی حرکت کسی ڈور کے سہارے ہوتی ہوئی معلوم ہوئی۔ بعد از آں پتلوں کی آنکھوں میں گہری چمک سی رونما ہوئی۔ بڑی پر معنی چمک۔ پتلے ایک دوسرے کی آنکھوں کے شیشے میں جھانک کر دیکھنے لگے۔ اندر کی دنیا عجیب و غریب تھی پیچیدہ، پاتال تک گہری، اتھاہ۔ اس داخلی دنیا کو دیکھ دیکھ کر پتلوں کا سر چکرا گیا اور وہ بےخودی میں ناچنے لگے۔ ناچتے ناچتے ساری ڈوریں ٹوٹ گئیں۔ سب پتلے او ندھے سیدھے گر پڑے اور آپس میں گڈمڈ ہو گئے۔ پھر وہ اٹھ بیٹھنے کی کوشش کرنے لگے۔ کچھ اٹھ بیٹھے، کچھ اٹھ کھڑے ہوئے اور چلنے پھرنے لگے۔ ہمیں ایسا لگا کہ وہ بالکل بے سہارا ہوگئے ہیں۔ ان کے اندر بڑی گھبراہٹ پیدا ہوئی۔ اس گھبراہٹ سے انھیں یہ محسوس ہوا کہ وہ ایک جیتے جاگتے وجود ہیں۔ گھبراہٹ کے ساتھ آزادی کا احساس بھی تھا۔ پتلوں کی داخلی دنیا اضطراب، اذیت اورلذت سے بھر گئی۔ اس خلفشار اور کشاکش سے ایک اور حیرت خیز کیفیت سر اٹھانے لگی۔
خواب کے پتلے سوچنے لگے یہ عجیب تجربہ تھا۔ اذیت خیز مگر ناگزیر۔ کچھ پتلے اس درد آگیں بوجھ سے بچ گئے۔ سوچنے کے بوجھ، فکر کے وزن سے یہ پتلے بڑے معصوم اور مسرور نظر آنے لگے۔ رفتہ رفتہ ان کی صورتیں مسخ ہونے لگیں اور بے فکر ے پتلے دوسری ہئیتوں اور شکلوں کے ان گنت پتلوں میں جا شامل ہوئے۔ فکر مند پتلے ابھرنے لگے، بڑھنے لگے، پھیلنے لگے مگر اشک وآہ کی وادی میں، تبسم و خندہ کی گھنٹیاں بجاتے ہوئے، سوچ کی مشعل سے پگھلتے ہوئے، روشنیاں پھیلاتے ہوئے یہ پتلے آزادانہ آگے بڑھنے لگے۔ پر خطر منزلیں آئیں تو ان کی ٹولیاں، جتھے اور جماعتیں بن گئیں۔ پتلوں کا کارواں گرتا پڑتا آگے بڑھتا رہا۔ کبھی یہ جتھے اٹوٹ معلوم ہوتے اور کبھی ہر پتلا یکسر آزاد و خود کار محسوس ہوتا۔ اس سفر میں ایک ایک پتلے کے اندر کیفیات، واردات، محسوسات اور تخیلات کی تہ بہ تہ شکنیں پیدا ہوئیں، بے نام تجربے، نام تو بہت بعد، بہت بعد رکھے گئے۔ پتلوں کی حرکت و سکون، اعمال و افعال دائرہ تعینات کے اندر آنے لگے۔
ایک سنسنی خیز بات یہ ہوئی کہ پتلے جوڑا جوڑا ہو گئے۔ جوڑے میں ایک مضبوط و تنو مند اور دوسرا نازک و لطیف۔ ان جوڑوں میں ایک دوسرے کے لئے بے پناہ کشش تھی۔ مقناطیسیت، برقیت۔ پتلوں کے جوڑے ساتھ ساتھ رہنے لگے۔ یہ چمٹتے، الجھتے، ایک دوسرے کو بھینچتے، ایک دوسرے میں سماتے، چسپاں ہوتے اور ہم آہنگ حرکتیں کرتے۔ دو طرح کے پتلے تو پہلے بھی تھے۔ ان میں اتصال و انفصال بھی ہوتا رہتا تھا۔ ان کے تعداد بڑھتی ہی جاتی تھی لیکن ان کے الگ الگ جوڑے نہیں بنے تھے اور اب جوڑے بن گئے اور ان جوڑوں کے وصال سے اور پتلے پیدا ہونے اور ان کے ساتھ رہنے لگے ننھے ننھے پتلے، پیارے پیارے پتلے، بدلے ہوئے حالات نے بدلے ہوئے مزاج پیدا کر دیے۔
پتلوں میں روح تو اسی وقت پھنک گئی تھی جب پتلے اٹھ بیٹھے تھے اور اس لمبے سفر کی لغزش و افتاد اور مقابلہ و تعاون نے پتلوں کی روحوں کو اور بالیدہ و پیچیدہ بنا دیا۔ روح کے ہر پیچ میں نت نئے تجربوں کے عکس مرتسم ہوتے جاتے تھے اور ان سے روحوں کی تہہ داری بڑھتی جاتی تھی۔ نئے تجربوں کی آزادی نے پتلوں میں بڑا اپنا پن پیدا کر دیا۔ ہر پتلا ایک فرد بن گیا۔ پہلے وہ محض ایک وجود تھا۔ پتلوں سے جب جوڑے بنے اور ان جوڑوں سے جب خاندا ن پیدا ہوئے تو پتلوں کی انفرادیت اور بڑھ گئی۔ ان کے وجدان و ذوق کی یگ گونہ یکسانیت کے باوجود ان کے احساسات و جذبات کے محور بدل گئے۔ ان کے ارادوں اور عزائم کی منزلیں بدل گئیں۔ ان کے تخیل اور فکر کی سمتیں نیرنگ ساماں ہوگئیں اور جب منفرد پتلوں کے دماغ بیکراں تجربوں کی بجلی سے بھر گئے تو بولی پیدا ہوئی۔ ایک معجزہ ظاہر ہوا۔ یہ پتلے، یہ افراد، فرد فرد ہوتے ہوئے بھی خاندانوں، ٹولوں، جتھوں، قبیلوں اور جماعتوں میں منظم ہوتے رہے۔ بولیاں زبانیں بن گئیں۔ پتلوں نے خوش ہو کر اپنے اور ماحول کی ہر شئے کے نام رکھ لئے۔ ان کے دل ہلکے ہوئے اور دماغ پرواز کرنے لگے۔ خواب کے پتلے ایک نئے عالم اظہار میں داخل ہو گئے۔ حیرت فزا، طلسمی عالم در عالم۔ لب اور زبان رکھنے والے بھی گونگے ہوتے ہیں اور کان والے بھی بہرے۔ ایسے گونگے کہانی نہیں کہتے۔ ایسے بہرے کہانی نہیں سنتے مگر پتلے بولنے لگے۔ مفہوم و معنی پیدا ہوئے۔ افکار پیکر الفاظ میں ڈھل گئے۔ یہ نہ ہوتا تو آپ یہ کہانی نہ سن پاتے۔ لفظ قوت ہے۔ بیان الوہیت ہے۔ برہما نے اپنے سپنے کی مالا پہن لی۔ مالا کا ہر موتی ایک شبد تھا۔ موتیوں کے ہارے سے کتھائیں بن گئیں۔ دیو مالا کی چمتکار، سپنوں کا بولتا ہوا سنسار!
خدا کے خواب کا اور نہ چھور۔ وہ خود ازلی اور ابدی۔ اس کے خواب پر بھی ازل و ابد کا پرتو۔ حق و حقیقت ایک ہے۔ خواب اور تعبیریں ان گنت۔ برہما کے سپنے کے ایک بندو کی کہانی ہے۔ بندو ایک عظیم دائرہ بن گیا۔ دائرہ ایک سنسار۔ دائرہ کے پتلوں نے سنسار کے کونے کونے کے نام رکھ دیے۔ ہر کونے کے، ہر نقش کے نام رکھ دیے۔ ذرے ذرے نا م دار ہو گئے۔ چھن چھن تابدار ہو گئے۔ خواب کے پتلوں نے اپنی ایک کائنات گھیر لی۔ سورج، چاند اور تاروں سے اسے سجایا، شمع بنایا، زمانہ کو ڈور میں باندھا۔ پتلوں کا کارواں چاند تاروں کے ساتھ، مہر و مہ پاروں کے ساتھ زمان و مکان میں سفر کرتا ہی گیا۔
بندو ناچتا رہا۔ بندو پر پتلے ناچتے رہے۔ ساری کائنات ناچتی رہی۔ پتلوں نے بند و پر بہتیری کہانیوں کے چتر بنائے۔ پھر ان انسانوں کو جیتا جاگتا بنا دیا۔ پتلوں نے بہت بہروپ بدلے۔ بہت سے منچ سجائے، بہت سے ناٹک کھیلے۔ ہر پتلے کا اپنا اپنا کام اور کام کے بھی نام رکھے گئے۔ کوئی بھلا کام، کوئی برا کام۔ پتلوں میں اچھے بروں کی تمیز ابھری۔ نیک و بد، خوب صورت اور بد صورت کا امتیاز پیدا ہوا۔ محبت و نفرت نے بڑی پیچ دار شکلیں اختیار کیں۔ پتلوں کے وجود میں گتھیاں پڑیں۔ گر ہیں ابھریں۔ انفرادیت شخصیت بن گئی۔ پتلوں کے روپ انوپ تو تھے ہی، اب ان کی شخصیتیں انیلی انیلی، نرالی نرالی ہو گئیں اور اب پتلے سوچتے سوچتے نئے سنساروں کے سپنے بھی دیکھنے لگے۔ خواب در خواب! وہ عظیم خواب ان اجزائے خواب یعنی پتلوں کو حقیقت ہی معلوم ہونے لگا۔ خود ان کے دماغ میں ان گنت ننھے ننھے سپنے جنم لینے لگے اور حقیقت کا روپ دھارنے لگے۔ سماجیں بنیں۔ تمدن رچے گئے۔ تہذیبیں سانس لینے لگیں۔ پل پل کی تاریخ بن گئی اور تاریخ چھل چھبیلی۔
ہمالہ نے برف آلود ٹھنڈے کہرے سے جھانک کر دیکھا سندھو لہرا رہا تھا، برہم پترا بل پہ بل کھا رہا تھا۔ گنگا، جمنا، نربدا، تاپتی، کرشنا اور کاویری تھرک رہی تھیں، ناچ رہی تھیں۔ و ندھیا اور سپتور ا ہمک رہے تھے۔ سندر بن گار ہا تھا۔ نلگری منجیر ا بجار ہا تھا اور نیلے سمندروں میں نہائے ہوئے بادل مستی میں اپنی لٹ بکھرائے ڈھول بجا رہے تھے۔ اس سنگیت سبھا کو ہمالہ نے اپنا سن سفید سر اور پُر شکن پیشانی جھکا کر دیکھا۔ اس نے دیکھا پورب، دکھن کے ٹاپوؤں سے چوڑی ناک، چوڑے جبڑے اور چوڑے چہرے والے پتلے ایراودی اور برہمپتر اکے ساتھ ناچتے گاتے ہوئے اس کی شرن میں آ گئے۔ ان کا رنگ تا نبا جیسا تھا۔ پھر پچھم دیس سے کالے کا لے، پتلے، ابھرے ناک نقشے والے پتلے رقص کرتے، دھومیں مچاتے آئے اور اس کے دامن سے لے کر نلگری اور نیلے سمندر تک چھا گئے۔
لوہے جیسے پتلے اور تانبے جیسے پتلے آپس میں ٹکرائے۔ اس ٹکر سے آگ پیدا ہوئی، شعلے بلند ہوئے اور پھر مجسم ہو کرنا چنے گانے لگے۔ اپنی سنگیت سے سمے کو راگ کے تاروں میں باندھنے اور تاریخ کے گھروندے بنانے لگے۔ مہنجوداڑو اور ہڑ پا جیسے بہتیرے گھروندے بنا ڈالے۔ ہمالہ نے سر اٹھا کر دیکھا پچھم سے اور پتلے آئے تیر کما ن سنبھالے ہوئے، گھوڑوں پر سوار، طوفان کی طرح آئے، بادل کی طرح گرجے، بجلی کی طرح کوندے۔ کالے، مٹیالے اور بھورے پتلوں پر ٹوٹ پڑے۔ اسی سمے پورب اتر سے بھی حملہ ہوا۔ چپٹی ناک، چھوٹی آنکھوں اور پیتل جیسے رنگوں والے پتلوں نے بارہ سنگھوں اور ٹٹووں پر سوار ہو کر دھاوا کیا۔ سندھو میں سیلاب آیا۔ برہم پترامیں طوفان۔ گورے اور پیلے نے کالے پتلوں کو زنجیروں میں جکڑ دیا۔
گورے پتلوں میں ایک بہت ہی جیالا پتلا تھا۔ اس کا نام اندر تھا۔ وہ بڑا پھرتیلا اور چونچال تھا۔ سیر و شکار میں اسے بڑا لطف آتا تھا۔ کالے پتلوں کا جیتا جیتا خون بہا کر اسے سرور حاصل ہوتا۔ آگ کے شعلوں کے سامنے برق رفتار گھوڑے کی قربانی اور گائے کے جوان بچھڑوں کے تھرکتے ہوئے لوتھڑوں کا بھننا اندر کو مرغوب تھا۔ خون اور گوشت کی بوسے اس کے نتھنے پھڑکنے لگتے تھے۔ اس نے گورے پتلوں کو بہت بڑے جتھے میں منظم کیا اور کالے پتلوں اور ان کے کھلونوں کا شکار کھیلنے کھڑا ہوا۔ وہ کالے پتلوں کو نیست و نابود کر دینا چاہتا تھا۔ وہ ہمالہ اور وندھیاچل کی ترائیوں میں کالوں کو اپنے خون آشام تیر وں کا نشانہ بناتا رہا اور اس نے اپنی اولاد کو بھی یہی وصیت کی، مگر کالے پتلے ان گنت تھے گوروں سے۔
بہت زیادہ صدیاں بیت گئیں مگر گوروں اور کالوں کی جنگ ختم نہ ہوئی۔ آخرش ایک بڑا گیانی گورا پتلا آگے آیا۔ اس کے ہاتھ میں نہ تیر تھے نہ تلوار تھی۔ اس نے قانون بنائے، ودھان پیش کیا۔ اس گیانی کا نام منو تھا۔ اس سے پہلے پانینی اور پاتنجلی بھی بڑے گیانی گذرے تھے لیکن انھوں نے شبدوں کے موتی بیندھے تھے، ان کے مالا گوندھی تھی۔ شبد بڑے شکتی وان تھے۔ انھیں دونوں گیانیوں نے و دیا اور ویا کرن کی زنجیر میں باندھ دیا، مگر منونے کالے پتلوں کے دل چھید دیے اور ان کے ذہنوں، خیالوں، ارمانوں اور امنگوں کو قانون کی کڑی زنجیروں میں جکڑ کر رکھ دیا۔ منو کا بان اندر کے تیر سے زیادہ مہلک اور جاں سوز نکلا۔ کالے پتلے روندے گئے، کچلے گئے، مٹی میں ملائے گئے۔
جیتے رہے مگر مقابلہ کے میدان سے بھاگ گئے۔ منو کا جادو چل گیا اور کالے پتلے گورے پتلوں کے داس بن کر کراہتے رہے۔ منو نے کہا، کالے اسی قابل ہیں۔ پہلے جنم کے پاپ کا پھل بھوگ رہے ہیں۔ کرموں کا پھل۔ شودر کو سیوا۔ برہمن کو گیان اور دھرتی کا نپتی، رہی جمنا روتی رہی، گنگا آنسو بہاتی رہی۔ پھر سپنے کے ایک دوسرے سنسار سے مدھر بانسری کی لے ابھری۔ ہوا یہ کہ بر ہما اپنے خواب کے اس بھیانک حصہ سے گھبرا اٹھا۔ اس نے ایک کالے کنھیا کو اتنی شکتی دے دی کہ وہ اپنے نغمہ کی آنچ سے سخت دلوں کو گداز بنادے اور کالوں کا درجہ گوروں کے برابر کر دے۔ ’’برائی سے لڑو خواہ تمہارا مخالف کالا ہو یا گورا۔ حق و صداقت کے سوا سب کچھ ہیچ ہے۔‘‘ شیام مرلی والے کی لے پر روح کی رادھائیں ناچیں، گوپال کے ساتھ گوپیاں رقص کرتی رہیں، پاپ مٹتا رہا، جمنا آنند سے بہتی رہی۔
مگر ہائے برہما کا خواب! بھگوان ہمیشہ بے چین ہی رہا جب سے پتلوں میں جان آئی۔ برہما کی نیند زیادہ تر کا بوس ہی بنی رہی۔ کون جانے اس خواب کا انت کیا ہے، بھید کیا ہے اور پھر ایسا ہوا کہ اندھیرے نے اجالے کو شکست دے دی۔ ہمالہ نے دیکھا چَواُور گھٹا ٹوپ پاپ ہی پاپ تھا۔ نیکی ضمیروں میں روپوش تھی۔ راون کا راج تھا۔ دس سروں والا نہایت ہی عقل مند برہمن دانشور۔ دس گنابدھی مان، بیس ہاتھوں والا طاقتور پہلوان۔ عاقل مگر ظالم، دانا لیکن دنتی، سیتائیں دکھی تھیں۔ کالے پتلے جنگلوں اور پہاڑوں میں چھپے ہوئے تھے۔ ان جیسے اور پتلے غلام بنالئے گئے تھے۔ سیتا کے آنسوؤں نے رگھوبنس کے سپوتوں کو غیرت دلائی۔ رام جہاد کے لئے نکلے۔ برہمن کے خلاف یدھ کرنے۔ کالے پتلوں نے ان کی مدد کی۔ کالے پتلے مہابیر تھے۔ ان کے دل اجلے تھے۔ رام کی نگاہ نے انھیں اور اجلا بنا دیا۔
راون، پاپی برہمن اور اس کا سارا پاپ نذر آتش کر دیا گیا۔ نیکی ضمیروں کی پناہ گاہ سے نکل آئی اور میدان عمل میں چھا گئی۔ ہمالہ نے سنا راجہ رام کی جے! مہابیر کی جے! رام راج کی جے! اور پھر ایک بار اندھکار چھا گیا۔ سپنے کے اندھیرے اجالے! تار حریر دو رنگ! اور یہ ہوا کہ لوگوں نے سونے کے بت بنائے اور سونے کو ہی دیوتا بنا لیا۔ پتلوں کی ر و حیں سونے سے مڑھ دی گئیں۔ پریم کے سوتے سوکھ گئے۔ سونے میں جکڑی ہوئی روحوں کو عیش و عشرت کے دیوتا کے سامنے سجدے کرنے پڑے۔ ہر طرف ظلم تھا، ہر سولوٹ کھسوٹ۔ روحیں سونے کی قید میں گھٹتی رہیں اور بدن موٹے ہوتے رہے۔ موٹے پتلوں نے دبلے پتلوں کو کھانا شروع کیا اور خوب موٹے ہوتے رہے۔ اچانک ہمالہ کی ایک وادی میں سونے سے مڑھی ہوئی ایک روح مضطرب ہو اٹھی۔ روح کی آنچ سے سونا پگھلنے لگا۔ سنہرے خول کی پرتیں گرنے لگیں۔ روح آزاد ہو گئی۔ اس مہاآتما نے طلائی زنجیروں کو کاٹا اور زریں دیواروں کو ڈھا دیا۔
عظیم روح نے خواب کے پردوں کو اٹھا کر ماورائے خواب دیکھا۔ جہاں دکھ نہ تھے، بڑھا پا نہ تھا، موت نہ تھی، جہاں زندگی کا خواب نہ تھا، عدم کی حقیقت تھی، یزدان تھا، سچیتا نند تھا۔ لیکن جب عظیم روح اس سراپا بدھ پتلے کو چھوڑ کر چلی گئی تو لوگوں نےرفتہ رفتہ خواب کی حقیقت کو بھلا دیا اور غفلت کے گھٹا ٹوپ اندھیرے صدیوں چھائے رہے۔ لمحہ کو ابد سمجھا گیا اور اس کج فہمی کے نتیجہ میں ظلم اور خون آشامی ہر طرف پھیل گئی اور ہمالہ نئی صبح کے پر کاش کے انتظار میں کھڑا رہا۔ ساکت، جامد، چشم براہ!
الوہی خواب کے دھوپ چھاؤں کی ایک اور کہانی سنئے۔ یہ قصہ در قصہ ہے، قصوں کے لچھے۔ خواب کی کہانی مربوط نہیں ہوتی۔ خواب منظم نہیں ہوتے۔ خواب ناک زندگی میں تنظیم و ربط نہیں، تراشیدگی نہیں، تعمیری ہم آہنگی نہیں، بس موج در موج کہانیاں ہی کہانیاں، ازل و ابد کی مرتعش لہریں، نشیب و فراز، رات اور دن، زوال و عروج، موت و حیات! ہمالہ نے اپنے عقب میں جھانک کر دیکھا۔ لق و دق کوہستان، صحرا، ریگستان، میدان و سبزہ زار، کاہستان و کشت زار، برفستانوں تک پھیلے ہوئے تھے۔ سین و طاسین کی دنیا، غدار دنیا۔ ہمالہ کو سکتہ سالگ گیا۔ صرف ناک کی سیدھ میں دیکھنا کتنا پر فریب ہوتا ہے۔ ہمالہ نے سمجھا کہ وہ تو صرف ایک بلند مینار مشاہدہ ہے۔ عالم مشہود چاروں طرف پھیلا ہوا ہے۔ وہ عالم کتنے جاہل تھے، جنھوں نے گنگ و جمن سے آگے نہیں دیکھا اور کنویں کو سمندر سمجھ لیا۔ برہما کا خواب جہانگیر ہی نہیں، کائنات گیر ہے اور کائناتیں ان گنت ہیں۔۔۔ ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں۔
ہمالہ نے دیکھا کہ عالم شمالی بھی پتلوں سے بھرا ہوا ہے۔ زرد پتلے اور سرخ وسفید پتلے، ڈھال کی طرح چپٹے چہروں والے پتلے اور تلوار کی طرح تراشیدہ اور کٹیلے پتلے۔ اتری دیش میں بھی رست خیز اور لغزش و افتاد کے ہنگامے برپا تھے، وہاں بھی شائستہ و ناشائستہ کی جنگیں تھیں، وہاں بھی خون بہتے تھے مگر وہاں بھی کوئی ذو القرنین امن و سلامتی کے لئے مضبوط ظاہری و باطنی سد بناتا تھا۔ ہمالہ نے دیوار چین کو مڑ کر دیکھا اور اسے اپنی اہمیت کا اندازہ ہوا۔ ہمالہ نے تاد اور کنفیو شس کے نغمے بھی سنے اور اس نے محسوس کیا کہ کرشن کی بانسری ہر جگہ بجتی ہے۔ رام راکشش سے ہر جگہ لڑتا ہے۔
چین کے پیلے پتلے شہد کی مکھیوں سے زیادہ محنتی اور ذہین نکلے۔ انھوں نے نئی نئی ایجادیں کیں اور تہذیب و تمدن کو کاغذ کی ایجاد سے پر لگا دیے۔ ہمالہ نے دیکھا چینی تہذیب پورب، پچھم، اتر، دکھن تمام پھیل گئی۔ اس سے سورج کے گھر، پور بی ٹاپو، جاپان میں بھی اجالا ہوا اور پچھمی کالا ساگر تک سبھی دیش روشن ہوئے۔ منچو اور منگول بھی شائستہ ہونے لگے، روس کو بھی فیض پہنچا، ایران و توران کے علاوہ ہندوستان نے بھی حکمت چین سے گیان سیکھا۔ گیان اور عرفان! برہما کے سپنوں کے گورکھ دھندے! حسن کی خودبینی! نقاب کے اندر اپنی آئینہ داری آپ! سپنے کے حجاب! کبھی اپنے آپ سے بھی چھپ کر آرائش جمال کے لئے دزدیدہ نگاہی! اور چین نے بھی ہند سے گیان سیکھا۔ چین کا دل بھی بڑا ہے اور دماغ بھی۔ عظیم چین نے بودھ کے پرکاش کو اپنے سینہ میں سمیٹ لیا اور اس کے ایک خاقان نے ملک کی سرحدوں سے باہر جھانکا اور دیکھا کہ برہما کے خواب کی پہنائی زمان و مکان کی حد بندیوں سے آگے ہے۔ چین کے آگے بھی ایک بڑا چین ہے، ’طاسین‘ یعنی عالم غرب میں رومۃ الکبریٰ کی عظیم قیصریت۔
ہمالہ دنیا کا بلند ترین مینار مشاہدہ۔ ہمالہ نے چین اور روما کی شہنشاہیتوں سے پہلے بھی حیرت خانہ ہستی کو دیکھا تھا۔ اس نے بابل و مصر کی سحر سامانیوں کا مشاہدہ بھی کیا تھا۔ اس نے دیکھا تھا کہ برہما کے خواب کے کئی پتلے اتنا پھولے اتنا پھولے کہ انھوں نے اپنے آپ کو ساری کائنات سمجھ لیا۔ اتنا سرا ٹھایا کہ بساطِ خواب و خیال پر نقش فنا ہونے کے باوجود خود کو برہما ہی سمجھ بیٹھے۔ نمرود و فراعنہ برہما تو خود سندرتا ہے، روشنی ہے، حسنِ کامل ہے اور حمد کامل کا مستحق۔ وہ خود معیار حسن وحمد ہے لیکن اس کے خواب کے پتلے عجیب و غریب ہیں۔ نفسی پیچیدگیوں میں مبتلا وہ ذہنی گتھیاں سلجھاتے، جذباتی عقدے حل کرتے اور احساسات و حواس کی گر ہیں کھولتے رہتے ہیں۔ وہ خود مخلوقات خواب ہیں اور تعبیر خواب ہیں۔ مشغول بھی۔ کہانیاں اسی طرح پیدا ہوتی ہیں۔ علوم و فنون اسی ڈھنگ سے جنم لیتے ہیں۔
ہمالہ نے دیکھا ، نمرود محض نفسِ امارہ کی ایک سرکش لہر تھا اور ابراہیم نفس مطمئنہ کا مظہر، برہما کا اوتار۔ ابراہیم نے دجلہ و فرات کی وادی میں ابھرنے والے پتلوں کے نفس لو امہ کو بیدار کر کے انھیں آزادی اور جنگ کی راہ دکھانی چاہی۔ ابراہیم بہت ہی پیارا، بہت پیار کرنے والا، نہایت مخلص، بڑا ذہین اور مستقل مزاج تھا۔ ابراہیم کی چار کتھائیں، وہ سندر تا اور سچائی کا کھوجی تھا، اس کے دیس والے چاند تاروں اور سورج کی پوجا کرتے تھے مگر اس کی نظر ستاروں سے آگے دیکھتی تھی۔ آئینہ کو نہیں، محبوب کو دیکھتی تھی۔ ٹمٹماتے ہوئے تاروں نے اسے اشارے کئے۔ وہ پیارے پیارے، اونچے اور چمکیلے تھے۔ ابراہیم نے محسوس کیا کہ یہ بہتوں کا دل موہ لیں گے۔ مگر اس کی ذہانت نے پایا کہ ان کی روشنی کامل نہیں۔ چاند نے جب اپنی جوت جگائی تو تارے ماند پڑ گئے، چاندنی کا جادو چل گیا۔ ابراہیم کے ذہن نے سوچا کہ یہ بھی حسن سر راہ گذر کا فریب ہے اور حسین فریب چل جاتے ہیں۔
ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ اسی دمکتے ہوئے چاند کو لوگ حقیقت منتظر سمجھ بیٹھیں۔ لیکن چاند کی چاندنی بھی ماند پڑ گئیں اور اس کی تنک تابی نے مہر درخشاں کا پیام دیا۔ آفتاب نکلا اور با آب و تاب نکلا۔ اس کی جہاں تابی خیرہ کن تھی۔ حرارت و حیات کا منبع سورج۔ ابراہیم کے فکرنے پرواز کی۔ اسے خیال آیا کہ نارسا ذہن چڑھتے ہوئے سورج کے سامنے سیس نوائیں گے۔ اس نے سوچا کہ شکر ہے سورج ڈوبتا بھی ہے، وہ حاظر و ناظر نہیں، وہ مجبور زوال ہے، وہ سر چشمۂ قوت و حیات کس طرح ہو سکتا ہے؟ ابراہیم کے ذہن رسا، فکر بلند اور نگاہ دور بیں نے نورالانوار کو حجابات نور کے اندر دیکھ لیا اور اس کی روح رب العالمین کے سامنے سجدہ ریز ہو گئی۔
ابراہیمؑ ایک دانشور تھا۔ وہ ذوق سلیم اور مذاق لطیف رکھنے والا بھی تھا۔ اس کی حکیمانہ باتوں میں مزاح و طنز کا عنصر پایا جاتا تھا۔ اس کا گھر صنم سازوں کا خانوادہ تھا۔ اس نے مکری کے دیوتا دیکھے اور ہنس پڑا۔ ایک دن اس نے چند چھوٹے بتوں کو توڑ پھوڑ دیا۔ دیوتا کی دوکان میں خلفشا ر مچا، دیوتا کو کس نے توڑا؟ ابراہیم خاموش تھا۔ لوگوں نے کہا، اسی نے بت شکنی کی ہوگی، اس کے ایسے لچھن ہیں۔ گھر کے بزرگوں نے ڈانٹ کر پوچھا۔ ابراہیم نے بن کر جواب دیا ، بڑے بت سے پوچھ لو، اسی دیوتا نے چھوٹے دیوتاؤں کو بھسم کر دیا ہوگا۔ سب لا جواب ہوگئے۔ گونگے اور بےبس۔ دیو تاؤں کی کثرت کتنی مضحکہ خیز چیز ہے! پہلے ابراہیم کا دماغ جاگا اور پھر اس کا دل بیدار ہوا اور تیسری کتھا میں اس کے ہر دے کی جاگ کی کہانی ہے اور ابراہیم نے اطمینا ن قلب حاصل کرنا چاہا۔ وہ حیات و موت کے راز جانتا تھا۔ وہ ابدی زندگی کی فکری حقیقت سے واقف تھا لیکن حقائق جب تک واردات نہ بن جائیں، بےجان رہتے ہیں۔ ابراہیم کی آتما نے برہما سے پوچھا، ہے برہما! تونے سرشٹی کو رچا، تو خالقِ اکبر ہے، بتا موت کے بعد تو کس طرح زندگی نو عطا فرمائےگا؟ برہما نے جواب دیا ، میں پرماتما ہوں، آتماؤں اور پرماتما کے درمیان پریم کا سمبندھ ہے۔
پریم کی ڈور میں بندھی ہوئی ساری روحیں میری طرف کھنچی آئیں گی اور مجھ میں حیات ِتازہ پائیں گی۔ ابراہیم کو حکم ہوا کہ وہ چند پرندے پالے، انھیں کھلائے پلائے، سدھائے اور ان سے پیار کرے۔ جب پرندے اس سے ہل مل گئے تو حکم تو اکہ انھیں دور پہاڑوں پر چرنے چگنے کے لئے چھوڑ آؤ۔ ابراہیم نے ایسا ہی کیا۔ پھر حکم ہوا کہ انھیں چمکار کر آواز دو۔ پرندے بیتا بانہ اس کی آواز سن کر دوڑ ے ہوئے آئے اور ابراہیم کے دل کی کھڑکیاں کھل گئیں۔ اس کے ہر دے میں یہ بات گھر کر گئی کہ اس دنیا میں مردہ روحیں محبت سے ہی نئی زندگی پا سکتی ہیں اور اس عالم میں بھی یہی محبت کی بجلی انھیں جی اٹھنے کے قابل بنا دےگی۔ عشق حیات عالم ہے۔ محبت روحِ کائنات ہے اور ابراہیم کی چوتھی کتھا شروع ہوتی ہے۔ ابراہیم حنیف کا دل گہوارۂ محبت بن گیا تھا، مگر ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں۔ علم بھی آگ ہے اور جہالت بھی آگ، محبت بھی آگ ہے اور نفرت بھی آگ۔ علم اور عشق آتش روشن ہیں اور جہل و نفرت آتش تاریک۔ آگ آگ کو جلا نہیں سکتی مگر روشن آگ تاریک آگ کی ظلمتوں کو دور کر سکتی ہے۔ ابراہیم کے دل میں شعلۂ عشق بھڑک رہا تھا۔ جاہلوں نے اسے اپنی مخالفت اور نفرت کی سیاہ آگ میں جلانا چاہا مگر ابراہیم کو یہ کالی ناگن ڈس نہ سکی۔ آگ ٹھنڈی ہو گئی اور ابراہیم کے لئے سلامتی ہی سلامتی تھی۔ محبت سلامتی ہے! محبت امن ہے! محبت حیات ہے!
ہر گز نہ میرد آنکہ دِلش زندہ شدبہ عشق
شبت است بر جریدۂ عالم دوام ما
اور ہمالہ نے دیکھا! نسل ابراہیمی نیل کے ساحل سے لے کرتا بہ فرات پھیل گئی اور پھیلتی ہی چلی گئی۔
آلِ ابراہیم۔۔۔؟ جیسے سمندر کی لہریں۔۔۔۔!
آل ابراہیم۔۔۔؟ جیسے ریگستان کے ذرے۔۔۔!
آلِ ابراہیم۔۔۔؟ جیسے آکاش کے تارے۔۔۔!
اور ہمالہ نے دیکھا، ابراہیم کی مشعل جلتی ہی رہی، اندھیرے شکست کھاتے ہی رہے، محبت مردوں کو زندہ کرتی ہی رہی۔ ابراہیم کی محبت یوسف کے حسن میں چمکی اور اس نے مِصر کو نظام دیا۔ ابراہیم کا عشق موسیٰ کے ید بیضا میں تاباں ہوا اور اہرام سجدہ ریز ہو گئے۔ ابو الہول سکتہ میں آ گیا۔ مصر کے پتلے ابدیت کی تلاش میں، اپنی لاشوں کو حنوط شدہ بناتے رہے لیکن ان کی رو حیں اہرام کے ظالمانہ بوجھ تلے سسکتی ہی رہیں۔ موسیٰ نے کہا حیات اہرام مصری میں نہیں، زندگی سحر سامری میں نہیں، ضرب عشق میں ہے، عمل پیہم میں ہے۔ موسیٰ نے حسن کی آگ کو سر طور روشن دیکھا اور اس کے جلووں سے اپنے دل کو معمور کر لیا۔ اس نے اسی آگ سے ایک مردہ قوم کو زندہ کر دیا اور اہرام مصر کی بلند یاں غرق نیل ہو گئیں اور ہمالہ نے دیکھا، ابدیت حنوط شدہ لاشوں میں نہیں، سقراط کے زہر پینے میں ہے۔ حسن صداقت ہے، محبت حقیقت ہے۔
محبت نہ آگ میں جلتی ہے، نہ زہر سے مرتی ہے۔ محبت، حسن اور صداقت ابدی ہیں۔ خواب کے پتلے فانی ہیں۔ حقیقت اور ابدیت ماورائے خواب ہیں۔ یہ تو عشق کی جرأت رندانہ ہے جو سارے پردے اٹھا کر، برہما کے خواب میں رخنے ڈال کر، ماور ائے خواب ابدیت کو جھانک کر دیکھ لیتی ہے۔ ابراہیم، موسیٰ، سقراط، کرشن، رام اور بودھ نے برہما کے خواب کے گورکھ دھندے سے آگے برہما کے ہردے کو دیکھ لیا اور وہیں ابدیت تھی، حسن تھا، عشق تھا مگر ابھی برہما کے خواب کا ارتفاع باقی تھا۔ وہ دور بھی آیا جب خواب کے ایک پتلے نے برہما کے دل میں جگہ پا لی۔ آہ برہما کے خواب کی پر پیچ راہیں! اس مقامِ معراج کے پہلے بھی صلیب اور بعد بھی صلیب۔ خواب کے پتلوں کا راستہ پر خارو پرخوں ہے۔ برہما خود تو کامل ہے لیکن وہ ناتمامی کے خواب دیکھتا رہتا ہے اور داغ و درد نا تمامی کو مٹانے کے لئے آرزو مندانہ طور پر سعی پیہم بھی کرتا رہتا ہے۔
وہ فانی پتلوں کی بندگی کے درد جگر کا درماں بھی پیدا کرتا ہے اور کبھی درد لا دوا بھی بخشتا ہے۔ وہ خواب وجود میں اہرمن آفرینی کرتا ہے اور پھر اہرمن شکاری بھی۔ غالب و قادر ہونے کا احساس و اظہار اسی طرح ہوتا ہے۔ ناکامل کو کامل بنانے اور شیطان کو شکست دینے میں اسے لذت ملتی ہے۔ مگر حقیقیت تو صرف یزداں کی ہے۔ حسرتیں تو اس کی خواب میں ہی پوری ہوتی ہیں۔ آرزو مندانہ خواب! جاگتے ہوئے تو اسے شعور کمال اور کمال شعور حاصل ہوتا ہے۔ یزداں اپنے اوپر خواب طاری کرتا ہے۔ وہ روزہ رکھ لیتا ہے تاکہ افطار کرکےاپنی قدرت کاملہ کا ایک نئے پہلو سے اظہار کرے۔ خواب میں اس کی حسرتیں جاگتی اور پوری ہوتی ہیں۔ وہ پتلوں کی تکمیل کے لئے کڑھتا ہےاور کس حسرت سے کہتا ہے، تم اپنے رب کی نعمتوں میں سے کس کس کا انکار کروگے؟ بیداری میں برہما ماورائے حسرت و ارمان ہے۔ احد ہے، صمد ہے۔ اس کے جلوہ احدیت کی کسے تاب ہے! نہ کائنات کو، نہ فطرت کو، نہ حیات کو۔۔۔! اور ہمالہ نے دیکھا، موسی نے غلام بنی اسرائیل کو ظالم فرعونوں کے پنجہ سے نجات دلائی۔
سمندر شق ہوا اور موسی کی بھیڑیں سلامت نکل گئیں۔ مگر فرعون اور اس کے لشکر کو بحر احمر نے نگل لیا۔ موسی صحراؤں میں تعمیر ملت کرتا رہا اور یونانی، رومی، مصری، عاشوری، بابلی، کلدانی، میدی اور ایرانی دست قدرت کی عجوبہ کاریاں حیرت سے دیکھتے رہے اورموسی نے کہا، قیدار کے خیموں میں بھی زندگی دوڑےگی، صحرائے عرب میں بھی قیامت آئےگی اور میرے بھائیوں میں سے خدا مجھ سا ایک نبی پیدا کرےگا۔ خدا فاران سے طلوع ہوا اور شعیر پر چمکا۔ وہ دس ہزار قدسیوں کے ساتھ آیا اور ایک آتشیں شریعت لایا۔ اور موسی کے دوسرے خلیفہ یوشع بن نون کو یہودا نے ارض موعود عطا کر دیا۔ کیونکہ وہ اسرائیل اور ابراہیم کا خدا تھا۔ اس کے حمد میں داؤد نے نغمے گائے۔
زمین رب العزت کی ہے اور جو کچھ اس کے اندر ہے، اسی کا ہے۔ ساری دنیا اور اس کے تمام باشندے اسی کے ہیں۔۔۔ اے پھاٹکو! کھل جاؤ۔ اور اے ابدی دروازو! وا ہو جاؤ۔ وہ صاحب جلال و جبروت بادشاہ آ رہا ہے۔ یہ ملک ذوالجلال کون ہے؟ رب العزت، قوی و عزیز جنگ میں غالب، رب الافواج!
اور داؤدؑ کے بیٹے سلیمان نے میراث داؤد کو مستحکم بنایا اور یروشلم میں ہیکل تعمیر کیا۔ اس نے حسنِ منتظر محبوب خدا کو کشف میں دیکھا اور اس کی نعت میں نغمۂ نغمات پیش کیا۔
میرے محبوب! تو سراپا حسن ہے، بےداغ! ایک محفوظ باغ‘ ایک مستور چشمۂ صفائی، ایک مختوم فوارہ!
میرا محبوب سرخ و سفید ہے۔ وہ دس ہزار اصحاب کے درمیان سر بلند ہے۔ اس کے لب و دہن شیریں ہیں۔ محمد یم، سراپا حسن و توصیف! یہی میرا محبوب ہے، یہی میرا دوست ہے اے یروشلم کے بیٹو!
اور پھر خطا کاروں اور فاسقوں نے یروشلم کے تقدس کو اپنے گھناؤ نے اعمال سے گرد آلود کر دیا۔ ارض موعود، نبیوں کی پاک سر زمین ٹکڑے ٹکڑے ہوئی۔ یروشلم کا دودھ خشک ہو گیا۔ یہودا کے باغہائے زیتون و نارنج ویران ہوگئے۔ صہیون کی پہاڑیاں سخت اور چٹیل ہوگئیں۔ اور اسرائیل اغیار کے قدموں تلے روندا گیا۔
یسیماہ نبی نے کشف میں دیکھا، بیل بھی اپنے مالک کو پہچانتا ہے اور گدھا بھی اپنے آقا کو جانتا ہے، مگر بنی اسرائیل نہیں شناخت کرتے۔ انھوں نے رب العالمین کو بھلا دیا اور اس کے غضب کو بھڑ کایا۔ یہودا نے اپنی محبوب قوم کو ایک انگوری باغ دیا اور اسے ثمرور بلندی پر قائم کیا۔ اسے دیواروں سے محفوظ بنایا گیا۔ اس میں اعلیٰ قسم کے انگور کی بیلیں لگائی گئیں اور نفیس انگوری شراب نچوڑنے کی بھٹی تعمیر کی گئی۔ توقع تھی کہ اس باغ میں اعلیٰ درجہ کے انگور پھلیں گے لیکن اس میں جنگلی کھٹے انگور لگنے لگے۔ آخر ش باغ سے حفاظت کی جھاڑیاں کاٹ دی گئیں اور چاردیواری کی دیواریں ڈھادی گئیں۔ جانوروں نے بیلیں چرلیں اور کیاریوں کو روند دیا۔ باغ ویران ہوگیا۔ اس میں خاردار جھاڑیاں اور کانٹے اگنے لگے۔ یہودانے بادلوں کو حکم دیا کہ اس باغ پر اب نہ برسیں۔
اور جانتے ہو رب الافواج کا انگوری باغ کیا تھا؟ خانوادۂ اسرائیل اور یہودا کے لوگ اس کے پودے تھے اور ان پودوں نے ناحق بغاوت کی، قانون کو توڑا، سبت کے دن کا احترام نہ کیا، توبہ کی اور پھر اسے فراموش کر دیا۔ یہاں تک کہ یہودا کا جلال ظاہر ہوا اور اس نے بنی اسرائیل کو عاشوریوں کا شکار بنا دیا۔ بے انصاف خاکی پتلوں کا انجام! محتاجوں کو رد کرنے والے، اور یتیموں کو لوٹنے والے عاشوری، خدا کے غضب کی لاٹھی، اس کی ناراضگی کا ڈنڈا! فتنہ عاشور سے بچے کھچے لوگ معارف کر دیے گئے، ان کی اصلاح ہو گئی اور ان میں منصف، ذہین، دور بین اور خدا ترس فرماں روا پیدا ہوئے۔ یہودا تعریف کا مستحق ہے۔ وہی نغمۂ مسرت ہے، وہی راہِ نجات ہے۔ عاشوری طاقت تو ڑ دی گئی مگر آلِ اسرائیل پھر بگڑ گئے۔
اے باب یر وشلم زاری کر! اے شہر رو! اے فلسطین تو برباد ہو گیا۔۔۔! کبھی عاشوریوں اور مصریوں میں جنگ ہوئی اور کبھی صلح۔ فلسطین مرکزی حیثیت سے پھلا پھولا اور پھر اپنی خطاؤں کی آگ میں آپ جل گیا۔
ہمالہ نے سنا، یسیماہ اور یر میاہ نے اسرائیل، یہودا اور صہیون کو نصیحتیں کیں۔ ان نبیوں نے یروشلم کو ڈرایا، مگر متکبر گردنیں نہیں جھکیں، سخت دل نہیں پگھلے۔ یہودانے کہا، پس میں اس سر زمین سے تمہیں نکال باہر کر دوں گا اور بیگانہ علاقوں میں تم غلامانہ زندگی بسر کروگے۔ مچھیر ے آئیں گے اور تمہیں پکڑلے جائیں گے۔ شکاری حملہ آور ہوں گے اور تمہیں نشانہ بنائیں گے۔ تمہیں کہیں پناہ نہیں ملےگی۔ میں نے زمین و آسمان بنائے ہیں۔ میں سارے آدمیوں اور تمام مخلوقات کا خالق ہوں۔ میں اپنی قدرتِ کا ملہ اور وسیع اختیارات کے تحت جسے چاہتا ہوں، زمین کا وارث بناتا ہوں اور اب میں نے ارض فلسطین اور بہت سارے ملک بخت نصر شاہ بابل کو عطا کر دیے۔ بادشاہوں اور قوموں کو اس کی اطاعت کرنی پڑےگی۔ آلِ اسرائیل اسیر کئے جائیں گے اور بابل کی غلامی کریں گے تا آنکہ ستر سالہ مدت پوری ہو جائےگی اور پھر میں ان کی رستگاری کی طرف متوجہ ہوں گا۔
اور ایسا ہی ہوا۔ یہودیوں کا بادشاہ صدیقیاہ اپنی تمام قوم کے ساتھ مفتوح اور اسیر ہوا اور پابہ زنجیر بابل کو لے جایا گیا۔ یہودا نے اخوت، مساوات اور آزادی کی تعلیم کو بھلایا۔ اپنے بھائی، اپنے ہمسایہ اور یہود ا کے کمزور، غریب و محتاج بندوں کا حق ادا نہ کیا۔ یہودا کا غضب بھڑکا اور اب اس نے تلوار، وبا اور قحط کو آزادی دے دی کہ وہ اسرائیل کی فربہ بھیڑوں کو تباہ و برباد کر دیں۔ بخت نصر نے ایک خواب دیکھا اور اسے بھول گیا۔ اس نے اپنے وزیر دانا کو بلایا اور حکم دیا کہ مملکت کے سارے کاہنوں، رمالوں، ساحروں، نجومیوں، فلسفیوں، مذہبی پیشواؤں اور عالموں کو بلاؤ/ اگر وہ بھولا ہوا خواب نہ یاد دلا سکیں اور اس کی تعبیر نہ سنائیں تو سب کے سر قلم کر دو۔ سلطنت بھر میں سنسنی اور خوف پھیل گیا۔
لوگ دانیال کے پاس آئے اور وحشت ناک خبر سنائی۔ دانیال بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے تعبیر خواب کے لئے وقت مانگا۔ سارے عقلا اپنے عجز کا اعلان اور اپنی بے بسی کا اقرار کر چکے تھے۔ بادشاہ نے دانیال کو مہلت دے دی۔ دانیال اپنے گھر واپس لوٹا اور اس نے اپنے ساتھیوں کو یہ ماجرا کہہ سنایا۔ ان سبھوں نے فیصلہ کیا کہ وہ خدائے ارض و سماکے آگے سجدہ ریز ہو کر دعائیں اور التجائیں کریں گے تاکہ وہ علیم و قدیر اس بھید سے انھیں آشنا کر دے اور ان سب کی جانیں بچ جائیں۔ آخر ش اللہ تعالیٰ نے دانیال پر اس راز کو منکشف کر دیا۔ اس نے خدائے بزرگ و برتر کی تحمید و توصیف کی اور اس کا شکر ادا کیا۔ پھر دانیال بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا، ’’اے شہنشاہ! جس بھید کا پتہ عقلا نہ پا سکے، اس بھید سے خداوند عرش نے مجھے آگاہ کر دیا ہے تاکہ میں عالی جاہ کے حضور خواب اور تعبیر خواب دونوں بیان کروں۔ وہی صاحب عروش و کرسی علام الغیوب ہے، وہی اپنے بندوں پر راز ہائے سربستہ کا انکشاف فرماتا ہے۔
اے شہنشاہ! حضور والا نے خواب میں ایک عظیم الجثہ مجسمہ دیکھا۔ یہ تاباں اور مہیب پیکر حضور کے سامنے استادہ نظر آیا۔ اس کا سر خالص سونے کا تھا۔ سینہ اور بازو چاندی کے تھے۔ پیٹ اور جانگھ پیتل کے۔ ٹانگیں لوہے کی اور پاؤں لوہا اور مٹی کے آمیزہ بنے تھے۔ حضور عالی اسے دیکھتے رہے تا آنکہ ایک پتھر بغیر کسی ہاتھ کی مدد کے پہاڑوں سے کاٹ کر علیحدہ کیا گیا اور بت کے پاؤں پردے مارا گیا۔ پاؤں چکنا چور ہوگئے پھر سارا بت ریزہ ریزہ کر دیا گیا اور بھس بنا کر اڑا دیا گیا، اور جس پتھر نے مجسمہ کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا تھا وہ بہت بڑا پہاڑ بن گیا اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ تمام روئے زمین پروہ پھیل گیا ہے۔
یہ تو جناب والا کا خواب ہوا اور اب میں اس کی تعبیر عرض کرتا ہوں، اے بادشاہ! آپ بادشاہوں کے بادشاہ ہیں۔ خدائے عرش نے حضور عالی کو سلطنت عظیم، اقتدار اعلیٰ اور قوت و جبروت کی نعمتیں بخشی ہیں۔ حضور اس شہنشاہیت عظمی کے فرق زریں ہیں۔ حضور عالی کے بعد اور حکومتیں ہوں گی جن کی مثل چاندی کی ہے۔ وہ حضور والا کی سلطنت سے فروتر ہوں گی۔ بعد ازاں تیسری حکومت پیتل کی مانند ہوگی۔ چوتھی لوہے کی طرح مضبوط ہوگی۔ دوسروں کو توڑےگی اور جب خود ٹوٹے گی تو اپنا ہاتھ آپ مجروح کرےگی، اور پایان کار پانچویں حکومت آئےگی۔ یہ بٹی ہوئی ہوگی، کچھ کمزور کچھ مضبوط۔ منظم و مر بوط نہ ہوگی۔ اس دور آخر میں غیب کا ہاتھ ایک نئی سلطنت کی بنیاد ڈالےگا اور اسے مستحکم و طاقتور بنائےگا۔ وہ ساری حکومتوں کا خاتمہ کرنے والی حکومت ہوگی اور زمانۂ دراز تک قائم رہےگی۔ خدائے ذو الجلال نے بادشاہ کو مستقبل کی خبر دی ہے اور حضور کو بتایا ہے کہ سلطنت بابل کا انجام کیا ہوگا۔ یہ سچے خواب کی سچی تعبیر ہے۔‘‘
بادشاہ نے اقرار کیا کہ اس نے یہی خواب دیکھا تھا اور کہا، بے شک تمہارا رب رب الارباب اور ملک الملوک ہے۔ وہ علام الغیوب اور کاشف الحقائق ہے۔ بخت نصر د انیال پر مہربان ہوا۔ اس نے خدا کے پیارے کی قدر کی تو خدانے اس پر رحم کیا۔ ایسا ہوا کہ اس سے سلطنت چھن گئی مگر خدائے غالب نے بخت نصرکو پھر تاج و تخت دلوا دیے اور دانیال نے ایک اور رویاء دیکھی۔
دانیال نے دیکھا کہ وہ دریائے اولائی کے کنارے پر ہے۔ سامنے ایک دو سینگوں والا مینڈ ھا کھڑا ہے۔ سینگ بہت بڑےبڑے ہیں لیکن ایک نسبتاً چھوٹا ہے۔ پہلے چھوٹا سینگ سامنے آتا ہے پھر بڑا سینگ۔ مینڈھا مغرب، شمال اور جنوب کی طرف سر مارتا ہے، کوئی جانور اس کے مقابلے کی تاب نہیں لاتا اور کسی کو اس سے نجات نہیں ملتی۔ وہ اپنی من مانی کرتا جاتا ہے اور بڑا بنتا جاتا ہے۔ اچانک ایک بکرا مغرب سے آ نکلا اور تمام روئے زمین پر چھا گیا۔ اس کی آنکھوں کے بیچ میں ایک بڑا سا سینگ نمایاں تھا۔ بکر امینڈھے پر غضب ناک ہو کر حملہ آور ہوا، اس نے مینڈھے کے دونوں سینگ توڑ دیے، اسے زمین پردے مارا اور پاؤں سے خوب روندا۔ بس بکرا بہت عظیم الشان بن گیا اور ابھی وہ طاقتور تھا ہی کہ اس کا سینگ ٹوٹ گیا۔ پھر چار اور سینگ نکل آئے۔
ان میں سے ایک سینگ کے اندر ایک اور چھوٹا سا سینگ پھوٹا اور بہت بڑا ہوتا گیا۔ یہ جنوب کی جانب، مشرق کی جانب اور ارض نشاط خیز کی طرف بڑھتا رہا اور رفتہ رفتہ بہت عظیم الشان بن گیا اور آسمان تک جا پہنچا۔ یہاں تک کہ اس نے چند مخلوقات سماوی اور چند تاروں کو زمین پر گرا لیا اور انھیں پاؤں تلے روندا۔ اس نے اپنی کبریائی کا دعویٰ کیا اور آسمانی بادشاہت کے شہزادے پر حملہ آور ہوا، عبادات کو بند کیا اور مقدس مقامات کو مٹایا۔ اس کے اندر ظالم افواج کی طاقت تھی۔ دانیال کو پھر مکاشفہ ہوا۔ اس نے مقدس ارواح کی باتیں سنیں اور اسے خواب کی تعبیر بتائی گئی۔
اسے معلوم ہوا کہ آخری زمانہ کے اس فتنۂ عظیم سے مکمل رستگاری دو ہزار تین سو سال کے بعد ہوگی۔ جبریل نے بتایا کہ مینڈھے اور اس کے دو سینگوں سے مراد ہے مید یا اور فارس کے بادشاہ اور بکرے سے مراد ہے یونان کے بادشاہ۔ دونوں آنکھوں کے درمیان والے طاقتور سینگ کا مطلب یہ ہے کہ یونان کا پہلا شہنشاہ عظیم طاقتوں والا ہوگا۔ چار سینگوں کی تعبیر ہے چار سلطنتیں، جو یونانی تہذیب کی پرور دہ ہوں گی مگر پہلی شہنشا ہیت سے کمزور ہوں گی اور مغربی یونانی تہذیب کے دور آخر میں دجل و ظلم کی انتہا ہوگی اور ان میں ایک مہیب بادشاہ پیدا ہوگا۔ اس کے تاریک عقائد ہوں گے۔ وہ قوت و جبروت کا مالک ہوگا۔ تخریب کا دیوتا بن جائےگا۔ مضبوط اور مذہبی لوگوں سے دشمنی کرےگا۔ اس کے نظام کی ترقی سے صنعت و حرفت کو بڑا فروغ حاصل ہوگا۔ وہ امن کا نام لے کر لوگوں کو تباہ کرےگا اور روحانی شہزادۂ شہزاد گان کے خلاف کھڑا ہوگا۔ آخرش کرامات کے ذریعہ وہ توڑا جائےگا۔
دانیال کو شمال اور جنوب کے مختلف بادشاہوں اور سلطنتوں کے درمیان جنگوں کا ایک سلسلہ کشف کے ذریعہ دکھایا گیا۔ اسے بتایا گیا کہ یہ سلسلہ آخری زمانہ تک پھیلتا جائےگا، تاآں کہ شمال کی سلطنت میں ایک آمر مطلق رونما ہوگا۔ وہ ساری پر ستیدہ ہستیوں سے اپنے کو بلند و بالا قرار دےگا اور رب الارباب کے خلاف حیرت ناک باتیں کرےگا۔ وہ اپنے آبائی مذہب کا انکار کر دےگا اور کسی ماورائی طاقت کا قائل نہ ہوگا لیکن اپنی مملکت میں وہ طاقت کے دیوتا کی عبادت کرے گا اور بالکل نئے تصورات کی پوجا میں لگ جائےگا۔ قوت و جبروت، چاندی اور سونا اور مادی لذات کو اپنا معبود بنائےگا۔ وہ منفعت کے لئے زمینوں کی تقسیم کرے گا اور بہتیری قوموں پر جابرانہ حکومت کرےگا۔ جنوب کے بادشاہ سے اس کی لڑائی ہوگی اور اہل جنوب پروہ طوفان کی طرح چھا جائےگا اور ارض مقدس تک جا پہنچےگا۔ مصر کے خزائن پر بھی اسے قدرت حاصل ہوگی۔ اچانک شمال اور مشرق سے اس کے لئے بری خبریں آئیں گی اور اسے اپنے علاقہ کی طرف لوٹنا پڑےگا۔ آخر الامر وہ تباہ کر دیا جائےگا اور بے یارو مددگار اپنے برے انجا م کو پہنچےگا۔
خواب کے پتلے بھی خواب دیکھتے ہیں۔ یہ سارے سپنے برہما کے من کی موجیں ہیں۔ یہی من موجی سپنے حقیقت کا روپ دھارتے رہتے ہیں۔ سپنے بھی اس کے سپنوں کا دیس بھی اسی کا۔ سپنوں کے پتلے بھی اسی کے اور تعبیریں بھی اسی کی۔
ہمالہ نے دیکھا ، آخرش میدیا اور فارس کا بادشاہ خورس اعظم ذوالقرنین یعنی دو سینگوں والا مینڈھا بنا اور اس نے مشرق و مغرب میں اپنی حکومتیں قائم کر لیں، اسی کے ہاتھوں بابل کی سلطنت برباد ہوئی اور آل اسرائیل اسیری سے آزاد ہوئے اور یروشلم پھر آزاد ہوا۔ فارس کی طاقت کو سکندر یونانی نے پاش پاش کر دیا۔ بکرے نے مینڈھے کو مار گرایا۔ سکندر یونان کے مرکزی سینگ نے دارا کی دارائی توڑی مگر ایام شباب میں ہی اکھیڑا گیا۔
ہمالہ نے دیکھا، ستر سال کے بعد آل اسرائیل کو بابل کی قید سے رستگاری حاصل ہوئی اور یہودا یروشلم میں واپس آیا۔ دخترانِ صہیون نے خوشیاں منائیں اور رقص کناں ہوئیں۔ زکریا اور یحیی نبی کی دعاؤں کے سایہ میں بنی اسرائیل پھر پروان چڑھنے لگا۔ کچھ دنوں بعد یہودیوں نے پھر شریعت کی بے حرمتی کی۔ علماء یہود ہی بگڑ گئے۔ وہ صراط مستقیم سے ہٹ گئے اور ان کے ہاتھوں قوانین توریت کی مٹی پلید ہوئی۔ آخرش یہود انے ان کو بھی رسوائے عالم کر دیا۔
رومی شہنشاہوں نے انھیں کچلا اور ان کی فوجوں نے انھیں پاؤں تلے روندا۔ بنی اسرائیل اپنے گھر میں اسیر ہو گئے۔ غلامی ان کی قسمت میں لکھ دی گئی۔ خدا کی رحمت جوش میں آئی اور آل اسرائیل کی حیاتِ ملی کی شام کے وقت اچانک روشنی ہوئی اور صدق و محبت کا ستارہ طلوع ہوا۔ رومی بادشاہ ہیروڈ کی آنکھیں خیرہ ہو گئیں اور اس کے ہوش اڑ گئے۔ یہودیوں کا بادشاہ پیدا ہوا۔ بپتسمہ دینے والے جون نے اعلانِ عام کیا کہ آسمانی بادشاہت قریب ہے۔ توبہ کرو تا کہ بخشے جاؤ۔ صحرا بہ صحرا اس مرد خدا نے منادی کی اور شہزادۂ امن کے لئے راستہ صاف کیا۔ عیسیٰ مسیح کا نزول ہوا۔ آسمانوں کے دروازے کھل گئے اور روح سماوی فاختہ کی شکل میں اس پر نازل ہوئی۔ خدا کے اس پیارے نے یہودیوں کو درسِ محبت اور دعوت اخلاص دی۔ اس نے فقیہوں اور فریسیوں کو ظاہر داری اور مکاری سے روکا اور صدیقیوں اور ربیوں کو مادہ پرستی اور سنگ دلی پر ٹوکا۔ اس نے بتایا کہ انسان روٹی کے سہارے نہیں بلکہ محض خدا کے فضل سے جیتا ہے۔
عیسیٰ نے کہا، برکت والے ہیں عاجزی کرنے والے، کیوں کہ وہی زمین کے اصلی وارث ہیں۔ برکت والے ہیں رحم دل کہ ان پر ہی رحم کیا جائےگا۔ برکت ہوئی مخلصوں پر کہ وہی خدا کا دیدار کریں گے۔ صاحبِ برکت ہیں اہلِ صلح کہ وہی خدا کی اولاد کہلائیں گے۔ برکت والے ہیں وہ جنھیں صداقت کی خاطر ظلم و ستم سہنا پڑے، کہ وہی آسمانی بادشاہت میں داخل ہوں گے۔ اے مظلومو! تم زمین کا نمک ہو۔ دیکھو اپنے مزے اور مزاج کو قائم رکھو۔ تم اگر بد مزہ ہوئے تو تمہاری بد نمکی بھلا کون دور کرےگا۔
تم سارے جہان کی روشنی ہو۔ اپنے نور کو مینارِ روشنی کی طرح بلند و باقی رکھو۔ اے لوگو! تم کامل بنو جیسے تمہارا آسمانی باپ کامل ہے۔ مگر افسوس یروشلم نے اس کی نہ سنی اور برا درخت برا ہی پھل لایا۔ بد بخت یہودی نے ہیرے کو پتھر سے توڑا اور امن و محبت کی روح کو سولی پر چڑھوایا۔ کون گنہگار تھا رومی گورنر پائلٹ؟ یا لانبی داڑھیوں والے شقی القلب یہودی علماء و فقہا؟
ارض وسماء کانپ اٹھے۔ روحِ محبت صلیب پر سے پکاری، ایلی ایلی! لما سبقتنی؟ اے میرے خدا! اے میرے خدا! تونے کیوں مجھے چھوڑ دیا؟ طور کی چٹانیں پھٹ پڑیں، ہمالہ کی بلندیاں لرزیں۔ خدانے اپنے پیارے کو نہیں چھوڑا مگر اسے آزمائش کا تلخ پیالہ پینا پڑا۔ اس کی نشاۃ الثانیہ ہوئی اور پھر وہ اپنے گیارہ حواریوں سے جھیل گلیلی کے کنارے ملا۔ بعض نے اس کی حیات نو پرشک کیا۔ عیسیٰ نے انھیں نصیحت کی۔ کہا، ساری قدرت مالک میں ہے۔ اسی نے مجھے زمینو آسمان کی طاقتیں بخشی ہیں۔ سخت دلی اور بے یقینی کی عادتیں ترک کرو اور جاؤ قوموں کو تعلیم دو اوران کے لئے برکت کے دروازے کھولو۔ بعد ازاں وہ بادلوں میں غائب ہو گیا۔
یہودیوں پر خدا کا غضب بھڑکا اور وہ ذلیل بندر بنا دیے گئے۔ انگوری باغ کے مالک نے یہ امانت ان سے چھین لی اور اس نے باغ کی نعمت دوسرے مالیوں کو دینے کا فیصلہ کر لیا۔ اسرائیل کا درخت بے ثمر کاٹا گیا۔ فلسطین برباد ہوا اور رومیوں نے بد خصال غلاموں کو سارے عالم میں رسوا ہونے کے لئے بکھیر دیا۔ داؤد کی پیش گوئی کا ایک حصہ پورا ہوا اور وعدۂ آخر تک کے لئے اسرئیل کی سلطنت نابود ہو گئی۔
ہمالہ کی بلند چوٹیوں نے ابن آدم کی بےقرار دعاؤں کی گونج سنی تھی۔ وہ اپنے آسمانی باپ سے رو رو کر دعائیں کرتا تھا۔ چشموں کے کنارے، خاموش وادیوں میں، بلند پہاڑوں پر مقام بہ مقام، گام بہ گام۔ ولی طوما انھیں دعاؤں کی باز گشت سن کر اپنے آقا کی تلاش میں دیارِ ہند میں آیا۔ آسمانی باپ نے ابن آدم کو برکتوں پر برکتیں دیں اور شرق و غرب میں اس کی امت پر روحانی اور مادی نعمتیں نازل کیں۔ اصحابِ کہف اور صاحبانِ رقیم بھوکے شیروں کے سامنے ڈالے گئے، ریچھوں نے انھیں پھاڑ کھایا، سیافون نے تالیاں بجا نے والے درندہ صفت رومی تماش بینوں کے سامنے ان کا خون بہایا، ان کی تکا بوٹی کی، مگر وہ کانٹوں کا تاج پہننے والے مصلوب، بندۂ خدا کی سچائی کا اور آسمانی باپ کے وجود کا برملا اقرار و اعلان کرتے رہے۔ وفا داروں نے انعام وفا پایا۔
بھگوان کی لیلا عجیب! اس کے سپنے نرالے! ایشیا کے ایک شہید نے اپنے خون سے یورپ کی سر زمین کو سینچا لیکن ہمالہ نے دیکھا کہ عیسیٰ کو اپولو کے مندر میں بٹھا دیا گیا۔ صلیب کا خون سوکھ گیا اور محض ایک چوب خشک ہو کر رہ گئی۔ پھر چاندی اور سونے کی صلیبیں گڑھی گئیں، مگر خون کا بدل کچھ نہیں، خون بے بہا ہے۔ خون زندگی ہے۔ خون الوہیت کے چہرے کا غازہ ہے۔ ہر شخص کو اپنی صلیب آپ اٹھانی پڑتی ہے۔ اپنا خون آپ بہانا پڑتا ہے۔ روحانیت سچی قربانی چاہتی ہے۔
پولوس ولی نے کہا تھا، میں جانتا ہوں میرے چلے جانے کے بعد درندہ بھیڑیے تمہیں چیر پھاڑ کر کھائیں گے اور گلہ پر تباہی آئےگی، نیز تمہارے اندر بھی ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو گمراہی کی ساحرانہ باتوں سے شاگردوں کے دل موہ لیں گے اور انھیں اپنا پیرو بنالیں گے پس ہوشیار رہو۔ ہمالہ نے دیکھا، سارے سنسار میں گہرا اندھیرا چھا گیا۔ خود ہمالہ طبق درطبق گھپ اندھکا ر میں لپٹ گیا۔ ایک اتھاہ رات ٹوٹ پڑی۔ ستارے بے نور ہو گئے۔ چاند کالی ٹکیہ کی طرح کا لا پڑ گیا۔ سورج طلوع ہوتا تھا مگر روشنی نہ تھی۔ آکاش اور پر تھوی ایک ننھی سی کرن کے لئے بھی ترس رہے تھے۔
ابراہیم کی دعائیں ایک تاباں صبح نو کے لئے تاریک فضاؤں میں لرزاں تھیں۔ کرشن کی بانسری کے بول نیا اوتار لینے کے لئے اندھیرے میں لرز رہے تھے۔ طور اور ہمالہ اور بہتیری بلند پیشانیاں نئے سورج کی کرنوں کا صندل ملنے کے لئے بے قرار تھیں۔ موسیٰ کی تمنائیں ایک آتشیں شریعت کے فروغ کے لئے دیدۂ و دل فراش کئے ہوئے تھیں۔ عیسیٰ کے انگوری باغ کا مالک بنی اسرئیل کے بھائیوں کے نخلستانوں میں ظاہر ہونے والا تھا۔ ابن آدم ایک طویل سفر پر روانہ ہو چکا تھا، اس نے اپنے ملازمین کے سپر دمکان کی حفاظت کر دی تھی اور ہر شخص کو اس کے کام سے آگاہ کر دیا تھا۔ س نے چوکیداروں کا حکم دیا تھا کہ نگہبانی کرتے رہیں۔
پس تم سب نگہدار رہو۔ تمہیں کیا معلوم مکان کا مالک کب آ جائے۔ سرشام، آدھی رات کو، مرغ کے بانگ دینے کے وقت یا علی الصباح۔ ہوشیار رہو، ایسا نہ ہو کہ وہ تمہیں سوتا اور غافل پائے۔ لیکن اس روز سعید، اس مبارک گھڑی کی کسی کو بھی خبر نہ تھی۔ نہ کسی آدم زاد کو اور نہ فرشتوں کو۔ خود ابن آدم بھی بے خبر تھا۔ بس ایک آسمانی باپ اس راز سے آگاہ تھا۔ اس نے ارض بطحا میں ظہور کیا۔ وہ شعیر سے طلوع ہوا اور کوہ فاران پر چمکا۔ دس ہزار قدوسی اس کے جلو میں تھے اور وہ تخت نشیں ہوا۔ اس کے داہنے ہاتھ میں ایک کتاب عظیم تھی۔ سات مہروں سے سر بہ مہر اس کا ہاتھ ید بیضائے کلیم سے زیادہ روشن تھا۔ اس میں سات ستارے تابندہ تھے۔ اس کی آواز میں پر شوکت آبشاروں کا نغمہ تھا۔ اس کی گفتار تیغِ دو دم تھی۔ یہ تیز و براں دودھاری تلوار باطل کو پاش پاش کئے دیتی تھی۔
اس کا چہرہ آفتابِ عالم تاب کی طرح درخشندہ تھا۔ اس سراج منیر کی پیشوائی کے لئے سات سنہری شمعیں روشن تھیں۔ شمعوں کے اس جھرمٹ میں ایک مرد خدا ابن آدم کے مماثل کھڑا تھا۔ بردبار مثیل ابن آدم نے بڑھ کر اس پر جلال صاحب تخت و نگیں کے دستِ رحمت سے کتاب مبین کی نعمت پائی۔ فرشتے نے کنوارے کو مل گیت گائے اور مثیل ابنِ آدم کی تحسین کی۔ اے آسمانی روح! تو اس کتاب عظیم کی حامل برحق ہے اور تجھ سے ہی ساتوں مہریں کھلیں گی اور ایک مقدس نے پکارا ، داؤد کی ذریت میں ایک مرد کا مل اٹھےگا، جو سات مہروں کے معارف بیان کر ے گا۔ پس تم زاری مت کرو اور خوش ہو جاؤ کہ اب لوگ کتاب عظیم کے معارف سے محروم نہیں رہیں گے اور سراج منیر کی روشنی تا قیامت پھیلتی رہےگی۔ اسے ملکِ لازوال اور شوکت بےمثال دی گئی ہے۔
شہنشاہ یثرب و بطحا آ گیا۔ خواجۂ بدر و حنین کا پر چم فضاؤں میں لہرایا۔ ما عرب و عجم نے طلوع کیا۔ رحمتِ عالم، فخر آدم ظاہر ہوا اور ا س کا فیض بے کراں جاری و ساری ہو گیا۔ آسمانی بادشاہت کا استحکام و استقلال منتظر آنکھوں نے دیکھا۔
دس کنواریاں دیا جلائے دولہا کے استقبال کے لئے نکلیں۔ ان میں پانچ عقل مند ثابت ہوئیں اور پانچ بےوقوف۔ جو عقل کی کوری تھیں انھوں نے تیل ساتھ نہیں رکھا، مگر جو ہوش مند تھیں، انھوں نے دیے کے ساتھ اپنی کپیوں میں تیل بھی لے لیا۔ دولہا کے آنے میں دیر تھی۔ ساری کنواریاں سوپڑ رہیں۔ آدھی رات کو شور اٹھا، دیکھو دیکھو دولہا دروازہ لگ رہا ہے۔ جاؤ اس کا سواگت کرو۔ دس کنواریاں جاگ پڑیں اور انھوں نے بتیوں کو تیز کیا۔ بےوقوفوں نے عقل مندوں سے کہا، ہمیں اپنے تیل میں سے تھوڑا دو، ہمارے دیے بجھ گئے ہیں۔ خرومندوں نے کہا، نانا ایسا نہیں، ہمارا تیل گھٹ جائے تو؟ جاؤ بازار سے خرید لاؤ! وہ ادھر خرید نے گئیں اور ادھر دولہا آ گیا۔ جن کے دیے روشن تھے، دولہا کے ساتھ تقریب میں شاداں و فرحاں شریک ہو گئیں اور دروازہ بند ہو گیا۔ پیچھے آنے والیاں محروم رہ گئیں۔
حسین دولہا تخلیق کا شہکار تھا۔ خود خلاق اس پر ریجھا۔ فنکار اور فن کے ازلی دائرے، دو کمانوں کی قابیں مل گئیں۔ منزل قرب اور عالم وصل نزدیک تر ہو کر ابدی عشق میں تبدیل ہو گیا۔ نوشاہ شہنشاہ لولاک بنا، امین انسانیت، نگین نبوت۔ موسیٰ کے کشوف کی رسائی مقامِ محمد کے حاشیہ تک ہوئی تھی، بعد ازاں موسیٰ اور انسانِ کامل میں دور فراق شروع ہوا۔ مجمع البحرین پر دونوں علیحدہ ہو گئے۔ مشاہدات محمد یم بہ یم، دریابہ دریا، جوبہ جو، اور تاقیامت اس کی آبرو۔ شہنشاہ لولاک نے انسانیت کے نفس امارہ کو قتل کیا، یتیم قوموں کی گرتی ہوئی دیواریں اٹھا دیں اور اپنی امت کو شکستہ کشتی پر ظلمات حیات پار کرنے کا سلیقہ سکھایا۔ محمد کا نظام اخلاق کامل، نظام سیاست کامل، نظام اقتصاد کامل، اس کا نظام روحانی ارفع و اکمل۔ محمد یزداں کا تا بندہ ترین شعل، یہودا کی کامل ترین تجلی، برہما کا سب سے سندر سپنا۔
ہمالہ نے دیکھا ، پچھم دیش سے ایک سورج نکلا۔ وہ چاند تاروں کے جھرمٹ میں تھا۔ ہمالہ نے ایسا پرکاش کبھی نہیں دیکھا تھا۔ ایسا پرکاش کبھی نہیں دیکھےگا۔ ہمالہ نے یہ بھی دیکھا کہ سورج کی کرنیں ذروں پر پڑتی تھیں اور وہ سلگ کر جگنو، تارے اور چاند بن جاتے تھے۔ اندھیرے کافور ہوئے جاتے تھے۔ ہر طرف جوت جاگ اٹھی تھی۔
ہمالہ نے دیکھا، شرارِ بولہب شعلہ بن کر اٹھا اور بگولہ بن کر سورج کا مقابلہ کرنے بڑھا۔ شیطان نے انسان کو ابو جہل و ابو لہب بنایا۔ ان دونوں اہرمن زادوں نے مکہ اور طائف کی گلیوں میں سورج کو خراماں پایا اور بھڑک اٹھے۔ ابنِ آدم کے دشمن بھی جی اٹھے اور گدھوں کی سیرت و صورت کے ساتھ سورج کی طرف منہ اٹھا کر رینکنے اور خرمستیاں دکھلانے لگے۔ آفتاب خراماں کی راہ میں کانٹوں کے جنگل بکھیرے گئے مگر اس خورشید درخشاں کے لہو سے کچھ تو گلستاں بن گئے اور کچھ اس کی آتش عریاں سے جھلس کر فنا ہو گئے۔ فرق آفتاب پر شور پشت اونٹوں نے اپنے مکروکید کی اوجھڑیوں کی کمندیں پھینکیں مگر وہ سب ان کی متکبر گردنوں میں پھانسی کی رسیاں بن گئیں اور نیراعظم کا روئے زیبا تاج افتخار سے اور جگمگا اٹھا۔ سورج آکاش پر تھا۔
ہمالہ نے دیکھا، فرعون وہا مان کی ممیاں بھی اٹھ بیٹھیں۔ سامری کا سحر بھی جاگا۔ ان سبھوں نے مل کر سورج کو نگلنا چاہا مگر ایک شہاب ثاقب نے ان سے کو بھسم کر دیا۔ ہمالہ نے دیکھا ، نمرود، بخت نصر، ہیروڈ اور نیروکی روحیں بھی مہر روحانیت کے گرد ابر سیاہ بن کر منڈلانے لگیں لیکن آخر تار عنکبوت کی طرح پارہ پارہ ہو کر بکھر گئیں۔ کنس اور کورؤں کی آتماؤں نے بھی اوتار لیا اور سارے راکشش ان کی مدد کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے۔ گھمسان کا رن پڑا جو دھرتی سے لپٹے ہوئے تھے، انھوں نے آکاش کے سورج اور تاروں پر تیر پھینکے۔ آکاش کی کرنوں نے بھی حملہ آوروں پر اپنے بان برسائے اور سارے راکشش دھرتی میں دھنس گئے۔ اب کے پانڈو نے جیت کر راج گدی چھوڑی نہین بلکہ ساری پرتھوی پر سورج اور اس کے چاند تاروں نے راج کیا۔
ہزار سال تک اندھیرا پاتال میں منہ چھپاتا پھرا، لیکن برہما کے سپنے میں اندھیرے نے ہمیشہ اجالے پر حملہ کیا۔ اندھیر ے اور اجالے کی لڑائی ازل سے تا ابد جاری رہے گی اور خود برہما ازل اور ابد سے پرے رہےگا۔ ازل اور ابد برہما کے ان گنت گنوں میں سے دو گن ہیں، یا یہ اتھاہ برہما کو ناپنے کی ایک چھچھلی سے کوشش ہے۔ سپنے کے پتلے حقیقت کے کسی گوشے، کسی زاویے، کسی سطح، کسی پرت کو ہی جان سکتے ہیں اور وہ بھی بے حد ادھورے طور پر۔ حقیقت تو صرف برہما کی ہے اور سب کچھ بےحقیقت۔ سب کچھ محض خواب و خیال!
برہما اور بندو کی کہانی میں سب سے اجیالے بندو کی جیوتی پر بھی اندھیارے نے آکر من کیا۔ پہلی فتح کے ہزار سال کے دور میں بھی دوبار روشنی پر تاریکی نے حملے کئے۔ پہلے حملہ اتر پورب دیش سے ہوا اور دوسرا حملہ اتر پچھم دیش سے۔
ہمالہ نے سنا، سبا کے لئے ان کے اپنے ملک میں ایک بڑی نشانی موجود تھی اور وہ دو باغوں کی صورت میں تھی، جن میں سے ایک دائیں طرف اور ایک بائیں طرف اور ہم نے اس سے کہہ رکھا تھا کہ اپنے رب کے رزق کو کھاؤ اور اس کا شکر ادا کرو۔ تمہارا شہر ایک خوب صورت شہر ہے اور تمہارا رب بہت بخشنے والا ہے۔ پھر بھی انھوں نے حق سے پیٹھ پھیر لی۔ تب ہم نے ان پر ایسا سیلاب بھیج دیا جوہر چیز کو تباہ کر جاتا تھا اور ہم نے ان کے اعلیٰ درجہ کے باغوں کی جگہ انھیں دو ایسے باغ ویے جن کے پھل بد مزہ تھے اور جن میں جھاؤ پایا جاتا تھا یا کچھ تھوڑی سی بیریاں تھیں۔ یہ سزا ہم نے ان کی ناشکری کی وجہ سے دی تھی اور ناشکروں کو ہی ہم ایسا بدلہ دیتے ہیں۔
ہمالہ گواہ ہے کہ شجر ابراہیم کی دونوں شاخوں کے ساتھ ایک جیسا سلوک ہوا۔ پہلی شاخ کے انجام سے دوسری شاخ نے عبرت نہیں حاصل کی اور دونوں شاخیں برباد ہو گئیں۔
ہمالہ گوش بر آواز تھا، تم یقیناً اس ملک میں دوبار فساد کروگے، اور یقیناً تم بہت بڑی سرکشی اختیار کروگے اور جب ان دو میں سے پہلے کا وعدہ پورا ہونے کا وقت آیا تو ہم نے اپنے بعض ایسے بندوں کو تم پر مستولی کرو یا جو سخت جنگجو تھے اور وہ تمہارے گھروں کے اندر جا گھسے اور یہ وعدہ پورا ہو کر رہنے والا تھا۔ اس کے بعد پھر ہم نے تمہیں دشمن پر حملہ کی طاقت عطا کی اور ہم نے مالوں اور بیٹوں کے ذریعہ سے تمہاری مدد کی اور ہم نے جتھے کے لحاظ سے بھی تمہیں زیادہ کر دیا۔
سنو! اگر تم نیکو کا ربنو گے تو نیکو کار بن کر اپنی جانوں کو ہی فائدہ پہنچاؤگے اور اگر تم برے اعمال کروگے بھی تو اپنی جانوں کے لئے برا کروگے۔ پھر جب دوسری بار والا وعدہ پورا ہونے کا وقت آ گیا، تاکہ دشمن تمہارے معزز لوگوں سے ناپسندیدہ معاملہ کریں اور اسی طرح تمہاری مسجد میں داخل ہوں جس طرح وہ اس میں پہلی بار داخل ہوئے تھے اور جس چیز پر غلبہ پائیں اسے بالکل تباہ و برباد کر کے رکھ دیں تو یہ بات بھی پوری ہو گئی۔ اب بھی کچھ بعید نہیں تمہارا رب تم پر رحم کر دے اور اگر تم پھر اپنے غلط رویہ کی طرف لوٹے تو ہم بھی اپنی سزا کی طرف لوٹیں گے۔
ہمالہ نے یہ بھی سنا کہ داعیِ اعظم نے پکار کر کہا کہ اے میری امت کے لوگو! تم بنی اسرائیل کے قدم بہ قدم چلو گے۔ یقیناً وہ ایک بزرگ رسول کا کلام تھا اور اس نے غیب کو افقِ مبین میں دیکھا تھا۔ سورج نے کہا تھا کہ ستاروں کو قیصر و کسریٰ کی سلطنتیں ملیں گی اور انھیں سونے کے کنگن پہنائے جائیں گے۔ پس یہ پیش گوئیاں پوری ہوئیں۔
برہما کی لیلا! اندھیروں نے اپنی یلغار جاری رکھی۔ اجالے اپنے کو تابناک نہیں رکھ سکے تھے۔ زرد جواہر کی جوت ہوئی مگر دل کی روشنیاں بجھ گئی تھیں۔ دل ہی کو خون کرنے سے خاک کے ذرے ستارے بنتے ہیں۔ خوارزم و بغداد، قرطبہ و غرناطہ کے روشن محلوں میں اندھیرا تھا۔ دل کے الحمرا زرد پڑ گئے تھے اور باغ داد باغ بےداد تھا۔
ہمالہ نے دیکھا، شما ل مشرق اور شمال مغرب سے اندھیرے کا طوفان اٹھا اور سورج کی دنیاوی سلطنت کو گہن لگ گیا۔ ستارے سوکھے پھولوں کی طرح جھڑ گئے، لیکن پھر پرانی ٹہنیوں پر نئے پھول کھلے اور نئی صبح طلوع ہوئی اور ہزار سال بیتنے پر شیطان پورے طور پر آزاد کر دیا گیا۔
ہمالہ نے سنا تھا اور چاند کو خوف لگے گا۔ سورج اور چاند دونوں کو ایک حالت میں جمع کر دیا جائےگا۔ ستارے ماند پڑجائیں گے اور آسمان چاک ہو جائیں گے اور پہاڑ اڑ ائے جائیں گے۔ نور آفتاب کو لپیٹ دیا جائےگا۔ وحشی اکٹھے کئے جائیں گے۔ دریاؤں کو ملا دیا جائےگا۔ نفوس جمع کئے جائیں گے۔ کتابیں پھیلا دی جائیں گی۔ آسمان کی کھال اتاری جائےگی۔ جہنم کو بھڑکایا جائےگا اور جنت کو قریب کر دیا جائےگا۔ زمین پھیلادی جائےگی اور جو کچھ اس میں ہے اسے نکال پھینکگی۔ یاجوج ماجوج کے لئے دروازہ کھول دیا جائےگا اور وہ پہاڑی سلسلوں، سمندری اور ہوائی لہروں کو پھاندتے ہوئے دنیا میں پھیل جائیں گے اور سچا وعدہ قریب آ جائےگا۔ جب اس کے پورا ہونے کا وقت آئےگا تو اس وقت انھیں ایک دوسرے کے خلاف جوش سے حملہ آور ہونے کے لئے چھوڑ دیا جائےگا اور بگل بجا یا جائےگا۔ رات اس کی گواہ ہے جب وہ کالی ناگن کی طرح کسمساتی ہوئی گذر جاتی ہے، اور صبح تاباں بھی جب وہ ہولے ہولے سانس لینے لگتی ہے۔
ہمالہ نے رسول امین کے پیش خدمت عیسیٰ، خرقیل اور دانیال کی و عیدوں اور بشارتوں کو بھی سنا تھا اور جب تم جنگ کی باتیں سنو گے اور جنگ کی افواہیں تمہیں لرزہ بر اندام کریں گی، اس وقت تم مت گھبرانا کیوں کہ ان امور کا برپا ہونا مقدر ہے۔ قیامت ابھی تم سے دور ہوگی۔ ایک قوم دوسری قوم پر چڑھائی کرےگی اور ایک حکومت دوسری حکومت پر۔ مختلف مقامات پر سخت زلزلے آئیں گے اور قحط پڑیں گے۔ مصائب کی زنجیریں تمہیں جکڑ لیں گی اور یہ دردو غم کا محض آغاز ہوگا۔ سورج تاریک ہو جائےگا اور چاند ماند پڑ جائےگا اور آسمان کے تارے جھڑ جائیں گے اور آسمانی طاقتوں میں حرکت پیدا ہوگی اور تب لوگ ابنِ آدم کو بدلیوں کے اندر سے بہ جلال و جبروت طلوع ہوتا ہوا دیکھیں گے اور ایک حاملہ عورت سورج کی کرنوں کا لباس، چاندنی کے پاپوش اور تاروں کا تاج پہنے رونما ہوگی مگر اس بارآور و جود کو ایک سرخ اژدہا نگل جانے کے لئے خوف ناک طور پر حملہ آور ہوگا۔ یہ ہفت سرہ، دس سینگوں والا اژدہا، صاحب ہفت تاج بھی ہوگا اور یہ اپنی طاقتور دم سے آسمانِ دنیا کے ایک تہائی تاروں کو جھاڑ کر زمین پر گرا دےگا۔
لیکن جوقوموں کی رستگاری کے لئے معبوث ہونے والا ہے، اس حاملہ عورت کے بطن سے پیدا ہوگا اور اقوام پر حکومت کرے گا۔ وہ خدائے ذوالجلال کے تخت سے لپٹا ہوا ہوگا اور آسمان پر فرشتوں اور شیطانی اژدہے کے درمیان جنگ ہوگی۔ فرشتے اسے زمین پردے ماریں گے اور پھر ایک پر شوکت آواز منادی کرےگی کہ اب خدا کی بادشاہت زمین پر بھی قائم ہو گئی اور نجات کے دروازے کھل گئے اور دانیال نے خواب میں دیکھا، چوطرفہ ہوائیں چلنے لگیں اور وسیع سمندر میں لہریں اٹھنے لگیں اور چار بڑے بڑے عجیب و غریب جانور سمندروں سے نکل کر باہر آئے۔ یہ چاروں مختلف کینڈے کے تھے۔ پہلا جانور شیر ببر کی طرح تھا اور اس کے عقابی پر لگے ہوئے تھے۔ یہ ساری دنیا پرچھا گیا لیکن انجام کار اس کے شہ پر غیب کی طاقتوں نے توڑ دیے اور اس کی بہیمیت دور ہوئی، اس میں آدمیت پیدا ہوئی اور وہ مادیت کو ترک کر کے آسمانی برکتوں کی تلاش میں آدم زاد کی طرح اٹھا۔
آخر ش اسے قلب مومن عطا ہوا اور دیکھنا ایک دوسرا جانور رونما ہوا، بالکل ریچھ کی طرح کا۔ وہ محض ایک پہلو سے اٹھا۔ اس کے منھ میں پسلیاں تھیں۔ وہ انھیں دانتوں سے کڑکڑا رہا تھا اور لوگوں نے اس سے کہا! اٹھ اور خونخوار بن اور بےحد گوشت چبا ڈال! پھر ایک تیسرا جانور چیتے کی طرح چالا کی سے نکلا۔ اس کی پیٹھ پر چار پر لگے ہوئے تھے۔ اس کے چار سر بھی تھے اور اسے سلطنت عظیم بھی بخشی گئی اور آخر الامر ایک چوتھا خوف ناک جانور گرجتا ہوا نکلا۔ بڑا مضبوط۔ اس کے لوہے کے بنے ہوئے بڑے بڑے دانت تھے۔ اس نے خوب خوب خونخواری کی۔ وہ مختلف جہتوں میں حملہ آور ہوا اور خلقت کو روند تا رہا۔ اس کی دس سینگیں تھیں۔ ایک چھوٹی سینگ تھی جس میں آنکھیں تھیں اور آدمیوں جیسی آنکھیں اور ایک منھ جو بڑے بول بولتا تھا۔
اس وقت آسمانی تخت بھی بچھ چکا تھا اور دنیا پر فرشتوں کا نزول شروع ہو گیا تھا۔ حکم و عدل آچکا تھا۔ فیصلے کا دن قریب تھا۔ حساب کے دفاتر کھلے ہوئے تھے۔ آخر ش معجزانہ طور پر وہ عجیب الخلقت جانور قتل کر دیا گیا۔ اس کا بدن ٹکڑ ے ٹکڑے ہوا اور اسے آگ میں جھونکا گیا۔ تکبر اور بڑے بول کا نتیجہ! اور بقیہ جانوروں کا حشر بھی بڑا عبرت ناک ہوا۔ ان کی سلطنتیں ان سے چھینی گئیں۔ مگر انھیں کچھ اور مہلت ملی۔ اور ایک ابن آدم کا مثیل آسمانی ابر پاروں کے ساتھ نازل ہوا۔ وہ قدیم و قدیر طاقت کے آگے جھکا۔ اسے ملک لازوال اور طاقت باکمال بخشی گئی۔ مختلف نسلیں، قومیں اور زبانیں اس کی سلطنت میں شامل ہو گئیں۔
دانیال کو بتا یا گیا یہ چار جانور چار سلطنتیں ہیں اور آج برہما کے خواب کے پتلے یہ سوچ رہے ہیں کہ آئینہ ایام میں ہم نے یہ جانور دیکھے ہیں۔ آمریت کے دسوں سینگ ٹوٹ گئے اور آگ میں آہنی دانت پگھل گئے۔ سمندری شیر ببر کی ہوائی طاقت کمزور ہو گئی اور اب وہ آدمیت کی طرف مائل ہے۔ ابھی دل کا آپریشن ہونا باقی ہے اور اس کی نسل کا چیتا؟ بیکراں ہوئی طاقت والا، صاحب ملک و دولت! اسے بھی مہلت ملی ہے۔ اور خوں خوار ریچھ؟ خوں ریزی کے لئے اسے بھی مہلت دی گئی ہے۔ خوں خوار ریچھ اور خون آشام چار سرہ پردار چیتا دونوں ٹکرائیں گے اور ان کی طاقتیں غیبی قوت و جبروت سے توڑی جائیں گی۔
خرقیل نے خواب و کشوف میں دیکھا تھا کہ یاجوج ماجوج کی خوف ناک جنگوں کا آغاز اس دور سے ہوگا، جب بنی اسرائیل ارض مقدس میں جمع کئے جائیں گے۔ اے خر قیل پیشین گوئی کر! اور انھیں بتا کہ خدائے قدیر تمہاری قبریں کھول دےگا اور تم ان سے نکل کھڑے ہوگے۔ وہ تمہیں سرزمین اسرائیل میں لائےگا، تمام دیار کفرو ضلالت سے سمیٹ کر تمہارے اپنے ملک میں اکٹھا کرےگا۔ تم اسرائیل کی پہاڑیوں پر چڑھو گے اور تم جانو گے کہ تمہارا یہود ا کتنا صاحب طاقت و جبروت ہے اور تصدیق کرنے والی کتاب مبین نے بھی یہ عظیم پیش خبری کی کہ امت مرحوم کے دوسرے زوال کے دور میں بنی اسرائیل ارض مقدس میں لائے جائیں گے۔
پھر جب دوسری بار کا وعدہ آ پہنچےگا تو ہم تم کو جمع کر کے وہاں لے آئیں گے اور ہمالہ نے دیکھا پیشین گوئیاں پوری ہوئیں اور خواب حقیقت بن گئے اور خرقیل نے ایک عظیم الشان ندا سنی، اے ابنِ آدم! یاجوج اور سرزمین ماجوج کے خلاف نبوت کرمسہک اور توبال کے آمرِ قاہر کے خلاف نبوت کر اور کہہ خدائے رب العزت فرماتا ہے۔۔۔ سن اور دیکھ! اے یاجوج! اے مسہک اور تو بال کے بڑے حکمراں میں تیرا مخالف ہوں اور میں تیر ا منھ توڑ دوں گا اور تیرے جبڑوں میں آنکڑے ڈالوں گا اور میں تجھے اور تیری قاہر فوج کو نکال باہر کر دوں گا۔ تیرے بے پناہ اسلحے، آلات حرب و ضرب اور آہنی زرہ بکتر اور دوسرے حفاظتی سامان تیرے کوئی کام نہ آئیں گے۔ ہوشیار رہ۔ تیرے ساز و سامان، تیری دوست قومیں، تیرے حلیف جتھے سب برباد کر دیے جائیں گے۔ عرصہ دراز کے بعد تو پوچھا جائےگا۔ تو ایک ایسی سر زمین پر حملہ آور ہوگا جو تسلط غیر سے آزاد کی گئی ہوگی اور جہاں مختلف قوموں میں سے جمع کئے ہوئے لوگ آباد ہوں گے۔
تو اسرائیل کی پہاڑیوں پر ٹوٹ پڑےگا۔ توطوفان کی طرح اٹھےگا۔ تیری حلیف قومیں اور تیری افواج ممالک پر ابر سیاہ کی طرح چھا جائیں گی اور ترشیش و شبادد روان کے سودا گر تجھ سے پرسش کریں گےکہ کیا تو مال لوٹنے نکلا ہے۔ کیا تو جتھا جمع کرکے شکار کے منصوبے سے باہر آیا ہے۔ وہ شیر بچے تجھ سے سوال کریں گے۔
پس اے آدم زاد! یاجوج کے خلاف پیشین گوئی کر! تو اپنے شمال ملک سے خروج کرے گا اور اپنے جتھے کے ساتھ اسرائیل تک بڑھتا آئےگا۔ تیرا لشکر عظیم و قوی منحوس بادل کی طرح خیمہ زن ہوگا۔ یہ ساری باتیں آخری زمانہ میں رونما ہوں گی۔ اے یاجوج! یہ ظہور اس لئے ہوگا کہ مظاہر پرست دہریے بھی مجھ خدائے قادر پر ایمان لائیں۔ اس وقت اللہ تعالیٰ کا جلال ظاہر ہوگا اور ارض اسرائیل میں سخت زلزلہ آئےگا۔ اس وقت پانی کی مچھلیاں، ہوا کے پرندے، میدانوں کے جانور، سطحِ ارض پر رینگنے والی ساری مخلوق اور روئے زمین پربسنے والے تمام آدمی خدا کے حضور کانپیں گے۔ پہاڑ گر پڑیں گے اور بلند مقامات دھنس جائیں گے اور ساری دیواریں زمین پر آر ہیں گی اور یاجوج کا ز بردست مقابلہ کیا جائےگا۔
سارے عالم سے اس کے خلاف تلواریں اٹھیں گی۔ قوموں میں خانہ جنگی اور برادرکشی ہوگی اور میں یاجوج و ماجوج اور ان کے ساتھیوں پر بلائے ناگہانی نازل کر دوں گا۔ سخت خوں ریزی ہوگی۔ موسلادھار پانی برسایا جائےگا۔ بڑے بڑے اولوں کی مار پڑے گی۔ آگ اور انگار ے برسیں گے۔ اس طرح بہت سی قومیں مجھے پہچانیں گی اور میری تقدیس کریں گی۔ اور ماجوج پر ایک آگ برسےگی۔ ان پر بھی، جو بے خوف جزیروں میں رہتے ہیں، اور وہ بھی خدا شناسی پر مجبور ہوں گے۔
دیکھ اور سن! وہ انقلاب آیا اور خدا کی بات پوری ہوئی۔ ہمالہ نے سنا اور کانپ گیا۔ اس کی وادیوں میں ایک اور آواز گونجی۔ راوی کے کنارے او ر ساحل گنگ و جمن تھر تھرانے لگے۔ قیامت کے مشابہ ایک زلزلہ آنے والا ہے۔ اے مجرمو! آج تم الگ ہو جاؤ۔ حق آیا اور باطل بھاگ گیا۔ یہ بشارت ہے جو نبیوں کو ملی تھی اگر چاہوں تو اس دن خاتمہ!
سپنوں کے دیس میں یاجوج ماجوج موجیں مارنے لگے۔ کوہ قاف کے دیوزادوں نے آکاش اور پرتھوی پر قبضہ کر لیا۔ سندباد جہازی کے سفر الف لیلوی دنیا سے باہر نکل آئے۔ دجل و فریب کا عفریت اپنی مٹھیوں میں دوزخ و جنت لئے دنیا کو نا پنے نکلا۔ اس نے ذرے کو آفتاب ساماں بنا دیا۔ اہرمن کو مادہ پر قدرت حاصل ہوئی اور دجال نے خدائی کا دعویٰ کر دیا، مگر جوہرِ مادہ تک رسائی مادیت کی شکست بھی تھی۔ مادہ اناری نہیں، ازلی و ابدی نہیں، اصل توانائی ماورائے مادہ ہے اور خود اہرمن کے ہاتھوں مادہ اور مادیت کے لات و منات ٹوٹ گئے۔ عفریتوں نے طلسمی گولے لے کر ایک دوسرے پر حملہ کرنا شروع کر دیا۔
عالم نو نور افشاں بھی تھا اور ہوش ربا بھی۔ بڑی سخت کش مکش پیدا ہوئی۔ سخت تصادم رونما ہوا۔ بھیانک دھما کے ہوئے۔ کائنات لرزہ براندام ہو گئی۔ خواب کے پتلے فنا ہونے لگے۔ سپنوں کا سنسار تحلیل ہونے لگا۔ شاید بندو اور برہما کی کہانی ختم ہو رہی تھی۔ یہ عظیم دماغ کا ایک لمحہ تھا یا ابدیت کی ایک کڑی؟ کون جانے عظیم دماغ خلفشار عالم سے بیدار ہو رہا تھا۔ برہما کی نیند دھماکوں سے اچٹ گئی تھی۔ سپنوں کا سنسار چھایا! خواب کی دنیا مایا! کیا عظیم دماغ انگڑائی لے کر جاگ اٹھےگا؟ کیا برہما اپنے سپنوں کا سنسار رچےگا؟
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.