سردارنی
حویلی گاؤں کے بیچ و بیچ اور چوراہے والے اس بڑے کنویں کے نزدیک تھی جہاں سے سارا گاؤں پانی بھرنے آتا تھا۔ کنویں سے تھوڑا ہٹ کر بڑا سا پیپل تھا، جسے گاؤں کے لوگ براہمنوں کا پیپل کہتے تھے۔ یہ کنواں اور پیپل بھی گاؤں کی شان تھے۔ کوئی وقت تھا جو حویلی زیلداروں کی حویلی کے نام سے جانی جاتی تھی، پر نمبرداروں کی حویلی بن گئی۔ لیکن اب اس حویلی کے دونوں نام مٹتے جارہے تھے۔ بیچ بیچ میں کچھ لوگ اسے ’’شاہوں‘‘ کی حویلی بھی کہتے تھے۔
نام تو ہوتے ہیں انسانوں کے ساتھ، جن کے قدموں کے نیچے دھرتی دبتی چلی جاتی ہے۔ جب یہ ذیلدار اور نمبردار ہی نہ رہے، پھر پرانے نام تو لوگوں نے بھلا ہی دینے تھے۔ حویلی کا حسن اور نام کنویں کی منڈیر کی اینٹوں کی طرح اسی کی رگڑ سے جیسے جیسے بدصورت ہوتا گیا اور اس پر زردی پھیلتی گئی۔ تیسے تیسے حویلی کے چمکتے ناموں پر مٹی کی تہیں جمتی چلی گئیں۔
شاہوں کی حویلی؟
ارے جب سے شاہ مالک ہوئے ہیں، لکڑی کی طرح پھٹ گیا ہے۔ سارا گھر اور رہ گیا ہے۔ شاہی پتن تین تین کوٹھیوں میں بٹ کر۔ مانگنے کے لیے فقیر سمجھ نہیں پاتا اس حویلی میں بسے ہوئے تینوں گھروں میں سے اسے خیرات بھی ملےگی یا نہیں۔ بڑے آئے شاہ؟
پرانے لوگ جانتے تھے۔ کبھی حویلی کی سارے گاؤں پر ملکیت سمجھی جاتی تھی۔ اب تین بھائی رہ گئے ہیں۔ وہ بھی الگ الگ۔ وہ بھی ایک ہی احاطے میں رہتے ہوئے ایک دوسرے سے منہ پھلائے پھرتے ہیں۔ زمین ساری بٹ گئی۔ ڈھور ڈنگر بٹ گئے۔ بستر، چادروں تک کا بٹوارہ ہو گیا۔ کسی دن بیچ میں دیواریں کھڑی ہو جائیں گی۔ اور باقی رہ جائےگی تین تین کوٹھیوں کی ملکیت۔ شاہوں کی حویلی۔۔۔
چھوٹی اچھر سنگھ اور مادھو سنگھ کی بیویوں نے پورا زور لگایا۔ بھئی پوری زمین بٹ گئی، برتن بٹ گئے، ان چار کوٹھریوں کے بٹوارے میں کون سا پہاڑ ٹوٹنے والا ہے۔ ختم کرو روز روز کا جھگڑا۔ جب بات کرنے تک کا رشتہ نہیں رہ گیا تب ان پرانی سانجھی چار اینٹوں کا کیا کرنا ہے۔ سب کے لڑکے جوان ہو رہے ہیں۔ ایسا نہ ہو کسی دن سانجھے کھونٹے پر بچھڑا باندھتے ہوئے سر کٹ جائیں اور فساد بڑھ جائے۔ آپس میں بول چال تو پہلے ہی نہیں رہی، اب سانجھے داری کس بات کی؟
چھوٹی دونوں بہویں منہ جوڑ کر باتیں کرتیں۔ لیکن نہ ان کی اور نہ ان کے آدمیوں، اچھر سنگھ اور سادھو سنگھ کی ہمت ہوتی کہ بڑی بھابی تیج کور کے سامنے کوئی منہ کھول سکے۔
تیج کور گھر کی بڑی بہو تھی۔ اونچی، لمبی، دوہرا جسم اور گیہواں رنگ۔ جب جوش میں آکر گٹھی ہوئی کمر پر ہاتھ رکھ کر ٹھوک کر بات کہتی، اچھے اچھے سنگھ سردار اندر سے کانپ جاتے۔ کسی کو کوئی جواب نہ سوجھتا۔ وہ بڑی تھی۔ دونوں دیور اسے بھابھی کہتے تھے۔ ان کی دیکھا دیکھی سارا گاؤں بھابی تیج کور کہنے لگا۔ اس کے پاس گاؤں کا کوئی نہ کوئی جھگڑا آتا ہی رہتا۔ گاؤں کے مزارعوں کے تو کیا رشتے داروں میں بھی بہو، ساس کے فیصلے وہی کرتی۔ روتے روتے آتے اور خوش خوش لوٹتے۔
دونوں چھوٹے بھائیوں کی آنکھوں میں شرم تھی کہ ماں جیسی بھابی کے سامنے کیسے کھڑے ہوں۔ اپنے ہاتھوں سے ہماری شادیاں کیں، ہماری ڈولیاں لےکر آئی۔ سردار نے کے شگن کیے، پانی وارا۔ اب کیسے اس کی چھوٹی سی بات کو ٹال دیں۔ سب کچھ تو بٹ ہی گیا ہے۔ بات رہ گئی ہے حویلی کی۔
تیج کور کی دیورانیوں کے ساتھ بول چال نہیں تھی۔ کوئی بچہ چیز مانگتا، منہ پر تھپڑ پڑتا۔ ہم نے نہیں جانا ان کے گھر سے کوئی چیز لینے، ہمارا مرنے جینے کا رشتہ ختم ہو گیا ہے۔ آدمی ملے ہیں۔ جولاہے۔ بھابی سے ایسے ڈرتے ہیں جیسے کوے گلیل والے آدمی سے۔ معلوم نہیں ان چار اینٹوں کا بھگوان کب فیصلہ کرتا ہے۔
مہینے گزر جاتے تھے ایک بھائی کو دوسرے بھائی سے بات کیے ہوئے، جب کہ رہتے سانجھی حویلی میں تھے۔
تیج کور کو ایک ہی ضد تھی۔ زمین بٹ گئی، ڈھور ڈنگر بٹ گئے، لیکن میرے جیتے جی حویلی کا بٹوارہ نہیں ہو سکتا۔ ذیلداروں کی حویلی، نمبرداروں کی حویلی اور شاہ کی حویلی، گوپال سنگھ، اچھر سنگھ اور سادھو سنگھ کے مکان نہیں بن سکتی۔ یہ نہیں ہو سکتا قلعے جیسی حویلی ہے۔ دو پیڑ بیری کے، ایک شہتوت کا اور ایک پیپل کا، جہاں تمہاری مرضی ہو چارپائی بچھاؤ، جہاں تمہارا جی چاہے جانور باندھو، لیکن حویلی کا بٹوارہ میرے مرنے کے بعد ہی ہوگا۔ میری گردن پر چھری پھیرنے کے بعد ہی کوئی بیچ میں دیوار کھڑی کرے گا۔ اگر تم سندھوؤں کے بیٹے ہو تو میں بھی ان گل سرداروں کی بیٹی ہوں جنہوں نے سر کاٹتے وقت کبھی یہ نہیں سوچا کہ سامنے بھتیجہ کھڑا ہے یا بھانجہ۔
تیج کور کو یاد آ رہا تھا۔ جب وہ چھوٹی تھی تب تاؤ چچا کے بیٹوں میں جم کر لڑائ ہوئی تھی۔ وہ لاٹھی چلی کہ دونوں ہی گھروں کے کتنے ہی آدمی زخمی ہوکر سرکاری اسپتال میں پہنچ گئے۔ ہسپتال ایک زخمی دونوں گھروں کے، منجھلے اور منجیت کا بازو اور ٹانگ ٹوٹ گئی۔ کئی کی پسلیاں ٹوٹ گئیں لیکن اس کی ماں نے ایک بار بھی ’’سی‘‘ نہ کی، شکر ہے بھگوان کا۔ ٹانگ بازو ہی ٹوٹے، پردونوں گھروں کے لوگ بچ تو گئے۔ اگر ایک آدھ کی گردن کٹ جاتی تو۔۔۔
بے بے اسی وقت رادو مہرے کی بہنگی پر دودھ کی گاگریں اور گھی کے کنستر اٹھواکر اسپتال لے گئی۔ دونوں گھروں کے زخمیوں کے پلنگ ایک دوسرے کے سامنے بچھے تھے۔ بے بے نے گرم کیے ہوئے دودھ میں گھی ڈال کر پہلے تاؤ ے بیٹوں کو پلایا اور کہا، ’’اٹھو میرے شیرو، دودھ گھی پی کر تگڑے ہو جاؤ، ابھی کون سی کوئی بات ختم ہو گئی ہے۔ جب تک دو چار بیوہ نہیں ہوتیں تب تک یہ بات ختم نہیں ہوتی۔‘‘ بے بے تائے کے بیٹے شب دیوسنگھ اور ہربنس سنگھ کو دودھ پلاکر چھاتی سے لگاتی رہی اور آنسو بھری آنکھوں سے کہتی رہی، ’’شبیا بدقسمت ماں سے کہہ، تجھے بھی دودھ پلائے، دولٹھ کھاکر اسپتال آپڑا ہے۔‘‘ بے بے شبے کو اپنے سینے سے لگاکر روتی بھی جاتی اور باتیں بھی کرتی جاتی۔ چاچا اور تاؤ کے بیٹے اپنے سامنے چارپائیوں پر پڑے بے بے کی باتیں سن کر چپ سادھے بیٹھے تھے لیکن کسی کی ہمت نہ ہوئی کہ اس کی بات ٹال سکے۔
’’میں بھی اسی ماں کی بیٹی ہوں، اچھرسیاں اور سادھوسیاں! تم عورتوں کے کہنے پر کرو حویلی کے ٹکڑے، لیکن یاد رکھنا۔ ہر گرتی ہوئی اینٹ کے ساتھ میرا بھی انگ انگ کٹےگا۔‘‘ کون آتا شیرنی کے منہ کے آگے؟ اپنے اپنے کاموں میں مصروف ایک دوسرے کے منہ دیکھتے ہوئے دن کاٹ رہے تھے۔ سب سے چھوٹے سادھو سنگھ کے دماغ میں ایک ہی بات اٹکی تھی۔ تین بیٹے ہیں۔ تینوں ہی بڑی جماعتوں میں پڑھ رہے ہیں۔ بیٹی کوئی ہے نہیں۔ بیٹوں والا تو بادشاہ ہوتا ہے۔ میں نے اس پرانی بنجر حویلی کو چاٹنا ہے۔ سنبھال لے سارا بڑا چھوٹا۔ یہ بڑے رسالو کی بیٹی۔
سادھو سنگھ کو سب سے زیادہ شوق تھا خوبصورت بیلوں کی جوڑی رکھنے کا۔ وہ اکثر کہا کرتا تھا، ’’لائق بیٹے او ربیلوں کی جوڑیاں ہی تو جاٹ کی حویلی کا شنگار ہوتے ہیں۔ زمین تو سب کے پاس ہوتی ہے۔ کسی کے پاس تھوڑی کسی کے پاس زیادہ۔‘‘
سادھو سنگھ کے پاس گلوری بیلوں کی جوڑی تھی۔ اونچی رانیں، لمبے سینگ اور چمکتے گورے بدن۔ شادیوں کے دنوں میں سادھو سنگھ کو بلاوے آتے ہی رہتے۔ سجی ہوئی بیل گاڑی کے آگے جتے ہوئے گلوری بیل، جن کی پیٹھ پر کڑھائی کی ہوئی جھالریں ہلتی تو بیل گاڑی میں بیٹھی ہوئی نئی نویلی دلہن کو دیکھنا بھول جاتے۔
وہ اکثر سوچتا اگر ایک جوڑی اور ہو جائے تو سارے کام آسان ہو جائیں۔ کسی کو جواب نہ دینا پڑے۔ ساتھ ہی گھر میں رونق ہو جائےگی۔ نئی جوڑی کی تلاش میں سادھو سنگھ کو بھٹکے کئی دن نکل گئے تھے۔ ایک دن شام کے وقت وہ ساہی دال نسل کا بھورا لال بچھڑا لے کر آ گیا۔ بچھڑا مشکل سے سال سوا سال کا تھا۔ چکنا رنگ، چاروں کھر دودھ کے دھلے سفید ماتھے پر سفید نشان، گھٹا ہوا بدن۔ جسے حویلی کے کھونٹے پر بندھے دیکھ کر سادھو سنگھ کا من اندر سے کھل اٹھا۔ وہ گھر سے گڑ کی بھیلی لے آیا اس کے ٹکڑے کرکے بچھڑے کے منہ میں ڈالتا۔ اس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرتا، اور کہتا، ’’قربان اوے تجھے پیدا کرنے والی کے۔‘‘
تیج کور نے اپنی گھر کی دہلیز میں کھڑے ہوکر سادھو سنگھ کو بچھڑے کو گڑ کھلاتے دیکھا اور اس کے دل میں آیا، ’’چھوٹے بھائی سا دیور ہے۔ اپنے ہاتھوں سے پالا ہے۔ گھروں میں جھگڑے تو ہوتے ہی رہتے ہیں، جاکر سادھو سنگھ کی بدھائی دے آؤں۔‘‘ تیج کور کتنی دیر سوچتی رہی۔ لیکن اس کے پاؤں آگے نہ بڑھے، بلکہ اس نے اپنے من کو یہ سوچ کر سمجھایا۔ یہ تو مورکھ آدمی ہے۔ ایک بچھڑے سے کیا ہوگا۔ مفت کا دروازے پر خرچ باندھ لیا۔‘‘
تیج کور کے بڑے لڑکے کا سالا شنگارا سنگھ آیا ہوا تھا۔ اس نے تیج کور کے پیچھے کھڑے ہوتے ہوئے کہا، ’’موسی من اداس کرکے کیوں کھڑی ہے؟‘‘
’’شنگاریا۔ سادھو سنگھ بچھڑا لے کر آیا ہے۔ آنگن میں رونق آ گئی ہے۔ ذرا جوان ہو جائے پھر دیکھنا بچھڑے کی کاٹھی۔‘‘ اتنا کہہ کر تیج کور اندر چلی گئی۔ اور شنگارے سوچنے لگا۔ بی بی تو کہتی تھی، ’’میرے ویر چچا کی طرف نہ جانا، ہماری ان کے ساتھ بول چال نہیں، ایسے ہی بے بے نے دیکھ لیا تو گلے پڑ جائےگی۔ لیکن بے بے تو دیور کا بچھڑا دیکھ کر یوں چوڑی ہوکر کھڑی تھی جیسے بچھڑا اسی کے کھونٹے پر بندھا ہو۔‘‘
شنگارا کو بچھڑا بہت پیارا لگا۔ بھورا لال رنگ جو گردن کے نیچے سے کالی چمک مارتا تھا۔ ماتھے پر نشان اور چاروں کھر دودھ کے دھلے۔
’’موسا ماتھا ٹیکتا ہوں۔‘‘ بیری کے نیچے چارپائی بچھاکر بیٹھے مادھو سنگھ کے پاس جارک شنگارے نے کہا۔
’’آ بھئی ورک سردار، کیا ڈیل ڈول نکالا ہے۔ کب آیا ہے؟‘‘
’’پرسوں آیا تھا۔ موسا تیرے بچھڑے کی سارے گاؤں میں دھوم مچ گئی ہے۔ تونے قلعہ جیت لیا ہے۔ بڑی موسی کہتی تھی۔ صحن میں رونق آ گئی ہے۔‘‘ بچھڑے کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے شنگانے نے کہا۔ شنگارے کے ہاتھ پھیرنے سے بچھڑے کے جسم میں لہر سی دور گئی تو اس نے کہا، ’’بھائی ہم سے کیوں شرماتا ہے، ہم بھی اسی گھر کے آدمی ہیں۔‘‘
شنگارے نے بچھڑے کی پیٹھ پچکاری، ماتھے پر ہاتھ پھیرا، پونچھ سیدھی کرکے ذرا کھینچ کر دیکھی تو بچھڑے نے محسوس کیا، آدمی گھر کا ہے۔ کوئی پرایا نہیں۔
سادھو سنگھ بچھڑے کی خوب سیوا کرتا۔ دن میں پانچ سات بار اس کے پاس چکر لگاتا۔ کتنی کتنی دیر چارپائی پر بیٹھا بچھڑے کے ساتھ نہ جانے کیا کیا باتیں کر رہا ہوتا تو شنگارا سنگھ بھی آ جاتا۔ وہ بھی بچھڑے کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرتا۔ ہتھیلی چاٹتا اور ایک عجیب سی نظر کے ساتھ بچھڑے کی طرف دیکھتا۔
کرنی بھگوان کی۔ رات کو چار بوندیں آ گریں۔ تھوڑی سی برسات آ گئی اور ساتھ ہی ہلکی سی ٹھنڈ ہو گئی۔ سادھو سنگھ چارپائی اندر لے گیا اور گہری نیند سو گیا۔ سویرے آنکھ کھلی تو دیکھا، بچھڑا کھونٹے پر نہیں تھا۔ سادھو سنگھ کے ہوش اڑ گئے۔ سوچا کہیں کھل کر باہر نہ نکل گیا ہو لیکن حویلی کا باہر کابڑا دروازہ تو وہ خود بند کرکے سویا تھا اور کنڈی بھی لگا دی تھی۔
سادھو سنگھ حویلی سے باہر نکلا۔ بہت بھاگ دوڑ کی، لیکن بچھڑے کا پتہ نہ چلا۔ جیسے جیسے دن چڑھتا گیا۔ دل کی دھڑکن کے ساتھ سادھو سنگھ کی بے چینی بڑھ گئی۔ حویلی میں شور مچ گیا۔ بچھڑا چوری ہو گیا ہے۔ گاؤں کے لوگ باتیں کرتے، شاہ کے گھر چوری ہو گئی ہے اور تو سوئی تک کا نقصان نہیں ہوا لیکن چور بچھڑا کھول کر لے گئے ہیں۔
جب بھابی تیج کور کو پتہ چلا تو وہ فوراً باہر نکلی۔ آنگن میں سرنیچا کر کے بیٹھے سادھو سنگھ کو دیکھ کر اس کا کندھا ہلاتے ہوئے کہا، ’’او سادھیا۔ کیا ہو گیا ہے؟‘‘
’’بھابھی بچھڑا چوری ہو گیا ہے۔‘‘ سادھو سنگھ نے تیج کور کی طرف نظر بھر کر دیکھتے ہوئے کہا۔
’’تو کہاں مرا پڑا تھا؟ بڑے سندھو سردار۔ وے تو سندھو ہے، جولاہ سے بھی بدتر۔۔۔ سوتے ہوئے کے پاس سے چور بچھڑا کھول کر لے گئے۔‘‘ تیج کور حویلی کے آنگن کے بیچ و بیچ کھڑی گرج رہی تھی۔ تیج کور کی گرجتی ہوئی آواز سن کر اس کا شوہر گوپال سنگھ آ گیا۔ منجلا دیور اور اس کے بیٹے بھی آ گئے، تیج کور نے سب کی طرف دیکھتے ہوئے تیکھی آواز میں کہا، ’’تم سب جولاہے ہو جولاہے، کون سی بات ہے تم میں سندھو سرداروں والی۔ بچھڑا کھولنے والے کا سر قلم کر لیتے تو سمجھتی کہ یہ ذیلداروں کا گھرانا ہے۔‘‘
پورو، تیج کور کی بہو نے جب بے بے کی گرجتی آواز سنی تو اس کا دل کانپ گیا۔ بار بار یہ لفظ اس کے کان میں گونجتے ’’بچھڑا کھولنے والے کا سر قلم کر دیتے تو سمجھتی کہ سندھو سرداروں کی اولاد ہو۔‘‘
پورو نے اپنے آپ کو سنبھالا اور گود میں اٹھائی ڈیڑھ ایک سال کی بیٹی کو چھاتی سے چمٹاکر تھپتھپانے لگی لیکن بے بے کے الفاظ اس کی چھاتی میں گولی کی طرح چبھ رہے تھے۔ پھر تیج کور نے اپنے سردار کی طرف منہ کرتے ہوئے کہا، ’’سارا خاندان میرے منہ کی طرف ایسے دیکھ رہا ہے جیسے بندری کا تماشا ہو رہا ہو۔ سادھو کو ساتھ لے کر تھانے جاؤ۔۔۔‘‘
تینوں بھائی او رتیج کور کا بڑا بیٹا دلیپ سنگھ تھانے جا پہنچے، تھانیدار جانتا تھا، یہ گھر سارے گاؤں میں سب سے امیر ہے۔ لیکن آج تینوں بھائی کیسے اکٹھے ہو گئے ہیں۔ تھانیدار کے من کی بات بھانپتے ہوئے گوپال سنگھ نے ذرا رعب بھری آواز میں کہا، ’’چودھری جی بات بچھڑے کی نہیں، سوال ہے ہماری غیرت کا۔ اتنی بڑی حویلی اور بیس لوگوں کے بیچ سے کوئی بچھڑا کھول کر لے جائے۔ ہمیں اس کا نام پتہ مل جائے تو ہم اسے وہیں جان سے مار ڈالیں گے۔ آج تو ہم سب بن گئے ہیں الو کے پٹھے۔۔۔‘‘
’’سردار گوپال سنگھ یہ تھانہ ہے، بینے کی دکان نہیں۔ ہمارے پاس آئے ہو تو کریں گے قانونی کارروائی اور کریں گے پورا پتہ۔ ارے تھانے کے علاقے میں چوری ہو جائے۔۔۔؟‘‘
رپورٹ لکھی گئی۔ سارے بھائی اور بھتیجے، اس طرح گردنیں جھکائے گھر پہنچے، جیسے شمشان میں کسی سگے سمبندھی کو پھونک کر آئے ہوں۔
چوتھے پانچویں دن گوپال سنگھ اور سادھو سنگھ پھر تھانے پہنچے۔
’’چودھری جی۔ کوئی پتہ لگا ہے ہمارے چور کا؟‘‘
’’گوپال سنگھ تمہارا بچھڑا تمہارے گھر میں ہے۔‘‘ تھانیدار نے مسکراتے ہوئے کہا، ’’سردار اگر بچھڑا تمہارے گھر میں نہ ہوتا تو ہم چور کی مشکیں باندھ کر لے آتے۔ ہم نے تو ایسے ہی نمبری چوروں کی مرمت کر ڈالی ہے۔‘‘
’’ہمارے گھر ہے بچھڑا؟‘‘
’’ہاں تمہارے گھر۔‘‘
’’چودھری جی پہیلیاں نہ بجھاؤ۔۔۔ ہمیں بھی پتہ تو چلے۔‘‘ گوپال سنگھ نے اپنے اندر کی بے صبری کو روکتے ہوئے کہا۔
’’تمہارا بچھڑا ہے تمہارے سمبندیوں کے گھر۔ دلیپ سنگھ کا سالا لے کر گیا ہے۔ تمہاری ہے سمبندیوں کی بات۔ کل کو تم دونوں گھر ایک ہو جاؤگے۔ اگر تمہارے سمبندی نہ ہوتے، قسم بھگوان کی جوتے مار مار کر شنگارے کی چمڑی ادھیڑ دیتے۔ معلوم ہو جاتی ورک سرداروں کی اوقات۔‘‘
تھانیدار کی بھاری بھرکم آواز سن کر گوپال سنگھ اور سادھو سنگھ کی گردنیں نیچی ہو گئیں اور دونوں پیٹھ پیچھے ہاتھ باندھے گھر آ گئے۔ تیج کور گھر کی دہلیز میں کھڑی انتظار کر رہی تھی۔ اس نے جلدی سے پوچھا، ’’کوئی پتہ لگا؟‘‘
’’ہوں لگ گیا ہے۔ بغل میں منڈا شہر ڈھنڈورا۔‘‘
’’سردارا بات کر سیدھی سیدھی، ایسے ہی نہ میرے کلیجے کو آگ لگا۔‘‘ تیج نے سختی سے کہا۔
’’بھاگوان کیا بتاؤں؟ منہ سے بات نہیں نکلتی، اپنی ناک اور اپنی چھری۔ بچھڑا لے گیا ہے دلیپ کا سالا شنگارا سنگھ۔‘‘
’’شنگارا۔۔۔؟‘‘ تیج کور نے دونوں ہاتھ ملتے ہوئے کہا۔
’’ہاں ہاں شنگار لے گیا ہے۔ میں کوئی پشتو نہیں بول رہا، جو تیری سمجھ میں نہیں آتی۔‘‘ گوپال سنگھ نے غصے بھری آواز میں جواب دیا۔
یہ سن کر تیج کور پھر گرجی، ’’وے سادھیا ڈال گھوڑی پر کاٹھی اور جا گھمنی۔ بندے کا پتر بن کر بچھڑا لے کر واپس آنا ایسا نہ ہو کہ چور تو بھاگ جائے اور۔۔۔شام کے وقت لوٹ آنا۔ گھوڑی کا کچھ نہیں بگڑنے والا۔ دس دس کوس کا راستہ ہی ہے نہ۔‘‘ بھابھی تیج کور کی کڑکتی آواز کو سن کر سادھو سنگھ نے دو چار لقمے روٹی کے کھائے اور کٹورا لسی کا اندر پھینک گھمنی چل پڑا۔
سادھو سنگھ راستے میں سوچتا رہا، ’’اوے تیری ماں کی۔ شنگاریا تجھے اور کوئی گھر نہ ملا۔ اوے بہن کے گھر میں ڈاکہ۔۔۔ اب تو سو دو سو کی بات نہیں۔ بھابی نے تو میری جان نہیں چھوڑنی۔ یہی کچھ سوچتے سوچتے سادھو سنگھ نے ورک سرداروں کی بیٹھک کے سامنے پہنچ کر گھوری کو کھڑا کر دیا۔ اندر شنگارے کا باپ چیت سنگھ اور اس کا چچا اجاگر سنگھ بیٹھے تھے۔ چیت سنگھ نے آنکھ کے اشارے سے کہا ’’لو بھائی آ گئے ہیں بچھڑے کے مالک۔‘‘
’’بھائی تو فکر نہ کر آنے دو جوان کو اندر۔‘‘ جاگر سنگھ نے مسکراتے ہوئے آہستہ سے کہا اور ساتھ ساتھ سادھو سنگھ کے خیرمقدم کے لیے کھڑا بھی ہو گیا۔
چارپائی پر چوکور کھیس بچھاکر، پھولوں والا تکیہ رکھ کر اندر آواز لگائی، ’’بہو، لادودھ کا کٹورا اور کچھ کھانے کو۔ سادھو سنگھ آئے ہیں۔‘‘ ساتھ ہی ادھر ادھر کی باتیں چھیڑ دیں۔ وہ دونوں بھائی سادھو سنگھ کو بات کرنے کا موقع ہی نہیں دے رہے تھے۔ وہ کہتے جاتے، بھائی تو کچھ کھاتا ہی نہیں۔ تو تو بنیوں کی طرح کھانے والی چیز کو چھوکر وہیں رکھ دیتا ہے۔ یہ دودانے بھی تجھ سے کھائے نہیں جاتے۔‘‘
سادھو سنگھ کے سامنے تو بھابھی تیج کور کمر پر ہاتھ رکھ کر کھڑی تھی اور گرجتی آواز میں کہہ رہی تھی، ’’تو سندھو سردار ہے اور لڑکے کا چچا۔ بات کر ٹھوک کر۔‘‘ اس خیال کے آتے ہی جیسے سادھوسنگھ کو لگا جیسے بات کرنے کا سرا مل گیا۔
’’بھائیا جی۔ بات بہت چھوٹی ہے اور شرم بھی بہت آتی ہے۔ شنگارا بچہ ہے نہ، اس سے ہو گئی غلطی۔ بچھڑا کھول کر لے آیا ہے۔ اب اس کا دل بہل گیا ہوگا۔ مجھے بچھڑا لوٹا دو۔ سورج ڈوبنے سے پہلے گھر پہنچ جاؤں۔ گھر والے انتظار کر رہے ہوں گے۔‘‘
’’سادھا سیاں بچھڑا کتنے کا لایا تھا؟‘‘ شنگارے کے چچا نے مسخری کرتے ہوئے کہا۔
’’یہی اسی نوے کا ہوگا۔‘‘
’’دو ستار تو ہم سے سوا سو لے جا۔ لڑکے کو بچھڑا اچھا لگا۔ وہ لے آیا۔ بتا بھائی۔ بچے کا دل کیسے توڑدیں۔ شنگارا ہمارا بھی بیٹا ہے، تمہارا بھی بچہ ہے۔‘‘
جاگر سنگھ کی نرم اور پیار بھری باتیں سن کر سادھو سنگھ کے دل میں آیا، سوا سو روپے لے کر لوٹ جاؤں۔ کیا ضرورت ہے سمبندیوں کے ساتھ فضول جھگڑا کرنے کی۔ لیکن اسی وقت اسے بھابھی تیج کور یاد آ گئی، ’’ارے تم سندھو ہو یا جولاہے۔ سوا سو روپے کو سر پر مارنا ہے۔ یہ تو اپنا منہ کالا کرنے والی بات ہے اور بھائی کے ماتھے پر کالا ٹیکا۔۔۔کہاں مل گیا مجھے یہ جولاہوں کا خاندان؟‘‘ اس خیال کے آتے ہی سادھو سنگھ کی روح کانپ گئی۔ اس نے کہا، ’’بھائیا جی آپ کی مہربانی سے روپوں کی کمی نہیں۔ ہمیں تو یہ بچھڑا چاہیے۔‘‘
چیت سنگھ اور اس کی بیوی بال کور نے بہت کوشش کی کہ سادھو سنگھ روپیہ لے کر لوٹ جائے۔ لیکن بات بنتی نظر نہ آئی۔ سادھو سنگھ خالی ہاتھ گردن لٹکائے گاؤں لوٹ آیا۔
سادھو سنگھ کے آنے سے پہلے تیج کور کئی چکر لگا چکی تھی۔ اس کے دل میں ابال اٹھ رہے تھے۔ اس کا جی چاہتا، ابھی گھوڑی پر کاٹھی رکھوا سمبندیوں کے گھر پہنچ جائے۔ لیکن مردوں کے کام مرد ہی کرتے اچھے لگتے ہیں۔ عورتوں کے کرنے سے گھر کی بدنامی ہوتی ہے۔ تیج کور آنگن کے بیچ و بیچ چارپائی بچھاکر دروازے کی طرف دیکھ رہی تھی۔ اسے ایسا لگا جیسے اس کی گردن اکڑ گئی ہو۔
سادھو سنگھ نے آکر ساری بات بتائی۔ تیج کور دیور کی بات سن کر گرج پڑی، ’’ایک تو چوری اوپر سے سینہ زوری۔۔۔یہ ہمارے رشتہ دار ہیں، بے شرموں کو شرم نہیں آئی۔ بھئی کس کے ساتھ بات کر رہے ہیں۔ کنجروں نے آنکھیں ماتھے پر لگا لی ہیں۔ کہتے ہیں نٹنی رسے پر چڑھ کر ناچ رہی تھی۔ اس کا سسر آ گیا تو گردن جھکاکر نیچے اترآئی۔ لیکن ان بڑے سرداروں کو شرم نہ آئی کہ سمندی خاص دس کوس چل کر آیا ہے۔ بڑا بھائی کیا اور چھوٹا بھائی کیا۔ لڑکی تو اسی حویلی میں دی ہے۔ ذیلداروں کی حویلی۔‘‘
پورو بے بے کی گرجتی آواز سن کر سہم گئی۔ اس کا جی چاہتا۔ سامنے کنویں میں چھلانگ مار کر مر جائے۔ جا۔۔۔وے شنگاریا تیرا بیڑا غرق ہو۔ بسی بسائی کے آگے کانٹے بچھا گیا ہے۔۔۔ اتنے میں پھر بے بے کی رعب بھری آواز آئی۔ سویرے ہی میں اور دلیپا گھمنی جائیں گے۔ کیسے نہیں دیتے بچھڑا۔۔۔؟
سویرے ہی ماں بیٹے بیٹا گھوڑیاں کس کر نکل پڑے اور دوپہر سے پہلے سمبندیوں کی حویلی کے آگے جا گھوڑیاں کھڑی کر دیں۔ تیج کور کو دیکھ کر ایک بار تو شنگارے کی ماں کا کلیجہ سکڑ گیا۔ لیکن ساتھ میں جب اپنے داماد دلیپ سنگھ کو دیکھا تو ٹھنڈی سانس بھرتے ہوے دل میں کہا، ’’ہے تو پاگل شیرنی۔ ساتھ میں لڑکا ہے کچھ تو شرم کرےگی۔‘‘
شنگارے کی ماں دوڑ کر سمندھن کے گلے لگی۔ پھر اس نے تیج کور کے پاؤں چھوئے۔ گھر میں بھگدڑ مچ گئی۔ آنگن میں چارپائیاں بچھائی گئیں۔ آدمی اپنے گھر میں کتنا ہی دلیر کیوں نہ ہو۔ اچانک دشمن آ جائے تو ہاتھ پاؤں پھول ہی جاتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ شنگارے کی ماں سمبدھن کے گھر کی راضی خوشی پوچھتی، تیج کور نے بھاری آواز میں کہا، ’’دیکھ بی بی، ہمارے گھر والوں کا یہ دوسرا پھیرا ہے۔ سمبندھی پن کا رشتہ ہوتا ہے، پھولوں کی سیج جیسا، ایسا نہ ہو کہ ہمارے گھروں کی خوشبو جاتی رہے اور بدبو پیدا ہو جائے۔ ہمارا بچھڑا لوٹا دو۔ اس میں ہی بھلائی کی بات ہے۔‘‘
’’بی بی تو کس طرح کی بات کرتی ہے؟ نہ ہم کہیں بھاگے جا رہے ہیں، نہ بچھڑا۔ دونوں طرف ایک ہی گھر ہے۔ پہلے پانی دھانی پی۔ پھر بات کرتے ہیں۔‘‘
’’سردارنیے بات ختم ہوتی ہے بچھڑے پر آکر۔ پہلے بچھڑے کی بات کرو۔۔۔‘‘ تیج کور نے ذرا نرم ہوکر کہا۔
’’بی بی تو کس طر کی باتیں کرتی ہے؟ میں نے سادھو سنگھ سے کہا تھا۔ گنگا گئی ہڈیاں کبھی نہیں لوٹتیں۔ ہم سے دگنے پیسے لے جاؤ، اگر ہم منکر ہوں تو ہمارا قصور ہے۔ لڑکا تھا انجان مورکھ۔ اس نے کر لی ہے غلطی، اس کو دو معافی اور دگنی رقم لے جاؤ۔ آپ ہو ہمارے سر کے صاحب۔۔۔‘‘
’’بھائیا جی آپ کو ہزار دو ہزار کی ضرورت ہو، ایک بار اشارہ کرو، اسی وقت حاضر نہ کروں تو کہنا۔ گل سرداروں کی بیٹی نہیں تھی۔ ہم گنگا سے ہڈیاں ڈھونڈنے نہیں آئے، ہمیں تو اپنا وہی بچھڑا لے کر جانا ہے۔ ایسا نہ ہو جس گھر میں ہڈیاں گئی ہیں ہمیں اس کا منہ ہمیشہ کے لیے بند کرنا پڑے۔‘‘
’’بھائیا جی۔ رشتےداری گھس گئی جہاں سے نکلی تھی۔ تم نے سوچا۔ سارے سندھو بھائی الگ الگ ہیں۔ باری باری ان سے نپٹ لو۔ ہم خون پی جائیں گے اگر ہمارا بچھڑا نہ لوٹایا۔‘‘ دلیپ سنگھ نے رعب میں آکر اپنا بازو اس طرح ہلایا کہ اس کی ساس کے ہاتھ میں پکڑا ہوا دودھ کا کٹورا فرش پر گر پڑا۔
دودھ کا اس طرح گرنا ورک سرداروں کے لیے بےعزتی کی بات تھی اور وہ بھی ان کے اپنے گھر میں، جہاں ہر ہر کھونٹی پر کرپان لٹکتی رہتی ہے۔ سردار جیت سنگھ نے گھورتے ہوئے داماد کی طرف دیکھا اور دل میں آیا، اس کتے کی گردن اتار دے۔
’’اوے ہماری کوئی عزت آبرو نہیں؟ کیسے ہاتھ مار کر دودھ آنگن میں بکھیر دیا۔ اگر ہماری ایک بیٹی بیوہ ہو گئی، ہم ان کی چار کر آئیں گے۔ ایک لمحے میں ہی چیت سنگھ کے دماغ میں سارے نقشے گھوم گئے، اس سے پہلے کہ وہ منہ سے کوئی بات نکالتا، سردارنی تیج کور نے اٹھ کر اپنی ریشمی چادر سے سمدھن کا بازو صاف کیا۔ پھر فرش پر بیٹھ کر اپنی اسی چادر کے ساتھ فرش صاف کرنے لگی اور کہا۔ ’’سردار نئیے، غصہ نہ کرنا! لڑکے سے ہو گئی ہے غلطی اور ہاتھ جا لگا ہے کٹورے پر۔‘‘
بی بی کوئی بات نہیں، جیسا شنگارا ویسا دلیپ سنگھ، آپ فرش کیوں صاف کرتی ہیں۔ تیج کور کو بازو سے پکڑ کر شنگارے کی ماں نے آواز دی، ’’نی رکو۔ آکر فرش صاف کر دے۔‘‘ اور ساتھ ہی تیج کور کی چادر نل کے نیچے دھونے چلی گئی۔
سامنے بیٹھا چیت سنگھ حیران تھا، ’’ارے اتنی ظالم عورت کو بیٹے کی چھوٹی سی غلطی نے پل بھر میں پگھلاکر موم بنا دیا ہے۔ اگر کچھ اناپ شناپ بولتی، دونوں ماں بیٹے کے سر اتار دینے تھے۔ پھر دیکھ لیتے سندھو سرداروں کی سرداریاں۔ اتنے میں تیج کور نے سمدھن سے چادر پکڑتے ہوئے، دلیپ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، ’’اٹھ کیسا چوڑا ہوکر بیٹھ گیا ہے۔ ابھی کچھ اور بےعزتی کروانی باقی ہے۔‘‘
شنگارے کی ماں نے لاکھ منتیں کیں۔ بیچ بیچ میں چیت سنگھ نے بھی کہا، ’’بی بی چھوڑو غصہ کیا ہوا اگر لڑکے سے دودھ گر گیا ہے۔ پانی تو پیو۔‘‘
’’بھائیاجی۔ ہم نے آپ کا دودھ بھی پیا ہے اور ساتھ ہی اور بھی بہت کچھ کھایا ہے۔‘‘ یہ بات کہہ کر تیج کور لال سرخ آنکھوں کے ساتھ سب کو دیکھتی ہوئی بیٹے کو بازو سے پکر کر کھینچتی حویلی سے باہر نکل گئی۔
تیج کور صبح سے بھوکی تھی۔ اس کی آنکھوں سے انگارے برس رہے تھے۔ اس کا دل کر رہا تھا سامنے کھڑے لوگوں کو پھاڑ کھائے۔ لیکن پھر بات بس سے باہر ہو جاتی۔ اس نے سوچا۔ ایک بےشرم ہو جائے تو دوسرے کو ہی شرم کرنی چاہیے۔ جماداروں کی طرح سمدھیوں کے گھر سے طعنے کھاکر، ہاتھا پائی کرکے نکلوں؟ بے موسم کی گرجتی گھٹائیں طوفان بن کر چھائیں لیکن ہوا کے تیز جھونکوں نے انہیں آگے دھکیل دیا۔
گہری شام کے وقت دونوں ماں بیٹے گھر پہنچے۔ آگے حویلی کے سارے لوگ سانس روکے انتظار کر رہے تھے۔ پورو کا دل گھبراہٹ سے بیٹھا جا رہا تھا۔ پتہ نہیں بی بی آتے ہی کون سا بم گراتی ہے؟
’’بھابی جی کیا کرکے آئی ہو؟‘‘ سادھو سنگھ نے چاروں طرف پھیلی چپ کو توڑتے ہوئے کہا۔ تیج کور نے ایک بار گھور کر سب لوگوں کی طرف دیکھا اور ناک چڑھاکر کہا۔ بناکر آئی ہوں ان کنجروں کا سر۔ دہائی رب کی۔ ان جیسی کتی ذات کہیں نہیں دیکھی۔ سارے خاندان کی آنکھوں میں سور کا بال ہے۔ بےشرم اور بےلحاظ زمانے بھر کے، اور پھر کیسے چوڑے ہوکر کتر کتر باتیں کرتے ہیں۔
’’ہم سے دگنی رقم لے جاؤ۔ جیسے ان کے گھر سے بھیک مانگنے آئی ہوں کتے۔ بچھڑے کا تو نام ہی نہیں لیتے۔۔۔سادھیا آج ان کے صحن میں خون ہو جاتا۔ ساتھ ہی کنجروں کی اوقات کا دنیا کو پتہ چل جاتا۔ گھر آئے سمدھن اور داماد کومار ڈالا۔‘‘ تیج کور ایک پل کے لیے اپنی سانس ٹھیک کرنے کے لیے رکی، ’’اٹھا لاتے ماں بیٹے کی لاشیں۔ تمہارے بازوؤں میں دم ہوتا تو اتار لیتے بھابی اور بھتیجے کا بدلہ۔‘‘ یہ بات کہتی تیج کور ایک بار پھر رکی۔ ’’سادھیا واہے گورو نے ایک بار کر دیا ہے بچاؤ۔ اچھا ہوتا اگر دو سروں سے بات نپٹ جاتی۔ پتہ نہیں اب کس کس کی بلی دی جانی ہے؟ سو بار تیرے بھائی سے کہا، ہم نے ورکوں کے گھر کا رشتہ نہیں لینا۔ چور اور بےلحاظ زمان بھر کے۔۔۔‘‘
حویلی میں قبرستان جیسی خاموشی چھا گئی۔ کسی طرف سے کوئی آواز نہیں آتی تھی۔ پورو کا دل کرتا، اپنے آدمی سے پوچھ لے کہ کیا بات ہوئی ہے، لیکن ڈرتی تھی۔ جرت نہ پڑتی تھی کہ ذرا آگے بھی ہو۔ اس نے سوچا واہ رے شنگارے، بسی ہوئی چھوٹی بہن کے گھر کو آگ لگا دی ہے۔ اب ایک دو جانیں لے کر ہی فیصلہ ہونا ہے۔ بے بے کی کھنچی لکیر کو کون پار کر سکتا ہے؟ سچے پاتشاہ! مجھے بیچ میں سے اٹھالے، مجھ سے یہ ظلم نہیں سہے جاتے۔ ایک طرف شوہر، دوسری طرف بھائی۔ کس کا کٹا سر دیکھوں گی۔ یہ بات سوچتے سوچتے پورو کے آنسو نکل پڑے اور اس نے اچانک دیوار سے ٹکر ماری جس کی آواز تیج کور نے سن لی۔ اور پورے رعب میں آکر کہا۔ کیوں لگی ہے ہمارے سر چڑھ کر مرنے، جاکر مران چور بھڑوؤں کے گھر، جنہیں بہن کے گھر میں چوری کرنے میں لاج نہ آئی۔
بے بے جی اب میرا مرنا مائکے گھر میں ہی ہوگا۔ میری مکتی پتہ نہیں واہے گورو کب کرےگا۔ برے کرم کرکے آئی ہوں۔ ایسا کہتے کہتے پورو کی دہاڑ نکل گئی، ’’ایک آدمی کے کیے کرموں کا سارے خاندان کو دکھ بھوگنا پڑتا ہے۔ اگر تو ورکوں کی بیٹی ہے تو ہم بھی سندھو ہیں۔ اپنی ہار ہوتی دیکھ کر موت کو بھی خرید سکتے ہیں۔ مانتی ہوں کہ پانی سر سے گزر گیا ہے۔ تیرے باپ کی نظروں سے پہچان گئی تھی۔ وہ تو لگا تھا داماد کا سر اتارنے۔ بی بی آگ تو اب لگی ہے۔ دیکھیں دلیپا مرتا ہے یا شنگارا۔‘‘
’’بے بے جی آپ بڑے ہو۔ ایسی بات منہ سے نہ نکالو۔ ارداس کرو کہ میں مرجاؤں اور دونوں طرف ٹھنڈا پڑ جائے۔‘‘
تیج کور بہو سے شکوے کرتی اور طعنے مارتی ایسے سوچ رہی تھی جیسے ترکش میں سارے تیر ختم ہو گئے ہوں، اور وہ نہتی ہوکر ورکوں سے مار کھا رہی ہو۔ اتنے میں اس نے دلیپ سنگھ کو آواز دی۔
’’ارے دلیپا۔ میں لگی ہوں پورو کو تیار کرنے۔ اسے چھوڑ آماں باپ کے دروازے۔ یہ ہمارے گھر نہیں پچ سکتی۔ دیکھ لوں گی بڑی آن والوں کو۔ کڑے۔ کر اپنا سامان تیار۔ جو تیراجی چاہے اٹھاکر لے جا۔ تیرے ماں باپ یہ نہ کہیں، ’’ہماری بیٹی کو ننگی نکال دیا ہے۔‘‘
’’بے بے جی۔ جب اپنا آدمی اور گھر ہی پرائے ہو گئے تو ساج شنگار میرے کس کام کا؟‘‘ ساتھ ہی پورو نے دلیپ سنگھ کے قریب آکر کہا، ’’سردار کیوں لگا ہے مجھے پچھاڑ کر مارنے۔ ہاتھوں سے میرا گلا گھونٹ دے۔ میں کورے کاغذ پر لکھ دیتی ہوں۔ بھئی میں خود پھانسی لگاکر مری ہوں۔ یہ سب کہتی پورو ساس کے پیروں جاگری۔ تیج کور نے پیر پیچھے کر لیے اور کڑکتی آواز میں کہا، ’’اندھیر سائیں کا چوروں کی بیٹی کو گھر رکھ لوں۔‘‘ اتنا کہتی ہوئی تیج کور باہر نکل گئی۔
سارے گاؤں میں دہائی مچ گئی۔ گھر گھر تیج کور اور ورک سرداروں کی باتیں ہوتیں۔ براہمنوں کے پیپل کے نیچے جڑی بیٹھک میں کوئی نئی افواہ سننے کے لیے کان کھڑے رہتے۔
’’کیوں جوان۔ سنا ہے سردارنی تیج کور کو سمدھیوں نے خالی ہاتھ لوٹا دیا ہے؟‘‘
اور کیا اسے ہاتھی پر چڑھا کر بھیجتے۔ بیلی براہمن نے جھاڑی کا کش کھینچتے ہوئے کہا، ’’گئی تھی چوڑی ہوکر، لڑکے کو ساتھ لے کر۔ بھئی میں بیٹے والی ہوں۔‘‘
’’اوے پنڈتا۔ بیٹیاں پیدا ہو جائیں تو اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ سمدھیوں کے غلام ہو گئے۔ بیٹے والے چھاتی پر چڑھ کر ناچیں اور بیٹی والا نیچے سے اف نہ کرے۔ یہ کہاں کا انصاف ہے؟ گئی تھی بھنگیوں کی توپ بنکر، ورکوں کا قلعہ جیتنے۔ اگلے نے منہ گھماکر رکھ دیا ہے۔‘‘ دتومراشی نے چلم میں آگ کو ہلاتے ہوئے کہا، ’’بھئی بیلی رام۔ اگر یہ سندھو ہیں تو وہ بھی ورک سردار ہیں۔ جنہوں نے بار میں جنگلیوں کے منہ توڑ دیے تھے۔ بات ساری ہے خودداری کی۔۔۔‘‘
’’سنا ہے دلیپ کا سسر کہتا تھا چوگنے پیسے لے لو۔ ہماری سردارنی بھی اڑیل گھوڑی ہے۔ جو کھڑی دولتی مارنے لگ جاتی ہے۔‘‘
’’ہے تو عورت خوددار۔ لیکن بھئی ہر جگہ خودداری کی بات کو لے کر مورچہ لگا کربیٹھ جانا بھی تو عقلمندی نہیں۔‘‘
’’بھائی۔ بات اچھی نہیں ہوئی۔ ورک پھر بھی بیٹی والے تھے۔ بچھڑا لوٹا دیتے۔ تب کون سی گولی چل جاتی تھی۔ بیٹیوں والے ہمیشہ جھکتے آئے ہیں۔‘‘ کھوڑے نائی نے مراثی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’جا۔۔۔ اوئے کسی کا منہ سر مونڈ راجا۔ یہ باتیں ہیں گھر گھرانوں کی۔ وہ نائی مراثی نہیں چھوٹی چھوٹی باتوں پر سرداریاں قائم رہنے کے سوہلے گاتے پھریں گے۔ سننے میں آیا ہے دلیپ کا سسر تو داماد کو گھر کے آنگن میں ہی جھٹکانے لگا تھا۔ سردارنی بیچ میں کھڑی ہوگئی تو بچ گیا۔ جاکر دیکھ ذیلداروں کی حویلی میں کیسا مہابھارت مچا ہوا ہے۔ سردارنی منہ سے آگ اگلتی پھرتی ہے۔‘‘
’’ہم ہیں مراثی۔ دھرپاتال کی خبریں رکھنے والے۔ ہماری کہی بات کبھی جھوٹی نہیں ہوئی۔ یاد رکھنا دونوں طرف سے ایک آدھ کی ٹکر ضرور ہونی ہے۔۔۔ورک بڑی طاقت والی ذات ہے۔ یہ سندھو ہو گئے ہیں بنیے، پیسے کے پیر، ہری مرچ اور پیاز بیچنے والے۔‘‘
’’اچھا بابا۔ جو ایشور کرے۔ شام ہو چلی ہے۔ چل کر روٹی پانی کریں۔‘‘ بیلی براہمن اپنی جھاری سنبھالتا اٹھا تو سب چنٹیوں کی طرح پیچھے ہولیے۔
سورج اگنے سے پہلے ہی تیج کور نے بہو بیٹے کو تیار کر دیا۔ دو گھوڑیا، اک پر دلیپ دوسری پر روتی دھوتی پورو اپنی بچی کو چھاتی سے لگاکر بیٹھ گئی، اور جاتی بار اونچی چیخ مار کر کہا، ’’بے بے جی میری بھول چوک معاف کر دینا۔ اس بھرے پرے گھر سے میرا ان دانا ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا ہے۔‘‘
پورو کی منت بھری بات سن تیج کور نے ناک چڑھاتے ہوئے کہا، ’’غلطیاں اپنے باپ اور بھائی سے جاکر معاف کرا۔ تو ان کے سر چڑھ کر ہی چلی ہے۔‘‘
گھمنی میں شور مچ گیا کہ شیر سنگھ ورک کا داماد اس کی بیٹی کو لوٹانے آیا ہے۔ لڑکی سر پر ہاتھ دہاڑیں مارتی حویلی میں آ گئی ہے۔۔۔واہے گورو تیرے رنگ نیارے۔ چھوٹی سی بات پر دونوں گھروں میں بڑی دراڑ پڑ گئی ہے۔ دلیپ سنگھ کو اس کی ساس نے بازو سے پکڑ کر اندر کھینچتے ہوئے کہا، ’’آمیرا سیانا پتر۔ پانی پی کر جانا، اتنا راستہ چل کر آیا ہے۔‘‘ لیکن وہ گھوڑی کی نیام پکڑے حویلی کے باہر والے دروازے پر ہی کھڑا رہا اور اس نے اپنے منہ سے کوئی بات نہ نکالی۔
پورو لڑکی کو چھاتی سے ساتھ لگاکر کھڑی کبھی اپنے باپ کی طرف دیکھتی، کبھی اپنے پتی کی طرف۔ دونوں چپ تھے۔ کسی کو کوئی بات نہیں سوجھ رہی تھی۔ اتنے میں چیت سنگھ کا باپ باپو بوڑھ سنگھ آ گیا۔ جس کی سفید اور سیدھی لمبی داڑھی، چمٹی سے تیکھی کی ہوئی مونچھیں، پگڑی میں سے جھانکتا ننگا جوڑا، لگتا تھا باپو اصلی ورک ہے۔ اس نے ساری بات جانچتے ہوئے زمین پر کھونٹا مار اپنی بہو کی طرف منہ کرتے ہوئے کہا،
’’ارے لڑکیوں۔ کیوں! او بےشرم آدمیوں کی منت کرتی ہو۔ جا اوے لڑکے۔ دوڑ یہاں سے۔ جو تم نے ہمارے ساتھ کیا ہے، اچھا ہی کیا ہے۔ تم نے ہماری پگڑی پر ہاتھ ڈالا ہے۔ اوے سمجھوں گا۔ پوتی بیوہ ہوکر گھر آ بیٹھی ہے۔ یہاں پہلے اتنے جنے پل رہے ہیں۔ یہ دونوں ماں بیٹی بھی پل جائیں گے۔ تو چھوڑ چلا ہے میری بیٹی کو ہمارے دروازے پر۔ دیکھنا کیا ہوتا ہے۔ تمہارے کیے کا مول اداکریں گے۔ تم لوگوں نے میری داڑھی کھینچی ہے۔‘‘ پاس کھڑے سب ڈر رہے تھے۔ بات تو پہلے ہی بگڑ چکی ہے۔ اگر باپو نے دلیپ کی گردن پر کھونٹا جڑ دیا تو کسی جگہ منہ دکھانے کے لائق نہیں رہیں گے۔ چیت سنگھ نے دلیپ کو بازو سے پکڑ کر ہلاتے ہوئے کہا، ’’اب بندے کا پتر بن کر چلا جا یہاں سے۔ بہت ہو گئی ہے ہمارے ساتھ۔‘‘
پورو کو میکے آئے چھ مہینے ہو گئے تھے۔ تناؤ کچھ کم ہوگیا تھا۔ لیکن فکر دونوں طرف کے لوگوں کو کھائے جا رہی تھی۔ کوئی نہ کوئی بات سندھوں کی ورکوں کو سنا جاتا اور ورکوں کی سندھوؤں کو۔ دونوں طرف کے لوگ گھر بیٹھے کبھی کبھار اچھل پڑتے۔ فکر پیچھا نہ چھوڑتی۔ لیکن غلطی کوئی نہ مانتا۔ بات ساری بچھڑے کی تھی۔ اور بچھڑا بن گیا دونوں گھروں کی خودداری کا سوال۔
باپو بوڑ سنگھ کا بوڑھا بھائی جگت سنگھ خبر لینے آیا۔ سردی کا موسم، میدان میں چارپائیاں بچھیں تھیں۔ تایا جگت سنگھ نے ساری بات سن پاس بیٹھے سارے لوگوں کی طرف دیکھ کر کہا، ’’اوے بوڑسیاں، تو بڑا بوڑھا ہوکر لگا ہے دونوں گھروں میں جلتی پر تیل ڈالنے۔ مار دینا ہے تمہاری ضدوں نے لڑکی بیچاری کو۔ بندے بنو اور میرے ساتھ کر دو وداع بی بی پورو کو۔ میں اس کو آپ جاکر چھوڑ آتا ہوں، بیٹیوں کا گزارا کبھی مائیکے میں نہیں۔ چاہے راجے کی کیوں نہ ہو۔‘‘
’’تاؤ تو جو سزا دےگا مان لیں گے لیکن بچھڑا تو لوٹانا ہمارے بس سے باہر کی بات ہے۔‘‘ بوڑ سنگھ نے تمک کر کہا۔
اگلے دن باپو جگت سنگھ اور پورو کو شنگارے کی ماں نے تیار کر دیا۔ بیل گاڑی بھر کر کتنا کچھ ساتھ دے کر وداع کیا۔ بیٹی چھ مہینے بعد سسرال جا رہی تھی۔ ساتھ دونوکر بھیجے۔ ایک لڑکی کو اٹھالےگا اور دوسرا لوٹتی بار پورو والی گھوڑی لیتا آئےگا۔
سردارنی تیج کور نے گھر آئے سمدھی کی پوری آؤبھگت کی اور ہاتھ پیر جوڑ کر لڑکی کو گھر میں چھوڑکر جگت سنگھ دوسرے دن اپنے گھر چلا گیا۔ ایک بار پھر دونوں طرف سکھ کی سانس آئی۔
تیج کور کو ساری رات نیند نہیں آئی۔ اس کی پیٹی میں سے ساری گولیاں ختم ہو گئی تھیں۔ وہ سوچتی اگر سردار جگت سنگھ کو پورو کے ساتھ لوٹا بھیجتی تو بڑی بےعزتی والی بات تھی۔ اتنا ہونے پر بھی بات وہیں کی وہیں ہی رہی۔ جیت تو ہو گئی ورکوں کی۔ جنہوں نے اپنی طاقت کے زور سے بیٹی بسالی اور بچھڑا بھی نہیں لوٹایا۔ اس خیال کے آتے ہی اس کا کلیجہ جل اٹھتا۔ اسے اپنے چاروں طرف آگ لگی ہوئی معلوم ہوتی۔ اس حالت میں کس کو نیند آتی؟
پورو کو سسرال آئے دو ایک مہینے گزر گئے تھے۔ ورک خوش تھے کہ سب طرف سے راحت مل گی۔ لڑکی اپنے گھر سکھ سے بستی ہے لیکن تیج کور کے دل میں تو آگ کے بھبھوکے اٹھ رہے تھے۔ اس کو یہ بھی پتہ لگ گیا تھا کہ پورو کے گھر پھر بچہ ہونے والا ہے۔۔۔بچہ ہونے والا ہے تو کیا ہوا؟ خود دار سردارنی کے سامنے یہ کوئی روکاوٹ نہیں تھی۔ وہ جانتی تھی کہ گاؤں کی نظروں میں ہی نہیں علاقے بھر ی نظروں میں حویلی کھنڈر ہوکر رہ گئی ہے۔
ایک دن سویرے سویرے تیج کور پھر جوش میں آ گئی اور اس کے گرجنے کی آواز سنائی دی۔ وہ دلیپ سنگھ سے کہہ رہی تھی، ’’پورو کو میکے چھوڑ آ، ہم نے اسے اپنے گھر نہیں رکھنا۔‘‘ بھابی کی تیکھی آواز سن کر سادھو سنگھ دوڑا آیا۔ اس وقت وہ کہہ رہی تھی۔ ’’دیلپا کہنا مان اور بہو کو مائیکے چھوڑ آ۔ ہم نے ورکوں کی بیٹی گھر نہیں رکھنی۔‘‘ وہ بیٹے کو اس طرح سمجھا رہی تھی جیسے لڑکا دوکان سے غلط چیز لے آیا ہو، اور وہ اسے لوٹانے کے لیے زور دے رہی ہو۔
سادھو سنگھ بھابی کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا ’’بھابی آپ کو بابے نانک کا واسطہ، اور نہ میرے سر میں خاک ڈالو۔ کیوں لگی ہے میرے سر پر پاپ کی گٹھری باندھ کر رکھنے؟ پہلے ہی ہمارے ساتھ بہت ہو گئی ہے۔ نہ کر اور ہماری بدنامی سارے علاقے میں۔ میں ساٹھ روپوں کا بچھڑا کیا لے آیا۔ دونوں گھروں کے لیے وہ یَم بن کر کھڑا ہو گیا ہے۔ رہنے دے بی بی کو اپنے گھر۔۔۔ہائے اوے میرے واہے گورو۔ میں کہاں جاکر ڈوب مروں۔‘‘
’’سادھیا تو جہاں بیٹھا ہے، بیٹھا رہ۔ ڈوب کر مرتی ہیں عورتیں۔ جاٹوں کا بیٹا ہوکر چھوٹی سی بات پر مرنے چل پڑا ہے۔ اٹھا کلہاڑی اور کھول لاورکوں کے گھر سے بچھڑا۔ پتہ چلے کہ سندھوؤں کے گھر ایک تو شیر پتر پیدا ہوا ہے۔۔۔حویلی کی چاہے اینٹ سے اینٹ بج جائے، میرے گھر میں چوروں کی بیٹی کا بسیرا نہیں ہو سکتا۔ لوگ کتوں کی کون سے بات ہے۔ خود ہی بھونک بھونک کر چپ ہوجائیں گے۔ میرے بیٹوں، میرے دیوروں، میرے بھتیجوں نے نہ چوری کی ہے، نہ سیندھ لگائی ہے۔ شریف گھروں کے بیٹے شریف بن کر رہیں گے۔ کرتا دلیپ سنگھ شنگارے جیسی حرکت، میں کھال نہ ادھیڑ دیتی تو گل سرداروں کی بیٹی نہ کہتے۔ لوگ کہتے ہیں چور کو نہیں چور کی ماں کو مارو تاکہ دوبارہ کوئی چور پیدا نہ کرے۔ لگا ہے میرے سامنے مراثیوں کی طرح ہاتھ جوڑنے۔۔۔ بڑا۔۔۔‘‘
دلیپے نے پورو کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا تو پورو کا چھوٹا دیور جانے کے لیے تیار ہو گیا۔ وہ دلیپے سے چھ انگلی اونچا بھی تھا اور دوہرے بدن کا بھی۔ روتی بلکتی پورو پھر اں کے دروازے پر آ کھڑی ہوئی۔ بیٹی کی حالت دیکھ کر ماں دونوں ہاتھوں سے سر پیٹنے لگی۔ اپنی چھاتی پر دہتڑ مارتے ہوئے اس نے کہا۔ ہائے وے لوگو پچھاڑ کر مارنے لگا ہے میری بیٹی کو بھیڑیوں کا خاندان۔‘‘ پورو کی ماں کی چیخیں سن کر گھر اور باہر کے لوگ اکٹھے ہو گئے۔
دلیپے کے بھائی نے ایک گھوڑی پرچھلانگ لگائی اور دوسری کی لگام سنبھالتا نو دو گیارہ ہو گیا۔
گھر میں ایک بار پھر کہرام مچ گیا۔ باپو بوڑ سنگھ اپنے ہاتھ کو بار بار دانتوں تلے کاٹتا اور کہتا، ’’اوے کتیو۔ تم نے لڑکے کو بھاگنے کیوں دیا؟ چھین لیتے دونوں گھوڑیاں اور اس کنجرے کے پتر کی مشکیں باندھ پھینک دیتے آنگن میں۔ جب کوئی چھڑانے آتا تب دیکھ لیتا۔ پہلے انہوں نے کون سی ہماری ٹانگ توڑ دی ہے۔ بڑی چوٹ جو ان کنجر کے پتروں نے مارنی تھی مار لی۔‘‘
بوڑ سنگھ کو بار بار اپنے بھائی جگت سنگھ پر غصہ آتا اور کہتا، ’’اوے بھائی جگتیا تو نہ بیچ میں پڑتا تو ہم پر یہ قہر نہ ٹوٹتا۔ دو ہزار روپے لگاکر چھ مہینے نہیں ہوئے ہیں بیٹی کو وداع کیے، اگلوں نے ڈکار نہ مارا اور لگا دی ہے ہمارے دروازے پر آگ۔‘‘
چیت سنگھ کھونڈا کھٹکھٹاتے باپو بوڑ سنگھ کو مشکل سے کھینچ کر اندر لے گیا۔ کچھ دیر بعد اپنے آپ خاموشی چھا گئی۔ پورو بےہوش سی ہو زمین پر لڑکی کو چھاتی پر رکھ کر لیٹ گئی۔ گھر کا ہر فرد شمشان میں جلتی ہوئی لاش کی طرح اندر سے جل رہا تھا اور لگتا تھا گھر کے تباہ ہونے کے دن نزدیک آ گئے ہیں۔
ایک بار پھر دونوں طرف کا ماحول پرسکون ہو گیا، جیسے لمبی بیماری کے بعد گھر کا کوئی آدمی مر گیا ہو۔
کچھ مہینوں کے بعد شام کے وقت تیج کور دودھ سمیٹ کر اندر آئی ہی تھی کہ حویلی کے دروازے کو آکر کسی نے کھٹکھٹایا۔ گوپال سنگھ اور تیج کور دوڑ کر باہر آئے۔ اندھیرے میں گھوڑے پر چڑھا کوئی انجان آدمی لگتا تھا۔ اس آدمی نے گھوڑے سے اترے بنا کہا، ’’سردارجی! میں گھمنی سے آیا ہوں بی بی پورو کے گھر بچہ ہوا تھا۔ لیکن واہے گورو کی مرضی۔ ماں بیٹا دونوں پورے ہو گئے ہیں۔ سویرے سنسکار کرنا ہے۔‘‘
یہ سن کر تیج کور کے پاؤں تلے سے زمین کھسک گئی اور اس نے لوٹتے ہوئے آدمی کے گھوڑے کی لگام پکڑ کر ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا، ’’سوہنیا، دیکھ میرے ہاتھوں کی طرف۔ ورک سرداروں کو میری طرف سے ہاتھ جوڑ کر کہنا کہ میرے آنے سے پہلے میرے بہو اور پوتے کا سنسکار نہ کریں۔ ہم پہنچے کہ پہنچے۔‘‘
نوکر نے پیٹھ گھمائی اور سردارنی نے اسی آواز میں ’’سیاپا‘‘ شروع کیا۔ ’’ہائے وے لوگو۔ چلا گیا ہے میرا چاند سا پوتا ماں کے ساتھ۔۔۔ بنا شکل دکھائے۔‘‘
حویلی اکھٹی ہوگئی، گاؤں اکٹھا ہو گیا۔ تیج کور سر پر ہاتھ رکھ کر بلک رہی تھی۔ اس کا دوپٹہ زمین پر گر گیا۔۔۔بال کھل گئے۔ ساتھ ہی کہا، ’’ہائے میں مر کیوں نہ گئی۔ ہنستا کھیلتا گھر اجڑ گیا ہے۔‘‘
کچھ پلوں کے لیے سردارنی تیج کور ایک دم چپ ہو گئی۔ اس نے بوڑھی نائن اور جیوان میراشن سے کہا، ’’ابھی گاؤں جگ رہا ہے۔ رشتہ داروں کو خبر کر آؤ۔ ارے سادھیا، ارے دلیپا، کسو گھوڑیاں، میں اب ایک پل نہیں رک سکتی۔‘‘ سردارنی جگہ جگہ سب پر حکم چلا رہی تھی۔ حویلی میں بھگدڑ مچ گئی۔ رشتے دار، برادری کے لوگ گھوڑے اور بائیسکل لے کر حویلی کے سامنے آکر اکٹھے ہو گئے۔
رشتے کی عورتیں، آدمی منہ جوڑ کر باتیں کرتے، لیکن سردارنی کے سامنے کسی کی سانس بھی اونچا لینے کی ہمت نہیں تھی۔
چالیس پچاس لوگوں کا یہ قافلہ دن چڑھتے ورکوں کے گاؤں جا پہنچا، گھوڑے گھوڑیاں گاؤں کے باہر والے کنویں پر نوکروں کے پاس کھڑے کر دیے گئے۔ اپنی ریشمی چادر کو سنبھالتی آگے آگے چلتی سردارنی تیج کور نے گلی کا موڑ مڑتے ہی بانہیں پھیلاکر چیختی آواز میں کہا، ’’اوے لوگو۔ میں دن دہاڑے لٹ گئی۔ چلا گیا ہے سندھوؤں کا شیر پتر بنا کچھ دیکھے۔ مار دیا میرا شیر پوتا ان کی ضدوں نے۔‘‘
بین کرتی ہوئی سردارنی تیج کور کے منہ سے جھاگ نکل رہے تھے۔ چادر سرک کر اس کے کندھوں پر آ پڑی تھی۔ ڈیوڑھی میں چارپائی پر پڑے دونوں ماں بیٹے کے منہ سفید چادر سے ڈھکے ہوئے تھے۔ سردارنی نے پورو کا منہ ننگا کر کئی بار چومتے ہوئے کہا۔ وے لوگو۔ بس میں کرلی میری چندن کی گیلی۔ وے بچے۔ دیکھ تو سہی کون آیا ہے۔ وے بیٹا۔ تیری بارات کا وقت۔ وے تاؤ او رچاچے۔ اس آواز کے ساتھ ہی تیج کور نے پورو کی چارپائی میں سر دے مارا اور ساتھ ہی لہو کی دھار سردارنی کے ماتھے سے نکل کر پورو کی سفید چادر پر پھیل گئی۔ لوگوں نے سردارنی کو بازوؤں میں بھر چارپائی سے دور کیا۔ وہ کہتی جاتی، ’’مجھے کیوں نہیں کچھ ہو جاتا۔ پیچھے رہ گئی میں دکھ بھوگنے کے لیے، چلی گئی میری گھر کی رانی، پتر کو ساتھ لے کر۔‘‘
سردارنی کے ماتھے کی چوٹ سے ابھی بھی لہو بہہ رہا تھا۔ وہ اپنی پوتی کو چھاتی سے لگائے اس وقت تک گود میں لیے بیٹھی رہی جب تک آدمی شمشان سے لوٹ کر واپس نہیں آ گئے۔
مہریاں اور گھر کا اوپر کا کام کرنے والی عورتیں روٹی تیار کرنے میں مصروف تھیں۔ تب پورو کی چاچی نے تیج کور کا ہاتھ پکڑ کر کہا، ’’بی بی جو کچھ ہونا ہوتا ہے، اس کے سامنے کسی کی پیش نہیں چلتی۔ واہے گورو کا حکم ایسا ہی تھا۔ اٹھ گھونٹ پانی کا پی۔ رات کے بھوکے اور راستہ دس کوس۔‘‘
سردارنی تیج کور نے پورو کی چاچی کی منت بھری بات سن اس کی طرف ایک گہری نظر سے دیکھا، کندھے کے ساتھ پوتی کو لگاکر اٹھی اور ذرا سی رعب بھری آواز میں کہا، ’’میری طرف کیا دیکھتے ہو چلو گھروں کو چلیں سندھوں سرداروں۔ ان کے گھر کا دانہ پانی ہمارے لیے پچھلے سال کا ہی ختم ہو چکا ہے۔‘‘
گھوڑے گھوڑیاں ڈیوڑھی کے سامنے آ گئے تھے۔ تیج کور نے اپنی بھوری لال گھوڑی کے پاس کھڑے ہوکر پاس والے لڑکے سے کہا، ’’پکڑ ذرا میری بیٹی کو۔‘‘ اور خود رکاب میں پیر رکھ کر چڑھ گئی اور دونوں بانہیں پھیلا کر کہا، ’’پکڑا رے میری بچی کو۔‘‘
سردارنی نے پوتی کو چھاتی کے ساتھ دبوچتے ہوئے گھوڑی کو ایڑ لگائی اور ایک پل کے لیے پیچھے مڑکر نہیں دیکھا کہ کون کون کھڑا ہے۔ گھوڑیوں کی اڑتی دھول میں سردارنی غائب ہو گئی اور ورک سردار بیٹھتی مٹی کو دیکھتے رہ گئے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.