Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

سرگم کولا

اصغر وجاہت

سرگم کولا

اصغر وجاہت

MORE BYاصغر وجاہت

    کہانی کی کہانی

    آرٹ اور کلچر کے نام پر جاری لوٹ کھسوٹ اور فن سے بے بہرہ لوگوں کو طنز کی زد میں لیا گیا ہے۔ داس گپتا سنگیت پارکھی ہیں لیکن ان کے پاس ٹکٹ کے پیسے نہیں ہیں کہ وہ اندر جا سکیں اس لیے وہ آڈیٹوریم کے باہر ہی پان کھوکھا پر جا کر آگ تاپنے لگتے ہیں۔ اندر سے نوجوانوں کا ایک گروپ آتا ہے جو مسلسل انگلش میں بات کرتا ہے اور جس کا سنگیت سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں سوائے اس کے کہ وہ اعلی طبقے سے ہیں اور ٹکٹ خریدنے کے لیے ان کے پاس پیسے ہیں یا مفت میں ان کو ٹکٹ فراہم کیا گیا ہے۔ آخر میں ایک پولیس افسر کا ڈرائیور اندر سے چار پاس مانگ لاتا ہے، ایک پاس داس گپتا کو دے دیتا ہے اور تین آگ میں ڈال دیتا ہے۔

    جیسے کتوں کے لیے کاتک کا موسم ہوتا ہے ویسے ہی آرٹ اور کلچر کے لیے جاڑے کا موسم ہوتا ہے دلی میں۔ گوری چمڑی والے سیاح بھرے رہتے ہیں۔۔۔ کھلکھلاتے، ابلتے، چہکتے، رجھاتے، لبالب۔۔۔ ہمارے کلچر کے سب سے بڑے خریدار اور اسی لیے پارکھی۔ بڑے گھروں کی عورتیں، لپی پتی، کیلنڈر آرٹ۔۔۔ جن سے حقارت کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔۔۔ جاڑے کی شامیں کسی آرٹ گیلری اور ناٹک دیکھنے میں گزارنا پسند کرتی ہیں۔ جاڑا آرٹ اور کلچر کا موسم ہے۔

    سورج جلدی ہی ڈوب جاتا ہے اور نرم ملائم گرم کپڑوں سے ٹکراتی تازگی دینے والی ہوا آرٹ گیلریوں اور آڈیٹوریموں کے آس پاس مہک جاتی ہے؛ ایسی خوشبو جو نامرد کو مرد بنا دے اور مرد کو نامرد۔ لوگ آرٹ اور کلچر میں ڈوب جاتے ہیں۔ آرٹ اور کلچر لوگوں میں ڈوب جاتے ہیں۔

    میوزک کانفرنس کے گیٹ پر چار سپاہی کھڑے تھے۔ اوبے، اکتائے۔۔۔ ڈنڈے لیے۔ ان کے پیچھے دو انسپکٹر کھڑے تھے، گردن اکڑائے، کیونکہ ان کے سامنے چارسپاہی کھڑے تھے۔ پھر دو سوٹ دھاری تھے۔ سوٹ دھاریوں کے سوٹ ایک سے تھے۔ بنوائے گئے ہوں گے۔ سوٹ دھاری کافی ملتی جلتی شکل کے تھے۔ کافی مشکل سے کھوجے گئے ہوں گے۔

    گیٹ کے سامنے بجری پڑا راستہ تھا۔ بجری بھی ڈالی گئی ہوگی۔ پھولوں کے گملے زمین کے اندر گاڑ دیے گئے تھے۔ نہ جاننے والوں کو تعجب ہوتا تھا کہ اوسر میں پھول اگ آئے ہیں۔ اوپر کاغذ کے سفید پھولوں کی چادر سی تانی گئی تھی جو کچھ سال پہلے تک۔۔۔ کاغذ کے پھولوں کی نہیں، اصلی پھولوں کی۔۔۔ پیروں فقیروں کی مزاروں پر تانی جاتی تھی۔ پھر شادی بیاہ میں لگائی جانے لگی۔ دونوں طرف غلاف چڑھے بانس کے کھمبے تھے۔ ان غلاف چڑھے بانسوں پر ٹیوب لائٹیں لگی تھیں۔ اسی راستے سے اندر جانے والے جا رہے تھے۔ داس گپتا کو گیٹ کے بالکل سامنے کھڑے ہونے پر صرف اتنا ہی دکھائی دے رہا تھا۔ جانے والے دکھائی دے رہے تھے، جو اونچے اونچے جوتوں پر اپنے قد کو اور اونچا دکھانے کی ناکام کوشش میں اس طرح لاپروائی سے ٹہلتے ہوئے اندر جا رہے تھے جیسے پورا اہتمام انہی کے لیے کیا گیا ہو۔

    ادھیڑ عمر کی عورتیں تھیں جن کی شکلیں ولایتی کاسمیٹکس نے ڈراؤنی سی بنا دی تھیں۔ لال ساڑی، لال آئی شیڈو، نیلی ساڑی، نیلی آئی شیڈو، کالی کے ساتھ کالا، پیلی کے ساتھ پیلا۔ جاپانی ساڑیوں کے پلو کو لپیٹنے کی کوشش میں اپنے ادھ کھلے سینے دکھاتی، کشمیری شالوں کو لٹکنے سے بچاتی یا صرف سامنے دیکھتی۔۔۔ یا جینز اور جیکٹ میں کھٹ کھٹ کھٹ کھٹ۔ رئیسی کی یہی نشانیاں ہیں، داس گپتا نے من ہی من سوچا۔ گمبھیر، بھیانک روپ سے گمبھیر چہرے، خود اطمینانی سے تمتمائے، فخر سے دمکتے ہوئے، دولت، شہرت، عزت سے مطمئن، ناامیدی سے عاری۔ ’’سالا کون آدمی اس کنڑی میں اتنا کانفیڈنس ڈیزرو کرتا ہے؟‘‘ داس گپتا اپنی ڈیزرو کرنے والی فلاسفی بدبدانے لگے۔ سامنے سے بھیڑ گزرتی رہی۔ ہیپ لڑکیاں۔۔۔ عجیب عجیب طرح کے بال۔۔۔ گھسی ہوئی جینز۔۔۔ مرد مار لڑکیاں۔ ان کو سونگھتے ہوئے کتے۔۔۔ کتے ہی کتے۔۔۔ ڈاگی۔۔۔ ڈاگیز۔۔۔ سویٹ ڈاگیز۔

    پروگرام شروع ہو گیا۔ بھیم سین جوشی کا گائن شروع ہو چکا تھا لیکن داس گپتا کا کوئی جگاڑ نہیں لگ پایا تھا۔۔۔ بنا ٹکٹ اندر جانے کا جگاڑ۔

    گیٹ بجری پڑے راستے، سوٹ سے آراستہ استقبال کرنے والوں، پولیس انسپکٹروں اور سپاہیوں سے دور، باہر سڑک پر داہنی طرف ایک گھنے پیڑ کے نیچے عجب سنگھ اپنا پان سگریٹ کا کھوکھا رکھے بیٹھا تھا۔ تعجب کی بات ہے مگر سچ ہے کہ اتنے بڑے شہر میں داس گپتا اور عجب سنگھ ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔ داس گپتا گیٹ کے سامنے سے ہٹ کر عجب سنگھ کے کھوکھے کے پاس آکر کھڑے ہو گئے۔ سردی بڑھ گئی تھی اور عجب سنگھ نے تسلے میں آگ سلگار کھی تھی۔

    ’’دس بیڑی۔‘‘

    ’’تیس ہوگئیں دادا۔‘‘

    ’’ہاں، تیس ہو گیا۔ ہم کب بولا تیس نہیں ہوا۔۔۔ ہم تم کو پیسہ دےگا۔‘‘ داس گپتا نے بیڑی لے لی۔ ایک بیڑی تسلے میں جلتی آگ پر سلگائی اور خوب لمبا کش کھینچا۔

    ’’جگاڑ نہیں لگا دادا؟‘‘

    ’’لگےگا، لگےگا۔‘‘

    ’’اب گھر جاؤ۔ گیارہ بجنے کو ہیں۔‘‘

    ’’کیوں شالا گھر جائے؟ ہم کو بھیم سین جوشی کو سننے کا ہے۔۔۔‘‘

    ’’دوسادے بنارسی۔‘‘

    استاد بھیم سین جوشی کی آواز کا ایک ٹکڑا باہر آ گیا۔

    ’’ولز۔۔۔ کنگ سائز، یہ نہیں۔‘‘

    داس گپتا کھوکے کے پاس سے ہٹ آئے۔ اب آوازصاف سنائی دے گی۔۔۔ لیکن آواز بند ہو گئی۔۔۔ ایک آئیڈیا آیا۔ پنڈال کے اندر پیچھے سے گھسا جائے۔ بیڑی کے لمبے لمبے کش لگاتے وہ گھوم کر پنڈال کے پیچھے پہنچ گئے۔ اندھیرا پیڑ۔ وہ لپکتے ہوئے آگے بڑھے۔ ٹارچ کی روشنی۔

    ’’کون ہے بے؟‘‘ پولیس کے سپاہی کے علاوہ ایسے کون بولےگا۔

    داس گپتا جلدی جلدی پینٹ کے بٹن کھولنے لگے، ’’پیشاب کرنا ہے جی پیشاب۔‘‘ ٹارچ کی روشنی بجھ گئی۔ داس گپتا کا جی چاہا ان سپاہیوں پر موت دیں۔ سالے یہاں بھی ڈیوٹی بجا رہے ہیں۔۔۔ پیشاب کی دھار سپاہیوں پر پڑی۔ پنڈال پر گری۔ چوتیے نکل نکل کر بھاگنے لگے۔۔۔ داس گپتا ہنسنے لگے۔

    وہ لوٹ کر پھر کھوکے کے پاس آ گئے۔ پاس ہی میں ایک چھوٹے سے پنڈال کے نیچے کینٹین بنائی گئی تھی۔ دومیزوں کا کاؤنٹر۔ کافی پلانٹ۔ اوپر دوسو واٹ کا بلب۔ ہاٹ ڈاگ، ہیمبرگر، پاپ کارن، کافی کی پیالیاں۔ داس گپتا نے کان پھر اندر سے آنے والی آواز کی طرف لگا دیے۔ سب اندر والوں کے لیے ہے۔ جو سالا میوزک سننے کو باہر کھڑا ہے، چوتیا ہے۔ لاؤڈاسپیکر بھی سالے نے ایسا لگایا ہے کہ باہر تک آواز نہیں آتا اور اندر چوتیے بھرے پڑے ہیں۔ بھیم سین جوشی کو سمجھتے ہیں؟ استاد کی تانیں انجوائے کر سکتے ہیں؟ ان سے اگر یہ کہہ دو کہ استاد جوشی تانوں میں مند سپتک سے مدھیہ اور مدھیم سپتک سے تارسپتک تک سروں کا پل سا بنا دیتے ہیں، تو یہ سالے گھبراکر بھاگ جائیں گے۔۔۔ یہ بات بھیم سین جوشی کو نہیں معلوم ہوگا؟ ہوگا، ضرور ہوگا۔ سالے سنگیت سننے آتے ہیں۔ ابھی دس منٹ میں اٹھ کر چلے جائیں گے۔۔۔ ڈکار کر کھایں گے اور گدھے کی طرح پڑ کر سو جائیں گے۔

    ’’دادا، سردی ہے۔‘‘ عجب سنگھ کی انگلیاں پان لگاتے لگاتے اینٹھ رہی تھیں۔

    ’’شردی کیوں نہیں ہوگا۔ دشمبر ہے دشمبر۔‘‘

    ’’اینٹا لے لو دادا، اینٹا۔‘‘ عجب سنگھ نے داس گپتا کے پیچھے ایک اینٹ رکھ دی اور وہ اس پر بیٹھ گئے۔ جیسے جیسے سناٹا بڑھ رہا تھا، اندر سے آواز کچھ صاف آ رہی تھی۔ استاد بڑا خیال شروع کر رہے ہیں۔ داس گپتا اینٹ پر سنبھل کر بیٹھ گئے۔۔۔ پگ لاگنے دے۔۔۔ دھی دھی۔۔۔ دھاگے ترکٹ تو ناکا تادھاگے۔۔۔ ترکٹ دھی نا۔۔۔ یہ طبلے پر کون سنگت کر رہا ہے؟ داس گپتا نے اپنے آپ سے پوچھا۔ واہ، کیا جوڑ ہے!

    ’’یہ طبلے پر کون ہے؟‘‘ انہوں نے عجب سنگھ سے پوچھا۔

    ’’کیا معلوم کون ہے دادا۔‘‘

    کتنی متانت اور سنجیدگی ہے۔ اندر تک آواز اترتی چلی جاتی ہے۔۔۔ تونا کاتا۔۔۔

    ’’تمہارے پاس کیمپاہائے؟‘‘ تین لڑکیاں تھیں اور چار لڑکے۔ دو لڑکیوں نے جینز پہن رکھی تھیں اور ان کے بال اتنے لمبے تھے کہ کمر تک لٹک رہے تھے۔ تیسری کے بال اتنے چھوٹے تھے کہ کانوں تک سے دور تھے۔ ایک لڑکے نے چمڑے کا کوٹ پہن رکھا تھا اور باقی دو رسمی جیکٹ پہنے تھے۔ تیسرے نے ایک کالا کمبل لپیٹ رکھا تھا۔ ایک کی پینٹ اتنی تنگ تھی کہ اس کی پتلی پتلی ٹانگیں پھیلی ہوئی اور کچھ عجیب سی لگ رہی تھیں۔ لمبے بالوں والی لڑکیوں میں سے ایک لگاتار اپنے بال پیچھے کیے جا رہی تھی، جب کہ اس کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ تیسری لڑکی نے اپنی ناک کی کیل پر ہاتھ پھیرا۔

    ’’تمہارے پاس کیمپاہائے؟‘‘ لمبی اور پتلی ٹانگوں والے لڑکے نے کینٹین کے بیرے سے پوچھا۔ اس کا ایکسینٹ بالکل انگریزی تھا۔ وہ ’ت‘ کو ’ٹ‘ اور ’ہ‘ کو ’ی‘ کے ساتھ ملاکر بول رہا تھا۔ ’اے کو کچھ زیادہ لمبا کھینچ رہا تھا۔

    ’’نہیں جی، ابھی ختم ہو گیا۔۔۔‘‘

    ’’او، ہاؤسلی!‘‘ چھوٹے بالوں والی لڑکی ٹھنکی۔

    ’’ہاؤ اسٹوپڈ کینٹین دے ہیو۔‘‘

    ’’وی مسٹ کمپلینٹ۔‘‘

    ’’لیٹس ہیو کافی سویٹیز۔‘‘ لمبی ٹانگوں والے نے ادا سے کہا۔

    ’’بٹ آئی کانٹ ہیو کافی ہیئر!‘‘ جو لڑکی اپنی ناک کی کیل چھوئے جارہی تھی اور شاید ان تینوں میں سب سے زیادہ خوبصورت تھی، بولی۔

    ’’وائے مائی ڈیر؟‘‘ لمبی ٹانگوں والا اس کے سامنے کچھ جھکتا ہوا بولا اور یہ بات باقی دو لڑکیوں کو کچھ بری لگی۔

    ’’آئی آلویز ہیو کافی ان مائی ہاؤس آران اوبرائے۔‘‘

    ’’فائن، لیٹس گو ٹو اوبرائے دین!‘‘ لمبی ٹانگوں والا نعرہ لگانے کے سے انداز میں چیخا۔

    ’’سر۔۔۔ سر، کیمپا آ گیا۔‘‘ کینٹین کے بیرے نے سامنے اشارہ کیا۔ ایک مزدور اپنے سر پر کیمپا کا کریٹ رکھے چلا آ رہا تھا۔

    ’’او، کیمپا ہیز کم!‘‘ دوسری لڑکیوں نے کورس جیسا گایا۔ اندر سے بھیم سین جوشی کی آواز کا ٹکڑا باہر آ گیا۔

    ’’اوکیمپا آآآ۔۔۔ ہیز کم!‘‘ سب سر میں گانے لگے، ’’کے اے اے اے ماپا آآآآ۔۔۔ پار کرو، ارج سنو۔۔۔ او۔۔۔ پا آآآآ۔۔۔ کیمپا آآآ۔۔۔ پارکرو۔۔۔ پاآآآآجا۔۔۔ کیمپا آآآآ۔۔۔‘‘

    ’’بٹ ناؤ آئی وانٹ ٹوہیو کافی ان اوبرائے!‘‘ خوبصورت کیل والی لڑکی ٹھنکی۔

    ’’بٹ وی کیم ہیئر ٹو لسن ٹو بھیم سین جوشی۔‘‘

    ’’او، ڈونٹ بی سلی۔۔۔ہی ول سنگ فار دَ ہول نائٹ۔۔۔ہیو کافی ان اوبرائے دین وی کین کم بیک۔۔۔اِیون وی کین ہیو سلیپ اینڈ کم بیک۔۔۔‘‘ لمبی ٹانگوں والا چابیوں کا گچھا ہلاتا آگے بڑھا۔ بھیم سین جوشی کی دردناک آواز باہر تک آنے لگی تھی۔۔۔خود سے التجا کی آواز، دکھوں اور کشٹوں سے بھری پرارتھنا۔۔۔ارج سنو آآآ۔۔۔مووَوَ۔۔۔مووَوَوَ۔۔۔کھچاک۔۔۔ کھچاک۔۔۔کار کے دروازے ایک ساتھ بند ہوئے اور کرررر کررر کرر۔۔۔بھرررر بھررر بھرر۔۔۔

    بارہ بج چکے تھے۔ سڑک پر سناٹا تھا۔ سڑک کے کناروں پر دور دور تک موٹروں کی لائنیں تھیں۔ لوگ باہر نکلنے لگے تھے۔ زیادہ تر ادھیڑ عمر اور گمبھیر چہرے والے۔۔۔اکتائے اور خود میں کھوئے ہوئے۔۔۔موٹی عورتیں۔۔۔کمر کا لٹکتا ہوا گوشت۔۔۔جمائیاں آ رہی ہیں۔ سالے، نیند آنے لگی۔۔۔ٹکٹ برباد کر دیا۔ ارے استاد تو دو بجے کے بعد موڈ میں آئیں گے۔ بس ٹکٹ لیا۔۔۔منگوا لیا ڈرائیور سے۔ گھنٹے دو گھنٹے بیٹھے۔ پبلک ریلیشن۔۔۔یہ ٹکٹ ہی نہیں ڈیزرو کرتے۔۔۔پیشہ ویسٹ کر دیا۔۔۔استاد کو بھی ویسٹ کر دیا۔۔۔ایسی ردی آڈینس! جو لوگ جا رہے ہیں ان کی جگہ خالی۔۔۔اس میں شالا ہم کو نہیں بیٹھا دیتا۔ بولو، پیشا تو تم کو پورا مل گیا ہے۔ اب کیوں نہیں بیٹھائےگا؟

    داس گپتا کو سردی لگنے لگی اور انہوں نے ایئرفورس کے پرانے اوور سائز کوٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈال دیے۔ عجب سنگھ کچھ سوکھی پتیاں اٹھا لایا۔ تسلے کی آگ دہک اٹھی۔۔۔یہ سالا نکل رہا ہے ’آرٹ سینٹر‘ کا ڈائریکٹر۔ پینٹنگ بیچ بیچ کر کوٹھیاں کھڑی کر لیں۔ اب سینیٹری فٹنگ کا کاروبار ڈال رکھا ہے۔ یہی سالے آرٹ کلچر کرتے ہیں، کیونکہ ان کو پبلک ریلیشن کا کام سب سے اچھا آتا ہے۔ پارٹیاں دیتے ہیں۔ ایک ہاتھ سے لگاتے ہیں، دوسرے سے کماتے ہیں۔ اپنی وائف کے نام پر انٹیریئر ڈیکوریشن کا ٹھیکہ لیتا ہے۔ امِت سے کام کراتا ہے۔ اسے پکڑا دیتا ہے ہزار دو ہزار۔۔۔لڑکی سپلائی کرنے سے ووٹ خریدنے تک کے دھندے جانتا ہے۔۔۔دیکھو میوزک کانفرنس کی آرگنائزر کیسے اس کی کار کا دروازہ کھول رہی ہے۔۔۔بروشر میں دیا ہوگا ایک ہزار کا اشتہار۔ جیسے سؤر گوپر چلتا ہے اور اسے کھا بھی جاتا ہے، وہی یہ آرٹ کلچر کے ساتھ کرتے ہیں۔ فیکٹری نہ ڈالی ’کلاکیندر‘ کھول لیا۔۔۔امپورٹڈ کار کا دروازہ مہذب آواز کے ساتھ بند ہو گیا۔ کسم گپتا۔۔۔سالی نہ مس ہے نہ مسز ہے۔۔۔داس گپتا سوچنے لگے۔ کیوں نہ اس سے بات کی جائے۔ وہ تیزی سے گیٹ کی طرف بڑھ رہی تھی۔ اس سے انگریزی میں بات کی جائے۔

    ’’کین یو پلیز۔۔۔‘‘

    اس نے بات پوری نہیں سنی۔ مطلب سمجھ گئی۔ کندھے اچکائے۔

    ’’نو، آئی ایم ساری۔۔۔وی ہیو اسپینٹ تھرٹی تھاؤزنڈ ٹو ارینج دس۔۔۔‘‘ آگے بڑھتی چلی گئی۔

    تھرٹی تھاؤزنڈ، ففٹی تھاؤزنڈ، ون لیک۔۔۔فائدے، منافعے کے علاوہ یہ کچھ سوچ ہی نہیں سکتی۔ وہ آکر اینٹ پر بیٹھ گئے۔

    ’’ولز۔‘‘

    ’’میٹھا پان۔‘‘

    ’’نبّے نمبر ڈال، نبے۔۔۔‘‘

    ’’او، ہاؤ مین یو آر!‘‘ عورت نما لڑکی کو کمسن لڑکا اپنا ہیمبرگر نہیں دے رہا تھا۔ عورت نما لڑکی نے اپنا ہاتھ پھر بڑھایا اور کمسن لڑکے نے اپنا ہاتھ پیچھے کر لیا۔ ان کے ساتھ کی دوسری دو لڑکیاں ہنسے جا رہی تھیں۔

    ’’مین!‘‘ لڑکی ادا سے بولی۔

    مین؟ مین کا مطلب تو نیچ ہوتا ہے، لیکن یہ سالے ایسے بولتے ہیں جیسے سویٹ اور سویٹ کا مطلب مین ہوگا۔ کمسن لڑکا اور عورت نما لڑکی ایک ہی ہیمبرگر کھانے لگے۔ ان کے ساتھ والی لڑکیاں ایسے ہنسنے لگیں جیسے وہ دونوں ان کے سامنے مباشرت کر رہے ہوں۔

    ’’ڈِڈیو اٹینڈ ویٹ چاؤلاز پارٹی؟‘‘

    ’’اونو، آئی وانٹڈ ٹو گو، بٹ۔۔۔‘‘

    ’’مہراز گوزنائس پارٹیز۔‘‘

    ’’ہائے بابی!‘‘

    ’’ہائے لٹی!‘‘

    ’’ہائے جان!‘‘

    ’’ہائے کٹی!‘‘

    ’’یہ مہر از گوز نائس پارٹیز۔۔۔بکاز دے ہیو نائس لان۔۔۔لاسٹ ٹائم دیئر پارٹی واز ٹریفک۔۔۔دیئر واز ٹو مچ ٹو ایٹ اینڈ ڈرنک۔۔۔وی کیم بیک ٹو تھرٹی ان د مورننگ۔۔۔یو نو وائے وی ہیڈ ٹو کم بیک سوسون؟ مائی مدر ان لا واز دیئر ان اور ہاؤس۔۔۔ڈڈیو میٹ ہر؟ سو چارمنگ لیڈی ایٹ دی ایج آف سیونٹی تھری۔۔۔سواٹریکٹو، آئی کانٹ ٹیل یو۔۔۔‘‘

    ’’ڈڈیو لائیک د پروگرام؟‘‘

    ’’او ہی از سوہینڈسم۔‘‘

    ’’ڈڈیو نوٹس درنگ ہی واز ویرئنگ؟‘‘

    ’’اویس، یس۔۔۔بیوٹی فل۔‘‘

    ’’مسٹ بی ویری ایکس پنسو۔‘‘

    ’’اوشیور۔‘‘

    ’’مائی مدرز انکل گاٹ دسیم رنگ۔‘‘

    ’’دیٹ از پلیٹنم۔‘‘

    ’’ہے ویٹر، ٹو کافی۔‘‘

    سننے نہیں دیتے سالے۔ اب اندر سے تھوڑی بہت آواز آ رہی تھی۔ داس گپتا نے اینٹ کھسکالی اور انگیٹھی کے پاس کھسک آئے۔

    ’’ہی ہیز جسٹ کم بیک فرام یوروپ۔‘‘

    ’’ہی ہیز اے ہاؤس ان لنڈن۔‘‘

    ’’مسٹ بی ویری رچ۔‘‘

    ’’نیچر لی ہی ٹیکس ٹین تھاؤزنڈ فار اَنائٹ۔‘‘

    ’’دین آئی ول کال ہم ٹو سنگ آن اور میرج۔‘‘ کم عمر لڑکے نے عورت نما لڑکی کی کمر میں ہاتھ ڈال دیا۔

    سالے کے ہاتھ دیکھو! کلائیاں دیکھو! داس گپتا نے سوچا۔ اپنے بوتے پر سالا ایک پیسہ نہیں کما سکتا۔ باپ کی دولت کے بل بوتے پر استاد کو شادی میں گانے کو بلائےگا۔ عجب سنگھ نے پھر انگیٹھی میں سوکھے پتے ڈال دیے۔ بیڑی پیتا ہوا ایک ڈرائیور آیا اور آگ کے پاس بیٹھ گیا۔ اس نے خاکی وردی پہن رکھی تھی۔

    ’’سردی ہے جی، سردی۔‘‘ اس نے ہاتھ آگ پر پھیلا دیے۔ کوئی کچھ نہیں بولا۔

    ’’دیکھو جی کب تک چلتا ہے یہ چتیاپا۔ ڈیڑھ سو کلومیٹر گاڑی چلاتے چلاتے ہوا پتلی ہو گئی۔ اب سالے کو مجرا سننے کی سوجھی ہے۔ دو بجنے۔۔۔‘‘

    ’’صبح چھ بجے تک چلےگا۔‘‘

    ’’تب تو پھنس گئے جی۔‘‘

    ’’پراجی، کوئی پاس تو نہیں ہے؟‘‘ عجب سنگھ نے ڈرائیور سے پوچھا۔

    ’’پاس؟ اندر جانا ہے؟‘‘

    ’’ہاں جی، اپنے دادا کو جانا ہے۔‘‘ عجب سنگھ نے داس گپتا کی طرف اشارہ کیا۔

    ’’دیکھو جی، دیکھتے ہیں۔‘‘

    ڈرائیور اٹھا اور تیزی سے گیٹ کی طرف بڑھا۔ لمبا تڑنگا۔ ہریانہ کا جاٹ۔ گیٹ پر کھڑے سپاہیوں سے اس نے کچھ کہا اور سپاہی سواگت کرنے والے کو بلا لایا۔ ڈرائیور زور زور سے بول رہا تھا، ’’پولیس سے آیا ہوں جی۔ ایس پی کرائم برانچ، نارتھ ڈسٹرکٹ کا ڈرائیور ہوں جی۔ ڈی وائی ایس پی کرائم برانچ اور ڈی ڈی ایم پی ٹریفک کی فیملی نے پاس منگایا ہے جی۔‘‘ وہ لاپروائی سے ایک سانس میں سب بول گیا۔ سوٹ دھاری سواگت کرنے والے نے سوٹ کی جیب سے پاس نکال کر ڈرائیور کی طرف بڑھا دیے۔ وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا آ گیا۔

    ’’سردی ہے جی، سردی ہے۔‘‘ ہاتھ آگے بڑھایا، ’’یہ لو جی پاس۔‘‘

    ’’یہ تو چار پاس ہیں۔‘‘

    ’’لے لو جی اب، نہیں تو کیا ان کا اچار ڈالنا ہے!‘‘

    داس گپتا نے ایک پاس لے لیا، ’’ہم چار پاس کا کیا کرےگا؟‘‘

    ہریانہ کا جاٹ کافی اوب چکا تھا، اس سوال پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اس نے بچے ہوئے تین پاس تسلے میں جلتی آگ میں ڈال دیے۔ ڈرائیور اور عجب سنگھ نے تسلے پر ٹھنڈے ہاتھ پھیلا دیے۔ داس گپتا گیٹ کی طرف لپکے۔ اندر سے صاف آواز آ رہی تھی۔۔۔ جا آآ آگو۔۔۔استاد الاپ لے کر بھیرویں شروع کرنے والے ہیں۔۔۔جا آآآگو۔۔۔مو۔۔۔پیا آآآآرے ے۔۔۔دھا دھیں دھیں دھاں دھاتیں تیں تا۔۔۔جا آگو وموودھ۔۔۔ ن۔۔۔ پیا آآآآرے ے ے ے۔۔۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے