ستی
ابانی اور سریندر دو وفادار دوست تھے۔ وہ ایک ہی گاؤں کے رہنے والے تھے اور بچپن کی بے فکری کا زمانہ یک جابسر کرنے کے بعد ایک ہی مدرسے اور پھر ایک ہی کالج میں داخل ہوئے تھے۔ لیکن اب وہ ایک دوسرے سے جدا ہوگئے تھے اس لیے کہ تلاش معاش نے انھیں جداہونے پر مجبور کردیا تھا۔ سریندر وطن کو خیرباد کہہ کر بہار چلاگیا مگر ابانی کلکتہ ہی میں رہا۔
لیکن پوجا کی تعطیلات وہ مل کر گزارا کرتے تھے۔ چنانچہ اس مرتبہ بھی سریندر حسب معمول کلکتہ آیا۔ اس کی بیوی بچوں کو لے کر اپنے والدین کے گھر چلی گئی تھی اور اس لیے سریندر اپنے دوست کی صحبت سے کامل آزادی کے ساتھ لطف اندوز ہوسکتا تھا۔
ایک روز صبح کے وقت وہ دونوں چائے پی رہے تھے کہ ان کے سامنے میز پر کچھ اخبار پھیلے ہوئے تھے کہ ابانی نے ایک گھونٹ پیتے ہوئے کہا، ’’جب تک خود کسی کے دل میں اصلاح کی خواہش پیدا نہ ہو، قانون اس کی اصلاح نہیں کرسکتا۔ لوگ بین الاقوامی شادی اور عمر کے تعین کے لیے مختلف قوانین نافذ کر رہے ہیں، کیا تمہارا خیال ہے کہ اس سے کوئی مفید نتیجہ نکلے گا؟ کوئی ان پر ذرا بھی توجہ نہ کرے گا۔‘‘
سریندر بولا، ’’ان کو توجہ کرنی پڑے گی۔ قانون گو کامل طور پر ان کی اصلاح نہ کرے لیکن اس سے رسوم و رواج کے برے نتائج کی کسی حدتک روک تھام ضرور ہوسکے گی۔ تم کو ہر گز یہ خیال نہ کرنا چاہیے کہ ساری کی ساری قوم ایک ساتھ اصلاح کی ضرورت محسوس کرنے لگے گی، لیکن وہ چند ہستیاں جن کو احساس پیدا ہوچکا ہے اب اپنے ان احساسات کو عملی جامہ پہناسکتی ہیں۔ قانون اس اصلاح کو دوسرے لوگوں کے لیے بھی لازم قرار دے دے گا۔ اس کے علاوہ لوگ خود بھی ان کی تقلید کریں گے۔ تمام اصلاحات رفتہ رفتہ اسی طرح رواج پذیر ہوئی ہیں۔‘‘
ابانی نے کہا، ’’لیکن بچپن کی شادی وغیرہ آہستہ آہستہ خود ہی مفقود ہوتی جارہی ہیں اور چند سال میں پوری طرح ان کا تدارک ہوجائے گا، اس لیے ہمارے گاؤں والوں کواس کی ضرورت نہیں کہ ان لوگوں میں شریک ہوکر دنیا میں اپنی تحقیر کرائیں۔‘‘
سریندر نے جواب دیا، ’’مجھے اس سے اختلاف ہے۔ یہ عیوب اور گمراہیاں ہماری فطرت میں بہت گہری بنیاد ڈال چکی ہیں اور اب انھیں آسانی سے نہیں اکھاڑا جاسکتا۔ ہم کیوں دوچار سال اور انتظار کریں جب کہ ان بری رسوم کو اب بھی ترک کراسکتے ہیں۔ جو اصلاح ہم دس سال کے بعد شروع کرنے والے ہیں اگرآج ہی شروع کردیں تو دس ہزار لڑکیوں کو خطرات سے بچاسکتے ہیں۔‘‘
ابانی نے کہا، ’’واقعی انسان کی زندگی ہر قیمت سے بالا ہے۔ ہم محض ایک بری رسم کی خاطر بے شمار جانوں کی قربانی نہیں کرسکتے لیکن میں یہ پسند نہیں کرتا کہ قانون ہمارے اخلاقی معاملات میں دخل دے کیوں کہ اس وقت قانون سازی اور قانون شکنی غیر ملکیوں کے ہاتھ میں ہے اور ہم سیاسی حقوق سے محروم ہیں، اگر ہم انھیں اپنے لیے اخلاقی قانون بنانے کی طرف متوجہ کریں گے تو ہم غلاموں سے بھی بدتر ہو جائیں گے۔‘‘
سریندر نے سگریٹ جلایا اور سلائی پھینکتے ہوئے بولا، ’’اصلاح کے لیے ہمیں ایک حقیر برائی کو اختیار کرلینا چاہیے۔ غلامی ایک بری چیز ہے لیکن خودکشی بدترین شے ہے۔ کیا تمہارا خیال ہے کہ ہمیں ستی جیسی رسم اور مذہب پر اپنی عورتوں اور بچوں کی قربانی کو روکنے کے لیے بھی قوانین کی ضرورت نہیں؟‘‘ ابانی نے جواب دیا، ’’مجھے اتنی دور جانے کی ضرورت نہیں۔ جہاں انسان کی زندگی کا سوال پیدا ہو، وہاں اس کو ہر امر پر ترجیح دی جاسکتی ہے۔‘‘
سریندر نے پوچھا، ’’مگر کیا تمام عمر رنج و الم میں زندہ رہنا اس سے کم تکلیف دہ ہے کہ کوئی اپنے آپ کو نذرِآتش کردے۔‘‘
ابانی چند لمحوں تک ساکت رہا پھر بولا، ’’میں ستی یا بچوں کی قربانی کو جائز نہیں سمجھتا۔ لیکن ان کے متعلق ایک بات ضرور کہوں گا کہ ان رسوم و رواج نے محبت اور مذہبی جوش کے اثرات کا بہت کافی ثبوت بہم پہنچایا ہے۔ قانون نے ان سب کو موقوف کردیا ہے، اب کوئی ستی یا بچوں کی قربانی کا خیال نہیں کرسکتا۔ مگر کیا تم سمجھتے ہو کہ اس طرح انسان کے دل سے تعلق رکھنے والی قربانی کو کسی قدر محدود کردیا گیا ہے؟‘‘
سریندر نے کہا، ’’جاہلانہ باتیں نہ کرو۔ قانون انسان کی فطرت نہیں بدل سکتا۔ کیا تمہارا خیال ہے کہ موجودہ زمانہ میں جو خواتین اپنے شوہروں سے محروم ہوجاتی ہیں، ان میں سے کوئی اپنے شوہر سے محبت نہیں کرتی یا وہ اس کے لیے وہ تمام قربانیاں نہیں کرسکتی جو عہد گزشتہ کی خواتین نے کی ہیں۔‘‘ ابانی نے جواب دیا، ’’مجھے اس میں شبہ ہے۔ میرا خیال ہے کہ وہ سمجھ ہی نہیں سکتیں کہ پہلے زمانے کی عورتوں نے کیسے کیسے بہادرانہ کارنامے کیے ہیں۔‘‘ سریندر بولا، ’’یقناً وہ سمجھ سکتی ہیں۔ اگر تمہیں فرصت ہو تو میں تمہیں اپنا ایک واقعہ سناؤں۔‘‘ ابانی نے کہا، ’’مجھے بھلاکب انکار ہوسکتا ہے۔‘‘
سریندر مذاق سے بولا، ’’مگرتم اپنی بیگم صاحبہ کو بھی کیوں نہیں بلالیتے۔ یہ واقعہ وفاشعاری کا ایک بہترین درس ہے۔‘‘ ابانی نے کہا، ’’اسے کھانے پکانے ہی میں مشغول رہنے دو۔ اطاعت گزاری کا یہ اس سے بہتر درس ہے۔‘‘
سریندر بولا، ’’جیسی تمہاری مرضی ہو۔۔۔ مجھے کہنا یہ ہے کہ شاید تمہیں یاد ہوگا جب میں نے یہاں وکالت شروع کی تھی تو مجھے بے حد مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس وقت میرے پاس کچھ نہ تھا۔ والدین نے بھی کوئی جائداد نہ چھوڑی تھی جس سے گزرِ اوقات ہوسکتی اور سوائے اس کے کوئی چارہ نہ تھا کہ میں کہیں باہر جاکر قسمت آزمائی کروں۔ لیکن جانا کہاں چاہیے اس کا جواب میرے دماغ سے نہ بن پڑتا تھا۔ میں انہی تفکرات میں گھرا ہوا تھا کہ مجھے منورنجن کا ایک خط ملا۔ تم اسے جانتے ہوگے؟ تمہیں یاد ہے نا۔ تعلیم میں وہ مجھ سے چند سال آگے تھا لیکن کسی زمانہ میں ہم دونوں بڑے دوست تھے، پھر میں نے سنا کہ وہ وکالت کا امتحان پاس کرکے بہار چلا گیا ہے اور وہاں چین کی زندگی بسر کر رہا ہے۔ اس کے بعد کئی برس تک مجھے اس کی نسبت کچھ معلوم نہ ہوا۔
خط دیکھ کر مجھے تعجب ہوا کہ اس نے کیوں مجھے اچانک یاد کیا ہے۔ میں نے خط کھول کر پڑھا۔ اس نے مجھے بہار آنے کی دعوت دی تھی اور لکھا تھا کہ میری بجائے آکر وکالت کرو۔ میرے لیے یہ نہایت مسرت انگیز خبر تھی لیکن رنج وہ بات یہ تھی کہ وہ بیمار ہوگیا تھا اور سخت تکالیف میں مبتلا تھا۔ اس کی علالت نے اسے کام کرنے سے معذور کردیا تھا اور وہ بے حد مقروض ہوگیا تھا۔ میں نے سوچا کہ اگر میں وہاں چلا جاؤں اور اس کی بجائے وکالت شروع کردوں تو اس کی دوستانہ مدد بھی کرسکوں گا۔ اس لیے میں نے جلدی سے بستر باندھا، کچھ قرض مہیا کیا اور روانہ ہوگیا۔ میں نے تار کے ذریعہ سے اس کو اپنی روانگی کی اطلاع بھی دے دی، گو مجھے اس کی توقع نہ تھی کہ وہ ضرور میرے استقبال کے لیے اسٹیشن پر موجود ہوگا، کیوں کہ وہ بہت زیادہ علیل تھا۔
ای۔ آئی۔ آر کی ایک معمولی مسافر گاڑی میں ایک طول طویل اور خوشگوار سفر کے بعد میں اپنی منزل مقصود پر پہنچ گیا۔ حسب توقع اسٹیشن پر میں نے کہیں اپنے دوست کو موجود نہ پایا، اس لیے خود ہی اس کی قیام گاہ کو تلاش کرنے کا ارادہ کرلیا۔ ایک قلی کے سرپر سامان رکھ کر میں اسٹیشن سے باہر آیا اور ایک گاڑی میں بیٹھنے کا ارادہ ہی کر رہا تھا کہ ایک لڑکا دوڑتا ہوا میرے پاس آیا، اور میرا خیال ہے کہ چونکہ میں ہی ایک اکیلا بنگالی مسافر تھا اس لیے اس نے بلا پس و پیش مجھ سے سوال کیا، ’’کیا سریندر بابو آپ ہی ہیں؟‘‘
میں نے جواب دیا، ’’ہاں میں ہی ہوں۔ لیکن تم کون ہو، مجھے یاد نہیں پڑتا کہ میں نے تمہیں کبھی دیکھا ہو۔‘‘ اس نے کہا، ’’آپ نے نہ دیکھا ہوگا، میں منورنجن بابو کے مکان کے قریب ہی رہتا ہوں۔ چونکہ بابو صاحب خود نہ آسکتے تھے اس لیے ان کی بیوی نے مجھے آپ کی رہنمائی کے لیے روانہ کیا ہے۔‘‘
’’اچھا آؤ، گاڑی میں بیٹھ جاؤ۔‘‘ میں نے لڑکے سے کہا اور ہم تقریباً آدھ گھنٹے میں منورنجن کے مکان پر پہنچ گئے۔ شہر کے ایک غلیظ گوشے اور ایک سنسان گلی میں اس کا مکان تھا۔ تمام گلی میں ایک بھی خوبصورت یا نیا مکان نظر نہ آتا تھا۔ مجھے معلوم ہوگیا کہ میں یہاں زیادہ عرصہ تک قیام نہ کرسکوں گا۔ گھر کے فاقے یہاں کی زندگی سے بدرجہا بہتر تھے۔ لڑکے نے کوچ بان سے گاڑی روکنے کو کہا اور خود اترکر ایک نہایت کہنہ اور بوسیدہ دروازے کو کھٹکھٹاکر پکارا، ’’چچی اماں؟‘‘
دروازہ گھرگھراہٹ کے ساتھ کھلا اور میں نے ایک خاتون کو گھونگٹ نکالے ہوئے دروازے کے قریب کھڑا پایا۔ میں نے دیکھا کہ گھر میں کوئی ملازم نہیں ہے، اس لیے کوچ بان ہی سے سامان نیچے اتارنے کو کہا۔ اور پھر ہم دونوں اسباب اٹھاکر اندر لے گئے۔ میں نے لڑکے کو ایک روپیہ دیا کہ وہ گاڑی کا کرایہ ادا کردے۔ وہ خاتون اب اندر چلی گئی تھی۔ میں خاموش گھڑا ہوگیا۔ میری سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کیا کروں کہ اتنے میں منورنجن کی نحیف آواز آئی، ’’سیدھے چلے آؤ۔ میں اس قدر کمزور ہوں کہ تمہارے استقبال کو نہیں آسکتا۔‘‘
میں اندر چلا گیا۔ وہاں صرف ایک تخت بچھا ہوا تھا اور اس پر ایک شخص بلا حس و حرکت پڑا تھا۔ میں نے اسی کو منورنجن سمجھا۔ اس وجہ سے نہیں کہ میں نے اسے پہچان لیا تھا بلکہ اس لیے کہ اس کے سوا گھر میں اور کوئی موجود نہ تھا۔ اس منورنجن سے اسے کوئی نسبت نہ تھی جس کو میں جانتا تھا۔ میں اس کے قریب ہی تخت پر بیٹھ گیا۔ کیونکہ وہاں بیٹھنے کے لیے اور کوئی چیز موجود نہ تھی۔
وہ نحیف آواز میں بولا، ’’تو آخر تم آہی گئے۔۔۔ مجھے امید ہے کہ تمہارا یہ سفر نہایت خوشگوار رہا ہوگا۔‘‘ میں نے کہا، ’’ہاں کچھ ایسا ہی تھا لیکن تمہاری اس متغیر حالت کو دیکھ کر مجھے سخت تعجب اور پریشانی ہے۔ کیوں حالات اس قدر ناخوشگوار ہوگئے؟ ہم سب کا تو ہمیشہ یہ خیال تھا کہ تم یہاں آرام اور چین سے اپنی زندگی گزار رہے ہو۔‘‘
’’ہاں میں آرام ہی سے زندگی گزار رہاتھا۔ اور آج سے ایک سال قبل مجھے ایسی بری صورت حالات کاخواب و خیال بھی نہ تھا مگر اس کے بعد میں بیمار ہوگیا اور اب میں حیران ہوں کہ میری حالت کس قدر گر گئی ہے۔ بخار ایک لمحہ مجھے نہیں چھوڑتا۔ ممکن ہے کہ یہ ملیریا ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ دق ہو۔‘‘
میں نے پوچھا ’’لیکن کیا تم کسی ڈاکٹر کا علاج نہیں کر رہے ہو؟‘‘ اس نے جواب دیا، ’’جب تک میرے پاس پیسہ تھا میں نے شہر کے ہر ڈاکٹر کا علاج کیا، لیکن اب تو میں اپنی غذا تک مہیا کرنے سے عاجز ہوں۔‘‘ میں نے کہا، ’’پھر تم گھر کیوں نہیں چلے گئے، کم از کم وہاں تمہیں روٹی کی طرف سے تو بے فکری ہوجاتی۔‘‘ اس نے جواب دیا، ’’میں نے اس کا خیال کیا تھا لیکن یہاں میرا کام سنبھالنے والا کوئی نہ تھا۔ اس کے علاوہ میرے رشتہ دار بے چارے آپ غریب ہیں، اس لیے میں یہیں پڑارہا اور ابھی معلوم نہیں کب تک پڑا رہوں گا۔‘‘
میں نے کہا، ’’لیکن اب ڈاکٹر کا انتظام جلد کرنا چاہیے۔ میں اس نازک حالت میں تمہیں اس طرح نہیں چھوڑسکتا۔‘‘ اس نے کہا، ’’ہاں، ہاں مگر عجلت کی ضرورت نہیں۔ پہلے کچھ کھاپی لو پھر جو تمہارا جی چاہے کرنا۔‘‘ پھر اس نے اپنی بیوی سے مخاطب ہوکر کہا، ’’تم کہاں جاکر چھپ گئی ہو۔ اب اس طرح کام نہیں چلے گا۔ ہمارے پاس درجنوں ملازم نہیں ہیں۔ سریندر میرے چھوٹے بھائی کے برابر ہے، تمہیں اس سے پردہ کرنے کی ضرورت نہیں۔‘‘
منورنجن کی بیوی یہ سن کر آہستہ آہستہ آنے والی رات کی طرح کمرے میں داخل ہوئی۔ اس نے اپنا گھونگٹ چہرے پر سے اٹھادیا تھا۔ اس کا چہرہ غضب کا حسین تھا اور وہ صرف خوبصورت اور روح پرور ہی نہ تھا بلکہ اس میں بعض ناقابل بیان کیفیات متور نظر آتی تھیں۔
منورنجن نے کہا، ’’یہ میری بیوی ہے۔‘‘ میں جھٹ اٹھ کر کھڑا ہوا اور اس کے سامنے جھک کر میں نے اس کے پاؤں کی مٹی اٹھالی۔ اگرچہ وہ مجھ سے کئی سال چھوٹی تھی لیکن میں نے محسوس کیا کہ اس وقت اس کی تعظیم مجھ پر فرض ہے اور اس تعظیم کے اظہار کی ضرورت ہے۔ میں نے کہا، ’’میرے سامنے آنے سے شرماؤ نہیں۔ مجھے اپنا چھوٹا بھائی سمجھو۔‘‘ وہ ایک پرمتانت اور حیاپرور انداز سے مسکراپڑی۔
منورنجن نے کہا، ’’سروجا، ابھی ناشتا تیار ہوا کہ نہیں؟‘‘ سروجا بولی، ’’بالکل تیار ہے۔ یہ اشنان کرلیں تو میں لاکر چن دوں۔‘‘
منورنجن پرہیزی غذا کھاتا تھا، اس لیے نہانے کے بعد میں نے تنہا کھانا کھایا۔ غذا بہت سادہ تھی، لیکن مجھے یاد نہیں پڑتا کہ ایسی خواہش سے میں نے اس سے پہلے بھی کبھی کچھ کھایا ہو۔ سروجا میزبانی کی خدمت انجام دے رہی تھی۔ میں نے اس کا چہرہ دیکھا اور مجھے محسوس ہوا کہ میں اسے جانتا ہوں۔ چند لمحوں کے بعد میں نے اپنے جذبات کی ماہئیت کو سمجھا۔ میں نے سروجا کو پہلے کبھی نہ دیکھا تھا، لیکن اس کے چہر کی ہو بہو کیفیت میں نے اپنی دیویوں، لکشمی اور اَن پورنا وغیرہ میں پائی تھی۔
یہ لڑکی موجودہ تہذیب و تمدن کے زمانے میں سانس لے رہی تھی، لیکن اس کی ہر بات ہر ادا ویدیا مہابھارت کے زمانے کی معلوم ہوتی تھی۔ اسے نہایت آسانی سے دمینتی اور ساوتری کہا جاسکتا تھا اور یہ بالکل محسوس نہ ہوتا تھا کہ وہ کامل طور پر دنیاوی زندگی بسر کر رہی ہے۔ اس کی نصف زندگی ماضی کے کسی فراموش شدہ عہد میں سانس لیتی ہوئی معلوم ہوتی تھی۔ وہ ایک قابل پرستش ہستی تھی، وہ نسائی خوبیوں کاایک لائق سجود مجسمہ تھی۔ محبت کیے جانے سے اس کا مرتبہ افضل تھا۔ مجھے حیرت ہوتی تھی کہ منورنجن ایک انسان اسے اپنی بیوی کس طرح خیال کرتا تھا۔
دوسرے دن میں نے کام شروع کردیا۔ قریب ہی ایک مکان خالی تھا جس میں منورنجن پہلے رہا کرتا تھا۔ میں نے اپنی قسمت پر بھروسا کرکے اسے کرایہ پر لے لیا۔ اپنے نام کا ایک بڑا سا بورڈ لگایا اور دفتر کو بھی اچھے فرنیچر سے سجایا لیکن اندرونی مکان کے تمام کمرے سنسان اور ویران پڑے رہے۔ منورنجن کے پاس قانونی کتب کاایک مفید ذخیرہ تھا جس میں دیمک لگ رہی تھی۔ میں نے ان سب کتابوں کو صاف کرکے اپنے کمرے میں جمادیا۔ منورنجن نے مجھے بعض نہایت ممتاز موکلوں کے نام خطوط دیے جن کے ذریعہ سے میں نے ان لوگوں سے ملاقات کی۔
میری قسمت میں انقلاب رونما ہوچکا تھا، اس لیے میری تمام کوششیں کامیاب رہیں۔ ابتدا ہی سے میرے پاس موکلوں کا جمگھٹا رہنے لگا۔ میرا مطلب یہ نہیں کہ میں لکھ پتی بن گیا، مگر میں اپنے اخراجات کے علاوہ منورنجن کی اعانت کے قابل بھی ہوگیا۔ میں نے اس کے پرانے ڈاکٹر کو بلابھیجا اور اس سے کہا کہ منورنجن کا علاج خوب دل لگاکر کرو۔ سارے اخراجات کا میں ذمہ دار ہوں۔
میں دن میں کسی وقت ضرور منورنجن کو دیکھنے جاتا تھا اور اپنے ساتھ پھل وغیرہ بھی لے جاتا تھا اور سوداسلف اور دیگر اوپر کے اخراجات کے لیے بھی روپیہ دیا کرتا تھا۔ اسے یہ سب کچھ لے لینے میں کوئی ذلت یا ندامت محسوس نہ ہوتی تھی اور وہ کبھی ان کے لینے میں عذر نہ کرتا تھا۔ اس نے مجھ بے روزگار کو زر کمانے کا ذریعہ بتایا تھا اور اس لیے وہ اس کا بلکہ اس سے زیادہ کا حق دار تھا۔ اس کے علاوہ وہ اس قدر علیل اور خود فراموش ہوگیا تھا کہ اسے ایسی ادنی باتوں کا احساس بھی نہ ہوتا تھا۔ لیکن سروجا کے پرملال چہرے سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ اس خیرات طلبی سے اسے قلبی نفرت ہے۔
ایک روز اس نے مجھ سے یکایک دریافت کیا، ’’کیا تم اپنے بیوی بچوں کو یہاں نہ لاؤگے؟‘‘ میں نے جواب دیا، ’’ابھی جلدی نہیں ہے۔ وہ اپنے گھر میں آرام سے ہیں اور خوش ہیں۔ میں جب تک یہاں بالکل مطمئن نہ ہوجاؤں انھیں بلانے کا خیال نہیں کرسکتا۔‘‘ پھر اس نے پوچھا، ’’لیکن تم نے اتنا بڑا مکان کیوں لے رکھا ہے۔ کئی ایک کمرے خالی پڑے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ نصف حصہ ہمیں کرایہ پر دے دو۔ آخر یہاں بھی کچھ کرایہ دینا پڑتا ہے۔ اگر میں وہاں آجاؤں تو تمہیں باورچی کی بھی ضرورت نہ رہے گی۔‘‘
میں نے کہا، ’’اگر آپ لوگ وہاں آجائیں تو میری خوشی کی کوئی انتہا نہ رہے گی۔ اب گھر ایک ویرانہ معلوم ہوتا ہے، اور مجھے تنہا رہنے سے وحشت ہوتی ہے۔ لیکن خدا کے لیے کرایہ کا نام نہ لیجیے ورنہ اس طرح مجھے کچھ بھی خوشی نہ ہوگی اور اگر میں مہاراج(باورچی) کے رنگ برنگ کھانوں سے رہائی پاؤں تو اپنے آپ کو بہت خوش نصیب تصور کروں گا۔‘‘
میرا خیال نہیں کہ یہ معاملہ سروجا کی عین طبیعت کے مطابق تھا لیکن منورنجن کو اس پر بہت طیش آیا، اور بے چاری سروجا کو مجبوراً خاموش ہوجانا پڑالیکن دوروز کے بعد وہ میرے گھر میں آگئے۔
گھر میں یقیناً ایک امن و آسایش کی فضا پیدا ہوگئی۔ ایک رونق سی ہر طرف چھاگئی۔ اور کھانے بھی نہایت لذیذ پکنے لگے۔ لیکن میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس سے ہماری مسرت میں بھی کچھ اضافہ ہوا۔ منورنجن اس قدر کمزور اور بیمار تھا کہ اس سے مسرت اور خوش اخلاقی کی توقع رکھنا ہی عبث تھا۔ وہ ہر وقت کراہتا رہتا اور سروجا ایک غلام کی طرح اس کی خدمت میں مشغول رہتی۔ اسے بات کرنے کا موقع بھی دقت سے ملتا۔ یہاں وہ پہلے سے زیادہ غمگین اور کبیدہ خاطر نظر آتی تھی۔ حتی کہ اس نے اپنے ہونٹوں کو تبسم کوشی سے بھی محروم کردیا تھا۔
میں اس کے اس غم و سکوت کو نہ سمجھ سکتا تھا۔ یہ سچ ہے کہ اس کا شوہر بیمار تھا مگر یہ نئی بات تو نہ تھی۔ وہ دونوں یہاں نسبتاً آرام سے رہتے تھے۔ پھر آخر اس سوگ اور غم میں ترقی کی کیا وجہ ہوسکتی تھی؟
اس کا سبب مجھے اتفاقیہ طور پر معلوم ہوا۔ میرے مکان کے متصل ایک شخص رہتا تھا۔ میں اکثر اسے آتے جاتے دیکھتا تھا۔ وہ ایک جوان آدمی تھا، مگر مجھے اس کا علم نہ تھا کہ وہ کون ہے اور کیا کاروبار کرتا ہے۔ لیکن بعد میں مجھے معلوم ہوگیا کہ وہ ایک مصور ہے اور خوب دولت کما رہا ہے۔ اس کے متعلق اس سے زیادہ اور کسی کو بھی معلوم نہ تھا۔ یہ شخص تن تنہا اس مکان میں رہتا تھا۔
منورنجن کی خوابگاہ کی کھڑکی میں سے مصور کے تصویر خانہ کا کچھ حصہ نظر آتا تھا۔ پہلے یہ کھڑکی اکثر بند رہتی تھی، لیکن اب جب کبھی میں منورنجن کے پاس جاتا اس کھڑکی کو کھلا پاتا تھا۔ سروجا اس قدر حسین تھی کہ کوئی شخص اس پر نگاہ ڈالے بغیر نہ رہ سکتا تھا اور خصوصیت سے ایک مصور کے لیے یہ بات ناممکن تھی۔ اس لیے میں نے اس غریب کی طرف سے کوئی بدگمانی دل میں پیدا نہ کی۔ اس کے علاوہ میں سروجا کو نیکی اور وفاشعاری کی دیوی سمجھتا تھا اور یہی سبب تھا کہ اس کھلی ہوئی کھڑکی کی طرف زیادہ توجہ نہ کرتا تھا۔
ایک روز میں عدالت سے غیرمعمولی طور پر جلد واپس آگیا۔ میں اپنے ساتھ منورنجن کے لیے دوا کی ایک شیشی بھی لایا تھا اس لیے سیدھا اس کے کمرے میں پہنچا۔ میں نے دیکھا کہ وہ سو رہا ہے اور سروجا کھلی ہوئی کھڑکی کے سامنے کھڑی ہے۔ مصور کے کمرے کی کھڑکی بھی کھلی ہوئی تھی اور وہ بھی وہاں موجود تھا۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ وہ باتیں کر رہے تھے یا نہیں، کیوں کہ میں نے کوئی لفظ نہیں سنا، لیکن یہ منظر دیکھ کر مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میں پتھر کا ہوگیا ہوں۔
سروجا میری طرف پشت کیے کھڑی تھی اور اس لیے پہلے جس کی نگاہ مجھ پر پڑی، وہ مصور تھا۔ اس نے ایک اشارہ کیا اور فوراً وہاں سے غائب ہوگیا۔ سروجا نے اپنا رخ بدلا اور مجھے دیکھتے ہی موت کی سی افسردگی اس کے چہرے پر طاری ہوگئی۔ لیکن وہ بھی جلد ہی بغیر کچھ کہے وہاں سے چلی گئی۔ ان کی اس حرکت نے میرے شکوک کو اور زیادہ مستحکم کردیا۔ میں اس قدر متعجب نہ ہوتا اگر کوئی اور عورت اس فعل کی مرتکب ہوتی۔ لیکن سروجا کی یہ حرکت یقیناً استعجاب و اضطراب افزا تھی۔ اس کے علاوہ میں نے سوچا کہ اگر وہ دونوں کسی گناہ کے مجرم نہ تھے تو کیوں اس طرح بھاگ گئے۔ انھیں کھڑے رہنا چاہیے تھا۔
اس واقعہ کے بعد سروجا نے مجھ سے بات چیت ترک کردی۔ تمام واقعات کسی قدر میری سمجھ میں آگئے لیکن اب مجھے کیا کرنا چاہیے تھا؟ میرے پاس کوئی پختہ ثبوت موجود نہ تھا اور اس لیے میں مصور کے پاس جاکر اسے بُرا بھلا نہ کہہ سکتا تھااور نہ اُسے مجرم ٹھہرا سکتا تھا۔ اس کے شوہر سے اس امر کا تذکرہ کرنا حقیقت میں اس کا خون کرنے کے برابر تھا۔ ان تمام حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے مجبوراً مجھے خاموش ہوجانا پڑا۔
علالت کے اس طویل زمانہ میں منورنجن نے اَن گنت قرض خواہ پیدا کرلیے تھے اور وہ سب قرض وصول کرنے کے لیے بہت بے چین نظر آتے تھے۔ پہلے طعن و تشنیع کے خطوط وصول ہوتے رہے۔ اس کے بعد چپراسی اور ملازم اور پھر خود قرض خواہ حضرات یکے بعد دیگرے تشریف لاکر عزت افزائی فرمانے لگے۔ گھر میرا تھا اور منورنجن کو اپنی خطرناک علالت کی وجہ سے باہر قدم رکھنا بھی دوبھر تھا، اس لیے قرض خواہ اس سے اپنا قرض وصول کرنے میں کامیاب نہ ہوتے تھے لیکن ان خونخوار درندوں کی خوفناک اور لرزہ براندام کردینے والی چیخ پکار گھر کے کونے کونے میں تیر کی طرح پیوست ہوتی اور ان غمزدہ ہستیوں کے دماغوں میں اترجاتی۔
اب وکیلوں کے سمن بھی آنے لگے۔ پہلے سروجا ان تمام خطوط کو کھول کر پڑھتی اور پھر منورنجن کو دیتی۔ ایک دن اس نے ایک خط کھولا لیکن اس کی انگریزی عبارت دیکھ کر میرے پاس لائی تاکہ اسے پڑھ کر سنادوں۔
یہ پہلا موقع تھا کہ سروجا نے گزشتہ ناگوار واقعے کے بعد مجھ سے گفتگو کی تھی۔ میں اس قدر بے چین تھا کہ میں اس کو دیکھنا بھی گوارانہ کرسکتا تھا۔ میں نے خط پڑھ کر اس کا مطلب سمجھا دیا۔ سن کر وہ ایسی ساکت ہوگئی جیسے منجمد برف۔
اب مجھے یہ عورت ایک معمہ معلوم ہونے لگی۔ مجھے اپنی آنکھوں پر کامل اعتماد تھا لیکن میری سمجھ میں نہ آتا تھا کہ میں اسے مجرم کیوں کر سمجھ لوں، اس لیے کہ میں نے اس کی وفاشعاری اور شوہر پرستی کے محبت آمیز اور پاک مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھے تھے۔ وہ دن رات اس کی اطاعت اور خدمت میں مشغول رہتی۔ دنیا منورنجن پر حملے کرتی اور سروجا سپر بن کر اُن کا جواب دیتی۔ پھر ایک ایسی بیوی بے وفا بھی ہوسکتی ہے؟ شاید حقیقت میں وہ بالکل بے گناہ تھی۔ ایک وکیل ہونے کی حیثیت سے میں جانتا تھا کہ جرم کا چہرہ ہمیشہ مجرم ہونے کا اظہار نہیں کرتا۔ میں اپنے خیال میں اسے مجرم نہ ٹھہرا سکتا تھا، کیوں کہ اب تک کوئی قابل وثوق ثبوت مجھے نہ ملا تھا۔
لیکن ہم تقدیر کی فسوں ساز زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ یہ معاملہ آئندہ چند روز میں ترقی کرتا گیا، آخر کار اس کی غمناک انتہا بھی جلد نظروں کے سامنے آگئی۔
میرا ملازم چھوکرا روزانہ میرا لیمپ صاف کرکے میرے کمرے میں آیا کرتا تھا۔ ایک شام وہ حسب معمول لیمپ لے کر داخل ہوا مگراس کے بعد واپس جانے کی بجائے وہ دروازے کے قریب کھڑا ہوگیا۔ میں نے پوچھا، ’’رگھو! کیوں کھڑے ہو؟‘‘ لڑکے نے ہاتھ جوڑتے ہوئے جواب دیا، ’’حضور میں کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ آپ میرے مالک ہیں، میرے مائی باپ ہیں اور میں نہیں چاہتا کہ آپ کی شان میں کوئی دھبہ آئے۔‘‘ میں نے کسی قدر سختی سے پوچھا، ’’تو کیا بک رہاہے؟ صاف صاف بول۔‘‘
رگھونے کہا، ’’جب آپ چلے جاتے ہیں اور یہ بیمار صاحب سو جاتے ہیں تو دیوی جی ہمسایہ کے مکان میں چلی جاتی ہیں، اور تقریباً آدھ یا ایک گھنٹہ میں لوٹتی ہیں۔‘‘
میرا دل چاہا کہ اس کا سر قلم کردوں لیکن میں نے ضبط سے کام لیا۔ لڑکے پر الزام عائد نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اس نے مجھے صرف اس امر کی خبر دی تھی جسے اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ لیکن ابھی اور کسی نے سروجا کے متعلق کچھ نہ کہا تھا۔ میں نے اپنے دل میں کہا، کیا کسی انسان کا چہرہ اس قدر جھوٹا بہروپ بھرسکتا ہے؟ سروجا شیودیوتا کی بیوی معلوم ہوتی ہے، کیا وہ وفاشکن ہوسکتی ہے؟
میں نے پوچھا، ’’تمھیں کیسے معلوم ہوا؟‘‘ لڑکے نے جواب دیا، ’’ہر روز مجھے دیوی جی گھنٹہ بھر کے لیے باہر چلے جانے کو کہہ دیا کرتی تھیں۔ کل میرے سر میں درد تھا اس لیے میں باہر جانا نہ چاہتا تھا۔ باہر جانے کی بجائے میں یہاں آکر سوگیا۔ دیوی جی کو یہ معلوم نہ تھا۔ سونے کے بعد جب میں اٹھا تو بڑی پیاس معلوم ہوئی اور میں باورچی خانے میں پانی پینے گیا۔ میں نے دیکھا کہ عقب کا دروازہ کھلا ہوا ہے۔ یہ دیکھ کر مجھے حیرت ہوئی اور جیسے ہی میں نے چاہا کہ اُسے بند کردوں، میں نے دیکھا کہ دیوی جی اُسی گھر کے ایک چور دروازے سے نکل کر آرہی ہیں۔ اس سے قبل کہ وہ مجھے دیکھ پاتیں میں فرار ہوگیا۔‘‘
میں نے پھر دریافت کیا، ’’کیا یہ پہلا موقع تھا جو تم نے انھیں وہاں جاتے دیکھا؟‘‘ لڑکے نے جواب دیا، ’’نہیں میں نے کل بھی دیکھا تھا اور پرسوں بھی۔ وہ ایک بجے جاتی ہیں اور دو بجے واپس آتی ہیں۔‘‘
میں نے اس کو تاکید کردی کہ یہ واقعہ کسی سے نہ کہے، اور ارادہ کیا کہ میں خود اس معاملہ کی تحقیقات کروں گالیکن پھر وہی سوال میرے سامنے تھا کہ اب کیا کرنا چاہیے۔ سروجاپر میرا کوئی حق نہ تھا۔ میں اس سے اس واقعہ کے متعلق کوئی استفسار نہ کرسکتا تھا۔ صرف اس کا شوہر ایک جائز شحص تھا جو اس معاملہ میں دخل دے سکتا تھا۔ لیکن وہ تقریباً بستر مرگ پر پڑا تھا، اور اس سے اس بات کا اظہار اس کے قتل سے کم حیثیت نہ رکھتا تھا۔ اس لیے مجبوراً میں نے سروجا سے اس راز کو دریافت کرنے کا خیال کیا۔ لیکن پھر میں نے سوچا کہ مجھے ایک ملازم کی بات پر کامل یقین نہ کرلینا چاہیے۔ میرا ارادہ تھا کہ اگر اور کچھ مجھ سے نہ ہوسکا تو میں اس شوقین مزاج مصور کو تو کوڑے مار مار کر سیدھا کردوں گا۔
دوسرے روز میں عدالت نہ گیا۔ اگرچہ حسب معلوم ۱۰بجے گھر سے باہر چلا گیا۔ میں نے لڑکے سے کہا کہ دروازہ کھلا رہنے دے کیوں کہ میں ایک گھنٹے کے بعد واپس آجاؤں گا۔ میں تقریباً ڈیڑھ بجے واپس آیا۔ رگھو نے مجھے بتایا کہ سروجا کو گئے تھوڑی دیر ہوگئی ہے اور وہ جلد ہی واپس آئے گی۔ میں ایک ایسے گوشے میں چھپ کر بیٹھ گیا جہاں سے میں سروجا کی نقل و حرکت کو بخوبی دیکھ سکتا تھا۔
جلد ہی مصور کے مکان کا چور دروازہ کھلا اور اس میں سے سروجا برآمد ہوئی اور باورچی خانہ کے دروازے سے گھر میں داخل ہوگئی۔ میں اس ناجائز حرکت کا سبب دریافت کرنے کے لیے اپنے مقام سے نکل کر باہر آنے ہی والا تھا کہ اس کا چہرہ دیکھ کر حیران و ششدر ہوگیا۔ اس سے ایک ایسی بے چینی اور درد کا اظہار ہورہا تھا کہ اس سے قبل میں نے کسی انسان کے چہرے پر یہ کیفیت نہ دیکھی تھی۔ اس کی ساری صورت متغیر ہو رہی تھی۔
میں یہ دیکھ کر پریشان سا ہوگیا۔ اس کا کیا مطلب ہوسکتا تھا؟ سروجا کے اندر چلے جانے کے بعد میں وہاں سے نکل کر اپنے دفتری کمرے میں چلا گیا اور واقعات پر غور و خوض کرنے لگا۔ آخر میں نے مصور کے پاس جانے کا تہیہ کرلیا۔ میں نے سوچا کہ کل جب سروجا اپنے دوست کے پاس جائے گی تو میں بھی اس کا تعاقب کروں گا اور ان مجرموں کو مناسب سزادوں گا۔ میں اس غیرموزوں سلسلہ ملاقات کا خاتمہ ہی کردوں گا۔ مگر میری تدابیر بروئے کار نہ آسکیں۔ میں نے ایک بجے عدالت واپس ہونے کا ارادہ کیا تھا لیکن مجبوراً دیر ہوگئی، اور جیسے ہی میں گھر میں داخل ہوا منورنجن کے کمرے سے ایک نہایت دردانگیز اور پرسوز آواز سنائی دی۔ میں دوڑ کر اندر گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ منورنجن سروجا کو ہاتھوں میں پکڑے ہوئے ہے اور اس نے ایک شورمحشر بپا کر رکھا ہے۔ اس کے منہ سے جو گالیاں نکل رہی تھیں ان سے میرے کان زخمی ہو رہے تھے۔
میں نے اسے پکڑا اور کھینچ کر بستر پر لٹا دیا، ’’تم کیا کر رہے ہو؟‘‘ میں نے پوچھا، ’’کیا تم اپنے آپ کو ہلاک کر ڈالنا چاہتے ہو؟ اور مجھے بتاؤ تو سہی تم اتنے وحشت زدہ کیوں ہو رہے ہو؟‘‘
اس نے غصہ سے ہانپتے ہوئے جواب دیا، ’’آہ اب زندہ رہنے سے کچھ فائدہ نہیں۔ بہتر ہے کہ اب میں مرجاؤں۔ تمہیں معلوم ہے کہ اس وقت میری وفاشعار بیوی مجھے مرتا ہوا چھوڑ کر کہاں گئی تھی؟ وہ سامنے کے مکان میں اپنے عاشق سے ملاقات کرنے گئی تھی۔ میری نظروں سے اسے دور کردو ورنہ میں اس کی جان لے لوں گا۔ مجھ میں ابھی اتنی طاقت موجود ہے۔ میرے دماغ میں آگ لگی ہوئی ہے۔ میرے دل میں زہر کی ندیاں ابل رہی ہیں۔ میں اس عورت پر فرشتوں سے زیادہ اعتماد رکھتا تھا۔‘‘
میں نے سروجا سے کہا، ’’تم جاؤ، تمہاری موجودگی سے اس کا غصہ زیادہ بھڑکتا ہے، اور یہ اس کے لیے خطرناک ہے۔‘‘
بدنصیب شوہر نے چلاکر کہا، ’’نکل جا۔ اگر تو جاسکتی ہے تو اس دنیا سے نکل جا۔ آئندہ اپنا منہ کسی مرد کو نہ دکھانا۔ بس صرف موت ہی ایک تیرا ٹھکانا رہ گیا ہے۔‘‘
سروجا نے اپنے آپ کو ایک لمبی چادر میں لپیٹا اور کمرے سے باہر نکل گئی۔ میں بھی اس کے پیچھے پیچھے چل دیا۔ میں نے دیکھا کہ سروجا فی الحقیقت گھر چھوڑنے پر تیار ہوگئی تھی۔ میں نے اس کا راستہ روک کر کہا، ’’تم کیا کر رہی ہو؟ تمہارا شوہر دیوانہ ہوگیا ہے، تمہیں اس کا خیال نہ کرنا چاہیے۔‘‘ وہ بولی، ’’خدا کے لیے مجھے جانے دیجیے۔ مجھے اب روکنا بالکل فضول ہے۔‘‘
میرے دل میں سروجا کے لیے بڑی عزت تھی۔ میں نے کس مسرت سے اسے یہاں آنے کی دعوت دی تھی، اور اب وہ کس ذلت کے ساتھ گھر سے نکالی جارہی ہے۔ میں نے ایک کمرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، ’’اس کمرے میں ٹھہرو۔ تمہارے شوہر کو اس امر کی اطلاع کی ضرورت نہیں۔ گوبظاہر واقعات نہایت تکلیف دہ ہیں تاہم میں تم کو مجرم قرار نہیں دے سکتا۔‘‘
وہ ایک حقارت آمیز ہنسی ہنس کر بولی، ’’تم کیوں قرار نہیں دے سکتے۔ ایک عورت کو بہت آسانی سے مجرم قرار دیا جاسکتا ہے، اور ہمارے ملک میں اس کے جرم پر آسانی سے یقین کرلیا جاسکتا ہے۔‘‘ میں نے کہا، ’’خیر جو کچھ ہوا وہ ہوا۔ لیکن اب میں تم سے التجا کرتا ہوں کہ تم نہ جاؤ۔ منورنجن کو ذرا خاموش ہوجانے دو اور پھر تم اپنا بیان دینا۔ مجھے یقین ہے کہ تمہارے پاس اس امر کو غلط ثابت کرنے کا کافی ثبوت ہوگا۔‘‘
اس کا جواب سن کر میں حیران رہ گیا جب اس نے کہا، ’’میرے پاس نہ کوئی بیان ہے نہ ثبوت۔ آپ نے میرے لیے بہت کچھ کیا ہے، میرا حقیقی بھائی بھی شاید اس سے زیادہ نہ کرتا اور اب براہِ کرم یہ آخری درخواست بھی قبول کرلیجیے۔ مجھے جانے دیجیے میں اب یہاں ایک لمحہ بھی نہیں ٹھہرسکتی۔‘‘
میں نے کہا، ’’تاہم یہ تو بتادو کہ تم جاکہا ں رہی ہو؟ اگر خدا کی عنایت سے یہ جھگڑا جلد طے ہوگیا، اور ہوجائے گا جیسی کہ مجھے امید ہے تو میں جاکر تمھیں واپس لے آؤں گا۔‘‘
’’بہت خوب۔‘‘ وہ بولی، ’’تم اس لڑکے کو جانتے ہو جو تمہیں اسٹیشن پر لینے گیا تھا؟ اسے میرا پتہ معلوم ہوجائے گا، تم اس سے پوچھ لینا۔‘‘ یہ کہہ کرآہستہ آہستہ بہنے والی ندی کی طرح وہ وہاں سے بڑھی اور سامنے کے دروازے میں سے باہر نکل گئی۔ میں نے دیکھا کہ وہ جاکر ایک گاڑی میں بیٹھ گئی۔ اور بہت جلد نظروں سے اوجھل ہوگئی۔
منورنجن نے خاموش رہنے کی قسم کھالی۔ وہ برابر گالیاں دیتا رہا اور شورمچاتا رہا۔ میں نے رگھو سے اس کے پاس رہنے کو کہا اور خود مصور کے مکان کی طرف روانہ ہوا۔ ایک تو جاچکا تھا لیکن دوسرا ابھی موجود تھا، جسے ان خوفناک واقعات کی بہت بھاری قیمت ادا کرنی تھی۔ میں نے اپنے ساتھ ایک موٹا ڈنڈا بھی لے لیا۔
سامنے کا دروازہ بند تھا۔ بار بار پکارنے اور کھٹکھٹانے کے بعد ایک ضعیف آدمی نے دروازہ کھولا۔ میں نے پوچھا، ’’تمہارا مالک کہاں ہے؟‘‘ اس کا مالک کہیں باہر گیا ہوا تھا اور اسے معلوم نہ تھا کہ کب تک واپس آئے گا یا وہ لوٹے گا بھی کہ نہیں۔ کیوں کہ بعض اوقات وہ ہفتوں باہر رہا کرتا ہے۔ میں نے پھر پوچھا، ’’وہ اپنے ساتھ کوئی سامان بھی لے گیا ہے کہ نہیں؟‘‘ لیکن بڈھا اس کا کچھ جواب نہ دے سکا، اس لیے میں مجبوراً اپنے گھر واپس آگیا۔
منورنجن نے مجھے بالکل دیوانہ بنادیا۔ اس نے کھانے پینے اور سونے سے قطعاً انکار کردیا۔ اگر میں اسے دواپلانے کی کوشش کرتا تو وہ لکڑی لے کر مجھے مارنے دوڑتا۔ رگھو اس کے قریب جانے سے بھی گھبراتا تھا۔ چونکہ میں تمام دن اس کی حفاظت کے لیے گھر میں نہ بیٹھ سکتا تھا، اس لیے مجبوراً اس کے اعزا کو لکھنا پڑا۔ چند روز کے بعد منورنجن کے چچازاد بھائی آکر اُسے لے گئے۔
منورنجن کی طرف سے اطمینان ہوجانے کے بعد میں نے سروجا کی تلاش شروع کی۔ میں اس لڑکے کے پاس گیا جس سے ملنے کے لیے سروجا نے مجھ سے کہا تھا لیکن اس نے بتانے سے صاف انکار کردیا۔ اس کے دوسرے رشتہ داروں نے بھی یہی کہا کہ انھیں کچھ معلوم نہیں، اگرچہ ان کے چہرے حقیقت کا اظہار کر رہے تھے لیکن میں ان کو سچ کہنے پر مجبور نہ کرسکتا تھا۔ میں نے ان سے ہزار کہا کہ میں سروجا کا ایک خیرخواہ دوست ہوں اور اس کا پتہ دریافت کرنے سے میرا مقصد محض اس سے ہمدردی کرنا ہے، مگر وہ سب پتھر کی ساکت رہے۔
میں اس کی تلاش میں پیہم مصروف رہا۔ میں نے اخباروں میں اشتہار دیا، سراغ رساں مقرر کیے، لیکن کوئی مفید نتیجہ نہ نکلا۔ آخر کار کچھ عرصے کے بعد مجھے مایوس ہوکر سب تدابیر ترک کردینی پڑیں۔ میں اپنے آپ کو ہر وقت کام میں مصروف رکھنے کی کوشش کرنے لگا تاکہ یہ سب کچھ بھول جاؤں، لیکن گھر کے ویران کمروں کو دیکھ کر میرے دل میں ایک درد اٹھنے لگتا تھا۔ اس قلیل عرصے میں سروجا مجھے اپنی بہن کی طرح عزیز ہوگئی تھی۔
تقریباً ایک مہینہ گزر گیا۔ اب میں واقعات کو کچھ کچھ بھولنے لگا تھا مگر اچانک ایک ایسا واقعہ رونما ہوا جس نے ان دردانگیز حالات کی پوری تاریخ پھر میرے دل میں دہرادی۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ ایک روز صبح کی ڈاک سے کچھ خطوط منورنجن کے نام وصول ہوئے۔ میں ان کو منورنجن کے پاس بھیجنے ہی والا تھا کہ یکایک ایک خیال نے مجھے ان کے کھولنے پر مجبور کردیا۔ میں نے سوچا وہ ایک قابل رحم مریض ہے، اس کو وکیلوں اور قرض خواہوں کے تقاضوں سے پریشان نہ کرنا چاہیے۔
لیکن تم نہیں سمجھ سکتے کہ میری حیرت کی کیا کیفیت تھی۔ جب میں نے لفافوں میں نوٹسوں اور بلوں کی بجائے قرض کی وصولی کی رسیدیں دیکھیں۔ کسی نے پوشیدہ طور پر منورنجن کا سارا قرض ادا کردیا تھا۔
ایک خوفناک شک میرے دل میں پیدا ہوگیا۔ کیا یہ سروجا تو نہیں؟ اگر وہ نہیں تو اور کون ہے جس نے اس ناکارہ اور قریب المرگ انسان کے لیے اتنی مصیبت برداشت کی ہے؟ کیا اسی نے اپنے شوہر کا قرض ادا کرنے کے لیے اپنی زندگی قربان کردی تھی؟ کیا کوئی وفاشعار عورت ایسا کرسکتی تھی؟ شاید وہ کرسکتی تھی۔ میں حیران تھا کہ سروجا کی اس حرکت کو گناہ کہوں یا قربانی۔ مگر اس نے اپنے شوہر کو قرض کے عذاب سے نجات دلانے کے لیے اپنی عصمت تو یقیناً فروخت نہ کی ہوگی۔ مجھے اس وقت اس کی بے چینی یاد آگئی جو میں نے کئی دفعہ اس کے حسین چہرے پر دیکھی تھی۔ کیا وہ کسی قلبی کشمکش کا نتیجہ تھی؟ خدا کے سوا اور کوئی نہ جانتا تھا۔
بہرکیف میں نے ان خطوط کو منورنجن کے پتہ پر روانہ کردیا اور خیال کیا کہ منورنجن کو اب کچھ سکون حاصل ہوجائے گا اور وہ بھی اس دریادل مددگار کی اعانت کو تعجب کی نظر سے دیکھے گا۔ شاید وہ خیال کرے کہ یہ سب قرض میں نے ادا کردیا ہے۔ اس کے بعد بہت دن گزر گئے اور عدالت اکتوبر کی تعطیلات میں بند ہوگئی۔ میرے دوست احباب جو اپنے بیوی بچوں کے ساتھ رہتے تھے، اپنے اپنے گھروں کی پرلطف زندگی میں مستغرق ہوگئے۔ مجھے گھر میں تنہا بیٹھے رہنا اچھا معلوم نہ ہوتا تھا۔ میں تمام دن اِدھر اُدھر گشت لگایا کرتا تھا۔ اس اثناء میں کئی کانفرنسیں اور جلسے ہوئے اور اس لیے میرا وقت بہ آسانی گزرجاتا تھا۔
ان تمام جلسوں کے ساتھ ساتھ ایک نمایش بھی منعقد کی گئی تھی۔ میں بھی ایک روز اپنے ایک دوست کے ساتھ دیکھنے کے لیے گیا، جہاں یہ نمایش ہو رہی تھی۔ وہ جگہ میرے مکان سے بہت فاصلہ پر تھی، اس لیے ہم نے ایک موٹر کرایہ پر لے لی۔ نمایش گاہ میں لوگوں کاہجوم زیادہ نہ تھا۔ اس لیے ہم نہایت اطمینان سے تصاویر وغیرہ دیکھتے پھر رہے تھے۔ آہستہ آہستہ ہم دونوں ایک دوسرے سے الگ ہوگئے۔ یکایک میں نے اپنے دوست کو اپنا نام لے کر پکارتے سنا۔ میں اس کے پاس گیا اور پوچھا، ’’کیا بات ہے؟‘‘
اس نے ایک تصویر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، ’’اس تصویر کو دیکھو۔ کیا تم نے کل نہیں کہا تھا کہ ہندوستانی مصور اچھی تصویر نہیں بناسکتے؟ کیا یہ تصویر شاندار اور جاذب نظر نہیں ہے؟ اگر یہ تصویر انگلستان میں ہوتی تو ہزاروں آدمی اسے دیکھنے کے لیے آتے۔‘‘
میں مشکل سے اس کی باتیں سن رہا تھا۔ میں نے بڑے خوف اور وحشت سے اس تصویر کو دیکھا، اس کا نام ’’ستی‘‘ تھا۔ اس میں ایک سنسان دریا کے کنارے ایک بڑی سی چتا جل رہی تھی اور اس کے بیچ میں ایک عورت اپنے شوہر کی نعش اپنی گود میں لیے ہوئے بیٹھی تھی۔ عورت کا چہرہ سروجا کا چہرہ تھا۔ اور وہ بے چینی اور تکلیف جو میں نے بارہا اس کے چہرے پر دیکھی تھی، پردہ کی تصویر پر صاف نظر آرہی تھی۔ وہ ایک دیوی معلوم ہو رہی تھی۔ مصور کا نام بھی آشنا سا تھا۔ یہ میرے ہمسایہ مصور کا نام تھا۔
میرے دوست نے مذاق سے کہا، ’’تم تو معلوم ہوتا ہے اس میں گڑ گئے ہو۔ کیا یہ قابل قدر نہیں ہے؟ اگر میرے پاس روپیہ ہوتا تو میں ضرور اسے خرید لیتا۔۔۔ لیکن یہ تو پہلے ہی کسی مہاراجہ کے ہاتھ چارہزار میں فروخت ہوچکی ہے۔‘‘
میں نے کہا، ’’ہاں، نہایت دلکش اور خوبصورت ہے۔ اس میں کوئی ہرج تو نہیں اگر میں تمہیں چھوڑ کر چلاجاؤں۔ مجھے کچھ سستی اور حرارت سی محسوس ہو رہی ہے۔‘‘ اور بغیر جواب کا انتظار کیے میں وہاں سے چل دیا۔
نمایش سے تعلق رکھنے والے بعض سربرآوردہ لوگوں سے میں واقف تھااور ان کی مدد سے میں نے جلد اس مصور کا پتہ معلوم کرلیا۔ میں نے اپنے دماغ میں ایک لرزادینے والی تقریر ترتیب دی اور اس کے گھر کی طرف روانہ ہوا۔
وہ اس وقت چائے ختم کرچکا تھا اور سگریٹ سلگارہا تھا، جب میری آمد نے اسے چونکا دیا۔ وہ سگریٹ پینا بھول گیا اور مجھے خاموشی سے گھورنے لگا۔ میں نے جھک کر سلام کیا اور پوچھا، ’’کیا آپ مجھے پہچانتے ہیں؟ آپ کسی زمانہ میں میرے ہمسائے رہ چکے ہیں۔‘‘
اس نے اپنے پراگندہ ہوش و حواس یکجاکرتے ہوئے کہا، ’’اور کیا آپ ہی ۱۵نمبر کے مکان میں رہا کرتے تھے؟ اس عزت افزائی کی وجہ کیا ہوسکتی ہے؟‘‘
میں نے کہا، ’’میں نے آپ کی تصویر ’’ستی‘‘ نمایش میں دیکھی ہے۔ بلامبالغہ ایک کامیاب تصویر ہے۔ میں اسے دیکھ کر آپ سے ملاقات کیے بغیر نہ رہ سکا۔‘‘
اس نے مجھ پر ایک مشکوک نگاہ ڈالی اور چپ رہا۔ میں نے پوچھا، ’’لیکن کیا آپ کو دوسرا نمونہ نہ مل سکتا تھا؟ آپ نے ایک غریب آدمی کا گھر کیوں تباہ کیا؟‘‘
اب مصور نے اپنے جذبات اور ہوش و حواس پر قابو پالیا تھا۔ اس نے بے پروائی سے کہا، ’’ہاں مجھے دوسرا نمونہ مل سکتاتھا۔ مگر ’’ستی‘‘ کے لیے نہیں۔۔۔ لیکن جناب میں نے گھر کس کا تباہ کیا؟ آپ مجھے کس بات کا مجرم ٹھہراتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ اس نے آپ سے یہ تو نہ کہا ہوگا کہ میں نے اس کی خدمات کا مناسب معاوضہ نہیں دیا۔‘‘
میں نے غضبناک لہجہ میں کہا، ’’اس قدر معصوم بننے کی کوشش نہ کرو۔ زرکھوئی ہوئی عزت کو واپس نہیں لاسکتا۔‘‘
وہ ایک دم اٹھ کھڑا ہوا اور چلاکر بولا، ’’سنیے میں لغو اور مہمل باتوں میں اپنا وقت ضائع نہیں کرسکتا۔ اگر آپ یہ ثابت کرسکتے ہیں کہ میں نے اس کے ساتھ کسی قسم کی بدسلوکی، یا اس کے مرتبہ سے کوئی گری ہوئی بات کی ہے یا یہ کہ میں نے اسے موعودہ معاوضہ نہیں دیا تومیں آپ کی باتیں سننے کے لیے تیار ہوں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ مجھے اس معاوضہ کے عوض اسے سخت تکلیف دینی پڑی، لیکن وہ خود اس کے لیے رضامند ہوگئی تھی۔‘‘
’’تکلیف؟‘‘ میں نے خوف و ہراس سے پوچھا، ’’کس قسم کی تکلیف؟‘‘
’’خیر اگر اب جاننا ہی چاہتے ہیں تو مجھے بتانے میں کوئی عذر نہیں۔ میں اس کے چہرہ پر انتہائی رنج اور تکلیف کے آثار نمایاں کرنا چاہتا تھا، اور اس کے لیے مجھے اس کی پشت گرم لوہے سے داغنا پڑی تھی۔‘‘
میں یہ سن کر خوف و دہشت سے تقریباً بدحواس ہوگیا۔ میں یہ خیال بھی نہ کرسکتا تھا کہ موجودہ تہذیب یافتہ زمانے میں ایسا ظلم بھی جائز سمجھا جاسکتا ہے۔ آہ غریب سروجا! ہم اس کے پاؤں کی خاک بھی بننے کے قابل نہ تھے چہ جائیکہ ہم نے اس کے ان محبت آمیز افعال کو قانون کی نظر سے دیکھنا چاہا اور اسے مجرم قرار دیا۔
وہاں اب زیادہ دیر ٹھہرنا میرے لیے ناممکن تھا۔ میں کہتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا، ’’قانون مجھے اس کا حق نہیں دیتا ورنہ میں تیرے اس اعلیٰ درجہ کے مصورانہ دماغ کو اس ڈنڈے سے پاش پاش کردیتا۔ میں ایسا ضرور کروں گا خواہ مجھے قید ہی میں کیوں نہ جانا پڑے، مگر ابھی مجھے اس سے کئی گنا اہم ایک اور کام سرانجام دینا ہے اس لیے میں رخصت ہوتا ہوں۔‘‘ اس نے ایک بے کیف تبسم کے ساتھ اپنے ہونٹوں کو جنبش دی اور میں وہاں سے چلاآیا۔
سریندر ٹھہر گیا اور پھر اس نے تھوڑی دیر کے بعد پوچھا، ’’کیا تم کہہ سکتے ہو کہ یہ لڑکی ستی نہ ہوگئی ہوگی؟‘‘ ابانی نے جواب دیا، ’’نہیں میں نہیں کہہ سکتا۔ مگر یہ واقعہ ایسا عجیب و غریب ہے کہ سچ نہیں معلوم ہوتا۔‘‘ سریندر نے کہا، ’’ہاں ایسا ہی معلوم ہوتا ہے۔ لیکن یہ داستان اپنی تمام المناکیوں کے ساتھ سچی ہے۔‘‘ ابانی نے پوچھا، ’’مگر کیا سروجا کو تم نے اس کے بعد کبھی نہیں دیکھا؟‘‘
سریندر نے کہا، ’’دوست تم ہمیشہ ایک مسرت ناک انجام کے متمنی رہتے ہو۔ تمہاری ذہنیت بالکل ایک مدرسے میں پڑھنے والی لڑکی کی سی ہے۔۔۔ مگر ہاں ہم نے سروجا کا پتہ لگالیا۔‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.