aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

چھوکری کی لوٹ

راجندر سنگھ بیدی

چھوکری کی لوٹ

راجندر سنگھ بیدی

MORE BYراجندر سنگھ بیدی

    کہانی کی کہانی

    کہانی میں شادی جیسے روایتی سنسکار کو ایک دوسری ہی شکل میں پیش کیا گیا ہے۔ بیٹیوں کے جوان ہونے پر مائیں اپنی چھوکریوں کی لوٹ مچاتی ہیں جس سے ان کا رشتہ پکا ہو جاتا ہے۔ پرسادی کی بہن کی جب لوٹ مچی تو اسے بہت غصہ آیا، کیونکہ رتنا خوب روئی تھی۔ بعد میں اس نے دیکھا کہ رتنا اپنے کالے کلوٹے پتی ساتھ خوش ہے تو اسے احساس ہوتا ہے کہ رتنا کی شادی زبردستی کی شادی نہیں تھی بلکہ وہ تو خود سے اپنا لوٹ مچوانا چاہتی تھی۔

    بچپن کی بہت سی باتوں کے علاوہ پرسادی رام کو چھوکری کی لوٹ کی رسم اچھی طرح یاد تھی۔

    دو بیا ہے ہوئے بھائیوں کا ساری عمر ایک ہی گھر میں رہنا کسی قدر مشکل ہوتا ہے۔ خصوصاً جب کہ ان میں سے ایک تو صبح و شام گھی شکر میں ملا کر کھانا پسند کرے اور دوسرا اپنی قبول صورت بیوی کے سامنے ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں کے لیے کانوں کا کچا بنے۔ لیکن محلہ شہسوانی ٹولہ میں پرسادی کے پتا چمبا رام اور تایا ٹھنڈی رام جگت گورو اپنے باپ دادا کے مکان میں اکٹھے رہتے آئے تھے۔ یہ اکٹھے رہنے کی وجہ ہی تو تھی کہ چمبا رام کا کاروبار اچھا چلتا تھا اور ٹھنڈی رام کو نوکری سے اچھّی خاصی آمدنی ہو جاتی تھی۔ عورتوں کی گودیاں ہری تھیں اور صحن کو برکت تھی اور وہاں آم کے ایک بڑے درخت کے ساتھ کھرنی کا ایک خوبصورت سا پیڑ اگ رہا تھا، جس کے پتّوں سے کھچڑی ہوتی ہوئی ککروندہ کی بیل بازار میں چھدامی کی دکان تک پہنچ گئی تھی اور آس پاس کے گانووں سے آئے ہوئے لوگوں کو ٹھنڈی میٹھی چھاؤں دیتی تھی۔

    پرماتما کی کرنی، پرسادی کی پیدائش کے ڈیڑھ دو سال بعد چمبا رام کال بس ہو گئے، مگر جگت گوروجی نے بھاوج کو بیٹی کر کے جانا اور پرسادی کو اپنا بیٹا کر کے پہچانا اور تائی اماں بھی تو یوں بُری نہ تھیں۔ اساڑھی اور ساونی کے دو موقعوں کے سوا جب کہ بٹوارہ گھر میں آتا، وہ پرسادی کی اماں کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش آتیں۔ کبھی تو یہ گمان ہونے لگتا جیسے دونوں ماں جائی بہنیں ہیں۔ اس اتفاق کی وجہ سے صحن کی برکت جوں کی توں رہی۔ صحن میں چار پانچ برس سے لے کر بیس اکیس برس تک لڑکیاں سہیلے، بدھائی، بچھوڑے اور دیس دیس کے گیت گاتیں۔ چرخے کاتتیں اور سوت کی بڑی بڑی انٹیاں مینڈھیوں کی طرح گوندھ کر بُنائی کے لیے جولاہے کے ہاں بھیج دیتیں۔ کبھی کبھی کھلے موسم میں ان کا رت جگا ہوتا تو صحن میں خوب رونق ہو جاتی۔ اس وقت تو پرسادی سے چھوکرے کو پٹاریوں میں سے گلگلے، میوئے بادام، برفی وغیرہ کھانے کے لیے مل جاتی۔

    پرسادی کی بہن رتنی اس کی تائی کی لڑکی، عمر میں پرسادی سے گیارہ بارہ برس بڑی تھی۔ رتنی سے عمر کے اس فرق کا پرسادی کو بہت گلہ تھا، اور گلہ تھا بھی بالکل بجا۔ سچ پوچھو تو رتنی ایک پل بھی اس کے ساتھ نہ کھیلتی تھی۔ البتّہ سردیوں میں سوتی ضرور تھی اور جب تک وہ پرسادی کے ساتھ سوکر اس کے بستر کو گرم نہ کر دیتی، پرسادی مچلتا رہتا۔

    ’’رتنی آؤ۔۔۔ آؤ نا رتنی۔۔۔ دیکھو تو مارے سردی کے سن ہوا جاتا ہوں۔‘‘

    رتنی بہت تنگ ہوتی۔ تو سٹپٹا کر کہتی، ’’سوجا، سوجا مونڈی کاٹے، میں کوئی انگیٹھی تھوڑے ہی ہوں۔‘‘

    یہ تو ہوئی نا رات کی بات۔ دن کو رتنی کسی اپنی ہی دھن میں مگن رہتی۔ ہولے ہولے گاتی، ’’میٹھے لاگے وا کے بول۔۔۔‘‘

    آخر کوئی تو پرسادی کے ساتھ کھیلنے والا چاہیے تھا۔ جب وہ بالکل اکیلا ہوتا تو اسے کچھ کچھ سمجھ آتی کہ کال بس ہو کر سورگ میں چلے جانے کا کیا مطلب ہے۔ وہاں لوگ اکیلے رہتے ہیں۔ لیکن انھیں کوئی بھی تکلیف نہیں ہوتی۔ جب وہ سوچ سوچ کر تھک جاتا تو دوڑا دوڑا ماتا رانی کے جوہڑ پر پہنچ جاتا۔ تمام کپڑے اتار کر کنارے پر رکھ دیتا اور کچھ دور پانی میں جا کر ایک آدھ ڈبکی لگاتا اور بہت چکنی مٹی نکالتا اور گھر جا کر رتنی کو دیتا، تاکہ وہ اسے ایک مُنّا بنا دے۔ بہت خوبصورت، مٹی کا مُنّا اور پھر وہ تمام دن مُنّا کے ساتھ کھیلتا رہے گا اور اسے تنگ کرنا چھوڑ دے گا۔ رتنی کہتی، ’’دیکھو پرسو! میں تب بناؤں گی تمھارے لیے مُناّ، اگر تم کوٹھا پھاند کر مُلّو کنہیّا کے پاس جاؤ اور اسے کہو کہ آج شام وہ رتنی بہن کو ضرور ملیں۔‘‘

    ملو کنہیّا کے مکان کی ڈھلوان سی چھت کو رینگ کر چڑھنا کوئی کھیل تھوڑا ہی تھا۔ رتنی خود گھوڑی بن کر پیٹھ کی اوٹ دیتی، تب کہیں پرسادی منڈیر تک پہنچتا۔ لاکھ آسرا لینے پر بھی اس کی کہنیاں اور گھٹنے چھِل جاتے اور اتنی محنت کے بعد جب پرسادی لوٹتا تو دیکھتا کہ رتنی کی بچی نے کوئی مُناّ ونّا نہیں بنایا اور پھلکاری کی اوڑھنی کو بوڑھی جمعدارنی کی طرح منھ پر کھسکائے، وہی بالکل فضول اور بے مطلب سا گانا گنگنا رہی ہے، ’’میٹھے لاگے وا کے بول۔۔۔‘‘

    اس وقت پرسادی کی بہت بُری حالت ہوتی۔ وہ چاہتا کہ وہ بھی کال بس ہو جائے۔ مگر کال بس ہونے سے پہلے بہت ہی پھونک کر بخار آتا ہے۔ ہڈیاں کڑکتی ہیں۔ یوں ہی دکھائی دیتا ہے، گویا کوئی بڑا سا خوف ناک، کالے رنگ کا بھینچا سینگ مارنے کو دوڑ آ رہا ہے۔ انسان ڈر ڈر کر چیخیں مارتا اور کانپتا ہے۔ پرسادی کو یہ باتیں تمہیداً منظور نہ تھیں۔ بیٹھے بٹھائے پل بھر میں کال بس ہو جانا کسی بھاگوان کو ہی ملتا ہے۔ اس وقت وہ روتے ہوئے ماں کے پاس جاتا اور کہتا، ’’چندو کے گھر منّا ہوتا ہے۔ بیرو کے گھر منّا ہوا ہے ماں۔ ہمارے گھر کیوں نہیں ہوتا منّا؟ تم ایسے جتن کرو ماں، ہمارے ہاں بھی بھی ایک منا ہو جائے۔‘‘

    پرسادی کی ماں ایک بہت گہر ااور ٹھنڈا سانس لیتی اور چھینکتی ہوئی لو ہے کے ایک بڑے ہاون دستے میں لال لال مرچیں کوٹتی جاتی اور نہ جانے اس کے جی میں کیا آتا کہ پرسادی کی طرح بلک بلک کر رونے لگتی۔ پھر ایکا ایکی سب رونا دھونا چھوڑ کر تیزی سے مونڈھے پر اروی کو چھیلنے کے لئے رگڑنا شروع کر دیتی اور جب پرسادی بالکل ضد ہی کئے جاتا تو وہ کہتی، ’’پرسو بیٹا! یوں نہیں کہا کرتے اچھے لڑکے۔ تمہارے پتا لایا کرتے تھے منّا۔ وہ اب روٹھ گئے ہیں۔‘‘

    ’’تو تایا کو کہئے نا۔ وہی لا دیں ہمارے گھر منّا۔‘‘

    ’’وہ منا اپنے ہی گھر لائیں گے۔ پگلے کوئی کسی کے گھر منا نہیں لاتا۔ بھاگ جاؤ۔ کھیلو، بہت باتیں گروگے تو ماروں گی۔ ہاں!‘‘

    پرسادی کو کیا۔ وہ تو چاہتا تھا کہ اسے کسی طرح ایک منّا مل جائے۔ افسوس اس بچارے کو تو کوئی مٹی کا منا بھی بنا کر نہ دیتا تھا۔

    کسی برساتی شام کے صاف اور سنہری جھٹ پٹے میں وہ برکت والا صحن اور ہر نوع دہر عمر کی لڑکیوں، رنگ رنگیلے چوخوں اور پٹھوں کی ٹوکریوں سے بھرنا شروع ہو جاتا۔ تمام لڑکیاں عمر کے لحاظ سے دو ٹولیوں میں تقسیم ہو کر ککروندہ اور کھرنی کی آڑ میں بیٹھ جاتیں۔ چھوٹی لڑکیوں کا خیال تھا کہ ان کا کل کی بچیوں کو چنری اوڑھنے کا تو سلیقہ نہیں اور وہ ان کے گانے کو بھی تو نہیں سمجھ سکتیں۔ صرف منہ اٹھا کر ایک ٹک ان کی طرف دیکھنے لگ جاتی ہیں۔ پھر شرم آنے لگتی ہے۔ منہ لال ہو جاتا ہے۔ گانا گلے میں اٹک جاتا ہے۔ اور پھر ملو کنھیا کے متعلق باتیں کرنے میں انھیں کوئی مزا نہیں آسکتا۔ اور وہ تکلے پر سے دھاگے کی لمبی سی تار اٹھائی ہوئی یک دم رک کر انٹی کے نیچے ٹوکری میں سے بھنے ہوئے دانے اور گڑ کھاتیں۔ تبھی تو وہ سب کی سب گرم تھیں۔ رتنی کی طرح۔ اور ان کے چھوٹے بھائی ان کے ساتھ سخت سردی میں سونے کے لئے مچلتے تھے۔

    رام کلی دوسخنہ کہتی اور دوسری کوئی راگ الاپ کر اپنا سر ککروندے میں چھپا لیتی۔ تیسری انمل کہتی ہوئی بیل سے لپٹ جاتی اور جب آم پر کوئل کو کو کرتی تو دھیرا کہتی ہائے ہائے۔ جانے بڑا ہی دکھ پہنچ رہا ہو۔ اسی لئے تو وہ چھوٹی لڑکیوں سے کٹ کر الگ بیٹھتی تھیں۔ پرسادی نے چھوٹی لڑکیوں کو اس قسم کا دکھ پہنچتے کبھی نہیں دیکھا۔ وہ تو چپ چاپ کھرنی کے نیچے بیٹھ کر پہیلیاں کہتی۔ انھیں اور خود پرسادی کو وہی سیدھی سادی پہیلیاں بہت پیاری تھیں۔ اس لئے کہ ان کی اپنی زندگی بھی ایک سادہ سی پہیلی تھی۔ ان پر وہ راز نہیں کھلا تھا جو رام کلی، رتنی، کھیمو، دھیرا اور مقابلتاً بڑی بڑی لڑکیوں پر آشکار ہو گیا تھا۔

    ہاں! ایک بات پرسادی نے بہت محسوس کی۔ وہ یہ تھی کہ ککروندہ کی اوٹ میں بیٹھنے والی بڑی لڑکیوں میں آئے دن تبدیلی ہوتی رہتی اور جیسے بھری دنیا میں دائیں یا بائیں سے کبھی کبھی آواز آتی ہے کہ فلاں کال بس ہو گیا، اسی طرح ان میں سے آواز آتی،

    ’’چمپو بھی بیاہی گئی۔‘‘

    یا۔۔۔

    ’’رام کلی بھی گئی۔ چلو چھٹی ہوئی۔ پرماتما کرے اپنے گھر بیٹھی لاکھوں برس سہاگ منائے۔ لاکھوں برس‘‘

    اور پھر۔۔۔

    ’’بہن! دھیرا کے بغیر تو گانے کا مزا ہی نہیں آتا۔ کیسی لٹک کے ساتھ کہتی تھی ’’وا بِن سب جگ لاگے پھیکا‘‘ کتنی سندر تھی۔ جب ناک میں تیلی ڈالتی تو یوں ہی دکھائی دیتی، جیسے گہنوں سے لدی ہو۔‘‘

    اور پھر ایک اور بول اٹھتی، ’’دھیرا بہت گُڑ کھاتی تھی۔ کہتے ہیں بہت گُڑ کھانا، اولاد کے لیے اچھا نہیں ہوتا۔‘‘

    تو کیا ککروندہ کے نیچے بیٹھی ہوئی ٹولی میں کمی واقع ہو جاتی؟ بالکل نہیں۔ کیوں کہ چمپو، رام کلی اور دھیرا کی مانند سہاگ منانے کے لیے چلی جانے والی لڑکیوں کی جگہ کھرنی کے نیچے پہیلیاں کہتی سنتی ہوئی لڑکیاں آہستہ آہستہ پُر کر دیتیں۔ اور کھرنی کے نیچے بیٹھی ہوئی لڑکیوں کی خالی جگہ کو پُر کرنے کے لیے محلہ شہسوانی ٹولہ کی مائیں کثرت سے چھوکریاں جنتیں اور یوں سلسلہ بندھا رہتا۔ یا شاید یہ سب کچھ اس لیے ہوتا کہ جگت گوروجی کے صحن میں وہ ریل پیل، وہ دھما چوکڑی ہمیشہ ہمیشہ بنی رہے۔

    مگھر اور پوہ کے دن تھے، جب مکرسکرانت آئی اور عورتیں ڈھکے ہوئے پھل پھولوں کا تبادلہ کرنے لگیں اور ایک دوسری کے سہاگ کو عرصہ تک قائم رہنے کی دعائیں دینے لگیں۔ کنواری کو کلاؤں نے بھی آنے والی خوشی کی زندگی کی پیش قدمی میں ایک دوسری کے شگن منائے۔ گھر کے مرد ان عورتوں کی آزادی میں مخل ہونے سے ڈرتے ہوئے اپنی اپنی گڑ گڑی وغیرہ اٹھا کر ٹھاکر دوارے چلے گئے۔ پرسادی کی تائی امّاں اِن دنوں بہت فکرمند رہتی تھیں۔ کہتی تھیں، ’’کہیں چھوکری کے ہاتھ پیلے کروں تو اپنی نیند سوؤں۔ ابھی تک بر نہیں ملا۔ یہ سنجوگ کی بات ہے نا۔ پرماتما ہی کرن ہار ہے۔ استری مرد کا وہی میل ملاتا ہے۔ جہاں سنجوگ ہوں گے۔ ہے پر ماتما!‘‘

    اس روز تمام عورتیں برآمدے میں بیٹھی ٹھٹھے اور ہنسی مذاق کی باتیں کر رہی تھیں۔ ایکا ایکی پرسادی کی تائی امّاں نے سب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، ’’لو بیٹی!تیار ہو جاؤ سب، اب میں اپنی چھوکری کی لوٹ مچاؤں گی۔‘‘

    اس تیوہار میں یہ رسم بھی عجیب ہوتی ہے۔ جس کی لڑکی بہت جوان اور شادی کے قابل ہو جائے، وہ اس کی لوٹ مچاتی ہے۔ تائی امّاں کی طرح کوئی بوڑھی سہاگن اٹھ کر گری، چھوہارے، بیر اور قسم قسم کی پھل پھلاری لڑکی کے سر پر سے مٹھیاں بھر بھر کر گراتی ہے۔ جب وہ چیزیں نیچے بکھر جاتی ہیں، تو تمام کنواری کوکلائیں اور سہاگنیں پھل پھُولوں کو لوٹنے کے لیے جگت گوروجی کے صحن میں اگے ہوئے پیڑوں اور بیل کے پتّوں کی طرح کھچڑی ہو جاتی ہیں۔ ہرایک کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ وہ پھل کھائے۔ اگر سہاگن کھائے تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ اس کے سہاگ کی عمر لمبی ہو جاتی ہے۔ شاید لاکھ برس تک! بانجھ کھائے تو اس کے چاند سا بیٹا پیدا ہوتا ہے۔ کنواری کھائے تو اس کی عنقریب ہی شادی ہو جاتی ہے۔ اچھا سا بر مل جاتا ہے۔ اسی لیے تو کنواری لڑکیاں اٹھا کر چپکے چپکے اور چوری چوری وہ پھل کھاتی ہیں۔

    پرسادی نے دیکھا، رتنی آپے سے باہر ہو رہی تھی۔ پرسادی کی ماں نے اسے بتایا کہ چھوکری کی لوٹ کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ تمھاری رتنی بہن کو کوئی بیاہ کر لے جائے گا۔ کوئی لوٹ کر لے جائے گا اور پرسادی کی اماں ہنسنے لگیں، ’’تائی اماں خود بھی تو اپنی چھوکری کے لٹ جانے کو پسند کرتی ہیں اور ایسے آدمی کی متلاشی ہیں، جو کہ اسے سر سے پانو تک اپنی ہی ملکیّت بنا کر ڈولی میں بٹھا چل دے، اور بڑے شور و غوغا کے ساتھ باجے بجواتا ہوا اور پھر گھر میں سے آدھی جائداد سمیٹ کر لے جائے۔‘‘

    پرسادی نے سوچا۔ کسی کو کیا؟ مصیبت تو اسے ہو گی۔ سردیوں میں رتنی چلی جائے گی تو اس کے بستر کو کون گرم کرے گا؟ تائی اماں تو برف کی طرح ٹھنڈی ہیں اور اماں تو تمام رات کھانستی رہتی ہیں۔ اِدھر سے ادھر اور ادھر سے اِدھر پہلو بدلتی اور چھت کی کڑیاں گنتی چلی جاتی ہیں۔ نہ آپ سوتی ہیں، نہ سونے دیتی ہیں۔ کہتی ہیں میرے ساتھ سونا اچھا نہیں۔ مجھے دق ہے۔

    تایا جگت گورو ٹھنڈی رام بہت کاریگر تھے، تبھی تو لوگ انھیں جگت گورو کہتے تھے۔ صبح شہر میں بھیجنے کے لیے کیلنڈروں کی چفتیاں بنواتے رہے۔ آٹھ بجے کے اندر اندر کھوئے میں گجریلا تیار کر لیا اور پھر جھٹ سے کام پر بھی چلے گئے۔ بلا کے آدمی تھے جگت گورو۔ اس دن پرسادی بھی ان کے ساتھ کام پر گیا۔

    جگت گورو چنگی محصول پر محرر تھے۔ تمام دن وہ گلقند میں استعمال ہونے والے گلاب کے پھولوں اور خام کھالوں پر محصول لگاتے رہے۔ کبھی کبھی کسی سے کچھ لے کر اسے یوں ہی چھوڑ دیتے۔ آخر جگت گورو تھے نا، اور رتنی کی لُوٹ مچانی تھی۔ اس طرح دھیلا دھیلا پیسہ پیسہ کر کے ہی تو کچھ بنتا ہے۔ تبھی تو وہ موٹے ہو رہے تھے۔ کہتے ہیں رشوت لینے میں انسان موٹا ہوتا ہے اور رُوح اور ضمیر سُوکھ جاتے ہیں۔ لیکن جسم تو دکھائی دیتا ہے روح اور ضمیر کس کو نظر آتی ہے؟

    چنگی پر خوشیا اور وفاتی آئے۔ بر تو انھیں اچھا مل گیا تھا۔ بہت ہی اچھا۔ اب ساہے کی تاریخ لینی تھی۔ جگت گورو نے لڑکے اور لڑکی کی جنم پتری پنڈت جی کو دکھا کر تاریخ سدھوا رکھی تھی اور جنم پتریاں جیب میں لیے پھرتے تھے۔ خوشیا اور وفاتی کے پوچھنے پر فوراً تاریخ بتا دی۔ لڑکے کی طرف سے کوئی میر مدّو آیا تھا۔ سب ’’بڑے بھاگ ججمان کے۔ بڑے بھاگ ججمان کے۔‘‘ کہتے ہوئے رخصت ہوئے۔

    تائی اماں بڑی بے صبری سے ساہے کا انتظار کرنے لگیں، انھوں نے کئی چاندی کے برتن بنوائے۔ سونے کے جھومر، جڑاؤ نکلیس، گھڑی چوڑی اور قسم قسم کے زیور تیار کروا لیے۔ آخر اسی بات کے لیے تو تایا نے گلقند میں استعمال ہونے والی گلاب کی گٹھیں دو دو چار چار آنے لے کر چھوڑ دی تھیں اور خام کھالوں کی گٹھیں دو دو چار چار روپئے لے کر۔ بیسیوں گلاس، بڑی کڑاہی، حمام، ایک بڑا سا پلنگ بھی خریدا تھا تایا نے۔ اس پر پرسادی اور رتنی ایسے چھ سوجائیں۔ پھر کرسی، میز سنگاردان، باجہ، لڑکی کے سوٹ، لڑکے کے کپڑے اور بدائی پر روپئے دینے کے لیے شہر کے نوٹ گھر میں سے نئے روپئے منگوائے۔ اور پرسادی سوچنے لگا، کیا یہ سب کچھ لٹا دینے کے لیے ہے؟

    پرسادی نے کہا۔ تایا کچھ اتنے سیانے نہیں دکھائی دیتے۔ مگر وفاتی، خوشیا، بیلی رام اور اَڑوس پڑوس کے سب آدمی جگت گورو کی واہ وا کر رہے تھے۔ لڑکی کا دان کرنا سو گائے کے دان کے برابر ہوتا ہے۔ تلا دان سے کم پھل نہیں ملتا۔ وہ سب کہتے تھے۔ بھئی جگت گورو کو یہ نام جدی تھوڑے ہی ملا ہے۔ اسی لیے تو یہ نام دیا ہے۔ بڑے سیانے، بڑے کاریگر آدمی ہیں۔ ایشور کسی کو بیٹی دے، تو لٹانے کے لیے اتنا دھن بھی دے۔ واہ وا۔ واہ وا۔۔۔

    پرسادی نے اماں سے تایا کی عقل کے متعلق پوچھا، تو وہ کہنے لگی بیٹا! یہ چھوکری کی لُوٹ آج سے نہیں، جب سے دنیا بنی ہے، چلی آ رہی ہے۔ سب اپنی اپنی بیٹیوں کو یوں دے دیتے ہیں، اتنی دولت اور دھن بھی۔ ہائے! اس پر بھی بس ہو تو کوئی لاکھ منائے۔ بیٹیوں والے منتیں کرتے ہیں۔ پانو پڑتے ہیں۔ کیا جانے اس کے سسرالی روٹھ جائیں۔ تب جا کر ساری عمر کے لیے کوئی کسی کی بیٹی لیتا ہے۔ کوئی بہت بے ڈھب ہو، تو لے دے کر بھی نہیں بساتا۔ اور پھر کسی نصیبوں جلی کا بنا بنایا سہاگ اجڑ جاتا ہے۔‘‘ اور پرسادی کی ماں کی آنکھیں ڈبڈبا آئیں۔ وہ بولیں، ’’پرسو تو بھی بڑا ہو گا، تو ایک چھوکری لوٹ کر لائے گا۔ اسی طرح دھن دولت سمیت۔ ایشور تیری عمر چار جُگ لمبی کرے! اسے اچھی طرح بسانا۔ مجھے نشچہ ہے۔ میں وہ بھاگوان سمے اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ سکوں گی۔‘‘ اور پرسادی کی ماں رونے لگیں۔ پرسادی نے پُوچھا، ’’تو کہاں چلی جائے گی ماں؟‘‘ وہ اپنی آواز کو دباتے ہوئے بولیں، ’’تمھارے پتا کے پاس۔ وہ بھی مجھے اسی طرح لُوٹ کر لائے تھے، میں ان ہی کی ہوں۔‘‘

    پرسادی بجھے ہوئے تنور میں ٹانگیں لٹکائے تمام دن اداس بیٹھا سوچتا رہا۔ میں بڑا ہوں گا اور ایک چھوکری کو لوٹ لاؤں گا۔ اس لڑکی کے گھر ککروندہ کی بیل کے نیچے ایک لڑکی کی کمی ہو جائے گی، جسے کوئی اور پُر کرے گی۔ ہاں! وہ بھی تو اپنے کسی بھائی کو سردیوں میں اپنے بسترے میں جم جانے یا تائی اماں کے برف سے ٹھنڈے جسم کے ساتھ لگ کر سوجانے کے لیے چھوڑ آئے گی۔ اس کا بھائی تو رہ رہ کر مجھے گالیاں دے گا اور کہے گا۔ اِس سے تو کہیں اچھا ہے، کہ میں کال بس ہو جاؤں۔

    ساہے کے دن پرسادی کے جیجا بہت سے آدمیوں کے ساتھ آئے۔ اگر اماں نہ روکتی تو پرسادی لٹھ لے کر سب کا مقابلہ کرتا۔ پھر کسی کی کیا مجال تھی کہ رتنی کو اتنی بے دردی سے لوٹ جانے کی جرأت کرتا، اگرچہ جگت گورو اور تائی اماں کی اِس لوٹ میں خوشی تھی۔ تائی اماں منڈپ کے نیچے جھنڈیوں اور لکڑی کی چڑیوں کے نیچے بیٹھی تھی۔ ارد گرد عورتیں گا رہی تھیں۔ باہر باجا بج رہا تھا اور پنڈت جی کے شلوکوں کی آواز اس شور و غوغا سے علاحدہ سنی جا سکتی تھی۔ جب پھیرے ہو گئے۔ تو سب نے تائی اماں اور جگت گورو کو بدھائی دی۔ تائی اماں کی سرخ پھلکاری اور جگت گوروجی کی گلابی پگڑی پر کیسر کے نشان لگائے گئے اور پیلے پیلے پھول اور پنکھڑیاں برسائی گئیں۔ جانے انھوں نے رتنی کو لُٹا کر بہت عقل مندی دکھائی۔ تائی اور اماں نے سبکدوشی کے ایک احساس سے اس کی لُوٹ کی خوشی میں دودھ کے دو بڑے کٹورے بھر کر پیے۔

    پرسادی کو جیجا ایک آنکھ نہ بھاتا تھا۔ پرسادی نے کہا، یہ مردہ سا، کالا کلوٹا آدمی رتنی بہن کو لُوٹ کر لے جائے گا۔ رتنی تو اس کی شکل دیکھ کر غش کھا جائے گی۔ لُوٹ کر لے جانے والے ڈاکو ہی تو ہوتے ہیں، بڑی بُری اور ڈراؤنی شکل کے۔ اس میں اور ان میں اتنا فرق ہے کہ ڈاکو منڈاسا باندھ کر آتے ہیں اور یہ کالا کلوٹا جیجا سہرا باندھ کر آیا ہے۔

    جب کہاروں نے ڈولی اٹھائی تو گھربھر میں کہرام مچ گیا۔ آج پھر ککروندہ کے نیچے ایک نشست خالی ہو رہی تھی۔ تائی اماں اونچے اونچے رونے لگیں۔ ہائے! بیٹی کا دھن عجیب ہے۔ پیدا ہوئی، راتیں جاگ، مصیبتیں سہ، گُو مُوت سے نکالا، پالا، پڑھایا، جوان کیا۔ اب یوں جا رہی ہے، جیسے میں اس کی کچھ ہوتی ہی نہیں۔ ایشور! بیٹی کسی کی کوکھ میں نہ پڑے۔ اس کے وداع ہونے کا دکھ بُرا۔ ہائے! اس طرح تو کوئی آنکھیں نہیں پھیرتا۔ جگت گورو پرسادی کی طرح بلکنے لگے، اماں تو درو دیوار سے ٹکریں مارنے لگیں۔ ہائے! مجھ سے تو رتنی کا بچھوڑا نہ سہا جائے گا۔ میری بیٹی نے تو مجھے دو ہاگ کا دکھ بھلا دیا تھا۔ ہائے! اس سنسار کی ریت جھوٹی، اس سے پریت جھوٹی۔ جا، بیٹی جا، جا اپنے گھر سکھی رہ۔ تیری مہک ہمیں یہاں آتی رہے۔ تو لاکھوں برس سہاگ منائے۔

    تمام لڑکیاں بچھوڑا گاتے ہوئے رک رک گئیں۔

    ڈولی کا پردہ اٹھا کر رتنی نے پرسادی کو گلے سے لگا کر خوب بھینچا۔ پرسادی بھی اسے روتا دیکھ کر خوب رویا۔ رتنی کہتی تھی، ’’پرسو بھیا۔ میرے لال! تو میرے بغیر سوتا ہی نہیں تھا۔ اب تو رتنی کو کہاں ڈھونڈے گا؟‘‘

    پھر سب کو مخاطب ہوتے ہوئے کہنے لگی، ’’مجھے اس گھر میں رکھنے کی کوئی بھی حامی نہیں دیتا۔ سبھی تو میری جان کے لاگو ہو رہے ہیں۔‘‘ اور جب جیتے جاگتے آدمیوں میں سے کسی نے اسے نہ ٹھہرایا، تو رتنی دادا اور چمبا رام چچا کو یاد کر کے رونے لگی۔ در و دیوار سے باتیں کرنے لگی۔ میرے بابل کے گھر کے دوار۔ یہ محل، یہ باڑیاں، میں سمجھتی تھی میرا اپنا گھر ہے۔ کھرنی۔۔۔ اور میرے میٹھے آم۔ نِردئی پتا، تیرے بستے مندروں میں سے مجھے زبردستی نکال کر لے جا رہے ہیں۔ یہاں کا دانہ پانی چھوٹ گیا!‘‘

    جب رتنی چلی گئی تو پرسادی اسی بُجھے ہوئے تنور پر اداس خاطر بیٹھا ادھیڑ بُن کرتا رہا۔ طرح طرح کے خیال اور وسوسے اس کے دل میں آئے۔ اس نے کہا۔ تائی اور اماں کے خیال کے مطابق جب پرماتما ہی مرد اور استری کا میل ملاتا ہے، تو پھر خوشیا اور وفاتی کی کیا ضرورت ہے؟ وہ یوں بھی تو گھر میں سے سیروں آٹا، گڑ اور گھی لے جاتے ہیں۔ گٹھوں کے گٹھے گنّوں کے۔ ساگ پات، پکا، کچا۔ بدماس کہیں کے۔ صرف اتنی سی بات کہتے ہیں، ’’بڑے بھاگ ججمانی کے۔ بڑے بھاگ ججمانی کے۔‘‘ اور لا دیتے ہیں، اتنا مردہ سا کالا کلوٹا جیجا۔ پرماتما کے کیے میں دخل دیتے ہیں نا۔ کیوں نہیں ملّو کنہیّا رتنی کو لے جاتے۔ پرماتما نے آپ ہی تو میل ملا دیا تھا اور رتنی بھی تو یہی کہتی تھی کہ تمھارا جیجا ملّو کنہیّا ہے۔ کبھی کسی کے دو دو جیجے بھی ہوتے ہیں۔ میں تو ملّو کنہیّا کو ہی جیجا کہوں گا۔ اس مردوے کو کبھی نہیں۔ لاکھ زور کرے کوئی۔

    نہ جانے یہ لوگ چھوکری کی لوٹ کے اتنے خواہش مند کیوں ہوتے ہیں۔ پل پل گِن کر ساہے کا انتظار کرتے ہیں۔ پھیروں کے بعد دودھ کے کٹورے پیتے اور بدھائیاں لیتے ہیں اور پھر جب لوٹ ہوتی ہے تو روتے ہیں۔ اتنا مورکھ کون ہو گا، جو آپ ہی سب کام کاج کرے اور پھر روئے۔ جانے کوئی کال بس ہو گیا ہو، اور پھر رتنی کی بھی تو جانے کی مرضی نہ تھی۔ وہ دہلیز پکڑ پکڑ کر روتی تھی۔ بچاری! برا حال تھا۔

    سب گھر لٹا دیا اور پھر ہاتھ جوڑتے رہے۔ قبول کرو۔ میں تو یوں کبھی کسی کے پاؤں نہ پڑوں۔ اوّل تو دوں ہی نہیں۔ دوں تو یوں پاؤں پڑ کر منتیں کر کے کبھی نہ دوں۔ نہ لیں تو جائیں بھاڑ میں۔ اس دن پرسادی ساری رات تائی اماں کے برف کے سے ٹھنڈے جسم کے ساتھ لگ کر جاگتا رہا۔

    کچھ دنوں بعد رتنی آپ ہی آپ آ گئی۔ پرسادی کو اس نے بہت چوما، پیار کیا، گویا وہ اب اپنے ننھے سے بھائی کو چھوڑ کر کہیں نہ جائے گی اور اسے خود بھی چھوکری کی لُوٹ پسند نہیں۔ اس رات پرسادی بڑے سکھ اور چین سے رتنی کے ساتھ سویا۔ رتنی ساری رات پیار سے پرسادی کو بھینچتی رہی۔ جب صبح سویرے آنکھ کھلی تو رتنی بستر میں نہ تھی۔ پتہ چلا کہ وہی لٹیرا اسے لوٹ کر لے گیا تھا۔

    پرسادی پھر رویا۔ مگر ماں نے کہا، ’’بیٹا! یہ رسم آج سے نہیں، جب سے دنیا بنی ہے، چلی آئی ہے۔‘‘

    سوچتے ہوئے پرسادی نے کہا، ’’بڑے نخرے کرتی تھی رتنی۔ سچی بات تو یہ ہے کہ یہ چھوکریاں خود بھی لٹ جانا پسند کرتی ہیں۔ وہ تو اپنے سوتے ہوئے بھائیوں کے جاگنے کا انتظار بھی نہیں کرتیں اور کالے کلوٹے جیجا کے ساتھ بھاگ جاتی ہیں۔‘‘

    اب کے جو رتنی آئی تو چھوکری کی لوٹ کے متعلق پرسادی نے اپنا نظریہ بالکل الٹ دیا۔ اس نے کہا، دراصل یہ لوٹ سب کے لیے اچھی ہوتی ہے۔ تائی، اماں، جگت گورو جی اور خود رتنی بھی اسے پسند کرتی ہے اور خاص طور پر اسے بھی اچھی لگتی ہے۔ مُناّ تو مل جاتا ہے۔ رتنی نے اسے جیجا کی طرح دبلا پتلا، مگر اپنی طرح کا گورا چِٹا مُناّ کھیلنے کو لا دیا تھا۔ پرسادی نے ماں کو بلاتے ہوئے کہا، ’’بھولی ماں۔ تو تو جتن کرنے سے رہی۔ کیا تو نہ لٹے گی؟

    مأخذ:

    دانہ و دام (Pg. 68)

    • مصنف: راجندر سنگھ بیدی
      • ناشر: مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 1980

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے