ستیہ کے بکھرے ہوئے بال
رات کے سناٹے میں کاکروچ کی آوازیں سیٹیوں کی طرح بجنے لگیں۔ چارپائی کی رسیاں ستیہ کے پہلو بدلنے پر کسمسائیں اور پھر سے ایک گہری نیند میں کھو گئیں۔ ستیہ نے ایک اچٹتی ہوئی نظر اپنے بکھرے ہوئے بالوں پر ڈالی اور پلک جھپکتے میں صدیوں کا سفر طے ہونے لگا۔ اجنبی سائے چاروں جانب سے لپکنے لگے۔ کسی کی دستار پر چاند ٹکے تھے اور کوئی برہنہ سر۔۔۔ کسی کے لباس پر لعل ٹکے تھے اور کوئی سر تاپا برہنہ، کسی کی ہتھیلیوں میں دعائیں اگی تھیں اور کسی کے پیروں میں چاند سورج۔۔۔ سینہ کوبی اور ڈھول۔۔۔ پچکے گال اور رنگ برنگے بال، اونچے نیچے جھولوں میں چیختی ہوئی سرگوشیاں اور اس میلے میں کھوئے ہوئے بچوں کی ٹولیاں!
مگر سب کے چہروں پر کھدے ہوئے تھے ایک جیسے سوال۔۔۔ کون ہیں ہم؟
تھوڑی تھوڑی دھند پھر چھٹنے لگی۔ سورج رنگوں میں بٹنے لگا، چاند اداس راتوں میں رونے لگا، ہوائیں سر سرانے لگیں اور زمین کھیتوں میں بٹنے لگی۔ اجنبی سائے للچانے لگے اور ایک دوسرے کی عورتوں کو کھانے لگے۔ لوہے تندوروں میں ابلنے لگے اور ہتھیار بننے لگے۔ پرندے جنگلوں میں چھپنے لگے اور بستیاں سایوں سے بھرنے لگیں۔۔۔ مہاویاء پہلی بار میلے میں نظر آنے لگا۔ اجنبی سائے خوفزدہ نظروں سے اس سے پوچھنے لگے۔۔۔ کون ہیں ہم؟
مہاویاء اجنبی سایوں میں عصا ڈھونڈنے لگا۔۔۔ ڈرو اپنے رب سے جو خود خوف سے پیدا ہوا۔
اجنبی سائے چیخ چیخ کر رونے لگے اور بین کر کے موسیٰ سے پوچھنے لگے۔ کیا خوف ہی سب کچھ ہے؟ نہیں۔۔۔ وہ تو محض ابتداء ہے۔
خون گاڑھا ہوکر جمنے لگا۔ پانی جو سورج کی گرمی سے اڑا تو جمتا خون بساند بھی دینے لگا۔ مہاویاء شکلیں بدل کر ڈرانے لگا مگر اجنبی سائے یونہی ایک دوسرے کا گوشت کھا کھا کر پلنے لگے۔ وہ اپنی دستار پر ستارے سجائے میلے پر قبضہ جمانے لگے۔ ہتھیار آگ برسانے لگے۔ چرند پرند بھاگنے لگے۔ بستیاں لاشوں سے پٹنے لگیں۔۔۔ محابا، مردہ سایوں کو جگانے لگا۔
اجنبی سائے حیران نظروں سے اس سے پوچھنے لگے۔۔۔ کون ہیں ہم؟
محابا، اجنبی سایوں میں مسیحا ڈھونڈنے لگا۔۔۔ محبت کرو اپنے جیسوں سے کہ تمہیں اس نے محبت سے پیدا کیا۔
اجنبی سائے چیخ چیخ کر ہنسنے لگے اور بےحیائی سے عیسیٰ سے پوچھنے لگے۔ کیا محبت ہی سب کچھ ہے؟
نہیں۔۔۔ وہ تو وحشت سے بہشت کا سفر ہے۔
صلیبیں ٹھکنے لگیں۔ محابا کے خون سے میلے کے جھولے رنگنے لگے۔ وحشتیں ناچنے لگیں۔ اجنبی سائے رنگ اور نسل کے لفظوں میں بٹنے لگے۔ گھنٹیوں میں نفرتیں بجنے لگیں۔ خوف اور محبت کے نام پر سروں کی فصلیں پکنے لگیں۔ قبیلے بنے اور اجنبی سائے دستاروں میں آنے والی نسل کے لیے عذاب بننے لگے۔ معرفا، بٹتے لفظوں کو معنی کا راز دے کر سمیٹنے لگا۔
اجنبی سائے انجان نظروں سے اس سے پوچھنے لگے۔۔۔ کون ہیں ہم؟
معرفا اجنبی سایوں میں کتاب ڈھونڈنے لگا۔ پڑھو اپنے رب کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے۔
اجنبی سائے خاموش ہوکر تکنے لگے اور بےیقینی سے محمدﷺ سے پوچھنے لگے۔۔۔ کیا علم ہی سب کچھ ہے؟
ہاں۔۔۔ یہی تو انتہاء ہے۔
بت بننے لگے، لفظ چومنے لگے۔ کتاب جزدان میں رکھ کر سجدوں میں پوجا کرنے لگے معرفا کے معنی ہواؤں میں اڑنے لگے۔ اجنبی سائے درندے تھے درندے ہی رہے۔ بستیوں میں وحشتیں ناچتی رہیں۔ نفرتیں سینوں میں پلتیں رہیں۔ میلے میں آگ اور خون کی ہولیاں رنگتی رہیں!
اچانک چارپائی کی رسیاں کسمسائی اور ستیہ کی آنکھ کھل گئی۔
چاروں طرف ایک ہولناک سناٹا، کسی عفریت کی طرح اس کے ارد گرد پھیلا ہوا تھا۔ تاریکی میں کہیں دور دور تک روشنی کی کوئی کرن نہیں تھی۔ کاکروچ کی سیٹیوں جیسی آوازیں خود کاکروچ کو نگل چکی تھیں۔ اچانک ستیہ کے کانوں میں کسی کے گھٹے گھٹے رونے کی آوازیں آنے لگیں۔ ستیہ نے آہستگی سے کہا۔۔۔ کون ہے؟ اور پھر اسے چارپائی کے سرہانے تین سائے نظر آنے لگے۔۔۔ مہاویاء، محابا، معرفا۔
مت رومیرے بچوں۔۔۔ ستیہ نے انہیں بلکتے ہوئے دیکھ کر کہا۔
وحدت الوجود۔۔۔ آسان نہیں۔ کیا ہم فنا ہو گئے۔۔۔ مہاویاء، محابا، معرفا نے روتے ہوئے پوچھا۔ ستیہ نے کہا۔۔۔ ہرگز نہیں، وہ وحدت الشہود کی منزل پر ہیں۔ درندگی کا علاج خوف، انسانیت کا محبت اور علم اس کی معراج ہے۔
تو کیا انہیں تمہارے بکھرے بالوں میں چھپی سچائی کا راز مل جائےگا؟
تو کیا وہ جان جائیں گے کہ وہ کون ہیں؟ ہاں۔۔۔ یقیناًستیہ نے اپنے بکھرے ہوئے بالوں کو دیکھ کر کہا۔۔۔ معرفت کٹھن ہے۔ ستیہ کے بکھرے بال انہیں سمیٹ کر خود میں گوندھ لیں گے۔۔۔ جو معرفت سے گزریں گے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.