Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

سوال

MORE BYآمنہ ابوالحسن

    سوکھی ہوئی زمین کے سرے پر پھول پتوں سے خالی ننگ دھڑنگ درخت کے پرے شام کا سورج دھیرے دھیرے اوجھل ہو رہا تھا اور عبد اللہ کے ستے ہوئے چہرے پر وحشت کے آثار شدید ہوتے جا رہے تھے۔ کم ہوتی ہوئی روشنی اور پھیلتے ہوئے سایوں میں اس کے سوکھے ہوئے رخساروں کی بھری ہوئی ہڈیاں اور پھیلا ہوا منہ بے حد خطرناک معلوم ہوتا تھا۔ کوٹھری کی ٹوٹی ہوئی سیڑھیوں پر بیٹھے بیٹھے اس نے پانچویں بار آواز نکالی، ’’اختر کی ماں۔۔۔ اختر تیار ہو گئی یا نہیں۔۔۔؟‘‘

    اور اندھیری کوٹھری سے ہر بار ایک منحنی نقاہت بھری آواز آتی، ’’ہو رہی ہے۔ تیار ہو رہی ہے۔‘‘ اس آواز کے کرب سے قطع نظر خود ماحول میں ایک قسم کا کرب تھا۔ سوکھے کا۔ قحط کا۔ اناج کی عدم دستیابی کا کرب۔

    حد نگاہ تک بےبرگ و بار درخت۔ سوکھی ہوئی خشک زمین۔ مرجھائے ہوئے بےرونق چہرے۔ لٹکے ہوئے بے جان جسم۔ آہ و بکا اور ان سب کے پس منظر سے ایک ہی ابھرتی ہوئی آواز۔ ایک ہی مطالبہ۔۔۔ روٹی۔۔۔ روٹی۔۔۔ روٹی۔۔۔؟

    ہڈیوں کے پنجر جانور اور انسان جو بے حد متلاشی نظروں سے ایک دوسرے سے الجھ الجھ کر پوچھ رہے تھے، کچھ کھانے کو مل سکےگا؟ روکھا سوکھا۔۔۔ باسی تو اسی۔۔۔ مگر کسی کے لبوں پر اثباتی جواب نہ تھا۔ ہر آنکھ میں آنسو، ہر پیٹ میں بھوک اور ہر ماتھے پر فکر کی گہری شکنیں تھیں۔ ایسے میں بستی کے نام نہاد ساہوکار کا عبد اللہ کے گھر آنا اور اس کی بیٹی کی قیمت لگانا کتنا خوش نصیبی کا موقع تھا۔ پچھلے کئی دن سے بھوک کے خلاف جہاد کرتے کرتے اب عبد اللہ خود بےحد نڈھال ہو گیا تھا۔ اس کے مویشی مر چکے تھے اور اب بچوں کی باری تھی۔ اب تک وہ بھی دوسروں کی طرح درخت کی جڑیں اور بوٹیاں ابال ابال کر اپنا اور بچوں کا پیٹ بھرنے کی ناکام کوشش کرتا رہا تھا مگر جب ہر آدمی جڑی بوٹیوں کی تلاش میں سرگرداں ہو جائے تو یہ بھی آخر کب تک ساتھ دیتیں۔

    چنانچہ عبد اللہ نے اپنی آن بان اور عزت کا لحاظ نہ کر کے ساہوکار کی مانگ قبول کر لی تھی، حالانکہ پہلے لمحے وہ اس بات کو سن کر بھوک پیاس کی شدت میں بھی بکھر گیا تھا اور اس نے ساہوکار کا گلا پکڑ لیا تھا مگر پھر اسے یاد آیا کہ بچوں کو موت کے منہ سے بچانے کا فی الحال یہی ایک طریقہ ہو سکتا ہے اور تب فوراً وہ شرمندہ ہو گیا اور اس نے اپنا ہاتھ ساہوکار کے گلے سے کھینچ لیا اور بولا، ’’بھوکا انسان جانور سے کم نہیں ہوتا ساہوکار۔۔۔ مجھے معاف کرو۔۔۔‘‘

    ساہوکار نے معنی خیز ہنسی کے ساتھ عبد اللہ کے کان میں کہا، ’’اس وقت ہر کوئی اپنی بیٹی مجھے سونپنا چاہتا ہے عبد اللہ مگر میں نے بھی کچی گولیاں نہیں کھیلیں۔ تمھاری بیٹی کے لیے گودام کا منہ کھول سکتا ہوں اور سن لو کہ اس گودام کی تلاش میں پولیس پچھلے کئی دن سے حیران و پریشان ہے مگر۔۔۔ نہ یہ گودام پولیس کے لیے ہے نہ لنگڑی لولی، کالی کلوٹی لڑکیوں کے لیے۔ سن لیا نا۔۔۔؟‘‘ پھر وہ سٹرپٹر کرتا رخصت ہو گیا اور عبد اللہ نے سوچا، واقعی پہلے تو ساہوکار کی مہربانی، پھر اپنے اچھے نصیب، ورنہ آج کل تو اناج سونے کے مول نہیں، سونا دے کر بھی لوگ اناج نہیں پارہے ہیں، تب خوش خوش وہ لپکا ہوا فوراً اپنی عورت کے پاس گیا اور دھیرے سے بولا، ’’اختر کی ماں۔ اختر کا بیاہ قبول کرو۔‘‘

    اپنا لٹکا ہواچہرہ اور بجھی ہوئی ملگجی آنکھیں اوپر اٹھاکر عورت نے تلخی سے کہا، ’’آگ لگے بیاہ کو۔ تن کو کپڑا، پیٹ کو روٹی میسر نہیں اور چلے ہو بیاہ کی بات کرنے۔‘‘

    ’’ارے کپڑے کی بات چھوڑوجی۔ پیٹ کی روٹی کے لیے ہی تو یہ بیاہ کر رہا ہوں۔‘‘

    عورت نے زیادہ ناگواری کے انداز میں اپنے مرد کی جانب دیکھا اور زیادہ کڑوے لہجے میں بولی، ’’توصاف صاف کیوں نہیں کہتے کہ بیٹی کو بیچ دینا چاہتے ہو۔ مگر۔۔۔ مول تول کا نام تو بیاہ نہیں ہو سکتا کبھی۔۔۔‘‘ اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ آواز رندھ گئی اور اس نے اپنا سر ایک جھٹکے سے نیچے جھکا لیا۔

    کھڑا ہوا عبد اللہ اب یک لخت اس کے بازو بیٹھ گیا۔ اس کے گھومے ہوئے چہرے کو اپنی طرف پلٹاتے ہوئے بولا، ’’تو تمھیں یہ گھمنڈ ہے کہ تم ہی ماں ہو۔ میں باپ نہیں۔‘‘

    ’’ہاں!‘‘ عورت نے غصے اور حقارت سے کہا، ’’باپ قصائی نہیں ہوتے۔ مر سکتے ہیں لیکن اپنی اولاد کا سودا نہیں کر سکتے۔‘‘

    عبداللہ نے عورت کا سوکھا ہوا غصے کی آگ میں جلتا چہرہ اپنے ہاتھ سے چھوڑ دیا اور کرخت آواز میں بولا، ’’جب خدا انسانوں کی نہیں سنتا تو انسان خود ایک قوت ہو جاتا ہے اختر کی ماں۔ ایک اختر کی بھینٹ سے ہم اپنے دوسرے بچوں کی زندگی بچا سکتے ہیں۔ کیا تمھیں یہ منظور نہیں۔۔۔ بولو۔۔۔ بتاؤ؟‘‘

    عورت کی آنکھوں میں اپنے ننھے بچوں کے چیختے چلاتے روتے بسورتے، تڑپتے چہرے گھوم گئے۔ اختر تو سمجھ دار ہے، سمجھانے پر سمجھ سکتی ہے، اس نے سوچا اور جھٹ آنسو پونچھ لیے اور یک لخت اپنے شوہر کی جانب گھوم کر نرمی سے بولی، ’’ہاں ہاں بے شک۔ مگر کیا۔۔۔ کب آئےگا ساہوکار۔ کب اختر کو اس کے ساتھ بھجوانا ہوگا۔ کہو نا جلد۔۔۔‘‘

    ’’شام میں۔۔۔ جب سورج ڈھل جائےگا۔ سایے چڑھ جائیں گے جب تاریکی ہر شے پر ایک گہرا نقاب ڈال دےگی۔۔۔‘‘

    اور پھر لمبا فاقہ زدہ دن کچھوے کی طرح رینگ رینگ کر ہی آگے بڑھا تھا۔ جھلنگی کھاٹ پر بے تابی سے کروٹیں بدلتی ہوئی اختر نے بڑی بے قراری سے ماں سے پوچھا، ’’کب تک مجھے ساہوکار کے گھر رہنا ہوگا ماں اور کیا کیا کرنا ہوگا وہاں۔ کام تو مجھے سب آتا ہے مگر کیا میں تم لوگوں سے پھر کبھی نہیں ملوں گی؟‘‘

    تو اس وقت ماں کے دل میں ایک خنجر سا لگ گیا مگر بہ ظاہر مسکراکر اور خود کو سنبھال کر اس نے کہا، ’’ڈرتی ہے پگلی۔ میری بیٹی ہوکر ڈرتی ہے۔ ارے میں نے کیسے کیسے موقعے ہنسی خوشی نہ برداشت کر لیے۔ پھر تو تو خوب خوش رہےگی وہاں۔ ٹھاٹ کرےگی مگر ساہوکار کی بات مان لینا بیٹا۔ زیادہ ہنگامہ نہ مچانا۔ پھر جب تو لوٹےگی تو شاید تیرے ہاتھ میں سونے کے کنگن بھی ہوں اور۔۔۔ اور۔۔۔‘‘ ماں کی آواز رندھ گئی۔ بھوک سے نڈھال اختر ایک دم اٹھ کر بیٹھ گئی، ’’سونے کے کنگن؟‘‘ اس کی آنکھوں میں ایک حریصانہ چمک پیدا ہوئی اور کوندے کی طرح اس لپک نے اس سولہ سالہ لڑکی کے سارے دبے ہوئے نقوش ابھار دیے۔

    ’’مگر مجھے ساہوکار سے، ساہوکار کی مونچھوں سے چڑ ہے ماں۔ بڑی گھن آتی ہے۔‘‘

    ’’ہوتا ہے بیٹی۔ ہوتا ہے۔ مگر یہ سب چیزیں ناقابل برداشت نہیں۔‘‘

    اور جب تک ماں اختر کو باتیں سمجھاتی رہی، زندگی کی مجبوریوں اور اونچ نیچ کی بابت واقف کراتی رہی، تب تک عبد اللہ بے قراری سے باہر ٹہلتا رہا۔ بار بار آنکھوں پر انگلیوں کا چھجہ بناکر سورج کو تکتا، زمین پر دھوپ کی ٹوہ لیتا رہا۔ اب دن گزرا کہ اب۔۔۔

    اسے اپنی عورت او ربیٹی کی باتو ں سے مطلق کوئی دلچسپی نہ تھی۔ اسے تو فقط شام کا انتظار تھا۔ سورج ڈھلنے کا۔ ساہوکار کی آمد کا۔ سفید جوار اور موٹے چاول کا۔ کب سے اس نے چولھے پر رکھی ہانڈی کی کھت کھت پکنے کی آواز نہیں سنی تھی۔ توے پر پھیلتی، کروٹیں بدلتی جوار کی موٹی روٹی کا نظارہ نہیں کیا تھا۔ لہسن اور ہری مرچ کی چٹنی کی خوش بو نہیں سونگھی تھی۔ پیاز کے قتلے نہیں چبائے تھے اور ایک وہی کیا، بستی کے متمول لوگوں تک کی یہی حالت تھی۔ لوگوں کے پاس پیسہ ہو تو ہو، اناج نہیں تھا اور اناج خدا بن گیا تھا۔ دعائیں، منتیں، مرادیں کیا نہیں کی جا رہی تھیں۔ انسانی گناہوں کی معافی اور بخشش کی آرزو ئیں، مگر جس طرح بادل بغیر برسے گزر چکے تھے اسی طرح خدا نے بھی ہنوز ان کی طرف نگاہ التفات نہیں کی تھی۔

    ایسے میں ساہوکار کی مہربانی بلاشبہ اندھیرے میں اجالے کی وہ کرن تھی جو کم از کم عبد اللہ کے گھر سے فاقہ مستی کی سیاہی جلد ہی کھرچنے والی تھی۔

    وہ ٹہلتا رہا۔ ٹہلتا رہا۔ ٹہلتا رہا حتی کہ تھک کر کوٹھری کی سیڑھیوں پر ٹک گیا۔

    اب آفتاب کی آتشیں ٹکیہ شفق کے رنگ میں ڈوب چکی تھی اور نظروں سے اوجھل ہوا ہی چاہتی تھی اور تاریکی سے خائف انسان تاریکی کا منتظر تھا۔ وقت گزاری کے لیے وہ تھوڑی دیر بعد آواز دے کر احتیاطاً پوچھ لیتا کہ اختر تیار ہے یا نہیں، مبادا معاملت میں اور تاخیر نہ ہو جائے۔ پھر دور اسے ملگجے کی چھاتی سے تیز تیز قدموں کی مبہم چاپ سنائی دی اور یہ بتدریج واضح ہوتی گئی، حتی کہ پژمردہ ماحول کے پس منظر سے ایک چاق و چوبند، چکنا چکنا چہرہ نمایاں ہوا اور اپنے دانت نکوس کردبا دبا سا گھگھیاتا ہوا قہقہہ لگاکر بولا، ’’کیوں ابھی دیر تو نہیں۔۔۔؟‘‘

    عبد اللہ کی نظریں اس حریص چہرے کو پھلانگ کر ارد گرد کی آوارہ گردی میں مصروف ہو گئیں۔ ارے یہ تو خالی ہاتھ ہے پھر۔۔۔؟

    مگر عبد اللہ کے سوال سے قبل اس کی بے چینی اور اس کے مطلب کو بھانپ کر ساہوکار خود بولا، ’’یکہ میں بوریاں آتی ہی ہوں گی۔ بوریاں نیچے اور لڑکی یکہ میں سوار۔ سمجھ گئے نا۔۔۔؟‘‘

    عبد اللہ کے کھنچے ہوئے اعصاب مائل بہ سکون ہو گئے۔ اس نے اپنے خشک گلے کو تھوک سے تر کیا۔ پپڑیاں جمے ہوئے ہونٹوں پر زبان پھیری اور لپک کر اندر ہو لیا، ’’اختر کی ماں! اختر کو باہر لا۔‘‘

    ماں نے اپنے بہت سے آنسوؤں کو آنکھوں میں ہی روک کر دبی ہوئی سسکی بھری اور اختر کو قریب کر کے اس کا ماتھا چوم کراسے باہر دھکیلتی ہوئی بولی، ’’جاؤ بیٹی۔۔۔ خدا حافظ۔۔۔‘‘

    اختر کو گھر چھوڑ کر ساہوکار کے ساتھ جانے کا رنج تو بہت تھا مگر سونے کے کنگن کی خوشی بھی، سو اس نے ذرا سے پس و پیش کے بعدباپ کا ہاتھ تھام لیا اور آگے بڑھ گئی۔

    تبھی یکہ کوٹھری کے سامنے آکر ٹھیر گیا۔ یکے والے نے بوریاں اتارکر عبد اللہ کی اندھیری کوٹھری میں پہنچائیں اور کوٹھری کے نو عمر اجالے کو یکے میں چھپا لیا۔ ساہوکار نے دبی ہوئی زبان میں پوچھا، ’’لڑکی شور و غل تو نہیں کرےگی۔ سمجھا دیا ہے نا۔۔۔؟‘‘

    ’’ہاں ہاں۔۔۔‘‘ عبد اللہ اسے یکے کی جانب دھکیلتا ہوا بولا۔

    ’’اب دفع ہو جاؤ۔‘‘

    اور جب شام سرک کر سیاہی کے لبادے میں پوری طرح گھل مل گئی اور ستارے ہزاروں فاقہ زدوں کے سروں پر ان کی بھوک پیاس اور تڑپ سے بے پروا خوب چٹک لیے، تو تھالی میں مٹھائی اور لڈو لیے ہوئے ساہوکار اختر کے پاس آیا اور میٹھی آواز میں بولا، ’’تمھیں مٹھائی پسند ہے نا اختر۔۔۔؟‘‘

    ’’ہاں مگر تم اپنی مونچھیں دور ہی رکھو۔‘‘

    ’’اچھا اچھا۔۔۔ میں صبح اپنی مونچھیں منڈوا دوں گا مگر اب تو بخشو۔۔۔‘‘

    مگر جیسے ہی وہ اختر کے بازو بیٹھنے لگا، اختر کود کر پلنگ سے نیچے اتر گئی اور دور ہی سے اس نے معصومیت سے کہا، ’’پہلے لاؤ میرے سونے کے کنگن۔‘‘

    ’’سونے کے کنگن؟‘‘ ساہوکار نے حیرت سے کہا۔

    ’’ہاں۔ جو ماں نے تمھارے پاس رکھوائے ہیں۔‘‘

    ’’خوب۔‘‘ ساہوکار نے برا سا منہ بنایا اور پھر مصلحتاً ہنستا ہنستا بولا، ’’ہاں ہاں۔ سونے کے کنگن بھی بن جائیں گے مگر پہلے تو میری رانی تو بن لو۔‘‘

    ’’رانی؟‘‘ اختر نے حقارت سے کہا، ’’بکواس نہ کرو ساہوکار۔ میں رانی وانی بننے یہاں نہیں آئی۔ کام کرنے آئی ہوں۔ ماں نے مجھے ضرور کہا تھا کہ کچھ دن تمھارے ساتھ رہنا ہوگا مگر تم سیدھے سیدھے کام بتاؤ، ورنہ تمھاری مونچھیں تمھاری گردن سمیت تمھارے بدن سے الگ ہوں گی ہاں۔۔۔‘‘

    ’’ارے میری پگلی۔ خفا ہو گئی۔ اری کام تو نوکر کرتے ہیں اور کوئی تم نوکر بننے یہاں آئی ہو۔ خوب ٹھاٹ سے رہو۔ حکم چلاؤ۔ تمھیں تو میں اپنے دل کی رانی بنانے یہاں لایا ہوں مگر تمھاری ماں نے تمھارے ہاتھوں میں منہدی تک نہ لگائی، اونھ عجب عورت ہے تو بھی۔‘‘

    ’’اے۔۔۔‘‘ اختر نے دھاڑ کر کہا، ’’تم بہت بڑھتے جا رہے ہو۔ اگر تم نے آگے میری ماں کو کچھ کہا تو یاد رکھنا۔۔۔‘‘

    ’’ارے واہ۔ یہ تو خوب بات ہوئی یعنی باپ چست اور لڑکی سست۔ سونے کا مول اناج گھسیٹ لیا اور اب اوپر سے رعب بھی گانٹھ رہی ہو۔ اری ساہوکار ہوں ساہوکار۔ چاہوں تو تیرے باپ کو جیل بھی بھجوا سکتا ہوں۔ سمجھتی کیا ہے؟ کیا دو بورے اناج یوں ہی مفت دے دیے؟ تیرے بدل میں دیے ہیں، پھر تو مجھے آنکھیں کیوں دکھا رہی ہے آخر۔۔۔؟‘‘

    ’’کیا کیا۔۔۔ کیا کہا۔۔۔؟‘‘ اختر نے حیرت سے پوچھا۔ پھر اس نے ساہوکار کا گلا پکڑ کر اسے جھنجھوڑ ڈالا، ‘‘ کیا میرے ماں باپ نے مجھے بیچ دیا ہے تجھے، جو تو مجھے آنکھیں دکھانا چاہتا ہے اور واہی تباہی بکنا چاہتا ہے۔‘‘

    ’’ہاں ہاں۔۔۔‘‘ ساہوکار نے بھی اب غصے اور جھنجلاہٹ سے کہا۔

    ’’تیرا باپ تو اتنا لالچی ہے کہ اس نے صرف دو بوروں کے لیے تجھے میرے ہاتھ بیچ دیا۔ تیرے بورے کا ذکر تک نہ کیا حالانکہ تیرے لیے تو دس بورے اناج بھی کم ہے۔ مگر میری مہربانی دیکھ۔ اگر تو مجھے خوش رکھے تو اپنے خفیہ گودام کا منہ تیرے گھر والوں کے لیے کھول دوں گا سمجھی۔۔۔؟‘‘

    مگر اختر کی آنکھوں میں اتنے میں ہی خون اتر آیا تھا۔ جو کھانا اس نے ساہوکار کے گھر کچھ دیر پہلے کھایا تھا، وہ اب الٹ الٹ کے آنے لگا۔ مٹھائی کی تھالی کو پاؤں سے ٹھوکر لگاکر اس نے سہمے ہوئے ساہوکار کو گریبان سے دبوچ لیا اور کھینچتی ہوئی بولی، ’’چل۔۔۔ چل تو میرے باپ کے سامنے۔ مجھے تیری بات کا یقین نہیں۔ وہاں چل کے کہنا یہ سب باتیں، تب میں جانوں گی۔‘‘

    مگر پولیس پنچایت کے ڈر سے ساہوکار کی اتنے ہی میں گھگھی بندھ گئی۔

    ’’ارے یہ تو بڑا دھوکا ہو گیا۔ تو تو بڑی طرار چھوکری نکلی۔ تیرے باپ نے مجھے ٹھگ لیا۔ ہائے میرا دو بوری اناج۔۔۔‘‘ وہ خود کو اختر کی مضبوط گرفت سے چھڑا کر پلنگ پر اوندھا گر گیا اور عورتوں کی طرح بسورنے لگا۔

    پھڑپھڑاتی ہوئی اختر زخمی کبوتر کی طرح دروازہ کھول کر باہر نکلی او ربے خوف سیدھے سپاٹ راستے پر اپنے گھر کی سمت دوڑنے لگی۔

    رات کی مہیب تاریکی۔ بچوں کی چیخ و پکار۔ عورتوں کی سسکیاں بھوک کو طرح طرح سے بہلاتے ہوئے انسانوں کے انجر پنجر اسے بالکل آسیبوں کی طرح لگے۔

    انسان۔۔۔ جس نے مشینیں ایجاد کیں، وہ زمین کے سینے سے اناج کیوں نہیں اگا سکا۔ یہی سوچتے سوچتے بھاگم بھاگ وہ بالآخر اپنے گھر پہنچ گئی۔ ساہوکار کی توہین آمیز حرکتیں، اس کی نازیبا باتیں ابھی تک بجلی کی طرح اس کے جسم میں دوڑ رہی تھیں۔ اس کا خون کھول رہا تھا۔ وہ ساہوکار کا سر بڑے پتھر سے کچل دینا چاہتی تھی مگر پہلے اس بات کا یقین ضروری تھا کہ کیا اس کے ماں باپ نے اسے واقعی بیچ دیا۔ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔ اس خیال کے ساتھ ہی اسے اپنے ماں باپ سے شدید قسم کی نفرت محسوس ہوئی بلکہ ساری دنیا سے ہی نفرت اور بےزاری۔ بھوک۔ جہالت۔ افلاس اس کے سوا دنیا میں رکھا ہی کیا ہے مگر وہ تو ان سب حالتوں میں بھی خوش تھی۔ اپنی چھوٹی سی کوٹھری میں مست مگن پھر اس کے ماں باپ کو یہ کیا سوجھی۔

    غصے میں اس نے بند دروازے کو پیٹ ڈالنا چاہا مگر چوں کہ دروازہ خلاف معمول بند تھا، لہٰذا اس نے ضبط سے کام لے کر یہ جاننے کے لیے کہ اس کے پیچھے کیا ہو رہا ہے، اس نے دروازوں سے اپنی آنکھیں لگا دیں۔

    طاق میں روشن بےحد مدھم چراغ کے اجالے میں اس نے بڑی حیرت سے دیکھا کہ وہ خوب پھولے ہوئے بورے مختلف قسم کے میلے کچیلے چیتھڑوں سے بہ مشکل چھپا دیے گئے ہیں اور اس کے سارے بہن بھائی باپ کے ساتھ دیوار سے پیٹھ لگائے بڑے ہوشیار ہوشیار چوکنے سے بیٹھے ہیں اور تھالے میں کٹی ہوئی لہسن کی چٹنی خوشبو دے رہی ہے اور پیاز کی ڈلیاں چمک رہی ہیں اور ماں تھرتھراتے ہاتھوں سے موٹی موٹی جوار کی روٹیاں چوروں کی طرح جلد جلد گڑھ رہی ہے۔

    یک لخت اختر کا سارا وجود ایک چیخ میں تبدیل ہو گیا مگر اس نے دونوں ہاتھوں سے اپنا منہ زور سے بند کرلیا۔ اسے اپنے خاندان کی ہوس پر غصہ تو آیا مگر تھوڑی دیر پہلے کی اپنی وہ حالت بھی یاد آئی جب وہ ساہوکار کے گھر سخت نفرت کے باوجود اس کے دیے ہوئے کھانے پر ٹوٹ پڑی تھی اور اس وقت سچ مچ اسے کوئی یاد نہ آیا تھا۔۔۔ نہ ماں باپ نہ بہن بھائی۔۔۔ مگر اب؟ کسی نا معلوم کرب کے احساس سے آنسو اس کی ذات میں آندھی کی طرح لپکنے لگے۔

    وہ نڈھال نڈھال سی کنویں کی مینڈ پر جا بیٹھی۔۔۔ نہیں نہیں۔۔۔ اس نے خود کو یقین دلانا چاہا۔۔۔ ساہوکار جھوٹا ہے۔۔۔ میرے ماں باپ نے میری ملازمت کے عوض اناج ضرور لیا ہوگا مگر وہ مجھے بیچ نہیں سکتے۔ کبھی۔۔۔ کبھی نہیں۔۔۔ مگر پھر یہ جشن۔۔۔ یہ خوشی۔۔۔ یہ پوشیدگی۔۔۔؟

    نہ سمجھ میں آنے والی پیچیدگیوں کے تحت وہ چپ چاپ بیٹھی دور کنویں کی تہ میں اکا دکا ستاروں کی جھلک دیکھتی رہی۔

    او راندر اس کے باپ نے سرگوشی کے انداز میں اپنے دوسرے بچوں سے کہا، ’’کم بختو! کھاپی کر ہیکڑی جتانے نہ چلے جانا۔ پولیس تھانہ ہو جائےگا۔ ساہوکار الگ مارا جائے گا اور شاید اناج بھی ہم سے چھین لیا جائے۔ سمجھ رہے ہونا؟‘‘

    مگر اتنا کہتے کہتے اس کی آواز حلق میں پھنسنے لگی۔ جگمگاتی روٹیوں کا تھال پرے دھکیل کر وہ دیوانہ وار دروازے کی طرف لپکا۔ کون۔۔۔ کون؟

    ’’تمھیں تو وحشت ہو گئی ہے۔ کوئی بھی تو نہیں۔۔۔‘‘ عورت نے اسے لتاڑا مگر سخت بھوک اور اشتہا کے باوجود سامنے رکھی ہوئی روٹیوں کو ہاتھ لگانے کو اس کا جی مطلق نہ چاہا۔

    ’’بچو کھاؤ۔ پیٹ بھر کھاؤ۔۔۔‘‘ ا س نے رندھے ہوئے گلے سے کہا اور خود تھوک سے حلق تر کرتا ہوا باہر نکل گیا۔

    ’’ذرا دیکھوں تو۔۔۔ آس پاس کوئی تو نہیں۔۔۔‘‘

    ’’ہونہہ۔۔۔‘‘ عورت نے ایک ہنکار بھری۔

    ’’برا کام کیا ہے نا۔ اب چین کہاں پاؤگے؟‘‘ مگر اس کی بات سے بےخبر تاروں کی چھاؤں میں کھلے آسمان کی دودھیا روشنی میں اختر کو کنویں کی مینڈ پر بیٹھا دیکھ کر عبداللہ سٹپٹا گیا، ‘‘ اختر بیٹی؟‘‘

    اختر نے معاملے کی صفائی کرنا چاہی لیکن شدید نفرت اور بےزاری اس پر غالب آ گئی۔

    ’’میرے قریب نہ آؤ۔ قریب نہ آؤ۔‘‘ وہ چلاکر بولی، ’’مجھے کنوئیں سے بڑا ڈر لگتا ہے۔ لیکن اگر تم میرے نزدیک آؤگے تو میں کنوئیں سے نہیں ڈروں گی بابا۔۔۔‘‘

    ’’نہیں نہیں۔ ایسا نہ کرنا بیٹی۔ ایسا نہ کرنا۔۔۔‘‘ عبداللہ غمگین التجائی لہجے میں بولا اور اسے یک لخت تھام لینے کے لیے آگے بڑھا مگر اس کے بڑھتے ہوئے ہاتھ اختر کو بالکل ساہوکار کے ہاتھوں کی طرح محسوس ہوئے اور نفرت و کراہت سے لرز کر اختر نے خود کو بے خوف کنویں کی نذر کر دیا۔

    ’’اختر۔۔۔ اختر۔۔۔؟‘‘ عبد اللہ کنویں کی سخت مینڈ پر سر پٹک پٹک کر دیر تک روتا رہا اور بچے خوشی خوشی اندر روٹی کھاتے رہے۔

    رات نے اس کے غم کو تھپک کر خموش کر دیا، مگر صبح ایک سوال کی طرح برابر اس کے آگے تنی رہی۔

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے