Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

سوا نیزے پہ ٹھہرا سورج

فوزیہ قریشی

سوا نیزے پہ ٹھہرا سورج

فوزیہ قریشی

MORE BYفوزیہ قریشی

    نجانے کتنے برسوں سے آگ برسا رہا تھا۔ لو کے تھپیڑے اور چلچلاتی گرم دوپہروں نے ہر سانس لینے والے حشرات کا جینا دوبھر کر رکھا تھا۔ ایک پراسرار سی خاموشی اطراف میں چھائی ہوئی تھی۔ پہاڑ جیسے اونچے، لمبے، گرم اورخشک دن کاٹے نہ کٹتے تھے۔ چاروں طرف ہو کا عالم تھا۔

    اس کے تخیل کی پرواز اسے یہاں سے نکالنا چاہتی تھی لیکن وہ بری طرح اس گرداب میں پھنس چکا تھا۔

    وہ ایسے لوگوں میں رہتا تھا۔ جن کی شکل سے اب کراہت برستی تھی خود اس کی اپنی شکل بھی وقت کے خوفناک تھپیڑوں میں کھو چکی تھی۔ جوانی کے حسین خدو خال اور نقوش ماند پڑ چکے تھے اور ان کی جگہ مشقت کی جھریوں نے لے لی تھی۔ حالات نے اسے ایک تکونی ٹیلے کی نوک پر کھڑا کر دیا تھا۔ جس کے نیچے گہری کھائی تھی واپسی کے سبھی راستے بند ہو چکے تھے۔۔ وہ بری طرح ہوس کی دلدل میں پھنس چکا تھا۔ اس جیسے بہت سے مجبور بھی اسی دلدل میں آدھے اندر دھنسے ہوئے تھے۔ ان سب کے نچلے دھڑ کو کسی مقناطیسی کشش نے اپنے حصار میں جکڑ رکھا تھا۔

    اس کی سوچ کی نازک تتلی پرواز کے لئے شعور کے اندھیرے دریچوں میں بھٹک رہی تھی اور روشنی کی متلاشی تھی۔

    یہ اور اس کے سبھی ساتھی اسی چلچلاتی دھوپ میں شکار کی تلاش کو نکلتے تھے۔ ان کا ذریعہ معاش شکار سے منسلک تھا۔۔۔ ان کے وجود اس کالی مکھی کی مانند ہو چکے تھے۔ جو تلاش کرکے صرف گند پر بیٹھنے کو ترجیح دیتی ہے۔ ان سب کے دلوں پر سیاہ دھبے پڑ چکے تھے۔ جیسے کسی نے دلوں پر قفل لگا دئے ہوں۔ سفاکیت عروج پر تھی۔ وہ حلال و حرام کی تمیز تک بھول چکے تھے۔ اس لئے جو بھی شکاران کے ہاتھ لگتا وہ اسے چیڑ پھاڑ کر صرف اپنا مقصد حا صل کرتے تھے۔ ان کو اس سے غرض نہیں تھی کہ شکار کیا ہے۔ کیسا ہے، کون ہے؟

    ان کا مقصد تو صرف شکار کرنا اور اس کے جسم کو بھنبھوڑنا یا چیر پھاڑ کرنا تھا۔ کبھی کبھی ایسا شکار بھی ہاتھ لگ جاتا تھا۔ جسے بھنبھوڑنے کے ساتھ ساتھ اس سے لذت بھی حاصل کی جاتی تھی۔

    شہر کے وسط میں ایک چار دیواری تھی۔ جس کی دیواروں سے بھی وحشت برستی تھی۔ یہ لوگ اپنا شکار اسی وحشت زدہ چار دیواری میں لے جاتے تھے۔ پھر اسے ننگے، گندے فرش پر پرانی دری کی طرح بچھا دیتے تھے۔ ان میں سے کچھ لوگ دوسرے شہروں میں جاکر بھی شکار کے مختلف اعضا کو بیچنے پر مامور تھے۔ اس کام سے جو رقم حاصل ہوتی اسے وہ آپس میں تقسیم کر لیتے تھے۔

    وہ سب کے سب مردہ ضمیر اور مردار خور ہو چکے تھے۔ ان کو مردار کھانے کی لت پڑ چکی تھی اور انکی نہ ختم ہونے والی بھوک صرف یہی مردار مٹایا کرتے تھے جن میں کتے، بلیاں، گدھے اور گھوڑے اور انسان بھی شامل تھے۔ گوشت کے علاوہ اب وہ کسی دوسرے ذائقے سے نا آشنا تھے۔

    جب انہیں زندہ شکار میسر نہ آتا تو وہ مردار کی تلاش میں قبروں کا رخ بھی کرتے تھے۔ دن کے اجالے ہوں یا رات کے اندھیرے۔ ان کے کالے دھندوں کا بیوپار عروج پر تھا اور ان کو روکنے والا بھی کوئی نہیں تھا۔

    کبھی کوئی بھولا بھٹکا اندھوں کی نگری میں آئینہ بیچنے آ جاتا تو اسے، اسی کے آئینے کی کرچیوں سے اس کو بھی لہو لہان کر دیا جاتا تھا یا اپنے جیسا مردار خور بنا دیا جاتا تھا۔

    شہر میں ہرغریب اور مظلوم کا چہرہ دہشت زدہ ہو چکا تھا کیونکہ ان کودیکھنے اور سننے والے سبھی دانشوران اب دونوں نعمتوں سے محروم ہو چکے تھے اور ان کی سوچ کی لکڑی کو دیمک چاٹ چکی تھی۔ شہر کے اکثر صاحب حیثیت کا حال بھی کچھ ایسا ہی تھا۔

    عیاشیوں کی کھنک نے انہیں مدہوش کر رکھا تھا۔ ان میں سے اکثر اپنی اپنی ہڈی کے منتظر رہتے تھے۔ اس لئے یہ بیو پاری ان کو ہڈی ڈال دیتے پھر کوئی ان کے خلاف آواز نہ اٹھاتا تھا۔ یہی وجہ تھی ان کا بیوپار زوروں پر تھا۔ مال کی فراوانی کے باوجود بھی اسے سکون کیوں نہیں تھا؟

    اکثر اس کے تخیل کی پرواز اسے ضمیر کی وادی میں لے جاتی تھی۔ جہاں کوئی اسے چیخ چیخ کر یہ باور کروانے کی کوشش کرتا تھا کہ پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں کرگس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اورکوئی اسے جھنجوڑتا، بےتاب کرتا اور پھر اسی وادی میں کہیں غائب ہو جاتا تھا۔

    وہ اکثر سوچتا وہ کون ہے؟ جو اسے بےچین تو کرتا ہے، لیکن اس گرداب سے نکالنے میں مدد نہیں کرتا۔

    وہ سب مردار خور ’’گدھ‘‘ بن چکے تھے اور وہ بھی ان سب کے رنگ میں کافی حد تک رنگ چکا تھا۔ لیکن اس کی چند بچی کچی عادات ابھی بھی عام انسانوں جیسی ہی تھیں۔

    انہیں عادات کی وجہ سے وہ ابھی بھی آس پاس موجود انسانوں کی تقریبات اور رسومات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا تھا جیسے شادی بیاہ، پیدائش اور موت۔

    لیکن کیوں؟

    حالانکہ پس پردہ وہ انہیں کے گلے بھی کاٹ رہا تھا لیکن پھر بھی خوشی و غم کے موسم میں وہ ان کے ساتھ کھڑا ہوتا تھا۔

    لیکن کیوں؟

    ایسا کیوں تھا؟

    ’’شاید ابھی بھی اس میں تھوڑی سی انسانیت باقی تھی یا ضمیر کی کال کوٹھڑی میں کوئی شاہین قید تھا۔‘‘

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے