Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

سزا

MORE BYالیاس احمد گدی

    بڑے سے سفید توشک پر ٹھاکر منگل سنگھ نے اپنا سوکھا ہوا بازو پھینکا اور نرم تکئے پر آہستگی سے ٹکا کر آنکھیں بند کر لیں۔

    ’’کتنا زمانہ گزر گیا ہے، ایک جگ بیت گیا۔۔۔!‘‘ وہ ہونٹوں ہی ہونٹوں میں بڑ بڑائے۔

    پاس بیٹھے ہوئے ان کے پوتے نے فکر مندی سے اپنے بوڑھے دادا کی طرف دیکھا اور بے چارگی سے سوچا کہ سچ مچ ایک جگ بیت گیا ہے۔ پہلے دادا کیسے کھڑ کھڑ چلا چلا کرتے تھے، پھر کیسے ان کے گھٹنے کے درد نے ان کو چلنے پھر نے سے معذور کر دیا۔ ان کے سفید براق چہرے پر جھریاں مکڑی کے جال کی طرح پھیلتی گئیں اور جوان بیٹے کی موت کا غم گہرا اور گہرا ہوتا چلا گیا۔

    وقت کے اس گہرے سمندر میں کیا کچھ غرق ہو چکا ہے، کون بتائے گا؟ بے شمار کہانیاں، بے شمار واقعات، کیسی کیسی چمکیلی یادیں، کیسی کیسی دل آرا صورتیں اس سمندر کی تہہ میں بیٹھ چکی ہیں، کسے معلوم؟ اور اب اس بوڑھے قلاش کے پاس تو کچھ بھی نہیں بچا تھا۔ کچھ بھی نہیں۔۔۔!

    ’’وقت نے میری شہ رگ کاٹی ہے اور خون قطرہ قطرہ بہہ رہا ہے لیکن میں ہنوز زندہ ہوں۔ کیا یہ حیرت انگیز بات نہیں۔۔۔؟‘‘ ٹھاکر صاحب نے آنکھیں کھول کر بڑے کرب سے، شاید اپنے آپ ہی پوچھا۔

    ان کا پوتا ابھے، جس نے کبھی اپنے نام کے آگے ٹھاکر نہیں لکھااور جو چھ سال ولایت میں رہ کر ڈاکٹر بن کرآ گیا تھا اور شہر کے بڑے ہسپتال میں، جس کا کوئی دو ہفتے پہلے تقرر ہو گیا تھا، بڑی اداسی سے اپنے غم زدہ دادا کی طرف دیکھتا رہا۔

    ’’جب دیا سنگھ مرا تو تمہاری عمر ڈھائی سال کی تھی۔ تمہیں تو یاد بھی نہیں ہو گا۔‘‘

    واقعی اسے یاد نہ تھا۔ اسے تو اپنے باپ کی شکل تک یاد نہ تھی۔ اس نے لوگوں سے یہ ضرور سنا تھا کہ اس کے باپ ٹھاکر دیا سنگھ نے چھت کے شہتیر سے پھندہ لگا کر خود کشی کی تھی۔ اور اس کو اس خود کشی کی وجہ بھی معلوم تھی۔ بہت بعد میں، جب اس نے ہوش سنبھالا تو نوکروں اور آیاؤں کی باتوں سے، اس کے دادا کے اکے دکے جملوں سے، طعنوں تشنوں سے، لوگوں کی مسکراہٹوں اور مذاق سے، اس پر ساری بات آشکار ہوتی گئی۔ اس نے ادھورے اور بے جوڑ جملوں کو ترتیب دے کر ایک کہانی بنائی تھی، جو اصل کہانی سے کچھ زیادہ مختلف نہ تھی۔

    ٹھاکر منگل سنگھ نے ایک لمبی سانس کھینچی، جیسے وقت کے گہرے سمندر کی تہہ چھان آئے ہوں اور کوئی موتی ہاتھ نہ لگا ہو۔

    ’’حویلی بک گئی، زمینداری ختم ہو گئی۔ تمام قیمتی سامان اور پرانے زیورات ہاتھ سے نکل گئے۔ لیکن جب میں تمہیں دیکھتا ہوں تو ایسا لگتا ہے جیسے یہ ساری جائداد، یہ ساری دولت تم میں مجسم ہو گئی ہے۔ جیسے میں نے کسی کو ڈھیر سارے سنگ ریزے دے کر ایک ہیرا مول لے لیا ہے۔‘‘

    ابھے نے بڑے پیار سے اپنے بوڑھے، بیمار، اپاہج دادا کی پیشانی پر ہاتھ رکھا۔ اس کا جی بھر آیا۔ واقعی یہ اس کا بوڑھا دادا کتنا اکیلا تھا۔ زندگی کے اس لق و دق صحرا میں ایک تنہا ویران مندر کی اکیلا۔۔۔ زمینداری گئی تو سارے چھوٹے بڑے رشتے بھی دم توڑ گئے۔ دسترخوان اٹھا تو سارے جھوٹا بٹور نے والے بھی کھسکتے نظر آئے۔

    ’’دوا پی لی تھی آپ نے؟‘‘ ابھے نے بڑے پیار سے پوچھا۔

    ’’دوا کی اب کیا ضرورت ہے؟ تم ڈاکٹر بن گئے۔ اپنے گھر لوٹ آئے۔ زندگی بھر کی آرزو پوری ہو گئی، اب کیا ضرورت ہے۔ صرف ایک غم ہے، ایک جوان بیٹے کا غم جو کم نہیں ہوتا۔ اس کا سرخ چہرا، اس کی بڑی بڑی مونچھیں، اس کے کان میں جگمگاتا ہوا ہیرے کا نگ، اس کی چال ڈھال، اس کی بات چیت، اس کا ہنسنا بولنا، کچھ بھی تو نہیں بھولتا، کچھ بھی تو نہیں بھولتا۔۔۔ لگتا ہے جیسے ابھی وہ بند دروازے کو کھول کر اندر آ جائے گا۔ آنکھیں دیکھنے لگتی ہیں دروازے کو دیکھتے دیکھتے، مگر دروازہ نہیں کھلتا۔ کتنی دور چلا گیا ہے وہ۔۔۔‘‘

    بوڑھے کی بوڑھی، زرد، اندر کو دھنسی ہوئی آنکھوں میں آنسو تیر نے لگے۔ ابھے نے پیار سے ان کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔

    ’’بابا، آپ ان کا اتنا غم کیوں کرتے ہیں؟ ہزاروں لوگ مرتے ہیں، ہزاروں باپو ں کے ہزاروں بیٹے!‘‘

    ’’لیکن اس کی موت؟ اچھا ہوا تم نے نہیں دیکھی، موٹی رسی میں شہتیر کے ساتھ اس کا جھولتا ہوا جسم، اس کی لمبی گردن، اس کی ابلی ہوئی آنکھیں، ذرا سوچو تو یہ کون آدمی تھا۔ یہ وہ تھا، جس کی انگلی کے اشارے پر گاؤں کے گاؤں پھونک دیے جاتے۔۔۔ جو سدا مخمل پر سویا اور قالین پر چلا، جس کے جسم کو کبھی تیز دھوپ نہ چھو پائی، جس کا بدن کبھی برسات کے پانی میں نہ بھیگا۔۔۔‘‘

    ابھے نے کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ بڑی دیر سے دیکھ رہا تھا کی موسی، وہ بوڑھی کمزور نوکرانی جس نے ساری زندگی اس گھر کی خدمت کرنے کے بعد محض موسی کا لقب پایا تھا، دروازے سے لگی کھڑی تھی۔ جو اس بات کی علامت تھی کہ کھانا پروس دیا گیا ہے۔ مگر ابھے کا جی نہ چاہا کہ اپنے دادا کو اس اذیت ناک حالت میں چھوڑ دے۔ اس کو اپنے دادا سے ہمدردی تھی۔

    ’’اور آج صبح جب تم اسپتال میں تھے۔۔۔‘‘ ٹھاکر صاحب نے بڑی دیر بعد دھیرے سے کہا، ’’تو ایک عورت آئی۔ وہ تمہیں دیکھنا چاہتی تھی۔ صرف ایک نظر، وہ ڈائن جس نے میرے بیٹے کا کلیجہ چبایا تھا، وہ آج بھی زندہ ہے۔ اپنے پاپوں اور گناہوں کے بوجھ سے کچلی ہوئی آج اس کی منحوس صورت نے میرے زخموں کا کھرنڈ نوچ ڈالا ہے۔۔۔‘‘

    ایک دم سے چونک کر ابھے نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔ تو کیا وہ یہاں آئی تھی؟ لیکن اس نے تو اسے نہیں بتایا؟ وہ تو تمام وقت صرف روتی رہی تھی۔

    ’’آج اسے بیٹے کی صورت یاد آئی ہے، جب وہ جوان ہو گیا ہے۔ اس وقت اس کی محبت کہاں تھی، جب وہ اس ننھے معصوم بچے کو پنگوڑے میں ڈال کر اپنے جسم کی سلگتی بھٹی کو ٹھنڈا کرنے چلی گئی تھی۔‘‘

    ٹھاکر منگل سنگھ کی آواز میں بے پناہ طنز اور حقارت تھی۔ ابھے ان کے پلنگ کے سرہانے سے اٹھ کھڑا ہوا۔ اس نے بے چارگی سے سوچا، کون جانتا ہے کہ اس نے کن حالات سے مجبور ہو کر گھر چھوڑا؟ وہ دریچے کے پاس آ کر کھڑا ہوا۔

    ایک ہفتے کی تلاش کے بعد اس کے ڈائیور نے بھیم نگر کی ایک بے انتہا گندی اور غلیظ گلی میں ایک بوسیدہ اور نم دیواروں والے جھونپڑے کے سامنے لا کر کھڑا کر دیا تھا۔

    ’’یہی ہے سرکار!‘‘

    ’’اچھا تم یہیں ٹھہرو۔‘‘ ابھے نے دھیرے سے کہا اور کار کا دروازہ کھول کر باہر آ گیا۔ سر شام ہی گلی ویران نظر آ رہی تھی۔ ابھے نے بوسیدہ سے نیچے دروازے کی طرف دیکھا۔ ایک لمحے کے لئے کسی کنڈی کی تلاش میں اس کی نظر دوڑی، جس کو بجا کر اندر اپنے آنے کی اطلاع پہنچا سکے۔ پھر مایوس ہو کر اس نے دروازے پر ہلکے سے ہاتھ مارا۔

    ’’کون ہے؟‘‘ اندر سے ایک عورت کی خشک، بے رس آواز آئی، ’’دروازہ کھلا ہے، اندر چلے آؤ۔‘‘

    ابھے نے دروازے کو ہلکا سا دھکا دے کر کھولا اور نیم تاریک کمرے میں داخل ہو گیا۔ اس نے دیکھا ایک بوڑھی عورت ایک پرانی خستہ سی سلائی مشین پر جھکی ہے۔ لالٹین کی مدھم روشنی میں اس عورت کا چہرہ بالکل پھیکا، بوڑھا اور زرد زرد نظر آ رہا تھا۔ اس نے آنے والے پر ایک نظر ڈالی اور خلاف توقع اپنے سامنے ایک بہترین سوٹ پہنے ہوئے نو جوان کو کھڑے پاکر ہڑ بڑا کر کھڑی ہو گئی۔ ابھے نے دیکھا کہ اس کی سفید ساری پر ایک بڑا سا نیلا پیوند لگا ہوا ہے۔

    ’’کون ہیں آپ؟‘‘

    کتنا سیدھا سادا، معمولی، حقیر سا سوال تھا۔ لیکن ابھے کو جواب دینا مشکل ہو گیا۔ گھبرا کر اس نے الٹا سوال کر دیا۔

    ’’آ پ سنالنی دیوی ہیں نا؟‘‘

    ’’ہاں میں سنالنی ہوں۔ کپڑے سیتی ہوں۔ کیا مجھ سے کوئی کام ہے؟‘‘

    ’’میرا نام ٹھاکر ابھے سنگھ ہے۔ میں ٹھاکر دیا سنگھ کا بیٹا ہوں۔‘‘

    بڑھیا کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ ایک لمحے کے لئے یوں معلوم ہوا جیسے وہ دھڑام سے گر کر بے ہوش ہو جائے گی لیکن دوسرے لمحہ اس نے ہاتھ سے پکڑی ہوئی قینچی اور دھاگے کی ریل فرش پر پھینک دی اور دوڑی ہوئی اس سے لپٹ گئی۔ اس نے اس کی پیشانی چومی، اس کے ہاتھ چومے اور سسکیوں کے طوفان میں ڈوبتا ہوا اس کا جسم اور آنسوؤں سے بھیگے ہوئے اس کے رخسار اور جذبات سے تمتمایا ہوا اس کا چہرہ ابھے کو بڑا عجیب سا لگا۔

    سنالنی نے اسے چھوڑ دیا۔ دیوانوں کی طرح بڑا بڑائی۔

    ’’میں تمہیں کیا دوں؟‘‘

    وہ دوڑ کر چولھے کے پاس گئی۔ پھر وہاں سے دوڑ کر ٹرنک کھولا، پھر دروازہ کھول کر باہر جھانکا، پھر واپس لوٹ آئی۔

    ’’میں تمہیں کیا دوں؟‘‘ وہ مجسم سوال بن کر اس کے سامنے کھڑی ہو گئی۔

    ’’سنئے۔۔۔‘‘ ابھے نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا، ’’مجھے آپ سے کچھ لینا نہیں۔ میں صرف آپ کو دیکھنا چاہتا تھا۔‘‘

    سنانی ٹھٹک گئی، ‘‘ نہیں دیکھو، بیس سال سے میں نوکری کر رہی ہوں، جھوٹے برتن دھو رہی ہوں، کپڑے سی رہی ہوں، مگر میں نے کبھی محسوس نہیں کیا تھا کہ میرے پاس کچھ نہیں ہے۔ کچھ نہیں کہ میں تمہیں ایک وقت کا کھانا ہی کھلا سکوں۔۔۔‘‘

    ابھے کچھ بولا نہیں۔ ادھر ادھر دیکھ کر اس نے ایک خستہ حال تپائی اٹھائی اور اس پر بیٹھ گیا۔ بڑی دیر بعد جب وہ ذرا اشانت ہوئی تو ابھے نے اہستگی سے پوچھا، ’’وہ کہاں ہیں؟‘‘

    ’وہ‘ کا مطلب سنانی سمجھ گئی۔ پھٹے ہوئے آنچل سے آنسو پونچھ کر بولی، ’’ان کا دیہانت ہو گیا۔ کوئی پندرہ برس ہوئے۔ شراب کی وجہ سے ان کا جگر خراب ہو گیا تھا۔۔۔‘‘

    ’’جب سے آپ تنہا ہیں؟‘‘

    ’’ہاں، ایک غلطی کے بعد دوسری کی ہمت نہ تھی۔ کیوں کہ ایک غلطی کی جو سزا ملی وہ اتنی سخت تھی کہ جھیلی نہ گئی۔‘‘

    ’’سزا تو آپ کو کسی نے نہیں دی۔‘‘

    ’’یہ سزا ہی کیا کم ہے کہ میں اپنے اکلوتے لڑکے کو آج بیس سال سے دیکھنے کے لئے ترس رہی ہوں۔ ان بیس برسوں کا کون سا لمحہ ہے جو چین سے گزرا ہو۔ رتوں کی بے چین اور ویران تنہائی میں میری بانہیں، اس نرم، کومل لمس کے لئے ترس جاتی تھیں، جسے میں پنگوڑے سلا آئی تھی۔ میں نہیں جانتی تھی کہ کسی غلطی کی سزا اتنی بھیانک بھی ہو سکتی ہے۔‘‘

    ابھے چپ چاپ اس کے بے چین، مضطرب چہرے کی طرف دیکھتا رہا۔ تو یہ اس کی ماں تھی۔ وہ ماں جس نے ٹھاکروں کی عزت پر لات ماری تھی، جو ایک معمولی ماسٹر کے ساتھ بھاگ گئی تھی، جس کی وجہ سے اس کے باپ نے خود کشی کی اور جس کے سبب اس کے بوڑھے دادا کے دل میں ایک پھانس چبھ گئی۔

    ’’اچھا اب میں چلتا ہوں۔‘‘ وہ اٹھ کھڑا ہوا۔

    ’’پھر آؤ گے نا؟‘‘ اس نے اس کی بانہہ پکڑ لی۔

    ’’کہہ نہیں سکتا۔‘‘ ابھے نے مختصر جواب دیا۔

    ’’سنو!‘‘ اس نے ابھے کو متوجہ کیا، ’’بیس سال۔۔۔ بے رحم بیس سال میں نے صرف تمہیں ایک نظر دیکھنے کی امید میں گزار دیے ہیں۔ میں سوچتی تھی، ایک بار صرف، ایک بار صرف تمہیں دیکھ لوں تو میرا من شانت ہو جائے گا۔ لیکن تمہیں دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے میں تمہیں ایک لمحے کے لئے بھی نہیں چھوڑ سکتی۔‘‘

    ابھے نے کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ اس صورت کے بے پناہ کرب سے کچلے ہوئے چہرے کی طرف دیکھتا رہا۔ اچانک سنائی نے اس کے پاؤں پکڑ لئے۔

    ’’کیا تم معاف نہیں کر دو گے؟ کیا تم بھی اور سب لوگوں کی طرح کٹھور ہو۔۔۔؟‘‘ وہ رو پڑی۔

    ابھے نے اس کو شانوں سے پکڑ کر اٹھا لیا۔

    ’’سنو ماں! میں بہت دیر سے یہی سوچ رہا ہوں کہ لوگوں میں کون زیادہ قصور وار ہے۔ اور کس کو کس سے معافی مانگنی چاہئے۔ لیکن میری حالت اس پرندے کی سی ہے جس نے اپنی چونچ میں ایک چیز پکڑ رکھی ہے اور کسی دوسری چیز کو پکڑنے کے لئے اس کو پہلی چیز چھوڑنی پڑے۔‘‘ ابھے کے ذہن میں اس کے دادا کی تصویر گھوم رہی تھی۔

    ابھے نے گھوم کر دیکھا۔ ٹھاکر صاحب آنکھیں بند کئے پڑے تھے۔ وہ کھڑ کی سے ہٹ کر ٹھاکر صاحب کے قریب آیا۔ اس نے دھیرے سے ایسے کہا جیسے ٹھاکر صاحب کو مطلع کر رہا ہو،

    ’’آج میں وہاں گیا تھا۔‘‘

    ٹھاکر صاحب اس جملے پر ایسے چونکے جیسے بچھو نے انہیں ڈنک مار دیا ہو۔

    ’’کیا کہا؟‘‘ انہیں جیسے اپنی سماعت پر اعتبار نہ آیا۔

    ’’ہاں، آج میں وہاں گیا تھا۔ وہ بڑے خراب حال میں ہیں۔‘‘

    ’’لیکن تم کیوں گئے وہاں۔۔۔؟ اس نرک میں تم نے سانس کیسے لی۔۔۔؟‘‘

    ’’دکھوں نے اسے کچل دیا ہے، بیس سال سے وہ مسلسل ایک سزا جھیل رہی ہے۔۔۔ مجھ سے اس کی حالت دیکھی نہ گئی۔۔۔‘‘

    ٹھاکر صاحب اپنے نرم ملائم بستر پر بے چین سے ہو گئے۔

    ’’آخر تم سے صبر نہ ہوا۔۔۔ آخر تم وہاں گئے۔۔۔ میں نہیں جانتا تھا کہ گندے تالاب کی مچھلی کو دودھ کے ٹب میں ڈال دو، جب بھی وہ زندہ نہیں بچے گی۔۔۔!‘‘ انھوں نے حقارت سے کہا۔ ابھے اپنے دادا کے اس جملے کوپی گیا۔

    ’’دادا جی! ہر گناہ کی ایک سزا ہوتی ہے۔ اس سزا کے بعد گناہ گار اپنی خطاؤں سے بری ہو جاتا ہے۔ کیا بیس سال کا پچھتا وا اور عذاب اور شرمندگی ایک گناہ کی سزا کے لئے کافی نہیں؟ پھر وہ ماں ہے۔ آپ اپنے مرے ہوئے بیٹے کو بھول نہیں پائے، وہ اپنے زندہ بیٹے کو کیسے فراموش کر دے۔۔۔؟ اور پھر میں۔۔۔ قدرت نے مجھے باپ کے پیار سے محروم رکھا، لیکن ماں کا پیار تو میرے اخیتار میں ہو سکتا ہے۔۔۔‘‘

    ’’چپ رہ کمینے۔۔۔‘‘

    ٹھاکر منگل سنگھ کے بوڑھے گلے سے یہ دہاڑ بڑی ہو لناک معلوم ہوئی۔ ایسا معلوم ہوا جیسے ساری حویلی دھڑ دھڑا کر گر پڑی ہو۔ بیس سال سے وقت کا دھڑ کتا ہوا، مضطرب دل دفعتاًچنگھاڑا اور خاموش ہو گیا۔

    بہت دیر گزر گئی۔ ایک صدی، دوصدی۔۔۔ کئی صدیاں گزر گئیں۔ تب ابھے نے پلٹ کر دیکھا۔ ٹھاکر منگل سنگھ کا منھ کھلا ہوا تھا۔ ان کی آنکھیں پھٹی ہوئی تھیں اور وہ ایسی بے چارگی سے اوپر چھت کی کڑی کو تک رہے تھے جیسے ایک زمانہ ان کے ہاتھ سے نکل گیا ہو۔

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے