اسکوٹر والا
کہانی کی کہانی
یہ ایک مشترکہ خاندان کے ٹوٹنے بکھرنے کی کہانی ہے۔ محسن اپنی بیوی عابدہ کے ساتھ اپنے خاندان سے الگ رہنے لگتا ہے۔ ان کا ایک بچہ بھی ہے۔ بچہ دن میں جس وقت سوتا ہے اسی وقت گلی سے ایک سکوٹر والا گزرتا ہے، جسکی آواز سے بچے کی نیند کھل جاتی ہےاور رونے لگتا ہے۔ عابدہ بہت پریشان ہوتی ہے اور کسی کی بددعا جان کر وہ سکوٹر والے کو بددعا دیتی ہے۔ اگلے دن سکوٹر والا نہیں آتا۔ عابدہ پہلے تو اپنی بددعا کا اثر جان کر بہت خوش ہوتی ہے لیکن پھر وہ اس قدر پریشان ہوتی ہے کہ اپنے حواس کھو بیٹھتی ہے۔
اکیلے گھر میں ہر طرف عابد کوپراسرار سرگوشیاں سنائی دیتیں۔
منے کو کاندھے سے لگائے ٹہلتے میں جانے کیا سوچاکرتی تھی۔ کبھی اس کا جی چاہتا کہ وہ سامنے دیوار پر بیٹھی ہوئی چڑیا بن جائے اور دیکھے کہ دوسرے گھر میں وائلن پر کون گیت گارہا ہے۔ کبھی اسے خیال آتا کہ وہ منے کی طرح ایک سال کی بچی بن کر پھر سے زندگی شروع کرے تو کیا بنے گی۔ اب وہ سسرال کا بھرا ہوا گھر چھوڑ کر پہلی بار الگ ہوئی تو تنہائی اسے کاٹنے کو دوڑتی مگر اپنے میاں اور بچے کے ساتھ اپنا گھر بسانے کاجو چاؤ تھا وہ پورا ہوا۔ پھر جانے کیوں اسے یہ ڈر بھی لگتا تھا کہ اس کی جٹھانی جلن میں منے کو زہر ہی نہ دے دے۔
نئے گھر میں ابھی تک کوئی نوکر نہ ملا تھا اور پھر منا بھی اتنا چھوٹا تھا کہ وہ گھر کاکام کاج بالکل نہیں کرسکتی تھی۔
یہی باتیں سوچتے سوچتے اس نے منے کو سلا دیا۔
آج وہ بہت تھک گئی تھی۔ طویل بخار اور کھانسی کی وجہ سے منا دن کو چین سے سوتا تھا نہ رات کو۔ محسن کو آفس جانے سے پہلے منے کو سنبھالنا پڑتا تھا تب عابدہ ناشتہ تیار کرلیتی تھی۔ منے کو سلانے کے بعد عابدہ کی سمجھ میں نہ آتا کہ اتنے سارے کاموں سے کیسے نپٹا جائے! کھانا بنانا، منے کے کپڑے دھونا۔ گھر کی صفائی اور۔۔۔ اور بھی جانے کیا کرنا تھا۔ باتھ روم میں جاکر اس نے بھیگے کپڑوں کا بیسن اٹھایا تھا کہ کھڑکی کے نیچے سے کوئی اسکوٹر والا شور مچاتا تیزی سے گزر گیا اور منا پھرآنکھیں کھول کر رونے لگا۔
’’اونہہ۔۔۔ جانے کون منحوس تھا۔۔۔ سوتے میں بچے کو جگاگیا۔‘‘
وہ پھربچے کو کاندھے سے لگا کر ٹہلنے لگی۔ اس کی ساس ٹھیک ہی تو کہتی تھی کہ اتنے چھوٹے بچے کے ساتھ اکیلے گھر میں رہنا بڑا مشکل ہوگا۔
تھوڑی دیر بعد منے کوسلاکر وہ کچن میں بھاگی کہ پہلے کھانا تیار کرے۔
ایک بجے تک بہت سے کام ہوچکے تھے۔ صرف عابدہ کو کھانا کھانا تھا کہ پھر ایک اسکوٹر شور مچاتا ہوا آیا۔ منا اٹھ چکا تھا او رکچی نیند سے جگائے جانے پر احتجاج کر رہا تھا۔ عابدہ کا دل چاہتا تھا کہیں سے اسے بھی ایک اسکوٹر مل جائے تو وہ اس اسکوٹر کا تعاقب کرکے خوب لڑے، بالکل فلمی ہیروؤں والی لڑائی۔ پوری سڑک چھوڑ کے کم بحت اس کھڑکی کے نیچے سے کیوں گزرتے ہیں۔ عجیب فضول محلہ ہے۔ اس کی سسرال والا گھر بڑے سکون والے محلے میں ہے۔ منا وہیں پیدا ہوا تھا۔ اسی لیے ذرا سا بھی شور برداشت نہیں کرسکتی تھی۔
مگر اس کے گھر کے ہر کمرے کی کھڑکی سڑک پر کھلتی تھی اور سڑک بھی اتنی پتلی سی تھی کہ سارے پھیری والے عابدہ کی کھڑکیوں میں منہ اَڑا کے صدا لگاتے تھے۔
دودن میں ہی عابدہ اس محلے سے بخوبی واقف ہوچکی تھی۔ ٹھیک دس بجتے ہی پھیری والے آنا شروع ہوجاتے ہیں۔ سبزی والا ایک بجے آتا ہے۔ چار فقیر نو سے گیارہ تک آتے ہیں۔۔۔ لیکن ایک نہایت چیختی ہوئی آواز والا فقیر رات کو ٹھیک اس وقت آتا ہے جب منا ہزار نخروں کے بعد سوجاتا۔
ادھر اسکوٹر والے نے الگ جان کھالی تھی۔ صبح دس بجے جب منا سوتا تھا وہ جگا کے چلا جاتا۔ دوپہر میں ایک بجے جب عابدہ منے کو دودھ پلاکے خود بھی سونے کی کوشش کرتی تھی وہی اسکوٹر والا پھر دندناتا ہوا آجاتا تھا۔ اسکوٹر چلنے اور رکنے کی آواز سے عابدہ نے اندازہلگالیا تھا کہ وہ اس کے گھر سے دو تین مکان آگے جاکے رک جاتاہے یعنی وہ عابدہ کا کوئی پڑوسی ہے جو بڑی پابندی سے اسے ستانے پر تلا ہوا ہے۔ منے کو دوبارہ سلانے میں خواہ مخواہ اسکوٹر والا عابدہ کے دماغ پر سوار ہوجاتا تھا۔ بے چارہ اپنے آپ کو بڑا ہیرو سمجھتا ہوگا جو یوں چیختا چلاتا ہواآتا ہے، مگر ہے بڑا ندیدہ۔ ایک بجتے ہی آفس چھوڑ کر کھانے کے لیے بھاگا ہواآتاہے۔ جانے کون سا آفس ہے جو گھر جانے کی چھٹی مل جاتی ہے۔ یہاں تو منا چاہے کتنا ہی بیمار ہو مگر محسن وقت سے پہلے کبھی گھر نہیں آسکتے۔ اور وہ اسکوٹر والے نواب صاحب واپس ہوتے ہیں کبھی دو بجے، کبھی ڈھائی بجے۔۔۔ ممکن ہے کھانے کے بعد قیلولہ کرتے ہوں۔۔۔ شاید نئی نئی شادی ہوئی ہے جبھی بیوی کے دیدار کے لیے یوں طوفانی اسپیڈ سے بھاگے ہوئے آتے ہیں۔
شادی کے بعد شروع دنوں میں محسن بھی تو پانچ کی بجائے چار بجے ہی آجاتے تھے لیکن منا کیا ہوا کہ سارا رومانس ہی ختم ہوگیا۔ اب دن نکلے تو وہ دونوں منے کی شرارتوں میں کھوجاتے، رات ہوتی تو منے کو سلانے جگانے کی مصروفیت ہوتی۔ صبح آفس جانے سے پہلے محسن کی تیاری میں کسی بات کی فرصت ہی نہ تھی، اس لیے عابدہ کی طرف توجہ دینے کا وقت ہی نہیں ملتا تھا اور وہ منے کو ٹاٹا کرکے گھر سے نکل جاتا تھا۔ مگر اسکوٹر والے کی بیوی اسے بار بار روکتی ہوگی کہ ابھی تو دو بجے ہیں۔ ابھی سے آفس جاکے کیا کرو گے۔ البتہ چھٹی کے دن بڑا امن رہتا تھا۔ وہ کم بخت اسکوٹر والا، نئی نویلی دلہن کو چھوڑ کر کیوں نکلے گا چھٹی کے دن۔ اللہ کرے کم بخت کے چھ ساتھ بچے ہوجائیں تب پتہ چلے اسکوٹر چلاکر شور مچانے کا۔
جانے کیوں وہ اسکوٹر والا عابدہ کے ذہن پر سوار رہنے لگا تھا۔ اسکوٹر والے کی شوخ و شنگ دلہن عابدہ کی نظروں میں بس گئی تھی۔ گہرا گہرا میک اپ کیے، جھلملاتے ہوئے کپڑے پہنے، سرخ مچھردانی کے اندر مسہری پر لپٹی رہتی ہوگی۔ ممکن ہے اب اس نے کھانا میز پر لگادیا ہوگا۔ اس کا دولہا وقت کا پابند جو ٹھہرا۔۔۔ دوپہر ہوتی تو عابدہ کو نہ تو اب شام کا انتظار تھا جب محسن آفس سے آتا تھا نہ کھانے پکانے کے ہوش رہتے۔ اس کی نظریں بار بار گھڑی پر جاتی تھیں۔ کب ایک بجے اور اسکوٹر والے کی پھٹ پھٹ سنائی دے۔ جب تک وہ گزر نہ جاتا تھا سخت مضطرب سی رہتی جیسے بار بار چھینک آتے آتے رک جائے یا کوئی زورداردھماکہ ہونے والا ہے اور ہو نہیں پاتا۔ کتنی بار اس نے ارادہ کیا کہ اسکوٹر والے کو دیکھے، آخر وہ کون چھیل چھبیلا ہے مگر اس کی کھڑکیاں اتنی اونچی تھیں کہ جب تک پردہ ہٹاکے نہ دیکھو، سڑک کی کوئی چیز نظر نہ آتی تھی۔
اب ایک غیر مرد کو دیکھنے کے لیے وہ کھڑکی کیسے کھول سکتی تھی۔ ایک آدھ بار اس نے محسن سے شکایت کی،
’’اس محلے میں اسکوٹر والے نے مجھے بہت پریشان کی ہے۔ جہاں منا سویا وہ کمبخت جگا گیا۔‘‘
’’کہیں بیٹھا دیکھتا ہوگا کہ تم منے کو سلاتی ہو‘‘، محسن اس کی کسی پریشانی کو سنجیدگی سے نہ سنتا تھا۔
’’آپ مذاق سمجھ رہے ہیں۔ وہ سچ مچ روزانہ ٹھیک دس بجے جاتا ہے اور پھر ایک بجے کھانا کھانے کے لیے آتا ہے۔ پھر دوڈھائی بجے جب منا سو جاتا ہے تو جاتا ہے اور پھر رات میں۔‘‘
’’واہ بھئی، اسکوٹر والے کی مصروفیت کے اوقات تو تمہیں خوب یاد ہوگئے ہیں، اب یہ کرو کہ اس کی پرائیویٹ سیکریٹری بن جاؤ۔‘‘
پھر اچانک عابدہ کو بھی احساس ہوا کہ ایک اَن دیکھے اجنبی کے بارے میں اس نے اتنی تفصیل کیوں یاد کر رکھی ہے۔
’’آپ کو کیا معلوم اس کم بخت نے میری مصیبت میں جان کردی ہے۔ میرے بچے کی نیند کا دشمن ہوگیا ہے۔‘‘
’’تو کیا پولیس میں رپورٹ لکھواؤں کہ ایک اسکوٹر والے سے اس کا اسکوٹر چھین لیا جائے کیونکہ وہ ہمارے منے کو جگادیتا ہے۔‘‘
’’خیر آپ مذاق کرتے رہیے۔ میں خود اس کا کوئی بندوبست کروں گی‘‘، عابدہ نے جھلاکر کہا۔
یہ محلہ بڑے گھٹیا لوگوں کاتھا۔ مردوں کے باہر جاتے ہی عورتیں اپنے اپنے دروازوں پر کھڑی ہوکر پڑوسنوں سے لڑنا شروع کردیتی تھیں۔ ایسے ایسے کوسنوں اور گالیوں کاآپس میں تبادلہ ہوتا تھا جو عابدہ نے کبھی نہ سنی تھیں۔
اس دن بھی کسی کام سے کمرے میں آئی تو اس کی پڑوسن کسی سے کہہ رہی تھی، ’’ہاں ہاں، تونے ہی میرے منو کی ٹانگ توڑی ہے۔ کل تونے کوسنے دیے تھے کہ میری چھت پر چڑھنے والے کی ٹانگ ٹوٹے گی اور آج منو کی ٹانگ ٹوٹ گئی۔ اب میں تجھے سولی پر چڑھادوں گی۔‘‘
’’سور کی بچی۔‘‘
عابدہ کو کوسنوں پر بالکل یقین نہ آتا تھا مگر آج اس عورت کی بات سن کر سخت تعجب ہوا کہ واقعی کوسنے اتنے خطرناک ہوتے ہیں؟ جب ہی لوگ بددعاؤں سے اتنا ڈرتے ہیں۔ پھر اس کا جی چاہا کہ وہ بھی اپنے دشمن کو کوسنے دے کر دیکھے۔ اپنے دشمنوں کی لسٹ پر عابدہ نے نظر ڈالی تو سرِفہرست اس کی جٹھانی تھی آفت کی پڑیا۔۔۔ سرخ مرچ۔۔۔ اس کی وجہ سے عابدہ کو الگ گھر لینا پڑا تھا اور کالج میں ایک لڑکی شمیم اس کی جانی دشمن بن گئی تھی۔ مگر ان دونوں کو کوستے ہوئے عابدہ کا جی دکھا۔ جٹھانی کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ کم بخت ماں کے بغیر سسک سسک کر مرجائیں گے اور سنا ہے شمیم کا حشر تو برا ہوا۔ شوہر آوارہ ہوگیا۔ بچے پیدا ہوتے ہی مرجاتے ہیں۔ ایسے مرتے ہوؤں کو مارنے سے کیا فائدہ؟
دوسرے دن محسن نے اپنے دوستوں کو رات کے کھانے پر بلایا تھا۔ نئے گھر میں آنے کی خوشی میں وہ دعوت کھانے کو بے چین تھے۔ عابدہ بھی اپنے پکانے کے آرٹ سے ان سب کو متاثر کرنا چاہتی تھی۔ اس لیے اس نے صبح ہی منے کو دودھ پلاکر سلادیا اور کچن کا بارہ بجتے بجتے آدھا کام نپٹ چکا تھا۔ مگر ابھی شام کے لیے کچھ بھی نہ پکا تھا۔ اب تھوڑی دیر میں اسکوٹر والا آئے گا اور منے کو جگا جائے گا، پھر شام تک وہ کچھ نہ کرسکے گی، اس لیے وہ ڈرائنگ روم کی صفائی کرنے پہنچی۔ ابھی جھاڑن ہاتھ میں لی تھی کہ دور کہیں سے اسکوٹر کی گھڑگھڑاہٹ سنائی دی اور جانے کیوں وہ خوشی کے مارے اچھل پڑی۔ جلدی سے منے کے کمرے کی طرف دوڑی مگر وہ کوئی اور ہی تھا۔ ادھر آنے کی بجائے کہیں اور چلا گیا۔
اب تو ایک بج رہا تھا۔۔۔ آج کیا بات ہوئی۔۔۔ اب اس سے کوئی کام نہیں ہو رہا تھا۔ وہ بے چینی سے سارے گھر میں دوڑتی پھر رہی تھی۔ منا بڑے مزے میں دونوں ہاتھ گالوں پر رکھے سو رہاتھا۔ عابدہ ٹہلتی ہوئی ورانڈے تک ہی آئی کہ اسکوٹر کی آواز۔ گونج اٹھی اور منا کسمساکے رونے لگا،
’’اللہ کرے مرجائے یہ اسکوٹر والا۔ کسی بس سے اس کا ایکسیڈنٹ ہوجائے۔ اسکوٹر کے پرزے بکھر جائیں۔‘‘ جانے کیسے آج عابدہ کی زبان پر کوسنے آگئے اور وہ منے کو لے کر ٹہلنے لگی۔
شام کو محسن کے دوست آگئے، شور مچاتے، قہقہے لگاتے ہوئے۔۔۔ آٹھ بجے تک گپ بازی ہوتی رہی، پھر کھانے کے تقاضے ہوئے۔ اتنی دیر میں شیام کچن میں جاکر ہر ڈش کا مزہ چکھ آیا تھااور اب کھانے کے لیے سخت بے قرار تھا، لیکن عابدہ چاہتی تھی کہ منا سوجائے تو کھانامیز پر لگائے۔
منا سوگیا تو دونوں میاں بیوی جلدی جلدی میز ٹھیک کرنے میں لگ گئے۔ عابدہ کام میں مصروف تھی مگر اس کے کان اسکوٹر والے کی آواز پرلگے ہوئے تھے۔
کھانے کے درمیان شیام، قیصر اور صادق نے خوب شور مچایا، عابدہ بھی بلا کی حاضر جواب تھی مگر اسے یہی خیال ستائے جارہاتھا کہ اسکوٹر کاوقت ہوگیا ہے۔
تھوڑی دیر بعد وہ میز سے اٹھی، ’’میں ابھی ذرا منے کو دیکھ آؤں۔‘‘
کمرے میں آکر وہ سخت بے چینی سے ٹہلنے لگی۔ بس اب پھٹ پھٹ کا شور ہونے والا ہے، اب منا اٹھ بیٹھے گا۔
کھانا ختم ہوا۔۔۔ کافی کا دور بھی پھیکا پڑگیا، ہنستے ہنستے سب تھک چکے تھے مگر کسی کادل اٹھنے کو نہیں چاہ رہاتھا۔
آج شاید گھڑی کچھ آگے تھی۔ دس بج چکے۔ پھر اسکوٹر والا کیوں نہیں آیا۔ عابدہ باربارسوچ رہی تھی۔
’’آج بھابی کا موڈ آف ہے‘‘ ، شیام نے پھر چھیڑ خانی کی۔
’’نہیں تو۔۔۔‘‘ وہ ہنس پری اور پھر دل ہی دل میں سوچنے لگی کہ واقعی کیا مجھے کوئی پریشانی ہے۔ بعض وقت دل میں ایسے اندیشے بھر جاتے ہیں کہ اپنی پریشانی کی وجہ خودبخود سمجھ میں نہیں آتی۔ باربار سوچنا پڑتا ہے کہ دل کیوں ڈوبا جارہا ہے۔ آج میں نے اسکوٹر والے کو کوسنے دیے تھے، اس نے دھڑکتے دل سے یاد کیا اور آگے سوچنے کی بجائے گھڑی دیکھی۔ ساڑھے دس ہوچکے تھے۔
’’بھابی بار بار گھڑی دیکھ رہی ہیں کہ اب خدا حافظ‘‘، قیصر نے شیام سے کہا۔
’’مگر جب تک مرغ ہضم ہونے کی رسید نہ بھیج دے، میں تو اٹھنے کے موقف میں نہیں ہوں‘‘ ، شیام آرام سے صوفہ پر لیٹ گیا۔
اللہ توبہ۔۔۔ میرے بار بار گھڑی دیکھنے سے یہ لوگ جانے کیا سمجھ رہے ہیں۔ عابدہ نے شرمندہ ہوکر سوچااور پوری دل جمعی سے ان کی ہنسی مذاق میں شریک ہوگئی۔
اچانک کہیں سے کسی عورت کے رونے کی آواز آئی اور عابدہ خوف کے مارے اچھل پڑی۔
’’کیا ہوا۔۔۔؟ کیا بات ہے؟‘‘ شیام اور صادق کے علاوہ محسن نے بھی عابدہ کے ڈرنے پر ایک ساتھ پوچھا۔
’’شاید محلے میں کوئی مرگیا ہے، اس کی بیوی رو رہی ہے‘‘ ، عابدہ نے سہمے سہمے ہوے لہجے میں کہا۔
’’جی نہیں‘‘ ، محسن نے کھڑکی کے پاس جاکر غور سے آوازیں سن کر کہا۔
’’کوئی عورت بچے کو مار رہی ہے۔ بڑے فضول قسم کے لوگوں کا محلہ ہے یہ!‘‘
شیام نے محسن سے پوچھا اور شرارت بھری نظروں سے عابدہ کو دیکھ کر بولا، ’’ہم نے سنا ہے کہ بھابی بھی منے کو مارا کرتی ہیں۔‘‘
’’بلکہ منے کے باپ کو بھی‘‘، صادق نے کہااور پھر سب ہنسنے لگے۔
مگر عابدہ بے حد پریشان سی کھڑکی میں جاکر کھڑی ہوئی۔
’’کیا واقعی نہیں مرا۔۔۔؟ اے ہے میں تو اتنا گھبرا گئی کہ میرا تو دم ہی نکل گیا تھا۔‘‘
’’مگر یہ تو بتائیے بھابی کہ آپ اس محلے میں کس کے مرنے کاانتظار کر رہی ہیں؟‘‘
صادق نے پوچھا تو پھر قہقہے بلند ہوگئے۔
مگر عابدہ نے ہنسنے کے بجائے سرجھکالیا جیسے اسکوٹر والے کے مرنے کی پوری ذمہ داری اسی پر ہو۔
ہاسپٹل والوں نے لاوارث لاش سمجھ کر اسے مردہ گھر میں ڈال دیا ہوگا۔ اسکوٹر کے ٹکڑے سڑک پر بکھرے ہوں گے، اور اس کی بیوی بالوں میں پھولوں کاہارسجائے سولہ سنگھار کیے کھانا میز پر رکھے بیٹھی ہوگی۔ سوچ رہی ہوگی کہ آج جانے کس چڑیل نے اس کے شوہر کاراستہ روک لیا ہے۔ اگر اسے معلوم ہوجائے کہ۔۔۔ کہ۔۔۔ عابدہ۔۔۔
فضا کو یوں گم سم دیکھ کر محسن کے دوست اٹھ کھڑے ہوئے۔
دس پندرہ منٹ کے بعد لائٹ آف کرکے محسن کمرے میں آیا تو عابدہ تکیے پر سر رکھے رو رہی تھی۔
’’عبو۔۔۔ عابدہ جان کیا ہوا؟‘‘ وہ سخت پریشان ہوگیا۔
کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ عابدہ کو اچانک کیا تکلیف ہوگئی۔ آخربڑی دیر کے بعد وہ سسکیوں کو روک کر بولی،
’’محسن مجھ سے ایک غلطی ہوگئی ہے، یوں لگتا ہے جیسے میں نے کسی کی جان لی ہے۔‘‘
’’کیا؟‘‘ محسن اچھل پرا۔ اچانک اسے سارا گھر گھومتا نظر آیا۔
’’تم نے کس کی جان لی ہے؟ کیا ہوا؟مجھے پوری بات جلدی بتاؤنا!‘‘
’’وہ جو اسکوٹر والا روز کھڑکی کے نیچے سے جاتا تھا نا، میں نے آج اسے خوب کوسنے دیے تھے، اور آج ابھی تک وہ گھر نہیں لوٹا، ضرور اس کی کسی بس سے ٹکر ہو گئی ہے۔ وہ مرگیا ہے جبھی تو اس کی بیوی رو رہی تھی۔‘‘
’’بس یہی بات تھی‘‘، محسن نے اسے تشویشناک نظروں سے دیکھا اور زبردستی اسے لپٹاکے تھپکنے لگا۔
’’بے وقوف، احمق کہیں کی۔۔۔ تمہارے کوسنے نہ ہوئے بندوق کی گولی ہوگئے۔ چلو اب حماقت چھوڑو، سوجاؤ۔۔۔ ہر وقت اسکوٹر والا، اسکوٹر والا۔‘‘
مگر عابدہ ساری رات دہشت ناک خواب دیکھتی رہی۔ کہتے ہیں قاتلوں کو کبھی ذہنی سکون نہیں ملتا۔ وہ بار بار خواب میں دیکھتی کہ کسی کا گلاگھونٹ رہی ہے۔ پھر خوف کے مارے خود ہی چلانے لگتی۔
صبح اس کی آنکھ کھلی تو جیسے مہینہ بھر کی بیمار ہو۔ تیز بخار میں اس کابدن تپ رہا تھا۔ محسن سمجھ گیا کہ شاید اسی تیز بخار کی آمد تھی جورات عابدہ جانے کیا اول فول بک رہی تھی۔ آج محسن کو خود سارے کام نپٹانا پڑے اور آفس جانے سے پہلے اپنی امی کے ہاں جاکر فوری ملازم کا بندوبست کرنے کو بھی کہہ آنا پڑا۔
محسن آفس چلاگیا تو عابدہ بھی منے کو لے کر سوگئی مگر اچانک پڑوس میں کہیں رونے پیٹنے کا شور بلند ہوا، مختلف دردناک آوازوں سے عابدہ نے فوراً اندازہ لگالیا کہ کوئی مرگیا ہے۔ وہ اٹھ بیٹھی۔ کھڑکیاں اور دروازے بند کیے پھر باتھ روم میں جاکر اندر سے دروازہ یوں بند کیا جیسے اسے کوئی پکڑنے آرہا ہے۔ تیز بخار اور ڈر کی وجہ سے وہ کانپ رہی تھی۔ اسے یقین ہوگیا کہ اب پولیس اس کے دروازہ پرآئے گی۔ قاتل یہ ہے۔۔۔ قاتل۔۔۔ اس کی نظروں میں فلموں اور ناولوں کے ہزاروں قاتلوں کا چہرہ گھوم گیا اور وہ زور زور سے چلانے لگی۔۔۔ نہیں نہیں۔۔۔ میں قاتل نہیں ہوں۔۔۔ میں نے کسی کا قتل نہیں کیا ہے۔ جب وہ چیختے چیختے تھک گئی تو باتھ روم کھول کر پھر اپنے کمرے میں آئی۔ منے سے لپٹ گئی۔
لوگ کتنے زور زور سے رو رہے تھے۔ عورتوں کی آوازیں کیسی دردناک تھیں۔ ہائے اللہ۔۔۔ اس کی بیوی کا جانے کیا حال ہوگا اس کے جوڑے کے پھول۔۔۔ مہندی لگے ہاتھ۔۔۔ سرخ بچھونا۔۔۔ اور پھر کہیں سے اس کے دماغ نے یہ بھی سوچا کہ اب وہ اسکوٹر کی آواز کے بغیر دن کیسے کاٹے گی؟
وہ پھر رونے لگی اور اٹھ کر ٹہلنے لگی۔
بھاگ جاؤ۔ ٹہلتے میں اسے خیال آیا۔
ایسے موقع پر سب مجرم یہی کیا کرتے ہیں۔ مگر لوگ کہتے ہیں کہ خون نہیں چھپتا۔ مرنے والے کی روح ہمیشہ قاتل کا پیچھا کرتی ہے تو کیا وہ اسکوٹر والا اب بھی میرا پیچھا نہیں چھوڑے گا۔ محسن اب اس سے کتنی نفرت کرے گا۔
سسرال والے کیا کہیں گے اور۔۔۔؟ اور منا ایک قاتل ماں کا بیٹا کہلائے گا۔۔۔ اور وہ۔۔۔ اب عدالت میں کھنچی پھرے گی۔ حوالات میں بند ہوگی اور پھر۔۔۔ پھانسی کاتختہ۔۔۔ اس نے لرزکے سوچااور پھر پلنگ پر گر پڑی۔ رونے پیٹنے کا ہنگامہ بڑھتا جارہاتھا۔ غالباً موت کی خبر چاروں طرف پھیل گئی تھی۔۔۔ لوگ آرہے تھے، وہ سب پوچھ رہے ہوں گے کہ کیسے مرگیا۔۔۔؟ کیا ہوا تھا؟ مگر کسی کو بھی معلوم نہیں ہوسکتا کہ ایکسیڈنٹ کی اصل وجہ کیا تھی؟ سب نے بس والے کو پکڑا ہوگا، پھر وہ کیوں ڈر کے مارے مری جارہی ہے؟ اچانک یوں لگا جیسے اس کی پھانسی کی سزا معاف ہوچکی ہو۔ شاید بخار اب کم ہوچکا تھا اور وہ پسینے میں نہا رہی تھی۔
پھر اچانک دروازے کی بیل بج اٹھی اور عابدہ اچھل پڑی۔۔۔ ڈر کے مارے سارے گھر میں دوڑنے لگی۔
’’دروازہ کھولیے‘‘ ، کوئی چلا رہاتھا۔
یقیناً پولیس ہوگی! اب اقرار کرنا ہی پڑے گا۔ ہاں میں قاتل ہوں۔ کہتے ہیں قتل کا اقرار کرنے سے سزا کم ہوجاتی ہے۔ دروازہ کھولتے میں اس کے ہاتھ پاؤں کانپ رہے تھے اور اس کا چہرہ آنسوؤں سے بھیگا ہوا تھا۔ باہر ایک نوجوان مرد کھڑا تھا، ایک چھوٹے سے بچے کو گود میں لیے ہوئے،
’’معاف کیجیے محترمہ۔ آپ کو بے وقت زحمت دی ہے۔ میں آپ کا پڑوسی ہوں۔ صبح میرے خسر صاحب کا انتقال ہوگیا ہے۔ میری بیوی بے ہوش ہے۔ کیا آپ دو تین گھنٹے کے لیے میرے بچے کو سنبھال سکیں گی؟ اسے تھوڑا سا دودھ بھی پلا دیجیے۔ شکریہ!‘‘
عابدہ کی سمجھ میں کچھ نہ آیا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے مگر اس نے ہاتھ بڑھاکے بچے کو گود میں لے لیا۔
’’مگر آپ کو کیا ہوا؟ کیا آپ کے یاں بھی کوئی؟‘‘ اس آدمی نے عابدہ کے بکھرے ہوئے بال، آنسوؤں میں ڈوبا چہرہ، سرخ آنکھوں کو دیکھ کر تعجب سے پوچھا۔ مگر عابدہ نے جواب دینے کی بجائے کواڑ بند کیے۔ پھر وہ اچانک اچھل پڑی کیونکہ باہر وہی مانوس پھٹ پھٹ سنائی دی اور وہ خوشی کے مارے اجنبی بچے سے لپٹ کر چلانے لگی۔۔۔ ’’نہیں، میرا کوئی نہیں مرا۔۔۔ میرا کوئی نہیں مرا۔‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.