Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

شاہ موش

صائمہ ارم

شاہ موش

صائمہ ارم

MORE BYصائمہ ارم

    یہ سارا قصہ شاملات کے کیس کی فائیل سے شروع ہوا تھا۔ بھائی جان، وہ پہلا اور آ خری دن تھا جب اس کا اور میرا آمنا سامنا ہوا۔ ایسے کیا دیکھ رہے ہیں، بھابھی جان سے کہیے ، یہ ٹھنڈا دودھ تھوڑا اور بھیج دیں، بہت مزے دار ہے۔ ہاں، ابھی اس گلاس میں اور ڈال دیجیے۔

    آہا، کیا دن ہوتے تھے۔ تھوڑا تھوڑا اب بھی یاد ہے مجھے۔ چا چا جی کو بھی دودھ بہت پسند تھا۔ آپ کے گھر جو پینے کو ملا، یقین مانیے، زندگی بھر کہیں سے نہیں مل سکا۔ آہ، اتنی موٹی بالائی، کڑھ کڑھ کے سرخ پڑی ہوئی۔ یاد ہے چاچی کتنا پہرہ دیتی تھیں کاڑھے کا۔ ہم بھی بڑے شرارتی تھے۔ وہ باڑے کی طرف گئی نہیں کہ ہم سٹڑا لے کر، کونے سے دودھ کے کڑھاؤ میں ڈالتے اور چسکیاں لے کے پی جاتے تھے۔ چاچی واپس آ کر دودھ دیکھتیں اور بالائی کی تہہ سے مطمئن واپس ہو جاتیں، انھیں پتا ہی نہیں چلتا تھا کہ نیچے سے دودھ غایب ہو رہا ہے۔ ہاہ، اور جب پتا چلتا تو۔۔۔

    آپ کو پتا ہے؟ آج بھی میرا خیال ہے، صحیح یاد نہیں آ رہا، لیکن میرا خیال ہے بس۔ کسی وقت شاید آج ہی۔۔۔ ابھی کیا وقت ہو رہا ہے؟؟؟ وہ ملا تھا مجھے انور۔۔۔ پریشان تھا میں بہت۔ بھائی جان کسی کو میری پریشانی کا کیا اندازہ۔۔۔ ہاں۔ نہیں، اندازہ ہے۔ سب لوگوں کو، جان بوجھ کے کرتے ہیں ایسا۔ وہ انور بھی کہنے لگا۔۔۔ حرامی سالا۔۔۔ بھیا ایک شاندار چیز کھلاتا ہوں، ادھر بیٹھا تھا میں، وہ جو میرے دفتر کے پاس بڑا، پرانا والا باغ ہے نا، وہی جہاں بچپن میں چا چا جی لایا کرتے تھے، عید کے اگلے روز، سب بچوں کو اکٹھا کر کے اور گول گپے کھلاتے تھے۔۔۔ جی جی، لارنس، بھائی جان، ایک بابے سے کالے کالے پاپڑ لیے اس نے، کہنے لگا مزہ آئےگا، کالے تو نہیں تھے، ہرے تھے۔ نہیں کتھئی تھے۔ ایک تو جب سے وہ ملا ہے، مجھے رنگوں کا پتا نہیں چلتا، اس کا بھی تو کوئی ایک رنگ نہیں، ہر بار ایک نیا رنگ، بھورا، ہرا، کالا، ہر بار بدل جاتا ہے، لیکن مجھے پتا ہے، وہ وہی ہے، وہی ہے۔ وہ مجھے اور میں اسے پہچانتا ہوں۔ وہ بھائی جان۔ وہی۔۔۔ دیکھیے نا۔ اس وقت بھی وہ میرا کلیجہ نوچ رہا ہے۔ کچھ کھانے کو منگوائیے نا ارے کہاں چلے گئے تھے آپ۔ اچھا اچھا، ٹھیک کیا آپ نے، میرے گھر فون کر دیا۔ ہاں، موبائل۔ ارے وہ تو میرے پاس نہیں۔ کدھر گیا۔ پورے پچاس ہزار کا تھا۔ میں خود تو کہاں لیتا۔ کسی نے تحفہ دیاتھا۔ کوئی خلوص سے دے تو لینا پڑتا ہے نا۔ تحفے سے محبت بڑھتی ہے۔ پچھلے سال جب شاملات کا معاملہ اٹھا، بھائی جان، پورے دو مربعے زمین نکلی دریا سے۔ دفتر کا ہر بندہ چاہتا تھا کہ یہ کیس اسے ملے۔ میں اور شمیم دو ہفتے رکے تھے اسلام آباد میں۔ شمیم کی بڑی دوستی ہو گئی تھی سیکٹری صاحب کی بیگم سے۔ واپس آکر اس نے روبی جیولرز سے چھے سونے کی چوڑیوں کا تحفہ بھجوایا بیگم صا حبہ کو۔ اتنا خوش ہوئیں۔ لاہور آئی تو ملنے آئی۔ فائل تو میرے پاس آنی ہی تھی۔ مجھے پہلے ہی پتا تھا۔ اتنا بڑا کیس کسی اور کے بس کا تھا بھی کہاں۔ پر بات تو یہ ہے کہ دوستی بڑی چیز ہوتی ہے۔

    یہ دیکھیے، جیب کا حال۔ یہ بھی اسی نے کیا ہے، بٹوہ بھی وہی نکال کے لے گیا ہوگا۔ کپڑے پھٹ گئے کیا؟ جب آپ بس سٹینڈ پہ ملے تھے نا۔ میں ادھر ان لوگوں کو یہی بتا رہا تھا۔ میں بتا رہا تھا۔ پہلے آہستہ آہستہ بتاتا رہا۔ دھیمی آواز میں، جنگلی سنتے ہی نہیں تھے، ہنستے جاتے تھے، کیا کیا کہتے تھے، پاگل ہے، للہ ہے، سائیں ہے، پھر میں چیخنے لگا، وہ آ گیا تھا نا۔ اسی طرح دانت کچکچا کے دیکھ رہا تھا مجھے۔ اسی دن کی طرح۔ میں ان سب کو دکھا رہا تھا اور وہ ڈرامے باز۔ کیسے ہو سکتا تھا کہ انھوں نے اسے نہ دیکھا ہو، ہاں وہ بہت ہوشیار ہے۔ مانتا ہوں میں، بس لمحہ بھر کو جھلک دکھاتا ہے، اس ایک دن کے سوا، وہ کبھی میرے سامنے لمحہ بھر سے زیادہ نہیں ٹکا۔ چڑاتا ہے نا مجھے، پر یہ تو نہیں ہو سکتا تھا کہ ان درجنوں لوگوں میں سے کسی ایک کوبھی نظر نہ آئے۔ جان بوجھ کے کر رہے تھے سب۔ وہ سارے، ہنس رہے تھے۔ مل گئے ہیں سارے۔ میری شرافت کو کمزوری سمجھتے ہیں۔ بتا دوں گا ان کو کسی روز۔ ایک بات بتاؤں آپ کو۔ وہ شمیم بھی اسی کے ہتھے چڑھ گئی ہے۔ پہلے مجھے شک تھا۔ روز روز ایک ہی خواب۔۔۔ کیسے آ سکتا ہے۔ بالکل ایک ہی۔ پتا کیا۔ روز میں بستر پہ جکڑا جاتا ہوں۔ اس کا ایک جسم میرے سارے کپڑے کتر کر پھینک دیتا ہے۔ پھر وہ اپنے باقی جسموں کو میری ناف پہ کھڑا کر دیتا ہے۔ وہ ایک دوسرے کو رگیدتے ہیں۔ میری گردن پہ بیٹھ کے میری آنکھوں میں جھانکتے ہیں۔ میرے پیٹ پہ دم کے بل کھڑے ہو جاتے ہیں۔ مجھے پیغام دیتے ہیں۔ دھمکاتے ہیں۔ انتظار کرتے ہیں۔ پھر ان میں سے ایک دوسروں کو کھینچتا ہے۔ بھائی جان کیا بتاؤں، شرم آتی ہے۔ وہ ادھر نیچے آ جاتے ہیں اور وہیں پیشاب کر دیتے ہیں۔ بڑی بد بو آ تی ہے۔ جلن ہوتی ہے اور میں کچھ نہیں کر پاتا اور وہ میری بیوی۔ شمیم وہ کہتی ہے کہ میں خواب میں ڈرنے لگا ہوں، کپڑے اتار کر پھینک دیتا ہوں۔ بستر پر پیشاب کر دیتا ہوں۔ بھائی جان، وہ ان کی پروردہ ہو گئی ہے۔۔۔ پیاس لگی ہے۔ وہ دودھ نہیں آیا ابھی۔

    چاچاجی کی خبر ملی تھی مجھے۔ میں آ ہی نہیں پایا۔ شمیم تو آئی ہو گی۔ ہاں۔ یاد آ گیا۔ آ ئی تھی۔ اس نے بتایا تھا۔ کتنے معصوم لگ رہے تھے چا چا جی۔ نکھرا ہوا تھا ان کا چہرہ۔۔۔ آپ یوں کیوں دیکھ رہے ہیں، کچھ بولیے نا۔ ہاں پھپھو نے بتا یا تھا۔ آپ ناراض ہیں نا۔۔۔ مجھے بہت دکھ ہوا تھا۔ کتنے دن کام بھی نہیں کر سکا دفتر میں، آنا بھی چاہتا تھا۔ کیا تھا تب،۔۔۔ اف۔۔۔ ہاں۔ میرا خیال ہے ڈی ڈی (ڈپٹی ڈائیریکٹر ) کے سالے کے قل تھے۔ جانا پڑ گیا وہاں۔ پھر دفتر کا کام۔ بھائی جان۔ بنا کے نہ رکھو تو یہ لوگ جان کو آ جاتے ہیں۔۔۔ یہ آواز۔۔۔ آپ کے غسل خانے کا نل خراب ہے نا۔ ہر ساڑھے سات سیکنڈ کے بعد گرتا ہے قطرہ۔ ٹپ۔۔۔ ٹپ ۔۔۔ پلیز۔ اس کو بند کرا دیجیے۔۔۔ پچھلے مہینے میرے گھر بھی یہ مسلۂ تھا۔ بھائی جان۔ چھید ہو جاتا ہے میرے دماغ میں۔ تب تو میری بڑی اہم میٹنگ تھی۔ پتا کیا۔ رات بھر ایک لمحے کے لیے بھی میں نہ سو سکا۔ زمینوں کی الاٹمنٹ کا فیصلہ ہونا تھا۔ ڈی جی صاحب اسلام آباد سے تشریف لانے والے تھے۔ اپنے حصے کے کیس پر بحث کے لیے مجھے پوری طرح حاضر دماغ ہونا ہی تھا۔ ان گرمیوں کے بعد میری سب سے چھوٹی سالی کی شادی ہونے والی تھی۔ نانکی شق میں حصہ کم رہ جاتا تو بڑی سبکی کی بات تھی۔ ایک تو پہلے ہی وہ لوگ مجھے عجیب عجیب طرح دیکھتے ہیں۔ کبھی سسرال جانا پڑ ہی جاتا ہے۔ ہفتوں تیاری کرنا پڑتی ہے۔ نئے کپڑے، گاڑی چمکتی ہوئی۔ آدھے تو بیوروکریسی میں ہیں، ان کے دادا بھی برٹش آرمی میں افسر تھے۔ بچے بچے میں افسری گھسی ہوئی ہے۔ مجھے تو وہ لوگ پینڈو سمجھتے ہیں۔ شمیم کی تو کوشش اب یہی ہوتی ہے کہ وہ اکیلی ہی اپنے میکے کے کام بھگتا لے، پر آپ کو تو پتا ہے، ایسے موقعوں پر تو جانا ہی پڑتا ہے۔ پھر گہنے، کپڑے، اتنی قریبی شادی کے لیے تیاریاں بھی تو بہت کی جاتی ہیں نا، عزت کا معاملہ ہے۔ تو بھائی جان۔ میرے لیے ان دنوں ایک ایک کیس اہم تھا اور آپ کو پتا ہے، تبھی وہ میرے پیچھے پڑ گیا تھا۔ تب نیا نیا گھر بنایا تھا میں نے۔۔۔ اتنے شوق سے۔۔۔ ارے بھابھی جی۔ جی جی۔ معافی چاہتا ہوں۔ ہاں، شمیم ایسی ہی ہے۔ بس بھابھی جان۔ وہ بھی اپنے طور پر ٹھیک ہی کرتی ہے۔ ہم لوگوں سے دوستی بھی تو نہیں دل پر نہ لیجیے نا۔ بڑے بھیا کا ڈھونڈا ہوا رشتہ ہے۔ خاندان سے باہر کا۔ ان لوگوں کے ہاں زیادہ دوستیاں کی ہی نہیں جاتیں۔ آپ تو جانتی ہیں، ڈی سی تھا اس کا باپ۔ یہ بیوروکریٹ ایسے ہی خشک ہوتے ہیں نا۔ بتایا تو ہے ابھی آپ کو۔ میں تو خود ان سے زیادہ بے تکلف نہیں۔ مجھے بتایا تھا باجی نے، ایسے ہی ہلکا سا ذکر کیا تھا کہ شمیم نے میرے سب گھر والوں کے لیے باہر لان میں دستر خوان بچھوا کرکھانا لگوایا۔ میں نے پوچھا تو بے چاری گھبرا گئی، کہنے لگی کہ اس کے میکے کے سب مرد اندر کرسیوں پر بیٹھے تھے، سب نے سوٹ پہنے ہوئے تھے، اگر وہ ان سے دستر خوان پر بیٹھنے کا کہتی تو کیسے بیٹھتے، پتلونیں فرش پہ بیٹھنے کہاں دیتی ہیں۔ سب لوگ کتنا پریشان ہوتے، تو اس نے یہی مناسب سمجھا کہ جو جہاں بیٹھا ہے اسے وہیں کھانا کھلا دے۔ بات تو اس کی بھی ٹھیک ہی تھی بھابھی جی۔ بھابھی جی پیاس لگ رہی ہے۔ وہ ٹھنڈا دودھ؟

    ہاں بھائی جان۔ میں تو کسی کا برا نہیں چاہتا، سب کے ساتھ مل جل کے رہنا چاہتا ہوں، پر یہ دنیا بڑی ظالم ہے۔ دیکھیے نا۔ حد ہونے لگی ہے۔۔۔ وہ اب حد سے گزرنے لگا ہے۔۔۔ بڑے بھیا کے گھر میں، ہر کمرے میں اے سی لگے ہیں۔ بھائی جان۔ میں تو پہلے مہینے ہی سارے کمرے ٹھنڈے کر لیتا۔ لیکن یہ حرامی، رشوت خور۔۔۔ اوہ۔ معاف کیجیے۔۔۔ بھابھی جان۔ آپ کیوں جا رہی ہیں۔۔۔ بیٹھیے نا۔۔۔ اچھا اچھا۔ شمیم کو بھی نہت کام ہوتے ہیں۔ ہم میاں بیوی کو تو اکٹھے بیٹھنے کا موقع ہی نہیں ملتا۔۔۔ اب تو وہ ویسے بھی اس کے ساتھ مل گئی ہے۔۔۔ کمرے میں اور بتی ہے تو جلا دیجیے۔ اندھیرا سا ہو رہا ہے نا۔ مجھے ٹھیک سے نظر نہیں آ رہے آپ لوگ۔۔۔ سارا گھر، رشتے داری۔۔۔ ناراض بھی ہے وہ تھوڑی سی۔۔۔ اب وہ کیا جانے۔۔۔ نوکری کرنا آسان تھوڑے ہی ہے۔۔۔ اللہ دتے تک کو سو پچاس روز نہ دو تو بڑے بابو سے جاکر جڑ دیتا ہے۔ آج سمیر بابو دس منٹ لیٹ آئے۔ کل سمیر بابو لنچ ٹائم میں نکل گئے۔ منیر ٹھیکیدار اور سمیر بابو چھے دفعہ لنچ کرنے گئے۔۔۔ مخبر ہے سالا اور شکل پہ دیکھو کیسی یتیمی برستی ہے۔۔۔ آج لے آیا اپنے لڑکے کو۔۔۔ کہنے لگا۔ گجرات جانا ہے، شاہ دولے کے مزار پر۔ چھٹی چاہیے، کرایہ بھی۔ لڑکے کو شاہ دولے کا چوہا بنانا ہے۔۔۔ میں نے ڈانٹا۔ میٹنگ تھی نا آج۔ وہ چلا جاتا تو چائے پانی کا انتظام کون کرتا۔ ٹھیکیدار کو کون سمجھاتا۔ اب میں تو منہ پھاڑ کے اپنی فیس نہیں بتا سکتا نا۔ نوکری کا بھی تو تقاضا ہوتا ہے۔ وہ۔۔۔ اس نے لڑکے کو آگے کر دیا۔ بھائی جان۔۔۔ اتنا چھوٹا سا سر۔۔۔ منہ سے رال ٹپک رہی تھی۔۔۔ ٹک ٹک میری طرف دیکھتا، خشونت بھری نظروں سے۔۔۔ لال آنکھیں۔۔۔ موٹے بدن پر میلے کپڑے۔۔۔ میں ایک لمحے میں سمجھ گیا تھا۔ وہ وہی تھا۔۔۔ اب وہ یوں میرے سامنے آنے لگا تھا۔۔۔ مجھے پہلے ہی ڈر تھا بھائی جان۔۔۔ آپ ادھر آ جائیں نا۔ میری چارپائی پر۔۔۔ یا میں آپ کے پاس آ جاؤں۔۔۔ اچھا۔۔۔ ہاں یہ بھی ٹھیک ہے۔۔۔ کرسی قریب کر لیجیے۔۔۔ یہ رمضان ہے۔۔ کتنا بڑا ہو گیا۔۔۔ کس کلاس میں پڑھتا ہے۔۔۔ میرا احمد تو ابھی پہلی جماعت میں ہے۔ اتنی دور جاتا ہے۔۔۔ دو گھنٹے لگتے ہیں آنے جانے میں۔ ڈرائیور رکھنا پڑا۔ کیا کریں بھائی جان۔ بڑے بھیا کے بچے بھی تو ادھر اسی سکول میں ہیں نا۔ پھر شمیم کے میکے میں بھی سب بچے ادھر ہی جاتے ہیں۔ شمیم کو بڑی دقت ہے۔ کہتی ہے گھر بدل لو۔ ڈیفینس چلتے ہیں۔۔۔ میں نے سمجھایا، ابھی اسی گھر کا پھڈا ختم نہیں ہو رہا۔ بھائی جان۔۔۔ کچھ کھانے کو ملےگا۔۔۔ یہ آواز۔۔۔ یہ تو اسی کی ہے۔۔۔ اس دن جب منیر ٹھیکیدار کی دعوت کی تھی میں نے۔۔۔ ہم ڈرائنگ روم میں بیٹھے تھے، چائے پی رہے تھے، تب ایسی آواز آنی شروع ہوئی تھی۔ ہمیشہ آتی ہے۔ پہلے کھرچ کھرچ کرتا ہے پھر خود آتا ہے۔ منیر بیٹھا مجھ سے بحث کر رہا تھا۔ اس دن دفتر میں بھی بڑی مشکل رہی تھی۔ منیر ٹھیکیدار سے دو گھنٹے مغز ماری کے باوجود حاصل حصول کچھ نہیں ہوا۔ وہ چالیس سے آگے نہیں بڑھ رہا تھا اور میں پچاس سے کم پر راضی نہ ہوا، مہنگائی ہے تو کیا میرے لیے نہیں۔ میں نے بھی سوچ لیا تھا۔ اچھا نہ مانا تو اب میں بھی دوبارہ نہیں کہوں گا۔ حد ہے۔ دو مہینے سے اٹکا ہوا ہے، ٹھیک ہے ، پھر دھکے کھائے، اپنا ہی نقصان ہے نا اس کا، میرا کیا جاتا ہے۔۔۔ اتنے میں اس کے بہنوئی کا فون آ گیا، اینٹی کرپشن میں ہے اس کا بہنوئی۔ مجھ سے بات کرائی۔ ملنا چاہتا تھا۔ ابھی میں بات کر رہا تھا کہ بیٹھک کے کھلے دروازے سے وہ داخل ہو گیا۔ چپ چپیتے، ایک لمحے میں گزر گیا سامنے سے۔ میں پریشان تھا، پتا نہیں منیر نے اسے دیکھا یا نہیں۔۔۔ مجھ سے کچھ بولا ہی نہ گیا، حد ہے بھائی جان۔۔۔ میری روزی پہ لات مار دی اس نے۔ چالیس پہ ہی سودا ڈن ہو گیا۔ پر میرے حصے تو پندرہ سے زیادہ نہیں آئے نا۔ فائل کوئی ایک جگہ تو رکتی نہیں۔

    نکل آیا میں دفتر سے۔۔۔ بھائی جان۔۔۔ آج داتا شاہ جمال نے سب کچھ بتا دیا مجھے۔ ڈھول کی تھاپ پہ ناچنے لگا میں بھی۔ میرے اطالوی چمڑے کے بوٹ ناچنے نہیں دیتے تھے۔ اتار کر پھینک دیے میں نے۔ داتا کا تبرک بھی پیا۔۔۔ پھر گول گول گھومتے مجھے داتا نے دکھا دیا۔۔۔ خیر ہو داتا کی۔۔۔ بتا دیا وہ کیا کرنے والا ہے۔ وہ کئی ہیں۔ بہت سارے ہیں، پھر بھی ایک ہیں۔۔۔ وہ میرے اندر اترنے والے ہیں۔ اپنی دموں کو جوڑ کر ایک بدن ہونے والے ہیں۔ وہ میرے منہ میں گھس جائیں گے۔ پیٹ میں اتر جائیں گے۔ میری ناف کو اپنی دم سے گرہ باندھ کر پھرکی کی طرح گھومیں گے۔۔۔ میرے دل کو کتر کر کھا جائیں گے۔ بھائی جان۔ میں پاؤں اوپر کر لوں۔۔۔ ہاہ۔۔۔ آپ کی چادر گندی ہو گئی۔ معاف کیجیے۔ داتا نے مجھے کہا کہ بھاگ جاؤ۔ میں بھاگا۔ جوتے بھی نہیں ملے۔۔۔ پھینک دیے تھے میں نے۔ ابو کی یاد آئی۔ میں تو ان کی قبر ڈھونڈ رہا تھا ادھر بڑے قبرستان میں۔۔۔ نہیں مجھے یاد نہیں وہاں کیسے پہنچا، مٹی بڑی گرم تھی، کیکر کے کانٹے بھی تھے۔ میں ڈھونڈتا رہا، ڈھونڈتا رہا۔ کتنی قبریں بن گئی ہیں وہاں۔ کتنے لوگ مرتے ہیں، لیکن مجھے پتا ہے وہ نہیں مرنے والا۔ وہ مجھے کھا جائےگا۔ وہ زندہ رہےگا۔

    میرادل بھاری ہو رہا تھا، ساری قبریں بھی گھوم رہی تھیں۔ گول گول، اوپر نیچے آگے پیچھے۔ امی کبھی مجھے ایسے گھومنے نہ دیتیں۔ کتنا خیال رکھتی تھیں وہ۔ روز نیا جوڑا، دھوبی کا دھلا ہوا، کلف لگا کر استری کیا ہوا۔ کبھی گانٹھا ہوا جوتا تو پہننے ہی نہ دیا تھا۔۔۔ ہاں، ٹھیک کہا آپ نے بھائی جان۔ گاؤں بھی نہیں جانے دیتی تھیں۔ بس کبھی کبھی جب دادا کے بہت پیغام آنے لگتے تو ابو لے جاتے تھے۔ یا پھر عید کے دنوں میں۔ لیکن مزہ کتنا آتا تھا۔ امی چیختی رہ جاتی تھیں۔ گنوار، جاہل، پینڈو کیا کچھ نہیں کہتی تھیں۔ ہر بار دھمکی دیتیں کہ آئندہ گاؤں نہیں لاؤں گی۔۔۔ ہاہ ابو بھی تو ان کے حمایتی تھے۔ دادا کی زمین تو ان کے دل میں کبھی بسی ہی نہیں۔ میٹرک کر کے جو نکلے تو پلٹ کر نہیں دیکھا۔ انھیں اریگیشن کے افسر پسند بھی تو بہت تھے، اسی لیے تو انھوں نے بڑے بھیا کو اریگیشن میں بھیجا۔ یہ بات تو ہے بھائی جان۔ کیا ٹور(شان) ہوتی تھی ان افسروں کی۔ جب ابو ان کی دعوت کرتے تھے۔ میں تو چپ چاپ دیکھتا ہی رہ جاتا۔ بڑے بھیا جب ایکسئین ہوئے، یقین مانیے، بڑی جلن ہوئی مجھے۔ سب خوش تھے۔ یاد ہے آپ کو؟ پہلی مرتبہ ابو نے گاؤں میں مٹھائی بانٹی تھی۔ سارا دن گاؤں میں گزارا۔ جی جی، وہیں ڈیرے پر۔ دادا نے رانگلی منجی(بڑے پائے والی رنگ برنگی چار پائی) نکلوائی۔ دولہا ہی تو تھے ابو اس دن۔ میں کچھ بھی نہ کہ سکا، یاد ہے نا آپ کو، آپ کے دامن ہی سے تو لپٹا رہا تھا، باقی سب تو جیسے مجھے بھول ہی گئے تھے۔ سات گاؤں سے زمیندار آئے تھے مبارکاں دینے۔ شہر میں بھی بڑی دعوتیں ہوئی تھیں۔ باجی اور کاکی بھی خوش تھیں۔ ان کی بیاہ کی اونچی امید یں لگ گئی تھی نا۔ افسر کی بہن کو افسر نہیں بیاہےگا تو کیا کوئی مزارعہ ڈولی لے کر آئےگا۔۔۔ یہ ٹھناکا کیسا تھا۔ دیکھیے۔ جلدی دیکھیے۔ وہ تو نہیں گھس آیا۔ جایئے نا۔ باورچی خانے میں کون ہے۔ نہیں۔ آپ ادھر ہی بیٹھیے۔ نا جایئے۔ آپ کو بتاؤں۔۔۔ سب بہت جلنے لگے تھے مجھ سے جب شاملات کا کیس ملا۔ میں بھی فائیل ساتھ ہی لے آیا تھا۔ آدھی رات تک پڑھتا رہا۔ آنکھیں تھک گئیں۔ مجھے یاد ہے فائیل میں نے الماری میں رکھ دی تھی۔ اتنی قیمتی جو تھی۔ سٹیل کی الماری کے سب سے اندرونی خانے میں جہاں شمیم کے زیور رکھے رہتے ہیں نا۔ وہیں۔ اگلے دن میں دفتر چلا گیا۔ ہر آنے جانے والا اسی کی بات کر رہا تھا۔ اکثر ساتھی بہانے بہانے سے میرے دفتر آ جاتے۔ گردنیں ٹیڑھی کر کرکے، کن انکھیوں سے میری میز پر رکھے کاغذ کے پلندوں کو دیکھتے۔ بنا پٹ کی دیوار گیر الماریوں میں جھانکتے۔ مجھے بڑی ہنسی آ رہی تھی۔ اس روز سب کو یاد آ گیا کہ موسم بڑا اچھا ہو رہا ہے۔ میرے کمرے میں چل کے چائے پینی چاہیے۔ دفتر کی کھڑکی سے بڑا شاندار نظارہ ہوتا ہے۔ ان کو اچانک سیاسی صورتحال پر میری ماہرانہ رائے درکار ہونے لگی۔ ترقی کے داؤ پیچ سیکھنے کی ضرورت بھی اسی روز بہت بڑھ گئی تھی۔ بھائی جان۔ میں سب سمجھتا تھا۔ قہقہ بار ہنسی کو متانت آمیز مسکراہٹ میں چھپائے میں ان کو چائے پلاتا رہا۔ سموسے کھلاتا رہا اور آیندہ انتخابات کے لیے پیش گوئیاں کرتا رہا۔ لیکن وہ بات نہ کی جس کو سننے کی موہوم آس میں ساتھیوں نے مجھ سے اتنی باتیں کی تھیں جو سال بھر میں بھی نہ کی ہوں۔

    پراٹھا بنوا دیجیے۔ سات پرتوں والا۔ دیسی گھی کا۔ دادی کے بعد تو ویسا پراٹھا کبھی ملا ہی نہیں اور آ م کا اچار، واہ۔ کتنا عرصہ ہو گیا میں نے پراٹھا نہیں کھایا۔ یہ بھی اس خبیث کی وجہ سے۔ اس دن کے بعد سے میرے کولہے بھاری ہونے لگے ہیں۔ ٹانگیں چھوٹی۔ کمر کی ہڈی خم زدہ، نچلابدن کمر کا بوجھ ہی نہیں اٹھاتا تھا۔ جی چاہتا تھا سیدھا چلنے کی بجائے چاروں ہاتھ پاؤں کے بل چلنے لگوں۔ میں نے روٹی کم کر دی۔ اتوار کے اتوار جو فرمائشی پراٹھا کھاتا تھا نا وہ بھی چھوڑ دیا۔ بدن بھاری ہو جائے تو پرسنالیٹی ہی نہیں رہ جاتی۔ پہنا اتارا بھاتا ہی نہیں ہے۔ شمیم تو پہلے دن سے بڑا خیال رکھتی ہے اپنا۔ آج بھی اس کا بدن ویسا ہی ہے جیسا شادی کے وقت تھا اور کچھ عرصے میں تو وہ بیٹے کی ماں نہیں بہن لگنے لگےگی۔۔۔ روٹی بھی چھوڑ دی میں نے، سبزیاں، اور پانی بس۔۔۔ لیکن کولہے ہیں کہ بڑھتے جا رہے ہیں، ہاں چہرہ ضرور چھوٹا ہو گیا، پتلا لمبوترا۔ آنکھیں باہر کو نکل آیءں، گالوں کا گوشت غائب ہو گیا، یہ اسی دن سے شروع ہوا۔ جس دن شاملات کے کیس پر فاینل میٹنگ تھی۔۔۔ گرمی لگ رہی ہے۔ آپ کے گھر میں اے سی نہیں ہے نا۔ مجھے بھی پورے دو سال لگ گئے۔ ہر کمرہ ٹھنڈا کرنے میں۔ مسئلہ پیسوں کا نہیں تھا۔ نئے مکان میں سامان دھرے ایک ہفتہ بھی نہیں ہوا تھا جب نوید وسیم، ڈپٹی ڈائیریکٹراینٹی کرپشن کا فون آ گیا۔ ادھر ادھر کچھ فون کرنے کے بعد ایک دو روز میں مجھے علم ہو گیا کہ نوید وسیم میرے دفتر کے ٹھیکیدار منیر کا بہنوئی ہے۔ میں نے دونوں کو فیملی سمیت کھانے پہ مدعو کر لیا۔ نوید کی پسند کا چائینز، منیرکے لیے کانٹی نینٹل اور بچوں کا من بھایا پزا، برگر۔ آپ تو جانتے ہیں، آج کے بچے روایتی کھانے کب کھاتے ہیں۔ کھانے کے بعد چائے کی پیالیوں پہ میری بیوی نے لاؤنج میں بیٹھی خواتین کو بتایا کہ کس طرح اس نے اپنی آبائی جائیداد اور سارا زیور بیچ کر یہ مکان خریدنے میں میری مدد کی حالانکہ اس کے بھائی اس بات پر تب سے ناراض ہیں اور یہ بھی کہ ہم نے برادری میں کتنے ادھار دینے ہیں اور میرے ماموں کے لڑکے نے کس طرح اپنی سیمنٹ ایجنسی سے مجھے آدھی قیمت پر سیمنٹ لے کے دیا ہے۔ آج کے دور میں حق حلال کی کمائی سے گھر بنا لینا، آسان کہاں ہے۔ اس کی تان اسی جملے پہ ٹوٹی تھی اور ڈرائنگ روم میں بیٹھے، ان خواتین کو شمیم کی آہ پہ متسفانہ سر ہلاتے دیکھ کر کس قدر سرشاری محسوس ہوئی تھی، پر بھائی جان، وہ سالا نوید وسیم، وہ بیٹھا کھاتا پیتا رہا اور میرے گھر کے سوئچ گنتا رہا۔ جانے سے پہلے کہنے لگاکہ میرے گھر میں اے سی وائرنگ کے گیارہ سوئچ لگے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ میں گیارہ اے سی لگاؤں گا، جبکہ میری تنخواہ سے تو ایک آدھ بھی نہیں آ سکتا۔

    غصہ تو مجھے بہت آیا لیکن کیا کرتا بھائی جان۔ شکر ہے بر وقت بات سوجھ گئی۔ میں نے اسے بتایا کہ میری بیوی کو جہیز میں جو اے سی ملا تھا، ہم صرف اسی سے گزارا کرتے ہیں۔ اب جو کمیٹی ڈالی ہوئی ہے۔ وہ نکلے گی تو ایک آدھ اور لے لیں گے۔ حرامی چپ کر کے سنتا رہا۔ جی تو چاہا میرا، پوچھوں کہ تیری تنخواہ سے کتنے اے سی آ سکتے ہیں، بس بھائی جان۔ بڑا انتظار کر نا پڑا مجھے۔ حساب لگانے پڑے۔ کیا کریں۔ آپ تو مزے میں ہیں۔ نہ کسی پوچھ گچھ کا ڈر، نہ نظر لگ جانے کا ہوکا۔۔۔ اس رات اس نے ، شاید پہلی مرتبہ مجھے اپنا آپ دکھایا۔ نہیں۔ سنایا۔ اماں ٹھیک کہا کرتی تھیں۔ مجھے بھی اب محسوس ہوتا ہے کہ نظر لگ گئی۔ کسی نہ کسی حاسد کی نظر لگ ہی گئی۔ یہ نظر بڑی ظالم شے ہوتی ہے۔ پتھر کو پانی کر دیتی ہے۔ اس دن منیر بھی بڑا گھور گھور کر دیکھ رہا تھا۔ غسل خانے کی ٹایئلیں تک چیک کیں اس نے۔ کہنے لگا کہ میں بھی ایسی ٹائیلیں لگواؤں گا۔ دکان کا پوچھا جہاں سے خریدی تھیں۔ کتے کا بچہ۔ اس رات۔۔۔ اس رات نا۔۔۔ ہم سب اکٹھے سو رہے تھے۔ ایک ہی کمرے میں۔ میں اورشمیم بیڈ پر، ہمارے درمیان احمد اور ثنا نیچے فرش پر گدا بچھا کے۔ میری آنکھ کھل گئی۔ آپ کو تو پتا ہے۔ کبھی کبھی ہوتا ہے میرے ساتھ ایسا۔ بچپن سے ہوتا آیا ہے۔ ایسے ہی، نیند ر ڑکتی ہے آنکھوں میں لیکن میں سو نہیں پاتا۔ امتحانات سے پہلے تو اکثر ایسا ہوا کرتا تھا۔ ارے۔ یہ ٹپ ٹپ۔ بھائی جان۔ اس کو بند کرا دیجیے۔ دماغ پھٹنے لگا ہے میرا۔ اس رات مجھے لگ رہا تھا کہ جیسے صبح میرا امتحان ہے اور مجھے ایک لفظ بھی نہیں آتا، دل عجیب انداز میں دھڑک رہا تھا، گھبراہٹ ہو رہی تھی، جیسے یہ بھی یاد نہ ہو کہ پرچہ کون سا ہے، یاد ہے جب ایک دفعہ میں کیمسٹری کے پرچے کی تیاری کر کے گیا تھا اور سکول جا کے پتا چلا کہ آج تو حساب کا امتحان ہوگا، کیسے بےہوش ہو گیا تھا میں اور پھر آیندہ دنوں میں کیسے ہر وقت دیکھتا رہتا تھا کہ کس چیز کا امتحان ہے، مجھے بس یہی ڈر لگا رہتا تھا کہ میں غلط پرچے کی تیاری نہ کر لوں اور ان راتوں کو کیسے عجیب عجیب خواب دیکھتا تھا میں، کہ نہا کے، تیار شیار ہو کے باہر نکلا ہوں اور منزل پہ پہنچ کر پتا چلا ہے کہ جوتا ہی نہیں پہنا۔ ننگے پیر ہی سارا سفر طے ہو گیا۔۔۔ ہاہ، کیسی الجھن ہوا کرتی تھی آنکھ کھلنے پر۔ اس روز بھی ایسا ہی کچھ تھا، جب وہ آواز شروع ہوئی۔ کھرچ کھرچ، اسی کی آواز، لیکن تب مجھے کیا پتا تھا کہ یہ اس کی آواز ہے۔ میں نے سمجھا کہ ہوگا کچھ، کہیں گھن لگ گیا ہوگا، پھر آواز بند ہوئی، میں نے سکون کا سانس لیا، پھر شروع، مدھم مگر چبھتی ہوئی ، یکساں اور مسلسل، اف۔۔۔ یہ نل تو بند کرایے۔

    مجھ سے گرد برداشت نہیں ہوتی، نہ ایسی آوازیں، امی کیسا صاف رکھا کرتی تھیں نا گھر، ہر چیز چمکتی ہوئی۔ کسی کے گھر، ذرا سی بے ترتیبی ہوتی تو وہاں جانا ہی چھوڑ دیتیں۔ فرنیچر خوب صاف، پالش شدہ چمکتا ہوا، ذرا کہیں ٹوٹ پھوٹ ہوتی تو ابا کے پیچھے پڑ جاتیں، جب تک بدلوا نہ لیتیں، چین نہ آتا۔ کتنا کماتے تھے ابا، پر ہاتھ تنگ ہی رہتا تھا، یاد ہے نا، کہا کرتے تھے، ہاتھی والوں سے تعلق رکھنا ہے تو دروازے تو اونچے رکھنے پڑیں گے نا۔ بڑی امیدیں تھیں ان کو، مجھ سے اور بڑے بھیا سے، کہتے تھے، تم لوگ میری انویسٹمنٹ ہو، آہ، ہاں، وہ اس دن کیا ہوا تھا۔ شاملات کے کیس کی فائل میری الماری سے غائب ہو گئی۔ کیسے کھو گئی۔ دل میرا دھڑکنے لگا۔ میں نے سارے کاغذ نکالے۔ گھر کی رجسٹری، گاڑی کی رجسٹریشن۔ نکاح نامہ، بچوں کے ب فارم۔ چیک بک۔ لاکر کی چابی، شمیم کے زیور۔۔۔ کہیں نہیں تھی فائل۔ میں گھبرا گیا۔ فائل نہ ملی تو؟۔ میں نے سارے کپڑے باہر پھینک دیے۔ دوسری الماری، بچوں کا کمرہ، مہمان خانہ، سب نوکروں کو اکٹھا کر لیا۔ ڈرائیور، باورچی، ماسی، مالی، چوکیدار، کوئی ماننے کو تیار ہی نہیں تھا کہ اس نے فائیل دیکھی ہے۔ ڈرائیور کو بھیجا کہ بچوں سے پوچھ کر آئے، کچھ نہ بنا، کسی کو کوئی خبر نہیں۔ پتا ہے بھائی جان، میں پاگل ہو رہا تھا، باورچی خانے سے چھری لے کر کھڑا ہو گیا۔ فائیل کیوں نہ ملے۔ اسی گھر میں تھی، کہاں گئی۔ دفتر میں بھنک بھی پڑ گئی تو میری نوکری گئی، محکمہ جاتی کارروائیاں، معمولی بات تو نہیں تھی نا۔ اتنی لاپرواہی۔ پر مجھے یاد تھا، اچھی طرح یاد تھا، وہ میں نے الماری کے اندرونی خانے میں رکھی تھی۔ شمیم تو لڑنے لگی مجھ سے۔ کہتی تھی، کہیں اور بھول آیا ہوں، میں سچ کہ رہا تھا، کوئی ماننے کو تیار نہیں ہو رہا تھا۔ نوکری بچ بھی جاتی تو یہ کیس ہاتھ سے نکل ہی جاتا۔ اتنا بڑا نقصان۔ میں نے تو چار پارٹیوں سے بات بھی کر لی تھی۔ ایڈوانس بھی پکڑ لیا تھا۔ کیا کرتا میں۔ ۔ پھر وہ فائل مل گئی۔ لان کے کنارے بنے غسل خانے کی سیٹ میں سے۔ ہائے، شمیم کہتی تھی کہ میں نے کہیں ادھر ادھر پھینک دی ہو گی فائل۔ کسی بچے نے اپنے کھیل کا شوق پورا کر لیا، یا ردی سمجھ کے کام والی نے۔۔۔ لیکن مجھے علم تھا، یہ اسی کا کام ہے۔ فایل کے کنارے کترے ہوئے تھے، کاغذوں پہ پیلے دھبے تھے اور جگہ جگہ گندگی۔ ایک بھی جملہ پڑھنے کے قابل نہیں رہ گیا تھا۔ آہ، بھائی جان، اس روز میں واقعی اوندھا ہو گیا۔ غصے سے میرے جسم کا ایک ایک انگ کانپ رہا تھا۔ اتنا غصہ تو مجھے کبھی نہیں آیا تھا۔ میں لاؤنج میں آکر بیٹھ گیا۔ سارے نوکر مجھے نیچی نظروں سے دیکھتے ہوئے ادھر ادھر کھسک لیے۔ شمیم کے جم کا وقت ہو رہا تھا، وہ بیگ جھلاتی ڈرائیور کو لے کر نکل گئی۔ گھر میں خاموشی چھا گئی۔

    تب جب میں سر تھامے صوفے پہ بیٹھا تھا، وہ میرے پیروں کے پاس سے گزرا۔ جان بوجھ کر۔ مجھے چڑا رہا تھا۔ اکسا رہا تھا۔ اس دن میری پھرکی گھوم گئی۔ بس آج یا وہ نہیں یا میں نہیں۔ میں دھیرے سے اٹھا۔ احمد کی ہاکی ا سٹک صوفے کے نیچے پڑی تھی، میں نے خاموشی سے نکالی۔ صوفے سے ٹیک لگا کے میں نے ہاکی اپنی گود میں رکھ لی اور ٹی وی لگا لیا۔ باون انچ کا ایل ای ڈی پلازما۔ آپ کو کیا پتا کتنا مزہ آتا ہے اس پر فلم دیکھنے کا اور میچ تو یوں لگتا ہے کہ جیسے سیدھا سٹیڈیم میں بیٹھے ہوں، سامنے کی پوری دیوار میں نے بڑے شوق سے ڈیزائن کرائی تھی، مجھے خود بھی اچھا لگتا ہے ہوم تھیئٹر اور آج کل فیشن بھی تو ہے نا، لیکن اس دن تو مجھے ٹی وی نظر ہی نہیں آ رہا تھا۔ میرا سارا دھیان تو اسی کی جانب تھا۔ مجھے معلوم تھا کہ وہ مجھے غافل سمجھ کر پھر ایک لحظے کو سامنے آئےگا، پھر چڑائےگا، لیکن میں بھی تیار تھا۔ بس بھائی جان، وہ بھی شاید بھانپ گیا تھا، ایسے ہی کہانیاں بنی ہیں کہ یہ مخلوق احمق ہے، ڈرپوک ہے۔ نہیں مانتا میں، عیار ہے وہ۔ موقع پرست۔ چھپ کے بیٹھا رہتا ہے کسی آڑ میں، غفلت کا لمحہ تلاش کرتا رہتا ہے۔ اس دن بھی یہی ہوا، میں پھر ہار گیا، کیا تھرکتی جوانی تھی ٹی وی پر۔ گولائیاں، اونچائیاں، گہرائیاں۔۔۔ میں تو کھو ہی گیا، تبھی وہ پھر نکلا۔ میرے قدموں میں آ کر رک گیا، میں نے بےاختیاری میں پاؤں نیچے کیے تو اس کے بدن سے مس ہو گئے۔ ایہہ ۔۔۔ میں چیخا، وہ بھاگا، میں نے اسٹک سنبھالی اور صوفہ الٹ دیا۔ وہ صوفے کے نیچے نہیں تھا۔ میں نے پلازما پہ ا سٹک کھینچ کے ماری۔ سکرین کرچی کرچی ہو گئی۔ وہ اس کے پیچھے بھی نہیں تھا۔ مجھے شک ہوا۔ میز کے نیچے نہ ہو۔ جانا کہاں تھا اس نے۔ ابھی تو یہیں تھا، اسی کمرے میں۔ میں نے میز بھی الٹا دی۔ مجھے یاد ہی نہیں رہا کہ میز پر کرسٹل کا وہ گلدان ہے جو میں اور شمیم بلجیم سے لائے تھے۔ ہمارے ہنی مون کی یادگار۔۔۔ جوں جوں چیزیں ٹوٹ رہی تھیں میری وحشت بڑھ رہی تھی۔ اتنا نقصان کرا دیا اس نے۔ اب تو بدلہ لے کے ہی چھوڑوں گا۔ بھائی جان میں نے ریک میں سے بھی ساری چیزیں گرا دیں۔ دیواروں پہ سجی تصویریں بھی اتار کر ڈھیر کر دیں۔ کمرے میں کچھ بھی سلامت نہ رہا۔ نوکر بےچارے شور سن کر بھاگے آئے، مگر کس میں ہمت تھی کہ مجھے روکتا۔ میں بکھرے کمرے میں اکیلا کھڑا تھا۔ میرا بدن کانپ رہا تھا اور دل جیسے نیچے ہی نیچے کہیں بیٹھتا جا رہا ہو، جیسے بچپن میں آسمانی جھولے سے اترنے کے بعد محسوس ہوتا ہے۔۔۔ اور پھر وہ ٹوٹی چیزوں کے ڈھیر سے نکلا، آہستہ آہستہ، مست خرام، سیدھا میری طرف دیکھتا ہوا، وہ ڈھیر پہ چڑھ گیا، پھر وہ گھوما، میں بھی گھوما، پرلی طرف کے ریک پر چڑھ گیا، میں بھی بے خود اسی جانب بڑھ گیا۔ وہ میری آنکھوں کی سیدھ میں تھا۔ چھوٹی چھوٹی، سیاہ حلقوں میں لال آنکھیں، جیسے کوئلے دہک رہے ہوں۔ میں اس کو اور وہ مجھے دیکھتا رہا، میرے ہاتھوں سے ا سٹک گر گئی، ٹانگوں میں جان ہی نہیں رہی، میں گھٹنوں کے بل گر پڑا۔ بھائی جان، وہ۔۔۔ اس نے منہ کھولا،۔۔۔ اف ۔۔۔ مجھے کہف کی یاد آئی۔ مولوی صاحب پڑھایا کرتے تھے نا کہ کہف والے کیسے ایک غار کے منہ میں کتنے سو برس سوتے رہے تھے۔ مجھے لگا ، میں بھی انہی میں سے ہوں اور یہ میرا غار ہے۔ اس نے مجھے نگل لیا۔۔۔ مجھے نیند آنے لگی۔ گہری نیند۔۔۔ بس بھائی جان پھر مجھے کوئی ہوش نہیں تھا۔ شمیم مجھ سے بہت خفا ہو گئی ہے۔ کہتی ہے کہ میں نشہ کرنے لگا ہوں۔ میں پاگل ہو گیا ہوں۔ اسے کیا پتہ بھائی جان۔ وہ مجھے نگل گیا تھا۔۔۔ یا شاید میں اسے نگل گیا ہوں۔

    بھائی جان، بھابھی جی سے کہیے چاول پکا دیں، نمک والے، باسمتی چاول، آہ پوٹہ پوٹہ لمبے خوشبودار، لیکن ان میں نمک کے سوا کچھ نہ ڈالیں۔ کوئی مصالحہ نہیں۔۔۔ وہ یوں بھی مجھے تنگ کرتا ہے۔ پتا کیا ، ایک دن دفتر سے لوٹ کر میں کھانا کھانے بیٹھا، سلاد والی پلیٹ میں کچھ تھا، کالا، بیضوی سا۔ میں نے سمجھا شمیم نے کچھ نیا ڈلوایا ہوگا۔ کوئی میوہ شاید۔ چمچ بھر کر منہ میں لے جانے والا تھا کہ میری گردن میں سنسناہٹ ہونے لگی۔ مجھے ایک نامانوس سی بدبو محسوس ہوئی۔ اس واقعے کے بعد سے طرح طرح کی بوئیں میرے نتھنوں پہ حملہ کر دیتی ہیں۔ میں ہر بو پہچاننے لگا ہوں۔ منیر ٹھیکیدار کی لالچی بو۔ ڈی جی صاحب کی استحصالی بو۔ شمیم کی لاپروا بو۔ بڑے بھیا کی حاکمانہ بو۔۔۔ تو بھائی جان۔ یہ بو سب سے مختلف تھی۔ مکاری کی بو تھی اور کچھ رعب کی، کہیں کہیں سے خوف کی لہر بھی آتی تھی۔ مجھے شک ہوا۔ میں نے چمچ پلیٹ میں رکھ دیا اور اس کالی کالی شے کو انگوٹھے اور انگلی کی مدد سے اٹھایا۔ بو تیز ہو گئی۔ اسے مسلا، بو سے میرا دماغ اڑنے لگا۔ اف۔۔۔ یہ تو اس کی نشانی تھی۔ اس کا فضلہ۔ میں چیخا، مجھے ابکائی آئی۔۔۔ اوغ اوغ۔ آہ۔ معاف کیجیےگا۔ آپ کا فرش گندا کر دیا۔ ہاں تھوڑا پانی۔ باورچی کو اسی دن فارغ کر دیا میں نے۔ تب سے چار باورچی بدل لیے ہیں۔ پر وہ۔۔۔ اس کی نشانی کہیں نا کہیں موجود رہتی ہے۔ چائے کی پیالی میں، روٹی کی پلیٹ میں، میز کے کنارے پر، غسل خانے میں، الماری کی درازوں میں۔ آہ۔ گاڑی میں، دفتر کی میز پر، میری کرسی میں، ڈی ڈی کی طرف سے آنے والے کاغذوں میں۔ ہائے۔۔۔ میرا سر گھوم رہا ہے، یہ آپ سب کیوں اکٹھے ہو گئے۔ آپ کی شکلیں بدل رہی ہیں، ہاہ۔ یہ کیا ہے، آپ گرہیں کیوں باندھ رہے ہیں۔ مجھے جانے دیجیے۔ وہ آ گیا، وہ گھوم رہا ہے۔ یہ سب کون ہیں۔۔۔ آپ کے دانت۔۔۔ ناخن، لمبے نکیلے۔ آہ۔۔۔ کچھ گرنے کا چھناکا ہوا۔۔۔ یہ کیسی اٹ پٹی سی خاموشی ہے جو سارے میں پھیل گئی ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے