Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

شادی کی رات

محشر عابدی

شادی کی رات

محشر عابدی

MORE BYمحشر عابدی

    (۱)

    وہ رو رہی تھی، اس کا دل رو رہا تھا۔ اس کی آنکھیں اشک آلود تھیں اور اس کی ساری دنیائے مستقبل، معلوم ہو رہا تھا کہ مصروفِ گریہ ہے۔ وہ دلہن بنی ہوئی تھی لیکن غمگین تھی۔ وہ لباس عروسی میں ملبوس تھی لیکن اس پوشاک سے اسے الجھن ہو رہی تھی۔ اس کے تنِ سیمیں پر نازک اور خوبصورت زیورات برقی لیمپ کی شعاعوں میں جگمگارہے تھے لیکن وہ ان زیورات کو بوجھل زنجیریں سمجھ رہی تھی۔

    کمرہ ہر قسم کے سازوسامان سے آراستہ تھا۔ ہر سمت سے خوشبوؤں کی بارش سی ہو رہی تھی۔ ایک طرف ایک خوشنما مسہری پر گدے اور تکیے رکھے ہوئے تھے، پھول بچھے ہوئے تھے لیکن یہ سب کچھ اسے مصیبت کا سامان نظرآرہا تھا اور یہ خلوت کدہ اس کی نظروں میں، معصوم اور متجلّی آنکھوں میں ایک زندان، ایک قیدخانہ، ایک محبس اور ایک قفس معلوم ہو رہا تھا۔ وہ ہر طرف وحشت آگیں ادا سے تک رہی تھی، وہ ہر چیز کو مبہوت اور خوف زدہ انداز سے دیکھ رہی تھی۔ وہ ایک قدم اٹھاتی اور پھر کسی دہشت ناک خیال سے ٹھٹک جاتی، وہ کسی شئے کو ایک خود فراموشانہ انداز سے چھوتی اور پھر گھبراکر ہاتھ ہٹالیتی، جیسے ایک شخص، جو بلاسوچے سمجھے کسی سانپ یا بچھو کے مسکن پر ہاتھ رکھ دیتا ہے اور جب اسے بتایا جاتا ہے کہ یہاں سانپ یا بچھو ہے تو وہ خود زدہ ہوکر اپنا ہاتھ ہٹالیتا ہے۔ اور اس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگتا۔ ایک آنے والے ہیبت ناک مستقبل کے خیال سے وہ لرزنے لگتی۔ اور اس کا دل بے قرار ہونے لگتا۔

    گھڑی نے ٹن۔ ٹن۔ ٹن۔ ٹن۔ ٹن۔ ٹن۔ ٹن۔ ٹن۔ ٹن۔ ٹن۔ ٹن۔ ٹن۔ بجائے۔ وہ چونک کر گھڑی کی طرف دیکھنے لگی۔ اس کا نازک دل گھڑی کی ٹن۔ ٹن۔ کے ساتھ زیادہ تیزی سے ارتعاش کرنے لگا۔ وہ پھر آہستہ آہستہ ایک کرسی کی طرف بڑھی اور اس پر بیٹھ گئی اور نگاہیں دروازہ پر لگادیں۔ رہ رہ کر اس کے دل و دماغ میں آزردہ کن خیالات پیدا ہوتے۔ وہ گھبراجاتی اور اس کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑتے۔ دروازے کے قریب کسی کے پاؤں کی آہٹ سنائی دی۔ وہ کھڑی ہوگئی۔ ایک طرف دبک کر۔ ساکت، سرنگوں، مبہوت اور آنے والے کاانتہائی خوف زدہ انداز سے انتظار کرنے لگی۔

    دروازہ کھلا۔ ایک شکیل، متناسب الاعضا، جوان اور خوبصورت شحص جس کی عمر تقریباً چوبیس برس کی تھی، اندر داخل ہوا۔ وہ دولہا بنا ہوا تھا۔ اس کی گردن میں پھولوں کے ہار اور بدھیاں پڑی ہوئی تھیں۔ اس کے سفید عمامہ میں سہرا بندھا ہوا تھا۔ اس کے چہرے پر مسرت کھیل رہی تھی۔ وہ کسی قدر مسکرارہا تھا اور کسی قدر شرمارہا تھا۔ شرماتا اور مسکراتا ہوا وہ آہستہ آہستہ اپنی عروسِ معصوم و جمیل کی طرف بڑھا اور اپنا ہاتھ نہایت محبت سے اس کے شانے پر رکھ دیا۔ سلمیٰ اور سہم گئی۔ دبک گئی اور دوسری طرف ہٹ گئی۔

    خالد نے وقت کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے نرمی سے کام لیا۔ کچھ دیر ساکت رہا، پھر خوشامدانہ انداز سے اس کی طرف بڑھا اور دوسرا ہاتھ اس کے شانے پر رکھ دیا۔ سلمیٰ یکایک لرز گئی اور اس کارواں رواں کانپنے لگا اور اس کے ارتعاش قلب میں کئی گونہ اضافہ ہوگیا۔ خالد نے ایک ہاتھ سے اس کے زنخداں کو پکڑ کر اس کے چہرے کو دیکھنا چاہا لیکن وہ جھٹکادے کر الگ ہوگئی۔ خالد نے کچھ دیر تامل کے بعد تیسری بار، اس کے سراپا کو محبت، مسرت اور ارمان بھرے ہوئے دل اور آنکھوں سے تکتے رہنے کے بعد اس کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیے۔ پھر ایک ہاتھ سے گھونگھٹ کو الٹ دیا اور سلمیٰ کے حسین لیکن پژمردہ چہرے پر نظر ڈالی۔

    وہ یہ دیکھ کر متحیر ہوگیا کہ اس کی آنکھوں میں آنسو ڈبڈبارہے ہیں۔ یہ ایک ’معمّہ‘ تھا۔ خالد کی سمجھ سے بعید اور عقل کی دسترس سے باہر۔ وہ حیران تھا کہ آخر یہ معاملہ کیا ہے؟ تبسم کی بجائے اشکباری، مسرت کی بجائے غم۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہ آتا تھا۔ بمشکل تمام اس نے اپنی حیرت کو مغلوب کرتے ہوئے پوچھا، ’’سلمیٰ تم رورہی ہو؟ آخر یہ معاملہ کیا ہے؟‘‘ سلمیٰ نے کوئی جواب نہ دیا۔ نہ سراٹھایا۔ وہ نہایت خاموشی اور بے چینی سے فرش پر دیکھتی رہی۔ خالد نے مکرر سوال کیا، ’’سلمیٰ آخر یہ تم رو کیوں رہی ہو؟ سچ سچ کہو کیا تکلیف ہے یہ شادی کی رات کو ماتم کیسا؟‘‘

    سلمیٰ نے اس کا بھی کوئی جواب نہ دیا۔ اب خالد کے اضطراب میں اضافہ ہوگیا تھا۔ اس سے ساکت نہ رہا گیا۔ اس نے سلمیٰ کے دونوں ہاتھ پکڑ لیے اور ان کو پیار سے ہلاتے ہوئے پوچھا، ’’میری اچھی سلمیٰ خدا کے لیے صاف صاف کہو اس رونے کا کیا سبب ہے؟ کیا تم اس اتحاد سے خوش نہیں ہو؟ اگر اس کے علاوہ کوئی تکلیف ہو تو بولو۔ میں حتی الامکان اسے رفع کرنے کی کوشش کروں گا۔‘‘

    سلمیٰ اب تک خاموشی سے واقعات پر غور کر رہی تھی۔ اس نے خالد کو اس قدر مہربان پایا تو ساکت نہ رہ سکی اور بولی، ’’خدا کے لیے آج رات آپ مجھے تنہا رہنے دیجیے۔ میں آپ کی اس عنایت کی بے حد ممنون ہوں گی۔‘‘ خالد نے تعجب سے کہا، ’’تنہا رہنے دوں؟ کیوں سلمیٰ۔ آخر تم مجھ سے اس قدر بیزار کیوں ہو؟ یہ نفرت کیوں ہے؟‘‘ سلمیٰ نے دھیمی آواز میں جواب دیا، ’’نہیں۔ میں نہ بیزار ہوں، نہ نافر، بس مجھے آج رات تنہا رہنے دیجیے۔‘‘ خالد نے پھر کوئی سوال نہ کیا۔ وہ کچھ دیر تک ساکت رہا۔ پھر اس کے ہاتھ کا بوسہ لیا۔ اور ’خداحافظ‘ کہہ کر کمرے سے نکل گیا۔

    (۲)

    جہاں آرا اپنی بہن عالم آرا سے ملنے جاتی تو سلمیٰ بھی اس کے ساتھ جاتی۔ اختر کے یہاں دل کے لیے بہت سے سامان موجود ہوتے تھے، خاندان کی لڑکیاں اور لڑکے اس کے ساتھ کھیل وغیرہ میں شریک رہتے تھے، جن میں اس کا خالہ زاد بھائی اختر بھی تھا۔ اختر کو ابتدا ہی سے بندوق، توپ، فوج اور سپاہی وغیرہ کا شوق تھا اور وہ اپنے کھیلوں میں بھی ان ہی چیزوں کی نقل کرتا تھا۔ اس میں سب لڑکے اور لڑکیاں شریک ہوتی تھیں۔ سلمیٰ کسی فرضی ملک کی شہزادی بنائی جاتی اور اختر خود کسی دوسرے مقام کا شہزادہ بنتا۔ دونوں میں جنگ ہوتی، سلمیٰ کو شکست ہوتی تو اختر اسے اپنی ملکہ بناکر اپنے ملک کو لے جاتا۔ یہ سلمی اور اختر کے عہد طفولیت کا دورِ اولین تھا۔

    (۳)

    زمانہ گردش کرتا رہا۔ زمانہ کے ساتھ دن اور رات گردش کرتے رہے اور دن رات کی گردشوں نے اختر و سلمیٰ کی فطرتوں میں بھی تغیرات پیدا کردیے۔ وہ اسکول میں پڑھنے جانے لگا۔ وہ بھی گھر میں تعلیم پانے لگی اور اب وہ دونوں اس قدر سیانے ہوگئے تھے کہ نیک و بد میں تمیز کرسکیں، اور اب اگر سلمیٰ اختر کے گھر جاتی تو وہ دونوں پہلے کی طرح مل کر نہ کھیل سکتے تھے۔ بلکہ الگ الگ رہتے تھے۔ یوں ان کو ایک دوسرے سے ملنے کی اجازت تھی۔

    (۴)

    اختر اسکول سے فارغ ہوکر فوج میں داخل ہوگیا، کیوں کہ وہ ایک خوبصورت اور متناسب الاعضا جوان تھا اور فوج سے کافی وابستگی رکھتا تھا۔ سلمیٰ بھی تعلیم ختم کرکے مدرسہ میں تعلیم پانے لگی۔ اختر فوجی تعلیم ختم کرکے ملازم ہوگیا اور سلمیٰ بھی مدرسہ کی تعلیم ختم کرکے زنانہ کالج میں شریک ہوگئی۔

    اب یہ وہ دور تھا جب اختر نئے رنگ اور روپ بدل رہا تھا اور سلمیٰ کا بھی وہ زمانہ تھا جب ایک لڑکی میں شباب کی رعنائیاں اپنی تمام تمکنت زا اداؤں اور مسحور کن انداز کے ساتھ جذب ہونے لگتی ہیں اور وہ چمنستان حسن کا ایک غنچۂ نوشگفتہ نظر آنے لگتی ہے۔ ایک ایسا غنچہ جسے ہر دیکھنے والا دیکھ کر بے ساختہ اس کا طلب گار ہوجاتا ہے اور اسے توڑنے کی کوشش کرتا ہے۔ گو وہ یہ نہیں سمجھتا کہ توڑلینے کے بعد اس کا حسن زائل ہوجائے گا۔

    اب اگر سلمیٰ اختر کے گھر جاتی تو وہ اس سے آزادانہ مل جل بھی نہ سکتی تھی۔ دونوں قریب قریب بیٹھتے، ہنستے اور بولتے لیکن بچپن کی طرح بے تکلف نہ ہوسکتے تھے۔ کیوں کہ ایک طرف اگر سلمیٰ کی نگاہوں میں حیا جلوہ فگن ہوتی تو دوسری طرف اختر بھی شرمیلا نظر آتا اور اس طرح دونوں ایک دوسرے کو صرف دیکھنے ہی پر اکتفا کرتے۔

    (۵)

    اختر جس فوجی دستہ میں تھا اسے سرحد پر جانے کا حکم ہوگیا، کیونکہ باغیوں نے بڑا طوفان برپا کر رکھا تھا اور ان کی سرزنش کی ضرورت تھی۔ جب اختر کے عزیزوں اور دوستوں کو معلوم ہوا تو سب اسے رخصت کرنے گئے۔ سلمٰی بھی اپنی والدہ کے ساتھ گئی مگر اب اسے اختر سے ایک لمحہ بھی گفتگو کرنے کا موقع نہ تھا۔ بمشکل تمام وہ لمحۂ تنہائی بھی آگیا جب سلمیٰ نے امام ضامن باندھتے ہوئے کہا، ’’بھائی، آپ وہاں جاکر مجھے بھول نہ جائیے گا۔ خط برابر لکھتے رہیے گا، کیوں کہ آپ نئے نئے مقامات کی سیر کریں گے تو وہاں کے حالات پڑھ کر مجھے مسرت ہوگی۔‘‘ اختر نے جواب دیا، ’’نہیں، میں تم کو نہیں بھولوں گا۔ میری سلمیٰ میں تم کو خط ضرور لکھوں گا۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے جیب سے ایک تصویر نکالی اور سلمیٰ کو دیتے ہوئے کہا، ’’لو یہ میری تصویر تمھیں میری یاد دلاتی رہے گی۔‘‘

    ’’لائیے۔ اسے تو میں اپنے کمرے میں رکھوں گی۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے تصویر لے لی اور ایک پان کی گلوری اختر کو دیتے ہوئے بولی، ’’بھائی چلتے وقت یہ میرے ہاتھ کا پان تو کھالیجیے۔‘‘ اختر نے پان لے لیا اور سلمیٰ کو دیکھا۔ سلمیٰ نے اختر سے آنکھیں ملائیں جن میں ایک الوداعی غم کا غبار تیر رہا تھا۔ اختر نے اس کااحساس کیا اور جذبات محبت کے بے پناہ احساسات لیے ہوئے سلمیٰ سے رخصت ہوا۔

    (۶)

    سلمیٰ گھر آئی تو اسے ایک جدید اضطرابِ قلب سے دوچار ہونا پڑا۔ ایک ایسا اضطراب جس کی وہ کوئی توجیہ نہ کرسکتی، وہ یہ سوچتی تھی کہ آخر اختر کیوں اسے اس قدر یاد آرہا ہے۔ اس کی جدائی سے کیوں اسے ایک بے چینی کا احساس ہونے لگا ہے۔ اس سے قبل تو کبھی اس نے اس کی جدائی کا خیال نہ کیا تھا، نہ اس کے حیات کو صدمہ پہنچا تھا۔ پھر اب یہ غیرمعمولی کیفیت کیوں کر پیدا ہوگئی۔ وہ انھیں اور ایسے ہی خیالات میں اکثر مستغرق رہنے لگی۔

    اس اثناء میں اختر نے متعدد خطوط بھیجے تھے جن میں اس نے کوہستان کے پُر کیف مناظر، وادیوں کے فرحت زا نظاروں، برفستان کی تحیرناک چوٹیوں اور کوہستانی باشندوں کے طرز رہایش وغیرہ کے واقعات تفصیلی طور پر تحریر کیے تھے جن کو پڑھ کر سلمیٰ بہت مسرور ہوجاتی تھی۔ اس نے جنگی خوف و دہشت، درد و کرب، چیخ و پکار، نالہ و فغاں کا بھی تذکرہ کیا تھا، جن کے مطالعہ سے سلمیٰ مبہوت اور خوف زدہ ہوجاتی تھی اور اختر کی طرف سے اس کے دل و دماغ میں تشویشناک خیالات پیدا ہوجاتے تھے۔ جنگ کے خوفناک مناظر اس قدر مؤثر ثابت ہوئے کہ وہ خوابوں میں اکثر سوتے سوتے چونک پڑتی تھی۔

    سلمیٰ جواب دینے میں بڑی دلچسپی کا اظہار کرتی اور ان میں وہ اپنی تمام کیفیات اور جذبات کو بیان کرتی جو اس کے دل میں اس کے خطوط پڑھ کر پیدا ہوتے تھے۔ ایک مدت اس کی اسی خطوط نگاری کی پرکیف مصروفیتوں میں گزر گئی۔

    (۷)

    سلمیٰ کی شادی کی تیاریاں ہونے لگیں۔ سلمیٰ ان تیاریوں کو دیکھ دیکھ کر ڈرنے لگی۔ وہ سوچتی تھی کہ آخر میں کیوں ڈرتی ہوں؟ شادی سب لڑکیوں کی ہوتی ہے۔ پھر کوئی اس سے خوف زدہ تو نہیں ہوتا۔ مجھ پر کیوں ہیبت طاری ہوتی جاتی ہے۔

    سلمیٰ شاید اس لیے ڈر رہی تھی کہ اسے اس امر کا علم نہ تھا کہ اس کی زندگی کس کے دامن سے وابستہ کی جانے والی ہے اور شاید یہی اس کے خوف کا باعث تھا۔ اس کے والدین نے اختر کو شاید اس لیے ناپسند کیا تھا کہ وہ ایک فوجی سے اپنی بیٹی کی شادی کرنا پسند نہ کرتے تھے اور اسی لیے عالم آرا کے متعدد بار کہنے کے باوجود والدین نے خالد کو پسند کیا جو ایک شریف الخاندان ہونہار، تعلیم یافتہ گریجویٹ اور سرکاری ملازم تھا۔ اس کے علاوہ ملک کا ایک مشہور ادیب اور شاعر تھا۔ اس کی شاعری اور مضمون نگاری کے چرچے زبان زدِعام تھے۔

    جب سلمیٰ کو یہ خبر معلوم ہوئی کہ وہ ایک اجنبی شخص کی، حالانکہ وہ ایک قابل شخص ہے، رفیقۂ حیات بنائی جانے والی ہے تو اس کا دل اس خیال سے کانپ اٹھا۔ اس خیال سے جو اس کی خواہش کے خلاف تھا، جس کا ایک بھیانک اور ہولناک منظر اس کی آنکھوں میں پھر رہا تھا۔

    سلمیٰ تعلیم یافتہ تھی، روشن خیال تھی، تاہم وہ اتنی آزاد نہ تھی کہ والدین کی کسی بات میں دخل دینے کی جرأت کرتی۔ گو وہ والدین کی اس جہالت کو نظر پسندیدگی سے نہ دیکھتی تاہم اس کا اظہار بھی کسی سے نہ کرتی۔ بحالتِ مجبوری اس نے اپنی سہیلیوں کے توسط سے اپنی رائے والدین تک پہنچادی لیکن والدین صرف یہ جواب دے کر خاموش ہوگئے، ’’آج کل کی تعلیم یافتہ لڑکیاں ایسی ہی آزاد مزاج واقع ہوئی ہیں۔ ان کے سامنے والدین کی رائے تو کچھ ہوتی ہی نہیں۔ وہ سمجھتی ہیں کہ والدین شاید ان کو بھاڑ ہی میں جھونک دیں گے۔‘‘

    سلمیٰ نے یہ جواب سنا تو اس کی رہی سہی امیدوں کا بھی خاتمہ ہوگیا۔ اب اس کے رخساروں پر اضطراب کی رنگت دوڑنے لگی تھی اور وہ دل ہی دل میں اپنی قسمت کی بدعنوانیوں پر نکتہ چینی کرنے لگی تھی۔ اس نے ہر طرف نظر دوڑائی۔ ہر عورت مرد کی شخصیت کا جائزہ لیا، تاکہ وہ اس سے مشورہ لے اور آنے والی مصیبت سے محفوظ رہنے کی کوشش کرے۔ اختر کے سوا اسے اور کوئی نظر نہ آیا۔ اس نے اپنے دل کو سنبھال کر انتہائی یاس و حسرت میں اختر کو لکھا،

    ’’مجھے کیا خبر تھی کہ زمانہ کی گردشیں، میری حالت پر خندہ زن ہیں۔ مجھے کیا معلوم تھا کہ میری تمنائیں اور آرزوئیں والدین کی رائے پر بھینٹ چڑھادی جائیں گی۔ مجھے کیا خبر تھی کہ قسمت کی تحریریں، میرے حق میں احکام موت ثابت ہوں گی اور مجھے کب توقع تھی کہ میری زندگی کو تمہارے سوا کسی اور کے دامن سے منسلک کرکے میرے مستقبل کو برباد اور تاریک کردیا جائے گا۔ اختر تم سن کر افسوس کروگے۔ تم شاید یہ پڑھ کر کانپ اٹھوگے کہ میری شادی ایک خالد نامی شخص سے کی جارہی ہے۔ جو شریف و معزز ہونے کے علاوہ ایک ادیب بھی ہے۔ لیکن جس کے لیے میرے دل میں فی الوقت کوئی محبت نہیں نہ کوئی احترام۔ اب یہ اور بات ہے کہ شادی کے بعد میرے دل میں کوئی انقلاب پیدا ہوجائے، اور ماحول اور واقعات مجھے وہ سب کچھ کرنے پر مجبور کردیں جو میں ابھی نہیں کرنا چاہتی اور نہیں کرسکتی مگر میں تمہارے سوا اور کسی سے رشتہ اتحاد قائم کرنا نہیں چاہتی۔ اگر تم کو مجھ سے کوئی خاص ہمدردی ہو اور اگر تم فوراً آسکتے ہو تو آکر اس آنے والی مصیبت سے اپنی بہن کو بچاؤ اور اس کی آئندہ زندگی کو مبتلائے آلام و کلفت ہونے سے محفوظ رکھو۔ جواب کا بے چینی سے انتظار ہے۔۔۔ سلمیٰ۔‘‘

    (۸)

    سلمیٰ جواب کا انتہائی اضطرارِ قلب اور تفکرات بے پایاں کے ساتھ انتظار کرنے لگی لیکن جواب کی توقع، شادی کا دن قریب آنے کے ساتھ ساتھ موہوم ہوتی گئی اور سلمیٰ کی امیدوں کو سوزش الم سے جلاکر خاکستر کرتی گئی اور جب کہ اس خاکستر میں نہایت خفیف سی حسد رہ گئی تو اختر کا جواب ملا،

    ’’تمہارے خط کو پڑھ کر مجھے جو صدمہ پہنچا اس کا اظہار میرے قلم سے ناممکن ہے۔ میں اس وقت ایسی کشمکش میں مبتلا ہوں کہ موت کو اس پر ہزار درجہ ترجیح دینا فعل عبث نہ ہوگا۔ یہاں کی حالت خطرناک ہے، ہر وقت گولیاں کان کے پاس سے سن سن کرتی ہوئی گزر جاتی ہیں۔ جنگ کی حالت خوفناک ہے اور کسی کو نہ تو استعفیٰ دینے کی اجازت ہے نہ رخصت کی۔ اس حالت میں مجھے مجبور سمجھو اور جو قسمت میں لکھا ہے اسے بھگتو۔۔۔ اختر۔‘‘

    اس غیر متوقع، کیوں کہ اسے یقین کامل تھا کہ اختر ضرور چھٹی لے کر آجائے گا، جواب سے اس پر ہجوم غم نے اس قدر غلبہ پایا کہ وہ اپنے ہوش و حواس پر قابو نہ رکھ سکی اور تھوڑی دیر کے لیے بے ہوش ہوگئی۔

    دوسرے دن سلمیٰ کی شادی خالد سے ہوگئی اور وہ سسرال چلی گئی۔

    (۹)

    شادی کا دوسرا دن تھا۔ سلمیٰ ساری رات تنہائی میں اختر کو یاد کرتی رہی۔ خالد کے سلوک پر نظر دوڑاتی رہی اور شادی کی مشکلات کو رفع کرنے کی کوشش کرتی رہی۔ وہ روتی رہی اور اپنی بدبختی پر اظہار افسوس کرتی رہی۔ وہ سوچ رہی تھی کہ یقینی اب اسے اخلاقاً اور قانوناً ایک نئی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہونا پڑے گا۔ اسے اپنی فطرت کے خلاف جنگ کرنی پڑے گی۔ اسے اپنی خواہشات کو ایک اجنبی انسان کے احکامات کے مطابق ڈھالنا پڑے گا۔ اسے غیرمانوس واقعات و حالات سے دوچار ہونا پڑے گا۔ آہ وہ ان امور کو کس طرح سمجھے گی؟ وہ اپنے شوہر کو، اپنی غمگین حالت اور خاموشی کا اس وقت کیا جواب دے گی؟ وہ کب تک اس سے گریز کرتی رہے گی؟

    سلمیٰ، ابھی انہیں خیالات میں محوتھی اور طلوع سحر کی نوخیز اور دوشیزہ تجلیاں کھڑکیوں میں سے جھانکنے لگی تھیں کہ خالد اندر داخل ہوا۔ سلمیٰ یکایک چونک پڑی جیسے کوئی شخص جو بے ہوشی کی نیند سورہا ہو، اپنے قریب رونے کی ایک چیخ سن کر گھبراجاتا ہے اور اٹھ بیٹھتا ہے۔ اس طرح سلمیٰ بھی گھبراکر چونک پڑی۔ خالد قریب آیا اور اس نے انتہائی پیار کے ساتھ سلمیٰ کے شانہ پر ہاتھ رکھتے ہوئے پوچھا، ’’پیاری سلمیٰ! کیسا مزاج ہے؟‘‘

    ’’میرا دل اس وقت بہت گھبرارہا ہے۔ مجھے ہول اٹھ رہا ہے۔ خدا کے لیے مجھے گھر بھجوادیجیے ورنہ میں بے ہوش ہوجاؤں گی۔ آہ مرجاؤں گی۔‘‘ سلمیٰ نے انتہائی غمگین اور مؤثر الفاظ میں جواب دیا۔

    ’’مگر اس بے چینی اور گھبراہٹ کی کوئی وجہ بھی ہے؟ اس قدر گھبراہٹ کے کیا معنی ہیں؟‘‘ خالد نے مضطربانہ استفسار کیا۔

    ’’آپ مجھ پر بہت مہربان رہے ہیں۔ میری اس درخواست کو بھی منظور کرلیجیے۔ مجھے گھر پہنچا دیجیے۔‘‘ سلمیٰ بولی اور اس کی آنکھوں سے آنسو ٹپ ٹپ گرنے لگے۔

    خالد ان آنسوؤں کی جھڑی سے بہت مضطرب ہوگیا اور اس نے سلمیٰ کی ناگفتہ بہ حالت کا احساس کرتے ہوئے تسکین بخش لہجے میں کہا، ’’سلمیٰ شاید تم کو مجھ سے محبت نہ ہو۔ گو بظاہر کوئی وجہ نہیں معلوم ہوتی لیکن مجھے تم سے اسی وقت سے محبت ہوگئی ہے جب تمہارا عقد میرے ساتھ ہوا اور میں اپنی اس محبت کا احترام صدق دلی سے کرتے ہوئے تمہارا دل دکھانا نہیں چاہتا۔ میں اسی وقت تم کو گھر پہنچادینے کا انتظام کیے دیتا ہوں۔ شاید وہاں جاکر تمہاری طبیعت سنبھل جائے۔‘‘

    ’’اگر آپ کو مجھ سے محبت ہے تو میں اس کو احترام کی نظروں سے دیکھتی ہوں۔ لیکن اس وقت مجھے آپ گھر پہنچادیں، تو اس عنایت کی میں ہمیشہ ممنون رہوں گی۔‘‘ سلمیٰ نے درخواست کی۔

    ’’بہت جلد انتظام ہوجائے گا۔ گھبراؤ نہیں۔‘‘ خالد نے کہا اور وہاں سے باہر چلا گیا۔

    (۱۰)

    اپنے گھر پہنچ کر سلمیٰ کو کسی قدر اطمینان ہوا اور وہ حالاتِ گزشتہ پر غور کرنے لگی اور اپنے مستقبل کا ایک خاکہ کھینچنے لگی۔ اس نے سوچا کہ کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ اب اختر کو بلائے اور اس سے اپنی دلی کیفیات بیان کردے اور خالد کو مجبور کرے کہ وہ اسے طلاق دے دے تاکہ وہ اختر سے عقد کرسکے۔ کیا یہ ممکن ہے؟ خالد کی شرافت اور نیک اوصاف نے اسے یہ یقین دلادیا کہ شاید خالد اس کی درخواست منظور کرلے۔

    کئی روز تک وہ اس مسئلہ پر غور کرتی رہی اور بیمار رہنے کا بہانہ کرتی رہی۔ والدین کو یقین تھا کہ حقیقت میں لڑکی بیمار ہے اور سسرال والوں نے بھی اس کی تائید کی۔ اس لیے اب اسے کچھ زمانہ تک سسرال جانے سے اطمینان ہوگیا مگر خالد جو سلمیٰ کے سلوکِ ناروا کو دیکھ چکا تھا، اس کی علالت پر یقین نہ کرتا تھا۔ وہ یہ معمہ سمجھنے کی کوشش کررہا تھا کہ سلمیٰ نے کیوں اس کی محبت کو ٹھکرادیا اور اس نے کیوں اظہارِمسرت کی بجائے خوف و دہشت کا منظر پیش کیا اور اس کے گھر چلے جانے کا کیا سبب ہے۔ کہیں وہ کسی اور سے تو محبت نہیں کرتی؟ کیوں کہ وہ کالج کی تعلیم یافتہ ہے اور فیشن کی بھی شایق، پھر وہ اس خیال کی خود ہی تردید کرتا اور کہتا، ممکن ہے کہ وہ پہلے سے علیل ہو اور حالت علالت میں اس کی شادی کردی گئی ہو۔ کیا تعجب کہ اسے اختلاج قلب کی شکایت ہو؟

    پھر وہ ان سب باتوں کو بے معنی کہہ کر نئے سرے سے اس کی توجیہ کرنے لگتا لیکن وہ معمہ اور زیادہ مشکل ہوجاتا، جیسے ایک پرند شکاری کے جال میں پھنس جاتا ہے اور اس سے نکلنے کی کوشش میں جال اور زیادہ جکڑ جاتا ہے اور نہیں نکل سکتا۔ اسی طرح خالد کے لیے سلمیٰ کا معمہ اور زیادہ پیچیدہ ہوتا جاتا اور وہ مجبوراً چپ ہوجاتا۔ آخر کار اس نے سلمیٰ کو خط لکھا،

    ’’محبت!

    سلام نیاز کے بعد۔ اب تک میں اس سلوک کو سمجھنے سے قاصر ہوں جو آپ نے میرے ساتھ کیا۔ کیا اس کی وجہ تحریر فرماکر آپ میرے پریشانیاں رفع کرسکتی ہیں؟ خدانا کردہ کیا آپ علیل ہیں؟ اگر نہیں تو کیا آپ احساس نہیں کرسکتیں ایک اس شخص کے جذبات کا جس کی محبت اور آرزوؤں کو آپ نے ایسے وقت ٹھکرادیا جو ہر انسان کی زندگی میں شاید میرے خیال میں سب سے قیمتی زریں اور مسرورکن موقع ہوتا ہے۔ تاہم میں اپنی تمام محرومیوں اور ناکامیوں کے ساتھ خاموش ہوں اور اس وقت تک خاموش رہوں گا جب تک میں ضبط کرسکتا ہوں۔ آخر کوئی خطا؟ جواب کا منتظر تمہارا خالد۔‘‘

    (۱۱)

    سلمیٰ نے خالد کا مکتوبِ محبت آفریں پڑھا اور اس کو پڑھ کر اس کے جذبات میں تلاطم برپا ہوگیا۔ اسے پڑھ کر اس کے جذبات خفتہ میں بیداری کی ایک چنگاری سلگ اٹھی اور اختر کی محبت کی آگ اس کے سینے میں پھر اپنی تمام دل افروزیوں کے ساتھ شعلہ زن ہوگئی۔ سلمیٰ نے خط مکرر پڑھا۔ کچھ دیر غور کرتی رہی، پھر پھاڑ کر ٹوکری میں ڈال دیا اور اختر کو لکھنے لگی،

    ’’آپ کے جواب نے میری تمام تمناؤں کا خون کردیا۔ اپنی المناک زندگی کا بیان لکھ کر میں آپ کی مسرور اور آزاد زندگی کو تفکرات اور پریشانیوں کی آماجگاہ نہیں بنانا چاہتی۔ مختصر یہ کہ میری شادی ہوگئی۔ مگر میں سمجھتی ہوں کہ شادی نہیں ہوئی۔ کیوں کہ میں اپنے گھر ہی میں ہوں اور اب تک میں نے کسی غیرمرد کا منہ نہیں دیکھا۔ یہ ایک راز سربستہ ہے جسے بیان کرنا مناسب نہیں۔ البتہ یہ تحریر کردینا ضروری ہے کہ اگر تم اب بھی آسکتے ہو تو شاید میں تم کو مل سکتی ہوں اور تم مجھے۔ اس کی ایک تدبیر سوچی ہے۔ گھر میں علیل ہونے کا بہانہ کرچکی ہوں لیکن یہ بہانہ دیرپا نہیں ہوسکتا۔ اس لیے ضرورت ہے کہ تم جلد سے جلد رخصت لے کر آجاؤ۔ اب بھی میرے مستقبل کے خوشگوار ہوجانے کا کسی حدتک امکان ہے۔۔۔ حرماں نصیب سلمیٰ۔‘‘

    (۱۲)

    سلمیٰ کی فرنگی معلمہ اس سے ملنے آئی۔ سلمیٰ نے اس کا نہایت پرتپاک خیرمقدم کیا اور اس سے باتیں کرنے لگی۔ فرنگن نے سلمیٰ سے پوچھا، ’’یہ تو فرمائیے؟ آپ اپنی اس شادی سے مطمئن ہیں؟

    سلمیٰ: میری استانی جی، یہ نہ پوچھیے۔

    معلمہ: کیوں آخر پوچھنے میں کیا ہوا۔ یہ تو میرا عین فرض ہے کہ آپ کواس متحدہ زندگی پر مبارک باد دوں۔

    سلمیٰ: اگر آپ سچ پوچھیں تو میں اس اتحاد سے غیرمطمئن ہوں۔ کیونکہ یہ میری مرضی کے خلاف ہوا۔

    معلمہ: کیوں؟ کیا آپ اور کسی کے ساتھ چاہتی تھیں؟

    سلمیٰ: ہاں میں اپنے خالہ زاد بھائی اختر سے شادی کی متمنی تھی جو فوج میں لفنٹنٹ ہیں مگر والدین نے پسند نہ کیا۔

    معلمہ: اختر، ہاں میں جانتی ہوں اختر کو۔ میں نے ان کو دیکھا ہے۔ مگر اب افسوس کرنے سے کوئی فائدہ نہیں۔ آپ کی قسمت میں یہی لکھا تھا۔ مگر آپ کے شوہر میں کیا نقص ہے جو آپ ان کو پسند نہیں کرتیں؟

    سلمیٰ: کوئی نقص نہیں۔ وہ ایک معزز اور تعلیم یافتہ نوجوان ہیں اور ایک ادیب اور مضمون نگار بھی۔ اس کے علاوہ نہایت شریف مزاج اور نیک خو ہیں لیکن میرے دل میں ان کے لیے کوئی محبت نہیں۔

    معلمہ: تو کیا وہ آپ سے محبت نہیں کرتے؟

    سلمیٰ: انھوں نے جس محبت کا اظہار کیا اس کے خیال سے میں منفعل ہوجاتی ہوں۔

    معلمہ: مگر میری عزیز لڑکی۔ اب اپنے دل میں نئے شوہر کی محبت کو جگہ دو۔ میرا خیال ہے کہ اختر نے مصنوعی محبت کا اظہار کیا ہے۔

    سلمیٰ: نہیں تو۔ ان کے خطوط سچی محبت سے لبریز ہوتے ہیں۔

    معلمہ: ممکن ہے کہ تمہاری تسکین کے لیے کہہ دیا ہو اور لکھ دیتے ہوں مگر حقیقت میں ایسی محبت نہ کرتے ہوں گے کیوں کہ میں نے ان کی ایک حرکت سے اندازہ لگایا ہے کہ وہ کسی سے سچی محبت نہیں کرسکتے۔

    سلمیٰ: مجھے تو یقین نہیں آتامگر وہ کون سی حرکت تھی، جس سے آپ نے یہ خیال قائم کیا؟

    معلمہ: ایک مرتبہ جب وہ یہاں تھے تو مجھے ایک ایسے ڈانس(رقص کی محفل) میں جانے کا اتفاق ہوا جہاں اختر بھی موجود تھے۔ انھوں نے خوب شراب پی اور جھومنے لگے اور اس اثناء میں جب ہوٹل کی ایک جوان خادمہ میز کے قریب آئی تو وہ اس سے الجھ پڑے۔ یعنی شراب کے نشہ میں اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور جب وہ چھڑانے لگی تو اختر نے اس کی توہین کرنے کی کوشش کی۔ اس پر وہ خوف زدہ ہوکر چلائی۔ قریب کی میز سے ایک جوان شخص اٹھ کر دوڑا اور اس نے اس لڑکی کو نجات دلائی۔ اختر بہت برہم ہوئے اور دونوں میں ہاتھا پائی ہونے لگی۔ سب لوگ دوڑپڑے اور اختر کو بہت لعنت ملامت کرکے ہوٹل سے نکال دیا۔ یہ میری آنکھوں کا دیکھا قصہ ہے مگر میں نے آپ سے اس لیے نہ کہا تھا کہ آپ کو سن کر تکلیف ہوگی، لیکن موجودہ صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے میں نے اس راز کو منکشف کردینا مناسب سمجھا۔

    سلمیٰ اس گفتگو سے قدرے متفکر ہوگئی۔ پھر بولی، ’’کیا آپ نے اچھی طرح دیکھا تھا کہ وہ اختر تھے؟‘‘

    معلمہ: جی ہاں!

    سلمیٰ: مجھے یہ سن کر افسوس ہے لیکن معلوم نہیں میرا دل ان کے لیے کیوں اس قدر مضطرب ہے؟

    معلمہ: ہاں ہوگا، مگر اب ان کی محبت کو فراموش کرکے نئے شوہر کی محبت کو دل میں بساؤ۔ جب وہ تم کو محبت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ تم ان کی اس آرزو کو ٹھکرادو۔

    سلمیٰ: یہ صحیح ہے استانی جی۔ مگر میں اپنے دل سے مجبور ہوں۔

    معلمہ: کیا وہ بدصورت ہیں جو تم کو نہیں بھاتے؟

    سلمیٰ: نہیں استانی جی، وہ تو بہت شکیل اور خوبصورت جوان ہیں، ٹھہریے میں ابھی آپ کو ان کی تصویر دکھاتی ہوں۔

    سلمیٰ کمرہ سے خالد کی تصویر لائی جو خالد نے چلتے وقت اسے بضد ہزار انکسار و محبت پیش کی تھی اور جسے اس نے بحالت مجبوری قبول کرلیا تھا۔ معلمہ نے تصویر غور سے دیکھی اور کسی قدر متعجب ہوکر بولی، ’’یہ تصویر تو بالکل اس شخص کی معلوم ہوتی ہے جس نے ہوٹل میں خادمہ کو اختر کے پنجے سے چھڑایا تھا۔‘‘

    سلمیٰ: تعجب کی بات ہے۔

    معلمہ: ہاں تعجب کی بات تو ضرور ہے مگر میں دعوے سے کہہ سکتی ہوں کہ یہی شخص تھا اور اگر تم ایک ایسے شریف اور نیک خصلت انسان سے محبت نہیں کرتیں تو یہ ایک نادانی کی بات ہے، اب گزشتہ واقعات کو بھول جاؤ۔

    سلمیٰ: دیکھیے کوشش کروں گی۔

    اس کے بعد استانی سلمیٰ سے رخصت ہوگئی اور سلمیٰ اختر کی موجودہ حالت اور خالد کی زندگی پر ناقدانہ نظر ڈالنے لگی۔

    (۱۳)

    ’’سلمیٰ

    سرحدی قبائل کی کافی سرزنش ہوچکی ہے۔ ان کی طرف سے ہماری فوج کو اطمینان ہوچکا ہے اور اب ہم سب لوگ واپس آرہے ہیں۔ میں نے چند روز کی رخصت بھی لے لی ہے، اس لیے اب تم سے جلد ہی آکر ملاقات کرسکوں گا اور واقعات پر غور کروں گا۔ اگر اب بھی، جیسا تم نے لکھا ہے تم میری ہوسکتی ہو تو میں کوئی کوشش فروگزاشت نہ کروں گا۔ تم چند روز اور واقعات پر کسی نہ کسی طرح قابو رکھنے کی کوشش کرو۔ میں آرہا ہوں۔۔۔ اختر۔‘‘

    سلمیٰ یہ جواب پڑھ کر بے حد مسرور ہوگئی جیسے ایک بیوی، جسے اپنے شوہر سے انتہائی محبت ہو اور اس کا شوہر کہیں باہر چلاجائے اور ایک مدت کے بعد واپس ہو اور اس اثناء میں وہ گوناگوں تکالیف کی آماجگاہ بنی رہی ہو اور جب وہ اپنے شوہر کی آمد کی خبر سنتی ہے تو یہ یقین کرلیتی ہے کہ اب اس کی امیدوں میں پھر چمک پیدا ہوجائے گی، تمنائیں زندہ ہوجائیں گی اور تکالیف کا سیلاب اترجائے گا اور اس خیال سے بے حد مسرور ہوجاتی ہے، اسی طرح سلمیٰ کی انبساط کی فراوانیاں سلمیٰ کو اپنے دامن میں اڑائے لیے جارہی تھیں۔ اسے یقین ہوگیا تھا کہ وہ خالد سے طلاق لے کراختر سے رشتۂ محبت قائم و استوار کرسکے گی۔

    سلمیٰ اختر کی آمد کا انتظار کرنے لگی اور اس انتظار کی فضا میں وہ طرح طرح کی خیالی دنیا ئیں آباد کرتی اور پھر ان کو فنا کردیتی۔ عشرتوں کے روح پرور خواب دیکھتی اور خوشی کے مارے پھولی نہ سماتی۔ مستقبل کی خوشگوار جنت تعمیر کرتی اور اس میں کھوجاتی۔ عین اس حالت میں جب کہ اس کے انتظار کا پیمانہ لبریز ہوکر چھلکنے والا تھا، عین اس وقت جب کہ اس کے مستقبل قریب کا جاں فزا منظر اس کی زندگی جدید میں متبدل ہونے والا تھا، یہ خبر آئی، ’’باغیوں کے اچانک حملہ سے فوج پسپاہوئی اور متعدد فوجی افسر مارے گئے۔ اختر بھی نشانہ اجل بنادیا گیا۔‘‘

    یہ اختر کے انتقال کی خبر نہ تھی بلکہ ایک صاعقہ غضب تھی، ایک شر جہنم تھا، ایک قہر خداوندی تھا، جس نے سلمیٰ کے خرمن جذبات کو پھونک کر خاکستر کردیا، اس کی آرزو ئیں پائمال کردیں، اس کی مسرتیں لوٹ لیں، اس کے احساسات کو پیس کر سرمہ کردیا اور اس کے خیالی مستقبل کا شیرازہ ہدف انتشار۔

    سلمیٰ آہ کرکے ایک کرسی پر گر پڑی۔ اس نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے دل کو اس طرح پکڑ لیا جیسے وہ پھٹ کر ٹکڑے ہونے والا ہے۔ اس کے دل سے آہیں اس طرح نکلنے لگیں جیسے ایک مظلوم و بیکس کے آگ لگے ہوئے گھر سے دھواں نکلتا ہے اور اس کی آنکھوں سے آنسو اس طرح بہنے لگے جیسے گلاب کی پنکھڑیوں سے شبنم کے قطرے مسلسل اور پیہم ٹپک رہے ہوں۔ اس نے رونا شروع کردیا اور اس کے ساتھ سارا گھر نالہ و بکا کرنے لگا۔ سارے درودیوار آہ وزاری کرنے لگے۔

    (۱۴)

    اس واقعہ کے ڈیڑھ مہینے کے بعد خالد کا حسب ذیل خط سلمیٰ کو ملا۔

    ’’سرمایۂ حیات!

    سلام نیاز و عقیدت! شاید مجھ سے زیادہ خوش نصیب اس وقت اور کوئی نہ ہوگا، جب مجھے یہ معلوم ہوگا کہ مزاج لطیف و نازک روبہ صحت ہے۔ اور اب ایک دکھے ہوئے دل کو، ایک اس دل کو جو اپنے بھائی کی محبت سے حددرجہ سرشار تھا، خدا تعالیٰ نے صبروسکون کی تلقین کردی ہے اور اس غم کاغبار دل سے ہٹ رہا ہے۔

    میں اپنی تمام عقیدت مندوں کے ساتھ اپنے قلب کی تمام محبتوں کے ساتھ اور جذبات کی تمام ترجمانیوں کے ساتھ یہ دریافت کرنے کی جرأت کرتا ہوں کہ آخر مجھ بدنصیب کا کیا انجام ہوگا؟ کچھ تو لب نازک اور دہنِ شیریں سے ارشاد ہو۔

    استغنا کی حدہوچکی ہے۔ سکوت کی انتہا ہوچکی ہے اور صبر کا کوئی معیار۔ اور اب میں ان تمام مدارج سے گزرچکا ہوں۔ میرے ضبط و استقلال کی حدیں میرے سیل جذبات نے توڑدی ہیں۔ میری محبت کی کشش مجھے آپ کی بارگاہ میں کھینچ لانے کو مضطرب اور بے چین ہے اور اب میں نہیں سمجھ سکتا کہ اگر ایسا ہی سکوت قائم رہا تو میری کیا حالت ہوگی؟

    اگر میرے جذبات کی کوئی قدر ہوسکتی ہے، اگر میرے خیالات کو کوئی اہمیت دی جاسکتی ہے اور میرے ان الفاظ پر جو دل کی گہرائیوں سے برآمد ہوکر صفحۂ قرطاس پر مرتسم ہو رہے ہیں، یقین آسکتا ہے تو میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ مجھے آپ سے سچی محبت ہے اور اب اسی محبت کے واسطہ سے میں یہ درخواست کرتا ہوں کہ جواب سے شادکام فرمایا جاوے تاکہ شرفِ باریابی حاصل کروں۔۔۔ بیتابِ محبت خالد۔‘‘

    سلمیٰ نے یہ خط پڑھنا شروع کیا اور اس کے چہرے کا رنگ متغیر ہوتا گیا اور جب وہ اختتام پر پہنچی تو اس کے نازک ہونٹوں پر ایک تبسم معصوم کی حسین تجلیاں چمکنے لگیں۔ وہ مسرور اور مطمئن اٹھی۔ قلم اٹھایا، کاغذ نکالا، اور خالد کو جواب لکھنے بیٹھ گئی۔

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے