شاہ کی کنجری
اب اسے کوئی نیلم کہہ کر نہیں بلاتا تھا۔ سب شاہ کی کنجری کہتے تھے۔
نیلم پر لاہور ہیرامنڈی کے ایک چوبارے میں جوانی آئی تھی اور وہیں ایک ریاست کے سردار نے پورے پانچ ہزار روپے دے کر اس کی نتھ اتاری تھی اور وہیں پر اس کے حسن نے آگ بن کر سارے شہر کو جلاکر رکھ دیا تھا۔ لیکن پھر ایک دن وہ ہیرامنڈی کے سستے چوبارے کو خیرباد کہہ کر شہر کے سب سے مہنگے ہوٹل فلیٹی میں آ گئی تھی۔ وہی شہر تھا۔ لیکن سارے شہر کو جیسے رات بھر میں ہی اس کا نام بھول گیا ہو۔ سب کے منہ سے ایک ہی بات سننے کو ملتی تھی۔ شاہ کی کنجری۔
غضب کا گاتی تھی وہ۔ کوئی بھی گانے والی اس کی طرح ’’مرزے کی سد‘‘ کے بول نہیں اٹھا سکتی تھی۔ اس لیے لوگ چاہے اس کا نام بھول گئے تھے۔ لیکن اس کی آواز کو نہیں بھولے تھے۔ شہر میں جس کے پاس بھی ’’توے والا باجہ‘‘ تھا۔ وہ اس کے بھرے ہوئے ریکارڈ ضرور خریدتا تھا۔ سب گھروں میں ریکارڈ کی فرمائش کے وقت ہر کوئی یہی کہتا تھا ’’آج شاہ کی کنجری والا ریکارڈ ضرور سننا ہے۔‘‘
کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں تھی۔ شاہ کا بڑا لڑکا جو اب شادی کے قابل تھا، تب گود میں تھا۔ تب سیٹھانی نے زہر کھاکر مرنے کی دھمکی دی تھی۔ لیکن شاہ نے اس کے گلے میں موتیوں کا ہار ڈال کر کہا تھا، ’’شاہینئے! وہ تیرے گھر کی برکت ہے۔ میری آنکھ جوہری کی آنکھ ہے۔ تم نے یہ سنا نہیں ہوا کہ نیلم ایسی چیز ہے جو لکھ پتی کو کنگال بنا دیتا ہے اور کنگال کو لکھ پتی۔ جس کو الٹا پڑ جائے اس لکھ پتی کو کنگال کر دیتا ہے، لیکن جسے سیدھا پڑ جائے، موافق آ جائے۔ جس دن سے اس کا ساتھ ہوا ہے۔ میں مٹی کو ہاتھ ڈالوں تو سونا ہو جاتی ہے۔‘‘
’’لیکن وہی ایک دن گھر اجاڑکر رکھ دےگی۔ لکھ پتی کو تنکے کا سا ہلکا کر دےگی۔‘‘ شاہنی نے سینے کے درد کو سہتے ہوئے اسی پیرائے میں دلیل دی تھی، جہاں سے شاہ نے بات چلائی تھی۔
’’میں تو بلکہ کہتا ہوں۔۔۔ کہ ان کنجریوں کا کیا بھروسہ۔ کل کو کسی اور کے سبز باغ دکھانے پر یہ اگر کسی اور کے ہاتھ پڑ گئی تو لاکھ کا راکھ نہ ہو جائے۔‘‘ شاہ نے پھر اپنی دلیل دی تھی۔
اب شاہنی کے پاس کوئی او ردلیل نہیں رہ گئی تھی۔ دلیل اگر تھی تو صرف ’’وقت‘‘ کے پاس اور وقت خاموش تھا۔ کئی برسوں سے چپ تھا۔ شاہ سچ مچ جتنے پیسے نیلم پر گنواتا تھا، اس سے کئی گنا زیادہ پتہ نہیں کہاں سے بہتے ہوئے اس کے گھر آ جاتے تھے۔ پہلے اس کی چھوٹی سی دکان، شہر کے چھوٹے سے بازار میں ہوا کرتی تھی۔ لیکن اب سب سے بڑے بازار میں لوہے کے پھاٹک والی سب سے بڑی دکان تھی اس کی۔ گھر کے بجائے اب پورا محلہ ہی اس کا تھا۔ جس میں بڑے کھاتے پیتے کرایہ دار تھے۔ اپنے گھر کے تہہ خانے کی طرف سے اس کی شاہنی ایک دن کے لیے بھی لاپرواہی نہیں برتتی تھی۔
بڑے برس ہوئے۔ شاہنی نے ایک دن موہروں والے ٹرنک کو تالا لگاتے ہوئے شاہ جی سے کہا تھا، ’’اس کو چاہے ہوٹل میں رکھ اور چاہے تو اس کو تاج محل بنوا دے، لیکن باہر کی بلا، باہر ہی رکھنا، اسے میرے گھر میں نہ لانا۔ میں اس کے ماتھے نہیں لگوں گی۔‘‘ اور سچ مچ شاہنی نے آج تک اس کا منہ نہیں دیکھا تھا۔ جب اس نے یہ بات کہی تھی، تب اس کا بڑا لڑکا اسکول میں پڑھتا تھا اور اب تو وہ شادی کے قابل ہو گیا تھا۔ لیکن شاہنی نے اس کے گانے والے ریکارڈ نہ گھر میں آنے دیے تھے اور نہ ہی گھر میں کسی کو اس کا نام لینے دیا تھا۔ یوں اس کے بیٹوں نے دوکانوں پر بجتے اس کے گانے سنے ہوئے تھے اور ہر ایرے غیرے سے سنا ہوا تھا۔ شاہ کی کنجری۔
بڑے بیٹے کی شادی تھی۔ گھر میں چار مہینوں سے درزی بیٹھے ہوئے تھے۔ کوئی سوٹوں پر سلمے کا کام کر رہا تھا، کوئی تلا، کوئی کناری اور کوئی دوپٹوں پر ستارے ٹانک رہا تھا۔ شاہنی کے ہاتھ ہر وقت بھرے رہتے۔ روپیوں کی تھیلی نکالتی کھولتی اور پھر اور تیلی بھرنے کے لیے تہہ خانے میں چلی جاتی۔ شاہ کے دوستوں نے دوستی کا واسطہ ڈالا کہ لڑکے کے بیاہ میں کنجری ضرور گانے کے لیے آئے۔ ویسے انہوں نے بات بڑے طریقے سے کی تھی، تاکہ شاہ کہیں غصہ ہی نہ کر جائے۔
’’ویسے تو شاہ جی بہت ہیں گانے والیاں۔ جس کو دل کرے بلا لو۔ لیکن وہاں ملکہ ترنم ضرور آئے۔ چاہے مرزے کی صرف ایک ہی ’’سد‘‘ الاپ دے۔‘‘
فلیٹی ہوٹل عام ہوٹلوں جیسا نہیں تھا۔ وہاں زیادہ تر انگریز لوگ ہی آتے اور ٹھہرتے تھے وہاں ایک کے لیے ایک کمرہ بھی تھا اور بڑے تین کمروں کے سیٹ بھی۔ ایسے ہی ایک سیٹ میں نیلم رہتی تھی۔ اسی لیے شاہ نے سوچا کہ یار دوستوں کا دل رکھنے کے لیے ایک دن نیلم والے سیٹ میں ایک رات کی محفل کا اہتمام کر دیں گے۔
’’یہ تو چوبارے پر جانے والی بات ہوئی۔‘‘ ایک دوست نے اعتراض کیا تو سب بول پڑے۔
’’نہیں شاہ جی۔ وہ تو صرف آپ کا ہی حق بنتا ہے۔ پہلے کبھی اتنے برس تک ہم نے کچھ نہیں کہا۔ اس جگہ کا نام بھی نہیں لیا۔ وہ جگہ تو آپ کی امانت ہے۔ ہم نے بھتیجے کے بیاہ کی خوشی کرنی ہے۔ اسے خاندانی گھروں کی طرح اپنے گھر میں بلاؤ۔ ہماری بھابی کے گھر۔‘‘
بات شاہ جی کی بھی من مرضی کی تھی۔ اس لیے بھی کہ وہ دوست احباب کو نیلم کے گھر کا راستہ نہیں دکھانا چاہتے تھے۔ بیشک اس کے کانوں میں بھنک پڑتی رہتی تھی کہ اس کی غیرحاضری میں اب کوئی کوئی امیرزادہ نیلم کے پاس آنے لگا تھا اور دوسرے اس وجہ سے بھی کہ وہ چاہتا تھا کہ نیلم ایک بار اس کے گھر آکر اس کے گھر کی تڑک بھڑک دیکھ جائے لیکن وہ شاہنی سے ڈرتا تھا، اس لیے دوستوں سے حامی نہ بھر سکا۔
دوستوں یاروں میں سے ہی دونے راستہ نکالا اور شاہنی کے پاس جاکر کہنے لگے، ’’شاہنی! تم لڑکے کے بیاہ میں عورتوں کو گان پر نہیں بٹھاؤگی؟ ہم نے سب خوشیاں کرنی ہیں۔ شاہ نے صلاح بنائی ہے کہ ایک رات یاروں کی محفل نیلم کے گھر میں ہو جائے۔ بات تو ٹھیک ہے۔ لیکن ہزاروں کا خرچ ہو جائےگا۔ آخر گھر تو تیرا ہے۔ پہلے اس کنجری کو کم کھلا دیا ہے؟ تم سیانی بنو۔ اسے گانے بجانے کے لیے یہاں بلا لو ایک دن۔ لڑکے کے بیاہ کی خوشی بھی ہو جائےگی اور روپیہ برباد ہونے سے بھی بچ جائےگا۔‘‘
شاہنی پہلے تو غصے میں بھر کر بولی، ’’میں اس کنجری کو ماتھے نہیں لگاؤں گی۔‘‘ لیکن جب ان لوگوں نے ٹھنڈے دل سے کہا۔ یہاں تو بھابی تیرا راج ہے۔ وہ باندھی بن کر آئےگی۔ حکم کی بندھی۔ تیرے بیٹے کی خوشی میں شریک ہونے کے لیے۔ بےعزتی تو اس کی ہے۔ تیری کاہے کی ہے؟ جیسے اور لوگ نچلے کمین لوگ آئیں گے ڈوم، مراثی، تیسی وہ۔‘‘
بات شاہنی کے من کو جچ گئی۔ ویسے بھی کبھی سوتے جاگتے اس کے دل میں خیال آیا کرتا تھا کہ ایک بار دیکھوں تو سہی وہ کیسی ہے؟ اس نے کبھی دیکھا نہیں تھا۔ ہاں اس کے بارے میں اندازے ضرور لگائے تھے۔ چاہے ڈرکر، یا سہم کر، یا پھر نفرت سے اور شہر میں نکلتے گزرتے اگر کسی کنجری کو ٹانگے میں بیٹھی دیکھتی، تو نہ چاہتے ہوئے بھی وہ سوچتی۔ کیا پتہ یہ وہی ہو؟
’’چلو میں بھی ایک بار دیکھ لوں۔‘‘ وہ من میں پگھل سی گئی۔ جو اس نے میرا بگاڑنا تھا وہ تو بگاڑ لیا، اب وہ اور کیا کرلے گی۔ ایک بار ’’چندری‘‘ کو دیکھ تو لوں۔
اور شاہنی نے حامی بھردی لیکن ایک شرط پر۔ یہاں نہ شراب اڑےگی نہ کباب۔ بھلے شریف گھروں میں جیسے گانے بجانے پر بیٹھتے ہیں، اسی طرح گانے کے لیے بٹھاؤں گی۔ تم مرد لوگ بھی بیٹھ جانا۔ وہ آئے اور سیدھی طرح گاکے چلی جائے۔۔۔ میں وہی چار بتاشے جو گھوڑیاں گانے والی لڑکیوں بالیوں کو دوں گی، اس کی جھولی میں بھی ڈال دوں گی۔‘‘
’’یہی تو بھابی ہم کہہ رہے ہیں۔ شاہ کے دوستوں نے اس کی بات کو پھول چڑھائے۔ تمہاری سیانپ سے ہی تو یہ گھر بنا ہوا ہے۔ نہیں تو پتہ نہیں کیا قیامت ڈھے جاتی۔‘‘
وہ آئی۔ شاہنی نے خود اپنی بگھی بھیجی تھی۔ گھر شادی میں آنے والے مہمانوں سے بھرا ہوا تھا۔ بڑے کمرے میں سفید چادریں بچھاکر بیچ میں ڈھولکی رکھی ہوئی تھی۔ گھر کی عورتوں نے گھوڑیاں گانی شروع کر دی تھیں۔۔۔
بگھی دروازے پر آکر کھڑی ہوئی تو مہمان عورتوں میں جن کو اسے دیکھنے کی جلدی تھی بھاگ کر کھڑکی کے پاس گئیں اور کچھ سیڑھیوں کی طرف۔۔۔
’’نی بدشگنی کیوں کرتی ہو۔ گھوڑی کا گیت بیچ میں ہی چھوڑ دیا ہے۔‘‘ شاہنی نے ذرا غصیلی آواز میں کہا۔ لیکن اسے خود ہی اپنی آواز کچھ ڈھیلی سی لگی۔ جیسے اس کے دل میں کوئی چوٹ سی پڑی ہو۔۔۔
وہ سیڑھیاں چڑھ کر دروازے تک آ گئی تھی۔ شاہنی نے گلابی ساڑھی کے پلو کو ٹھیک کیا۔ جیسے سامنے دیکھنے کے لیے وہ گلابی رنگ کی شگنوں والی ساڑھی کی آڑ لے رہی ہو۔
سامنے۔۔۔ اس نے ہر ے رنگ کا لہر دار غرارہ پہنا ہوا تھا۔ گلے میں سوہے لال رنگ کی قمیض تھی اور سر سے پاؤں تک ڈھلکتی ہرے رنگ کی چنری۔ ایک جھلمل سی ہوئی۔ شاہنی کو ایک پل کے لیے تو ایسے ہی لگا جیسے ہرا رنگ سارے دروازے میں بھر گیا ہو، بکھر گیا ہو۔۔۔
پھر کچ کی چوڑیوں کی چھن چھن ہوئی۔ تو شاہنی نے دیکھا۔ ایک گورا گورا ہاتھ اٹے ہوئے ماتھے سے چھوکر اسے سلام دعا سا کچھ کہہ رہا تھا اور ساتھ ہی ایک کھنکتی آواز، ’’بڑی مبارکاں شاہنی۔۔۔ بہت مبارکاں۔۔۔‘‘
وہ بڑی پتلی چھمک سی تھی۔۔۔ شاہ بھی تھا، اس کے دوست بھی تھے۔ رشتہ داروں میں سے کچھ مرد بھی تھے۔ اس چھمک چھبیلی عورت نے اس کونے کی طرف دیکھتے ہوئے بھی ایک بار سلام کیا اور پھر دوسری طرف گاؤ تکیے سے ٹیک لگائے ٹھمکتی ہوئی بیٹھ گئی۔ بیٹھتے وقت اس کی کانچ کی چوڑیاں پھر کھنک اٹھیں۔ شاہنی نے ایک بار پھر اس کے بازوؤں کی طرف دیکھا۔ اس کی ہری کانچ کی چوڑیوں کی طرف بھی اور پھر وہ سہج سبھاؤ سے اپنے بازوؤں میں پڑے سونے کے چورے کی طرف دیکھنے لگی۔۔۔
کمرے میں ایک چکاچوند سی چھا گئی۔ ہر ایک کی نگاہیں صرف ایک طرف کو ہی جھک گئیں۔ شاہنی کی آنکھیں بھی، لیکن صرف اپنی آنکھوں کو چھوڑ کر باقی سب کی آنکھوں پر اسے غصہ سا آ گیا۔ وہ ایک بار پھر کہنا چاہتی تھی، ’’نی بدشگنی کیوں کرتی ہو؟ گھوڑی کے گیت گاؤنا۔‘‘ لیکن اس کی آواز اس کے گلے میں رک گئی۔ کمرے میں ایک چپ سی چھا گئی۔ وہ کمرے کے بیچوبیچ پڑی ڈھولکی کی طرف دیکھنے لگی اور اس کا دل کیا کہ وہ بڑے زور سے ڈھولک بجائے۔
خاموشی اسی نے توڑی۔ جس کی وجہ سے خاموشی چھائی تھی۔ کہنے لگی۔ میں تو سب سے پہلے گھوڑی گاؤں گی۔ لڑکے کا شگن کروں گی، کیوں شاہنی؟ اور شاہنی کی طرف دیکھتے اور ہنستے ہوئے گھوڑی کا گیت شروع کر دیا،
چھوٹی چھوٹی بوندیں
بیٹا مینہ رہے برسے
تیری ماں رہے سہاگن
تیرے شگن کرے۔۔۔
شاہنی کو اچانک کلیجے میں ٹھنڈ سی پڑ گئی۔ شاید اس لیے کہ گیت میں آنے والی ’’ماں‘‘ وہی ہے اور اس کا مرد بھی صرف اسی کا مرد ہے۔ تبھی تو ماں سہاگن ہے۔۔۔
شاہنی ہنستے ہوئے چہرے کے ساتھ ٹھیک اس کے سامنے جاکر بیٹھ گئی۔ جو اس وقت گیت گاتی ہوئی اس کے بیٹے کا شگن کر رہی تھی۔
گھوڑی کا گیت ختم ہوا تو کمرے میں بات چیت شروع ہو گئی۔ پھر جیسے یہ معمول سا ہو گیا۔ عورتوں کی طرف سے فرمائش آئی۔ ’’ڈھولک بجاتے ہوئے وہ جو اوپر سے پتھر سے ڈھلک پیٹی جاتی ہے، وہ والا گیت۔‘‘ مردوں کی طرف سے فرمائش آئی ’’مرزے کی سد۔‘‘
گانے والی نے مردوں کی طرف سے آنے والی فرمائش کو سنی ان سنی کر دیا اور ڈھولک کو اپنی طرف کھینچ کر اس نے ڈھولک سے اپنا گھٹنا جوڑ لیا۔ شاہنی کا جی خوش ہو گیا۔ شاید اس لیے کہ گانے والی مردوں کی فرمائش پوری کرنے کے بجائے عورتوں کی فرمائش پوری کرنے لگی تھی۔۔۔
مہمان آئی عورتوں میں سے شاید سب کو پتہ نہیں تھا۔ وہ ایک دوسری سے پوچھ رہی تھیں اور دوسری ان کے کان کے نزدیک جاکر کہہ رہی تھیں۔۔۔ ’’یہ وہی ہے۔ شاہ کی کنجری‘‘۔ کہنے والیوں نے بیشک بہت آہستہ سے کہا تھا۔ کانا پھوسی سا۔ لیکن شاہنی کے کانوں میں آواز پڑ رہی تھی۔ کانوں پر چوٹ کر رہی تھی۔ شاہ کی کنجری۔ شاہ کی کنجری اور شاہنی کے منہ کا رنگ پھر پیلا پڑ گیا۔
اتنے میں ڈھولک کی آواز پھر اونچی ہو گئی اور ساتھ ہی گانے والی کی آواز بھی۔ ’’سو ہے وے پگڑی والیا میں کہتی ہوں۔‘‘ اور شاہنی کے کلیجے کو پھر سہارا مل گیا، ’’یہ سوہے لال چہرے والا میرا ہی بیٹا ہے۔ سکھ سے گھوڑی پر چڑھنے والا میرا پتر۔۔۔‘‘
فرمائش کہیں ختم ہونے پر نہیں آرہی تھی۔ ایک گیت ختم ہوتا تو دوسرا شروع ہو جاتا۔ گانے والی کبھی عورتوں کی طرف فرمائش پوری کرتی، کبھی مردوں کی طرف کی۔ بیچ بیچ میں کہہ دیتی ’’کوئی اور بھی گاؤنا۔ مجھے سانس لینے دو۔‘‘ لیکن کس کی ہمت تھی اس کے سامنے گانے کی۔ اس کی گھنٹی کی طرح کھنکتی آواز، میٹھی ہوک سی آواز۔ وہ بھی شاید یونہی کہنے کو کہہ رہی تھی۔ ویسے ایک کے بعد دوسرا گیت شروع کر دیتی تھی۔
گیتوں کی بات اور تھی، لیکن جب اس نے مرزے کی سد کا الاپ کیا، ’’اٹھ نی صاحباں ستیے، اٹھ کر دے دیدار۔۔۔‘‘ ہوا کا کلیجہ ہل گیا۔ کمرے میں بیٹھے ہوئے مرد بت بن گئے۔ شاہنی کو پھر ایک گھبراہٹ سی ہوئی۔ اس نے گہری نظر سے شاہ جی کی طرف دیکھا۔ شاہ بھی دوسروں مردوں کی طرح بت بنا ہوا تھا۔ لیکن شاہنی کو لگا۔۔۔ وہ پتھر کا ہو گیا ہے۔۔۔
شاہنی کے کلیجے سے ایک ہوک سی اٹھی اور اس نے محسوس کیا کہ اگر یہ پل بھی ہاتھ سے پھسل گیا تو وہ خود بھی ہمیشہ کے لیے بت بن جائے گی۔ اسے کچھ کرنا چاہیے، کچھ کرنا چاہیے۔ وہ کچھ بھی کرے لیکن مٹی کا بت نہ بنے۔۔۔
شام کافی ڈھل گئی۔ محفل ختم ہونے پر آئی۔
شاہنی نے کہا تھا کہ وہ آج اسی طرح صرف بتاشے بانٹےگی۔ جس طرح لوگ ایسے دن کو بانٹتے ہیں۔ جب عورتوں کو گانے پر بٹھایا جاتا ہے۔ لیکن جب گانے ختم ہوئے تو کمرے میں چائے اور کئی قسم کی مٹھائی آ گئی۔۔۔ اور شاہنی نے مٹھی میں لپٹا ہوا سو کا نوٹ نکال کر اپنے بیٹے کے سر پر نچھاور کیا اور پھر اسے تھما دیا جسے لوگ شاہ کی کنجری کہتے تھے۔
’’رہنے دو شاہنی۔ پہلے بھی تمہارا ہی کھاتی ہوں۔‘‘ اس نے جواب دیا اور ہنس پڑی۔ اس کی ہنسی اس کے حسن کی طرح جھلمل کر رہی تھی۔
شاہنی کے منہ کا رنگ ہلکا پڑ گیا۔ اسے لگا جیسے شاہ کی کنجری نے آج بھری محفل میں شاہ کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑکر اس کی بےعزتی کر دی ہو۔ شاہنی نے اپنے آپ پر قابو پایا اور بڑا سا حوصلہ پیدا کیا کہ آج وہ اس سے ہار نہیں مانےگی اور وہ زور سے ہنس پڑی۔ نوٹ پکڑاتی ہوئی کہنے لگی، ’’شاہ سے تو تم ہمیشہ ہی لیتی ہو، لیکن مجھ سے تم پھر کب لوگی؟ چلو۔ آج لے لو۔‘‘
اور شاہ کی کنجری سوکے نوٹ کو پکڑتی یک بارگی چھوٹی سی ہو گئی۔۔۔
کمرے میں شاہنی کی ساڑھی کا شگنوں والا گلابی رنگ پھیل گیا۔۔۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.