کہانی کی کہانی
’’ایک بنگالی کنبے کی کہانی، جو کلکتہ سے چل کر حال ہی میں اس شہر میں آکر آباد ہوتا ہے۔ ایک دوپہر کرکٹ کھیلتے ہوئے ان کے اکلوتے بیٹےکو اغوا کر لیا جاتا ہے۔ بیٹے کی تلاش میں بنگالی بابو ہر جگہ جاتے ہیں۔ پولس والے ان سے بدتمیزی کرتے ہیں اور رشوت لیتے ہیں۔ لیکن ان کے بیٹے کو تلاش نہیں کرتے۔ آخر میں بیٹے کی جدائی میں تڑپتے بنگالی بابو کی مدد بازار میں ان کا پڑوسی ایک مسلمان نوجوان کرتا ہے۔‘‘
اغوا کی واردات دن دہاڑے ہوئی تھی۔
جب گلی میں لڑکے کرکٹ کھیل رہے تھے گلی کے موڑ پر ایک سفید رنگ کی کار رکی تھی۔ کار سے ایک آدمی کاغذ لئے ہوئے اترا اور سنیل کو اشارے سے بلایا۔ سنیل بیٹنگ چھوڑکر جانا نہیں چاہتا تھا، مگر وہ شاید کسی کا پتہ پوچھنا چاہتا ہے، ایک منٹ میں بتاکر آ جائےگا۔ وہ جیسے ہی کار کے نزدیک پہنچا، کار سے کئی آدمی اترے اور اسے اندر دھکیل دیا۔ کار اسٹارٹ تھی، لڑکوں نے شور مچایا مگر کار برق رفتاری سے گزر گئی۔ سنیل کا بلا وہیں پڑا رہ گیا تھا۔
ادھیڑ عمر کے دبلے پتلے انیل گھوش کلکتہ کے رہنے والے تھے اور سال بھر پہلے یہاں آکر چائے کی چھوٹی سی دوکان کھولی تھی۔ وہ اپنی بیوی اور بیٹے سنیل کے ساتھ ایک معمولی سے گھر میں کرایہ دار تھے۔ محلے والوں کو ان سے شکایت نہ تھی۔ ان کا بنگلہ آمیز لہجے میں ہندی بولنا سننے میں بہت اچھا لگتا۔ جب وہ ہندی میں بنگلہ زبان کا کوئی لفظ روانی سے بول جاتے تو لڑکے ہنسنے لگتے اور بڑوں کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل جاتی۔ وہ پڑھے لکھے آدمی معلوم ہوتے تھے۔ نہ جانے کس مصیبت نے اس عمر میں انہیں در بدری پر مجبور کیا تھا۔ ان کی موٹی سی تھل تھل کرتی بیوی تمام دن گھر کی سجاوٹ اور صفائی میں لگی رہتی۔ محلے کی عورتوں میں اس کی سجاوٹ کے بڑے چرچے تھے۔
سجانے کا سلیقہ کوئی بنگالیوں سے سیکھے چھوٹی سی جگہ میں کتنی چیزیں قرینے سے سجا دیتے ہیں اور دیکھنے میں بھی بھلی لگتی ہیں۔ ان کا اکلوتا بیٹا سنیل کرکٹ کا بڑا شوقین تھا۔ تیرہ چودہ برس کی عمر میں چہرے پر بڑا نمک تھا۔ جسمانی ساخت ماں جیسی تھی۔ بھرابھر جسم، بھرے ہوئے کو لہے، پڑھنے سے خاص دلچسپی نہ تھی۔ آٹھویں جماعت میں پڑھتا تھا۔ اسکول سے آتے ہی گلی میں کرکٹ بیٹ لے کر آ جاتا۔ تنہا ہوتو تو بلے سے بیٹنگ کے پوز بناتا رہتا۔ اسے دیکھ کر لڑکے آجاتے اور کھیل شروع ہو جاتا۔ وہ کلکتہ سے بلا اپنے ساتھ لایا تھا اور اسے اپنے بلے سے بےحد پیار تھا۔ اب وہ بلا سڑک پر پڑا ہوا تھا۔
گھوش بابو کو خبر ملی تو وہ دکان کھلی چھوڑ کر دوڑے آئے۔ بلا ابھی تک زمین پر پڑا ہوا تھا اور بچوں بڑوں کی بھیڑ اس کے گرد حلقہ بنائے کھڑی تھی۔ کیا ہوا؟ کیسے ہوا؟میرا بیٹا کہاں ہے؟ گھوش بابو کی سانسیں بری طرح پھول رہی تھیں۔ لوگ بلا چھوڑکر ان کے گرد جمع ہو گئے۔ گھوش بابو کی نظریں ایک ایک چہرے سے پوچھ رہی تھیں، سب گونگے بنے کھڑے تھے۔
بچوں نے پوری بات بتائی۔ بلے پر نظر پڑی تو گھوش بابو نے دوڑ کر بلا اٹھایا اور سینے سے لگا لیا۔ اسی وقت دھاڑیں مارتی ہوئی مسز گھوش بھی آ گئیں۔
’’بلاؤ پولیس کو بلاؤ، ہائے میرا بچہ۔۔۔‘‘
’’پولیس کو کون بلائےگا۔ ہم خود تھانے چلیں گے،‘‘ گھوش بابو نے روتے ہوئے کہا۔ ’’یہ شریف لوگ گواہی دیں گے کہ ہمارے سنیل کو کڈنیپ کیا گیا ہے۔‘‘
پولیس کے نام پر شریف لوگوں کے کان کھڑے ہو گئے۔ یہاں کا تماشہ ختم ہو رہا تھا۔ بچوں کو ڈانٹ کر گھر بھیجا گیا اور لوگوں کو ضروری کام یاد آ گیا۔
گھوش بابو ایک ایک کے آگے ہاتھ جوڑتے رہے، ’’آپ مقامی لوگ ہیں، میری مدد کیجئے۔ پولیس آپ کی بات مان لے گی ہم پردیسی ہیں ہماری۔۔۔‘‘
لوگ چلے گئے اور دونوں دھاڑیں مار مار کر روتے رہے۔ ’’چلو ہم خود تھانے چلیں گے،‘‘ مسز گھوش نے شوہر کا ہاتھ پکڑا۔
تھانے میں تھانیدار نہیں تھا۔ برآمدے میں منشی سامنے رکھی کرسی پر پاؤں پسارے آرام کر رہا تھا۔ دونوں روتے ہوئے پہنچے تو وہ چونک کر سیدھا ہو گیا۔
’’کون ہو تم لوگ۔ کیوں رو رہے ہو،‘‘ اس نے ڈانٹ کر پوچھا۔
دونوں نے مل کر روداد شروع کی تو اس نے پھر ڈانٹا، ’’بنگلہ میں نہیں، میں بنگلہ نہیں جانتے سالے۔‘‘
گھوش بابو نےبیوی کو چپ کرایا، ’’ہمارا بیٹا کڈنیپ ہو گیا ہے۔‘‘
’’کڈنیپ۔ اپ۔ ہرن،‘‘ منشی نے قہر آلود نظروں سے گھورا۔ ابے سالے دن میں اپ ہرن ہوا ہے۔، وہ بھی بیٹے کا۔ بیٹی ہوتی تو کوئی بات بھی تھی۔ تیرے بیٹے کا کون اپہرن کرےگا۔
رونا دھونا سن کر کئی سپاہی جمع ہو گئے۔ ’’یہ گرگٹ اس ہتھنی کو کیسے سنبھالتا ہوگا۔‘‘
’’بنگالی رس گلوں کی بڑی تعریف سنی ہے، کبھی چکھا نہیں،‘‘ دوسرے نے ہتھیلی پر انگوٹھے سے کھینی ملتے ہوئے ہوسناک نظروں سے دیکھا۔
’’لے جا چکھ لے، بہت بڑے بڑے ہیں۔ دونوں ہاتھوں سے سنبھالنے ہوں گے۔‘‘
’’نکال دو سو روپئے،‘‘ منشی نے گھوش بابو سے کہا تو انہوں نے جیپ کے سارے پیسے میز پر الٹ دیئے۔ مشکل سے تیس چالیس روپے ہوں گے۔
’’میں بہت غریب آدمی ہوں داروغہ جی۔ میرا بیٹا مل جائےگا نا۔۔۔‘‘
تھانے دار کی جیپ تھانے میں داخل ہوئی تو منشی نے جلدی سے روپے جیب میں رکھ لئے۔ سپاہی بھی ادھر ادھر ہو گئے۔
’’کیا بات ہے؟ کون ہو تم لوگ؟ تھانیدار نے پوچھا تو انہوں نے رو روکر روداد بیان کر دی۔ تھانیدار بےدلی سے ان کی باتیں سنتا رہا۔ پھر ایک حولدار سے بولا، ’’جاؤ دیکھو کیا بات ہے۔‘‘
جب وہ حولدار کے ساتھ محلے میں پہنچے تو عورتیں دروازو ں پر نکل آئیں۔ نہ سنیل کا کوئی دوست موجود تھا، نہ کوئی ایسا آدمی جس نے یہ واردات اپنی آنکھوں سے دیکھی ہو۔ وہ تو جب گھر آئے تو عورتوں نے بتایا کہ کوئی بات ہوئی ہے۔
حولدار نے سنیل کی تصویر دیکھی گھر کی مفلوک الحال کا جائزہ لیا او رکہہ کر چلا گیا کہ تم پیسے والے تو ہو نہیں کہ پھروتی کے لئے تمہاری بیٹے کا اپرہن ہوا ہو۔ اگر وہ خود سے کہیں نہیں گیا ہے تب بھی واپس آ جائےگا، گھبراؤ نہیں۔
پولیس کے جانے کے بعد پڑوسی پھر ان کے دروازے پر جمع ہونے لگے۔ مسز گھوش ان بے مروت لوگوں سے سخت برہم تھیں۔ ایسے پڑوسی کس کام کے جو وقت پر کام نہ آئیں۔ مگر گھوش بابو نے مصالحت کو زندگی کا شعار بنا لیا تھا اور کلکتہ چھوڑ کر وہ اور ٹوٹ گئے تھے۔ پڑوسی صرف یہ جاننے آئے تھے کہ تھانے میں کیا ہوا؟ باتوں کےدوان گھوش بابو کو دکان یاد آئی تو وہ بدحواسی میں دکان کی طرف بھاگے۔ کتے یا آوارہ پھرتی گایوں نے دودھ خراب کر دیا ہوگا۔ پندرہ کلو سے زیادہ دودھ تھا۔ بغل کی دوکان میں سائیکل بنانے والے غفور نے اتنی ہمدردی کی تھی کہ دودھ کا برتن اپنی دکان میں رکھ لیا تھا۔ وہ غفورے کو ایک لوفر آدمی سمجھتے تھے۔ شادی کے موسم میں جب یہاں تیسری جنس والوں کا گروہ آیا تھا اور عورت نما مرد سجے سنورے اس کی دوکان پر چائے پینے آتے تو بھیڑ لگ جاتی۔ غفورے سب سے زیادہ منہ سے طرح طرح کی آوازیں نکالتا، سسکیاں، سیٹیاں اور آہیں۔ جب تک وہ وہاں رہتے غفورے ہاتھ روکےانہیں شہوانی نظروں سے دیکھتا رہتا۔ اسے غفورے سے چڑ ہو گئی تھی۔ کئی بار مانگنے پر وہ اسے چائے دیتا تھا۔ وہی غفورے آج اس کی چھوٹی سے کائنات کا محافظ بن گیا تھا۔
چولہا ٹھنڈا ہو گیا تھا۔ اس نے بجھے ہوئے چولہے میں تھوڑا سا کوئلہ ڈال کر پنکھا جھلا اور دودھ گرم کرنے لگا۔ آس پاس کے دوکانداروں نے واقعات جاننے کے لئے بھیڑ لگا دی۔ وہ بے دلی سے ان کے جوابات دیتا رہا۔ جب سب چلے گئے تو اس نے غفورے سے پوچھا۔
’’غفورے بھائی، اب کیا کروں؟ میرا سنیل کیسے ملےگا؟‘‘
غفورے نے سائیکل بنانے کا سامان لکڑی کے بکس میں رکھتے ہوئے اسے ہمدردی سے دیکھا۔
’’یہ شہر بہت ظالم ہو گیا ہے گھوش بابو، پہلے ایسا نہیں تھا۔ جب سے گاؤں میں مالے کی سرگرمیاں بڑھی ہیں اور پیسے والے کسان شہر میں بسنے لگے ہیں گاؤں کی بکھری ہوئی برائیاں ایک جگہ جمع ہو گئی ہیں۔ نہ جان محفوظ ہے نہ عزت۔ تھانے میں رپورٹ لکھوائی؟‘‘
’’پتہ نہیں لکھی گئی کہ نہیں۔ منشی نے روپئے لیے ہیں۔‘‘ تھانے کا ہتک آمیز برتاؤ یاد کر کے گھوش بابو آبدیدہ ہو گئے۔
’’آخر سنیل کا اپہرن کیوں ہوا ہے۔ میں تو بہت غریب آدمی ہوں اور میرا کسی سے جھگڑا بھی نہیں ہے۔‘‘
غفورے کی نظروں میں سنیل کا سراپا گھوم گیا۔ بھولا بھالا چہرہ، بھاری کولہے اور ہاف پینٹ سے باہر تندرست اور سڈول ٹانگیں۔ خود اس نے کئی بار سوچا تھا اگر اسے شلوار اور جمپر۔۔۔ اس نے کپکپا کر لکڑی کا بکس اٹھا لیا اور دکان کے اندر رکھنے چلا گیا۔
’’کیسے بتاؤں کہ کیوں اغوا ہوا؟‘‘ غفورے نے دکان بند کرتے ہوئے کہا۔
’’ویسے آج کل بچوں کی بہت مانگ ہے، خون کے لئے، کھاڑی کے ملکوں میں بھیک منگوانے کے لئے، آنکھوں، گردوں اور ہڈیوں کے لئے۔۔۔‘‘
نہیں نہیں۔۔۔ گھوش بابو نے گھبراکر غفورے کو روک دیا۔ وہ خود بھی اخباروں میں اس طرح کے دلدوز واقعات پڑھتے اور سنتے رہے تھے۔۔۔ جب سے سنیل کا اغوا ہوا تھا اخبار کی سرخیاں ایک ایک کر کے ذہن کے پردے پر جل بجھ رہی تھیں اور وہ بار بار ذہن جھٹک رہے تھے۔
دکان بند کر کے وہ گھر نہیں گئے۔ ایک گلی سے دوسری گلی، ایک محلے سے دوسرے محلے میں پھرتے رہے۔ شاید سنیل واپس آ گیا ہو؟ اپنے گھر کے دروازے پر پہنچ کر انہوں نے اندر کی آہٹ لی۔ صرف بیوی کی سسکیوں کی آوازیں ابھر رہی تھیں۔
وہ دھیرے سے دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئے اور کٹے ہوئے درخت کی طرح بستر پر ڈھ گئے۔ انہیں ایسے نڈھال دیکھ کر بیوی کی سسکیاں اور تیز ہو گئیں۔
’’کیوں روتی ہے پگلی، بھگوان پر بھروسہ رکھ،‘‘ انہوں نے رندھے ہوئے گلے سے کہا۔‘‘ کیا ہم راجہ ہریش چندر ہیں کہ گھر چھوٹا، وطن چھوٹا او رپردیس میں بیٹا بھی چھن گیا۔‘‘
نہ جانے سنیل کیسا ہوگا، ظالموں نے اس کے ساتھ کیا کیا ہوگا۔ بیوی کی بات پر ان کے ذہن میں اخبار کی سرخیاں بھی کوندنے لگیں تو وہ تکیہ میں منہ چھپا کر بےآواز رونے لگے۔ خوب رو لینے کے بعد اٹھ کر منہ ہاتھ دھویا۔ بیوی صبح کی روٹی لے آئی مگر یہ سوچ کر ان سے کھایا نہ گیا کہ سنیل بھوکا ہوگا۔
بیوی نے سمجھایا، ’’پانی سے نگل لو نہیں کھاؤگے تو سنیل کو کیسے ڈھونڈوگے؟‘‘
’’میں بھی یہی سوچتا ہوں مگر کیا کروں، الٹی آ رہی ہے۔‘‘
اس رات جب بھی ان کی آنکھ لگی انہوں نے سنیل کو بھیڑیوں میں گھرا ہوا دیکھا۔ ایک بھیڑیا اس کی پیٹھ کا گوشت نوچ رہا تھا اور وہ اس کے نیچے دبا ہوا درد سے کراہ رہا تھا۔ وہ ہڑبڑاکر اٹھ جاتے تو سائیں سائیں کرتی ہوئی رات میں انہیں اپنے دل کی دھڑکنیں صاف سنائی دیتیں۔
منہ اندھیرے وہ گھر سے نکل گئے۔ اس بار وہ شہر کے باہر کچھ ڈھونڈتے پھر رہے تھے۔ انہوں نے جھاڑیوں کی اوٹ میں جھانکا۔ کھیتوں میں غیر معمولی پن ڈھونڈا، کنویں تالابوں پر نظریں گاڑیں، جب سورج نکل آیا تو وہ نڈھل قدموں سے تھانے پہنچے۔
سپاہی اسے دیکھ کر ہنسنے لگے، ’’لو آ گیا سالا بنگالی گرگٹ۔ ہتھنی کو کہاں چھوڑ دیا ہے۔‘‘ وہ ان کی بات سنی ان سنی کر کے منشی کے کمرے میں داخل ہو گئے۔ منشی نے انہیں دیکھ کر بڑی نرمی سے پوچھا، ’’آ گیا تمہارا بیٹا۔۔۔‘‘
’’نہیں،‘‘ انہوں نے انکار میں سر ہلایا۔
’’پھر صبح صبح اپنا منحوس چہرہ لے کر یہاں کیوں چلے آئے۔ سالے تیس روپے میں رپورٹ لکھوائیں گے۔ جاؤ بھاگو یہاں سے ما۔۔۔‘‘ اس نے اس نرمی سے گالیاں دیں پھر رجسٹر میں لکھنے لگا۔
تھانیدار، ابھی نہیں آیا تھا اور تھانے کا ماحول ناقابل برداشت۔ وہ مایوس ہوکر باہر نکل آئے۔
انیل گھوش تم کہاں چلے آئے ہو۔ یہ بنگال کی ملائم دھرتی نہیں کہ پاؤں چھو جانے پر لوگ معافی مانگتے ہیں۔ انہوں نے اپنے آپ سے کہا۔ یہ پتھروں کا شہر ہے۔ یہاں کی زمین جتنی سخت ہے لوگوں کے دل اس سے زیادہ سخت ہیں۔ ماں بہن کی گالیوں کو یہ سلام دعا کی طرح استعمال کرتے ہیں۔ بیٹا بھی گیا اور تھوڑی سی غیرت جسے بچانے کے لئے تم نے گھر اور وطن چھوڑا تھا وہ بھی برباد ہو رہی ہے۔
وہ گھر نہیں گئے۔ وہ بیوی کی سوالیہ نظروں سے گھبراتے تھے۔ وہ ماں ہے، اس کی تڑپ دیکھی نہیں جاتی۔ دوپہر تک شہر کی گلیوں میں بھٹکتے رہے۔ گھر گئے تو بیوی نے دوچار نوالہ بھات کھلوایا۔
’’دکان نہیں جاؤگے تو دودھ خراب ہو جائےگا۔‘‘
کس دل سے کان کھولوں، لوگوں کو چائے پلاؤں جب ہمارا بچہ بھوکا ہوگا،‘‘ وہ بولے تو بیوی پھپھک پھپھک کر رونے لگی۔ کچھ دیر رونے کے بعداس نے آنچل سے آنکھیں پونچھیں۔
’’کل کی بکری تھانے میں چلی گئی۔ دودھ خراب ہو گیا تو پونجی ٹوٹ جائےگی۔ ایسے مارے مارے پھرنے سے کیا حاصل۔‘‘
انہیں بیوی کی بات میں وزن نظر آیا۔ دکان کھولی تو دوکانداروں نے سوالیہ نظروں سے انہیں دیکھا مگر کوئی پاس نہ آیا۔ انہوں نے غفورے سے بات کی۔ تھانے کا حال سن کر غفورے نے افسوس میں سر ہلایا، ’’میں جانتا ہوں تھا نہ غریبوں کے لئے نہیں ہے۔‘‘ گھوش بابونے محسوس کیا غفورے کچھ کہنا چاہتا ہے مگر ہچکچا رہا ہے، جب گھوش بابو نے بہت ضد کی تو کہنے لگا، ’’ صرف آج بھر انتظار کر لو، میں کچھ سوچ رہا ہوں۔ صبح تک سنیل گھر نہ آئے تو کل میں تمہارے ساتھ تلاش میں نکلوں گا۔‘‘
گھوش بابونے مضبوطی سے غفورے کا ہاتھ تھام لیا، ’’اگر سنیل مل گیا تو میں زندگی بھر تمہاری غلامی کروں گا غفورے بھائی۔ اس شہر میں تم پہلے آدمی ہو جس نے سیدھے منہ سے بات کی ہے۔ کل کا انتظار کیوں کر رہے ہو، اگر کچھ کر سکتے ہو تو آج کرو، ابھی کرو، میرے پاس جان کے سوا کیا ہے وہ میں سنیل پر نچھاور کرنے کو تیار ہوں۔‘‘
غفورے کی ذرا سی ڈھارس نے گھوش بابو کی پریشانی کچھ کم کر دی۔ مگر غفورے کہاں ڈھونڈےگا، وہ خود شہر کا ایک ایک گھر سونگھ آیا ہے۔
دن گزرا، رات ہوئی، بیوی برسوں کی بیمار نظر آ رہی تھی۔ وہ خودبھی بڑی کمزوری محسوس کر رہے تھے۔ آج دوسری رات سنیل گھر میں نہیں تھا۔ نہ جانے کہاں، کس حال میں ہوگا، زندہ یا۔۔۔ اسی شہر میں یا۔۔۔
ساری رات ایک پل کے لئے نیند نہ آئی۔ کالا کلوٹا ملیچھ ساغفورے ذرا سی امید بندھاکر کتنا عظیم ہو گیا تھا۔
منہ اندھیرے وہ گھر سے نکل گئے۔ بستر پر پڑے پڑے صبح کا انتظار کر تے بڑی کوفت ہو رہی تھی۔ آج انہوں نے شہر کے دوسرے ویران کنارے کا رخ کیا اور جب دھوپ نکل آئی تو وہ دکان پہنچے۔ غفورے کی دکان بند تھی۔ وہ بے چینی سے ٹہلتے رہے۔ بہت دیر بعد غفورے آیا۔ وہ بہت گمبھیر نظر آ رہا تھا۔ اس نے اشارے سے ساتھ چلنے کو کہا۔ خلافِ معمول وہ بہت خاموش تھا۔ گھوش بابونے سنیل کے بارے میں پوچھا تو اس نے انکار میں سر ہلا دیا۔ بہت دور چل کر وہ رک گیا۔
’’کمل دیو سنگھ کو جانتے ہو، یہ اسی کا مکان ہے۔‘‘
گھوش بابو کمل دیو سنگھ کا نام سن چکے تھے۔ وہ مشہور غنڈہ تھا، سنیل یہاں ہے، گھوش بابو کادل بیٹھنے لگا۔
’’برآمدے میں جو شخص بیٹھا اخبار پڑھ رہا ہے اس کے پاس جاؤ اور کم سے کم لفظوں میں پوری بات کہہ دو۔‘‘
سنیل کے لئے گھوش بابو موت کے منہ میں جا سکتے تھے۔ ڈگمگاتے قدموں سے گیٹ کے اندر قدم رکھا تو جیپ کے پاس کھڑے ہوئے لوگوں نے للکارا۔۔۔ کون ہے بے۔۔۔‘‘
’’مالک۔۔۔ گھوش بابو نے گھگھیا کر برآمدے کی طرف اشارہ کیا۔ ایک بار مالک سے ملنے دو۔‘‘
انہوں نے گہری نظروں سے اس کا جائزہ لیا اور چپ ہو گئے۔ برآمدے کی سیڑھیاں چڑھتے وقت وہ گرتے گرتے بچے اور کرسی کے پہنچ کر رو روکر اپنی داستان بیان کر دی۔
اخبار سے نظریں ہٹ کر گھڑی بھر کے لئے ان کے چہرے پر رکیں اور کسی کا نام لے کر پکارا گیا۔ پردے کے پیچھے سے ایک آدمی جن کی طرح نمودار ہوا تو حکم دیا گیا۔ اس آدمی کو لے جاؤ، دیکھو، نظریں پھر اخبار پر مرکوز ہو گئیں۔
وہ سحر زدہ سے اس آدمی کے پیچھے چلنے لگے۔ انہیں جیپ پر بٹھایا گیا۔ جب جیپ اغوا کی جگہ پہنچی تو گھوش بابو کو جیپ کے سامنے کھڑا کر کے اعلان ہوا۔
’’کمل دیو سنگھ کا حکم ہے کہ اس بنگالی کے بیٹے کو دو بجے تک گھر پہنچ جانا چاہئے۔‘‘
کئی بار اعلان ہوا۔ جیپ گھر گھراکے آگے بڑھی تو بھیڑ کائی کی طرح پھٹ گئی۔
گھوش بابو گھر چلے آئے۔ غفورے کا کہیں پتہ نہ تھا۔
یہ سارا تماشہ فلمی انداز کا تھا مسز گھوش بار بار پوچھ رہی تھیں۔ کیا واقعی ہمارا بیٹا واپس آ جائےگا۔ گھوش بابو کیا جواب دیتے۔ وہ خود غیر یقینی صورت حال کا شکار تھے۔ دن کا گیارہ بجا، پھر بارہ، پھر ایک بجا تو دروازہ کھلا۔
سنیل لنگڑاتا ہوا زرد چہرہ لئے گھر میں داخل ہوا تو مسز گھوش چیخ مارکر بیٹے سے لپٹ گئیں۔
یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح محلے میں پھیل گئی۔ ایک بار پھر ان کے دروازے پر بھیڑ اکٹھی ہوئی۔ جب غفورے آیا تو گھوش بابو اس کے گریس اور تیل میں لتھڑے ہاتھ کو اپنی آنکھوں پر ملنے لگے۔ وہ بری طرح رو رہے تھے۔
’’اب کیوں روتے ہو گھوش بابو، اب تو سنیل گھر واپس آ گیا۔‘‘
’’سنیل کے لئے نہیں روتا غفورے، میں تو اس لئے روتا ہوں کہ جب کمل دیو سنگھ اغوا کرنے لگےگا تو سنیل کو کون نجات دلائےگا۔ بول غفورے، کون نجات دلائےگا؟‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.