Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

شہرہائے ذغالی

ثروت نجیب

شہرہائے ذغالی

ثروت نجیب

MORE BYثروت نجیب

    سن پندرہ سال پر سات سال اوپر گزر گئے ابھی تک میری داڑھی نہیں آئی۔ البتہ بہت سی داڑھیاں رسی کی طرح بَٹی ہوئی میرے پاؤں سے لپٹی ہوئی ہیں۔ نجانے کب قیامت ان بیڑیوں کو کھولنے آئےگی؟

    چوک پہ کھڑا ٹریفک پولیس میری طرح پچھلے سات سالوں سے یہیں ہے۔ اس سے پہلے کوئی اور تھا جو اس کی طرح بےہنگم گاڑیوں کے آہنی اژدھام کو سمیٹنے کی کوشش میں دن سے شام کر دیتا۔ اس کے منہ میں دبی سیٹی لعاب دہن کی وجہ سے کبھی کبھی ٹھیک سے آواز نہیں نکالتی۔ پر ایسا تب ہوتا ہے جب اس کے اعصاب خراب ہونے لگتے ہیں۔ زمین سے تقریباً تین فٹ اونچی چار ضرب چار اور چپٹی آلمانی، اطالوی بیش قیمت سریع الحرکت گاڑیوں میں بیٹھے مغرور مالکان جن کی گردنیں ڈالرز کے کلف سے اکڑ چکی ہیں اکثر اس کے اشاروں کو روندتے گزر جاتی ہیں۔ پھر یہ پیلی کھٹارہ موٹر کی کھڑکی میں آدھا دھڑ گھسائے ڈائیور پہ پل پڑتا ہے۔ جو دو چار تھپڑ کھانے کے بعد ادھڑی واسکٹ درست کرتے ہی شیشہ اوپر چڑھائے موٹی موٹی گالیاں دے کر اپنی بھڑاس نکال لیتا ہے۔

    میں اس کے تاثرات دیکھ کر محظوظ ہو جاتا ہوں۔ اذیت میں یہ زرا سی عیاشی غنیمت ہے۔

    چوک کی منڈیر پہ بیٹھا لولا لنگڑا فقیر ایک دھماکے میں ٹانگ گنوا بیٹھا۔ پہلے اداکاری کرتا تھا۔ اب سچ مچ بیساکھی اس کے وجود کا حصہ بن گئی ہے۔ دراصل یہ ایک جاسوس ہے۔ مجھے اس پہ سخت ترس آتا ہے۔ نازو نعم میں پلا اب وقت کی دھتکار کھاتا نجانے کِس دن کا منتظر ہے۔ اس کی ماں اسے کشکول اٹھائے بھیک مانگتے دیکھ لیتی تو کلیجہ پسلیوں کے پنجر توڑتا پیروں میں آ گرتا۔ جسے تسلیاں اٹھا کر واپس اپنی جگہ نصب کر دیتیں۔

    عظمت و شہادت کا بیڑا غرق۔۔۔

    جو محبتوں کے سمندر پی کر بھی سیر نہ ہو سکی۔ موڑ کاٹتے ہوئے ایک گاڑی میری ابلہی کے اوپر سے گزر گئی۔

    یہی روزکا معمول ہے۔

    نجانے کتنی گاڑیوں کے پہییوں سے میری حماقتیں چپکی ہوئی ہیں۔

    کسی کو کیا خبر؟

    جیسے بچپن سے بےخبر یہ مزدور کم سن بچیاں!

    میلے کچیلے ارغوانی و جامنی دوپٹے اوڑھے شیشے صاف کرتی ونڈ سکرین پہ جمی میل کی طرح ہیں۔ یہ کسی کی دھول اتارتی ہیں کوئی ان کی گرد اتارتا ہے۔ ان کی ننھی مٹھیوں میں بند ریزگاری سے چولہے جلتے ہیں۔

    ایک معلمہ ماں بیٹےکو چومتی باتیں کرتی یہاں سے گزرتی ہے۔ چھ ماہ کا بچہ کیا سمجھتا ہوگا سوائے محبت کے۔

    یہاں اسی چوک کے پاس ایستگاہ پہ ایک نوجوان اپنی نوخیز محبوبہ سے مل کر جدا ہوتا ہے۔ چار گھڑی کی ملاقات عوامی بس کے آتے ہی ختم ہو جاتی ہے۔

    دونوں کے لب ایک دوسرے کو دیکھ کر پھیل جاتے ہیں جس سے میں نے اندازہ لگایا ہے عنقریب ایک گھر بسنے والا ہے۔

    کتابیں تھامے ٹک ٹک کرتی کالی سینڈل میں پھدکتی سفید سکارف اوڑھے لڑکیوں کا ایک ٹولہ بھی یہیں سے گزرتا ہے۔ نجانے کون سے بےغیرت والدین ان کو اس بےحیائی پہ اکساتے ہیں۔ شروع دنوں میں انھیں دیکھ کر خون کھول جاتا تھا۔

    میں چپ کر کے دیکھتا رہتا تھا۔

    اب اکثر سوچتا ہوں!

    میرے بہن بھائی تو کیا اُن کی نسلوں کو بھی شاید تعلیم کی ایسی نعمت میسر ہو۔۔۔

    مل بھی جائے تو کیا؟

    آخر کٹھ پتلیاں ہی تو بننا ہے سب کو۔

    جن کی سوچ کی ڈوریں کسی اور کے ہاتھ میں ہوتی ہیں۔

    اگر کبھی وہ خود سے تھرکنا چاہیں تو ان کے ماتھے پہ کلنک لگا کر معیوب کر دیا جاتا ہے۔ جنھیں انھی کی ساتھی کٹھ پتلیاں بطخ کے سیاہ بچے کی طرح چھانٹ کر نکال دیتی ہیں۔

    پھر تنہائی کے طعنے گدھ کی طرح اُس کا وجود ادھیڑ ادھیڑ کر باقیات بھی نہیں چھوڑتے۔

    بعد از مرگ کئی نسلیں اسی شش و پنج میں رہتی ہیں کہ لاوارث مرحوم آخر تھا کون۔

    غدار یا وفادار؟

    میں نے یہ زندگی پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ چندھیا دینے والی موٹروں کی بتیوں کی طرح جو بندے کو اندھا بھی کر سکتی ہیں۔

    میں تو دیے کی لاٹ کی طرح جیون بتاکر آیا ہوں۔ جو دوسروں کے تیل پہ جلتے جلتے جل ہی گیا۔

    میں بجھے چراغ کی طرح مفلس والدین کا اضافی بیٹا تھا۔ جس کے نصیب میں مدرسہ محض اس لیے آیا کہ میں کم خونی کی وجہ سے کام کرنے لائق نہ تھا۔ کھیت میں ذرا سی دیر جڑی بوٹیاں اکھاڑ کر ہانپنے لگتا۔ کم کام کے عوض مالک آدھی دیہاڑی بھی اینٹھ لیتا۔ ایندھن کے لیے سوکھے پتے چننے ماں باہر بھیجتی تو واپسی پہ چہرہ خزاں آلود ہو جاتا۔ پشت پہ لادے بوجھے کے ساتھ ہی وجود گھسیٹتے گھسٹتے گھر پہنچتے ہی بوجھے سے پہلے گر جاتا۔

    میری ماں خود بیمارستان تھی۔

    جہاں ہر بیماری موجود ہوتی ہے۔

    پھیکی رنگت، پچکے چہرے میں دھسنی بے رونق آنکھیں، سوکھی ہریڑ کی طرح کھردرے ہاتھ، سکڑی پیشانی پہ پھیلی فکریں، پپڑی جمے ہونٹوں پہ صدقے قربان۔

    ہم پہ واری واری جاتی۔۔۔

    میری ماں کے پاس بس دو لباس تھے۔ پنڈلیوں تک لمبی کرمزی گھیرے دار قمیص کے نیچے سفید شلوار جسے نماز پڑھتے وقت وہ اتار دیتی۔ پاکی پلیدی کا بہت حساب جو رکھتی تھی۔ جب تک وہ نماز پڑھتی کمرے کا دروازہ بند رہتا۔

    ہمارا گھر ایک ایسے گاؤں میں تھا جہاں سورج کی کرنیں بھی زمین پہ دیر سے پڑتیں۔ پر مجھے حیرت ہے ایسے دشوار گزار علاقے میں جہاں قانون پہنچ سکتا ہے نہ سہولیات۔۔۔

    وہاں مذہب کیسے پہنچ جاتا ہے؟

    اور کیوں پہنچ جاتا ہے؟

    اس تاریک کمرے کے شہتیر سے بندھا چوبی پنگوڑا ہمیشہ آباد ہی رہتا۔

    کیوں کہ روزی رسان تو خدا ہے۔

    پر اس نے پنگوڑے میں بلکتے بچے کو کبھی چھاتی سے نہیں لگایا۔

    کارنس پہ سجے پلاسٹک کے دو گلدان جن میں سالوں سے سرخ گلاب اب گردوغبار سے سیاہی مائل ہو چکے تھے۔

    ٹوٹے فریم میں سجی بابا کی تصویر، چھ تانبے کے گلاس اور اللہ کا نام۔

    ہمارے پاس زندگی گزارنے کے لیے زندگی سے ذیادہ بیش قیمت کچھ بھی نہیں تھا۔

    باورچی خانے کی کالی دیواروں کو سال میں ایک بار لپائی کرتے مگر چھت خوفناک حد تک سیاہ ہو چکی تھی۔

    مجھے اس مشکی سائباں سے بہت خوف آتا۔ نجانے کب باھیں پھیلا کر مجھے نگل لے۔

    گھی چنے مٹی کے برتن جن میں کوئی ایک ٹوٹ جاتا تو ماں پھوٹ پھوٹ رونے لگتی۔

    سردیوں میں آلو یا شلجم، کا چھلکوں سمیت شوربہ بنتا جسے خشک خمیری روٹی کے ساتھ سب شوق سے کھاتے۔

    گرمیوں میں کھیرے، ککڑی، یا پیاز کو روٹی میں لپیٹ کر من و سلویٰ کی طرح پیش کیا جاتا۔

    دادا دن رات کھانستے کھانستے تمباکو کا پنڈا بن چکا تھا۔ باورچی خانے کے ساتھ اس کا کمرہ سردیوں میں جنت اور گرمیوں میں عذابِ الہی بن جاتا۔ وہ سارا دن درخت کے نیچے ہوا کے ٹھنڈے میٹھے جھونکوں کی دعائیں مانگتے، پاس پڑی مٹی کی ڈھیری پہ تھوکتے گزار دیتا۔ رات ہوتی تو وہ حالت ہو جاتی جیسے تھکا اونٹ سرائے کو تکتا ہے۔ ہمارے سمیت چار چچاؤں کے ڈھیر سارے بچے صحن میں سال کے بارہ مہینے اودھم مچائے رکھتے۔ تین سال کی عمر تک بچے بنا شلوار اور چپل کے یک چولے میں مست رہتے۔

    اس کے بعد سفید پوشی کا تہہ بند باندھ لیتے۔

    تعلیم کا تصور دین تک محدود تھا۔ روٹی اور سپارے کو چوم کر آنکھوں سے لگانا ہمارا عقیدہ تھا۔

    جب میری ماں میری آنکھوں میں سرمہ ڈال کے ماتھا چوم کے سیپارہ ہاتھ میں تھماتی تو میں کہتا!

    ‘’قاری صیب کتا۔۔۔’‘

    وہ مسکرا کر کہتیں۔۔۔

    ‘’قربان جاؤں تم پہ’‘

    کاش ماں نے کبھی تو پوچھا ہوتا میں سفید صافے والے مقدس آدمی کو اتنی نجس گالی کیوں دیتا ہوں۔

    عصر کی نماز کے بعد شکستہ مسجد کے کچے صحن میں بچوں کے دائرے میں منہ بسورتے خود کو فٹ کر دیتا۔

    لا ریے برفیہ

    لا ریے برفیہ

    قاری میرا جھومتا سر جھنجھوڑ کے چِلاتا

    لا ریب فیہ۔۔۔

    جو دھیرے دھیرے پھر سے لا ریے برفی بن جاتا۔

    ماں کہا کرتی تھی!

    میں مولوی بنا تو دین و دنیا سنور جائےگی۔ گاؤں کے لوگ گھر آ کے پکوان دیں گے۔

    میرا مستقبل تابناک تھا۔ پر میرے مزدور باپ نے باقی بچوں کی خوش آئیندگی کے لیے مجھے وظیفے پہ لگا دیا۔

    مولوی کہتا اللہ کی راہ میں اولاد وقف کرنا بچوں کی زکات نکالنے کے مترادف ہے۔ اس بچے کے عوض گھر میں جو برکتیں آئیں گی اس کا تصور محال ہے۔ خدا کی راہ میں بھینٹ کا رواج بہت پرانا ہے۔ پھر ایک بچے کے کرموں کا پھل سات نسلوں کو ملنا الگ بونس۔

    میری ماں البتہ کملا سی گئی تھی۔ سب سے پہلے اس نے یہی پوچھا!

    ‘’چھٹی کتنے دن بعد ملا کرے گی؟’‘

    بابا نے اسے بری طرح جھڑک دیا۔

    کہا!

    ‘’تو اپنی اور آنے والے بچے کی خیر منا۔‘‘

    ’’دائی کہتی ہے تجھے اس بار متوازن غذا نہ ملی تو تیرے سمیت آنیوالے جی کی بھی چھٹی ہو جائےگی۔’‘

    آنےوالا جی اب تک آ چکا ہوگا اور مسجد میں سپارہ تھامے قاری کو گالیاں بکتا سبق پڑھنے جاتا ہوگا۔

    جہاں سے میرے سفر کا آغاز ہوا تھا۔

    وظیفہ ملتے ہی میں مسجد سے ہی مدرسے منتقل ہو گیا۔ پھر میری زندگی کو پنکھ لگ گئے۔۔۔

    میں نے پرائے جوتے پہن کر صدیوں کا سفر لمحوں میں طے کیا۔

    یہاں سپارہ تھا نہ قاری صیب کی چھیڑ خانی۔

    بس ورزشیں کرواتے اور تقریریں سنواتے۔

    میرے بال شانوں تک لمبے ہو چکے تھے۔

    جو میں نے لیلیٰ کے عشق میں بڑھائے تھے۔ میں اس دن کا منتظر تھا جب سیاہ غلافی نینوں والی اپنی مخروطی انگلیوں سے میرے گیسو سنوارےگی۔

    اس کا وجود کافور، مشک اور عود کے خمیر سے گندھا ہوا تھا۔ انار کے دانوں جیسے رسیلے لب مثل عقیق و یاقوت، احمریں رخسار، گل اندام، سیماب صفت جس کے ہونٹوں پہ سلام سلام کے سوا کچھ نہ تھا۔

    وہ ہر شب میرے خواب میں آتی۔ اکثر شفاف ریشم پہنے اٹھلاتی ہوئی سفید گلاب ہتھیلی پہ سرخ شراب کا جام دھرے ادائے دلبری سے وہ میرے خشک ہونٹوں سے لگاتی۔ جو میرے لبوں کو مس کرتے ہی لیلیٰ کے لبوں میں ڈھل جاتا۔

    جس سے ٹپکتا گاڑھا شہد میرے حلق میں اترتے ہی ہلچل مچا دیتا۔ اچانک میرے اندر سو آدمیوں کی قوت آ جاتی۔ میں اس کے بدن کو دبوچ لینے کی حد تک قریب لاتا وہ کپاس کی طرح بکھرتی جاتی۔

    اس سفید فام کا بدن چھوتے ہی میں سرور و مستی کی طلسماتی دنیا میں داخل ہو جاتا۔

    اس کے طلائی کھنکھتے گنگنوں کی چھن چھن مدھر ساز بجاتی ہوش ربا سماں سا باندھ دیتی۔

    لیلیٰ اکثر داہنے باہنے نفیس ریشم اوڑھے سہیلیوں کے جھرمٹ میں نمودار ہوتی۔ اس کی ہر ایک سہیلی مجھ پہ دل و جان سے فدا۔ کوئی تازہ بیل سے اتارے انگور کے خوشے میرے منہ کے قریب لا کر میری تواضع کرتی۔ کوئی مدھوش کر دینے والے چھلکتے جام جیسی مجھ پہ ہی چھلک جاتی۔

    حسد سے پاک میری لیلیٰ کھکھلا دیتی۔ میں اس کی سہیلیوں سے نہیں لیلیٰ کی چاہ میں دیوانہ تھا۔

    جس کا لمس بدن پر پانی کی مانند غیر محسوس طریقے سے پھسلتا جاتا۔ لذت وصل کے بعد پھر سے باکرہ ہونے والی حسینہ مجھ پہ کنول کے پھول کی طرح پرت در پرت کھلتی۔

    جسے سہیلیاں رشک سے کہتیں!

    ‘’تیرا حسن اگر معلوم ہو جائے تو ہر کوئی تجھے پانے کی چاہ کرے گا’‘

    آہ! اس کا سراپا 'انداز و ادائیں۔۔۔

    جیسے لپ میں شفاف پانی، ویسے ہی وہ مجھے اندر تک دیکھائی دیتی۔

    میں اسے پانے کے لیے کچھ بھی کر سکتا تھا۔

    کچھ بھی۔۔۔

    مگر میری جسمانی کمزوری آڑے آنے لگی۔ مجھے بندوق کے بجائے باردو بنانے کی تربیت ملنے لگی۔

    زندگی میرے اور لیلیٰ کے درمیان اس گھونگھٹ کی طرح حائل تھی جسے اٹھاتے ہی سرورِ قربت کی گھڑیاں شروع ہو جاتی ہیں۔

    میرے مزاج میں چڑچڑاپن در آیا۔ شہادت کی تمنا نے میرے سارے وجود میں نشیلی سوئیاں چبھو کر مجھے مخمور کر دیا تھا۔

    روز بہ روز دیوانگی کی شدت بڑھنے لگی۔ دل چاہتا میدان کارزار میں بس کود پڑوں اور کفار پہ وہ ہلہ بولوں کہ آخرش میری معشوقہ حورِ لائبہ جسے میں پیار سے لیلیٰ کہتا باھیں پھیلائے اپنے نفیس آنچل کے سائے میں مجھے ھمراہ لے ہی جائے۔

    میں اذنِ شہادت مانگتا اور وہ کسی اور بخت میں لکھ دیا جاتا۔

    میرا نام بدل چکا تھا۔ مگر میری سرشت وہی تھی۔

    فطری ضروریات جن سے میں الگ تھا مجھے اندر ہی اندر سے کچوکے لگاتیں۔ کتنے سال بیت گئے میں نے عورت کا وجود تک نہ دیکھا تھا۔ مگر اس کے بارے میں دلفریب بیان سن سن کر دیوانہ ہو چکا تھا۔ غاروں میں انسان زندہ مگر انسانیت دفن ہو چکی تھی۔ یہیں مجھے معلوم ہوا کہ عاشق کا رشتہ محبوب کے ساتھ کن دھاگوں سے بندھا ہے۔

    مجھے لافانی ہستی کے لیے فنا ہونے کی آرزو تھی۔

    امیر جماعت صحت مند جثے کے مالک، بادامی صافہ اوڑھے سفید براق لباس، گھنی چمکتی داڑھی اور منڈھی ہوئی مونچھیں، ہاتھ میں فون، جیپ سے اترتے ہی امیر مدرسہ کی کوٹھڑی میں گھس جاتے۔

    ان کی معیت میں جہاد و جنت پہ روشنی ڈالنے والے استاد ہوتے۔

    جو کہتے!

    ‘’جنت میں حوروں کے ہونٹوں سے جام پی کر یہی آرزو کرو گے کہ۔۔۔‘‘

    ‘’ہزار بار بھی جیون ملا ہزار بار شہید ہونا چاہوں گا’‘

    میں دل ہی دل میں بڑبڑاتا۔

    کیوں نہیں استاد صیب!

    ‘’میں تو مچل رہا ہوں۔’‘

    پانی کے ہلکوروں پہ تیرتی جیون کی کشتی سے اتر کر حسن جاناں کے پہلو میں مدھوش ہونے کو۔

    جہاں پیٹ بھر خوراک، نرم گرم بچھونے، اپسراؤں کی آغوش، شراب و شیر، بنا جسمانی مشقت کے ہر نعمت کا حصول ہے۔

    وہ جنت مجھے ہزار جان کے بدلے دل سے قبول ہے۔

    میری کیفیت تو وہی سمجھ سکتا ہے جس سے آٹھ برس کی عمر میں ماں کی آغوش چھین لی جائے۔ جو بہن بھائیوں سے جدا، کنچے کھیلنے کے بجائے ویران چٹیل پہاڑوں کے دامن میں سخت گیر استادوں کی پھٹکار سنے۔

    تندور کے لیے لکڑیاں چننے مارا مارا ویرانوں میں پھرتا رہے۔

    پیاز چھیلے، آلو کاٹے اور بدلے میں بدمزہ کھانے کھائے۔

    تنگ و تاریک کال کوٹھٹری میں جہاں سردی کی شدت اور گرمی میں حبس کے سوا کچھ بھی نہیں تھا۔ ان مصائب کا گولہ بنا کر میں نے پیٹ پہ کب سے باندھ رکھا تھا۔

    جب آنتیں غرانے لگتیں تو دل کرتا آج ہی ان گمراہوں کو آزاد کر دوں جن بیخ کنی کے لیے بھیجا گیا ہوں۔ تاکہ پاؤں پسارے سکون سے سکھ کے تخت پہ بیٹھ سکوں۔

    میرے دماغ کے خالی برتن میں یہی تیزاب دن رات انڈیلا جاتا کہ مومن کو راحت صرف براستہ جہاد جنت میں ملتی ہے۔ جس کا حصول کفار کا قتل عام ہے۔

    اس بار قرعہ میرے دوست کے نام نکلا تو میں آزردہ ہو گیا۔ دو دن احتجاجاً بھوکا رہا آخر مجھے بھیجنے کا فیصلہ ہو ہی گیا۔

    نعرہ تکبیر کے سائے میں میری الوداعی ہوئی۔ میرے ھم صنف رشک کی نگاہ سے مجھے دیکھنے لگے۔ جیسے میں کبھی جانے والوں کو دیکھا کرتا تھا۔

    میرے سر پہ سفید عمامہ اوڑھایا گیا۔ اس وقت میرا سینہ فخر سے بادبان کی طرح تن گیا۔

    دین کے دشمنوں کو عبرتناک سزا دینے کے لیے سینے میں طلاطم خیز سمندر تھا۔

    مگر ہائے افسوس!

    میں لیلیٰ کے عشق میں بےگناہ مارا گیا۔

    میں جو شہادت کا طرہ باندھے نکلا تھا راستے میں بھٹک گیا۔

    ظہر کا سورج آسمان سے سرک رہا تھا۔ پھر سے وہ لڑکیاں کتابیں تھامے یہاں سے گزرنے والی ہیں۔ مجھے کہا گیا تھا، یہاں کفر ہی کفر ہے۔ گویا وہ حق پہ تھے۔ پر مجھے تو یہاں پانچ وقت اذانیں سنائی دیتی ہیں۔

    جو میرے دماغ پہ ہتھوڑے کی طرح برستی ہیں۔

    قدرت کو کیا منظور ہے مجھے آج تک یہ معلوم نہ ہو سکا۔ دو کوس کے فاصلے پہ ایک پاگل لڑکا ہے جو ہر گاڑی کو حور سمجھ کر گلے لگانے کے لیے بھاگتا ہے۔ میرے پاؤں سے داڑھیاں نہ بندھی ہوتیں تو میں اسے سمجھاتا۔

    ‘’حور سرور کا ذکر نہ کر لالا یہاں تو دنیا ہی کوئی اور ہے۔’‘

    وہ کافی سال پہلے بارود سے بھری گاڑی یہاں لایا تھا۔ اس کا وجود گاڑی کے پرچخوں سمیت اڑ گیا۔

    گڑھے میں دفن باقیات اب اسے چین نہیں لینے دیتیں۔

    کل کھمبے سے ٹیک لگائے ایک عسکر اپنے ساتھی کو کہ رہا تھا!

    ‘’ایک مسلمان کبھی خودکش حملہ کر ہی نہیں سکتا۔’‘

    دوسرا ساتھی نہایت مچلے پن سے بول۔۔۔

    ‘’کیسے ماں باپ ہوتے ہیں جو ان کی مرگ کے عوض پیسے کھاتے ہیں۔‘‘

    ’’چچ چچ چچ لالچی لوگ۔۔۔’‘

    میرا دل چاہا اٹھ کے منہ نوچ لوں ان کے

    چچ چچ چچ

    کیسے ماں باپ ہیں۔

    جیسے تمھارے ماں باپ ہیں۔

    اور کیسے ماں باپ ہیں۔

    سارے وردی والے سپوتوں کے والدین کیا ان کی شہادت کی قیمت نہیں وصول کرتے؟

    بس فرق صرف اتنا ہوتا ہے وہ حدوداربعہ کی حفاظت کے لیے اکسائے جاتے ہیں اور ہم دین کے نام پہ۔۔۔

    ان کا ملک خطر میں ہوتا ہے، ہمارا ایمان خطر میں۔

    وہ بھی شہادت کی حشیش پی کر میدان میں اترتے ہیں ہم کو بھی جنت کی ساوی (بھنگ) پلائی جاتی ہے۔

    وہ بھی مہرے ہم بھی مہرے۔۔۔

    سبز جھنڈے اور چاند ستارے والے سارے ممالک نے جو ایک دوسرے کے خلاف دنگل سجا رکھے ہیں۔

    نرا فساد۔۔۔

    پڑھا تھا لا تفرقو پر دیکھا اس کے باکل برعکس۔۔۔

    سبھی مل کر وہ مقدس رسی جلانے میں مصروف ہیں جس سے بندھے رہنے کا حکم ملا تھا۔

    فضائی حملے، کیمائی گیسیں اور گوریلا جنگیں نابود کرنیوالوں پہ حیران ہیں۔

    بغاوت کرنے والوں کے قتلِ عام پہ نازاں، برادرانہ ملکوں نے اکھاڑے سجا رکھے ہیں۔

    پانی کی طرح خون بہا کر نجانے کس خدا کو خوش رکھنے کی کوشش کرتے ہیں؟

    نجانے کس مذہب کا عَلم بلند کرتے ہیں؟

    کس مذہب کا؟

    حلف اٹھاتے وقت سب اسی کے نام سے شروع کرتے ہیں جو نہایت رحم کرنے والا بڑا مہربان ہے۔

    فیصلے کرتے وقت سب فراموش کر دیتے ہیں۔

    ان کے خلاف کبھی کسی نے زبان نہ کھولی کیونکہ یہ فیصلے ان کے ملکوں کے مفاد میں ہوتے ہیں۔

    دوطرفہ نفرتیں کاشت کرنے کا موسم ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔

    عساکر کی قبروں پہ گل پاشی اور صندلیں لکڑی کے تابوت جن پہ شہادت کی میخین گاڑھ کے لواحقین کو تاحیات اس رزق کی تسلی دیتے ہیں جو مرنے کے بعد شہید کو ملتا رہتا ہے۔

    میں تو ایک کلمے کو ایک مذہب سمجھتا تھا۔

    باقی اراکین کی صوابدید امیر صاحب کے ذمے تھی۔

    کیونکہ مجھے جو مقصد سونپا گیا تھا وہ ہر عبادت سے افضل تھا۔

    یہاں سے محرم کے جلوس جب گزرے مجھے علم ہوا مذہب بھی ملکوں کی طرح بٹا ہوا ہے۔

    ماتم کناں کہتے ہیں کربلا کے بعد اسلام زندہ ہو گیا۔۔۔

    اب مرے ہوئے کو کوئی کیا مارےگا؟

    چلو کہہ ہی دیتا ہوں!

    اسلام کا تو اسی دن وصال ہو گیا تھا عاشقوں، ولیوں اور صوفیوں کے ساتھ۔ جو سر سنگیت کی طرح محبت و گیان بانٹنے نکلتے ہیں تو سرحدوں کی پروا تک نہیں کرتے۔

    اسی رات دفن بھی ہو گیا جس رات خمیے جلا کر بیبیوں کو بھاگنے پہ مجبور کیا گیا۔

    آج بھی مجھے بیبیاں بھاگتی نظر آتی ہیں۔ برہنہ پا ننگے سر اپنے سپوتوں کو پیٹتی ہوئی۔

    کوئی سر راہ دھماکے میں شہید ہوا۔۔۔

    کوئی بنا سر پہ کفن لپیٹے مکتب میں۔۔۔

    کسی کا جسد جھنڈے میں لپٹا گھر آیا۔۔۔

    کسی کا جسم ہی نہ مل سکا۔

    سکینہ مقتل میں صدیوں سے دوڑ رہی ہے۔۔۔

    اضطراب کا انت ہی نہیں ہوتا۔

    پر مانتا کوئی نہیں کہ سرحدوں کو دین کے لیے نہیں مطلب کے لیے وسعت دی جا رہی ہے۔

    مقاتلہ اب سب کا مشترکہ مذہب ہے۔

    مفاد تن فن کے پنپتے پنپتے اژدھا بن چکا ہے جو ہزاروں سالم انسان یکمشت نگل لیتا ہے۔

    ہم سب اسی کے پیروکار ہیں جس کی قبر پہ کوئی گل تک نہیں اگتا۔

    شام ڈھلنے لگی ہے۔

    وحشت ہنگام سے پرے آزردگی میں اضافے کی گھڑی شروع ہوئی۔

    بےہنگم گاڑیوں کی تعداد کم ہوتے ہوتے نہ ہونے کے برابر ہو گئی۔

    وہ پاگل اب ٹیک لگائے سستا رہا ہے۔

    اسے بےخودی کی سزا ملی، مجھے آگہی نے کہیں کا نہ چھوڑا۔۔۔

    آخرش شام ڈھل گئی۔۔۔

    لیلیٰ لیلیٰ لیل ہوئی۔

    میرے حصے میں بس شب کی سیاہی آئی۔ سکون تو اس دن چھن گیا تھا جس دن مجھے مارا گیا تھا۔

    انگریزی گیت کی کان پھاڑتی آواز نے سوائے پرندوں کے کسی کو متوجہ نہیں کیا۔

    امیر ذادہ، آوارہ۔۔۔

    شراب کے نشے میں دھت۔

    بارھا یہیں میرے اوپر الٹیاں کر کے گزر گیا۔

    آخ تھو۔۔۔

    میں پاک ماں کا طیب بیٹا یہ حرامزادہ کیا جانے۔

    سوچ کے ہی طبعیت مکدر ہونے لگتی ہے۔

    جیسے ہی یہ شب ڈھلے گی۔ ٹھیک صبح عین اس وقت جب مکاتب، دانش گاہوں دفاتر جانیوالی گاڑیوں اور پیدل چلنے والوں کا ہجوم ہوگا میں پھر سے خودکش جیکٹ کھولوں گا۔

    میرے سمیت سب اڑ جائےگا۔

    نہیں۔۔۔

    نہیں نہیں۔۔۔

    وہ تو سات سال پہلے اڑ کے آسمان کے پار چلے گئے تھے۔

    اپنی سارے اعضا میرے قدموں میں باندھ کے جن کے بوجھ نے مجھے جنت جانے سے روک رکھا ہے۔

    بس ایک میں ہی اسی اذیت سے ہر روز گزرتا ہوں۔

    مجھے آج تک یہی غم ہے۔۔۔

    مجھے تو شہید ہونا تھا۔

    یہ حادثہ میرے ساتھ کیسے ہو گیا؟

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے