شجر ممنوعہ کی چاہ میں
اس نے کہا تھا۔
’’ازدواج کی عارضی ادلابدلی سے فرسودہ رشتہ میں نئی بہارآجاتی ہے جس سے رشتے کی جڑ مضبوط ہوتی ہے اور محبت کے بوسیدہ شجر پر نئی کونپلیں پھوٹنے لگتی ہیں۔‘‘
اس نے جھوٹ کہا تھا۔
’’میں اس شجر ممنوعہ پر چڑھنا نہیں چاہتی تھی۔ مجھے اس سے کراہیت ہوتی تھی۔ لیکن، اس کی خوشی کے لیے، میں نے خود کو سمجھا لیا تھا۔اپنے دل کی ایک نہیں سنی تھی اور بے قرار دل پر پتھر رکھ کر اس کی باتوں میں آگئی تھی۔‘‘
مجھے نیچے سے دھکا دے کر جب وہ شجر ممنوعہ پر چڑھانے لگا، تب میرا ماتھا ایک دم سے ٹھنکا تھا۔ میں نے نیچے گہرا کنواں دیکھ لیا تھا۔ میرے ہاتھ پاؤں اور تمام اعضا جواب دینے لگے تھے۔ میں درخت سے نیچے گرنے ہی والی تھی کہ تبھی کسی نے اوپر درخت سے ہاتھ بڑھا کر میرا ہاتھ تھام لیا تھا۔میں نے دیکھا، کوئی شخص پہلے ہی سے وہاں مجھے سہارا دے کر اوپر اٹھانے کے لیے موجود تھا۔ ایک پل کو مجھے لگا میرے تن پر ایک کپڑا نہیں ہے۔ دنیا مجھے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہی ہے۔ لیکن جب حواس ٹھکانے لگے اور غور سے دیکھا تو وہاں ہر طرف ہمارے ہی جیسے لوگ موجود تھے۔ شجر ممنوعہ کا سرسبزو شاداب نخلستان اور دور دور تک ریگستان کا لا متنائی گھوپ اندھیرا۔ ہر درخت پر کوئی آدم زاد موجود تھا اور حواکی بیٹیاں شجر ممنوعہ پر زبردستی چڑھائی جارہی تھیں۔ درخت کے پھل کھاتے ہی احساس زیاں جاتارہا اور گہرے کنویں کا خوف بھی کافور ہوگیا۔ ہر طرف اٹکھیلیاں چل رہی تھیں اور خشک ریگستان کے ٹھیک بیچو بیچ قہقہوں کے قل قل کرتے چشمے پھوٹ رہے تھے۔
ہم محبت کے رس میں بھیگے ہوئے تھے۔ہمیں غیر مرد کی آغوش میں خود سپردگی کے لیے خود ہمارے شوہرآمادہ کر رہے تھے۔ ان کی مدد سے ہم اپنے لباسوں کی قید سے انتہائی حساس طریقے سے دھیرے دھیرے آزاد ہورہی تھیں۔ ہمارے جسم کے تمام رونگٹے کانٹے دار گرگٹوں کی طرح کھڑے ہوتے جاتے تھے ،جوں جوں مردانہ ہاتھوں کے لمس سے ہماری حساس جلدیں مس ہوتی جاتی تھیں۔ اوپر سے نیچے تک ہمارے اعضا بھی گرگٹ کی طرح رنگ بدل رہے تھے ...کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا کہ کون سا ہاتھ اپنے اور کون سا پرائے مرد کا ہے۔ پورے بدن میں کپکپاہٹ سی دوڑ رہی تھی۔ ہم پر بے خود ی اس قدر طاری تھی کہ کچھ بھی سوچنے کا وقت نہیں تھا۔ ہر پل بلکہ ایک ایک پل کے ہزارویں حصے میں بھی احساس کی لاکھوں کونپلیں پھوٹ رہی تھیں۔ ہمارے جنسی غدودوں میں اس قدر ہلچل مچی ہوئی تھی کہ معلوم ہوتا تھا کہ پراکرتی اور پرش کے اس ملن نے فطرت کے کاموں میں دخل در معقولات کرکے جوالا مکھی، طوفان اور سیلاب تینوں کے گیٹ بیک وقت کھول دیئے ہوں۔ ہم خس وخاشاک کی طرح جنسی ہیجان کے سیل رواں میں بہتے جارہے تھے۔
ہوش جب آیا جب دھیرے دھیرے موسیقی کی دھن مدھم پڑنے لگی اور جلتی بجھتی برقی قمقموں کی رنگ برنگی روشنی ماند پڑنے لگی۔ جسموں کے ملن کا سنگم چھتری ہوئی پرچھائیوں کی اوٹ میں گم تھا۔ وہاں تو صرف لیزر بیم کی چھٹکتی روشنی میں کوئی مخصوص عضو روشن ہواٹھتے تھے۔ کون سا عضو کس کا تھا ،اسے دیکھنے کا ہوش کسے تھا۔
میرا شوہر شروع سے شہوت پرست اور حسن کا پرستار تھا۔ لیکن ہماری شادی شدہ زندگی میں جب چنگاریاں سرد پڑنے لگیں تو ایک دن، شام کی ملگجی روشنی میں اس نے سرگوشی سے میرا دل ٹٹولتے ہوئے کہا تھا۔ جان من! میں ایک ایسی جگہ جانتا ہوں، جہاں جانے سے ہماری ازدواجی زندگی کی خوشیاں پھر سے لوٹ آئیں گی۔‘‘
میں اپنی پوری شدت سے اُسے اُس کے ارادے سے باز رکھنے کے لیے منع کرتی رہی...
لیکن مجھے معلوم تھا۔ وہ ایک بار کسی چیز کی ضد پکڑ لے تو اسے منع کرنا بہت ہی مشکل کام ہو جاتاتھا۔
مجھے جس بات کا سب سے زیادہ ڈر تھا،آخر وہی ہوا۔دھیرے دھیرے اس نے احساس محرومی میں مبتلا ہوکر بہت زیادہ شراب نوشی کرنی شروع کردی۔رات میں گھر دیر سے آنے لگا ۔ہر وقت اس کا موڈ اکھڑا اکھڑا سا رہنے لگا۔
مجھے طرح طرح سے ،اس نے یہ باور کرانے کی کوشش کرنی شروع کردی کہ ’’وہ سہی‘‘ ہے اور میں اس کی بات مان لوں...، آخر ایک دن اس کی ضد کے آگے میں جھک گئی۔ کیونکہ ،میں اسے زیادہ دنوں تک روٹھا ہوا نہیں دیکھ سکتی تھی۔ آخر کار ، ایک دن جب میں اچھے موڈ میں تھی تومیں نے اُس کے لیے ’’حامی‘‘ بھرلی۔
وہ خوشی سے ناچ اُٹھا۔ اُس کے دل کی مراد پوری ہوگئی تھی۔
وہ مجھے اُس پُر اسرار جگہ پر لے گیا۔
وہ جگہ کیا تھی، ایک خفیہ کلب تھا ۔جہاں زوج کی ادلا بدلی ہوتی تھی ۔ اصل میں،وہ کلب کثیر جنسی سرگرمیوں کی آماجگاہ تھا۔
اس کے دونوں ہاتھ کھمبے کے ساتھ ریشم کی ڈورسے بندھے ہوئے تھے اور وہ مست ہاتھی کی طرح جھوم رہا تھا۔ نسائی ہاتھوں کی مخروطی انگلیوں کے لمس سے اس کی گردن، پیٹھ اور پہلوؤں میں متواتر سہرن سے دوڑ جاتی تھی ۔یہ جسم وجاں کے اندر موجودمثبت حیوانی توانائیوں کو ہوا دے کر اسے تسخیر کرنے کا عمل تھا۔ جسے عرف عام میں کالا جادو جگانے کے عمل سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
اول اول مرد وزن خوشنما پوشاکوں میں ملبوس یہاں وہاں گھوم ٹہل رہے تھے۔ لیکن جوں جوں موسیقی کی دھن میں تیزی آتی گئی، ان کے جسم کپڑوں سے بے نیاز ہوتے چلے جاتے تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے ، مادر زاد انسانوں کا وہاں ایک جمگٹھا سا نظرآنے لگاتھا۔ وہ سب کسی اور ہی دُنیا سے آئے ہوئے دُم کٹے جانور معلوم ہوتے تھے۔ ان کا ماننا تھا کہ عریانیت کو ئی معیوب چیز نہیں ہے۔ جب خدا، گوڈ اور ایشور نے ہمیں اسی روپ میں بنایا ہے تو پھر اس پر سے یہ آورن کیوں اوڑھا جائے۔ ننگے رہنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ جب ہم دوسروں کی بیویوں کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتے ہیں تو ہمارے اندر منفی توانائی پیدا ہوتی ہے جس کا انخلا ضروری ہے۔ اس طرح سے آزادانہ رہ کر ہم جس استری سے جی چاہے سنبھوگ کر سکتے ہیں ۔بشرطیکہ وہ استری بھی آپ کے اندر کشش محسوس کرتی ہو۔
اس عمل سے ہمارے اندر مثبت توانائی پیدا ہوتی ہے اور وقفے وقفے سے بطن اور دماغ میں مجتمع ہونے والی منفی توانائیوں سے ہمیں نجات ملتی ہے۔ ہم برے خیالات سے بچتے ہیں۔سچ تو یہ ہے کہ ایشور ہمیں ایسے روپ میں زیادہ پسند کرتا ہے۔ ہاں! جس کے اندر شہوانی جذبات کو مہیج نہ ملتی ہووہ شانت رہ سکتا ہے۔ اسے اسی میں آنند آتا ہے لیکن جس کی ترشنا جتنی تیز ہوتی ہے ،وہ ترپتی کے لئے اتنا ہی زیادہ پریاس کرتا ہے ۔یہ فطری بات ہے۔ آپ پیاسے گھوڑے کو پانی پینے سے روک توسکتے ہیں لیکن جس گھوڑے کو پیاس ہی نہ لگی ہو اُسے آپ زبردستی پانی نہیں پلا سکتے۔ اسی طرح آپ کسی بھی کام کو زبردستی نہیں کرسکتے۔ اگر روچی نہ ہو تو کھانے سے ہاتھ کھینچ لینے ہی میں بھلائی ہے۔
میں نے کھانے سے ہاتھ کھینچ لیا تھا۔
اس وقت میری عمرچھیالیس سال کی ہوچکی تھی۔ لیکن میرے شوہر کی بھوک تھی کہ اس کی عمر میں اضافے کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہی جا رہی تھی، اس کی شہوانی خواہشات مزیدجوان ہوتی جارہی تھیں۔ وہ مجھے اپنے ہاتھوں سے بناؤ سنگھار کرکے کلب لے جاتا۔ میرے گورے گورے انگوں میں ایک قدرتی کساؤ برقرار تھا اورمیرے جوبن کے اُبھار بھی ماند نہیں پڑے تھے ۔لیکن اندر سے میں خود کو کمزور محسوس کرنے لگی تھی۔ میں اپنے شوہر کی خوشی کے لیے وہ سب کچھ کر رہی تھی جس سے کہ وہ خوش رہے۔ مجھے غیر مردوں کے ہاتھوں میں جھولنے، ان کی بانہوں میں مچلنے اور اپنے ہونٹوں کے زوایے میں ان کی زبان کی پھسلن محسوس کرنے میں کچھ مزہ نہیں آتا تھا۔ لیکن جب اپنے شوہر کے سامنے دوسرا مرد آپ کے وجود کو جھنجھوڑتا ہے تو یقیناً آپ کے اپنے مرد کے اندر رقابت اور حسد کا ایک شعلہ سا لپک اٹھتا ہے اور وہ اس کی تپش میں جھلس کر اپنے اندر کی گرمی دوسری عورتوں کے اندر جاکر ٹھنڈا کرتاہے۔ یہ شعلوں سے کھیلنے کا ایک غیر فطری عمل ہے۔ لیکن یہی کام میرے شوہر کے اندر ہر بار جینے کی ایک نئی امنگ پیدا کر دیتا تھا۔ کئی ماہ تک آنکھ مچولی کا یہ سفلی کھیل چلتا رہا۔ اس کے اندر تیزی سے تبدیلی آرہی تھی۔ یہاں تک کہ ہماری ازدواجی زندگی میں ایک ایسا بھی موڑ آیا جب مجھے اس کی خوشی سے نفرت اور چڑھ سی ہونے لگی۔
در اصل، وہ نیا نیا امیر ہوا تھا اور اپنی اسی امارت کے گھمنڈ میں دُنیا کی حسین ترین دوشیزاؤں کو اپنی بستر کی زینت بنا رہا تھا۔اس کا دل ہر پل کسی ایسی الھڑ اور البیلی حسینہ کو ڈھونڈتا جو اس کے پہلوؤں کو ہروقت گرم کرتی رہے ، ----- اُس کا ماننا تھا کہ آج جو کچھ بھی اس کے پاس ہے وہ سب اس کی نجی محنت کا ثمرہ ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ میرا شوہر بہت لکی تھا۔ اس نے اپنے بھائی کے ساتھ مل کر ریئل اسٹیٹ کا کاروبار شروع کیا تھا۔ اسے دن دوگنی رات چوگنی ترقی ملی۔گویا کوئی پارس پتھر اس کے ہاتھ لگ گیا ہو۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس نے ایمپائر کھڑے کر لیے، فارم ہاؤس خرید لیے اور شہر کے گرد ونواح میں کئی ہوٹلیں کھول لیں۔ ہر ہوٹل میں باربی کیو اور ڈانس فلور بنوا رکھے تھے جہاں نوجواں جوڑیاں ڈنر سے پہلے اپنی بھوک بڑھانے کے لیے ڈانس کیا کرتی تھیں۔ کبھی کبھی میں اپنے شوہر کے ساتھ وہاں جاتی تو ان کا دل رکھنے کی خاطر میں بھی کچھ اسٹیپس کر لیا کرتی تھی۔ وہ مزید ضد کرتا لیکن میں زیادہ ساتھ نہیں دے پاتی تھی۔
میری شادی جب ہوئی میں سو لھویں سال کے میٹھے شباب کے دور سے گزرر ہی تھی۔ جب بالی عمر کی لڑکیاں سپنوں میں اپنے شہزادے کو گھوڑے پر آتا ہوا دیکھتی ہیں۔ مہوئے کے رس سے جب انگ انگ مہک رہا ہوتاہے اور درد کے میٹھے چبھن سے سارا جسم ٹوٹ رہا ہوتا ہے۔ ایسے میں من کرتاہے کہ کوئی آپ کو ٹوٹ کر چاہے، کوئی پیار کرے اور کوئی آپ پر اپنی جان نثار کرے۔ میں بھی چاہتی تھی کہ میں ایسے سپنوں کے راجکمار کے ہاتھوں میں اپنے حسن کے خزانے سونپ کر اس کی بانہوں میں سکھ چین کی بانسری بجاتی ہوئی عمر بسر کر دو ں۔
لیکن ایسا نہیں ہوا۔
جب میری شادی ہوئی۔میرے شوہر کی عمر بیس سال تھی۔ اس کے ہاتھوں میں اپناکوئی کاروبار نہیں تھا۔ وہ اپنے مالدار بھائی کا شافر تھا۔ بھائی کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ وہ پیر وفقیر اور درگاہوں کی خاک چھان کر تھک چکے تھے۔ تبھی انھیں کسی نے مشورہ دیا کہ اپنے چھوٹے بھائی کی شادی کردو۔شاید اس کی قسمت سے اولاد کا سکھ نصیب ہوجائے۔ میرے شوہر کے ماں باپ پچپن میں ہی خدا کو پیارے ہوگئے تھے۔ وہ یتیم تھا۔ میں بیاہ کر آئی۔ گھر میں پھول جیسے دو بچے ہوئے۔ بڑے لاڈ پیار سے ان کی پرورش ہوئی۔ بڑے ہوئے، پڑھنے کے لیے یونیورسٹیوں میں چلے گئے۔تعلیم مکمل کی ملازمت ملی پھر وہیں کے ہوکے رہ گئے۔
ایک دن میرے شوہر نے اداسی بھرے لہجے میں کہا تھا۔
اتنی کم عمر میں شادی ہوئی۔ کیسے بچے ہوئے۔ کب پلے بڑھے کچھ پتہ ہی نہیں چلا۔ شادی تو گوڈے گڑیئے کا کھیل ہوگیا۔ جب تک سمجھ میں آیا کہ شادی کیا ہوتی ہے، کیوں ہوتی ہے اور زندگی کا لطف کیسے لیتے ہیں۔تب تک پُل کے نیچے سے بہت سارا پانی بہہ چکا تھا۔اس کا خیال تھا کہ یہ زندگی صرف ایک بار ملی ہے لہٰذا ، اسے کھل کر اپنی پوری قوت سے جینا چاہتا تھا۔
اُس نے کہا تھا۔
میں ایک خود ساختہ انسان ہوں۔ تم جانتی ہو،میں سڑک سے اُٹھ کر یہاں تک پہنچاہوں۔ جہاں دُنیا کی عظیم الشان چیزوں تک آج میری رسائی ممکن ہوپائی ہے۔آج میں جب چاہوں، حسین سے حسین دوشیزہ کو اپنے بسترکی زینت بنا سکتا ہوں۔ یہ سب میں نے اپنے عزیزترین جذباتی رشتوں کو کھو کر حاصل کیا ہے۔ اس مشینی دور میں، اپنے سچے اور معصوم جذبات کا میں نے خود اپنے ہاتھوں سے خون کیا ہے۔
تم جانتی ہو،میں ایک ما بعد جدید انسان ہوں۔میں ان سب چیزوں سے کسی بھی قیمت پر تیاگ نہیں لے سکتا۔ میں سنیاسی بن کر جینا نہیں چاہتا ۔ یہ زندگی صرف ایک بار ہی ملی ہے ۔ لہٰذا،میں اس سے لطف اُٹھانا چاہتا ہوں ۔ میں اپنی جنسی تشنگی کو تہہ دامن دبا کے مہا پرش اور مہاتما بننے کا آڈمبر نہیں رچ سکتا.....
میں اپنے شوہر کے ارادے کے حوالے سے ایک التباس میں مبتلا تھی۔ایک طرف وہ قدرت سے اپنی شخصی نقص کا انتقام لینا چاہتا تھا۔تو دوسری طرف اس کے دماغ میں ازدواجی زندگی سے متعلق ایک تشنگی سی گھر کر گئی تھی۔ بس، یہی فتنہ سا خیال تھا۔جس کے انکور نے کے بعد کونپلیں متواتر پھوٹتی رہیں اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ ایک تناور درخت میں تبدیل ہو گیا۔اس کی بوالہوسی نے کسی برگد کی جڑوں کی طرح سے اپنے شاخسانے چاروں طرف پھیلانے شروع کر دےئے ۔ حتیٰ کہ اب وہ بڑھتے بڑھتے ایک مہیب جگادری درخت میں منتقل ہو چکا تھا۔
ہاں ! وہی شجر ممنوعہ۔
اس شجر ممنوعہ کی جڑوں سے لگا ایک گہرا کنواں بھی تھا جسے دیکھ کے ڈر لگتا تھا۔ مگر اس درخت کے پھل نے مجھے اول اول ایسا مدہوش کیا کہ اس کی سرشاری میں میرے حواس ٹھکانے نہ رہے اور جب ہوش آیا تو میری دنیاپوری طرح سے اُجڑ چکی تھی۔
وہ کالی بھوجنگ تھی ،جیسے کوؤں کی کوئی پری!
اُس کی بوٹی بوٹی چمکتی تھی ،کسی ناگن کی طرح۔ایک بار جو اُسے آنکھیں بھر کے دیکھ لیتا مجال نہیں کہ اس کی نگاہیں اس پر سے دم بھر کو بھی ہٹ جائے۔یہ سچ ہے کہ اس کے اندر بلا کی کشش تھی۔
میراشوہربلا کی کشش کی زد میں آ چکا تھا۔وہ اُس پر لٹّو تھا۔ اسے ایسی پُرکشش عورتیں بڑی مرغوب تھیں۔ لیکن اس کے اندر اتنی جرأت نہیں تھی کہ وہ انھیں اپنی طرف متوجہ کرسکے۔ وہ انھیں مخاطب کرنے سے ڈرتا تھا۔ کیوں کہ اس کے اندر ایک قدرتی نقص تھا۔ ’وہ ہکلاتا تھا‘۔ وہ اپنے اس ہکلے پن کے قدرتی نقص کو خالق کائنات کا تخلیقی نقص تصور کرتا تھا۔ وہ سمجھتا تھا کہ قدرت نے اس کے ساتھ بے انصافی کی ہے۔ چنانچہ ،وہ اس کا انتقام اس کی مخلوق سے لینے پر آمادہ تھا۔ اس انتقام کی آگ میں وہ جل رہا تھا۔ اس نے اس کے لیے انتھک محنت کی اور جوں ہی خاطر خواہ دولت جمع کر لی، وہ اپنے مشن پر لگ گیا تھا۔ تبھی اسے اس کلب کا پتہ چلا تھا۔ اس نے اپنا وقت ضائع کیے بغیر ایک تہہ شدہ منصوبے کے مطابق مجھے شیشے میں ڈھال لیا تھا۔
اُس کی طرف سے میں غفلت میں تھی ۔جب ہوش میں آئی، بہت دیر ہو چکی تھی۔ تب تک وہ قدرت کے ہر شاہکار کو شکست و ریخت کر دینا چاہتا تھا۔ اس کی نظر میں عورت سے بڑھ کر قدرت کا شاہکار اور بھلاکون ہو سکتا تھا!
لہٰذا، اس نے ہر مسکراتی ہوئی کلی اور ہر کھلتے ہوئے پھول کو اپنے پیروں تلے بے رحمی سے روندنا شروع کر دیا تھا۔
اس نے جھوٹ کہا تھا۔
’’ازدواج کی عارضی ادلا بدلی سے فرسودہ رشتے میں نئی بہار آ جاتی ہے جس سے رشتے کی جڑ مضبوط ہوتی ہے اور محبت کے بوسیدہ شجر میں نئی کونپلیں پھوٹنے لگتی ہیں۔‘‘
لیکن ------ جب کبھی سوچتی ہوں تو لگتا ہے ۔
اس نے سچ ہی کہا تھا۔
’’محبت کے بوسیدہ شجر میں نئی کونپلیں پھونٹنے لگتی ہیں۔‘‘
ہاں! کونپلیں تو پھوٹیں اور خوب پھوٹیں لیکن یہ اور بات ہے کہ اس کے ساتھ ہی میری قسمت بھی پھوٹ گئی۔
وہ میرے سامنے اس کلجگ کی گوپیوں سے پینگیں بڑھاتا رہا اورمیں گم صم بنی اپنی آنکھوں سے یہ سب تماشہ دیکھتی رہی۔بھانت بھانت کے رنگ روپ کے مردوزن جب ایک دوسرے میں پیوست ہوتے توآدم زادوں کا ایک ایساہیولہ تیار ہو جاتا تھا،جو اپنے آپ میں کسی شجر ممنوعہ سے کم نہ تھا۔ اس پر مستزاد، وہ لمبی سیاہ زلفوں والی ڈائن تھی جو مردوں کے ہاتھوں میں شراب سے لبریز کسی پیمانے کی طرح گردش کرتی رہتی۔ حتیٰ کہ اس کے گرد مردوں کی لام لگ جاتی اور وہ سب اکٹھے اسے اپنے گرم گرم ہونٹھوں سے چومتے تھے۔
اِدھر میں اپنے ہاتھوں سے اپنے نصیبوں کو رو پیٹ کر بیٹھ چکی تھی۔میری حیثیت اُس چوسی ہوئی آم کی گٹھلی کی مانند ہوچکی تھی جو آدم زادوں کی ٹھوکروں کی زد پر ایک جگہ سے دوسری جگہ پر جاکر گر پڑتی ہے۔ جسے گدھے بھی سونگھ کے چھوڑ دیتے ہیں۔
میرا شوہر بھی بہت بڑا گدھا تھا۔ اس کا سر گدھے ہی جیسا لمبا تھا جسے وہ سنبھال کر اپنے قابو میں نہیں رکھ سکتا تھا۔جب اسے عشق کا دورہ پڑتا تو ڈھینچو ڈھینچو کرتا ہوا ،سر عام اپنی سنک پوری کرنا شروع کر دیتا تھا۔
ایسے ہی کسی افسردگی کے اداس لمحوں میں میرے شوہر کے بڑے بھائی نے مجھے شہر کے سب سے قدیم سینے گاج کے ایک ربیّ سے ملاقات کر وائی تھی۔ میری درد بھری داستان سننے کے بعداُس نے مجھے توریت کا ایک واقعہ سنا یا تھا۔
انھوں نے کہاتھا۔
آدم جب جنت میں اپنے اکیلے پن سے گھبرانے لگے تو خدا نے ان کی دل جوئی کے لیے آدم کی پسلی سے حوا کو پیدا کیا۔ایک ساتھی مل جانے کے بعد آدم اور حوا جنت میں خوب شاداں و فرحاں رہنے لگے۔تبھی للت جس کی شکل عورت کی تھی مگر اس کا بدن سانپ کا تھا۔اُسے یہ سب دیکھ کے برداشت نہ ہوا۔ کیونکہ وہ جنت میں اس وقت سے موجود تھی جب حوا کا وہاں وجود بھی نہ تھا۔در اصل، حوا وہاں بعد میں آئی تھی اور للت وہاں پہلے سے رہ رہی تھی۔ ایک دوسری عورت کو دیکھ کے للت کے اندر جلاپا شروع ہو گیا۔اس نے آدم اور حوا کے خلاف ایک سازش رچی اور باغِ بہشت کے ایک خاص شجر ممنوعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
’’ارے یہ کیا بات ہوئی کہ جنت کا جو سب سے بہترین پھل ہے، بھلا اسے ہی کھانے سے منع کر دیا جائے۔ ‘‘ اس نے بی بی حوا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:
’’دیکھو ! تم یہ پھل ضرور کھانا۔ اس جیسا جنت میں کوئی دوسرا پھل نہیں ہے۔ ‘‘
اتنا سننا تھاکہ حوا اپنی فطری معصومیت کی وجہ سے سازش کا شکار ہو گئیں۔جنت کا پھل چکھتے ہی ان کی شرمگاہیں عیاں ہوگئیں اور پھل کھا لینے کی پاداش میں انھیں خلد سے نکال دیا گیا۔ وہ دن ہے اور آج کا دن عورت ہی عورت کے اخلاقی زوا ل کا سبب بنی ہوئی ہے۔
اس واقعہ کے سننے کے بعد مجھے لگا۔ میں بھی کسی سازش کا شکار ہوئی ہوں۔
میرے شوہر اور وہ سیاہ فام چڑیل ایک دوسرے کو شاید،بہت پہلے سے ہی جانتے تھے۔
وقت گزرتا رہا اور زندگی کسی ناگن کی طرح رات کی تنہائی میں ڈستی رہی مجھے برسوں۔حتیٰ کہ رات کی تنہائی کے تصور سے ہی میری ہڈیوں میں کوئی سرد سی لہر دوڑ جاتی تھی۔ رفتہ رفتہ ،میری حالت غیر ہونے لگی۔ مجھے اپنے شوہر کی ایسی ذلیل حرکتوں سے نفرت سی ہونے لگی ۔ وہ میرے پاس ہوتے ہوئے بھی مجھ سے کوسوں دور محسوس ہونے لگا تھا۔ میں اپنی نظروں کے سامنے اسے اپنے سے دور ہوتا دیکھتی رہی۔
میری اس لا متناہی اداسی اورگہری خاموشی کو دیکھتے ہوئے۔میرے شوہر کے بڑے بھائی نے بڑی پدرانہ شفقت سے سمجھاتے ہوئے تھا۔
’’دیکھوبیٹا!
محبت آزاد پرندہ ہے۔ اسے کھلی فضا میں چھوڑ دو۔اگر لوٹ آئے تو تمھارا ورنہ وہ تمھارا کبھی تھا ہی نہیں۔‘‘
یہ ا یسی حقیقت تھی کہ جس کے تلخ گھونٹ مجھے تنہا پینے پڑے۔
میرا پرندہ کسی اور ہی مٹی کا بنا تھا۔اسے نہیں لوٹنا تھا، وہ نہیں لوٹا------- میں یہ سب کس سے شےئر کرتی؟
میری متی ماری گئی تھی۔ کلب کی رنگین پرچھائیاں اس خردماغ کو شراب و شباب سے خوب شرابور کرتی رہیں اور میری آنکھیں دھوکا کھاتی رہیں، میری عقل پر پتھر پڑ گیا تھا۔ میری نظروں کے سامنے وہ اس سیاہ سمندر کے نمکین پانی میں غوطے کھاتا رہاہے، متواترڈوبتا رہا، متواتر ابھرتا رہا او ر حیرت ہے کہ اس کے قہقہوں کی آواز میرے کانوں میں نہیں پڑ رہی تھیں۔
آج، میں خود کو اکیلے پن کے ایسے اندھے کنویں میں گری ہوئی محسوس کررہی ہوں ،جہاں سے میری آواز باہر کی دُ نیا تک پہنچ نہیں سکتی ہے۔ میں اندر ہی اندرچیخ رہی ہوں لیکن میرے آس پاس مجھے کوئی سننے والا نہیں ہے۔
افسوس!
صد افسوس !میں نے یہ کیا کیا۔
شجر ممنوعہ کی چاہ میں!
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.