Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

شجر ممنوعہ کے تین پتے

سیمیں کرن

شجر ممنوعہ کے تین پتے

سیمیں کرن

MORE BYسیمیں کرن

    ’’اور کیا یہ ابن آدم کے شجر ممنو عہ سے کھا ئے یا پھر کھلا ئے اس دا نۂ گندم کا اثر خما ر ہے کہ اور یہ خما ر روح کو چڑھا یا پھر بدن کو ‘‘

    ابھی میں نے چند لا ئنیں ہی گھسیٹیں تھیں کہ ملازمہ نے اطلاع دی: ’’باجی! پڑوس سے رفعت باجی آئی ہیں، بلا رہی ہیں۔ کہہ رہی ہیں کہ،’’ با جی سے کہو جلدی سے آ جائیں اگر عیادت کو جانا ہے ‘‘دراصل میرا اور رفعت کا پروگرام تھا کہ سامنے بی اماں جو کافی دن سے بیمار ہیں۔‘‘ چل کر ان کی عیا دت کر لی جائے اور ایک اکیلے سے دو بھلے! خاص طور پر جب مریض ’’پڑو سی مریض‘‘ بی اماں جیسا دبنگ ہو تو

    بی اما ں بھی اک انو کھا اور عجیب کردار ہیں اور اپنے خا ص ہو نے کا احساس ان کو بخوبی ہے۔

    عمر یہی کوئی پچاسی، چھیاسی برس، دھان پان سی سادہ مگر انتہا ئی نفیس ستھرے لباس میں ملبوس ہلکا خم کمر میں مگر بہت چا ق و چو بند، زبان و مزاج دونوں انتہائی کرخت اور تیکھے لہجہ میں کوٹ کوٹ کر حاکمیت بھری ہوئی۔ اپنی تیس چالیس سالہ سروس میں پندرہ بیس سال وہ گورنمنٹ سکول میں ہیڈ مسٹریس رہیں، جس عمر میں انہوں نے گریجویشن کیا اس وقت غالباً انڈوپاک کی گنی چنی خوا تین میں شامل ہوں گی۔

    اس عمر میں بھی اپنی سبزی خود خریدتی اور ہنڈیا علیحدہ بناتی تھیں مگر بہو کو زچ کرنے کے ان کے پا س اور بہت سے طریقے تھے۔ یہی ان کے خصائل و شمائل تھے کہپڑوس میں تمام لوگ بشمول میرے ان سے بچتے تھے۔ مگر اب پتہ چلا تھا کہ وہ کافی روز سے علیل ہیں تو اخلا قیات کا تقاضا تھا کہ ان کی عیادت کو جایا جائے۔

    جب میں اور رفعت بی اماں کی عیادت کو پہنچے تو گو کہ انہوں نے ہما ری آمد پر بہت خوشی کا اظہار کیا۔ اپنے پاس بٹھایا۔ اصرار سے چائے پلوائی اور پھر اپنے مخصوص کڑک لب و لہجے میں ہماری آمد کا مقصد دریافت کیا۔ میں نے اور رفعت نے ایک دوسرے کی جانب دیکھا اور کھسیا نے سے لہجے میں کہا :’’ بس آپ کی خیریت دریا فت کر نے آئے تھے پتہ چلا تھا کہ آپ کی طبیعت کچھ ناساز ہے‘‘ بی اما ن نے گھور کر ذکیہ اپنی بہو کی طرف دیکھا: ’’یقیناً یہ خبر اسی نے پہنچائی ہوگی کیوں؟ یقیناً یہ خبر آپ نے ہی انہیں دی‘‘ زکیہ کا خون خشک ہو گیا۔ بی اماں پھر گویا ہوئیں: ’’جائیے چار بج رہے ہیں ہمارے عصرا نے کا وقت ہو گیا ہمارے لیے چا ئے لے آئیے‘‘ بے اماں نے زکیہ کے جا نے کے بعد کہا: ’’بوڑھی بھی تو بہت ہو گئی ہوں میں مگر اپنے کاموں اور باتوں میں مدا خلت پسند نہیں مجھے۔ میں اس عمر اور بیماری میں بھی اپنے سب کام خود کرتی ہوں۔ بہرحال آپ لوگوں کی تیمارداری کا شکریہ‘‘ اور پھر اس دورانیے میں مَیں نے دیکھا کہ اپنے دعوے کے برعکس بی اماں کی پوری کو شش تھی کہ وہ زکیہ کو زچ کر دیں۔

    زکیہ کے بیڈ روم اوپری منزل میں تھے۔ اس کا ایک پا ؤں اوپر اور ایک نیچے وہ بوکھلائی ہانپتی کانپتی پھرتی تھی۔ مہما نوں کی کو ئی خبر و ہوش نہ تھا۔ اسی دوران بی اماں کے پاس یکے بعد دیگرے نسبتاً دو غریب رشتہ دار خوا تین آئیں۔ بی اماں کو جھولی بھر بھر دعائیں دیتی۔ بی اماں نے خاموشی سے تکیے کے نیچے سے بٹوہ نکالا اور ہزار ہزار کے کئی نوٹ نکال کر انہیں خاموشی سے تھما دئیے۔ اسی اثنأ میں انہوں نے چشمے کے پیچھے سے ہمیں استفہا میہ نظروں سے گھورا گو یا کہتی ہوں کہ تم لوگ اب تک دفع کیوں نہیں ہو ئے اور میں اور رفعت جو متجسس اور متحیر سے بیٹھے تھے ہڑبڑاکر اٹھے رفعت وہیں سے اپنے گھر کو مڑ گئی اور میں پھر اپنے مطا لعہ کی میز پر اس ملا قات سے پہلے جو لکھ رہی تھی۔ اس موضوع کو اک مہمیز سی ملی بلکہ میری سو چ کے رخ کو اثبا ت کا پہلو مل گیا۔ میں نے قلم سنبھالا اور لکھا: ’’وہ خما ر جو روح کو چڑھا یا بدن کو، مگر یہ بدن ہی ہے۔ جو اس دنیا میں روح کو غلیظ کرتا ہے آج اک ایسی ہی نیک روح سے ملاقات ہوئی جو بدن کی کثافت سے میلی ہو چکی تھی اور ‘‘ میں لکھتے لکھتے رک گئی اور سو چ میں گم۔ حلق خشک محسوس ہوا تو میں نے بچوں کو آواز دی، پانی کا گلاس دو دو تین آوازیں دینے پر دونوں بڑے بچے ٹس سے مَس نہ ہو ئے۔ دل پر ملال سا چھا گیا کہ میں نے دیکھا میرا ڈھائی سالہ منا سا بیٹا اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں میں اپنا بےبی کپ لیے میرے لیے پا نی لا رہا ہے۔ آدھا نیچے گرا تا۔ یہ منظر میری روح کو اندر تک سرشار کر گیا۔ میں نے تحریر کو وہیں چھوڑا اور وہ سارا دن میں نے بغور اس ننھے معصوم فرشتے کا مطالعہ شروع کر دیا۔

    اور پھر میں نے دیکھا کہ مَیں نے کسی بھی کا م کا قصد کیا یا کسی کو آوا ز دی میرا ننھا سا بیٹا لپک کر اپنی بسا ط بھر کوشش کر تاکہ وہ میری مدد کو آئے اور میری محبت و توجہ کا سزاوار ٹھہرے۔ کبھی کرسی کے نیچے میری جوتی نکال کر مجھے متو جہ کر رہا ہے ’’مما جو تالے لو‘‘ کبھی کتاب پکڑا رہا ہے اور کبھی کچھ میں نے محبت بھری حیرت سے اسے دیکھا اور سو چا: یہ نیکی و محبت کا سبق کس نے اسے سکھایا؟ اس کی سرشت نے؟ یہ سر شت کس نے تخلیق کی؟ اس تخلیق میں میرا کتنا حصہ ہے۔ یہ سرشت اس کی روح کا حصہ تھی یا یہ بدن تھا؟ تو کیا خمار دانہ روح کو نہیں صرف بدن کو آلو دہ کرتا ہے؟ تو کیا اس فرشتہ سی عمر میں بدن روح کے تا بع ہوتا ہے؟ کیا روح و بدن کی زبان میں ہم آہنگی ہوتی ہے؟ کیا روح نیکی کا دوسرا نام ہے؟ نیکی اور بدی کائنات کے توازن کو قا ئم رکھنے وا لی دو متضاد قو تیں اک رحمان کی نما ئندہ اور اک شیطان کی نمائندہ قوت۔ کیا یہ رحمانی و شیطانی قوتیں صرف بدن کی مقیم ہیں۔ کیا بدن ہی ان کی نمائندگی کرتا ہے؟ پھر اس را ہ میں روح کا کیا مقام ہے؟ روح جو امر ہے رو ح جو ابدی اور امری حقیقت ہے؟

    میں نے الجھ کر قلم رکھ دیا۔ مجھے لگا کہ با ت کچھ الجھ گئی ہے میں مز ید کچھ نہیں لکھ پاؤں گی۔ جب تک حقیقت کو سمجھ نہ سکوں۔ کچھ دن یو نہی بیت گئے بےکیف سے۔ تخلیق رستہ ما نگتی ہے۔ ما نگتی بھی کیا ہے؟ خو د بنا لیتی ہے اور میں اسی انتظار میں تھی کہ یہ الجھن اپنا رستہ خو دمتعین کرےگی۔ قوت تخلیق اس کو رستہ دکھائےگی۔ لیکن تخلیقی قوت بھی تو بدن کا مظہر ہے۔ یہ کیسے مجھے اک ماورائی حقیقت کا صحیح پتہ دے سکتی ہے۔ دے بھی دے تو اپنے تجربے کی سچائی کو ثابت کر نے کے لیے کیا دلیل ہوگی، میرے پاس؟ میں ان سوالوں میں الجھتی پھرتی تھی اور تحریر ادھوری اپنے ادھورےپن پر ماتم کناں۔ سہ پہر کا وقت تھا میں اپنے اندرونی خلفشار سے گھبراکر باہر لان میں نکل آئی۔ لان سے ملحق چھو ٹا سا کمرہ جو میرے شوہر کے آفس کے طور پر استعما ل ہوتا ہے۔ میرے خاوند پیشہ ور وکیل ہیں فو جداری مقدمات کے۔ اس بیرونی کمرے سے تیز تیز آوازیں لان تک آ رہی تھیں۔ میں نے فطری تجسس سے مجبور ہوکر ذرا سا آگے ہوکر دیکھا۔ میں دھک سے رہ گئی۔ وہ دو سری تیز اور کرخت آواز تاری ہلاکو کی تھی۔ اس کو اپنے میاں کے ساتھ دیکھ کر مجھے فطری طور پر اک دھچکا لگا حالانکہ فوجداری مقدمات کے وکیل ہو نے کی حیثیت سے ان کے پا س ہر طرح کے لوگوں کا آنا جانا اک معمول کی بات تھی مگر تاری ہلاکو کو ان کے سا تھ دیکھ کر نجانے کیوں مجھے اک دھچکا سا لگا۔ شا ید اس کی وجہ یہ تھی کہ با قی آنے وا لے لو گ میرے لیے محض کلا ئنٹ کی حیثیت رکھتے تھے اور تا ری ہلا کو میرے لیے انجان نہ تھا محض ایک کلائنٹ نہ تھا۔

    تاری ہلاکو کا بھی کبھی عا م انسانوں سا نامہُوا کرتا تھا۔ وہ ہمیشہ سے تو ایسا نہ تھا۔ مگر نہیں اس کے اندر شاید کسی ہلاکو خان کی ہی رو ح تھی۔ تب بھی جب وہ صرف طاہر علی تھا۔ وہ میرے شوہر کا دور پار کا رشتےدار تھا۔ جب میری نئی نئی شادی ہوئی تو گاؤں میں سسرالی رشتےداروں سے ملنے جلنے دعوتوں کے سلسلے ہو ئے تب میں نے اسے پہلی بار دیکھا۔ اس وقت طاہر علی دس گیارہ برس کا لڑکا تھا۔ انتہائی نیک والدین کی انتہائی نا خلف اور شریر اولاد، شریر تو شاید سبھی بچے ہو تے ہیں۔ اس کی شرارت سے صرف شر کا پہلو پھو ٹتا تھا۔ موسیٰ کے گھر فرعون پیدا ہو گیا تھا۔ کیا ایسا بھی ہوتا ہے؟ بچپن سے ہی بےرحمی، شقی القلبی، مار دھاڑ، فتنہ فساد پھیلانا اس کی گھٹی میں پڑا تھا۔ مجھے یاد ہے جب میں ان کے گھر گئی تھی۔ تو یہ کسی کا سر پھاڑ کر آیا تھا اور اس با ت پر اس کے باپ نے اس کو مارا تو اس نے باہر جاکر غصے میں ایک چوزے کو اس بری طرح دبوچا کہ وہ گلا گھٹنے سے مر گیا۔ یہ دیکھ کر دہشت سے میرا رنگ سفید پڑ گیا اور میرے پیٹ میں ایسے اینٹھن ہو نے لگی کہ نتیجتاً میں نے سارا کھا نا اگل دیا۔ دعوت بدمزگی کا شکار ہو گئی اور ہم لوگ وہاں سے واپس آ گئے۔ اس کے بعد گاؤں تو کئی بار آنا جانا ہوا مگر میں پھر کبھی اس کے گھر نہیں گئی ہاں اس کے با رے میں اسی نو ع کی خبریں ملتی رہتی تھیں۔ چھوٹی سی عمر میں وہ گھر چھوڑ کر پکا اشتہاری بن چکا تھا۔ کئی قتل و ڈکیتی کی واردتوں میں ملوث و مطلوب تھا اور جس بےرحمی سے قتل کرتا تھا۔ اسی وجہ سے طاہر علی جو ’’ تاری‘‘ کے نام سے بلا یا جا تا تھا ۔ ’’تاری ہلاکو‘‘ کہلا یا جا نے لگا۔

    اب یہی تاری ہلا کو میرے شو ہر کے پا س آیا تھا تو لا ز ماً میرا ٹھٹھک کچھ جانا بےجانہ تھا۔ میرے استفسار پر انہوں نے بتایا کہ وہ اپنے نہیں اپنے کچھ دوستوں کے سلسلے میں آیا تھا کہ اپنے بارے میں تو وہ خود بھی جا نتا ہے کہ ایک دن کو ئی اندھی گولی ہی اس کا مقدر ہے اور وہ اس کے بارے میں کوئی ایسا فکرمند بھی نہیں۔ وہ ان لوگوں میں سے ہےجو جتنی بھی جیتے ہیں اپنی مرضی اور خوا ہش کے مطا بق زندہ ہتے ہیں۔ بہرحال میں نے انہیں منع کیا کہ وہ اس سے یا اس کے کسی بھی دوست سے تعلق نہ رکھیں۔ وہ ہنسنے لگے ’’یار فوجدا ری وکیلہوں میرے کلا ئنٹ ایسے ہی خطرناک لوگ ہیں‘‘ مگر میرے ٹو کنے پر سنجیدہ ہو کر بو لے: ’’اچھا کوشش کروں گا ٹالنے کی مگر دیکھو دور پار کی ہی سہی رشتہ داری کا لحاظ بھی ہوتا ہے‘‘۔ میں نے چڑ کر کہا: ’’ہاں اور یہ خیال دو طرفہ ہوتا ہے یک طرفہ نہیں‘‘ وہ ہنس کر بو لے: ’’آخر ہو نہ وکیل کی بیوی‘‘ با ت مذاق میں ڈھل کر ختم ہو گئی۔ اس کے بعد دو تین دفعہ پھر وہ آیا یہ مجھے اپنے ملازم سے پتہ چلا لیکن میرے میاں نے غالباً اسے ٹال دیا۔

    اس دن میں باہر لان میں ہی بیٹھی تھی کہ میرے میاں کے آفس سے ان کے بری طرح کراہنے کی آواز آئی۔ میں بری طرح بدحواس ہوکر بغیر پرواہ کیے۔ ادھر کو لپکی دیکھا تو وہ اپنا سر پکڑے میز کے سہارے کھڑے تھے اور بھل بھل خو ن بہہ رہا تھا۔ میں نے حواس باختہ بیرو نی دروازے کی جا نب دیکھا مجھے لگا کہ میں نے تاری ہلاکو کی ہلکی سی جھلک دیکھی ہے۔ بہرحال فی الفور تو فوری طور پر میرے میاں کو میری ضرورت تھی۔ ان کو فوری طور پر ہسپتال لیجایا گیا۔ پٹی ہوئی شکر صد شکر کہ زخم کی نو عیت کچھ ایسی مہلک نہ تھی اور حا لت زرا بہتر ہو نے پر میرے استفسار پر انہوں نے تسلیم کیا کہ وہ وا قعی تاری ہلاکو تھا۔ اس دن ذرا سی بات پر مشتعل ہوکر اس نے بوتل سے میرا سر کھو ل دیا۔ میں جتاتی نظروں سے ان کی جانب دیکھا تو وہ ناراضگی سے بو لے: ’’ہاں تو تمہارا کیا خیال ہے میں اسے اپنے پاس آنے سے روکتا تو کیا اس وقت مشتعل ہوکر ایسی حرکت نہ کر سکتا تھا۔‘‘

    وہ تو نہ جانے کوئی پیدائشی خبیث روح ہے اماں بتاتی ہیں جب وہ پیدا ہوا تو اس کے ماتھے پر گہری سرخ لکیر تھی دائی نے تو اسی وقت کہا تھا: ’’یہ بچہ بڑا جلالی ہے اور دیکھ لو وہ سا نس لینے کو رکے ابھی کیا عمر ہے اس کی بمشکل اکیس بائیس برس اور وہ پکا اشتہاری مجرم جانے کب کوئی گولی اسے چاٹ جائے‘‘ وہ نہ جا نے کیا کہہ رہے تھے مگر مجھے پل لگا اپنی دُنیا میں گم ہونے میں میرے دماغ میں تو ’’پیدائشی خبیث رو ح‘‘ماتھے کا سرخ نشان گردش کر رہے تھے۔ مجھیلگا کہ جیسے اک اور حقیقت کا در مجھ پر کھلا۔ اس دن بڑے عرصے بعد میں نے قلم سنبھالا: تو کیا یہ بدن ہی نہیں روحیں بھی ہیں جو خبیث اور شیطانی قوتوں کی نمائندہ ہوتی ہیں۔ کیا یہ پہلے روح نہیں تھی جو دانۂ گندم کے خمار سے متاثر ہوئی اور بعد میں اسے مجسم بھٹکنے کو زمین پر اتارا گیا۔ کیا روحیں اس قدر مخمو ر بھی ہو سکتی ہیں کہ بدن پر نسبتیں ظاہر ہونے لگیں۔ کیا شیطان کی نمائندگی کرنے کو جوق در جوق رو حیں نہیں اتریں زمیں پر؟ بدی اور نیکی زمین کی دو متضاد قوتیں جس کا پلڑا بھاری ہو جائے۔ زندگی کا توازن بگڑ جائے کہ رات جتنی لمبی و طویل ہو صبح کی امید میں کٹ جاتی ہے اور دن چا ہے کیسا روشن اور دیر و دور تک کھلا رہے رات کا پرسکون اندھیرا ہی حسن قا ئم رکھتا ہے

    میں کچھ دیر کو رک گئی لگا مز ید الجھ گئی ہوں یہ میرے بس کی با ت ہی نہیں کہ میں طے کر سکوں کہ یہ اثر خمار روح کو چڑھا تھا یا پھر بدن کو کیا رو ح بھی غلیظ ہوتی ہے؟ کیا روحیں شیطان و رحمان کی نمائندہ نہیں ہوتی ہیں۔ یہ حقیقت کبھی نہیں سمجھ پاؤں گی اور میں نے اپنی اس تحریر کو یونہی نا مکمل ادھورا چھوڑ دیا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے