ہوش سنبھالتے ہی کٹھن امتحانات شروع ہو گئے۔ ماں سے ربط کیا ٹوٹا گویا میں اپنے مدار میں تیزی سے گھومتے ہوئے باہر آن پڑا اور بےمرکز ہو کر اپنی شناخت کھو بیٹھا۔ میرے ساتھ یوں ہوا جیسے کمہار کے تیزی سے گھومتے ہوئے چاک سے مٹی کا تودا پھسل کر زمین پر گر پڑے اور اپنی ہیت کھو دے۔ میں بھی اپنی ہیت کھو بیٹھا اور پھر راستے کے پتھر کی مانند ٹھوکروں کی زد میں آ گیا۔ ٹھوکر لگی توشکل بگڑ گئی۔۔۔ دوسری لگی تو شکل اور ہو گئی۔
شناخت کے اس طویل سفر میں شکلیں اتنی تیزی سے بدلیں کہ کوئی بھی شکل اپنی نہ رہی اور یونہی اک زمانہ بیت گیا۔ آج میرے پاس جو کچھ ہے وہ اسی گردش دوراں کی دین ہے۔۔۔ نا آسودگی، تنہائی، گمنامی، ناکامی اور اداسی ہے کہ سب نے مل کر من کا ہرا بھرا گلشن ہی ویران کر ڈالا ہے اب میں اپنے ناتواں کندھوں پر زمانے کے دیئے ہوئے آلام کا گٹھ اٹھائے زیست کی کٹھن اور انجان شاہراہ پر اپنی شناخت کے طویل سفر پر ہوں۔۔۔
نجومی بابا کہتا ہے ’’تیرے پیر میں بندھی مسافت کی یہ زنجیر پیدائشی ہے جو تجھے ورثے میں ملی ہے۔‘‘ کبھی کبھی مجھے لگتا ہے جیسے نجومی بابا ٹھیک کہتا ہو۔۔۔ میں بلوچ ہوں، مسافت میرا آبائی ورثہ ہے۔ میرے جد امجد سردار چاکر خان رندنے بھی طویل سفر کیا تھا۔ لق و دق صحراؤں اور پہاڑوں کا طویل اور ناتمام سفر، جو اسے تمام عمر زیست کی سرحدوں پر سے لے جاتا ہوا موت کی ٹھنڈی اور پرسکون وادی تک چھوڑ آیا تھا۔ زیست نے میرے باپ کو بھی اسی ڈگر پر ڈال دیا۔ سفر سب کا ایک جیسا ہے۔ کٹھن، طویل اور انجان لیکن راستے مختلف ہیں۔ ہم سب سفر میں ہیں۔۔۔ میری ماں بہت خوش قسمت تھی جسے طویل سفر نصیب نہ ہو سکا۔ بلکہ ان کی روح کا پرندہ قفس جاں سے جلد پرواز کر گیا۔ انہیں زندگی نے بخش دیا۔ شاید اس لیے کہ ان کی شخصیت اس پر فریب زندگی کے معیار پر پوری نہیں اترتی تھی۔ اس لیے زندگی نے انہیں مسترد کر کے عدم کو سدھار دیا اور یوں زندگی کے اس سفر میں لاکھوں انسانوں کے ہجوم میں، میں بالکل تنہا رہ گیا۔
زندگی کیا ہے؟ اس سوال کے جواب کی تلاش میں ازل تا ابد ان گنت انسان سرگرداں رہے۔۔۔ انہوں نے زندگی کی حقیقت کو جیسا پایا۔۔۔ اسے وہ اپنے اپنے انداز میں بیان کر گئے لیکن میں نے زندگی کو سفر سے مختلف نہیں پایا۔۔۔ جو آب رواں کی طرح چلتی ہی چلی جاتی ہے۔۔۔ کبھی نہیں رکتی۔۔۔ وقت کے تیز دھارے کے ساتھ ساتھ۔۔۔ وقت جو کسی کا انتظار نہیں کرتا۔ بس اپنی مخصوص رفتار سے چلتا رہتا ہے۔۔۔ زندگی سفر ہے، بلکہ سفر ہی زندگی کا دوسرا نام ہے۔ ہم سب زندگی کی گاڑی میں محو سفر ہیں۔۔۔ گاڑی جو روز نت نئے اسٹیشنوں پر رکتی ہے۔۔۔ اور پھر چل پڑتی ہے۔ ہماری آنکھیں ہر روز نئے منظر دیکھتی ہیں کچھ بھول جاتے ہیں۔ کچھ یاد رہ جاتے ہیں۔ ہر روز نئے چہرے دیکھتے ہیں کبھی کبھی پرانے چہرے اچانک سامنے آکر نظروں سے اوجھل ہو جاتے ہیں۔ انہی شناسا ناشناسا چہروں کے ہجوم میں، میں اپنے آپ کو تلاش کرتا پھر رہا ہوں۔
اب تو جیسے مجھے چہرے پڑھنے کی عادت سی ہو گئی ہے۔۔۔ چہرے۔۔۔ جو کھلی کتابیں ہیں، جو ورق ورق کھلتے چلے جاتے ہیں۔۔۔ ہر ایک کی الگ الگ کہانی ہے۔ ساتھ ساتھ چلتی ریل کی متوازی پٹڑیوں کی طرح ، جو اسٹیشن کے قریب پہنچ کر آپس میں ملنے کے بجائے قطع کرنے لگتی ہیں اور۔۔۔ کہیں پیچے والی ڈور کی مانندآپس میں الجھ جاتی ہیں۔ میں انسانی چہروں پر لکھی کہانیاں پڑھتا ہوں۔ شاید اس لیے کہ انسان کا خمیر ایک جیسے عناصر سے اٹھایا گیا ہے۔ یوں یہ مروت فطری ہے بنیادی طور پر سب انسان ایک جیسے ہیں۔ ان کے داخلی و خارجی احساسات، ان کے اندر کی تنہائی اور ویرانی ایک جیسی ہے۔ سڑک پر انسانوں کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے ہجوم میں کبھی کبھی مجھے لگتا ہے ایسے ہر شخص اپنی تلاش میں مارا مارا پھر رہا ہو۔ شاید میری طرح وہ بھی اپنے مرکز سے بچھڑ گئے تھے۔۔۔!
ایک دن میں تلاش کے اس سفر میں ایک ہجوم بازار سے گزر رہا تھا کہ اچانک منادی کے ڈھول کی آواز نے متوجہ کیا۔
حضرات! ایک ضروری اعلان سنئے! ایک نوجوان جس کی عمرپینتیس سال ہوگی کئی برس پہلے اپنی ماں سے بچھڑ گیا تھا۔ اس کی آنکھوں اور بالوں کا رنگ سیاہ اور کپڑوں کا رنگ سلیٹی ہے۔۔۔ اس کے ماتھے پر زخم کا نشان ہے۔۔۔ اس کی نگاہوں میں اداسی اور ویرانی ہے۔ ہاتھوں میں شناخت اور قابلیت کے سرٹیفکیٹ ہیں اور پاؤں میں ازل سے سفر کی زنجیر بندھی ہوئی ہے۔ اگر ایسا نوجوان کسی کو نظر آئے تو ’’ماں جی‘‘ کو اس کا پتہ بتا کر منہ مانگا انعام حاصل کریں۔ ’’ڈم۔۔۔ ڈما ڈم۔۔۔ ڈم۔۔۔‘‘
منادی سن کر میں اس سمت بھاگا۔۔۔ سفید ساڑھی میں ملبوس نورانی چہرہ اور بالوں میں چاندی لیے بگھی کی اگلی نشست پر بیٹھی عورت ’’ماں جی‘‘ تھیں۔ اپنے اردگرد اکٹھے ہونے والے ہجوم میں ان کی بےقرار نگاہیں بڑی تیزی سے اپنے بیٹے کو تلاش کر رہی تھیں۔ ان کا نورانی چہرہ دیکھ کر یوں لگا جیسے میں مدار کے قریب پہنچ گیا ہوں۔ ایک لمحہ کے لیے مجھے امید کی کرن نظر آئی۔ مجھے میری ماں تلاش کر رہی تھی۔ میری منزل لمحہ بہ لمحہ قریب سے قریب تر ہوتی جا رہی تھی۔
میں نے کئی بار ہجوم کو چیر کر بگھی کے قریب پہنچنے کی کوشش کی۔ ہجوم میں سبھی نوجوان تھے، ہر ایک کے چہرے کی کیفیت ایک جیسی تھی، میں بڑی کوشش کے بعد بالآخر بگھی کے قریب پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔ لیکن اس کوشش میں میرا گریبان تار تار ہو گیا۔ میرا دایاں ہاتھ بار بار اپنی پیشانی پر زخم تلاش کر کے رک جاتا۔۔۔ ایسے میں جسم کے اندورنی زخم پھر سے تازہ ہو گئے۔ پھر میں نے ہولے ہولے اپنے اندر کو ٹٹولا میں۔۔۔ میں تو وہ نہیں رہا جس کی ماں جی کو تلاش ہے، جو کئی سال پہلے ماں سے بچھڑ گیا تھا اس کا بیٹا تو معصوم اور بےریا تھا اسے اپنے اسلاف کے بلند کردار اور روایات پر فاخر تھا وہ ان روایات کا پاسبان تھا وہ بہادر، سچا اور کھرا نوجوان تھا۔۔۔ جبکہ میں اس جیسا کہاں، ہوں میرے اندر تو نرا کھوٹ بھرا ہے، میں روایات سے باغی، بزدل اون جھوٹا انسان ہوں، جسے دیکھ کر ماں جی کا شفاف آئینہ دھندلا جائےگا وہ مجھے کیسے پہچانیں گی۔۔۔‘‘
دفعتاً ماں جی کی نظر مجھ پر پڑی تو میں نے لمحہ بھر کے لیے ان کی نگاہوں میں اپنائیت کی ایک جھلک دیکھی۔۔۔ لیکن پھر انہوں نے پریشان ہو کر اپنا سر انکار میں ہلا دیا۔۔۔ اور بگھی ہجوم میں اپنا راستہ بناتے ہوئے آگے بڑھ گئی۔۔۔ میں اپنے جیسے سینکڑوں نوجوانوں کے ہمراہ ماں جی کی بگھی کر نظروں سے اوجھل ہوتے ہوئے دیکھتا وہیں کھڑا سوچتا رہ گیا اللہ جانے شناخت کے اس سفر کی منزل ہے بھی کہ نہیں۔۔۔‘‘۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.