Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

شانتی

MORE BYانجم قدوائی

    جب سے اسِ باڈر پر ڈیو ٹی لگی تھی وہ بہت اداس تھا ۔اڑتی ہوئی گرم ریت ،جا بجا سخت ٹیلے ،اور گرم ہواؤں کی تپش ۔

    اسےاپنا ٹھنڈا گھر ،گرم چولھا ، ہنستی مسکراتی بیوی اور کھلکھلاتے بچےٗ بہت یاد آتے تھے ۔وہ بس جیسے دن کاٹ رہا تھا ۔کبھی کبھی وہ منھ چھپا کر رویا بھی ،مگر ڈیوٹی تو ڈیوٹی ہے ۔

    دن بھر رائیفل لیکر باڈر پر کھڑا رہنا آسان نہیں تھا جب چلچلاتی دھوپ میں ریت کے بگولے اٹھتے تو اسُ کے پیر ریت کی تپش سے جھلس نے لگتے ۔مگر پھر بھی وہ یوں ہی کھڑا رہتا ۔اس کے جیسے اور بھی کئی فوجی اسِ باڈر پر موجود تھے ۔ان کے چہرے سیاہ اور جذبات سے عاری ہوگئے تھے ۔

    پہلی بار اسکی ڈیوٹی ریتیلے میدان میں لگی تھی ۔۔وہ بہت اداس اور پریشان تھا یہاں کی آب وہوا اسے موافق نہیں آرہی تھی ۔۔۔دن بھر شدید گر می میں رائفل لئے باڈر کے کانٹوں لگے جال کے پاس کھڑا رہنا پڑتا تھا ۔۔جہاں تیز دھوپ میں ریت چنگاریوں کی طرح اڑتی ۔۔اسکے ہاتھ پیر سخت دھوپ میں سیاہ ہوتے جارہے تھے ۔اسکے قدم ریتیلی تپش سے جھلس جاتے مگر باقی فوجیوں کی طرح اسے بھی یونہی الرٹ رہنا پڑتا تھا۔

    کئی بار وہ منھ چھپا کر رو یا بھی ،مگر اسکے ساتھی اسے اس طرح روتے ہوئے دیکھتے تو انکے چہروں کی ُدرشتی بڑھ جاتی ۔

    دھیرے دھیرے وہ اس ماحول کا عادی ہونے لگا ۔اس کا چہرہ بھی سیاہ ہونے لگا ۔اس کے انداز میں سختی سی در آئی تھی ۔

    سائیں واری ،پیر کمال کے گاؤں کی دھول اڑاتی زمیں ،ریت پھانکتے دن اور سرد راتیں ،اس کی آنکھوں کے خواب کہیں جاسوئے تھے ۔وہ تو فوجی تھا اس کو خواب دیکھنے کا حق بھی کہاں تھا ۔

    وہ شام کا وقت تھا جب وہ باڈر کے قریب کانٹوں دار جال کے پاس ۔۔خار دار جھاڑیوں میں چھپا اپنی ڈیوٹی پر تھا ،اسنے دیکھا ۔باڈر کے دوسری طرف گاؤں سے کچھ عورتیں رنگ برنگے کپڑے پہنے ہوئے اسی طرف چلی آرہی تھیں وہ الرٹ ہوگیا ۔

    وہ سب کچھ ڈری ڈری سی آنکھوں میں وحشت لئے ادھر ہی دہکھتی چلی آرہی تھیں ۔شاید گرمی کی وجہ سے ادھر گاؤں میں بھی کوئیں کا پانی خشک ہوچکا تھا اور وہ سب گاؤں سے کچھ دور باڈر کے قریب کے کنوئیں پر مجبوراً آئی تھیں ۔۔۔وہ سب جلدی جلدی کنوئیں کی جگت پر اپنے گھڑے رکھ کر ڈول سے پانی کھینچ کھینچ کر گھڑے بھرتی رہیں اور پھر سب ایک ساتھ تقریباً بھاگتی ہوئی وہاں سے چلی گئیں ۔

    اب وہاں سّنا ٹا تھا مگر اسکی زندگی میں ایک رنگ سا بکھر گیا تھا ،،،شاید یہ پھر کل یہاں پانی لینے آئیں ۔۔۔اس نے اس یکسا نیت سے اکتا کر سوچا ۔اور کھردھرے بستر پر کروٹ بدلی ۔آج رات اسے نیند بھی سکون کی آگئی تھی۔

    صبح سویرے جب وہ اٹھ کر جنگل کی طرف چلا تو اس نے کنوئیں پر انُ ہی عورتوں کو دیکھا جو بے خوف سی ہوکر پانی لے رہی تھیں آپس میں ہنستی باتیں کرتی ہو ئی ،ایک نے رسیّ سے بالٹی باند ھ کر کنوئین میں پھینکی ۔چھپاک کی آواز یہاں تک سنائی دی ۔۔وہ وہیں رکُ کر ان عورتوں کی کاروائی دیکھنے لگا ۔۔۔کسی نے گھڑا ہاتھ میں کمر پر اور کسی نے سر پر رکھا اور پانی بھر کے ہنستی باتیں کرتی واپس گاؤں کی جانب چلی گئیں ۔

    اب اس کو یہ نیا مشغلہ مل گیا تھا ۔۔وہ عورتیں جب پانی لینے آتیں اور ہنستی کھلکھلا تی باتیں کرتی گھڑوں کو سروں پر سجاتیں تو بے اختیار اسُ کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آجاتی ۔جینے کے لیئے کچھ تو نیا ہو ۔۔۔

    اب اکثر عورتیں قافلے کی صورت آتیں اور ایک نئی رسّی سے چمچماتی بالٹی چھپاک سے کنوئیں میں ڈالتیں وہ بات بات پر کھلکھلا کر ہنستی تھیں ۔انکے کپڑے گہرے رنگوں کے لنہگے اور بڑے بڑے روبٹے ہوتے وہ جمپر بھی پہنتیں مگر اپنے آپ کو بڑے سے چادر نما روبٹے میں چھپائے رہتیں ،جس پر بڑے بڑے رنگ برنگے پھول کڑھے ہوتے اور درمیان میں شیشے چمکتے رہتے ۔وہ اکثر باڈر کے تار وں کے پاس آجاتا اور مہویت سے ان کو دیکھتا رہتا ۔ان کے روبٹّوں پر لگے شیشے دھوپ میں کئی رنگ سجا دیتے تھے ۔

    اب کبھی کبھی ان میں دو یا تین عورتیں بھی آنے لگیں تھیں شاید انکو باڈر کا ڈر کم ہونے لگا تھا ۔اسی طرح ایک دن صرف دو عورتیں پانی لینے آئیں۔۔۔ایک پانی بھر رہی تھی دوسری اس سے مسلسل بات کرتی جارہی تھی ۔پہلی والی پانی بھر چکی تو اپنا گھڑا سر پر رکھ کر آگے بڑھی دوسری نے آواز دی ۔۔۔

    شانتی اور اسکی چادر سر سے سرک گئی ۔۔گہرے سرخ رنگ کی چادر پر جا بجا آئینہ چمک رہے تھے اسکے گہرے سیاہ بالوں کی چوٹی سامنے آگئی اس نے گھبرا کر تاروں کے جال کی طرف نگاہ کی ۔۔۔۔اسُ کی آنکھیں صارم کی آنکھوں سے ملیں ۔۔گہرا کاجل لگائے ہوئے سیاہ آنکھیں شرا رت سے بھر پور تھیں ۔صارم ایک لمحے کے لئے کھو سا گیا ۔دوسری عورت بھی پانی بھر چکی تھی دونوں تیز قدموں سے تقریباً بھاگتی ہوئی دور چلی گئیں اور وہ سحر ذدہ ساوہیں کھڑا رہ گیا ۔

    اس دن اسکو شدّت سے اپنے بیوی بچّے یاد آئے ،اپنا گھر اپنے لوگ ۔پتہ نہیں کب چھّٹی ملے گی اور کب ان سب سے ملے گا ۔۔ان سب کو یاد کرتے ہوئے اسی سخت زمین پر سو گیا ۔۔۔

    دوسرے دن صبح چار بجتے ہی سب فوجی مارچ کے لئے اٹھ گئے ۔پہلے جماعت سے نماز ادا ہوئی اسکے بعد سب ایکسر سائیز کرنے لگے ۔کچھ باد ل سے چھا گئے تھے فضا میں پھیلی خنُکی بہت بھلی لگ رہی تھی ۔اسکا دل بے وجہ ہی خوش تھا ۔

    اسُ نے ایک بار کنوئیں پر نظر ڈالی ،جگت خالی تھی ۔مگر کچھ ہی میں میں عورتیں آتی ہوئی دکھائی دیں ۔

    درمیان میں چلنے والی عورت کا سرخ لباس اسےُ کل کی خوبصورت آنکھیں یاد دلا گیا ۔۔

    شانتی اسُ نے زیر ِ لب دہرا یا

    شام ہوتے ہوتے کچھ آفیسرز کی گاڑیاں آکر رکئیں کافی دیر اندر کمرے میں میٹنگ ہوتی رہی کئی بار چائے بن کر اندر گئی ۔رات ہونے سے پہلے وہ سب لوگ لمبی گاڑیو ں میں بیٹھ کر واپس چلے گئے ۔

    اس نے دیکھا سینیرز کے پتھریلے چہرے کھنچے سے تھے ان پر تناؤ صاف نظر آرہا تھا ۔

    رات اور آگے بڑھ آئی تھی جب اس کو یہ حکم دیا گیا جس کو سنتے ہی وہ کانپ گیا ۔

    مگر جناب ۔۔۔! ان کی کیا غلطی ؟

    یہ اوپر والوں کا حکم ہے ہم کو ماننا پڑے گا ،تم اکیلے نہیں ہو ہم سب تمہارے ساتھ ہیں ۔

    مگر جناب ۔۔۔ان کی خطا کیا ہے ؟

    دشمن ملک کے لوگ ہیں بس یہی خطا کافی ہے ۔صفا یا تو کر نا پڑے گا

    اور اس رات دیر تک لونگے والا گاؤں میں بم باری ہوتی رہی ،عورتوں بچوّں کی چیخنے چلانے کی آوازیں اس کے کلیجے پر تیر کی طرح لگ رہی تھیں ۔سارا گاؤں جل رہا تھا ،گوشت جلنے کی بو،بلکنے کی آوازیں صاف سنائی دے رہی تھی اور یہ سب بےحس بنے خاموش بیٹھے تھے ۔صبح ہوتے ہوتے ادھر سناّ ٹا چھا گیا ۔۔۔بس کبھی کبھی ایک تیز چیخ سنائی دیتی ،۔۔جیپ کی گڑ گڑا ہٹ ۔۔وہاں فوجیں اپنے لوگوں کو میڈیکل ایڈ کے لئے لے جارہی تھیں ۔۔۔

    اب گاؤں سے کوئی آواز نہیں تھی ۔کوئی بچا ہی نہیں تھا شاید ۔۔۔

    ہر طرف ایک ہولناک سناّ ٹا چھا یا ہوا تھا ۔ریت کے بگولوں میں راکھ اور خون کی بو شامل تھی ۔خشک جھا ڑیا ں جل کر خاک ہوچکی تھیں کنوئیں کی جگت وپران پڑی تھی ۔کبھی کبھی کوئی جلا ہوا کپڑا کنوئیں کی جانب آنکلتا ۔۔پھر دور چلا جاتا ،صارم کی نگاہیں وہیں لگی رہتیں ۔۔۔

    ایک ہو کا عالم تھا ۔

    صارم کے وجود میں گہری اداسی اور بے چینی اسےُ تڑپا رہی تھی ۔اسُ نے چھّٹئ کی درخواست اپنے آفیسرکوبھیج دی تھی ۔وہ سر نیو ڑھائے بیٹھا رہتا کبھی ریت پر لکیریں کھینچتا کبھی سب کچھ مٹا دیتا کھا نا پینا سب کم ہوگیا تھا ۔ایک سوگواری سی اسےُ اپنی لپیٹ میں لیئے رہتی ۔وہ اندر سے بیمار ہوگیا تھا ۔اس کو بھنے ہوئے گوشت سے بد بو آتی وہ الٹیاں کر تا رہتا ۔باقی فوجی اسُ پر پھپتیاں کس تے

    ابے تجھے فوج میں کس نے بھیج دیا ۔۔۔؟ لڑکیوں کی طرح روتا رہتا ہے ہمیشہ ۔۔۔

    کئی دن گزر گئے وہ باڈر کے پاس لگے تاروں سے دور تک ویرانی دیکھتا رہتا ۔۔گاؤں کے جلے ہوئے ملبے پر اب ریت پڑ چکی تھی ۔

    ایک دن اچانک دور سے ایک ہیولا سا آتا نظر آیا ۔

    اس کی آنکھیں تاروں سے چپک سی گئیں ۔وہ سایہ کنوئیں کے قریب آرہا تھا ۔وہ کوئی عورت تھی جس کی کمر پر اپر سے ٹو ٹا ہوا ایک گھڑا تھا ۔وہ لڑکھڑا تی ہوئی قریب آگئی تھی ۔سفید ملگجی سی ساری ا س کے سر پر منڈھی ہوئی تھی ۔وہ لپک کر اسیُ جانب بھاگا جہاں سے کنواں ذیادہ قریب نظر آتا تھا ۔

    اس عورت نے کچھ ٹوٹی کچھ جلی سی رسی کا سرا وہاں پڑی پچکی سی بالٹی میں باندھا اور اسےُ کنویں میں ڈالا ۔۔۔پانی بھر کے وہ وہیں بیٹھ گئی اور گھونٹ گھونٹ پانی پیتی رہی ۔

    بڑی مشکل سے کئی بار میں وہ گھڑا بھر کے وہاں سے جانے کے لئے اٹھی ۔اسُ کے پیر لڑ کھڑا رہے تھے ۔اچانک تیز ہوا نے اسُ کا پلوّ سر سے اڑا دیا

    شانتی ی ۔۔۔ی ۔۔ی اسُ کے منھ سے چیخ کی صورت نکلا اور عورت نے مڑ کر اس کی جانب نگاہ کی

    اس عورت کی آنکھوں میں نہ کاجل تھا ،نہ شرارت ،نہ ہنسی ،نہ شکایت ۔

    اس کی آنکھیں بالکل خالی تھیں ۔۔۔!

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے