آج بھی وہی خبریں تھیں۔ بوڑھے غفور شاہ نے اخبار کو آنکھوں کے سامنے سے ہٹایا اور کان سے چشمے کی ڈوری کاپیچ کھول کراسے محراب میں رکھ دیا تو سامنے بیٹھے ہوئے شفیع ڈار کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں اوراس نے تعجب سے ان کی طرف دیکھا، ‘’آزبوز نا ایوانہ کھبری؟’‘ (کیا آج خبریں نہیں سنائیں گے؟)
‘’کیا سناؤں۔۔۔ ہر روز ایک جیسی ہی خبریں آتی ہیں، اتر میں بسے شہر میں فساد ہو گیا، ہماری وادی سے قریب کے شہر میں چلتی ٹرین میں ایک لڑکی کی آبرو لوٹی گئی، ملک کے چار غدار پکڑے گئے جن کا تعلق برسر اقتدار پارٹی سے ہے۔ دیگر ریاستوں میں موجود دیہاتوں میں کسان خود کشی کر رہے ہیں۔ رہی ہماری ریاست کی بات تو وہی سب کچھ ہے، یعنی ہو رہا کچھ اور ہے اور میڈیا لکھ رہا کچھ اورہے’‘انھوں نے اخبار کو غصے سے چولا مولا کرکے دروازے سے باہر پھینک دیا،’’شفیع ڈار آج سے میں اب اخبار بھی نہیں پڑھوں گا۔’‘
‘’تو ہے چھو برنوکالے ٹی۔ وی واچن تر مت۔’‘ ( آپ نے پہلے ہی ٹی۔ وی۔ دیکھنا بھی بند کر دیا۔)
‘’ہاں۔۔۔ !’‘ غفور شاہ نے ایک لمبی سانس لی، ’’اس میں بھی کیا دکھایا جاتا ہے؟ پروپیگنڈہ۔۔۔ جھوٹے اشتہارات۔۔۔ اور وزراء کے غیرملکی سفر کی تفصیلات۔۔۔ یا پھر کسی بےبنیاد خبر کی اسٹوڈیو میں بنائی گئی جھوٹی جھلکیاں۔۔۔‘‘ وہ زمین کو گھورنے لگے، ‘’کیا ریاست تھی ہماری، جنت نشان، زعفران کی خوشبووں میں بسی ہوئی، تا حد نظر سبز مخملیں دوب اور اس پر کہیں کہیں برف کے ٹکڑے، جیسے سفید سفید پھول مسکرا رہے ہوں، بادام کی ڈالیوں پر ہرے ہرے بادام پکھراج کی مانند جھلملا رہے ہوں، جھیلوں میں خوب صورت شکارے ڈولتے ہوئے، پیار و محبت کے نغمے گنگناتی لڑکیاں، دکھ درد میں ساتھ اٹھتے قدم ،بھیڑوں کی آوازوں سے گونجتی وادیاں، تب بندوقوں سے گولیوں نہیں جروالوکے پیڑوں پر پھول کھلتے تھے۔۔۔ آہ۔۔۔ اب تو یہ سب جیسے ایک خواب ہی ہوکر رہ گیا ہے۔۔۔، انھوں نے جھکی ہوئی گردن اٹھائی، شفیع ڈار کی طرف دیکھا، ‘’بھائی روز روز ایک جیسی خبروں کو کیا پڑھنا، اب تو بنا اخبار پڑھے بھی میں بتا سکتا ہوں کہ کیا ہو رہا ہے اور تمہارے دماغ میں بھی وہ سب کچھ روشن ہو جائےگا جو میں نے کہا بھی نہیں۔’‘
‘’لیکن کب تک ایسا ہوتا رہےگا؟’‘ شفیع ڈار نے افسوس بھرے لہجے میں کہنا شروع کیا، ‘’کبھی شک میں گرفتاریاں، آئے دن بند کا اعلان، کبھی انکاونٹر، کبھی گھروں کی تلاشیاں، اسکول کالج بند، ہم لوگ تو دوہری مصیبتوں کے شکار ہیں۔ وہ بھی ہم پر ہی بندوق اٹھاتے ہیں اور یہ بھی، کوئی یہ نہیں سوچتا کہ ایسے حالات میں ہم کیسے جی رہے ہیں۔ بستی میں روزگار کی کوئی سہولت نہیں اور۔۔۔’‘ ابھی وہ کچھ اور کہنا ہی چاہتے تھے کہ ٹھیک اسی وقت گھبرائی ہوئی غفور شاہ کی بیٹی زور سے دروازے کو کھولتی ہوئی داخل ہوئی اور اس نے جلدی سے دروازہ بند کیا اور دیوار سے لگ کر کھڑی ہو گئی۔ اس کی سانسیں تیز تیز چل رہی تھیں۔
‘’کیا ہوا ریشم۔۔۔؟ اس قدر گھبرائی سی کیوں ہے؟’‘ بیٹھک میں سے غفور شاہ کی آواز ابھری اور د ونوں بوڑھے اسے حیرت سے دیکھنے لگے تھے۔
اس کی سانسیں اسی طرح چل رہی تھیں۔ اس نے ہاتھ سے اشارہ کیا، گویا اپنی سانسوں پر قابو پانا چاہتی تھی، اس نے آنکھیں بند کر لیں، تو دماغ میں وہی منظر ابھر آیا۔ وہ ایک اونچے ٹیلے پر کھڑی قدرتی مناظر کا لطف اٹھا رہی تھی۔ تا حدِ نظر پہاڑی سلسلہ پھیلا ہوا تھا، سورج کی کرنوں کی وجہ سے وہ رنگ برنگے محسوس ہو رہے تھے، ان کے اوپر برف کی جیسے گوٹ ٹکی ہوئی تھی شاہ بلوط کے اونچے اونچے درخت برف کے ہیرے موتیوں سے سجے ہوئے تھے، بیچ بیچ میں چنار کے درختوں کے بڑے بڑے پتوں پر سورج کی کرنیں ناچ رہی تھی۔ ان کے بالکل پائنتی ندی، گنگناتے ہوئے بہہ رہی تھی۔ دور پلیا کو گود میں اٹھائے کچی پکی سڑک بھی دکھائی دے رہی تھی۔ اسی وقت اس نے کالی بیری اور اودی بیری کی گھنی جھاڑیوں میں کسی کی ہلچل کو محسوس کیا تھا، خوف کسی بجلی کی طرح اس کے پور جسم دوڑ گیا اور بےساختہ اس کی نظریں پلیا کی طرف اٹھیں اور وہ بےتحاشہ بلندی سے ترائی کی طرف دوڑی تب ہی قریب کے اناروں کے باغ سے لال تاج اور لاجوردی پروں والے پرندے نےاڑان بھری۔۔۔ شراتری تو ں۔۔شراتری توں۔۔۔ کی آوازوں سے جنگل گونج اٹھا اور ریشم کو محسوس ہوا گویا وہ آگاہ کر رہا ہو کہ۔۔۔ ذرا اپنی فکر کر تو۔۔۔ ذرا اپنی فکر کر تو۔۔۔
اور وہ کسی طرح گھر پہنچ گئی ،اس نے آنکھیں کھولیں اور جلدی جلدی سیڑھیاں چڑھتی ہوئی بیٹھک میں قدم رکھا ہی تھا کہ کہنا شروع کیا، ‘’با با اس طرف ملٹری کی لاریاں آ رہی ہیں۔‘‘
غفور شاہ نے بیٹی کی طرف لاپرواہی سے دیکھا، ‘’بیٹی یہ اب نئی بات تو رہی نہیں۔‘‘ وہ اپنی جگہ سےاٹھے، ‘’پتہ نہیں کیا مصیبت آنے والی ہے’‘ انھوں نے شفیع ڈار کی جانب دیکھا، ’’بھائی تم بھی اپنے گھر کی راہ لو۔۔۔‘‘ ایک لمبی سانسان کے منہ سے نکلی، ‘’اب تو ان باتوں کے عادی ہو چکے ہیں۔’‘ وہ ریشم کی طرف متوجہ ہوئے اوراس کی زبان سے نکلا، ’’بابا۔۔۔ بات صرف ملٹری کی لاریوں کی نہیں ہے۔‘‘
غفور شاہ کی آنکھیں تن گئیں اورانھوں نے آنکھوں ہی سے سوال کیا تو وہ بتانے لگی، ‘’میں نےادھر گھنی جھاڑیوں میں کسی کو دیکھا ہے۔ میں ڈھلان سے شاہ بلوط اور ساگوانوں کے درختوں کے بیچ سے دوڑتے ہوئے یہاں تک کیسے پہنچی میرا دل ہی جانتا ہے۔۔۔’‘ اچانک اس کی نگاہیں دروازے پر پڑیں، ‘’چاچا کب چلے گئے۔۔۔؟’‘
باپ کے جواب کا انتظار کیے بنا وہ دروازے کی طرف لپکی اور دروازہ بند ہی کر رہی تھی کہ کسی نے پوری طاقت سے دروازے کے پٹوں کو اندر کی جانب دھکیلا اور وہ نیچے گرپڑی اور تکلیف سے بھری ہوئی ایک کراہ اس کے منہ سے بلند ہوئی ۔غفور شاہ نے جیسے ہی قدم بیٹی کی طرف بڑھایا، دروازے سے ایک مشین گن بردار نوجوان داخل ہوا اور اس نے پھرتی سے دروازے کو بند کیا اورباپ بیٹی کی طرف گن کی نال اٹھاتے ہوئے حکم دیا، ‘’اپنی زبان بند رکھو۔۔۔ میں تو مارا ہی جاؤں گا۔۔۔ لیکن اس سے پہلے تمھیں بھی۔۔۔’‘ وہ دونوں ہی خوف زدہ نظروں سےاس کی طرف دیکھنے لگے۔ غفور شاہ نے بیٹی کو کندھے سے پکڑھ کر اٹھایا۔ نوجوان نے پھر ایک بار انھیں بندوق کی نال سے اشارہ کیا کہ وہ بیٹھک کی طرف چلیں۔
اور پھر وہ دونوں کے پیچھے پیچھے زینہ چڑھنے لگا۔۔۔
غفور شاہ کا مکان پہاڑی کے دامن میں ایک اونچے سے ٹیلے پر بنا ہوا تھا۔ صدر دوروازے میں داخل ہوتے ہی صحن میں خوب صورت پھولوں کی کیاریاں تھیں۔ ان کے پیچھے سیب کے کچھ درخت تھے۔ چھوٹی سی راہداری کے سامنے لکڑی کی سیڑھیاں تھیں جو آنے والے کو بیٹھک میں پہنچاتی تھیں۔ بیٹھک بہت زیادہ کشادہ نہیں تھی۔ اس میں ایک پرانی قالین بچھی تھی دیواروں پر تغرے آویزاں تھے۔
شمال کی جانب ایک بڑی سی کھڑکی تھی۔ جس کے سامنے کھڑے رہ کر نیچے پھیلی ہوئی بستی کو دیکھا جا سکتا تھا۔ بیٹھک کا اندورونی دروازہ مکان کے دوسرے حصوں میں لے جاتا تھا اور مکان کے آخر حصے میں بھی صحن تھا جس میں کچھ درخت تھے اور دیوار کے پیچھے ٹیکڑی تھی جوگھنی جھاڑیوں سے ڈھکی ہوئی تھی اور دور تک پہاڑی سلسلے پھیلے ہوئے تھے۔
بیٹھک میں پہنچتے ہی اس نے غفور شاہ کو اپنے دوسرے ہاتھ سے دھکا دیا، وہ گرتے گرتے بچے۔ریشم نےاسے غصے سے گھور کر دیکھا تو اس کے چہرے پر سفاک مسکراہٹ نمودار ہوئی۔وہ اس سے دو قدم دور ہٹی، ‘’بہن تو رہی ہوگی تم کو بھی۔’‘
اس نے نظریں جھکا لیں، ‘’میں ماں باپ بہن بھائی سب کو بھول کر اپنی لڑائی لڑ رہا ہوں۔‘‘ اس نے گردن اٹھائی، ‘’لیکن تمہارے جیسے لوگ جو اپنے بے بس راجا کی خواہش کو بھول کر صرف اپنی زندگی چاہتے ہیں ہمارے جیسےان کے لیے موت کا پیغام ہیں۔’‘ اس نے پھر ایک بار گن کی نال غفور شاہ کی طرف کردی، لیکن اس بار غفور شاہ کے چہرے پر دور دور تک خوف نہیں تھا، ‘’تو پھر راجا نے الحاق نامہ پر دستخط کیوں کر دیا تھا۔۔۔؟’‘
اس کی آنکھیں غفور شاہ کو گھورنے لگیں، اس نے مشین گن کا دستہ تپائی پر رکھا ’’ہمارے راجا ہری سنگھ نے برٹش حکومت کے نام ایک مراسلہ بھی بھیجا تھا کہ وہ ایک آزاد ملک کی طرح رہنا چاہتے ہیں اور دونوں ملکوں سے اچھے تعلقات رکھنے کے خواہاں ہیں، لیکن ایک طرف مغبوضہ وادی کی آڑ میں فوجی لشکر آگے بڑھنے کو بےتاب تھا تو دوسری طرف ہندوستانی لشکر۔۔۔ وادی تباہ و برباد ہو جاتی۔۔۔’‘
‘’تباہ و برباد تو اب بھی ہو رہی ہے۔۔۔‘‘ غفور شاہ نے شمالی سمت کی کھلی کھڑکی سے باہر جھانکا، غربت میں ڈوبے ہوئے چھوٹے چھوٹے مکانات، جن کی اینٹ اینٹ سے جھانکتا ہوا افلاس آسمان کی طرف دعاؤں کی صورت دیکھ رہا تھا، معاشی بدحالی، بےروزگاری، غربت، تعلیمی پسماندگی، بےسکونی، بدنظمی، اقتصادی پستی، قدرتی آفات، حتیٰ کہ باڑھ کا بھی مقابلہ کرنے کی سکت نہیں، ان کی آنکھوں میں ایک کے بعد ایک جانے کتنے منظر گردش کرنے لگے تھے، ‘’کیا تم کو گلی گلی گولیوں کی گونج، لاٹھیاں کھاتی لڑکیاں، عورتیں، بچے، مرد دکھائی نہیں دیتے؟ سڑکوں پر ہیبتناک سناٹے، بازاروں میں خاموشی، تعلیمی اداروں پر قفل نظر نہیں آتے؟۔۔۔ راجا کا خواب آنکھوں میں لیے پھرنے سے تعبیر نہیں مل جاتی۔۔۔؟’‘
’’جانتے ہیں ہم بھی۔۔۔ اس خواب کی تعبیر قربانیوں اور خون بہانے کے بعد ہی ملےگی۔۔۔‘‘
‘’کوئی گھر بچا ہے۔۔۔؟’‘ غفور شاہ نے اپنا چہرا دیوار کی طرف کر لیا، ‘’بوڑھی ہڈیاں رہ گئیں ہیں۔۔۔ جوان بیٹا جھوٹے انکاؤنٹر کی نذر ہو گیا۔۔۔ بڑھاپا رہ گیا۔۔۔ بوڑھاپے کا سہارا چلا گیا۔۔۔اور اب مجھے پورا یقین ہے۔۔۔‘‘ وہ تیزی سے نوجوان کی طرف پلٹے، ’’اپنے تحفظ کی خاطر یا تم ہمیں مار دوگے یا پھر تمہاری تلاش میں آنے والے سپاہی۔۔۔
اس نے کوئی جواب نہیں دیا، لیکن اس کے چہرے کا رنگ بدل گیا تھا، اس نے اپنی بندوق کو اٹھایا اور بیٹھک کے دروازے سے مکان کے دیگر حصے کا جائزہ لینے کے لیے اندر چلا گیا۔ غفور شاہ نے بیٹی کی طرف دیکھا۔ خوف اب بھی اس کے چہرے پر عیاں تھا، لیکن اس کی زبان سے نکلا، ‘’بابا۔۔۔ اس کا طریقہ صحیح ہے یا غلط۔۔۔ مجھے معلوم نہیں۔۔۔ لیکن پوری وادی کے نوجوان یہی سوچتے ہیں۔ خود میں بھی۔۔۔‘‘
غفور شاہ نے بیٹی کی طرف عجیب نظروں سے دیکھا، انھوں نےاسے کوئی جواب نہیں دیا لیکن ان سے کوئی کہہ رہا تھا، باغ کی حفاظت کے لیے لگائی گئی باڑ ہی ہی پھول پودوں کو کاٹنے لگے تو پھول پودے کیا کریں گے؟
پتہ نہیں وہ دونوں کب تکاسی طرح بیٹھک میں دم سادھے بیٹھے رہے۔ دونوں کی زبانیں خاموش تھیں اور آسمان پر پرندوں کے جھنڈ گردش کر رہے تھے۔ آخر کچھ سوچ کر ریشم بیٹھک سےاٹھ کر اندر گئی تو اس نے دیکھا صحن میں موجود درخت کے موٹے سے تنے کا سہارا لے کر وہ دیوار سے پرے جھانک رہا تھا۔ مشین گناس کی پیٹھ پر جھول رہی تھی۔ پھر وہ آہستہ سے جیسے ہی نیچےاترا، اس کے کانوں میں سرود کے تار جھنجھنا اٹھے، ‘’پتہ نہیں تم نے کب کھانا کھایا ہوگا۔’‘
اس نے پلٹ کر دیکھا تو ریشم باورچی خانے کی طرف جا رہی تھی ۔وہاس کے پیچھے پیچھے قدم اٹھانے لگا۔
ریشم نے دستر خوان پر کاشور سے بھری پلیٹ، سلاد، پانی کی صراحی اور گلاس رکھ دیا اور جونہی جانے کے لیے پلٹی نوجوان نے آہستہ سے کہا، ’’میرے مشن نے سارے رشتے توڑ دئیے تھے لیکن آج میں نے جانا قومی رشتے کبھی نہیں ٹوٹتے۔’‘ وہ دستر پر بیٹھ گیا۔
ریشم نے مسکراکر اس کی طرف دیکھا اور پھر غفور شاہ کے پاس چلی آئی۔ وہ کھڑکی سے لگے بستی کی طرف دیکھ رہے تھے۔ ایک عجیب سا وحشت ناک سناٹا چاروں طرف چھایا ہوا تھا اور وہ منہ ہی منہ میں پانچوں کلموں کو یکے بعد دیگرے پڑھ رہے تھے ۔وہ بھی باپ کے کندھے کے پیچھے سے بستی کو دیکھ رہی تھی۔ درخت خاموش کھڑے تھے اور ان کی ٹہنیوں پر بیٹھے لال تاج اور لاجوردی پروں والے پرندے شور مچا رہے تھے۔۔۔ شراتری تو۔۔۔ شراتری تو۔۔۔ شری تری تو۔۔۔
اچانک باہری دروازے پر اتنی زور سے ضرب پڑی کے وہ ٹوٹ کر نیچے گرپڑا۔ غفور شاہ تیزی سے بیٹھک کے دروازے پر پہنچے، انھوں نے دوازے کے چوکھٹ پر اپنے دونوں ہاتھ پھیلا دئیے۔ وردی پوش ہاتھوں میں گن لیے تیزی سے اندر داخل ہوئے۔ پرندوں کا شور ایک دم بلند ہوا۔۔۔ شرا تری تو۔ شرا تری تو۔۔۔ شرا تری تو۔۔۔ شرا تری تو۔۔۔
‘’کہاں چھپایا ہے اس غدار کو؟’‘ ایک گرج دار آواز ابھری۔
گھبراہٹ کے مارے غفور شاہ کے زبان بند تھی۔
‘’اسے ہماری زبان میں نہیں، بندوق کی زبان سے پو چھنا ہوگا۔‘‘ اور پھر کئی گولیاں غفورشاہ کے سینے کو چیرتے ہوئے نکل گئیں۔ ان کی چیخ کے ساتھ ہی ریشم اور پرندوں کے شور سے آسمان گونج اٹھا۔۔۔ شرا تری تو۔ شراتری تو۔۔۔ شراتری تو۔۔۔
وردی پوش تیزی سے مکان میں داخل ہوئے، انھوں نے مکان کا چپہ چپہ دیکھ ڈالا، لیکن وہاں کوئی بھی موجود نہیں تھا اور جب وہ واپس ہوئے توانھوں نے دیکھا ریشم باپ کی لاش سے چمٹی بےاختیار رو رہی تھی۔ وردی والوں نے ایک دوسرے کی جانب دیکھا، آنکھوں میں کچھ اشارے ہوئے۔ وہاسی طرح باپ کی لاش سے لپٹی ہوئی تھی۔۔۔
شراتری تو۔ شراتری تو۔۔۔ شرا تری تو۔۔۔ پرندوں کی یہ آوازیں آسمان میں گونج رہی تھیں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.