بنام بنک آفیسر۔۔۔تمہاری شرط کو پورا کرنے کے لئے پندرہ سال میں نے اس انیکسی میں گزارے ہیں۔ یہاں سے بیٹھ کر اس سر زمین کی زندگی کا مطالعہ کیا ہے یہ سچ ہے کہ میں نے زمین کی یا انسان کی شکل نہیں دیکھی لیکن تمہاری کتابوں میں، ہرنوں اور شیروں کا شکار کیا ہے، خوشبو دار شراب پی ہے، گانے گائے ہیں، ایسی عورتوں سے عشق کیا ہے جو تمہارے ہی شاعروں کے سحر اور اختراعی قوت سے تخلیق کردہ ہیں۔۔۔ ان کی اثیری اور ملکوتی خوبصورتی شب میں میری ہی کہانیاں مجھے ہی سنا کر میرے ہی کانوں میں رس گھولتی رہیں۔ تمہاری کتابوں میں، میں نے ایلبرز اور ماونٹ باینک کی چوٹیاں سر کیں جہاں سے میں سورج طلوع ہوتا دیکھتا تو کبھی شام میں سمندروں آسمانوں اور چوٹیوں پر سونا بکھرتا دیکھتا۔ سبز جنگلات، کھیت، دریا، جھیلیں، گاوں اور شہر دیکھے۔ میں نے دلکش نغمے اور چرواہوں کی بانسریاں سنیں ہیں۔ میں نے ان دیوتاوں کے پروں کو ہاتھ لگایا ہے جو مجھ سے خدا کے بارے میں بات کرنے اترتے تھے۔۔۔ تمہاری کتابوں میں، میں نے اپنے آپ کو گڑھوں میں پھینکا ہے، معجزے کئے ہیں، قتل و غارت، شہروں کو آگ لگائی ہے، نئے مذاہب کی تبلیغ اور بڑی سلطنتوں کو فتح کیا ہے۔
میں کتابوں کو، دانش کو اور دنیا کی تمام املاک کو مسترد کرتا ہوں۔ یہ تمام بےوقعت، عارضی، پرفریب اور دھوکے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے تم عقلمند اور دانا ہو لیکن موت ایک دن تمہیں صفحہِ ہستی سے مٹا دےگی۔تمہاری آئندہ نسل، تاریخ، لافانی ذہانت اس سب کے ساتھ مجنمد ہو جائےگی۔
تم اپنی منطق کھو چکے ہو اور غلط راہ پہ چل رہے ہو۔ تم نے حق پر ناحق اور خوبصورتی پر ہیبت ناکی کو ترجیح دی ہے۔تم حیران ہوگے اگر سیب اور سنگتروں کے درختوں پر مینڈک اور چھپکلیاں اگنے لگیں، اگر گلاب سے گھوڑے کے پسینے کی بو آنے لگے، اسی طرح مجھے تم پر حیرانی ہوتی ہے کہ تم نے جنت پر زمین کو ترجیح دی ہے۔ میں تمہیں نہیں سمجھنا چاہتا۔
عملی طور سے یہ ثابت کرنے کے لئے کہ میں تمہاری دنیا کو حقیر جانتا ہوں، میں ان دو ملین ڈالر سے دستبردار ہوتا ہوں جن کو میں کبھی جنت کا خواب سمجھتا تھا اور اب حقارت سے دیکھتا ہوں۔ میں اس رقم کے حق سے دستبردار ہوتے ہوئے شرط کے وقت سے پانچ منٹ پہلے میں یہاں سے جا رہا ہوں۔
چیخوف کے قیدی نے خط میز پر رکھا اور کھڑکی کھولی، تیز ہوا اور بارش کی بوچھاڑ نے خیر مقدم کیا۔ صبح کا پچھلا پہر تھا اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ کمزور اور ناتوں جسم نے جھریری بھری، ہوا کی تاب نہ لاتے ہوئے پیچھے ہٹا، پھر زور لگایا اور کھڑکی سے کود گیا۔ گھٹن سے آزاد اور بو سے پاک فضا نے پانچوں حسیات کو متاثر کیا۔ جنگل میں اس نے نزدیکی پیڑ کے پتوں پہ ہاتھ پھیرا، ایک پتے پہ اپنا دایاں گال رکھا، آنکھیں موند لیں، لمبا سانس بھرا، وہ پتوں کے لمس کے ساتھ اس اندھیرے کو بھی محسوس کرنا چاہتا تھا۔ ہر شے سے قربت کی جلدی میں تیز قدم اٹھاتا تو پنڈلیاں چٹخنے لگتیں، زمین پہ لیٹ گیا۔ موسیقی کے سارے سُر تال جو اس نے اب تک کتابوں میں پڑھے تھے، اس کے چہرے پہ بجنے لگے ٹپ ٹپا ٹپ ٹپ۔۔۔ بارش کی کَنیاں اپنا وائلن بجا رہی تھیں۔ نیچے گیلی مٹی نے اسے جکڑ لیا کبھی لوری کی صدائیں اسے سلانے لگتیں تو کبھی مٹی میں مٹی ملتی محسوس ہونے لگتی، کبھی یہی مٹی کومل نرمل گدگداہٹ میں تبدیل ہو جاتی اور کبھی ان سب کا اٹوٹ ملاپ۔۔۔ دھیرے دھیرے موسیقی تھم گئی، خامشی کا سرور اترنے لگا لیکن اس خامشی میں یہ وحشت کیسی، پندرہ سالہ خامشی کی وحشت۔۔۔
اس حالت کو چند ہی ثانیے گذرے ہوں گے یا چند صدیاں، فضا میں خوشگواریت پر پھیلائے چلی آئی۔ کو کو کوکو کی آواز خامشی کے در کھولتی اس کی سمت لپکی اور اپنے ساتھ ہواوں میں لے گئی۔وہ بھی اڑنے لگا، کبھی پَر گیلے ہو جاتے تو جھٹک جھٹک کر صاف کرتا، جو تھک جاتے تو سیدھے پھیلا لیتا۔ نیچے جھانکتا تو سب چھوٹے چھوٹے، دھندلے، بےوقعت۔
پہاڑوں کی چوٹیاں نارنجی اور سائے عنابی ہو رہے تھے، سرمگیں شال اوڑھے نور کی بارش اس کے پور پور میں سانسیں لینے لگی۔ اس کی آنکھیں پوری طرح کھل نہیں رہی تھیں۔ ذرا کھولنے کی کوشش کرتا تو چبھتی ہوئی تیز کرنوں سے گھبرا کر آنکھیں میچ لیتا۔
یہ نیا شہر اس کے لئے نیا نہیں تھا، پھر بھی ہر عمارت کی دیواروں کو ہاتھ سے مس کرتا تو اس کے ماتھے کی لکیریں چند لمحوں کے لئے غائب ہو جاتیں، ایک روشنی سے پھوٹنے لگتی، اس کی آنکھوں کے حلقے مدھم ہوتے اور کناروں پہ بنی لکیریں مندمل پڑ جاتیں۔ کیا کیا نہ بدل گیا تھا ان پندرہ سالوں میں، سب لمس نئے تھے۔ اس کی بھوک بڑھ گئی ، اس نے راہ گزرتے لوگوں پہ نگاہ کی، جی میں آئی کہ کسی کا ہاتھ تھامے، تو کسی کے سر کے بال چھو کر دیکھے۔ اس نے ایک کیفے میں کافی کا آرڈر دیا۔ میز پر بیٹھنے سے پہلے اس کی نظر شیشے کی میز پر چاندی کے نہایت نازک و نفیس جالی دار پوشش پر جا ٹکی، نئی طرز کا پوشش اس نے صرف کتاب میں ہی دیکھا تھا۔ اصل میں اس کی دکھاوٹ ہی نرالی تھی۔ چاروں جانب چلتے پھرتے لوگ اسے مشین معلوم ہو رہے تھے۔ اس نے اندازہ لگایا کہ ان میں ایک آدمی اس شہر کا باسی نہیں ہے اور گبھرایا گبھرایا پھر رہا ہے، اس نے اجنبی کو متوجہ کیا bonjour اس آدمی کے چہرے پر یکدم مسکراہٹ پھیل گئی، اس نے جواب میں کہا merci مسافر نے تقریباً ایک گھنٹے فرانسیسی میں باتیں کرنے اور ضروری معلومات لینے کے بعد اپنی راہ لی۔ قید میں مختلف زبانیں سیکھنے کا پھل اسے انسانی معاشرے میں ہی مل سکتا تھا۔ اب اس کی بہت سی اشتہائیں مٹتی جا رہی تھیں۔ اسے اپنے گھر کا خیال آیا،وہ اپنی ماں سے زیادہ نحیف و لاغر دکھائی دیتا تھا۔ آتش دان کے نزدیک کرسی پر بیٹھتے ہوئے اس کا دھیان کارنس پر پڑی پرانی تصویروں کی جانب گیا جس میں وہ گھڑ سواری کر رہا تھا، اسے اپنے اصطبل کا خیال آیا۔ اس کے گھوڑے ابھی اس کو نہیں بھولے تھے، ان کی ایال پر ہاتھ پھیرتے پھیرتے اسے کافی دیر ہو گئی تو اس کے گھوڑے نے اپنا منہ موڑ کر اس کے بازو پر نہایت پیار سے رگڑا۔ یہ احساس چنداں کتابوں میں منتقل نہیں ہو سکتا۔ اس نے بڑھ کر گھوڑے کا منہ چوم لیا۔ اس کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ وہ پہلے گھر کے کس احساس کو اپنے سینے سے لگائے۔ کمرے میں اس کی محبوبہ کی تصویر تھی، اس نے فون اٹھایا لیکن ایک نامعلوم خیال نے واپس رکھنے پر مجبور کر دیا۔ شاید ابھی وہ اتنی خوشی کا متحمل نہ ہو سکتا تھا کہ اس کی آواز سنے یا کسی بھی اور شدید دھچکے کے لئے تیار نہ تھا۔ ماں کی آواز اسے کسی کنویں سے آتی محسوس ہو رہی تھی ،وہ لمحہ بہ لمحہ جس کے ساتھ رہ سکتا تھا، ہر آتے پل کی تبدیلی محسوس کر سکتا تھا، اس کو اس نے ارادتاً ترک کیا تھا۔ اس نے اپنے دوستوں کی البم نکال لی ، ہائی سکول کے دوست، کالج کے دوست اور یہ وکیلوں کے ساتھ گروپ فوٹو تھی جب اس نے وکالت پاس کی تھی۔ وہ دھیرے دھیرے پنپنے لگا۔ کالج کی شرارتیں اور پڑھائی اور لڑکیوں کی باتیں انہین تازہ دم رکھتی تھیں، لال گلال چہرے لئے وہ ہواؤں کے مسافر تھے۔ بےارادہ اس نے اپنے چہرے پہ ہاتھ پھیرا اور آئینے کے سامنے جا کھڑا ہوا اور یکدم پیچھے ہٹ گیا۔ یہ تو کوئی اور ہی شخص تھا۔ اس نے طشتری سے پھل اٹھا کر کھانا شروع کر دیئے۔
محبوبہ کی فرمائش پر گھر میوزک کی آواز سے گونج اٹھا، وہ اس کے شانوں پہ ہاتھ رکھےکھڑی تھی۔۔۔ ’‘ایسی مدھر تان تو میں صدیوں سن سکتی ہوں’‘۔ جبکہ یہی تان چیکوف کے قیدی کے روئیں روئیں میں سرایت کر چکی تھی، ایسی وحشت کہ اس کے دل میں درد ہونے لگا۔ کمرے میں تالیوں کی آواز گونج رہی تھی۔
برآمدے میں چائے پیتے ہوئے اس نے محبوبہ کا ہاتھ تھاما، مخروطی انگلیوں کو اپنے ہاتھوں سے ایسے ناپتا تولتا رہا جیسے ان کا مجسمہ بنانا ہو۔ بالوں میں ہاتھ پھیرا اور جسم کے ہر حصے کو چھو کر محسوس کیا، اسے یقین نہ آتا تھا کہ وہ اس نعمت سے برس ہا برس محروم رہا ہے۔ آئینے میں تبدیلی آتی جا رہی تھی۔ اس کی چال سبک اور چہرہ سرخ و بشاش ہوتا گیا۔
ان کی گاڑی کافرستان کے پہاڑوں میں چکر لگاتی، خطرناک موڑ وں کو پیچھے چھوڑتی اپنی منزل کیلاش تک جا پہنچی۔ بادلوں میں گم ہوتی یہ وادی، اور اس پہ یہاں کی بلوری آنکھوں والے سادے مکین، اپنی محبوبہ کا ساتھ، نامعلوم ایسے کتنے ہی مناظر وہ کتابوں میں دیکھ چکا تھا۔ وہ سب اس کے لئے ہیچ تھے۔ ایک عام سی بات، پہاڑ، وادی، دریا، درخت اور لوگ۔۔۔ لیکن ان سب کو اپنے ساتھ دیکھنا، محسوس کرنا، سانس میں سرایت کرنا، یہاں کے پھل کھانا، میٹھے چشموں کا پانی پینا اور جھرنوں کے مدھر آواز جس کا کوئی بھی مشینی آلہ موسیقی مقابلہ نہیں کر سکتا۔ اسے قید میں لکھے آخری خط کے اپنے الفاظ یاد آنے لگے۔۔۔
یہ تمام بےوقعت، عارضی، پر فریب او ر دھوکے کے سوا کچھ نہیں
یہ تمام بےوقعت، عارضی، پر فریب او ر دھوکے کے سوا کچھ نہیں
یہ تمام بےوقعت، عارضی، پر فریب او ر دھوکے کے سوا کچھ نہیں
اس نے وادیِ کیلاش پر ایک نگاہ ڈالی۔ اس نے سوچا کہ وہ جو ایک اثیری، ایتھری ،سماوی ، ملکوتی، لطیف عمل سے گذر رہا ہے، یہی تو وہ جنت ہے اور یہی وہ خواب۔۔۔ جیپ واپسی کے لئے تیار تھی لیکن وہ آخری پانچ منٹ بھی وہیں گزارنا چاہتا تھا، زندگی میں ایک اور شرط اسے پھر سے ہارنا تھی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.