شکست
گرمی کی شام میں وہ لاؤنج میں ٹہل رہی تھی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں اس کے ذہن کو روشن کر رہی تھیں قلم کو ہاتھ میں لے کرکچھ دیر ہونٹوں پر رکھا کہ اچانک ہٹایا اور ایک جملہ کاپی میں لکھا ‘’وہ میری زندگی ہے‘‘ اور پھر کچھ دیر سوچنے لگی اتنی دیر میں ملازمہ چائے لے کر آئی وہ ایک گھونٹ چائے کا لے کر پھر ٹہلنے لگی نہ جانے اس وقت کون سا احساس تھا جس نے اس کو کچھ تو بےچین کیا ہوا تھا۔
شہر یار اس کے ساتھ کالج میں پڑھتا تھا لیکن اس کا ساتھ صرف کالج سے نہیں ہوا تھا بچپن سے وہ لوگ ساتھ پڑھتے تھے لیکن وقت ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا ہے شہریار اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکہ چلا گیا اور کشف اپنی تعلیم اپنے شہر میں ہی مکمل کرنے لگی لڑکیوں کی تعلیم پوری بھی نہیں ہو پاتی ہے کہ ان کے والدین کو اگر اتنی فکر نہ بھی ہو تو آس پاس والے یہ احساس دلانے لگتے ہیں کہ بیٹی کو اب اپنے گھر چلے جانا چاہیے، وہی گھر جس کو سسرال کہتے ہیں اور پھر اس کے بابل کا گھر پرایا ہو جاتا ہے۔کشف کے سامنے جب اس کی شادی کا ذکر ہوا تو اس نے صاف انکار کر دیا کہ وہ ابھی شادی نہیں کرےگی۔ اس وقت اس بات کو اس کے والدین نے نظر انداز کر دیا یہ سوچ کر کہ تیار ہو جائےگی۔
زندگی معمول کے حساب سے گزر رہی تھی کشف کالج جاتی اور گھر آکر بچوں کو پڑھاتی لیکن اس کے ذہن میں ایک خلش سی رہتی جو بھر نہیں پا رہی تھی، دن بھر مصروف رہنے کے باوجود شہریار کا خیال ہر وقت اس کے دل و دماغ پر طاری رہتا۔ بچپن سے ساتھ رہے تو یہ فطری بات ہے لیکن اس کے دل میں وہ صرف ایک بچپن کے ساتھی کی طرح نہیں تھا اس سے بڑھ کر اس نے اپنے دل میں جگہ دے رکھی تھی شہریار کو!
سماج نے اس کو بولنے کی اجازت نہیں دی تھی کیونکہ وہ لڑکی تھی اور اگر لڑکی اپنے جذبات کا اظہار کرے تو بدنامی کا ڈر رہتا ہے اور شریف لڑکیوں کی پہچان ہی یہ ہوتی ہے اس لیے وہ بھی ایسی ہو گئی گویا اس کے ذہن میں کوئی ایسا خیال ہی نہیں ہے لیکن جذبات کا جو سیلاب اس کے دل میں تھا اس نے کشف کو بے سدھ کر دیا تھا انسان خود کو مصروف کرکے کتنا ہی اپنی سوچ اور خیالات سے بچنا چاہے لیکن وہ اپنے دل کی آواز کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔
پوسٹ گریجویشن کے بعد کشف کے سامنے مسئلہ یہ تھا کہ کون سا کورس کرنا ہے لیکن اس کو دوسری طرف یہ بھی امید تھی کہ شاید اب شہریار آجائے اور کچھ بات بنے لیکن وہ اس کے انتظار میں ایسا تو نہیں تھا کہ اپنے مستقبل کے بارے میں نہ سوچے۔۔۔بچپن کی دوستی کو اب کوئی اور احساس مل چکا تھا اور وہ احساس اب اس کو ہر وقت تذبذب میں مبتلا کیے رکھتا تھا۔
شہریار اور کشف کا گھر زیادہ فاصلے پر نہیں تھا اس لیے پڑوسی ہونے کے ناطے ان کا ایک دوسرے کے یہاں آنا جانا رہتا تھا اور شہریار کی امی بھی کشف کو بہت پسند کرتی تھیں ان کی بھی خواہش تھی کہ وہ ان کی بہو بن کر ان کے گھر کو اپنے کردار کی خوشبو سے مہکا دے کیونکہ ایک لڑکی کا کردار مضبوط ہونا بہت ضروری ہے اور اس کی پوری شخصیت اس کے کردار پر منحصر ہے۔کشف کی امید بھی یقین میں بدلتی جا رہی تھی اور وہ بڑی شدت سے شہریار کی اپنے وطن واپسی کا انتظار کرتی۔
کبھی کبھی انسان کو آگے بڑھنے کی لگن اتنا حوصلہ دیتی ہے کہ وہ زندگی میں کچھ کر گزرنے کا اگر جذبہ رکھتا ہے تو اس کو حاصل بھی کر لیتا ہے حالانکہ کشف بھی اس خوبصورت احساس میں زندگی گزار رہی تھی جس کو دنیا ’محبت‘ کہتی ہے لیکن احساسات اور جذبات ہمیں کسی کے برابر نہیں کھڑا کرتے اگر ہمیں زندگی میں کچھ حاصل کرنا ہوتا ہے تو کبھی کبھی دل کو بھول کر دماغ سے سوچنے کی ضرورت زیادہ ہوتی ہے اور کشف بھی خود کو شہر یار کے معیار کا بنانا چاہتی تھی حالانکہ اس کے حسن میں کوئی کمی نہیں تھی لیکن تعلیم انسان کے دل و دماغ میں بیٹھ جائے تو اس کی محبت بھی بڑا خوبصورت احساس دلاتی ہے بہر حال کشف نے بھی پی سی ایس کا امتحان دیا اور ظاہر ہے جب لگن اور عزم ایک ساتھ مل جائیں تو کامیابی حاصل کرنا کچھ مشکل نہیں اور ٹریننگ کے بعد کشف کی پوسٹنگ اپنے شہر سے کچھ فاصلے پر ہوئی۔
پوسٹنگ ے بعد نئے لوگ، نئی فضا ملی جس سے وہ کچھ متاثر بھی ہوئی اور ساتھ ہی اپنے ماں باپ سے جداہونے کا اس کو دکھ بھی تھا لیکن تکنیک کی دین ہے کہ موبائل اور انٹرنیٹ دور والے کو بھی قربت کا احساس دیتا ہے اور اس کا بھی ان سے برابر رابطہ تھا۔ شب و روز کچھ بدلے نہیں تھے حسب معمول وہ اپنے کام کو انجام دیتی اور اس کو اہم عہدہ ملا تھا جس کو بخوبی سنبھالنا اس کا فرض تھا۔ اس کے کافی دوست بھی بن گئے تھے ان میں کچھ اپنی ذمہ داری کو ایمانداری سے انجام دینے کا جذبہ رکھتے تھے تو کچھ کسی نہ کسی صیاد کی گرفت میں بھی تھے کہیں نہ کہیں ان کو سچائی کے راستے سے بھٹکنا بھی پڑتا تھا لیکن ایک بھٹکے ہوئے کو راستہ دکھانا کوئی مشکل نہیں مگر جو صحیح راستہ دیکھتے ہوئے بھی غلط راہ پر چلے اس کو کوئی بات بتانا بےسود ہے۔
کشف کا عہدہ ایسا تھا جس پر کبھی کبھی اپنی راہ پر چلنا مشکل ہو جاتا ہے لیکن جس وقت اس نے کام کو ایمانداری سے کرنے کی قسم کھائی تھی اور وہ صرف قسم ہی نہیں تھی بلکہ اس نے ایک عزم بھی کیا تھا اور وہ وقت، وہ لمحہ، وہ الفاظ، وہ جوش، وہ جذبہ اس کو مشکل وقت میں بھی حوصلہ دیتا اور کسی بھی قیمت پر اس نے اپنے کردار کی ڈور کو چھوٹنے نہیں دیا اور اپنی ڈگر پر چلتے ہوئے اس کو ایسا محسوس بھی ہوتا جیسے وہ کسی ویرانے میں رہ رہی ہے۔
اس کے سامنے وقفے وقفے پر ایسے مسائل آتے رہتے اور کبھی اس کے حوصلے اور ہمت کی کرچیاں بھی ہونے لگتیں ویسے تو ٹوٹے ہوئے کانچ کی کرچیاں اکٹھا کرنا ناممکن ہے اور اس کے چبھنے کا خدشہ ہی نہیں بلکہ یقین ہوتا ہے لیکن عزم کا کانچ ایسا ہوتا ہے کہ اس کو دوبارہ جوڑنا مشکل ہوتا ہے پر ناممکن نہیں اور اگر اس کو یکجا نہ کیا جائے تو زندگی کا مقصد ڈگمگانے لگتا ہے۔
’’شہریار۔۔۔!‘‘ ہاں یہی لفظ اور اس لفظ سے، اس نا م سے وابستہ شخصیت اس کے دل میں بسی ہوئی تھی شام کو ٹہلتے تو اس کو اپنا ہم نوامحسوس کرتی، کچھ وقت پارک میں بیٹھتی تو اس کی یادیں سرگوشیاں کرتیں، کسی محفل میں جاتی تو اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں تصور کرکے مسکرا دیتی تو کبھی اس کو حاصل نہ کرنے کے خوف سے دل کو تسلی بھی دیتی۔
وقت کی خوبی ہے کہ وہ بدل جاتا ہے لیکن کبھی کبھی انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ وقت بدلے نہیں بلکہ ایک جیسا رہے، ماضی کے خوش گوار لمحے تصور کرتا ہے تو اس وقت کو دوبارہ جینا چاہتا ہے اور ان لمحات میں واپس جانا چاہتا ہے۔ ہاں! کشف بھی اپنے بچپن کے ساتھی شہر یار کے ساتھ گزرے بچپن کے وہ پل جس میں وہ اپنی دوستی ہر حال میں نبھاتے تھے۔ فطری طور پر خدا نے لڑکیوں کے دل کو اس قدر معصوم بنایا ہے کہ جس میں محبت، خلوص، وفا، ایماندار ی، انکساری اور قربانی کا جذبہ مردوں سے زیادہ ہوتا ہے اور یہ اس کا حوصلہ ہی تھا کہ وہ اپنے بچپن کے ساتھی سے برسوں سے ملاقات نہ ہونے کے باوجود اس کی یادوں کے چراغ اپنے دل میں روشن کیے ہوئے تھی۔
لڑکی خواہ کتنی ہی خود مختار کیوں نہ ہو جائے کچھ خدشات ساتھ رہتے ہی ہیں اور وہ بھی اکثر سوچتی کہ شہر یار کو وہ یاد بھی ہوگی یا نہیں لیکن اکثر شہر یار کی ماں اس بات کا ذکر کرتی تھیں کہ وہ کشف کے بارے میں اس سے گفتگو کرتی ہیں۔
صبح کو الارم کی آواز اس کو اس طرح جگا دیتی جیسے اس کو بےچینی سے انتظار ہو کہ کب صبح ہوگی اورکب وہ نیند سے بیدار ہو لیکن الارم کی آواز کے چند منٹ بعد ہی اس کو کال رنگ بھی سنائی دی اور ایسا عموماً ہوتا رہتا تھا۔ کام کے سلسلے میں وقت بے وقت کال آتی رہتی تھی۔
‘’ہیلو۔۔۔امی السلام علیکم‘‘
‘’وعلیکم السلام۔۔۔بیٹا مسز بشیر کی طبیعت بہت خراب ہے۔ تم کسی طرح یہاں آجاؤ اور بشیر بھائی بھی امریکہ گئے ہوئے ہیں’‘ مسز بشیر شہر یار کی ماں تھیں۔
‘’ٹھیک ہے امی۔۔۔میں کچھ دن کی چھٹی لینے کی کوشش کرتی ہوں۔’‘ یہ کہہ کر کشف نے فون بند کیا اور چھٹی کی درخواست پیش کی اور اس کو منظوری بھی مل گئی۔
گھر پہنچی تو معلوم ہوا کہ سب لوگ اسپتال میں ہیں وہ بھی وہاں چلی گئی جاکر دیکھا تو مسز بشیر کی تصویر بالکل بدل چکی تھی۔۔۔گول کٹورہ جیسی آنکھیں، ستواں ناک نقشہ، گلابی ہونٹ، چوڑی پیشانی، گورے رنگ کے ساتھ چہرے پر سرخی ایسی جیسے کسی نے گلاب رکھ دیے ہوں، دانت ایسے کہ مسکراتے وقت موتی کی طرح چمکتے ہوئے، بال ایسے ریشمی کہ بات کرنے کے دوران اکثر ان کے چہرے پر آ جاتے کبھی ان کو ہٹاتیں تو ان کو ہوا میں لہرانے کی آزادی دیے دتیں لیکن۔۔۔اب ان کے گلابی ہونٹ نیلے ہو چکے تھے، پیشانی پر لکیریں آ چکی تھیں، چہرے کی سرخ رنگت پیلی پڑ چکی تھی اور بڑی بڑی بند آنکھیں نہ جانے کیا بیان کرنے کی کوشش کر رہی تھیں۔
کشف کچھ دیر ان کو ایسے ہی دیکھتی رہی اور دیکھتے دیکھتے اس کی آنکھوں کا نم پانی مسز بشیر کے سرہانے ٹپک کر بیڈ شیٹ میں جذب ہوتا رہا۔ رشتے خون کے ہوں یہ ضروری تو نہیں اور کشف کا تو بچپن ہی ان کی باہوں میں تو کبھی ان کی گود میں گزرا تھا اور یہ توحقیقت ہے کہ کچھ رشتے خون کے رشتوں سے زیادہ گہرے اور سچے ہوتے ہیں۔ ان کے لیے الگ ہی جذبات ہوتے ہیں۔ جو بیاں بھی نہیں کیے جاتے ہیں۔
اگر خد ابیماری دیتا ہے تو اس کا علاج بھی دیتا ہے۔ مسز بشیر کا بھی علاج اونچے پیمانے پر ہو رہا تھا۔ غور کیا جائے تو انسان جس حسن پر ، جس دولت پر، جس صحت پر، جس شہرت پر اور جس دولت پر غرور کرتا ہے کیا حقیقت میں ہمیں اس بات کا حق ہے کہ ہم اس پر متکبر ہوں۔ خدا نے ہمیں یہ سب دیا اور کب وہ واپس لے لے کچھ نہیں معلوم۔ مسز بشیر کا حسن بھی ایسا ہی تھا جس پر رشک کرنا، غرور کرنا کوئی بڑی بات نہیں ویسے وہ جس شخصیت کی مالک تھیں اس سے اس بات کا کوئی لینا دینا نہیں تھا۔
کچھ دیر بعد کشف نے اپنی ماں سے پوچھا: ‘’آنٹی کی طبیعت کب سے خراب ہے؟ اور کیا بیماری ہے؟’‘
انہوں نے جواب دیا: ’’طبیعت تو کافی دن سے خراب تھی لیکن زیادہ خراب نہیں تھی اور اب رپورٹ میں ان کو کینسر آیا ہے۔’‘
کشف حیران رہ گئی اور کہنے لگی: ’’بشیر انکل کو بتایا۔۔۔؟‘‘
‘’فون کیا تھا لیکن بند جا رہا ہے’‘ انہوں نے کشف کو نمبر دیتے ہو ئے کہا۔
‘’اوہ۔۔۔!‘‘ یہ کہتے ہوئے اس نے دوبارہ فون کیا لیکن اب بھی بند ہی آرہا تھا۔
‘’میں ڈاکٹر سے بات کرتی ہوں’‘ یہ کہہ کر وہ کمرے سے باہر چلی گئی اور اس کی ماں وہیں کرسی پر مسز بشیر کے نزدیک بیٹھ گئیں۔
ڈاکٹر سے ملاقات کرنے پر معلوم ہوا کہ ان کا کینسر ابھی شروعاتی مرحلے میں ہے اور علاج اور دواؤں سے ٹھیک ہو سکتا ہے حالانکہ خرچہ بہت بتایا تھا پیسے کی اہمیت کسی کی زندگی سے زیادہ نہیں ہو سکتی۔ کشف بھی ایسے عہدے پر تھی جس میں یہی بتایا جاتا ہے کہ انسانیت ہر چیز سے پہلے ہے اور اس نے ڈاکٹر سے بہتر سے بہتر علاج کرنے کے لیے کہا اور پہلا کیمو سیشن اس کے سامنے ہی ہوا لیکن سرکاری ملازمت تھی زیادہ چھٹیاں بھی نہیں لے سکتی تھی اس لیے واپس اپنی نوکری پر لوٹ آئی اور فون پر برابر رابطہ ہو تا رہا، ویڈیو کالنگ کے ذریعہ بھی ان کی صحت میں اتار چڑھاؤ دیکھتی رہتی۔
جب انسان کے اوپر ذمہ داریاں عمر سے زیادہ ہو جاتی ہیں تو اس کی شخصیت میں ایک الگ ہی بردباری آ جاتی ہے۔ وہ کشف جس کی عمر اپنی دوستوں، اپنی سہیلیوں کے ساتھ ہنسنے کی، مستی کرنے کی تھی وہ ذمہ داریوں کے احساس سے اتنا متاثر ہو گئی تھی کہ اس کے چہرے کی مسکراہٹ بھی بہت کمی سے دیکھنے کو ملتی تھی۔
لفظ ’شدت‘ اسی لیے استعمال کیا جاتا ہے کہ اگر اس کو دوسرے لفظ کے ساتھ استعمال کر دیا جائے اور ذہن میں بیٹھا دیا جائے تو مشکل سے مشکل کام بھی آسان ہو جاتا ہے اور کشف نے بھی جس شدت کے ساتھ ان کا علاج کروایا تھا وہ بھی ان کے شوہر اور بیٹے کی غیر موجودگی میں۔۔۔علاج کرانے کا مقصد یہ ہرگز نہیں تھا کہ وہ ان کے بیٹے سے محبت کرتی تھی اس نے ایسا اس لیے کیا کیونکہ اس کا دل ہر غرض سے پاک صرف انسانیت کا محور تھا۔ مسز بشیر کو وقت لگا لیکن اب وہ پہلے سے بہتر تھیں اور ان کے شوہر بھی امریکہ سے واپس آچکے تھے ان کے لیے یہ بہت بڑا صدمہ تھا لیکن یہ بھی خوشی کی بات تھی کہ وہ اب ٹھیک ہو چکی تھیں۔
زندگی پھر پہلے جیسی ہو گئی اب مسز راشد نے کشف کے یہاں آنا جانا بہت کم کر دیا تھا اور بیماری سے گزرنے کے بعد وہ خاموش اور اکیلا رہنا پسند کرتی تھیں۔ کشف اکثر ان کے گھر جاتی تو اس کی ماں سے باتوں باتوں میں پوچھتیں تو وہ یہی کہتی کہ اس کو وقت نہیں مل پا رہا ہے اور ادھر کشف کے والدین اپنی بیٹی کی محبت کے اس جذبے سے، اس انتظار سے انجان تھے جس سچی محبت کو حاصل کرنے کے لیے برسوں سے وہ پاگلوں کی طرح انتظار کر رہی تھی اور ان کی ضد ہر رشتے پر یہی ہوتی کہ وہ ہاں کردے ظاہر ہے ایک پی۔ سی۔ ایس۔ افسر کے لیے رشتے بھی اس کے معیار کے آئے تھے لیکن کشف ہر بار ٹال دیتی۔
گرمیوں کی چھٹیوں میں کشف آئی ہوئی تھی، بالکنی میں بیٹھی وہ کتاب پڑھ رہی تھی اور اس کی آنکھوں میں نمکین پانی کے قطرے چمک رہے تھے۔ عورت خود کو کتنا ہی مضبوط کیوں نہ بنا لے لیکن اس کے جذبات و احساسات اس کو کمزور کر ہی دیتے ہیں۔
کشف مسز بشیر کے یہاں بیٹھی تھی کہ شہر یار کا فون اس کے سامنے آیا اس کی خوشی کی کوئی انتہا ہی نہیں تھی، اس کا دل چاہا کہ جلدی سے فون لے کر اس سے پوچھے: ‘’شہر یار تم کب آؤگے۔۔۔؟ میں تمہارا کب سے انتظار کر رہی ہوں۔۔۔؟ کچھ تو بتاؤ۔ ۔۔!’‘ ابھی وہ اپنے خیالات کی دنیا میں ہی تھی کہ شہر یار کی ماں اس کی طرف متوجہ ہوئیں اور کہنے لگیں کہ: ’’شہریار بتا رہا تھا کہ اس نے اپنے ساتھ کی ایک لڑکی سے شادی کر لی ہے۔۔۔بہت خوبصورت اور قابل لڑکی ہے۔۔۔یہ بات الگ ہے کہ ہم لوگ وہاں موجود نہیں رہے لیکن ہمارے بیٹے کا گھر بس گیا۔ یہ بہت خوشی کی بات ہے۔’‘ یہ کہہ کر وہ کچن کی طرف یہ کہہ کر چلی گئیں: ’’میں تمہارا منھ میٹھا کراتی ہوں بیٹا‘‘ ان کے الفاظ ناکشف کے لیے بجلی کی مانند تھے اور وہ فوراََ اپنے گھر واپس لوٹ آئی اور اپنے کمرے میں جاکر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی اور اپنی لاحاصل محبت کا ماتم کرنے لگی کتنی شدت سے انتظار کر رہی تھی وہ شہریار کا اور اس نے کیا صلہ دیا لیکن اس میں شہر یار کا کوئی قصور نہیں تھا اس نے کبھی کشف سے ساتھ رہنے کے وعدے نہ کیے تھے اور نہ ہی قسمیں کھائی تھیں اور وہ تو بالکل انجان تھا۔
ایسا بھی نہیں تھا کہ وہ اتنی کمزور تھی کہ پوری زندگی اس کو حاصل نہ کرنے کا ماتم کرتی۔ وہ اپنی زندگی میں آگے بڑھی۔ اس کے ماں باپ کی خواہش بھی پوری ہو گئی اور اس کی شادی ایک قابل آئی۔ اے۔ ایس۔ افسر سے ہو گئی۔ ماضی کی تلخیاں اکثر کشف کے دل و دماغ پر حاوی ہونے کی کوشش کرتیں لیکن وہ ان کو حاوی نہیں ہونے دیتی۔
کشف کا ٹرانسفر اس کے اپنے ہی شہر میں ہو گیا تھا۔ ایک دن کشف اپنی ماں کے گھر سے باہر نکلی تو اس کی پیشانی پر پسینے کی بوندیں چمکنے لگیں اور قدم وہیں رک گئے۔۔۔اس کے سامنے اس کا ماضی کھڑا تھا۔۔۔اس کی زندگی کا ہر لمحہ جس کو سوچتا تھا اس کی وہ محبت جس کا وہ تصور کرکے بے موقع مسکرا دیتی تھی وہ چاہت اس کے سامنے شہریار کھڑا تھا۔۔۔وہ شہر یار کسی اور کا ہو چکا تھا۔
کشف کو اس کے شوہر نے باہر آکر گاڑی میں بیٹھنے کے لیے کہا اور خود وہ اس کی کیفیت سے انجان گاڑی کی طرف بڑھ گیا۔ کشف کے قدم آگے بڑھنے کی اجازت نہیں دے رہے تھے لیکن وہ آگے بڑھی تو شہر یار سے آنکھیں چار ہو ئیں اور وہ دو قدم آگے بڑھ کر کشف کی طرف دیکھتے ہوئے یہ کہہ کر چلا گیا: ’’تم نے میرا انتظار بھی نہیں کیا کشف۔۔۔!‘‘
ایک اور زوردار بجلی اس پر گر پڑی اور اس کے گرد دنیا گھومنے لگی۔
اور اچانک اس کے منھ سے صرف یہی الفاظ نکلے: ’’اس کا مطلب آنٹی۔۔۔!‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.