شرم الحرم
’’مسٹر مصطفےٰ فائق تمہارا گھر کہاں تھا؟‘‘
مصطفےٰ فائق نے سامنے میز پر پڑے ہوئے نقشے کو سامنے سرکایا، انگلی رکھ کر کہا، ’’میرا گھر اس جگہ ہے۔‘‘
’’یہ تو سرحد پر ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہارا گھر تو گیا۔‘‘
مصطفےٰ فائق رکا، پھر دانت چبا کر بولا، ’’میرا گھر نہیں جا سکتا۔‘‘
’’نہیں جا سکتا۔‘‘ وہ ہنسا، ’’مگر وہ تو چلا گیا۔‘‘ رکا، پھر بولا، ’’تم عربوں نے بہت رسوائی کرائی ہے۔‘‘
امین کا منہ غصّے سے سرخ ہوگیا، لکھتے لکھتے قلم رکھ دیا، اس کی طرف مخاطب ہوا، ’’رسوائی ہم سب ہی کی ہوئی ہے۔‘‘
’’ہم سب سے تمہاری کیا مراد ہے؟‘‘
’’مراد یہ ہے کہ میری بھی اور تمہاری بھی۔‘‘
’’میری بھی؟ میری کیوں؟ میں تو وہاں نہیں تھا۔‘‘ وہ رکا، پھر کہنے لگا، ’’لوگ اس وقت بہت جذباتی ہو رہے ہیں، آج مجھے ایک آدمی ملا، جذباتی ہوکر کہنے لگا کہ مجھے نیند نہیں آتی، جب آنکھیں بند کرتا ہوں تو لگتا ہے کہ میں بیت المقدس میں ہوں اور لڑ رہا ہوں۔۔۔ بہرحال مجھے نیند آتی ہے، جو وہاں تھے وہ اس کے ذمہ دار ہیں، میں تو وہاں نہیں تھا۔‘‘
’’تم تھے وہاں۔‘‘ امین غصّے سے بولا، ’’اور میں بھی تھا۔‘‘ پھر امین اٹھا اورخبریں کریڈ کرتی ہوئی مشین کی طرف چلا گیا۔ ادھر اس نے بیٹھے بیٹھے سامنے میز پر رکھے ہوئے ریڈیوسیٹ کا سوئچ گھمانا شروع کر دیا۔
’’فلیش!‘‘ امین نے مشین پر جھکے جھکے اونچی آواز سے کہا۔ سوئچ گھماتے گھماتے ووہ رکا، مڑ کر امین کو دیکھنے لگا، ’’کیا خبر آئی؟‘‘
’’یرو شلم کا فال ہوگیا۔‘‘ امین مشین پر اسی طرح جھکا ہوا تھا۔
وہ پھر ریڈیو سیٹ پر جھک گیا، سوئچ گھمانے لگا۔ ’’امین، عمان اسٹیشن نہیں مل رہا ‘‘ ۔
وہ پھر سوئچ گھمانے لگا، عربی، فارسی، انگریزی جیسے کوئی انگریزی میں دھواں دھار تقریر کر رہا ہے۔۔۔ جیسے کوئی عربی کا نغمہ ہو۔۔۔ کہاں کہاں کے اسٹیشن مل رہے ہیں، عمان نہیں ملتا، پھر اسے یونہی امین کی بات کا خیال آگیا، میں بھی شامل تھا، مگر میں تو وہاں نہیں تھا، سوئی ایک جگہ ٹک گئی، یہ کون سا اسٹیشن ہے۔ زبان تو عربی ہے، مگر کون کیا کہہ رہا ہے، وہ ریڈیو پر جھک گیا۔ سننے کی کوشش کرتے کرتے اس کا دھیان بھٹک گیا۔ سیٹ کے ڈائل پر بھٹکتی ہوئی سوئی۔
’’فلیش!‘‘ یرو شلم کا فال ہو گیا، یرو شلم، یر میا نبی کا نوحہ، یرو شلم گر پڑا، یرو شلم گرپڑا، اے صبح کے شاندار فرزند تو کیوں کر آسمان سے گر پڑا، وہ جو خلائق سے بھری تھی بیوہ کی مانند ہوگئی، وہ جو قوموں کے درمیان بزرگ اور صوبوں کے بیچ، ملکہ تھی خراج گزار ہوگئی۔۔۔
امین نے خبروں کا طومار میز پر بکھیر دیا اور کرسی پر مستعد ہوکر بیٹھ گیا اور خبروں کو الگ الگ پھاڑ کر ترتیب دینے لگا۔
اس نے سوئچ گھماتے گھماتے امین کو دیکھا، ’’کوئی اور خبر؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
وہ پھر ریڈیو پر جھک گیا، ’’یار عمان اسٹیشن کا پتہ نہیں چل رہا، مصطفےٰ فائق کہاں گیا، وہ ملائے گا۔‘‘
’’وہ چلا گیا۔‘‘ امین نے خبریں الگ الگ رکھتے ہوئے کہا۔
’’کیوں؟‘‘
’’تمہاری بکواس سے تنگ آکر۔‘‘
’’میں نے غلط کہا تھا؟‘‘
’’مجھے غصّہ مت دلاؤ، مجھے بہت خبریں کرنی ہیں۔‘‘
’’تو آج قاہرہ ریڈیو کور نہیں ہوگا۔‘‘
’’کیسے ہوگا، اسے تم نے بیٹھنے ہی نہیں دیا۔‘‘
امین کی بات کا جواب دیے بغیر وہ پھر ریڈیو پر جھک گیا، سوئچ گھماتے گھماتے اسے مصطفےٰ فائق کا خیال آیا، پچھلے تین دنوں سے وہ فلسطینی نوجوان کتنے جوش و خروش سے اس دفتر میں آرہا تھا، قاہرہ کے ریڈیو سے خبریں سن کر انہیں انگریزی میں قلم بند کرتا، ایک ایک خبر سمجھاتا اور حوالے کرکے رات کے ایک ڈیڑھ بجے جاتا، آج وہ کتنی خاموشی سے چلا گیا، قاہرہ ریڈیو سنے بغیر۔
اس نے سوئچ کو ایک مرتبہ پھر گھمایا، سوئی مختلف ہندسوں کو عبور کرتی ہوئی مختلف ہندسوں تک گئی، دنیا کے کتنے اسٹیشن اس ننھی سی سوئی کی زد میں ہیں مگر عمان کہاں ہے؟ میں وہاں کہاں تھا؟ کیسے؟ اسے امین کی بات پھر یاد آ گئی، جیسے ہلکی سی پھانس چبھی تھی، پھر لگا کہ نکل آئی، مگر وہ تو چبھ رہی تھی، میں وہاں نہیں تھا۔ اس نے قطعی انداز میں سوچا اور پھانس نکال کر پھینک دی، فلیش۔۔۔ یرو شلم کا فال ہو گیا۔ فلیش بیک۔۔۔ یرو شلم گر پڑا، یرو شلم گرپڑا، یرو شلم، یر میا نبی کا نوحہ۔
دیوار گریہ، سنیپ۔۔۔ دیوار گریہ تنگ گلیوں میں گھری ہوئی تھی، اب وہاں کشادہ میدان ہے۔ (رائٹر)دیوار گریہ، سیلاب گریہ، سیلاب گریہ در پئے دیوار ودر ہے آج، اس کی وردی خون پسینے اورمٹی میں سنی ہوئی تھی، جسم لہو لہان تھا، چہرہ جھلس گیا تھا اور کالونس اس پر پت گئی تھی، اس نے آنکھیں کھولیں۔ پھٹی پھٹی آنکھوں والے سفید ریش اعرابی کو دیکھا، سرخ پٹکے والے آدمی کو دیکھا اور آنکھیں بند کر لیں۔ سفید ریش اعرابی اس کی بالیں پر بیٹھ گیا اور بولا اے بہادر ہمارے ماں باپ تجھ پر سے فدا ہوں، اٹھ اور جو کچھ ہوا ہے اسے بیان کر، اس نے کراہتے ہوئے جواب دیا کہ، ’’جو کچھ ہوا ہے اسے کیونکر بیان کروں کہ میں زندہ نہیں ہوں۔‘‘
’’ہاں! ہم نے دیکھا اور ہم نے گواہی دی کہ تو زندہ ہے۔‘‘
تب اس نے آنکھیں کھولیں، اٹھ بیٹھا اور یوں گویا ہوا کہ یا نباءالعرب اگر تمہاری گواہی سچی ہے اور اگر میں زندہ ہوں اور اگر تم زندہ ہو تو سنو اور جانو کہ جو مارے گئے وہ اچھے رہے بہ نسبت ان کے جو زندہ رہے اور ذلیل ہوئے اور میں جب چلا تھا تو زندہ تھا، ہمارے دلوں نے یوں جنبش کھائی جیسے بن کے درخت آندھی سے جنبش کھاتے ہیں۔ اور ہم آدھے یروشلم سے نکلے اور آدھے یروشلم میں جا داخل ہوئے، اور ہم نے منادی کی کہ آج یروشلم یرو شلم سے مل گیا۔
ہمارے عقب میں فصیل تھی اور سامنے دشمن کی دیوار تھی، معرکہ سخت تھا، اس ہنگام میں ایک عدد ٹیلے پر چڑھا اور پکارا کہ اے غافلو!عمان ڈھے گیا، میں نے نعرہ مارا کہ میں قائم ہوں، پھر اس نے صدا دی کہ دمشق ڈھے گیا، میں چلاّیا کہ میں قائم ہوں، پھر اس نے نعرہ مارا کہ بیت المقدس ڈھے گیا، تب میں نے زاری کی اور کہا کہ میں ڈھے گیا ہوں اور میں نے اپنی گنہگار آنکھوں سے دیکھا کہ بیت المقدس ڈھے رہا ہے اور آدمی ایسے بکھر رہے ہیں جیسے تیز جھکڑ میں بھوسا بکھرتا ہے۔
سفید ریش اعرابی نے یہ سن کر گریہ کیا، عمامہ اتار کر خاک پر پھینکا اور پکارا۔ ’’القارعۃ مالقارعہ، وما ادراکَ مالقارعہ، یوم یکوُ نُ الناس کالفراشِ المبثوث۔‘‘
جھلسے چہرے خونم خون وردی والے سپاہی کی آنکھیں خشک تھیں اور وہ یوں گویا ہوا کہ’’اے بزرگ وہی وہ دن تھا جس کی تیرے اور میرے رب نے خبر دی تھی، میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ آدمی ایسے ہوگئے تھے جیسے پھیلے ہوئے ٹھنڈے ہوجانے والے پتنگے ہوتے ہیں۔ جوان ککڑیوں کی مانند کاٹے گئے۔ بچّے مٹی کے بنے پتلے کوزوں کی مثال توڑے گئے اور میں نے دیکھا کہ بیت المقدس کی کنواریوں نے بال کھولے ہیں اور سروں کو زمین تک جھکاتی ہیں، تب میں درد سے پکارا کہ اے بیت المقدس کی بیٹی، تیری کنواریاں رسوا ہوتیں، تو کہاں ہے، اور میں نے دیکھا کہ مقدس دروازہ گرا پڑا ہے۔‘‘
سفید ریش بزرگ ایسے ہلا جیسے زلزلہ میں اونچا گھر ہلتا ہے، بولا، ’’اور تو یہ خبر سنانے کے لیے زندہ رہا؟‘‘ جھلسے چہرے خونم خون وردی والے سپاہی نے کہا، ’’جو مارے گئے وہ اچھے رہے بہ نسبت ان کے جو زندہ رہے اور ذلیل ہوئے اور میں مر گیا۔‘‘
سفید ریش اعرابی نے افسوس سے اسے دیکھااور کہا کہ بے شک یہ آدمی مر گیا تھا۔ سرخ پٹکے والے آدمی نے ایک آہ سرد بھری اور سوال کیا کہ کیا ہم زندہ ہیں۔ اس پر سفید ریش اعرابی نے سرخ پٹکے والے آدمی کو، سرخ پٹکے والے آدمی نےسفید ریش اعرابی کو شک بھری نظروں سے دیکھا، دیکھتے رہے، ایک دوسرے کو تکتے رہے، پھر وہ دونوں بیک وقت یہ کہتے ہوئے اٹھے کہ چلو کسی سے چل کر پوچھیں کہ ہم زندہ ہیں یا موئے ہیں۔ چلتے چلتے وہ ٹھٹکے، ’’ہم کس طرف جاتے ہیں؟‘‘
’’تاشقند کی طرف۔‘‘
’’تاشقند کیا؟ تاشقند کیا؟‘‘
’’تاشقند، سمر قند، زہر خند، گو سفند۔‘‘
دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور پوچھا کہ ہمارے درمیان یہ تیسرا کون ہے اور کیا زبان بولتا ہے۔
میں کون ہوں۔۔۔ میں سوچ میں پڑ گیا۔
’’اے اجنبی، کیا تو ہم میں سے نہیں ہے؟‘‘
’’میں ؟ میں کون ہوں؟ کیا میں ان میں سے نہیں ہوں، میں کن میں سے ہوں؟ کہاں ہوں؟ مگر میں تو وہاں نہیں تھا۔۔۔
’’فلیش!‘‘ امین کی آواز پر چونک پڑا، امین پھر کریڈ پر جا کھڑا ہوا تھا اور کریڈ ہوتی ہوتی خبروں کو پڑھ رہا تھا۔ ’’فلیش، فلیش، فلیش۔‘‘
’’کیا فلیش ہے؟‘‘ اس نے مڑ کر امین کو دیکھا۔
’’تل ابیب۔ موثق ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ جنرل دایاں نے دیوار گریہ کو جا کر دیکھا، وہاں پہنچ کر اس نے اور اسرائیلی فوج نے گریہ کیا(اے ایف پی)
’’تو گویا شہر پر ان کا مکمل قبضہ ہے۔‘‘
’’ہاں۔‘‘ امین خبروں کا ایک نیا پلندہ لے کر آیا، میز پہ دے پٹکا اور کرسی پہ بیٹھتے ہوئے کہنے لگا، ’’یار، لوگ کہتے ہیں کہ موشے دایان اصل موسے دجال ہے۔‘‘ وہ ہنس پڑا۔
’’اس میں ہنسنے کی کیا بات ہے۔‘‘
’’کچھ نہیں، اچھا بتاؤ شرم الشیخ کی اور کوئی خبر آئی۔‘‘
’’شرم الشیخ کی خبر۔‘‘ امین کی آواز سے گرمی رخصت ہو گئی تھی۔ ’’اب کیا آئے گی، آچکی۔‘‘
شرم الشیخ کی خبر، آچکی، اور کوئی خبر، نہیں، اس کے ذہن کی سوئی پھر حرکت میں تھی، شرم الشیخ، دیوار گریہ، سیلاب گریہ، مگر عرب کہاں بیٹھ کر روئیں گے، صحرا میں اے خدا کوئی دیوار بھی نہیں، اور میں؟ کیا میں وہاں تھا۔۔۔؟ میں اور وہ۔۔۔
’’اے ناقہ سوار تو کس سمت سے آتا ہے؟‘‘
’’میں دمشق کی سمت سے آتا ہوں۔‘‘
’’اے دمشق کی سمت سے آنے والے، شرم الشیخ کی کیا خبر ہے۔‘‘ ناقہ سوار نے یہ سن کر چھاؤں میں بیٹھے ہوئے ان دو مردانِ صحرا کو بصد غور دیکھا، اپنا ناقہ روک کر کجاوے سے اترا، ناقہ کھجور کے تنے سے باندھا اور مردانِ صحرا کے قریب گھاس پر آ بیٹھا، آہ سرد کھینچی اور کہا، ’’شرم الشیخ کی خبر مت پوچھو۔‘‘
پہلے صحرائی نے یہ کلام سن کر سر جھکا یا اور کہا ’’شرم الشرف۔‘‘ دوسرا صحرائی غصّے سے دانت چباتے ہوئے بولا، ’’شرم العرب۔‘‘ میں نے گریہ کیا اور کہا، ’’شرم الحرام۔‘‘
’’شرم الحرم؟‘‘ ناقہ سوار اور وہ دونوں مردانِ صحرا چونکے، ’’یہ شخص کون ہے؟ کیا وہ ہم میں سے ہے؟‘‘
میں کون ہوں؟ کیا میں ان میں سے ہوں۔
پھر ان کے سر جھکتے چلے گئے، جھکتے چلے گئے حتیٰ کہ ان کی پیشانیاں خاک سے مس ہونے لگیں، شرم الحرم، شرم الحرم، شرم الحرم۔
پھرپہلے صحرائی نے خاک سے سر اٹھایا اور دوسرے صحرائی کو خطاب کرکے کہا کہ’’اے اپنے باپ کے بیٹے، تونے اپنے باپ سے کیا سنا؟‘‘ دوسرے صحرائی نے خاک سے سر اٹھایا، پھر وہ دو زانو ہو بیٹھا اور یوں گویا ہوا، ’’یا نباء الدین، میں نے اپنے باپ سے اور میرے باپ نے اپنے باپ سے سنا اور میرے باپ کے باپ نے کہا کہ سنا ہم نے ابولفضل زیتون فروش سے کہ زیتون اس نے ہمیشہ تولہ تولہ رتی رتی ٹھیک وزن کیا اور بیان کیا ابوالفضل زیتون فروش سے حسن بن احمد بن علی عسکری خیاط نے کہ کھونپ بھرنے میں کمال مہارت رکھتا تھا۔ اور خبر دی حسن بن احمد بن علی عسکری خیاط کو شیخ صدوق نے کہ چار ہزار پانچ سو اکہتر احادیث انہیں معہ حوالہ جات حفظ تھیں اور توریت پر انہیں عبور کامل تھا۔ انہوں نے روایت یوں نقل کی کہ وہ شخص قبلہ دان سے اٹھے گا اور یروشلم کے دروازوں پر ظاہر ہوگا، اس کی ایک آنکھ خراب ہوگی اور ہرا کپڑا اس پر پڑا ہوگا، اور بیت المقدس اس کے ہاتھوں بے حرمت ہوگا، وہ اونچے گدھے پر سوار ہوگا اور حرم کے دروازوں تک پہنچے گا۔
’’شرم الحرم۔ شرم الحرم۔ شرم الحرم۔‘‘ ان کے سر پھر جھکتے چلے گئے حتیٰ کہ پیشانیاں خاک سے جا لگیں۔
’’تب شام سے ایک مردِ دلیر اٹھے گا اور ارض لُدتک اس کا تعاقب کرے گا۔‘‘
ناقہ سوار نے خاک سے سر اٹھا کر کہا، ’’شام سے جو مرد دلیر اٹھے گا، وہ کہاں ہے؟‘‘
دوسرے مرد صحرا نے خاک سے سر اٹھایا، کھڑا ہوا، پکارا، ’’اے ارضِ شام سے اٹھنے والے مرد دلیر تو کہاں ہے۔‘‘
’’یہ تم نے کون سا اسٹیشن لگا رکھا ہے؟‘‘
’’کیا؟‘‘ اس نے چونک کر کہا۔
’’میں پوچھ رہا ہوں۔‘‘ امین بولا، ’’یہ تم نے کون سا اسٹیشن لگا رکھا ہے۔‘‘
یہ اسے پتہ نہیں تھا کہ کون سا اسٹیشن ہے، بہر حال ادھر ہی کا کوئی اسٹیشن تھا کیوں پروگرام عربی میں ہو رہا تھا۔ ’’پتہ نہیں کون سا اسٹیشن ہے، کیا خبر ہے عمان ہی ہو یا شاید قاہرہ ہو یا شاید بغداد ہو۔ مصطفےٰ فائق ہوتا تو بتاتا کہ کون سا اسٹیشن ہے اور کیا پروگرام ہو رہا ہے۔‘‘
’’میں عربی نہیں جانتا۔ ’’امین بولا، ’’مگرجو کچھ کہا جا رہا ہے سب میری سمجھ میں آ رہا ہے۔‘‘
اور میری سمجھ میں بھی آرہا ہے، اس نے دل میں کہا، پھر سوئچ گھمایا پھر سوئی حرکت میں تھی، کون سا اسٹیشن کہاں ہے، بغداد، عمان، قاہرہ، دمشق الجزیرہ۔۔۔ الجزیرہ؟ یہ الجزیرہ ہے؟ بھرے ہوئے مجمع میں سے ایک شخص چلاّیا، ’’عبد الناصر کی ماں عبد الناصر کے سوگ میں بیٹھے، کیا وہ ہم سے تلواریں نیام میں ڈالنے کو کہے گا۔ تب صاحبِ ریش اعرابی نے زاری کی اور کہا کہ’’ہم سب عربوں کی مائیں ہمارے سب کے سوگ میں بیٹھیں کہ تلواریں ہماری کند ہوگئیں اور ہم نے انہیں نیاموں میں ڈال لیا۔‘‘
’’عرب کا بہادر بیٹا کہاں ہے؟‘‘ چلانے والے نے چلا کر پوچھا۔
عرب کا بہادر بیٹا؟ سب ٹھٹک گئے، متعجب ہوئے، ہاں عرب کا بہادر بیٹا کہاں ہے، پھر ایک آواز ہو کر چلائے، ’’عرب کا بہادر بیٹا کہاں ہے؟ عرب کے بہادر بیٹے کو باہر لاؤ۔‘‘
تب جھلسے چہرے خونم خوں وردی والا سپاہی مجمع کو چیرتا ہوا آگے آیا، گویا ہوا، ’’ایہا الناس، عرب کے بہادر بیٹے میدانوں میں سوتے ہیں، جو مارے گئے، وہ اچھے رہے بہ نسبت ان کے جو زندہ رہے اورذلیل ہوئے اور عرب کے بہادر بیٹے بلند و بالا کھجوروں کی مانند میدانوں میں پڑے ہیں، صحرا کی ہواؤں نے ان پر بین کیے، اور گرد کی چادر میں ان کی تکفین کی۔‘‘
’’اے خون میں نہائے ہوئے غازی، ہمارے ماں باپ تجھ پر سے فدا ہوں کچھ بتا کہ عرب کے بہادروں پر کیا گزری۔‘‘
’’اے لوگوں، میں تمہیں کیا بتاؤں اور کیسے بتاؤں کے میں تو زندہ ہی نہیں ہوں۔‘‘
’’یہ شخص زندہ نہیں ہے؟ عجب ثم العجب۔‘‘ تعجب سرگوشیاں۔
ایک آواز، ’’اے خون میں نہائے ہوئے عرب کے فرزند، تو کیوں زندہ نہیں ہے؟‘‘
’’ایہا الناس، میں زندہ تھا مگر زندہ نہیں رہا، میں زندہ نہیں رہا، میں زندہ تھا۔ جب میں بگولے کی مثال اٹھا اور آندھی کی طرح یروشلم کو عبور کرکے یروشلم میں گیا، میں نے عمان، دمشق اور قاہرہ کے ڈھے جانے کی خبریں سنیں اور زندہ رہا، پھر میں نے بیت المقدس کے ڈھے جانے کی منادی سنی اور ڈھینے لگا، میں نے بیت المقدس کے گلی کوچوں میں عرب جوانوں کو یوں پڑے دیکھا جیسے صبح ہو گئی ہے۔ اور ٹھنڈے پتنگے پھیلے بکھرے پڑے ہیں، میں نے عرب جوانوں کو پتنگوں کی مثال پھیلے دیکھا اور زندہ رہا، میں نے عرب کی کنواریوں کو لیر لیر لباس میں بال کھولے زمین پر جھکتے دیکھا اور میں زندہ رہا، اور میں پکارا کہ اے بیت المقدس کی بیٹی، کمر پر ٹاٹ باندھ اور بین کر تیرے فرزند خاک و خوں میں غلطاں ہوئے اور تیری کنواریاں گلی گلی رسوا ہوئیں، اس آن میں نے دیکھا کہ بیت المقدس کی بیٹی بے حرمت ہوتی ہے، تب میں نے اپنی گنہگار آنکھیں موند لیں، میں ڈھے گیا اور مر گیا۔‘‘
جھلسے ہوئے چہرے خونم خون وردی والے سپاہی نے آنکھیں موندیں، پھر وہ ڈھے گیا اور مر گیا، ایک مرد اعرابی نے روتے روتے اپنا عمامہ زمین پر پھینکا اور اپنے گیسو بکھیرتے ہوئے چلایا کہ عرب کے سب صحراؤں کی خاک میرے سر میں، عرب کی غیرت مر گئی۔ دوسرا درد سے بولا کہ اے کاش میرا سر پانی ہوتا اور میری آنکھیں آنسوؤں کا سوتا ہوتیں کہ تا عمر روتا رہتا اور آنکھ کی پتلی کو سستانے نہ دیتا۔ سفید ریش اعرابی نے آنسوؤں میں تر ہوتی داڑھی پر ہاتھ پھیرا اور منادی کرنے لگا، ’’القارعۃ مالقارعہ و ما ادراکَ مالقارعہ، یوم یکونُ الناس کا الفراش المبثوث۔‘‘
اس آن ایک بر بربگولے کی مثال اٹھا اور ٹیلے پر چڑھ کر قبضے پر ہاتھ رکھتے ہوئے نعرہ زن ہوا کہ قسم ہے سرپٹ دوڑتے گھوڑوں کی، اور قسم ہے ان کے سموں کی جو پتھروں سے ٹکراتے ہیں اور چنگاریاں اڑاتے ہیں اور قسم ہے اس دن کی جب گیا بھن اونٹنیاں بیکار ہو جائیں گی اور جب پہاڑ دھنی ہوئی روئی کے مثال اڑتے پھریں گے۔ اور جب دریاؤں اور سمندروں میں آگ لگ جائے گی کہ میری تیغ نیام سے نکل آئی ہےاور وہ نیام میں نہیں جائے گی۔
یہ کلام کر کے اس نے اونچے ٹیلے پر آگ روشن کی اور نیام کو دو ٹکڑے کرکے اس میں جھونک دیا، یہ دیکھ کر سب نے اپنی اپنی تلواریں نیاموں سے نکالیں اور نیام توڑ کر الاؤ میں جھونک دیے۔
’’یار ذرا آہستہ کرو۔‘‘
’’کیا۔‘‘ وہ چونکا، سوئی اپنے اسٹیشن سے ہٹ گئی تھی۔
’’میرا مطلب ہے کہ بہت اونچی آواز ہے۔‘‘ امین کہنے لگا، ’’ذرا آہستہ کرو۔‘‘
اس نے آہستہ کرتے کرتے بند کر دیا۔
’’کیوں؟‘‘ امین نے اس کی طرف دیکھا۔
’’یار کچھ سمجھ میں نہیں آرہا، نہ یہ پتہ چلتا ہے کہ کون سا اسٹیشن ہے، نہ یہ پتہ چلتا ہے کہ کیا کہا جا رہا ہے۔۔۔ کوئی اور خبر؟‘‘
’’کوئی نہیں۔‘‘
’’یار اس وقت مصطفےٰ فائق کہاں ہوگا۔‘‘
’’ہوسٹل میں ہوگا اور کہاں ہوگا۔‘‘
’’میں اس کے پاس جانا چاہتا ہوں۔‘‘
’’اس وقت؟‘‘
’’اس وقت؟‘‘
’’پتہ ہے کیا بجا ہے؟‘‘
’’پتہ ہے، تم چل رہے ہو؟‘‘
’’مجھے کاپی بھیجنی ہے۔‘‘
’’تو میں چلا۔‘‘
وہ اٹھ کھڑا ہوا اور دفتر سے نکل آیا، مگر وہ ہنوز دفتر میں تھا، خبریں کرتی ہوئی مشینوں کا شور، ریڈیو کی آوازیں، اس کے ذہن کی کیفیت بالکل ایسی تھی جیسے ریڈیو سیٹ کی سوئی ہو، اور مختلف ہندسوں، مختلف میٹروں پر گردش کر رہی ہو، اس نے اپنے آپ کو سمیٹا اور یکسوئی کے ساتھ اپنے آپ کو اطلاع دی کہ میں مصطفےٰ فائق کے پاس جا رہا ہوں، اب رات کا ایک بجا ہے، میرا رخ مصطفےٰ فائق کے ہوسٹل کی طرف ہے۔ مصطفےٰ فائق اس وقت کہاں ہوگا، میں اس وقت کہاں ہوں، میں مصطفےٰ فائق سے ملنا چاہتا ہوں، اس سے ایک بات کہنی چاہتا ہوں۔
’’مسٹر مصطفےٰ فائق، ہمارے شہر کا ایک آدمی آج مجھ سے ملا تھا، تمہیں پتہ ہے کہ وہ کیا کہہ رہا تھا کہ مجھے ان دنوں نیند نہیں آتی، جب آنکھیں بند کرتا ہوں تو ایسا لگتا ہے کہ میں بیت المقدس میں ہوں اور لڑ رہا ہوں۔‘‘
’’اچھا؟‘‘
’’ہاں، اور تمہیں معلوم ہے کہ وہ آدمی کون تھا؟‘‘
’’کون تھا؟‘‘
’’مجھے لگتا ہے کہ وہ آدمی جو مجھ سے ملا تھا وہ میں خود تھا۔‘‘
وہ آدمی جو مجھ سے ملا تھا، میں خود تھا، مصطفےٰ فائق رات کی اس گھڑی میں کہاں ہوگا، میں رات کی اس گھڑی میں کہاں ہوں، عمان، بغداد، دمشق، الجزیرہ کون سا شہر کہاں ہے؟ کون اس وقت کس شہر میں ہے، بیت المقدس میں کون ہے؟ بیت المقدس میں تو میں ہوں، مصطفےٰ فائق ہے، سب ہیں، کوئی نہیں ہے، بچّے کمہار کے بنائے پتلے کوزوں کی طرح توڑے گئے، کنواریاں کنوئیں میں گرتے ہوئے ڈول کی رسی کی مانند لرزتی ہیں۔ ان کی پوشاکیں لیر لیر ہیں، بال کھلے ہیں، انہیں تو آفتاب نے بھی کھلے سر نہیں دیکھا تھا۔
لیرلیر لباس میں کنواریاں اپنے کھلے بالوں کے ساتھ زمین پر جھکی ہوئی جیسے وہ زمین میں سما جائیں گی، وہ دن جب آدمی پھیلے ہوئے پتنگوں کی مانند ہو جائیں گے۔ ’’ہمارے درمیان یہ تیسرا کون ہے۔۔۔‘‘ میں کون میں ہوں، سفید ریش اعرابی نے پوچھا کہ ’’اے شخص کیا تو ہم میں سے ہے۔‘‘
میں نے کہا، ’’بے شک میں تم ہی میں سے ہوں۔‘‘
’’پھر بیان کر کہ بیت المقدس پر کیا گزری۔‘‘
میں نے زاری کی اور کہا کہ میں اس کے سوا کچھ نہیں جنتا کہ بیت المقدس کی بیٹی بے حرمت ہوگئی، شرم العرب۔ شرم العجم۔ شرم الحرم۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.