میں اور ڈاکٹر اورنگزیب کباب ہاؤس پہنچے تو وہ ہلکی سبز روشنیوں سے جگمگا رہا تھا۔ اندر داخل ہوئے تو ہال کی روشنیوں اور دھیمے سروں کی موسیقی نے ہمارا استقبال کیا۔ کباب ہاؤس شہر کی بڑی مارکیٹ میں اچھا اور صاف ستھرا ریسٹورنٹ تھا۔جس کے اعلی معیار اور ذائقوں کا چرچا شہر بھر میں عام تھا۔ شام ڈھلے اطراف میں میلہ سالگ جاتا۔ ریسٹورنٹ کے اندر تو کیا باہر سڑک کے کنارے تھوڑے تھوڑے فاصلے پر میز کرسیاں لگ جاتیں۔ آٹھ بجے کے بعد اطراف میں ٹریفک نہ ہونے کے برابر رہ جاتا۔ البتہ اگر کوئی گاڑی ادھر آتی تو کباب ہاؤس کے باہر روشنیوں کے سیلاب میں تیار ہوتے چپل کباب، سیخ کباب، چکن تکے اور چکن روسٹ کی خوشبو اور نظارہ اور ان کی خوشبو ایسی نہ تھی جو دیکھنے والوں کو آسانی سے گزر جانے دیتی۔ چنانچہ سرشام شروع ہونے والا خورو نوش کا میلہ رات کو اگلے دن کی سرحد پر چھوڑ کر تمام ہوتا۔ تا دیر کھلا رہنے کی وجہ سے یہ میرا پسندیدہ ریسٹورنٹ تھا۔ اس لیے دوستوں کے ساتھ اکثر یہاں آتا۔
ہال میں پہنچ کر ہم بازار کی سمت کھلنے والی کھڑکی کے ساتھ لگی پسندیدہ میز کی طرف بڑھے، جواتفاق سے کچھ ہی دیر پہلے خالی ہوئی تھی۔ مجھے بہت اطمینان ہوا۔ اس لائن میں لگی میزوں کی خصوصیت یہ تھی کہ وہاں سے بیٹھے بیٹھے پورا ریسٹورنٹ نظر میں رہتا اور ایسے میں جب اندر کے ماحول سے جی گھبرانے لگتا تو کھڑکی سے باہر کا نظارہ جی کو خوب لبھاتا تھا۔ ہماری میز کی دائیں جانب وسیع ہال اور سامنے صدر دروازے سے ملحق کاؤنٹر تھا۔ تمام بیرے تیزی سے آ جا رہے تھے۔ بائیں ہاتھ کی کھڑکی سے باہر دیکھا تو زندگی بدستور متحرک نظر آئی۔
ڈاکٹر زیب میرا کزن ہونے کے ساتھ ساتھ اچھا دوست بھی تھا۔ اب کہ وہ کئی دنوں بعد میرے ہاں آیا تھا۔ چند روز پہلے میڈیکل فائنل ائیر کا امتحان دے کر بور ہو گیا تو چلا آیا۔ اس کی خواہش تھی کہ وہ نہ صرف ہاؤس جاب یہاں مکمل کرے بلکہ مستقل قیام بھی!
’’بھئی ڈاکٹر! اپنا گھر چھوڑ کر تمہارا یہاں ہاؤس جاب کرنا میری سمجھ سے بالا ہے میں نے اسے کریدتے ہوئے پوچھا۔‘‘
’’آپ یہ راز اتنی آسانی سے نہیں پا سکتے‘‘ اس کی آنکھوں میں خاصی چمک تھی۔
’’پھر بھی پتہ تو چلے آخر ایسی کون سی خوبی ہے اس شہر میں۔؟’’ میں نے مزید کریدا۔
’’آپ بھی بہت بھولے ہیں۔۔۔ نیلم کو بھول گئے، جو پگلی میرے بارے میں فون کر کے آپ کے کان کھا جاتی ہے‘‘ مسرت تھی کہ ڈاکٹر کے چہرے سے پھوٹی پڑتی تھی، وہ باوجود کوشش کے اسے چھپا نہیں پا رہا تھا۔
’’اچھا۔۔۔ تو یہ بات ہے۔۔۔ میں ابھی فون کیے دیتا ہوں کہ تم نے چپکے چپکے اس کے شہر میں پڑاؤ ڈال رکھا ہے۔’’ میں نے مصنوعی انداز میں کرسی سے اٹھتے ہوئے کہا۔
’’نہیں نہیں۔۔۔ ابھی نہیں، میں دراصل اسے سرپرائز دینا چاہتا ہوں، وہ شوخ و شنگ بچوں کی طرح سچ مچ میرا ہاتھ پکڑ کر بولا۔ اس دوران ویٹر نرخ نامہ رکھ کر چلا گیا۔‘‘
’’ہاں تو زیب کیا چلےگا؟’’ میں مینو کارڈ زیب کی طرف سرکا کے کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا۔ بازار کی رونق ابھی باقی تھی۔ سامنے سڑک کے پار بیکری والا سٹول پر بیٹھا چائے کی چسکیاں لے رہا تھا۔ میڈیکل سٹور کا سیلز مین جلدی جلدی دوائیں لفافوں میں ڈال کر رقم وصول کر رہا تھا۔ سٹیشنری کی دکان میں خواتین اور بچوں کا رش قدرے زیادہ تھا۔ صوفی حلوائی دودھ کے کڑاہ میں چمچہ چلانا روک کر بار بار ناک صاف کر رہا تھا۔ فٹ پاتھ پر ٹانگوں سے معزور بھکاری کی دیہاڑی شاید پوری نہیں ہوئی تھی، جبھی تو وہ پر امید نگاہوں سے ہر آنے والے سے التجائیں کیے جا رہا تھا۔
’’ایک روپے کا سوال ہے بابا۔۔۔‘‘ معاً فٹ پاتھ پر سامنے سے آنے والے دو لڑکوں نے میری نگاہیں جکڑ لیں۔ چھوٹے کی عمر تقریباً سات سال اور دوسرا اس سے ایک آدھ سال ہی بڑا لگتا تھا۔ شکل و صورت سے بھی دونوں بھائی معلوم ہوتے تھے۔ بڑے لڑکے نے سر پر کپڑے کا پیوند زدہ بڑا سا تھیلا اٹھا رکھا تھا جس کے چھیدوں میں سے ردی کاپیاں اور کتابیں جھانک رہی تھیں۔ دونوں آہستہ آہستہ چلتے ہوئے سٹیشنری کی دکان کے سامنے سے گزرے، چھوٹے نے لپک کر شو کیش کے ساتھ انگلی لگا دی اور فرش پر دو زانوں ہوکر حسرت بھری نگاہوں سے سٹیشنری کے رنگ برنگے سامان سے بھرا شو کیس دیکھنے لگا۔ وہ بڑے بھائی کو مخاطب کرنا چاہتا تھا جو بوجھ سے جلد نجات پانے کی سعی میں اس سے چند قدم آگے نکل گیا تھا۔ کچی عمر میں بھی بڑے بھائی کے چہرے پر بلا کی سنجیدگی سمٹ آئی تھی لیکن چھوٹے کے چہرے پر متحرک برقی نیون سائن کی طرح شادمانی کی تحریریں با آسانی پڑھی جا سکتی تھیں۔ وہ شاید کسی سنہری قلم یا قیمتی جیومیٹری بکس کی خواہش ظاہر کر رہا تھا لیکن بڑا بھائی جو سر پر رکھے بوجھ سے پہلے ہی ہلکان دکھائی دیتا تھا، اسے چھوٹے کی معصوم سی خواہش بھی شاید ناگوار گزری تھی۔ جبھی تو وہ تیزی سے مڑا اور چھوٹے کا ہاتھ پکڑ کر تقریباً کھینچتے ہوئے آگے بڑھ گیا۔
’’بھائی جان! رات کے اندھیرے میں کیا پھر کسی کہانی کی تلاش ہے؟‘‘ زیب نے میگزین کی ورق گردانی چھوڑ کر مجھے متوجہ کیا۔
’’کچھ نہیں یار! آتے جاتے لوگوں کو دیکھنا اور ان کے چہروں کی ٹوٹی پھوٹی نامکمل تحریریں پڑھنا اب اک عادت سی بن گئی ہے اور ایک تم ڈاکٹر لوگ ہوکہ مریض کو اپنا مرض خود ہی بتانا پڑتا ہے، تم لوگوں میں تو حکمت نام کی کوئی بھی چیز باقی نہیں رہی۔۔۔ میں نے ڈاکٹر کو چھیڑتے ہوئے کہا۔ وہ چونکہ ابھی پورا ڈاکٹر نہیں بن سکا تھا اس لیے کھسیانا ہو کر مسکرا دیا۔‘‘
’’ابھی تک کھانا نہیں آیا۔۔۔’’ زیب نے غیر ارادی طور پر گھڑی دیکھتے ہوئے کہا۔ میں جواباً کچھ کہنے ہی والا تھا کہ ’’ڈبل ایکشن ڈور، ویٹرکے دباؤ سے چرچرایا اور وہ اس میں سے برآمد ہوا۔ کھانے کی ٹرے سامنے آئی توسیخ کبابوں، چکن تکوں اور روغنی نانوں کی خوشبو نے میری بھوک کو دو آتشہ بنا ڈالا، ہم نے بلا تکلف کھانا شروع کر دیا۔‘‘
ایسے میں ریسٹورنٹ کا ڈبل ایکشن ڈور پھر چرچرایا مگر اب کے اس کی چرچراہٹ میں پہلے جیسی تیزی اور روانی نہ تھی، یوں محسوس ہوتا تھا جیسے کوئی بھوکا اور کمزور ہاتھ اسے دھکیل رہا ہو۔ میری متجسس نگاہیں وہیں اٹکی تھیں۔ دوسرے ہی لمحے دو لڑکے دروازے کے پریشر کو بمشکل تمام دھکیل کر اندر داخل ہو رہے تھے۔ گویا بھوک اور مستی کے مابین جنگ جاری تھی۔ میں نے پہلی ہی نظر میں انہیں پہچان لیا۔ یہ وہی لڑکے تھے جنہیں میں نے تھوڑی دیر پہلے کھڑکی سے باہر فٹ پاتھ پر دیکھا تھا۔ تب انہوں نے کپڑے کا بڑا سا بوسیدہ تھیلا اٹھا رکھا تھا، اب وہی خالی تھیلا بڑے لڑکے نے چرائی ہوئی مرغی کی طرح بغل میں داب رکھا تھا۔
’’دونوں نے لمحہ بھر کے لیے بھرے پرے ریسٹورنٹ پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالی جہاں ہر میز پر انواع و اقسام کے کھانوں کی خوشبو دعوت طعام دے رہی تھی۔ ان کی پھٹی پھٹی ویران آنکھوں میں بھوک مست ہو کر ککلی ڈالنے لگی۔ میرا نوالہ حلق میں ہی رہ گیا۔ ڈاکٹر حسب عادت اپنی دائیں ٹانگ تیز موسیقی کی مدھرتا پہ ہلاتے ہوئے بڑے مزے سے کھانا کھا رہا تھا۔ دونوں بھائیوں نے ٹاٹ سکول کی مخصوص یونیفارم پہن رکھی تھی، اس کے رنگ غربت نے ان کے چہروں کی لالی کی مانند چاٹ لیے تھے۔ بغیر بٹنوں کے کھلے کف ان کی غربت کا مذاق اڑا رہے تھے۔ اسی اثناء میں دونوں جھجکتے ہوئے کاؤنٹر تک پہنچ کر منیجر سے کچھ کہہ رہے تھے۔ مجھے ان پر ترس آنے لگا۔ میں نے سوچا ممکن ہے وہ اپنے یا کسی پڑوسی کے لیے روٹیاں لینے آئے ہوں۔۔۔‘‘
’’بھائی جان! کیا کھانے سے مکھی نکل آئی ہے جو یوں ہاتھ کھینچ کر بیٹھ گئے ہیں؟‘‘
’’نہیں یار! ایسی تو کوئی بات نہیں، دراصل میں کھانا آہستہ کھانے کا عادی ہوں‘‘ میں نے کھانا جاری رکھا۔ ریسٹورنٹ کا کاؤنٹر اور صدر دروازہ بالکل میرے سامنے تھے اس لیے کھانا کھاتے ہوئے میری نگاہیں بےاختیار اس سمت اٹھ جاتیں۔ میں نے دیکھا دونوں لڑکے کاؤنٹر کے برابر لگی لکڑی کی خوبصورت جھلمل کے عقب میں ایک ویٹر کے ساتھ غائب ہو گئے۔ مجھے تعجب ہوا کہ یہ تو روٹیاں لینے آئے تھے پھر ادھر کیا کرنے گئے ہیں؟ ممکن ہے انہیں زیادہ روٹیاں درکار ہوں اور وہ وہاں سے ملتی ہوں۔۔۔ میں یونہی سوچوں میں غلطاں کھانا کھاتا رہا۔ ڈاکٹر کی دائیں ٹانگ موسیقی کے نرم سروں کے ساتھ بدستور تھرکتی رہی، کبھی کبھی اس کا پاؤں ٹکرا جاتا تو میری توجہ بٹ جاتی۔
’’ہاں تو زیب! کل ڈاکٹر سعید کے ہاں جا رہے ہو ناں، ہاؤس جاب کے سلسلے میں؟‘‘ میں نے زیب سے یونہی سلسلہ کلام جوڑنے کی کوشش کی۔
’’جی! ڈاکٹر سعید نے صبح دس بجے پولی کلینک پہنچنے کو کہا تھا’’ زیب بولا۔
میں نے کھڑکی سے باہر دیکھا تو تمام دکانیں بند ہو چکی تھیں صرف میڈیکل سٹور کھلا تھا اور حلوائی کی دکان کا چکناہٹ اور دھوئیں سے اٹا مدھم سا بلب ابھی تک جل رہا تھا۔۔۔ حلوائی نے اب پورے کپڑے پہن لیے تھے۔ فٹ پاتھ پر پڑے بھکاری کو بڑی مونچھوں والا کوئی شخص ہتھ گاڑی میں ڈال کر لے جا رہا تھا۔ اندر ہال میں اب ’’لو سٹوری 42‘‘ کی جھنکار بج رہی تھی۔
’’یار ذرا گرم نان لانا یہ تو پڑے پڑے ٹھنڈے ہو چکے ہیں۔‘‘ زیب نے قریب سے گزرتے ہوئے ویٹر کو مخاطب کیا۔ تھوڑی دیر بعد گرم نان کی خوشبو نے مجھے پھر سے کھانے کی طرف راغب کر دیا۔ میں بظاہر کھانا کھا رہا تھا لیکن میرا ذہن متواتر ادھر ادھر بھٹک رہا تھا۔ کھانا ختم کر کے ہم الائچی والا پشاوری قہوہ سپ کرنے لگے مگر دونوں لڑکے ابھی تک جھلمل کے پیچھے سے برآمد نہیں ہو سکے تھے۔ میں ابھی تک سمجھ نہیں پایا تھا کہ وہ عقب میں کیا کرنے گئے ہیں۔’’ ممکن ہے وہ دوسری جانب جھوٹے برتن مانجھنے گئے ہوں لیکن وہ تو روٹیاں لینے آئے تھے۔ شاید برتن مانجھنے کے عوض انہیں روٹیاں ملیں مگر ان کی ظاہری حالت تو ایسی نہ تھی، وہ ٹاٹ سکول کے ہی سہی مگر وہ تھے تو طالب علم۔۔۔’’ میں نے تمام ممکنات پر غور وخوض مکمل کر ڈالا لیکن کسی حتمی نتیجے پر نہ پہنچ سکا، میرا اضطراب برقرار رہا۔
’’صاحب! اور کچھ لاؤں؟‘‘ ویٹر مصنوعی مسکراہٹ کے ساتھ سامنے کھڑا تھا۔ میں نے زیب کی طرف دیکھا تو قہوے کے آخری گھونٹ کے بعد اس کے چہرے پر شکم سیری کی کیفیت نمایاں تھی۔
’’بس یار بل لے آؤ’’ میں نے بیرے سے جان چھڑائی۔ دفعتاً جھلمل کے عقب میں دروازہ کھلا اور تیز روشنی کا ایک لپکا آیا۔ دونوں لڑکے آہستہ آہستہ چلتے ہوئے باہر کاؤنٹر پر آ گئے انتہائی مشقت کے بعد ملنے والی مزدوری کی مسرت ان کے چہرے پر نمایاں تھی۔ ان کے پیچھے وہی ویٹر کمرے کی لائٹ بند کر کے کاؤنٹر پر آ گیا۔ بڑے بھائی نے دونوں ہاتھوں سے شاید روٹیوں سے بھرا تھیلا سنبھال رکھا تھا۔ ہمارا بل ابھی کاؤنٹر پر تیار ہو رہا تھا۔ میرے تجسس کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ میں میز پر بیٹھ کر انتظار کرنے کے بجائے اٹھ کر کاؤنٹر پر آ گیا۔ زیب واش روم کی طرف چلا گیا۔ ریسٹورنٹ کا ہال بدستور پیک تھا۔ لوگ بڑی بےفکری سے کھانے اور موسیقی سے جسم و روح کو سیراب کرنے میں مصروف تھے۔ چھوٹا لڑکا منہ میں انگوٹھا دیئے حسرت سے ہال کی جانب مڑکر یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ بڑے لڑکے نے تھیلے سے ٹھوکا دے کر اسے اپنی جانب متوجہ کیا جیسے کہہ رہا ہو ’’مجھے پتہ ہے منے بھائی تم نے کل سے کچھ نہیں کھایا بس تھوڑا سا صبر اور۔۔۔ پہلے گھر تو پہنچ لیں‘‘۔
اب روٹیوں والا تھیلا چھوٹے بھائی نے تھام لیا تھا۔ بڑے نے قمیض کی سائیڈ کی جیب سے دس کا ایک مڑا تڑا نوٹ نکال کر ویٹر کی طرف یوں بڑھایا جیسے اس پر اعتماد نہ ہو۔ کاؤنٹر منیجر ابھی تک ہمارا بل بنانے میں مصروف تھا۔
’’ابے او! یہ دس کا نہیں چلےگا، پانچ اور نکال۔۔۔ پورے تین کلو ٹکڑے ہیں اور ہیں بھی روغنی نان کے‘‘ بیرا تحقیر آمیز لہجے میں گرجا۔
’’لیکن انکل! پہلے تو دس روپے میں آتے تھے۔۔۔‘‘ بڑا بھائی مجھ سے نگاہیں چراتے ہوئے آہستگی سے بولا۔ میں اس کی انا کا خیال کر کے بظاہر لا تعلق سا ہوکر منیجر کی طرف دیکھنے لگا۔
’’اجی پہلے آتے تھے اب نہیں! تم لوگوں نے روکھے سوکھے چھوڑ کر روغنی جو چبانے شروع کر دیئے ہیں اس لیے۔۔۔ لا نکال پانچ روپےاور۔۔۔ نہیں تو جا کر اندر واپس پھینک آ، ہمارے جانور کھا لیں گے۔۔۔‘‘ بیرے کی زبان قینچی کی طرح چل رہی تھی۔ چھوٹا دانتوں سے ہونٹ کاٹنے لگا تھا، بڑے کے چہرے پر سراسیمگی پھیل گئی۔ میرا بل ایک سو پچاس روپے بنا تھا اور اس کا پندرہ روپے، میرے اور اسکے بل کے درمیان محض ایک صفر کا ہی تو فرق تھا۔ جو اس کے لیے بہت بڑا چیلنج بن گیا تھا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.