Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

سلوٹیں

شفیع مشہدی

سلوٹیں

شفیع مشہدی

MORE BYشفیع مشہدی

    لوگ کہتے ہیں جوانی دیوانی ہوتی ہے مگر میں تو کہتی ہوں جوانی بلائے جان ہوتی ہے۔ ہائے بچپن کے وہ دن کیسے مزے کے تھے۔ گھنٹہ دو گھنٹہ سبق یاد کیا، مولوی صاحب کی ڈانٹ پھٹکار سنی اور پھر مزے ہی مزے۔ ابھی نمکولی کی ہنڈیا پک رہی ہے تو ابھی آم کے درختوں پر جھولے ڈال کر پینگ دی جا رہی ہے۔ آم کے دن آتے تو گویا عید ہو جاتی۔ ادھر دو پہر میں گھر کے لوگ گرمی کی تپش سے بچنے کے لیے کمروں میں بند ہوتے اور ادھر ہم دَبے پاؤں باغ میں ... مالی لاکھ منع کرتا کہ بِٹیا لو چل رہی ہے واپس جاؤ نہیں تو بڑے سرکار سے کہہ دوں گا۔ مگر سارے بچے اسے کاکا، کاکا کہہ کر منا لیتے اور پھر تو وہ دھماچوکڑی مچتی کہ الٰہی توبہ۔ راشد اور خلّو درخت پر چڑھ جاتے اور ہم نیچے آم چننے لگتے۔ کچے آم کی ٹکوریاں نمک کے ساتھ ایسی کھٹی کھٹی اچھی لگتیں کہ دوسرے دن حکیم صاحب کی تلخ دوا پیتے وقت سارا مزا کِرکِرا ہو جاتا۔ ڈانٹ الگ پڑتی کہ کچے آم کھاتی ہو تو نتیجہ بھگتو۔ ادھر بجو الگ خوشامدیں کرتی کہ ’’اچھی رفو‘‘، ذری دو ٹکوری مجھے بھی لا دو‘‘۔ اور میں اترا جاتی کہ ’’بڑی دھوپ ہے بجو‘‘ پھر گڑیا کے جمپر سی دینے کے وعدے پر چھپ چھپا کر بجو کے لیے دو چار ٹکوریاں لا دیتی، جنھیں وہ چھپ کر کمرے میں کھاتیں۔ ایک دن امی نے انھیں ٹکوریاں کھاتے دیکھ لیا، پھر کیا تھا بجو کی شامت ہی تو آ گئی تھی۔

    ’’جوان ہو گئیں مگر بچپن نہ گیا۔ کچر کچر کچے آم کھاتے وقت کبھی تم نے سوچاکہ تمھیں کتنانقصان کرےگا۔ عورتوں کو کھٹا نہیں کھانا چاہیے بیٹا‘‘ اور بجو مارے شرم کے آنچل میں منہ چھپا لیتیں۔ میں سوچتی آخر عورتوں کو کھٹا کیوں نہیں کھانا چاہیے۔ امی سے پوچھتی تو وہ ڈانٹ دیتیں۔

    خلّو چھوٹی خالہ بی کا لڑکا تھا اور راشد میرا سگا بھائی۔ دونوں ہی مجھ سے بڑے تھے۔ مگر جب بھی راشد اور خلّو میں جھگڑا ہوتا میں خلّو کا ساتھ دیتی اور راشد جھنجھلا کر کہتا ’’رفو! آج سے میری بہن نہیں‘‘۔ میں کہتی۔ ’’میری بلا سے‘‘ مگر میں ہمیشہ خلّو کی ہی طرفداری کرتی۔ خلو مجھے مانتا بھی تو تھا... آج وہ ڈاکٹر خالد بن کر اِتراتے ہیں اور کپڑوں پر شکن نہیں آنے دیتے ورنہ کل ہی کی تو بات ہے، نہ جانے کتنی بار میں نے انھیں زمین پر گرا کر ان کی قمیض میں دھول بھر دی ہے ... مگر وہ بھی مجھے کم نہیں ستایا کرتے تھے ... اللہ، میری چوٹی کے تو دشمن تھے وہ۔ کوئی بات ہوئی اور انھوں نے میری چٹیا کھینچی۔ الٰہی توبہ میری تو جان ہی نکل جایا کرتی تھی۔ جی میں آتا کہ اس کم بخت چوٹی کو کاٹ کر ہی پھینک دوں۔ مگر بال گوندھتے وقت جب امی پیار سے میرے گھونگریالے بالوں میں کنگھا کرتے ہوئے کہتیں۔ ’’میری رفّو کے بال کتنے خوب صورت ہیں‘‘۔ تو مارے فخر کے میرا سینہ پھول جاتا، زرد گالوں پر سرخی کی لہر دوڑ جاتی جیسے یہ خوبصورت بال میرے ہی اگائے ہوئے ہوں ...

    مگر ہائے رے بچپن ... ابھی جوانی آنے بھی نہ پائی تھی کہ بچپن کی آزادیاں قید و بند میں محصور ہو گئیں۔

    میرا خدا ! آخر جوانی آ رہی ہے تو میرا کیا قصور... اگر میں کنواری تھی تو مجھ پر یہ الزام کیوں... وہ تو خدا بھلا کرے ننّابی کا کہ ڈیڑھ دن کی بیماری میں اللہ کو پیاری ہو گئیں ورنہ وہ اور دادی جان مل کر مجھ اکیلی جان کا جینا دوبھر کر دیتیں... اگر آنچل سر سے ڈھلک جائے تو میں کیا کروں... آخر سلک کے دوپٹے ہی تو ہیں بالوں پر کیوں کر ٹھہریں۔ اب کام کرتے وقت اگر دوپٹے کو گردن میں لپیٹ لوں یا جلدی میں دوپٹہ کمرے میں ہی چھوٹ جائے تو کون سی آفت آ جاتی؟ مگر ددّابی کی آنکھوں میں خون اُتر آتا اور نصیحتیں شروع ہو جاتیں۔

    ’’بہو بیگم سنبھالو اپنی کنواریوں کو۔ شیطان کے کان دور نہیں خاندان کا نام نہ روشن کر دیں‘‘۔ اور امی کھسیا کر رہ جاتیں۔ میں سوچتی یہ جوانی نہ جانے کس گناہ کی سزا میں آ رہی ہے۔ ذرا زور سے چلو تو الگ امی کی ڈانٹ پڑتی ...

    ’’.... ہے ہے رفعت کیسے دھمک دھمک کر چل رہی ہو۔ زمین بددعا دے گی۔ بِٹیا کنواریوں کے یہ چلن نہیں ہوتے ...‘‘۔

    ارے خاک میں جائیں کنواریاں اور نوج یہ جوانی۔ میری تو جان ضیق میں ہے... ادھر میں خود ہی جوانی کے ہاتھوں بےزار... نہ جانے دل میں کیسے کیسے خیال آتے... میں اپنے جسم کی تبدیلیوں پر غور کرتی تو مارے شرم کے گردن جھک جاتی اور پپوٹے بھاری ہونے لگتے۔ طبیعت تھی کہ ہر وقت مضمحل رہتی۔ نہ کسی کام میں جی لگتا اور نہ کسی سے باتیں کرنے میں۔ اللہ اللہ کر کے نیند بھی آتی تو توبہ کیسے کیسے خواب آتے جن کے بارے میں سوچ سوچ کر میں مارے شرم کے گڑ جاتی۔ اوریہ خالد نہ جانے کہاں سے بھٹکتے ہوئے میرے خوابوں میں چلے آتے... وہ تو ڈاکٹری پڑھنے شہر چلے گئے تھے اور برسوں سے ملاقات بھی نہ ہوئی تھی۔ مگر میں ایسی دیوانی کہ خوابوں میں ان سے طرح طرح کی نہ جانے کیا کیا باتیں کرتی۔ اف مجھے یاد بھی تو نہ رہتا تھا کہ خوابوں کی تفصیل دہراؤں...

    وہ تو خدا بھلا کرے بجو کا، وہی میری غمگسار تھیں ... مجھے اداس یا پریشان دیکھتیں تو گلے سے لگا کر اتنا پیار کرتیں، اتنی تسلیاں دیتیں کہ مجھے سکون آجاتا ... اکثر رات میں ہم دونوں ساتھ ہی پلنگ پر سوتے تھے۔

    بجو کی عمر پچیس سے زائد ہو چکی تھی... ناک نقشہ کھڑا، بدن گداز اور رنگ تیکھا تھا۔ مگر برا ہو اس گھڑی کا جب دس سال پہلے چیچک نے بجو کے چاند جیسے چہرے کو گہن لگا دیا تھا... آنکھوں پرموٹے شیشے کا چشمہ چڑھ گیا اور نرم و نازک جلد گہرے داغوں سے ایسی داغدار ہوئی کہ بجو کی شکل ایک حد تک بھیانک ہو گئی... یہی و جہ تھی کہ سیکڑوں رشتے آئے، امّی اور ابو نے لاکھ کوشش کی مگر بجو کے ہاتھ پیلے نہ ہو سکے۔ درگاہوں کی خاک چھانی گئی، مسجدوں کے طاق بھرے گئے، تعویذوں اور گنڈوں کی قطار لگ گئی مگر بجو کے سہرے کے پھول نہ کھل سکے اور بجو دن بدن مرجھاتی رہیں۔

    بجو کی پہاڑ جیسی جوانی دیکھ کر امی اور ابو کی آنکھوں کی نیند اڑ گئی تھی اور بجو کی بے خواب آنکھیں نہ جانے خلاء کی پہنائیوں میں کسے تلاش کرتی رہتیں۔ اکثر رات کی تنہائیوں میں وہ مجھ سے لپٹ جاتیں، ان کی چھاتی زوروں سے دھڑکتی ہوتی اور وہ مجھ سے کہتیں۔

    ’’رفّو تو کاجل کا ٹیکہ لگا لے، کہیں میری نظر نہ لگ جائے۔ تو کتنی خوبصورت ہے رفّو۔ تیرا دولھا کتنا خوبصورت ہوگا۔ اور یہ کہتے ہوئے بجو کی آواز بھرا جاتی۔ ان کا سارا درد ان کی آنکھوں میں کھنچ آتا اور ان کی سانس اتنی تیزی سے چلنے لگتی کہ میں گھبرا جاتی۔

    لوگ کہتے ہیں کہ وقت کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ گزر جاتا ہے۔ مگر نہیں، وقت کب گزرتا ہے۔ یہ تو ہماری زندگی ہے جو گزر جاتی ہے۔ صبح جب بھی آتی تھی آنگن میں کھڑے نیم کی پتیوں کو نقرئی لباس دے جاتی تھی۔ شام اور رات سبھی تو ویسے ہی آتے تھے۔ مگر بجو کی جوانی ڈھلتی جا رہی تھی۔ امی اور ابو کے چہرے پر فکر کی جھریاں آ گئی تھیں۔ امی کے آدھے سے زیادہ بال سفید ہو چکے تھے۔ ابو کی کمر بجو کی جوانی کا بوجھ نہ برداشت کر سکی تھی اور اب خمیدہ ہوتی جا رہی تھی ... بجو کی آنکھوں پر چڑھے شیشے اور بھی موٹے ہو گئے تھے۔ کان کے پاس کی لٹوں میں چاندی جھلکنے لگی تھی۔ ددّا بی کا انتقال ہو گیا تھا۔ اور گھر پر موت کا سناٹا طاری تھا۔ اب نہ کوئی میرے آنچل کا خیال کرتا تھا اور نہ کوئی ڈانٹنے والا ہی تھا ... مجھے ددّابی کی کمی بڑی شدت سے محسوس ہو رہی تھی ... سارا گھر ایک عجیب سے سنّاٹے کا شکار ہو گیا تھا۔

    امی بجو کی شادی کا انتظار نہ کر سکیں اور خالد کی ضد اور بے صبری اپنا کام کر گئی ... اللہ مجھے یاد ہیں وہ دن جب گھر میں شادی کی تیاریاں ہو رہی تھیں ... کتنا خوش تھیں بجو، مجھے کتنا پیار کرتی تھیں وہ... مگر بجو کا درد مجھے معلوم تھا... بجو نے اپنی آنکھوں کو ہمیشہ کے لیے خشک کر لیا تھا... میں نے کبھی ان کی آنکھوں سے آنسو گرتے نہیں دیکھے تھے۔ مہندی لگی، شہنائیاں بجیں اور میں خالد کو پا کر گویا اسی دنیا میں جنت پا گئی... مگر بجو کی زندگی جہنم کی آگ میں جلتی رہی۔

    شادی کے فوراً بعد جب میں سہاگ کی خوشبوؤں میں بسی میکے واپس آئی تو بجو مجھ سے لپٹ کر خوب روئی تھیں اور ایک مدت کے بعد میں نے بجو کی آنکھوں سے آنسو گرتے دیکھے تھے۔

    امی کی آنکھوں میں ایک عرصہ کے بعد ایک مخصوص چمک دیکھ کر مجھے بھی تعجب ہوا تھا اور تب امی نے مجھے بتایا تھا کہ تسنیم صاحب، جن کی لڑکی میری سہیلی تھی، شادی کرنے پر آمادہ ہو گئے ہیں ... امی نے مجھے تاکید کی تھی کہ میں بجو کی رضامندی لوں اور میں سوچ رہی تھی کہ تسنیم صاحب اور بجو کا جوڑ کیوں کر ہو سکتا ہے۔ کہاں جوان بجو کی دوشیزگی، کہاں تسنیم صاحب کا بڑھاپا۔ جن کی بیوی تپِ دق کا شکار ہو کر تین سال پہلے مر چکی تھی ...

    مجھے امی پر بڑا غصہ آیا تھا۔ مگر ابو کی خمیدہ کمر اور امی کے ماتھے پر ابھری ہوئی شکن کو دیکھ کر میں چپ رہ گئی تھی ... اسی رات جب بجو میرے کمرے میں آئیں تو گھنٹوں ہم مسہری پر لیٹے رازو نیاز کی باتیں کرتے رہے۔ وہ مجھ سے کرید کرید کر خالد کی شرارتوں کا حال پوچھتی رہیں ... اچانک وہ مجھ سے لپٹ گئیں اور پاگلوں کی طرح مجھے پیار کرنے لگیں۔ میں گھبرا سی گئی۔ بجو کے پیار سے آج مجھے عجیب سی کراہیت آنے لگی۔ نہ جانے کیا سوچ کرمیں خوف زدہ ہو گئی اور میں نے بجو کو پرے ڈھکیل دیا۔ یہ کیا بجو ....مجھے یہ سب اچھا نہیں لگتا‘‘۔

    میں نے بجو کی طرف دیکھا جو آنکھیں بند کیے تیز تیز سانسیں لے رہی تھیں، چہرہ زرد ہو رہا تھا اور آنکھوں کے پپوٹے نیلے ہوتے جا رہے تھے، یکایک بجو کے لیے میرے دل میں ممتا کا جذبہ ابھر آیا تھا ... بے چاری بجو ... میں نے ان کے بالوں میں پیار سے انگلیاں پھیرتے ہوئے کہا ... ’’بجو! امی تسنیم بھائی سے تمھارا رشتہ کر رہی ہیں...‘‘ اور بجو کو جیسے کسی بچھو نے ڈنک مار دیا ہو۔ گھبرا کر انھوں نے آنکھیں کھول دیں .. کیسی وحشت برس رہی تھی ان کی آنکھوں سے .. میں نے دوبارہ اپنی بات دہرائی تو بجو کا سارا بدن کانپ اٹھا۔ جیسے رعشہ طاری ہو گیا ہو۔ وہ یک بیک اٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گئیں۔ میں نے لاکھ ان کو پکارا مگر کمرے کا دروازہ نہ کھل سکا۔ اور میں باہر دروازے سے بجو کی خاموش سسکیوں کا تصور کر کے دل ہی دل میں روتی رہی تھی...

    دوسری صبح سارا گھر ماتم کدہ بنا ہوا تھا ... بجو کی بے خواب زندگی نے خواب آور گولیوں کا سہارا لے کر امی اور ابو کے پہاڑ جیسے بوجھ کو ختم کر دیا تھا... اب بجو کو نیند نہ آنے کی شکایت باقی نہ رہی تھی... بےقرار زندگی ابدی خواب میں کھو گئی تھی... جوان لاش گھر سے کیا نکلی، امی اور ابو کے ارمانوں کا جنازہ نکل گیا تھا۔ جانے انھیں سکون آ گیا یا اضطراب بڑھ گیا، مگر میں وہ دن کبھی نہیں بھول سکتی جب راشد اور دوسرے لوگ بجو کی لاش کو کندھوں پر اٹھائے گھر سے باہر نکل رہے تھے اور میں حسرت سے بجو کی خالی پلنگ کی طرف تک رہی تھی جس کی چادر پر بےشمار شکنیں، بجو کے بے پناہ کرب کی کہانی کہہ رہی تھیں... صحن سے امی کے بَین کی آوازیں آ رہی تھیں اور میں سوچ رہی تھی کہ کیا بجو کے مرنے کے بعد بھی چادر کی یہ شکنیں ہمیشہ باقی رہیں گی۔

    آج بجو کو مرے ہوئے بیس سال سے زائد ہو چکے ہیں۔ امی اور ابو نے بھی ساتھ چھوڑ دیا ہے۔ اور میں ددّابی کے تخت پر بیٹھی ماضی کے تانے بانے سلجھا رہی ہوں... آنگن میں کھڑا نیم کا درخت آج بھی ویسے ہی نقرئی لباس پہنے جھوم رہا ہے ... میری دونوں بیٹیاں نصرت اور نزہت، بجو والے کمرے میں نہ جانے کیسی راز و نیاز کی باتیں کر رہی ہیں... میری بڑی لڑکی نصرت بالکل بجو کی ہم شکل ہے۔ قدرت کی ستم ظریفی نے نصرت کا حسن بھی چیچک کی نذر کر دیا ہے اور وہ بجو کی طرح موٹی سی عینک بھی لگانے لگی ہے۔ اسے دیکھ کر مجھے بجو کا خیال آ جاتا ہے اور میں انجانے خوف سے کانپ اٹھتی ہوں۔ نزہت کی عمر ابھی صرف تیرہ سال ہے اور اس کے گھونگھریالے بالوں میں اپنی جوانی کا عکس ڈھونڈتی رہتی ہوں۔

    بجو کے کمرے کا دروازہ کھلا ہے اور میں دیکھ رہی ہوں کہ نزہت، نصرت کے گلے سے جھول رہی ہے۔ اس کا دوپٹہ شانے سے سرک کر مسہری پر گر گیا ہے اور وہ عجیب شانِ بےاعتنائی سے نصرت سے ہنس ہنس کر باتیں کر رہی ہے۔ یکایک کچھ سوچ کر میں جھنجھلا اٹھتی ہوں اور بجو والے کمرے میں داخل ہو کر نزہت پر برس پڑتی ہوں۔

    ’’نزہت دوپٹہ ٹھیک کرو۔ کنواری کے یہ ڈھنگ نہیں ہوتے۔ اللہ! ایک ہمارا زمانہ تھا کہ دوپٹہ...‘‘ یکایک مجھے ددّابی یاد آ جاتی ہیں اور میں خاموش ہو جاتی ہوں۔

    نزہت گھبرا کر بیٹھ جاتی ہے اور نصرت بھی اس اچانک بوچھار سے چونک جاتی ہے۔ غیرارادی طور پر میری نظر بستر کی چادر پر پڑ جاتی ہے، جس پر پڑی بے شمار سلوٹوں کو دیکھ کر میں کانپ اٹھتی ہوں اور مجھے بجو کا بستر یاد آ جاتا ہے...

    خدایا ....! کہیں بستر کی یہ سلوٹیں، نصرت کے ماتھے پر نہ ابھر آئیں۔ اور میری آنکھوں میں آنسو بھر آتے ہیں.... !!

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے