صرف ایک کتّا
کالندی چرن پانی گرہی
جولی اورالبین بچپن سے دوست تھے۔ وہ کسی صورت میں بھی ایک دوسرے سے جدانہیں ہوتے تھے۔ البین ایک انگریزشکاری کتا تھا، اس کی نسل انگلینڈسے تعلق رکھتی تھی، اسی لیے اس کا نام بھی۔ جولی اڑیسہ کے جنگلوں کی ہرنی تھی۔ البین گوشت کا دلدادہ تھا اورجولی سرے سے سبزی خور۔
جولی بیمارپڑی توالبین دن رات اس کے قریب رہا۔ اتناکہ اسے بھی وہیں کھانادیاجاتا۔ ایک مرتبہ البین کی ٹانگ ٹوٹ گئی۔ جولی کواس کی جسمانی قوت کا بھرپور اندازہ تھاتب بھی وہ اس کی طویل قیدوبندکی وجہ نہ سمجھ سکی۔ جولی نے اپنی تمام شفقت البین پرنچھاورکردی آخرکارالبین کی حالت سنبھلی، گویاجولی کی دیکھ بھال رنگ لائی۔ اس نے آہستہ آہستہ چلناشروع کیا لیکن جب بہارپھولوں کا ذخیرہ لیے وارد ہوئی۔ دونوں دوست کھیل میں مگن ہوگئے اوردیوانہ وارہوا کے رخ دوڑتے گئے جیسے خوشیوں بھری اس پراسراردنیا کارازجانناچاہتے ہوں۔ البین دوڑتا تھا توایسا لگتا کہ زمین پررسی تان دی گئی ہو۔ اس کی پنڈلیوں اوربدن میں فرق لگتاہی نہ تھا۔ اس کے برعکس جولی کے دوڑے کاانداز پیرس کے رقص کاساتھا۔ اس کی ٹانگیں سطح پرتیرتی ہوئی دکھائی پڑتی تھیں۔ یوں جیسے وہ ہوا میں ناچ رہی ہو۔
زمیندارکودونوں جانوربہت عزیز تھے۔ دن بھر کے کام نپٹاکرجب وہ دفتر کے سامنے والے میدان میں آتاتویہ دونوں اپنے کھلواڑوں سے اس کا جی بہلاتے، جیسے ہی ان کا مالک آگے بڑھتا جولی اپنی لمبی گردن اس کے پاؤں پررگڑنے لگتی اور اس کے ہاتھوں کوچاٹا کرتی۔ اگرالبین پیچھے رہ جاتا تو وہ دوڑتا ہوامالک کے سامنے سوں سوں کرتا ہوا اپنی دم ہلانے لگتا۔ بعض اوقات اس کے دونوں پاؤں کے بیچ اپناسرڈال دیتا اور اس طرح اس کے قدم رک جاتے۔
اگردوسرے کتے جولی کوللچائی ہوئی نگاہوں سے دیکھتے تووہ خوف سے سمٹ کرمالک کے پاس پناہ لیتی۔ تب البین اپنی برادری والوں سے بھڑنے کے لیے آگے آتا اور وہ سب دم دباکرپیچھے ہٹ جاتے۔ وہ کتے البین کی بے پناہ طاقت سے ناواقف نہ تھے۔ اس کی بھی اپنی شان تھی اوربھاگتے ہوئے کتوں پرحملہ کرنااس کے مزاج کے خلا ف تھا۔
البین اورجولی کی ایک اوردوست زمیندار کی پیاری بیٹی تھی۔ وہ اپنے وقت کا زیادہ حصہ ان دونوں جانوروں کے ساتھ گزاراکرتی۔ وہ اپنی آپا کے ساتھ گھاس کی کومل پتیاں اکٹھا کرکے رکھتی تھی۔ دبے قدموں سے جولی وہاں آتی اوراپنامنہ اس کے آگے کردیتی۔ البین بھی اپنی سہیلی کے ساتھ آتا اوراچھل کود کرننھی مالکن کا جی بہلاتا۔
اپنی آرام کرسی پرجھولتے ہوئے زمیندار اپنے پالتوؤں کی اٹکھیلیاں دیکھتا اور اس کافکرمنددل خوشیوں سے پرہوجاتا۔ وہ نئے خیالوں کا، خوشگوارطبیعت کامالک، نرم دل انسان تھا۔ موقع کے مطابق لباس زیب تن کرتا تھا۔ ملکی لوگوں کے سامنے سودیشی کرتا اورچادر اورغیرملکیوں کے سامنے چست انگریزی لباس۔ چھٹی کے دنوں میں انگریز آفیسر اس کی اراضی پرشکارکھیلنے آیاکرتے۔ ان کے لیے اس کے دروازے ہمیشہ کھلے رہتے۔ ایک نہایت ہی آراستہ مہمان خانہ اسی غرض سے بنوایاگیاتھا۔ وہ اپنے تعلیم یافتہ اورباعزت کرایہ داروں سے بھی اسی اندازمیں ملتا تھا اوران لوگوں کے ساتھ بھی اس کا سلوک بہت اچھاتھا۔ ان سب باتوں کے باوجود زیادہ ترلوگوں کی رائے اس کے بارے میں اچھی نہیں تھی۔ دقیانوسیوں کی نگاہ میں وہ بے دین تھا اوردوسرے اسے لاپروااورفضول خرچ، ظالم شخص سمجھتے۔ مزید برآں انگریزوں سے اس کے تعلق اور ان کے رواجوں کواپنالینے کی وجہ سے لوگ یہ سمجھتے تھے کہ اس نے اپنے رنگ ڈھنگ تیاگ دیئے ہیں۔ جس نے اس کی بہت سی خوبیوں کوخامیوں میں تبدیل کردیاتھا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کاکھانا پینا اورلباس انگریزوں سے بہت متاثرتھا اور اس میں وہ میانہ روی نہیں تھی جس کی لوگوں کو اس سے توقع تھی۔
اس کے ایک پرانے دوست ڈی آئی جی (D۔I۔G) نے یہ پیغام بھیجاکہ وہ بڑے دن کی چھٹیوں میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ اس کے یہاں شکارکھیلنے آرہاہے۔ اس کے آنے سے چارروزقبل ہی مہمان خانہ تیارکردیاگیاتھا اورجنگل میں خیمے نصب کردیئے گئے۔ متعلقہ ضروریات کی چیزوں کی خریداری کے لیے لوگوں کوکٹک روانہ کردیا گیاتھا۔ تمام ملازم اورکارکن ایک منٹ کے لیے بھی کام سے خالی نہیں ہوپاتے تھے اور ہرایک پیٹھ پیچھے زمیندار پرگالیوں کی بوچھارکررہاتھا۔
وہ ممتازمہمانوں کے استقبال کے لیے اپنی موٹرمیں گیا۔ صاحب مقررہ وقت پرپہنچ گئے۔ میزبان اپنے دوست، اس کی بیوی اوربیٹیوں سے مل کربہت خوش تھا۔ پروگرام طے کرلیاگیاتھا۔ مہمانوں نے شب مہمان خانہ میں گزاری اوریہ تجویز رکھی گئی کہ صبح کے ناشتہ کے بعدشکارکے لیے جنگل روانہ ہوجائیں گے۔
شکارکی جگہ زمیندار کے مکان سے تقریباچودہ میل دور تھی۔ شکارگاہ کے پڑوس میں کوئی انسانی آبادی نہیں تھی۔ خدمت گزاراور خانساماں پہلے ہی کھانے پینے کا سامان اوردوسری متعلقہ چیزوں کولے کرجاچکے تھے۔ ان کے بعدمہمان ڈی آئی جی کے شکاری دوکتے اور زمیندارپیارے البین اورجولی گاڑی میں روانہ ہوگئے۔ جولی کوساتھ لے جانے کی چنداں ضرورت نہ تھی۔ لیکن البین کوخوش رکھنے کے لیے جولی کوساتھ لے جانا ضروری سمجھا گیااورالبین کی مدد کی بہرحال شکارکے دوران ضرورت تھی۔ جولی اورالبین کولے جانے کے سلسلہ میں زمیندار نے صاحبزادی کی اجازت بھی اخلاقاًحاصل کرلی تھی۔ صاحبزادی نے والد سے اس بات کی استدعا کی تھی کہ ان دونوں کوتین دن سے زیادہ وہاں نہ رکھا جائے۔
بہرکیف کرسمس کی گہماگہمی اورمسرت آمیزخوشیوں کے پانچ دن گزرگئے۔ جنگل کی خاموشی اورتنہائی کے ماحول میں مہمانوں کی خاطرداری اس اندازسے کی گئی کہ وہ لوگ شہرکے شوروشغب کوبھو ل گئے تھے۔ پانچویں دن ناشتہ کے بعدزمیندار اورڈی آئی جی شکارکے لیے روانہ ہو ئے۔ گزشتہ چاردنوں سے ہرشام خواتین کورقص وسرود سے نوازا گیا تھا اس لیے وہ اس قدرتھکن محسوس کررہی تھیں کہ شکاریوں کے ہمراہ نہ جاسکیں خدمت گزارلوگ بھی تھک گئے تھے۔ لیکن ان میں سے دوتین کوشکاریوں کے ساتھ جانا ہی پڑا۔
شکاریوں کے نشانے توچوک گئے۔ لیکن بندوق چلنے کی آوازسے پرندے اڑکردورچلے گئے۔ اب ان کی واپسی کاانتظارکرنامجبوری تھی۔ اس طرح شکاری لوگ برابر کے جنگل میں داخل ہو گئے۔ وہ لوگ جنگل میں مارے مارے پھرتے رہے لیکن کچھ حاصل نہ ہوا۔ نوکروں کو باہرشکارکی تلاش میں بھیجا گیا۔ نوکربھی شکار کی کوئی خبرنہیں لائے کون کہہ سکتا تھا وہ کیا کرتے رہے۔ گپ لگاتے رہے۔ چرٹ پیتے رہے یاکھانے کے لیے ہتھیلی پرتمباکو کوملتے رہے۔ دونوں دوست سنبھل سنبھل کرجنگل چھانتے رہے اور اس تلاش کے نتیجہ میں وہ اپنے کیمپ سے قریب چارمیل دورچلے گئے۔
دن ڈھل چکا تھا، آفتاب قریب کی پہاڑی کے پیچھے منہ چھپاچکا تھا اوراس کی قرمزی دھاریاں مغربی ا فق پردھندلی ہوتی جارہی تھیں۔ شکاری گردوپیش سے بے خبر بڑے انہماک سے کسی زندہ جانور کے گوشت کی تلاش میں تھے۔ مشرقی افق پرایک تاریک بادل نمودارہوا، لیکن شکاریوں کاآسمان سے کوئی تعلق نہ تھا ان کی نگاہیں توزمین پرشکارتلاش کررہی تھیں۔ نوکروں نے پھیلتی ہوئی تاریکی کودیکھ کرخطرہ محسوس کیا اسی لیے وہ اپنے مالکوں کی تلاش میں نکل پڑے۔ جنگل اتنا گھناتھا کہ دن کے اجالے میں بھی انہیں پاناناممکن تھا۔
دونوں دوست تاریکی میں راستہ بھول گئے۔ وہ اس وقت پلٹے جب سردہوا کاجھونکابارش کے آنے کی نشاندہی کرنے لگا۔ گھٹائیں اکٹھاہوکرگھنی اورکالی ہوتی گئیں ایسا معلوم ہوتا تھا کہ چارمیل کی دوری پانی پڑنے سے قبل طے کرکے ان دونوں کاکیمپ میں واپس پہنچناناممکن تھا۔ بے یارومددگار بلاکسی شکارکے یہ دونوں ڈبل مارچ کرتے ہوئے اپنے کاندھوں پراپنی رائفل ڈالے چلے جارہے تھے۔ ان کے دل اس خوشی سے محروم تھے جوخوف زدہ ہرن کاپیچھا کرنے سے ملتی ہے زوروں کا طوفان ٹوٹ پڑا۔ جنگل میں چاروں طرف اندھیراہی اندھیراتھا اوربھیانک خوفناک ہوائیں بہہ رہی تھیں۔ بڑ ی ہوشیاریوں سے لیکن بہت مشکل سے یہ لوگ لوٹ پائے۔ آخرکاریہ لو گ بارش سے بھیگتے ہوئے اورہانپتے کانپتے کیمپ میں داخل ہوئے۔ اس وقت شب کے آٹھ بجے تھے۔
رات کے کھانے کاکوئی انتظام نہیں کیاگیاتھا کیونکہ سبھی شکارکے منتظرتھے۔ لیکن بدقسمتی کاعالم یہ تھا کہ ایک چڑیابھی شکارنہ ہوسکی تھی۔ یہ بات طے کرلی گئی کہ کل صبح سب لوگ یہاں سے رہائش گاہ کی طرف روانہ ہوجائیں گے۔ زمیندارکامکان یہاں سے چودہ میل پرتھا۔ کیا یہ ممکن تھا کہ اس پرشورطوفان اور بارش میں گھر سے، جواتنی دوری پرتھارات کاکھانا لایاجاسکے۔ بارش کی وجہ سے موٹرکاراستہ بھی بالکل ہی جانے کے قابل نہ تھا۔ آس پاس بھی کوئی جگہ ایسی نہ تھی جہاں سے صاحب اورزمیندار کے لیے کھانے کاانتظام کیاجاسکے۔ ہرآدمی فکرمند تھا کہ اب کیاکیاجائے؟ شکار کے یے نکلنے سے قبل زمیندارکچھ گوشت کا انتظام کرناچاہتا تھا۔ لیکن ڈی آئی جی صاحب نے یقین دلایاتھاکہ وہ لوگ شکارمیں ناکام نہیں ہوں گے۔ اب ایسے میں کیاکرناتھا؟ یوں ان نوکروں کاکوئی قصورنہ تھا لیکن زمیندار نے اپنے غم وغصہ کا نشانہ انہی نوکروں کوبنایا۔
اچانک صاحب نے خوش آئند الفاظ میں کہا، ’’مجھے رات کے کھانے کا کچھ انتظام کرنے کا موقع دیاجائے۔‘‘
’’جی! میزبان نے مصنوعی اندازمیں مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ ’’آپ کوکو ئی اعتراض تونہیں ہوگا؟‘‘ صاحب نے پوچھا۔ ’’آپ کوایک نہایت ہی خوش ذائقہ دعوت کامزہ ملے گا اورپھر اس جانور کے بدلے میں بہ آسانی دوسرا جانور حاصل کیاجاسکتاہے۔ کیاتمہیں یہ تجویز پسند نہیں؟‘‘
پہلے توزمیندار نے سمجھا ہی نہیں کہ صاحب کے ذہن میں کیاہے جونہی صاحب نے اپنی بات ختم کی وہ کانپ اٹھا۔ جلدی میں بمشکل وہ یہ کہہ سکا، ’’جی ہاں! بڑی اچھی ہے۔‘‘ وہ اپنے معززدوست اور عزیزمہمان کی تجویز سے انکارنہ کرسکا لیکن جولی کا نام آتے ہی اس کا دل بہت زور زور سے دھڑکنے لگا۔
جولی کی داستان حیات بڑی پردردتھی۔ یہی وجہ تھی کہ زمیندارجولی کواس قدرچاہتا تھا۔ اس کے ساتھ یہ واقعہ اس وقت پیش آیاتھا جب وہ اپنے ایک یورپی دوست کے ساتھ شکارپرتھا اور اپنی نشانہ بازی کی مہارت کا مظاہرہ کررہا تھاوہ (جولی) اس وقت ماں کا دودھ پی رہی تھی۔ جولی کی ماں زمیندارکی گولی کھاکرگری اوریہ بیکس چھوٹی یتیم بالکل خموش تماشائی بنی کھڑی رہ گئی۔ جب زمیندار کے آدمی اس کے نزدیک پہنچے تووہ اپنی جگہ پرکھڑی رہی کیونکہ اس کویقین تھا کہ اس کی ماں اس کے ساتھ ہے۔ جولی کی یہ معصوم صورت زمیندارکے دل میں گھرکرگئی اور اللہ کی اس کی مخلوق کے ساتھ زمیندارکا رشتہ اس وقت سے بہت قریب ترہوگیا۔ اس نے کبھی خواب میں بھی نہ دیکھاتھا کہ ایک دن ایسا آئے گا کہ وہ اسے اپنی خوراک کے لیے ذبح کرے گا۔ لیکن کیاایسے شریف مہمان کوٹھکرایاجائے؟
صاحب اپنے میزبان کی رضامندی پرخوش ہوااوریہ سوچ کروہ اوربھی خوش ہوگیاکہ اپنے ہاتھ سے جانورکوذبح کرے گا۔ وہ خون بہانے کے لیے مشہورتھا۔ اس شہرت کی وجہ سے اس نے گزشتہ جنگ عظیم میں امتیازحاصل کیاتھا۔ صاحب کی فطرت تھی کہ شکار نہ ملنے پروہ اپنے پالتوں پرندوں کومارڈالتا تھاتاکہ اس کا دماغ ٹھنڈارہے اپنے شوہر کے کردار کے بارے میں بڑے فخرسے میم صاحب شرارتاًفرماتی تھی کہ ایک بارجب انہیں شکار نہ مل سکاتویہ اپنا گلاکاٹنے کے لیے تیارہوگئے۔
البین (ALBION) اورجولی (JOLLY) منہ سے منہ جوڑکرایک دوسرے کے قریب سوئے ہوئے تھے۔ کسی اجنبی کے لیے البین کے پاس پھٹکناآسان نہیں تھا خاص طورپرجب البین، جولی کے پہلو میں ہوتاتھا۔ زمیندار کا صرف خدمت گار مدھیاہی یہ کام کرسکتا تھا۔ مالک کے کہنے پر مدھیا کوجولی کولینے جانا پڑا۔ البین کو شبہ ہوا، قدموں کی چاپ سن کر وہ جاگ اٹھا اوربھونکنے لگا۔ مدھیاکی آواز سن کر اسے اطمینان ہوا۔ لیکن جب جولی کوزبردستی گھسیٹ کرلے جایاجارہا تھا، البین چپ نہ رہ سکا۔ اس کوغصہ آگیا اورجولی کے پیچھے جانے کے لیے بے تاب ہوگیا۔ مدھیاکوآخراسے بھی زنجیر سے پکڑکرساتھ لے جانا پڑا۔ اگرچہ البین غیرمعمولی طورپرسمجھ دارتھا لیکن جولی کے زبردستی بے وقت اس سے دورہٹانے کے اس واقعہ کووہ نہیں سمجھ سکا۔ مدھیانے خوالبین کومضبوطی سے پکڑے رکھا اورجولی کوخانساماں کے حوالے کردیا۔ اس سے البین کوشبہ ہوا لیکن وہ اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہیں ہوا۔ صاحب اپنی وحشت کاعملی اظہارکرنے کے لیے تیار ہوگیا۔ لیمپ کی روشنی میں اس کاخنجرچمک رہا تھا۔ وہ گولی ضائع کرنے کے بجائے زندہ جانوروں کوچاقو سے ذبح کرناپسند کرتا تھا۔ خانساماؤں نے جولی کے پاؤں باندھ دیے تھے اورمضبوطی سے پکڑرکھا تھا تاکہ وہ ذبح کرنے کے کام میں خلل نہ ڈال سکے۔
جولی کوکس با ت کا خوف تھا؟ وہ اب بھی خمو ش کھڑی تھی۔ جولی کے دماغ میں یہ تھا کہ اس کاچاہنے والا مالک اورسرپرست، زمین دار اورضرورت کے وقت کام آنے والادوست البین مو جود تھے۔ اس لیے ڈرکاہے کا؟ چونکہ اس کے پاؤں مضبوطی سے بندھے ہوئے تھے۔ جولی نے باری باری اپنے پیارے ساتھی اورہمیشہ کے آزمائے ہوے مالک کی جانب نگاہیں دوڑائیں۔ لیکن زمینداراپنادھیان بٹانے کی کوشش میں دوست کے بیوی بچوں کے ساتھ باتیں کرنے لگا۔ پھربھی اس کے دماغ میں یہ جذبہ ابھررہا تھاکہ اپنی نگاہیں جولی کی طرف موڑے لیکن اس نے اپنے آپ کوہنسی مذاق میں مشغول رکھا اورجولی کی طرف سے اپنے آپ کوبے نیاز کرلیا۔ اس کوخدشہ تھاکہ جیسے ہی اس کی نگاہ جولی کی طرف ا ٹھے گی اس پر خوف طاری ہوجائے گاکہ یہ جانور اس کے دلی رازکوظاہرکردے گا اور انسانی آوازمیں اسے ملزم قرار دے گا۔
البین کا شک مستحکم ہوگیا۔ جونہی اس نے صاحب کے ہاتھ میں چاقودیکھا۔ ڈی آئی جی نے چاقوصاف کیااوراپنی جگہ سے اٹھا۔ نادانستہ طورپرزمیندار کی آنکھیں جولی کے چہرے پرپڑیں اوراس نے محسوس کیاکہ جولی اس سے رحم ووکرم کی استدعاکررہی ہے۔ مغموم اورقابل رحم صورت دیکھتے ہی اچانک اٹھا اووہ خیمہ کے اندرکسی بہانے سے چلاگیا۔ لیکن ا لبین نے جولی کی ا ستدعابھانپ لی۔ تب جولی نے اپنی مایوس آنکھیں مالک سے پھیرکرمشفق دوست کی طرف کیں البین کے دل پر اس کا کافی اثرہوا۔ جیسے ہی وہ چاقولیے آگے بڑھا، صاحب کا ارادہ البین پرعیاں ہوگیا۔ اس نے بہت سی بکری اورہرن کوذبح ہوتے ہوئے دیکھا تھا۔ اوراب اس کی اپنی پیاری ہرنی کاوہی حشرہونے والا تھا۔ اس نے اس تجویز کوزبردست جھٹکا دیاجس میں وہ بندھا ہوا تھا اور چشم زدن میں اس نے اپنے کومدھیاسے آزادکرلیااورایک خانساماں پرحملہ کردیا۔ صاحب اور نوکرگرتے پڑتے خیمہ کی طرف دوڑے۔ زمیندار خیمہ میں بے خبرتھا۔ وہ دوڑکراپنے مہمان کے پاس معافی مانگتے ہوئے آیا اورمدھیا پربرس پڑا۔ لیکن اس کے الفاط اس کی دلی تکلیف کے ترجمان تھے غصے کے نہیں۔
مدھیا نے جسے البین نے گھائل کیاتھا، اسے ایک درخت سے کس کرباندھ دیا۔ ڈی آئی جی چاقو لیے دوبارہ مسکراتاہوا آیا۔ مذاقاً اس نے پہلے البین کوچاقودکھایا پھر جولی کی طرف بڑھا۔ پھرزمیندارنے چوری سے جولی پرنگاہ ڈالی اور اسے ملتجیانہ نظروں سے دیکھتے ہوئے پایا۔ وہ اپنے مہمان سے کچھ کہنے کے لیے اٹھالیکن پھرضبط سے کام لیتے ہوئے وہیں بیٹھ گیا۔ آہ! کیامیں پاگل ہو گیا ہوں، اس نے خودکلامی کی۔ وہ اپنی جگہ پربیٹھ گیا اور خیالوں میں ڈوب گیا۔ لیکن یہ سوچتے ہوئے کہ شاید صاحب برا نہ مان جائے وہ اپنافیصلہ بدلتے ہوئے سامنے بیٹھ گیا۔ لیکن اس منظرکونہ دیکھنے کے لیے اس نے اپنے چہرے پررومال ڈال دیا۔ البین کی دل خراش آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔ اس چیخ کے ذریعہ مغموم اور پھنسی ہوئی ایک آواز سنائی دی۔ اس آواز نے اس کا دل چھیدڈالا۔ یہ جولی کی آواز تھی۔ اس نے اپنے چہرے سے رومال ہٹایااوردیکھا، کام تمام ہوچکاتھا۔
کھانے کی میز پر اس کی روح چیخ اٹھی کہ جولی کاگوشت نہ کھایاجائے۔ پراندرونی کشمکش کے باوجود وہ کھانے کے میز پربیٹھا! اوردوچارلقمے لیے۔ تخیلات میں ڈوبا ہوا وہ اپنے سونے کے کمرے میں چلا گیا پروہ سونہ سکا۔ اس نے اپنے آپ کوایک جنگل سے دوسرے جنگل میں سرگرداں پایا۔ طوفان اورہرلمحہ گہری ہوتی ہوئی تاریکی! اس کی آنکھوں کے سا منے وہ منظرآگیا جب جولی کی ماں اس کی گولی کاشکارہوئی تھی اورجولی اس کے بغل میں خموش بلاخوف کھڑی رہی تھی۔ پھرگھٹاٹوپ اندھیرا، کندھوں پر رائفل لیے دوستوں کاکیمپ میں داخل ہونا، ہاتھ میں چاقولیے صاحب کے شیطانی قہقہے اورزندگی کی بھیک مانگتی ہوئی جولی۔
یہ لوگ صبح سویرے گھرواپس ہوگئے۔ اس کے مہمان ضیافت کی خوشیوں میں اسی دن رخصت ہوگئے۔ مدھیا اکھڑی ہوئی سانس کے ساتھ آیا اور مالک کواطلاع دی کہ ا لبین کو کھینچتے ہوئے لایا ہے کیونکہ کتااس جگہ سے آنانہیں چاہتاتھا۔ مالک تنہا غمگین بیٹھا تھا۔ بغیردوسرے کلمہ کے مدھیاخموشی کے ساتھ چلاگیا۔ زمیندار کے دل ودماغ پراس حادثہ کابہت گہرا پچھتاواتھا۔ اب تک اس نے قوت ارادی ہی کی بنا پر خود کوضبط میں رکھا ورنہ وہ اب تک پاگل ہوچکا ہوتا۔ اس کے ضمیرنے کہا کہ وہ کتے کے پاؤں میں گرکراس سے معافی مانگے۔ زمیندارکواس بات کااحساس ہورہاتھا کہ وہ ا لبین سے زیادہ ذلیل ہے۔ ’’کیامیرادل ایسے قاتلانہ اورظالمانہ حرکات کا مرتکب ہوسکتا ہے۔ کیامیں ان جانوروں کے بمقابلہ زیادہ گنہگار، ظالم اورخونخوار ہوں جو جانوروں کومارکھاتے ہیں۔ لعنت ہے مجھ پر! کیاطاقتور آدمی ہونے کامطلب یہی ہے کہ کمزورکوقیدوبندمیں رکھا جائے اوراپنے وجودکوبرقراررکھنے کے لیے اسے بربادکردیاجائے۔ کیاایک کومارڈالناچاہیے کیونکہ دوسرے کوزندہ رہناہے؟‘‘
جولی کہاں ہے؟ ایک آوازپیچھے سے گونجی۔ وہ مڑا اوراپنی چارسالہ بیٹی کودیکھا۔ وہ اس کے سوال کا پورا جواب نہ دے سکا۔ کھڑا ہوگیا۔ تیزی میں اپنی بیٹی کو سینے سے چمٹاتے ہوئے بولا، ’’وہاں ہے وہ! وہ ہے!‘‘ لیکن بچی نے ایک نہ سنی۔ اس نے غصہ میں لرزتے ہونٹوں سے کہا، ’’تم جھوٹے ہو۔ مدھیاکہتاہے صاحب نے اسے مارڈالا۔ میں مارڈالوں گی صاحب کو۔‘‘
باپ اپنی چھوٹی بیٹی کے غصہ سے پرجذبات کونہ د باسکا اوراس کی آنکھوں سے آنسوچھلک پڑے۔ وہ بسترپرگرپڑااورزاروقطاررونے لگا۔ لیکن وہ سوال کہ جولی کہاں ہے؟ اس کے دماغ میں باربارابھرتارہا۔ اس نے وہی سوال خودسے کیااور اپنی شخصیت پرنگاہ ڈالتارہا۔ اس کے ذہن میں آیاکہ اس نے بھی توجولی کے گوشت کی ایک بوٹی کھائی تھی۔ وہ سخت بیمارپڑا۔۔۔ دوہفتہ تک شدیدبخارمیں مبتلارہا، اس کی حالت اوربگڑگئی لیکن وہ ٹھیک ہوگیابلکہ یو ں کہیے یہ اس کا دوسرا جنم تھا۔
مہمان خانہ جویورپین لوگوں کے لیے بنایا گیاتھامریض اورغریبوں کی پناہ گاہ میں تبدیل ہوگیا۔ زمیندارکے گھرمیں جانوروں کاگوشت پکنابالکل ممنوع قرارپایا گیا اور حکم نامہ جاری کردیاگیا کہ جنگلوں میں شکارنہیں کیاجائے گایاکسی بھی ہرن کواس کی زمینداری میں نہیں ماراجائے گا۔
البین کچھ بھی نہیں چھوتا تھا۔ وہ سارا دن فاقہ میں گزارتاتھا اورجب زمیندار بیمارپڑاتووہ کہیں چلاگیا۔ مدھیااس کی تلاش میں نکلا اور دیکھا کہ وہ اپنی ناک سے اس جگہ کوسونگھ رہاتھا جہاں جولی ذبح کی گئی تھی۔ یہ وہی جگہ تھی جہاں اس کی سب سے پیاری چیزجداکی گئی تھی۔ وہ واپس لایاگیالیکن تمام دیکھ ریکھ کے باوجود کچھ حاصل نہ ہوا۔ ایک بارپھروہ بھاگ گیا اور واپس نہ آیا۔
کچھ لوگ ہتے ہیں وہ وہیں چلاگیاجہاں خیمہ نصب کیاگیاتھا۔ لیکن لکڑہارے کہتے ہیں کہ وہ جب بھی کسی درخت کوگراتے ہیں جانوروں کی آہ وفغاں اکثرسنتے ہیں۔ لیکن وہ آواز کس کی ہوگی۔ جولی کی یا البین کی؟
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.