صرف ایک قدم
جلتی جھلستی زندگی اور شہر کی رونق دونوں کو پارکرتا ہوا یوسف شہر کے اُس پار پہنچا۔ آسمان ایسا نظر آرہا تھا جیسے موتی کے دانے سکھانے کے لیے پھیلا دیے گئے ہوں، دور اندھیرے سے ڈھکے ہوئے ریگستان سے ہوا سائیں سائیں چل رہی تھی۔ ریگستان کے چہرے پر مسّوں کی طرح نظرآنے والے اونٹ دروازہ شہر کے اُس پار موت کی آغوش میں سکڑے سمٹے پڑے تھے۔
یوسف ذرا ٹھہرا اس نے ایک بار پھر اس شہر پر نظر ڈالی جس نے اسے گناہوں میں پالا پوسا تھا۔ اس نے ایک آہ بھری۔
شہر پاپ سے لوٹ پوٹ ہوگیا۔ آسمان کی طرف اٹھائے بھالوں کی طرح اونچائی پرنظر آتے مسجدوں کے میناروں پر بستیوں کی ہلکی روشنی پھیلی ہوئی تھی۔ شہر کے دروازے کے اوپر لٹکے ہوئے چمگادڑوں کے چہکنے کی آواز سنائی پڑ رہی تھی۔
اب خدا حافظ کہیں۔
کھلا ہوا دروازہ شہر۔ سونے کے لیے بے چین شہر۔ اس کے پاؤں ڈگمگا گئے۔ نہیں! میں شہر کے قبرستان میں پہنچنے والا ہوں۔ باقی دن بھی یہیں گزاروں گا۔
یوسف نے رعایا میں خوف وہراس پھیلا کر اس شہر پرحکمرانی کی تھی۔ یوسف کی ٹیڑھی مونچھیں، لمبی ڈاڑھی، سرخ آنکھیں اورلمبا کرتا ان سب کو دیکھتے وقت اس کی کمر پر لٹکتی ہوئی تلوار عوام کے دلوں کی گہرائی تک اتر جاتی تھی۔ اسے دیکھنے پر مائیں بچوں کوسینے سے لگا لیتیں، مرد خوف سے سراسیمہ ہوجاتے۔ وہ اس شہر کے لیے ایک ہیبت تھا۔
یوسف نے سرجھکایا۔
بے کراں اور نشیب وفراز والے ریگستان میں کہیں بھی روشنی کے جگنو کا گذر نہ تھا۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ اسے کتنی دور تک جانا پڑے گا۔ جس سے ملنا ہے اس کا پتہ بھی نہیں۔ وہ کہاں ہوگا؟ یہ بھی معلوم نہیں۔ یوسف صرف اتنا جانتا ہے کہ پیدائش سے لے کر آج تک کی عیش و آرام سے بھرپور زندگی سے وہ پیچھے ہٹتا آیا ہے۔ وہ جوں جوں پیچھے ہٹتا توں توں اس کا دل عمر رفتہ کی یادوں کے سنگ میل سے ٹکرا کرچور چور ہوتا جاتا تھا۔
تب یوسف نے مسجد کے میناروں سے گونجتی ہوئی اذان کی آوازسنی۔ اللہ اکبر۔ ا للہ سب سے بڑا ہے۔ اذان کی آواز کے ساتھ سب کچھ دل کے اندر کوٹ کوٹ کر بھر جاتا ہے یہ کیسے ہوا اور کیوں ہوا؟
جب چراغ بجھ گئے اور انسانوں کی آنکھیں بند ہو گئیں، جب ریگستان سے گذر کر دورِ فراق کو برداشت کرنے والی آندھی زور سے چیخ مارتی تھی تب اس کی سرخ آنکھیں چمک اٹھیں اور میان میں پڑی تلوار ہاتھ میں آگئی۔ بند دروازے اس کے لیے کھل گئے۔
سوتے ہوئے گھر کے مالک، اس کے پاس پڑی ہوئی اس کی بیوی، فرش پر پڑے ہوئے بچے۔ یوسف نے ہتھیار سے صندوق کھولا۔ لوہے کے صندوق کی آواز سن کر شوہر بیدار ہوا۔
’’میرے رب۔۔۔‘‘
’’خاموش رہ۔ آواز نکالی تو زبان کاٹ دی جائے گی‘‘
صندوق میں چھپا کررکھی ہوئی روپیوں کی تھیلی نکال کر وہ مسکرایا۔
یوسف کی تلوار چمک اٹھی۔ چمکتی تلوار کا سرا سرخ ہوگیا۔ ’ ’اللہ!‘‘
چھاتی پیٹ کر روتی ہوئی بیوی، چیختے چلاتے ننھے بچے، یوسف کو ان کے چہروں پر نگاہ ڈالنے کی اب ضرورت نہیں تھی۔
تلوار کھینچ کر وہ باہر دوڑا۔ کتنی راتیں، کتنے خاندان۔ خون ابلتا گلا دھڑ سے الگ ہوگیا۔ خوف سے کانپتی لڑکیوں کے لباس اس نے تارتار کر ڈالے، وہ ایک دہشت تھاٍ! جو اس کا جی چاہتا تھا وہ اس نے کیا، یوسف کے ظلموں سے لوگ خوفزدہ ہوگئے تھے۔
یوسف!
جب وہ شاہراہ سے آگے کی طرف بڑھتا تولوگ اس راستے سے ہٹ جاتے۔ اس لٹیرے کے سامنے ایوان شاہی بھی کانپ اٹھتا۔
یوسف نے تاریکی میں ڈوبے ہوئے جنگل کی طرف دیکھا۔ تاریکی ختم ہوگئی ہے؟ کیا آفتاب چمک رہا ہے؟ یوسف کے دل میں بیتے دن جاگتے رہے۔
وہ مسافر اور اونٹ دھیرے دھیرے آرہے تھے۔ اونٹ کے پیروں کے نشانات ریگستان میں پڑے۔ مسافر چھپے بیٹھے تھے۔ چاروں طرف آگ دہک رہی تھی۔ ریت کی دھول لہروں کی طرح بہتی بہتی ریگستان میں نئے نشان اور نئے راستے کھینچتی تھی۔
’’ارے ٹھہر جا!‘‘
مسافر کے ہاتھ کی لگام ڈھیلی ہوگئی۔ اونٹ ٹھہرگیا، آفتاب غصہ میں تمتما اٹھا۔ خشک ہونٹوں والے اس آدمی کا چہرہ صاف نظر نہ آرہا تھا۔ پیشانی ناک اور کان کپڑے سے ڈھکے تھے، صرف آنکھیں دکھائی دے رہی تھیں۔
سوالیہ نشان بنی ہوئی آنکھیں!
یوسف نے حکم دیا۔
’’نیچے اتر آ‘‘
مسافرنے حکم کی تعمیل کی، یوسف نے تلوار کھینچ لی۔ روشنی میں چمکنے والی تلوارمیں خون کے دھبے دیکھنے والا وہاں کوئی نہیں تھا۔
’’تیری تھیلی کہاں ہے؟ دیدے‘‘
ان خشک ہونٹوں پرمسکراہٹ آئی۔
’’بس اتنی سی بات کے لیے ا تنا ہنگامہ کرتا ہے؟‘‘
اس نے تھیلی نکالی اور دونوں ہاتھوں سے اسے نذر کردی۔
’’خدا کے واسطے اسے اپنے خاندان کی بھلائی کے لیے صرف کرنا‘‘
اس بات نے یوسف کو خاص طور پر متاثر کیا، کسی نے کبھی ایسی باتیں نہیں کہی تھیں، لوگ دولت کی پوٹلی پیش کرنے میں ہچکچاتے اوریوسف ان سے چھین لیا کرتا تھا۔ کچھ تو چیختے چلاتے بھی تھے۔ کچھ لوگ ڈرسے کانپتے تھے۔
’’تیری گٹھری میں کیا ہے؟‘‘
’’اوہو، میں دولت کی پوٹلی کے ساتھ اپنی گٹھری اور اونٹ کو بھی نذرکرنا بھول گیا۔ معاف کرنا‘‘۔
وہ اونٹ سے اترا۔ یوسف سوار ہوگیا اور لوٹ کے مال کو دیکھنے لگا۔ قیمتی ریشمی کپڑے، گھڑا بھری سونے کی مہریں، میوے اور تندرست اونٹ۔ اب سب کچھ یوسف کا تھا!
کچھ سوچ کر یوسف اونٹ سے اُترا، مسافرکو تلاش کیا مگروہ نظر نہ آیا۔
چمچماتے سورج کے سایہ سے محروم ریگستانی جنگل، اس نے دایاں ہاتھ پیشانی پر رکھا وہ وسیع اورسنسان میدان میں ایک سفید حیوان کی طرح چلتا رہا۔ چوری کے سامان اور اس آدمی کی طرف یوسف کا دل متوجہ ہوا۔ اس سے پہلے یوسف نے کبھی بھی ایسا نہ سوچا تھا۔ جسے لوٹ لیا، لوٹ لیا۔
وہ اونٹ کی پیٹھ پر پھر سوار ہوا۔ ضرب لگائی۔۔۔ اونٹ آگے بڑھا۔ یوسف پھرچیخ اٹھا۔
’’ٹھہرجا‘‘
مسافر رک گیا۔
یوسف ایک ٹک دیکھتا رہا۔ داغ لگے تانبے جیسے چہرے پرچھوٹی آنکھیں۔ کالی گول ڈاڑھی جس پرہاتھ پھیر کر وہ یوسف کو دیکھ کر ہنس پڑا۔
’’بھیا کیا چاہئے؟‘‘
وہ یوسف سے خوف زدہ نہ تھا۔ نہ اس کے پاؤں میں لغزش تھی۔ خوشدلی کے ساتھ ڈٹا رہا اور دریافت کیا۔
’’میری چادر چاہئے کیا؟ ’’
’’نہیں چاہئے‘‘
’’میرے جوتے چاہئیں کیا؟‘‘
’’نہیں‘‘
’’مجھے غلام بنا کر بیچنا چاہتا ہے کیا؟‘‘
’’نہیں‘‘
’’توپھر تمہیں اور کیا چاہئے؟‘‘
’’توکون ہے؟‘‘
’’میں تم جیسا ایک انسان ہوں‘‘
’’لٹیرا ہے کیا؟‘‘
مسافر ہنس پڑا
’’ہوسکتا ہے۔ مگر میں نے تمہاری طرح دھمکی دے کر دولت نہیں کمائی۔ انہیں تجارت کی رغبت دلا کرچیزوں کے لین دین سے فائدہ دلا کر دولت کمائی ہے‘‘
’’تیرا نام کیا ہے؟‘‘
’’یہ جاننے سے تمہیں کیا فائدہ ہوگا؟ میں ایک مسافر ہوں، ایک فانی انسان!‘‘
مسافر دوبارہ ہنس پڑا۔
’’تیرا وطن کہاں ہے؟‘‘
’’خراسان‘‘
یوسف سناٹے میں رہ گیا۔ لوگوں سے میٹھی باتیں کرنے کی عادت ابھی تک نہیں سیکھی تھی۔ سامنے کھڑے آدمی سے کچھ اور کہنے کو نہیں تھا۔
مسافر دھیرے دھیرے تپتے ہوئے ریتیلے میدان میں چلنے لگا تو پیروں کے نیچے کے ذرے چاروں طرف بکھر گئے۔ یوسف نے اسے دیکھا۔ کچھ دیر وہیں کھڑا رہا پھر وہ اونٹ پرسوار ہوا اورآہستہ آہستہ شہر کی طرف چل پڑا۔
یوسف نے بہت کچھ لوٹا تھا۔ سونا لوٹا اور اس سے شراب پی۔ شراب کے بلبلوں کے ساتھ سونا نظر سے غائب ہوگیا۔ یوسف نے چوریاں کیں، قتل کیے، اشرفیوں کو پانی کی طرح بہایا اور ریگ زار میں پڑی لاشیں سوکھ کر ریزہ ریزہ ہوتی گئیں۔
دن گزرتے گئے لیکن دل کے نامعلوم گوشے میں وہ مسافر زندہ رہا۔ دل میں اندر ہی اندر وہ مسافر یوسف کو بے چین کرتا رہا۔ خوف زدہ انسانوں سے وہ کیسے بہتر ہے؟ یوسف کے دل میں خوف کا ہلکا سا چراغ جلنے لگا۔ اس مدھم روشنی کے سہارے یوسف نے اپنی زندگی کی تاریکی سے بھرپور پہلو دیکھے اور چونک پڑا۔ نوجوان لڑکیوں کی شادی کیلئے جمع کی گئی دولت، اس رات کے آخری پہر اس نے ڈاکہ زنی کی تھی اورتلوار کی وار سے زخم کھا کر گرے باپ کے سامنے بیوی اور بچے پھوٹ پھوٹ کر رو پڑے تھے۔ اس وقت اس کو زندگی کا نیا مفہوم نظر آیا۔ یہ سب سوچ کر یوسف حیرت زدہ ہوگیا۔
یوسف نے ڈراؤنے خواب دیکھے۔ جاگ جانے پرجسم پسینے سے تر اور پیلا پڑ جاتا تھا۔ ہاتھ پاؤں شل ہوجاتے تھے۔ لوگوں کودیکھ کراس کا دل بے حال ہوجایا کرتا تھا۔ یوسف سرجھکا کرچلتا تھا۔ متعارف شہر اسے دیکھ کرسر خم کر لیتا۔ تب یوسف ناز کرتا تھا۔ وہ نئے یوسف کو نہیں جانتے تھے۔ انہیں صرف لٹیرے یوسف سے واقفیت تھی۔ یوسف کو مسجد میں جانے کے دن خود سے یاد آئے۔ مینار کے اوپرسفید ڈاڑھی، کھلا رکھا ہوا قرآن۔ قرأت پڑھنے والے مفتی عبدالرحمن نے یوسف کو نہیں دیکھا تھا۔ ان کی آنکھیں بند تھیں۔ یوسف نے کچھ کہا،
مفتی صاحب یوسف کو دیکھتے ہی ڈرگئے۔ یہ کمینہ مسجد میں بھی گھس آیا؟ یوسف نے خوف زدہ مفتی سے دل کی ساری باتیں کہہ سنائیں کہ اس کے من کو قطعی سکون نہیں، کچھ کام کرنا ممکن نہیں۔ یہ شہر اس کا گلا گھونٹ چکا ہے اورپھر خراسان کے تاجر کا واقعہ بیان کیا۔
یوسف میں جو تبدیلی آئی اس سے مفتی دنگ رہ گئے۔ انہوں نے خدا کا شکر ادا کیا۔
’’مفتی صاحب مجھے ہدایت کی طرف لے چلئے‘‘
یوسف کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ اس میں ایک خاص تبدیلی آئی۔
’’یوسف تم میں اس کی ذہنی صلاحیت ہے؟‘‘
’’مجھ میں انسانوں کوقتل کرنے کی طاقت تھی‘‘
’’کیا وہ طاقت اب بھی ہے؟‘‘
یوسف جواب نہ دے سکا۔ مفتی نے جواب سننا بھی نہ چاہا۔ انہوں نے دریافت کیا۔
’’جانتے ہو تمہارے استاد کون ہیں؟‘‘
’’میرا کوئی استاد نہیں!‘‘
’’ہیں‘‘
’’نہیں ہیں مفتی صاحب۔‘‘
’’تمہارے استاد خراسان کے وہی تاجر ہیں۔ ان کی تلاش کرو اور ان سے سیکھ لو۔ تب ہی تم ہدایت پا سکوگے۔‘‘
دروازہ شہر پر پہنچتے ہی بیتے واقعات کی یاد تازہ ہوگئی۔ ساکت اور تاریکی میں ڈوبی زمین کو اس نے نگاہوں کے سامنے تیرتے دیکھا۔ یوسف کے پاس اب اونٹ نہیں ہے۔ معلوم نہیں کہ خراسان کا تاجر زندہ ہے یا مر چکا ہے۔ وہ تاجر اب خراسان میں ہی ہے یا کہیں اور تجارت کے لیے چلا گیا؟
یوسف جانتا تھا کہ اس کا سفر بے مقصد ہے۔ پھر بھی اس نے شہر کو دیکھ کر آہیں بھریں۔ گناہوں میں ڈوبا ہوا شہر۔ اورگناہوں کے سہارے اُسے پالنے پوسنے والا شہر۔ یہاں میں انسان نہیں تھا، لٹیرا یوسف تھا۔ مکروہ خیالوں نے اسے دام میں اسیر کیا تھا۔
یوسف نے تاریکی میں قدم رکھے۔
یوسف چلا گیا۔ راستے کے کنارے زمین پر لیٹ کر سویا۔ روکھا سوکھا کھانا کھایا۔ بھوکے پیاسے رہ کر دن اور راتیں گذار دیں۔ ریگستان میں سورج کا طلوع اورغروب ہوا۔ سرخ جھلملاتے سورج نے دور تک پھیلے خواب آلود صحرا کوروشنی اورحرارت دی۔ ریگ زار ٹیلے ہوا میں بکھر گئے۔ ریت کے گڈھوں سے پاؤں نکالنا بھی اس کے لیے مشکل ہوگیا۔ وہ اسی طرح ریگستان میں پھرتا رہا۔ اس کا داہنا پاؤں ریت کے گڈھے میں پھنس گیا۔ یوسف کا چہرہ پیلا پڑ گیا۔ جسم پسینے سے تر ہوگیا۔ کرتا پھٹ گیا۔ گڑھوں میں دھنسی تھکی تھکی سرخ آنکھیں!
ریگستانی آندھی کی سنسناہٹ گونج اٹھی۔
نہیں۔ وہ ریت کے گڈھے سے پاؤں اوپر نہیں اٹھا سکتا۔ یوسف زمین کی گہرائی میں دھنسا جارہا ہے کیا؟
اس نے پوری طاقت سے پاؤں کھینچے۔ پاؤں پھسل گئے۔ پاؤں کے چاروں طرف ریت کے ذرے جونک کی طرح زوروں سے کاٹتے ہیں۔
یوسف کی آنکھیں نم ہوگئیں۔ مدھم روشنی میں دھندلائی ہوئی آنکھوں کے اس پار ایک سفید کپڑے کی طرح خراسان کا تاجر چل کرنگاہوں سے اوجھل ہوجاتا ہے۔
’یار‘ ریگستانی آندھی کے جھونکے میں وہ آواز گونج اٹھی۔
ریت لہروں کی طرح گرجتی چاروں طرف تتربتر ہوتی ہے۔
یوسف کے دل کی دھڑکن بڑھ گئی۔ وہ رویا۔ اللہ!
اس کے ساتھ وہ آگے بڑھا۔ انگلیاں ریت کے گڈھے سے باہر نکالیں، اس عجلت میں وہ گر پڑا
جہاں گرا تھا وہیں سے وہ ہاتھ کے سہارے سرکنے لگا۔ ہاتھ شل ہوگئے ایک قدم آگے سرکا، صرف ایک قدم۔
ایک قدم آگے بڑھنے پر جو سیدھی لکیر کھنچی وہ ایک پل تک ریت میں دکھائی پڑی۔ ہوا کے جھونکے سے وہ لکیر مٹ گئی۔ حد نظر سے بھی آگے بے کراں ریگستان!
یوسف ہاتھ گاڑ نہ سکا۔ بے جان لاش کی طرح اس کا جسم گرم ریت سے چپک گیا۔ سورج کی شعاعیں اس کے کانوں میں چبھ گئیں۔ اسے کھانسی آئی، وہ کراہنے لگا۔ اسے ایسا محسوس ہوا کہ جیسے کوئی اس کا کلیجہ چاک کر رہا ہے۔ منھ کھل گیا۔
سورج تمتما اٹھا۔ ریگستانی طوفان شور مچا کر چلتا رہا۔ کسی نے نہ دیکھا، کسی نے نہ جانا۔ ہزاروں انسانوں کے قاتل یوسف نے ایک بوند پانی کے لیے سرہلایا۔ سر گھمایا مگروہ ہل نہ سکا۔
آسمان جو کمان کی شکل کا ہے، دور پرگھٹنے ٹیکے پڑا ہے۔ افق سے بادلوں کے ٹکڑے ایک کے بعد گرتے دکھائی دیے۔ کھلے آسمان میں سفید پرندوں کی طرح بادلوں کے ٹکڑے اڑ رہے تھے۔ وہ سفید پھول ریگستان کی طرف اتر آئے۔ یوسف نے آنکھیں بند نہ کیں۔ کھلے پروں والے فرشتے یوسف کی داہنی جانب آکر کھڑے ہوگئے۔
یوسف سب کچھ دیکھ سکتا تھا۔
بادلوں کے ٹکڑے نیچے اتر آئے۔ پروں والے فرشتے بھی زمین پرآگئے۔ اوروہ یوسف کے بائیں جانب کھڑے ہوگئے۔
بیچ میں لیٹا ہوا یوسف اوردونوں جانب فرشتے۔
جب دائیں جانب کے فرشتوں نے اسے اٹھانے کے لیے ہاتھ بڑھایا، تب بائیں جانب کے فرشتوں نے روکا۔
’’یہ ہماری روح ہے‘‘
اوردائیں طرف کھڑے فرشتوں نے پوچھا،
’’تم کون ہو؟‘‘
’’ہم بہشت کے پہریدار فرشتے ہیں۔‘‘
’’پیارے! تمہیں غلط فہمی ہوئی ہے۔ ہم اسے دوزخ کی طرف لے جانے کے لیے آئے ہیں‘‘ بائیں جانب کے فرشتوں نے کہا۔
فرشتوں نے اس کی روح کے لیے تکرار کی۔ یوسف سب کچھ دیکھ رہا تھا، سن رہا تھا مگراس کے ہاتھ اوپر نہ اٹھے، نہ ہونٹ ہلے۔ جسم میں گرمی نہیں تھی۔ وہ نگاہوں کے سامنے آئینہ کی طرح سب کچھ دیکھ سکتا تھا۔
’’یہ ہزاروں انسانوں کا قاتل ہے! گہنگار اور دوزخ کا مستحق‘‘
’’یہ باتیں صحیح ہو سکتی ہیں مگر اس نے توبہ کرلی تھی‘‘
’’گناہوں کے بعد توبہ سے کیا حاصل؟‘‘
’’پاکیزہ زندگی گزارنے کے لیے اس نے شہر چھوڑا۔‘‘
’’کسی کا عمل ہی سب کچھ ہے اور یہ شخص تو مجسم گناہ کی علامت ہے۔‘‘
’’یوسف برائی سے بچ گیا تھا‘‘
’’نہیں‘‘
’’وہ بھلائی کی طرف بڑھ رہا تھا۔‘‘
’’مقصد کی پاکیزگی ہی سب کچھ ہے نا؟‘‘
’’مقصد کی پاکیزگی ہی سب سے اہم ہے‘‘
’’یہ دوزخ کا مستحق ہے!‘‘
’’یہ جنت کا حقدار ہے!‘‘
’’ہم دونوں اللہ کے خدمت گذار ہیں۔ دوزخ کے گہنگار کے لیے تکرار کرنا ٹھیک نہیں۔‘‘
’’ہمیں تکرار نہیں کرنی ہے لیکن بہشت کے حقدار کو دوزخ میں ڈال دیں تو اپنے فرائض سے دور ہو جائیں گے۔‘‘
’’نہیں‘‘
دوردراز شہر سے آیا ہے۔ یہ دیکھو۔ اس کی کمر میں تلوار ہے نہ ہاتھ میں تھیلی۔ یہ اچھا بننے نکلا تھا‘‘
دوزخ کے فرشتوں نے اس کے اعمال نامہ کی دوبارہ جانچ کی، بہشت کے فرشتوں نے جوکچھ کہا تھا سب ٹھیک نکلا۔
’’لیکن اس کی گذشتہ زندگی؟‘‘
’’ایسے کتنے لوگ عظیم بن گئے ہیں جن کی گذشتہ تاریخ سیاہ ہے۔‘‘
’’خیر۔ ان کے اچھے اعمال ہی ان کی عظمت کی دلیل ہیں۔‘‘
’’جیسے یوسف کا یہ عمل بھی!‘‘
’’یوسف کے اچھے اعمال بتاؤ؟‘‘
’’یہ سفر، بھلائی کی طرف کا یہ سفر!‘‘
’’وہ کہاں جارہا تھا؟‘‘
’’خراسان کی طرف! وہاں کے ایک تاجر نے اسے فلاح کی سیدھی سچی راہ دکھائی تھی۔‘‘
’’اس کا ثبوت کیا ہے؟‘‘
’’ثبوت تو کوئی نہیں ہے۔‘‘
دوزخ کے ضدی فرشتے اسے چھوڑنے کے لیے تیارنہ تھے۔ بہشت کے فرشتوں نے بڑی منت کی۔
دھوپ سے ریت کے ذرے دمک اٹھے تھے۔ فرشتوں نے یوسف کی کھلی آنکھوں کی طرف دیکھا۔ نمناک آنکھیں، مسکراتا چہرہ۔
’’کیا آپ کے پاس کوئی پیمانہ ہے؟‘‘
’’ہاں‘‘
’’ہم اس روح کے لیے بہت دیر سے جھگڑرہے ہیں۔ آئیے ہم ایک کام کریں اس جگہ سے اس کے وطنی شہر کی دوری اوریہاں سے خراسان تک کا فاصلہ ناپ لیں۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’شہر سے یہاں تک کا فاصلہ کم ہو تو لے جا سکتے ہو اوراگر یہاں سے خراسان کی دوری کم ہوتو ہم لے جائیں گے۔‘‘
دوزخ سے آئے فرشتے غوروفکر میں پڑگئے۔ انہوں نے آپس میں سرگوشیاں کیں۔ مسئلہ حل کرنے کا کوئی دوسرا ذریعہ نہ تھا۔ مگراس شرط سے وہ زیادہ فائدہ اٹھانا چاہتے تھے۔
’’ایک اورشبہ ہے۔ ’یہاں‘ سے آپ کامطلب کیا ہے؟‘‘
’’جہاں یوسف کاسرپڑاہے۔ وہ حصہ۔‘‘
’’وہ ٹھیک نہیں، ہم نہیں مانیں گے؟‘‘
’’پھر؟‘‘
’’وہ حصہ جہاں یوسف کا قدم ریت کو چھو رہا ہے۔‘‘
بہشت کے فرشتے گہری سوچ میں پڑگئے، مگرکوئی اورحل نہ تھا۔ انہوں نے دوزخ کے فرشتوں کی بات تسلیم کی۔
دونوں جانب کے فرشتے راضی ہوگئے۔ ایک فریق شہر اور دوسرا خراسان کی طرف روانہ ہوا۔ فرشتوں نے دونوں کناروں کی پیمائش مکمل کرلی۔ وہ دونوں سمتوں سے یوسف کی لاش کے پاس ایک ہی وقت پہنچے۔
انہوں نے رسی کے کناروں کوملا کر دیکھا۔ ملے ہوئے کناروں سے اس رسی کو لپیٹ لیا۔ رسی کا دوسرا سرا دکھائی دیا۔ دونوں نے بڑے اشتیاق سے دیکھا۔ دونوں برابر ہیں۔ یوسف کا نصف حصہ بہشت اورنصف دوزخ کی طرف جائے گا کیا؟
یوسف کی آنکھیں کھلیں۔
فرشتے رسی کے پیمانے کو گھما رہے تھے۔
دوزخ سے آئے فرشتوں کا چہرہ سیاہ پڑگیا۔
’’کتنا فرق ہوگا؟‘‘ بہشتی فرشتوں کے سردار نے سوال کیا۔
بہشت سے آئے فرشتوں میں سے ایک نے نیچے کی طرف دیکھا۔ اس کے شیریں لبوں سے میٹھی مسکراہٹ اس وقت چھلک پڑی، جب وہ رسی سے یوسف کے شل پیروں کی لمبائی ناپ رہا تھا۔ دوزخ کے فرشتے آسمان کی طرف روانہ ہوچکے تھے۔
بہشتی فرشتوں نے پیمائش مکمل کرلی۔ ان کی آواز گونج اٹھی،
’’صرف ایک قدم۔‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.