Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

سسکتی ہوئی قلقاریاں

اقبال خورشید

سسکتی ہوئی قلقاریاں

اقبال خورشید

MORE BYاقبال خورشید

    اس کی چھاتیوں میں زندگی تھی، جو اسے تکلیف دیتی، قطرہ قطرہ ٹپکتی، سینہ بند گیلا کرتی، نشان چھوڑتی، اور باقی رہتی۔

    اس کا سینہ بھرا ہوا تھا۔ کاندھے جھکے تھے۔ وہ درد میں مبتلا تھی۔ اس رس کے سبب، جو اس کے سینے کا ابھار تھا، وہاں جوش مارتا تھا۔ جسے نئی نسل کی پرورش کرنی تھی کہ وہ نئی نسل کی غذا تھا، پر نئی نسل۔۔۔

    اس کا پہلو قلقاریوں سے خالی تھا۔ وہ معدوم ہو چکی تھیں۔ وہاں، بستر پر، زچگی کے عمل سے گزرنے کے بعد اس کے پہلو میں کوئی ایسا نہیں تھا، جو روتے ہوئے، زیر جامہ گیلا کرتے ہوئے، مچلتے ہوئے، اس کے سینے میں دوڑتی حیاتی کا تقاضا کرتا۔

    وہاں سناٹا تھا۔

    اس کی چھاتیوں میں دودھ تھا، جسے بالآخر لوٹنا تھا کہ ٹھیک اس لمحے، جب وہ تھکن اور یاسیت سے چور ایک اداس بستر پر دراز تھی، پاس ایسا کوئی نہ تھا، جسے اس کے سینے میں بھری زندگی پر پروان چڑھنا تھا۔۔۔ کوئی نہیں۔

    یہی اس کی تقدیر تھی!

    وہ تھک چکی تھی۔ یونہی پڑی رہنا چاہتی تھی، لیکن خواہش کے آگے بند باندھنا مشکل تھا۔ ہاتھ تکیے کے نیچے رینگ رہا تھا، جہاں موبائل فون پڑا تھا۔۔۔

    ماضی قریب

    اس کا پیٹ پھولا تھا۔ وہ ایک بوجھ تھا، جسے وہ اٹھتے بیٹھتے، باورچی خانے میں، بیت الخلاء میں ڈھوتی تھی۔

    اس کا پیٹ بڑھ گیا تھا، اور خوب صورت معلوم ہوتا تھا۔ اور ہر لمحے ایک سا رہتا تھا، پھولا ہوا۔ اس وقت بھی جب چھتوں پر تاریکی اترتی، اور اس وقت بھی، جب کمروں میں محبوس حبس کو سستے پنکھے گرم کرکے پھینکتے۔

    وہ ایک سا رہتا تھا۔ اس وقت بھی، جب آسمان بادلوں سے بھرا ہوتا۔ اور اس وقت بھی، جب ویران ہوتا!

    وہ اپنے پیٹ کے ساتھ گھر کی چار دیواری میں چلتی پھرتی۔ ان کے درمیان، جن میں سے چند اس کے لیے حقارت محسوس کرتے، اور چند ہم دردی!

    اور ان سب کے احساسات سے بے پروا،جن میں وہ بھی شامل ہیں، جو اس کے تئیں کچھ محسوس نہیں کرتے۔۔۔ قدرت نئی نسل کی بُنت میں مصروف تھی کہ یہی لکھا جا چکا تھا!

    نالے کے ادھر دھول میں اٹی ایک بستی ہے، جہاں گلیاں تنگ ہیں، موریاں کھلی ہوئی ہیں، جن پر تعفن حرکت کرتا ہے۔

    اور ادھربے جڑی کا کرب سہنے والے ایک نائی کی بیٹی، ہما ٹھیک ویسے ہی پروان چڑھتی ہے، جیسے اس کی تین بڑی بہنیں پروان چڑھیں۔ اس کی پرورش اس ڈھب پر نہیں ہوئی، جس پر اس کے چھوٹے بھائی کی ہوئی۔ اور ایسا کیوں تھا، اِس بابت غوروفکر لاحاصل ہے کہ ایسا ہی ہونا تھا!

    ختنہ کا ماہر نائی دل کا اچھا تھا۔ وہ نالے کے اِدھر موجود بستی کا مقیم ہونے کے باوجود، بستی کے ادھر آنے والی تبدیلیوں کو محسوس کرتا تھا۔ خود میں آگے بڑھنے کی للک پاتا تھا۔ حوصلہ مند تھا۔ مگر جب یکے بعد دیگرے اس کی بیوی کے پیٹ سے وہ جنس برآمد ہوئی، جو معتوب ٹھہرائی جاچکی تھی، وہ ٹوٹ سا گیا۔ پر جلد خود کو سمیٹنا پڑا کہ وہ موت قبول کرنے کی ہمت نہیں رکھتا تھا۔ زندہ رہنا مجبوری تھی۔

    اور یوں ہما 151چار بہنوں اور ایک بھائی میں چوتھی 151لاتعلقی اور شفقت سے محروم، پروان چڑھتی رہی۔ غربت میں۔ اس مکان میں جہاں رات میں تاریکی گرتی تھی۔ اور دن میں حبس رقص کناں رہتا۔

    سرکاری اسکول، بڑی بہنوں کا یونیفارم، بڑی بہنوں کی کتابیں، ان کے بستے۔۔۔ یوں تعلیمی سفر آگے بڑھتا ہے۔ پر یہ اس تک پہنچے والے بستے کا اور کتابوں کا اختتام ہے۔ بھائی کو، جو چھوٹا ہے، سب نیا ملے گا۔ اور ایسا ہی ہوگا!

    میٹرک، آخری حد کہ اس سے بڑی جو تین تھیں، ان کا کتابوں سے ناتا یہاں پہنچ کر ٹوٹ گیا تھا۔ اور وہ گھر بیٹھ گئیں۔ ان رشتوں کے انتظار میں، جو باکرہ لڑکیوں کے انتظار سے قوت حاصل کرتے تھے۔

    مگر تب، جب وہ دسویں پھلانگ چکی تھی، اس نے پہلی بغاوت کی۔

    ’’میں آگے پڑھوں گی!‘‘

    سب مبہوت رہ گئے۔ نائی، نائی کی ماں، نائی کا باپ، جو فالج کا شکار تھا، اور اس کی بہنیں، سب!

    ماسوائے اس کی ماں کے، جو جانتی تھی، اس نے چوتھی بار حاملہ ہونے پر ایک باغی روح کو جنا تھا۔

    ’’الٹی پیدا ہوئی تھی تیری بیٹی، اب الٹے کام ہی کرے گی۔‘‘ نائی کی ماں نے کہا۔

    فالج زدہ اس کا باپ بھی بڑبڑایا۔ یہ اس کا احتجاج تھا، پر نائی نے، نہ جانے کیا سوچ کر اپنی بیٹی کا ساتھ دینے کا فیصلہ کر لیا۔ ایسا فیصلہ، جس پر بعد میں وہ پچھتایا۔

    اب وہ کالج میں تھی، ایسے ادارے میں جہاں اس جیسی کئی تھیں، جنھوں نے پہلی بار بغاوت کی تھی۔

    سائنس؟ نہیں، یہ ممکن نہیں تھا، یہ مہنگا تھا۔ آرٹس، ہاں ٹھیک ہے۔۔۔ وہ آرٹس کے مضمون پر گزارہ کرسکتی تھی۔ خستہ حال یونیفارم میں ملبوس، سیکنڈ ہینڈ کتابوں کے ساتھ، بسوں میں سفر کرتے ہوئے، حبس زدہ کمرۂ جماعت میں، اکتائے ہوئے اساتذہ کے درمیان!

    اور تب، جب امتحانی فیس کی ادائی میں نائی کو دقت کا سامنا کرنا پڑا کہ اکلوتے بیٹے کے نجی اسکول کی فیس اس کی ترجیح تھی، ہما نے، چوتھی نے، جو الٹی پیدا ہوئی تھی، ٹیوشن پڑھانے کا فیصلہ کیا۔ اور گھر کا اکیلا، خاموش کمرہ، جو بیٹھک تھا، سجا لیا۔

    میلے کچیلے بچے، پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس، بہتی ناک کے ساتھ وہاں آنے لگے، اپنی اکتاہٹ کے باوجود باقاعدگی سے، فقط اپنے ماں باپ کی ہدایت پر!

    اور ان کے ماں باپ۔۔۔ وہ فقط مہینے کے آخر میں اکتاتے، جب فیس ادا کرنی ہوتی۔

    تب، ٹھیک ان ہی دنوں، طویل انتظار کے بعد بڑی بہن کا رشتہ آیا۔ تب گھر میں کچھ جگہ خالی ہوئی، تب اس کا بستر کچھ کشادہ ہوا۔

    ٹیوشن سینٹر جم چکا تھا۔ وہ بارہویں پھلانگ چکی تھی، تب بغاوت کا ایک بار پھر اظہار ہوا، اس نے یونیورسٹی جانے کا اعلان کر دیا۔

    نائی کی ماں نے احتجاج کیا، پر نائی کا باپ اپنی بڑبڑاہٹ کے ساتھ، بیوی کا ساتھ نہیں دے سکا۔ وہ اب موجود نہیں تھا، مرچکا تھا۔

    نائی خاموش رہا۔ اس کی بیٹی کی کوششوں سے چار پیسے ہاتھ آرہے تھے، وہ خاموش رہا کہ اس لمحے کے لیے یہی لکھا گیا تھا!

    وہ یونیورسٹی میں تھی، بھرئی ہوئی کلاسوں میں، جہاں بھانت بھانت کے نوجوان تھے۔ اور ان ہی میں وہ بھی تھا۔

    وہ، جو اس طبقے سے نہیں تھا، جس سے وہ تھی۔ جو ویسا نہیں تھا، جیسی وہ تھی کہ اس کے پاس دمکتا موبائل فون تھا، گاڑی تھی، مہنگے ملبوسات تھے، اچھے پرفیوم تھے!

    147There is nothing else than now.148 وہ اکثر کہا کرتا تھا۔

    وہاں یونیورسٹی میں، جہاں مخلوط تعلیمی نظام تھا، اسے وہ ملا۔۔۔ جس نے اسے ایک موبائل فون تحفے میں دیا۔ وہ، جس سے ملاقات کے بعد نائی کی بیٹی اپنے محدودات میں رہتے ہوئے نئے ملبوسات پہننے لگی، بال شیمپو کرنے لگی، سستے پرفیوم برتنے لگی، اور۔۔۔

    متلی تعاقب میں تھی، وقت قے کر رہا تھا!

    ماہ واری کو ٹھہرے یہ دوسرا مہینہ تھا۔ وہ تبدیل ہورہی تھی، سست پڑتی جارہی تھی، بدل رہی تھی۔

    اور وہ اِس عمل کو پوری طرح سمجھنے سے قاصر تھی کہ یہ پہلی بار وقوع پذیر ہورہا تھا، ٹھیک اس عمل کے مانند، جو تین ماہ قبل، ایک نیم تاریک اَن جانے کمرے میں، اجنبی بستر پر پہلی بار انجام دیا گیا تھا۔

    وہ بدل رہی تھی۔ خاموش تھی۔ دُکھی تھی۔ اور کسی کو آگاہ کرنا چاہتی تھی، پر قاصر تھی۔ اس کی بدنی اور روحی تبدیلی سے وہ نوجوان بھی ناواقف تھا، یا ناواقف رہنا چاہتا تھا، جو اس کی وجہ بنا۔

    جب پانی ٹھہرے تین ماہ گزر گئے، تب اس کی بڑی بہن کو اِس بابت شک گزرا۔ پر ٹھیک ان دنوں وہ طلاق کا طوق گلے میں ڈالے گھر لوٹی تھی، آزردہ تھی۔ سو چھوٹی بہن پر زیادہ توجہ نہیں دے سکی۔

    اور ٹھیک ان ہی منجمد گرم دنوں میں، جب لوڈشیڈنگ عروج پر تھی، اس نے، اس لڑکے کو جو بڑی کوملتا سے اسے چھو کر اس کے اٹھتے بدن کی آلکسی بڑھاتا تھا، پریم کا بوجھ اس پر ڈالتا تھا، مطلع کیا۔۔۔ ان تبدیلیوں کی بابت، جن سے وہ گزر رہی تھی۔

    وہ خاموش رہا۔ بالکل خاموش۔

    چوتھے ماہ، اسے جننے والی جان گئی کہ جسے اس نے الٹا جنا تھا، اس میں کچھ ٹھہر گیا ہے!

    اس کی چھاتیوں میں دودھ تھا، جو تکلیف دیتا، قطرہ قطرہ ٹپکتا، سینہ بند گیلا کرتا، نشان چھوڑتا، باقی رہتا۔۔۔

    وہ زچگی کے عمل سے گزری تھی۔ اس نے جنا تھا، کچھ پَلوں قبل، یا شاید صدیوں قبل۔ وہ وقت کے تعین سے قاصر تھی۔ اور خاموش بستر پر دراز تھی۔ جو خستہ حال چارپائی پر لگا تھا۔

    اس نے جنا تھا، ایک کے بعد ایک۔۔۔ آگے پیچھے۔۔۔ بغیر جدید طبی سہولیات کے۔۔۔ جاڑے سے ٹھٹھرتے ہوئے، تاریکی سے خوف کھاتے ہوئے، ایک بوڑھی دائی کی زیر نگرانی، جس نے اس کی پیدایش کے سمے اس کے سر سے پہلے اس کے پیر باہر آتے دیکھے تھے۔

    دائی حیرت کے ساتھ، اور تجربے کے ساتھ وہاں موجود تھی۔ بستر کے اس طرف، جہاں اس کے پیر تھے، جہاں ایک کے بعد ایک زندگی جنم لے رہی تھی۔

    اور وہاں موجود اس کی ماں، اس کی بہنوں اور باہر موجود اس کے باپ کے خوف میں اضافہ ہوتا جارہا تھا کہ یکے بعد دیگرے زندگی میں اضافہ ہورہا تھا۔

    اس کا بھائی وہاں نہیں تھا۔ وہ ان لمحات میں کہیں اور تھا کہ اس کی پرورش الگ ڈھب پر ہوئی تھی۔

    سیاہی گر رہی تھی۔ ٹھنڈ مچل رہی تھی۔ خون اگ رہا تھا۔ ایک بچہ، چیختا ہوا۔۔۔ دوسرا بچہ، روتا ہوا۔۔۔ تیسرا احتجاج کرتا ہوا۔۔۔

    اور پھر وقفہ آگیا۔

    تاریکی اور ٹھہراؤ۔

    اس کے جثے کا نچلا حصہ سن ہوگیا تھا۔

    پسینے سے شرابور اس کی ماں، اکتائی ہوئی بہنوں کے درمیان خاموشی کا سمپورن وقفہ در آیا۔ پر وہ۔۔۔ تاحال بے چین تھی، ٹھٹھر رہی تھی۔ خوف کھا رہی تھی۔ اور تجربہ کار دائی، جو کئی غریب رازوں کی امین تھی، آنکھوں میں الجھن لیے، حیرت اور تاسف لیے، اس کے پیروں کی جانب موجود تھی۔

    پھر زور لگایا گیا، جثے کے ایک حصے میں پھیلاؤ آیا۔ پھر چیخیں بُلند ہوئیں، پھر تاریکی، تاریکی میں پیوست ہوئی اور پھر چوتھا۔۔۔

    چاروں بیٹے تھے!

    وہ، جس کے پاس نفیس ملبوسات تھے، خوشبوئیں تھیں، ہائی وے پر گاڑی دوڑا رہا تھا۔

    اس کا موبائل فون ساتھ والی سیٹ پر دھرا تھا، جس سے وہ نالاں تھا کہ کوئی ہچکیوں میں، تکلیف میں، گڑگڑاتے ہوئے، بدعائیں دیتے ہوئے مسلسل اسے تنگ کر رہا تھا۔ کوئی ایسا، جس کے وجود میں اس نے اپنا وجود داخل کیا تھا، اس کے وجود کا بوجھ بڑھانے کا سبب بنا تھا، اور اب اسے بھول چکا تھا کہ وہ 147147There is nothing else than now پر یقین رکھتا تھا۔

    وہ، جو گاڑی ہائی وے پر دوڑا رہا تھا، اچانک سامنے سے آتے ٹرالر کی زد میں آگیا۔

    جس چوکس لمحے اجل نے اسے نگلا، اس کا موبائل فون بج رہا تھا۔ اسکرین پر کسی ایسے کا نمبر تھا، جسے وہ اپنے پریم رس سے بھیگے لہجے، کسرتی بدن کے طفیل اجنبی بستر تک کھینچ لایا تھا۔

    موبائل فون۔۔۔ ٹرالر۔۔۔ ہائی وے۔۔۔

    Now.

    اس کی چھاتیاں بھری ہوئی تھیں، اس رس کے سبب، جو اس کے سینے میں جوش مارتا تھا، جسے نئی نسل کی پرورش کرنی تھی، لیکن وہاں۔۔۔ اس کے پہلو میں قلقاریوں معدوم ہو چکی تھیں۔۔۔

    وہ رونا نہیں چاہتی تھی، لیکن آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے، موبائل فون اس کے کان سے لگا تھا، دوسری طرف سے ریکارڈنگ سُنائی دے رہی تھی۔

    ’’آپ کے مطلوبہ نمبر سے ابھی جواب موصول نہیں ہورہا۔‘‘

    اس کی چھاتیوں میں دودھ تھا، جسے بالآخر لوٹنا تھا۔۔۔

    اس سرد صبح، اخبار کے خام صفحے پر شایع ہونے والی اس دو کالمی خبر، جس میں کچرا کنڈی سے ملنے والے چار نوزائیدہ بچوں کے اکڑے ہوئے جسموں کا ذکر تھا، اور اس ایک کالمی خبر، جس میں ایک صنعت کار کے جوان بیٹے کی کار حادثے میں ہلاکت کی اطلاع تھی، ربط ڈھونڈ پانا مشکل تھا۔

    حالاں کہ ربط موجود تھا۔۔۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے