Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ستارے، چاندنی، مے، پھول، خوشبو

رفعت ناہید سجاد

ستارے، چاندنی، مے، پھول، خوشبو

رفعت ناہید سجاد

MORE BYرفعت ناہید سجاد

    ہال کمرے کے سوئچ کا کنٹرول نوجوانوں کے گروپ نے سنبھال لیا تھا۔

    لہٰذا پیلی نیلی سرخ ہر قسم کی روشنیاں ناچتے ہوئے جوڑوں کے براؤن بالوں اور مایوس چہروں کو دمکانے لگیں۔ وہ اپنے چوڑے کندھوں پر جھکی ناچتی اس شوخ لڑکی کے ساتھ راؤنڈ مکمل کرکے بڑی شائستگی بڑی احتیاط سے علیحدہ ہو گیا۔ کرٹسی کے تمام تر تقاضے نبھاتے اور خوش اخلاقی کے تمام تر الفاظ کا استعمال کرکے۔

    کبھی کبھی انسان زندگی کے جھمیلوں سے گھبرا کر خود کو رنگارنگی میں کھونے کے لیے کتنا بےتاب ہوتا ہے۔ پھر کتنی عجیب بات ہوتی ہے جب آپ اس رنگا رنگی کا ایک حصہ بننے والے ہوتے ہیں تو آپ پر شدید اکتاہٹ کا ایک ایسا دورہ پڑتا ہے کہ تھوڑی دیر کے لیے تو لگتا ہے، اس سے فوری نجات نہ ملی تو آپ شاید خودکشی ہی کر گزریں گے۔ لیکن آپ کو فوری نجات نہیں ملتی۔ پڑھی لکھی سوسائٹی اور مہذب معاشرے کے آداب قدم قدم پر آپ کی راہ میں آتے ہیں اور آپ خود کشی بھی نہیں کرتے۔

    ہال میں شدید گھٹن تھی۔ دو ملی جلی مانوس سی باس نے طبیعت میں عجیب بدمزگی پیدا کر رکھی تھی۔

    ایک وہ جو سیال ہے۔

    دوسری وہ جو دھواں ہے۔

    وہ معاشرے کا کوئی مکمل اور پارسا شخص نہیں تھا لیکن اتفاق سے ہی اس کو ان دونوں چیزوں سے کوئی لگاؤ بھی نہیں تھا۔ تازہ ہوا میں سانس کی شدید ضرورت کے تحت وہ مسکراتا ہوا (اور ہال میں موجود بہت ساری خواتین کے بقول دلآویز انداز میں مسکراتا ہوا) ،ناچنے والے لوگوں کے سٹیپس نہ توڑتا، حسین لڑکیاں سے مہذب فقروں کی زد میں معذرت کرتا، جس کو ہماری تمہاری نیم خواندہ سی سوسائٹی میں علی الاعلان فلرٹ ہی سمجھا جائے، تازہ ہوا میں سانس لینے کے لیے کشاں کشاں باہر کی طرف جا رہا تھا۔

    عنینا نے اپنا سٹیپ پنجوں سے ایڑیوں پر تبدیل کیا اور لمحہ بھر کو رک گئی۔

    وہ بھرے ہجوم میں لوگوں کے درمیان سے گزرتا بالکل نمایاں تھا۔ دراز قد، چوڑے اور سیدھے شانے، باوقار اور تہذیب یافتہ، دلوں کو لوٹ لینے کے سارے گروں سے مزین وہ اپنی دھیمی مسکراہٹ کے ساتھ دروازے کی طرف جا رہا تھا۔

    ’’سوری۔‘‘ عنینا نے اپنے ساتھی سے معذرت کی۔

    ’’کوئی بات نہیں۔‘‘ ساتھی نے اپنا بازو ڈھیلا چھوڑ دیا۔ اس قسم کے موڈ نبھانے کا عادی ہونا پڑتا ہے۔ ورنہ ضد کرنے والا بدتمیز اور mannerless ہو جاتا ہے۔

    عنینا نے اسے وہاں تک دیکھا جہاں تک وہ اسے نظر آ رہا تھا۔

    وہ دروازے سے نکل گیا تھا۔ ذہن سے نہیں۔

    دبی دبی سرخ روشنیاں ہالہ بناتی اس کے اوپر سے گزریں لیکن اس کو ہر طرف اندھیرا دکھائی دے رہا تھا۔

    وہ اس کے پیچھے پیچھے باہر جا سکتی تھی لیکن نہیں گئی۔ وہیں کونے میں ڈریسنگ روم کے پاس رکھی نیلی فائبر گلاس کی چمکتی کرسی پر ڈھیر ہو گئی جو ڈانس کی روشنی میں جامنی دکھائی دے رہی تھی۔

    وہ اس کے پیچھے اس لیے نہیں گئی کہ وہ جانتی تھی وہ خود گمان ہے۔ یا اس کو اپنی ذات کا وجدان ہے۔ وہ اپنی تمام تر جلوہ آفرینیوں اور مردانہ وجاہتوں سے اچھی طرح آگاہ ہے۔

    وہ ہجوم میں سب سے ممتاز تھا۔ کشادہ پیشانی کے نیچے ذہانت سے سوچتی روشن آنکھیں، ایک خاص حد تک ہمہ وقت مسکراتے لب،چیتے جیسی ورزشی کمر پر نفیس تراش کے قیمتی سوٹ اور ہال کے پارکنگ لاٹ میں کھڑی ایمرلڈ گرین مرسیڈیز بینز۔

    اس کے پاس بہت سی اہم یونیورسٹیوں کے اہم ڈپلوماز تھے۔ وہ عام گفتگو میں آسانی سے امریکن سلینگ استعمال کر لیتا تھا۔

    وہ معروف کنٹریکٹر تھا۔ ہر وقت اس کا عملہ کسی نہ کسی ٹینڈر کے لیے کوالیفائی کرتا رہتا۔

    اور ظلم یہ تھا کہ وہ اپنی ان ساری خوبیوں میں سے کسی ایک سے بھی نابلد نہیں تھا۔

    وہ ان تمام چیزوں کا ممکنہ استعمال بہت سوچ سمجھ کے بڑے موقع محل سے کرتا تھا۔

    جیسی ضرورت ہو۔ جو گنجائش ہو۔

    اسی لیے لوگ کہتے، وہ پراؤڈ ہے۔ مہذب فلرٹ ہے۔ لیڈی کلر ہے۔

    (حالاں کہ وہ تازہ ہوا میں ایک سانس کے لیے ترس رہا تھا)۔

    دروازہ کھول کر باہر کے ایک قدم نے اسے تنگ دنیا سے وسیع دنیا میں لا پھینکا۔

    سورج ڈوب گیا تھا۔ باہر پارک میں یوگی مہاراج ڈوبتے سورج کے نیچے یوگا کی کلاس لے رہے تھے۔ درختوں کے پتوں نے تالیاں بجا بجاکر اس کی واپسی کا خیرمقدم کیا۔

    تیزی سے آتے جاتے بیرے باہر لان میں بیٹھے مہمانوں کی سروس کر رہے تھے۔ لان میں کرسیاں رسمی پھولوں کی طرح یہاں سے وہاں تک بکھری اب مدھم نظر آنے لگی تھیں۔ ان کرسیوں پر بیٹھے بہت سے لوگوں کو وہ پہچانتا تھا۔ بہت سے لوگ اس کو پہچانتے تھے۔ کئی ایک سے اس کی سلام دعا تھی۔

    وہ یہاں کا اتنا پرانا ممبر تھا کہ کسی کو بھی اس کے کاؤنٹر سائین پر بڑی سہولت سے نئے ممبر ٹرائل پرلے لیا جاتا تھا۔ اندر کی تیز روشنیوں کی چکاچوند میں باہر کے چمکدار ہلکے اندھیرے کی طرف کسی کی توجہ بھی نہیں جاتی۔

    ’’ہیلو رضا!‘‘ کرسیوں کے ڈھیر سے کسی نے ہاتھ ہلاکر وش کیا۔

    وہ مسکرا دیا۔ ’’ہیلو‘‘۔ اسی دلکشی سے۔

    وہ اپنے لیے کسی نسبتاً پرسکون گوشے کی تلاش میں ادھر ادھر نگاہ گھمانے لگا۔ وہ آدم بیزار نہیں تھا بلکہ انسانوں کی محبت اسے بہت بھاتی تھی، کیوں کہ کسی کو چاہنے سے چاہا جانا ایک پسندیدہ جذبہ ہے اور وہ جیسے اس کا عادی سا ہو گیا تھا۔ پھر کبھی کبھی انسان کا دل چاہتا ہے وہ دیوتاؤں کے اس پیڈ سٹل سے نیچے اتر کر عوام میں شامل ہو جائے کیوں کہ یہاں اس کی اپنی گم شدہ ذا ت کے سرے ملتے ہیں۔

    ویران اور تنہا ذات۔ ایسی ویرانی، ایسی تنہائی طبیعت کے جمالی جذبوں کو جِلا دیتی ہے۔ ورنہ زندگی ٹینڈر کا ایک سیل بند لفافہ ہے اور کچھ بھی نہیں۔

    وہ ربر کی لچک دار کرسیوں میں سے ایک پر جیسے گر سا گیا۔ وہ روشنیوں کی دھند سے باہر آیا تھا اور اس کی آنکھیں ابھی تک اندھیرے کی عادی نہیں ہو پا رہی تھیں۔ دور دور لگے رنگین چھوٹے چھوٹے کھمبوں کے بلب کی ناکافی روشنی عاشق مزاج لوگوں کے لیے تھی۔

    ’’آہ!‘‘ اس نے ایک لمبا گہرا سانس لےکر تازہ ہوا سے پھیپھڑے بھر لیے۔ وہ پرسکون ہونے کے لیے ایزی چیئر پر دھنسا پاؤں پھیلا کر بیٹھا ہی تھا کہ چونک سا گیا۔ اپنے چمکدار پالش شدہ جوتوں کے بالکل نزدیک اسے چمڑے کی سیاہ سینڈل میں جکڑے صاف ستھرے پاؤں نظر آئے تھے۔

    اس نے بےساختگی میں اپنے بوٹ گھسیٹ لیے، جو آرام کرنے کے ایک فطری جذبے سے مغلوب ہوکر پھیلائے گئے تھے۔ وہ خجل ہو گیا۔ مؤدب ہو کر سیدھا بیٹھ جانے کے باوجود اس کی ساتھ والی کرسی کی خاتون کی ناگواری میں کمی نہیں آئی۔

    ’’آئی ایم سوری۔‘‘ اس نے مختصراً کہا۔ وہ جلتے توے پر بیٹھ کر بھی قسم کھا لیتا کہ اس نے نہیں دیکھا تھا تو بھی شاید وہ یقین نہ کرتی۔ اس کی کرسی، اس کی کرسی سے چند بالشت کے فاصلے پر ہی تو تھی اور وہ اندھا بھی نہیں لگ رہا تھا۔

    وہ نیم اندھیرے میں اس کی کچھ سوچتی، کچھ معذرت کرتی نگاہیں دیکھ رہی تھی۔

    ’’آئی ایم سوری۔ آئی ایم رئیلی و یری سوری۔ آئی مین اٹ۔‘‘

    اس کے چہرے پر ناراضگی کا ہلکا ہلکا پر تو آہستہ آہستہ تحلیل ہو گیا۔

    ’’اٹ از او کے۔‘‘ اس نے دھیمی سی آواز میں کہا۔

    وہ پتا نہیں کون تھی۔ لیکن کلب کی ممبر نہیں تھی۔ شاید کسی ممبر کی گیسٹ تھی یا نووارد تھی۔ اس نے اس کی معذرت قبول کر کے منہ بدتمیزی سے دوسری طرف پھیر لیا تھا۔

    حالاں کہ وہ سارا کا سارا وہی تھا۔ لیکن کبھی کبھی آپ اس بری طرح رد ہوتے ہیں کہ آپ کے کان اور دماغ اس نئی صورت حال سے آشنا ہی نہیں ہو پاتے۔

    لیکن۔۔۔؟

    لیکن پتا نہیں اس حادثے کا ذمے دار کون تھا؟

    کس کا قصور تھا؟

    یا تو وہ چاندنی رات مسحور کر دینے والی تھی اور آسمان پر اکا دکا بادلوں کی خوبصورت تصویریں زمین پر اپنا سحر طاری کر رہی تھیں۔

    یا وہ لڑکی غضب کی خوب صورت تھی۔ یا شاید اتنی نہیں تھی جتنی اس میں متانت تھی۔ ایک طرح کا غرور۔ عجیب انداز کا سحر۔ گویا وہ اپنے سامنے مخاطب کو کیڑے مکوڑے سے بھی بدتر سمجھتی ہو۔

    یا وہ اس دن غیرمعمولی طور پر ڈیپریسڈ تھا۔

    یا شاید اس کی اپنی کوئی تشنہ خواہش۔ چاہے جانے کی ازلی و ابدی تمنا اور اس کا پیدائشی حق۔

    اس نے پاؤں ہٹاکر اور معذرت قبول کروا کر چھچھلتی نظر اس پر ڈالی۔

    (وہ تو خود کو ہمیشہ سے چاہے جانے کے قابل سمجھتا رہا تھا) لیکن۔۔۔

    اس لڑکی کے چہرے پر روشنی کا ایک ہالہ تھا، ایک نور تھا۔

    وہ صحیح معنوں میں پر تمکنت تھی۔ ناک کی سیدھ میں سامنے دیکھتی، اعتماد سے گردن اٹھائے، گو اسے معلوم تھا اسے دیکھا جا رہا ہے مگر عام لڑکیوں کی طرح نہ اس نے منہ رنگا نہ اپنی اداؤں سے کسی کو تسخیر کیا۔ ایک ہلکی سی ناگواری جیسے کسی ناپسندیدہ فعل کے عوض انسان کے چہرے پر منڈلاتی ہے، اس کے چہرے پر بھی آئی۔

    یا شاید وہ اپنی ناگواری کا کھلم کھلا اظہار اس پر کر دینا چاہتی تھی۔

    وہ اتنا گرا پڑا تو نہیں تھا۔ اس نے سوچا یہاں سے اٹھ جائے۔ کرسی بدل لے۔ اس پر لعنت بھیج دے اور اچھی طرح جتا دے کہ دو پڑھے لکھے اور شائستہ لوگوں کے درمیان گفتگو کا کیا انداز ہوتا ہے اور یہ بھی کہ کلب میں اور کلب سے باہر اس کی کیا حیثیت ہے۔

    لیکن وہ بڑی عجیب زمین تھی اور حیران کن آسمان۔

    اسے لگا اس زمین نے اس کے قدم پکڑ لیے ہیں اور آسمان نے جکڑ لیا ہے۔

    اور وہ بےشمار ’’لیکن‘‘ کے پھیر میں آگیا ہے۔

    ’’اندر لوگ اپنے آپ میں مزے کر رہے ہیں۔‘‘ اس نے آقاؤں کی زبان میں کہا۔ اس زبان میں انسان خود کو بڑا محفوظ محسوس کرتا ہے۔ ممکنہ بےعزتی سے بچنے کا اس سے اچھا اور کیا طریقہ ہو؟

    ’’ہاں۔‘‘ اس نے گردن نیہوڑا کر غور سے دیکھا۔ وہ گھبرائی سی شرمائی لجائی سی تو تھی نہیں۔

    اور یہاں پر صرف دو طرح کی عورتیں آتی ہیں۔ وہ جو بہت شوخ ہوں اور بہت تیز۔ بہت نزاکت سے ہنستی۔ ادا سے مسکراتی۔ دل اور اس کے متعلقہ کوائف لوٹتی اور لٹاتی۔

    یا گھبرائی بوکھلائی بااعتماد نظر آنے کی خواہش میں قدم قدم پر ٹھوکر کھاتی۔ لیکن آخر کار وہ پلٹ جاتی ہیں یا پہلی قسم میں جا ملتی ہیں۔

    اس نے غلط اندازہ لگایا۔ وہ مغرور نہیں تھی۔ بس اس کے چہرے پر ایک اعتماد تھا اور برسوں کی خاموشی۔

    وہ اس خاموشی کو توڑنے کے جتن میں شاید خود بھی ٹوٹ رہا تھا۔

    ’’اندر بہت گھٹن ہے۔ ہے ناں؟‘‘

    ’’ہاں۔‘‘

    ’’آپ یہاں کی ممبر نہیں ہیں؟‘‘

    وہ چپ رہی۔

    ’’میں نے آپ کو پہلے نہیں دیکھا۔ آں ہاں۔‘‘

    اس نے کچھ کہنے سے پہلے اسے ٹوک دیا۔

    ’’میں نے آپ سے تعارف حاصل کرنے کے لیے کوئی گھٹیا حربہ استعمال نہیں کیا۔ ورنہ میں کہتا میں نے آپ کو پہلے بھی کہیں دیکھا ہے۔‘‘

    وہ بےساختہ سی ہنسی ہنس دی۔

    ’’واقعی شکریہ۔ آپ یہاں آتے رہتے ہیں؟‘‘

    ’’بہت۔ لیکن آپ اجنبی ہیں۔‘‘

    ’’مجھے یہ جگہ پسند نہیں۔‘‘

    ’’چلئے مجھے انداز ے لگانے دیجیے۔ آپ جاب کرتی ہیں۔‘‘

    ’’ہاں!‘‘

    ’’دیکھا، میں نجومی بھی ہوں۔ پھر آپ ڈاکٹر ہیں۔‘‘

    ’’علم نجوم اکثر اوقات اسی طرح فیل ہوتا ہے۔‘‘

    ’’اچھا۔ پتا نہیں کیوں آپ کے چہرے پر لکھا تھا کہ آپ ڈاکٹر ہوں گی۔‘‘

    وہ خاموشی سے سامنے دیکھنے لگی۔ اس کا شگفتہ سا چہرہ تھوڑی دیر کے لیے بجھا تھا۔ پھر پرسکون ہو گیا۔ اچانک وہ دونوں خاموش ہو گئے۔

    ’’بعض اوقات بڑی عجیب سی بات ہوتی ہے۔‘‘ رضا خان نے کہنا شروع کیا تھا، ’’ہم کسی شخص سے ملتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ ہمیں اس شخص کی برسوں سے تلاش تھی۔ ہم نے اسے تنہائیوں میں اور ہجوم میں ہر جگہ تلاش کر لیا تھا۔ تم ایسی ہی ایک لڑکی ہو، میں تمہیں کھوجتا پھر رہا تھا۔‘‘

    ’’ہاں میں جانتی ہوں۔ مجھے ڈھونڈا جا رہا تھا۔ میں اسی لیے تو یہاں بیٹھی تھی۔‘‘

    ’’کیا تمہاری روح نے مجھے پکارا تھا؟‘‘

    ’’ہاں!‘‘ اعتراف شکست۔

    لیکن وہ دونوں اچانک جس طرح خاموش ہوئے تھے۔ اسی طرح خاموش رہے۔

    آسمان پر چمکتا چاند ہلکی روشنی کا اجالا ان کی روحوں کی خاموشی پر لٹاتا رہا۔ وہ دونوں خاموشی کی زبان میں اپنی اپنی کتھا سنا رہے تھے۔ جب ہمارے لب خاموش ہوں تو مخاطب سے ہماری روح باتیں کرتی ہے۔ مخاطب کی روح آپ کی ساری باتیں ڈی کوڈ کرتی ہے۔ جب خاموشی وجود میں بولنے لگتی ہے تو چپ رہ کر مزہ آتا ہے۔

    وہ ابھی ابھی ملے تھے۔ لیکن بعض اوقات مدت ملاقات اہم نہیں رہتی، لمحوں تلے میں برسوں کے پرانے ساتھی، پیچھے رہ جاتے ہیں، ماند پڑ جاتے ہیں اور آپ کا ہم مذاق، ہم طبیعت، برسوں کا ساتھی وہی بن جاتا ہے جسے آپ نے ابھی دیکھا تھا۔ پتا نہیں کیوں وہ اس کی بہت پرانی دوست، بہت پرانی رفیق بن گئی اور خاموش ان کے درمیان چاندنی کی طرح بہ رہی تھی جس کا اپنا کوئی ٹھوس جسم نہیں جو صرف اپنے نور سے پہچانی جاتی ہے۔

    ’’شاید میں اندر کی روشنیوں سے گھبراکر باہر صرف تمہاری ہی تلاش میں آیا تھا اور تم مجھے مل بھی گئی ہو۔ لیکن میں یہ سب تم سے کہوں گا نہیں۔ میں کہہ بھی نہیں سکتا۔ اس سوسائٹی کی قدم قدم پر پڑی زنجیروں نے مجھے سمجھا دیا ہے کہ اس وقت کسی عورت سے یونیورسٹی سٹوڈنٹ کی طرح گھٹنوں گھٹنوں عشق میں غرق ہو کر اظہار کرنا کس قدر بچگانہ ہے۔‘‘

    لیکن اسے لمحوں میں اندازہ ہو گیا۔ عشق بہت عجیب چیز ہے اور جس عمر میں بھی ہو اٹھارہ سال کے لڑکے کی طرح لگتا ہے۔

    اس نے اس کی طرف دیکھا جس نے لمحوں کی گردش میں اپنی معراج کو پا لیا تھا۔

    ’’چلیں‘‘۔ وہ اپنے پیچھے آنے والے کس شخص سے مخاطب ہوئی۔ مؤدب انداز۔ تابعدارانہ رخ۔

    قدرت کی ستم ظریفی اسے اچھی نہیں لگی۔

    گو اسے لمحہ بھر کو بھی یہ شبہ نہیں ہوا کہ وہ لڑکی غیر شادی شدہ ہوگی۔ لیکن اس نے سوچا بھی نہیں تھا۔ پتلون کی پیٹی پر لٹکتی توند والے اس شخص کی جو ابھی تک دانتوں کے سوراخوں سے پنیر کے بچے کچھے ذرات زبان سے چاٹ رہا تھا۔

    ’’چلتے ہیں۔‘‘ اس نے پتلون کھینچ کر سیدھی کی، ’’تم باہر کیوں آ گئیں؟‘‘

    اس نے سوال تو کیا تھا لیکن جواب وصول نہ پاکر اسے کوئی کوفت نہیں ہوئی۔ غالباً وہ جواب کا منتظر بھی نہیں تھا۔

    اسے اس بات سے بھی کوئی دلچسپی نہیں تھی کہ وہ دونوں کلب کے وسیع و عریض لان کے اس کونے میں بیٹھے اتنی دیر سے کون سی کوئل کی کوک سن رہے تھے۔

    ’’دیر ہو رہی ہے۔‘‘ اس نے تھوڑی دیر بعد اسی تہذیب سے کہا، ’’مانو اکیلی ہے۔‘‘

    ’’ایک منٹ۔‘‘ وہ تیزی سے لپک کر اپنے شناسا کی طرف چلا گیا۔ وہ چند منٹ اسی طرح گردن اٹھائے اسے کسی واقف کی طرف جاتا چپ چاپ دیکھتی رہی اور وہ اسے دیکھتا رہا۔ اس کی آنکھوں میں ہلکی سی اداسی پھر تیری۔ لیکن وہ ایک لمحہ ضائع کیے بغیر کسی پالتو سدھائے ہوئے جانور کی طرح اپنے شوہر کے پیچھے پیچھے چلی گئی، پتا نہیں کیوں زندگی میں پہلی مرتبہ شدت سے اس کا جی چاہا کہ اس خوب صورت عورت کے ایک زوردار طمانچہ رسید کرے جو اسے کسی گھاس کے ٹڈے سے بدتر مخلوق سمجھ کر اپنے ارفع و اعلیٰ شوہر کے قدموں میں بچھنے کو چل پڑی تھی۔

    لیکن وہ کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ اس کو تقدیر کی طرف سے اور زمانے کی طرف سے ایسا کوئی حق ملا بھی نہیں تھا اور وہیں خاموشی سے اپنی کرسی پر بیٹھا وہ اس کے شوہر کو لایعنی گفتگو میں الجھتا دیکھتا اور خود الجھتا رہا۔

    وہ اس زمانے کا خاص مرد تھا جو اپنی بیوی سے دو قدم آگے چلتے ہیں۔ جو احمق ہوکر بھی اپنی بیوی سے خود کو سجدہ کروانے کا جائز حق دار سمجھتے ہیں اور بڑے خوش قسمت ہوتے ہیں کہ ان کو ایسی ایسی پتی ورتائیں مل بھی جاتی ہیں۔ پھر وہ دونوں اندر سے آنے والے رش کے ریلے میں مل جل گئے۔ وہ باوجود کوشش کے ان کو ڈھونڈ نہیں سکا۔ کتنی دیر وہ اسی کرسی پر بیٹھا اپنی ان کہی کہانیوں کا سلسلہ جوڑتا رہا۔ جیسے وہ اب بھی وہاں بیٹھی، بڑے دھیان سے اس کی ایک ایک بات سن رہی تھی۔

    پھر دوسری مرتبہ اس نے اس کو نظام الدین کے ڈنر پر دیکھا۔ وہ اپنی کسی جاننے والی سے باتوں میں مصروف تھی۔ وہ کلب کے مقابلے میں بالکل مختلف دکھائی دے رہی تھی لیکن اس کو پہچاننے میں زیادہ دقّت نہیں ہوئی کیوں کہ وہ ان سولہ دنوں میں ایک منٹ کے لیے بھی اس چہرے سے آنکھیں بند نہیں کر سکا تھا۔ لیکن اس نے اسے بالکل ہی فراموش کر ڈالا تھا کیوں کہ ایک تو اس نے اس کی طرف دیکھا ہی نہیں اور کبھی کوئی اچٹتی سی نظر اٹھی بھی تو ناشناسا، انجان۔

    اس کے ساتھ اس مرتبہ اس کی بیٹی بھی تھی۔ چار پانچ سال کی دراز قد لڑکی۔ وہ اپنی اٹھان اور شکل و صورت میں بالکل ماں پر گئی تھی۔ اس نے کتنی مرتبہ عام بچوں کی طرح ماں کو تنگ کرنے کی کوشش کی۔ کبھی باتیں کرتے اس کا ہاتھ پکڑکر کھینچا۔ کبھی گردن جھکوا کر کان قریب لا کر باتھ روم جانے والے راز میں شریک کیا۔ کبھی کبھی بےضرورت لمبی لمبی باتوں میں الجھایا۔ لیکن وہ مہربان عورت تھی۔ وہ ایک مرتبہ بھی نہیں جھنجلائی۔ البتہ وہ خود جھنجلا گیا تھا ان سولہ دنوں میں خوابوں کو یوں مٹی میں ملیامیٹ ہو کر برباد ہوتے دیکھ کر۔ اس جھنجلاہٹ میں پچھتاوے کا کوئی اثر نہیں تھا۔ یہ صرف تکلیف تھی۔

    اور خلیل جبران نے کہا ہے، جو درد ہے وہ محبت ہے اور جو محبت ہے وہی درد ہے۔

    بس وہی چیز جو ہمیں خوشی دیتی ہے وہی غم بھی دیتی ہے۔

    وہ اس کی انگلی پکڑکر اس کی ضرورت پوری کرنے خوش دلی سے مسکراتی اہل خانہ سے پوچھتی اندرونی عمارت کی طرف چل نکلی۔

    صرف لمحہ بھر کے لیے برآمدوں کے دروں میں اسپراگس کے لٹکتے پودوں کے قریب ایک نامعلوم سا سایہ اس پر لپکا۔ رضا خان خاموشی کے سارے روزے رکھے بت بنا اس کو محفل میں ہنستے بولتے چہکتے دیکھتا رہا تھا۔ وہ جب اس کے قریب سے ریشمی سرسراتے پردے کی طرح گزری تو اس کے چلتے قدم رکے اور اداسی کی ایک ہلکی سی لہر اس کے چہرے پر آکر گزر گئی۔ پتا نہیں وہ لہر گزر گئی یا ابھی اس کے چہرے پر تھی۔ لیکن وہ سامنے سے جا چکی تھی۔

    خوب صورت عورت کا وجود بڑا تکلیف دہ ہوتا ہے جیسے لان میں کھِلا کوئی قیمتی پھول۔

    یا پھولوں پر اڑتی پھرنے والی کوئی آزاد منش بےپروا رنگین تتلی۔

    لوگ توڑکر اس کو گلدان میں سجانا چاہتے ہیں یا پکڑکر اپنی ملکیت بنانا چاہتے ہیں، وہ کبھی پھول سے نہیں پوچھتے۔ پھول، پھول تیرا کیا جی چاہتا ہے؟ یا تتلی تتلی بتا تیری مرضی کیا ہے؟ اس کے بعد اس خوب صورت وجود کو اپنے مالک کی ملکیت بن کر ساری عمر کا بن باس کاٹنا پڑتا ہے کیوں کہ یہ خوب صورت چہرہ، یہ پرکشش جسم اس کی سزائیں ہیں جن کے عذاب ان کو آگہی کے سمندروں سے گزر کر چکھنے ہی پڑتے ہیں۔ ان کی رائے، ان کی مرضی، ان کی خواہش، ان کی کوئی بےضرر ضد، ایک تحقیر آمیز اونہہ ہے۔ عام شکل کی لڑکیوں کو بہت سے فائدے ہوتے ہیں۔ وہ اپنی سوچ کا اظہار بھی کر سکتی ہیں، اپنی بات منوانے کے گر بھی جانتی ہیں کیوں کہ ان کے مالک ان کو رسی سے نہیں باندھتے۔

    وہ اندر چلی گئی تھی اور اب وہ خالی وقت میں بڑے آرام سے اس کے شوہر کا جائزہ لے رہا تھا۔ وہ اس وقت شیخی بگھار رہا تھا۔ وہ بارتبہ شخص اپنی ذات سے آگاہ نہیں تھا۔ قدرت جن لوگوں کو کسی آزمائش میں مبتلا نہیں کرنا چاہتی انہیں اپنی ذات سے آگہی بھی نہیں بخشتی۔ وہ بتا رہا تھا خارجہ معاملات میں اس کی رائے کتنی صائب ہے۔ وزیر خارجہ اس سے چیک کروائے بغیر کوئی ڈرافٹ منظور نہیں کرتے اور خارجہ پالیسیوں کے پیچیدہ معاملات بعض اوقات یوں چٹکی بجاتے اس نے حل کروا دئیے۔ گویا دنیا اس کی شہادت کی انگلی اور انگوٹھے کی ایک ضرب کی زد میں تھی۔

    وہ بےتحاشا کھا رہا تھا اور شدت سے پی رہا تھا۔ وہ اپنی بیوی سے بے نیاز تھا اور بچی سے بالکل بےپروا۔ اسے یقین تھا اس کی بے وقوف بیوی کسی کو نظر اٹھاکر نہیں دیکھےگی، بلا سے خود اس کی طرف بھی نہ دیکھے۔

    اور واقعی، جب وہ پلٹی تو اس کا چہرہ کرب سے بالکل آزاد تھا۔

    تیسری مرتبہ اس نے اس کو پلے لینڈ میں دیکھا۔ وہ کسی کام سے ایف ایٹ تھری جا رہا تھا۔ اسے شبہ سا ہوا کہ ڈاٹسن چلانے والی لڑکی جس نے ابھی ابھی چوراہے کی لائٹ پار کی، ناواقف نہیں۔ اس نے خاموشی سے اپنی کار اس کے پیچھے لگا دی۔

    ہرچند کہ وہ اس حماقت سے آگاہ تھا جو وہ کرنے جا رہا تھا۔ نہ ان کے لیے یہ وقت مناسب تھا نہ رشتہ، نہ معاشرے کے مروّجہ اصول ان بےقاعدگیوں کی اجازت دیتے تھے لیکن اس کے غصے سے بھرے چہرے نے لمحہ بھر میں ان آنے والے خطرات کو جھٹک پھینکا۔

    اس کی بچی ٹائروں پر اچھلتی کودتی پھر رہی تھی۔ وہ خاموشی سے اس دراز قد لیکن باوقار لڑکی کے پاس جا کھڑا ہوا جو اپنی بیٹی کی اچھل پھاند پر بہ ظاہر پورا دھیان دئیے کہیں اور پہنچی ہوئی تھی۔ اس کے نزدیک آ کر رکنے سے ایک لمحے کو چونکی۔

    اس نے بڑی ناگواری سے اس کی طرف دیکھا۔ کچھ کہنے کے لیے اس نے ابھی ارادے باندھے تھے کہ وہ جھگڑالو عورتوں کی طرح چیخ اٹھا، ’’ہاں، ہاں میں جانتا ہوں، آپ کو میرا اس طرح پیچھا کرنا اچھا نہیں لگتا۔ کیا کروں پھر؟‘‘

    وہ ایک دم چپ ہو گئی۔ یہ جن ہے کہ بھوت؟

    ’’لیکن میں آپ کا پیچھا کرتا رہوں گا۔ مجھے اچھا لگتا ہے۔‘‘

    ’’بہت ساری باتیں اچھی لگنے کے باوجود ہم پسند نہیں کرتے۔‘‘ اس کا لہجہ خشک اور ناصحانہ ہونے کے باوجود ہلکے سے لرز رہا تھا۔

    ’’آپ نصیحت کرنے کے موڈ میں ہیں اور میں نہیں سنوں گا۔‘‘ وہ ضدی لہجے میں بولا۔

    وہ الجھ کر چپ سی رہ گئی۔ کتنی دیر کے بعد اس نے آہستگی سے پذیرائی کی تھی۔

    ’’کون ہیں آپ؟‘‘

    ’’میرا نام رضا ہے۔ باقی چیزوں سے آپ کو دلچسپی نہیں ہوگی، اس لیے فی الحال نہیں بتاتا۔ آخر اس میں حرج ہی کیا ہے اگر میں آپ سے باتیں کر لوں؟‘‘

    ’’صرف باتیں؟ آپ کو بات کرنی ہے تو کسی اور سے کریں۔‘‘

    ’’مجھے بات کرنی ہے، بکواس نہیں۔‘‘

    وہ چڑ گئی۔ ’’آپ بہت ضدی ہیں۔‘‘

    ’’اور اسی لیے میں ضد کرنے والوں کا احترام کرتا ہوں۔‘‘

    وہ دونوں اپنی اپنی جگہ خاموش کھڑے سامنے زندگی کی بھرپور مثال بھاگتی بچی کو سلائیڈز سے اوپر نیچے پھسلتے دیکھتے رہے۔

    ’’ہر چیز کا ایک وقت ہوتا ہے اور وہ وقت گزر گیا ہے۔‘‘

    ’’میں وقت سے آپ کو نہیں مانگ رہا۔ آپ سے وقت مانگ رہا ہوں۔‘‘

    ’’میں آپ سے بحث نہیں کرنا چاہتی۔‘‘

    ’’بالکل صحیح فیصلہ کیا آپ نے کیوں کہ اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔‘‘ اسے لگا وہ کھڑے قد سے گر جائےگی۔

    ہر چند پلے لینڈ کا فرش ریت سے اٹا پڑا تھا لیکن وہ بیٹھ گئی۔ وہ اتنی باوقار اور پر تمکنت تھی کہ ایسے حالات میں بھی اس نے خود کو گرنے سے بچانے کے لیے سنبھال رکھا تھا۔ وہ خاموش بیٹھی آسمان پر تمازت بکھیرتے سورج سے خود کو بچانے کی کوشش کرتی رہی۔ اپنے چمڑے کے پرس کا ماتھے کے آگے چھجا سا بنا کر وہ اپنی آنکھوں کو دھوپ کی روشنی سے بچا رہی تھی۔ ان آنکھوں کی روشنی سے محفوظ کر رہی تھی جو سورج سے زیادہ تیز تھیں اور اندر تک کھب جاتی تھیں۔ وہ بے ساختہ ہنس دیا۔

    ’’آپ جانتی ہیں آپ کی ساری کوششیں رائیگاں جاتی ہیں۔‘‘ وہ پھسکڑا مارکر اس سے فاصلے پر بیٹھتے ہوئے بولا،’’مسز سکندر! آپ مجھ سے کچھ نہیں چھپا سکتیں۔ میں جن ہوں، بھوت ہوں، بلا ہوں۔‘‘

    ’’مجھے کچھ چھپانا بھی نہیں۔ میں بہت خوش ہوں۔‘‘

    ’’مجھے یقین ہے۔‘‘ اس نے بے یقینی سے کہا۔

    واقعی اس سے کچھ چھپانا بےکار ہے۔ اس نے پرس گرا دیا۔ وہ دونوں گھٹنوں پر کہنیاں رکھ کر اپنی ٹھوڑی کے سہارے سر کو آرام دینے لگی۔

    اس کے اندر مچی اتھل پتھل بہت تکلیف دہ تھی، اسے بےوفا عورتوں سے نفرت بھی تھی۔

    شکر ہوا اس نے اس تکلیف دہ حالت میں اس کو نہیں چھیڑا۔ اس کی آنکھیں آہستہ آہستہ سلگنے لگیں۔ جیسے گرم گرم بھربھری ریت کسی نے مٹھی بھر کر اس کی آنکھوں میں جھونک دی ہو۔ اندر کہیں مسلا ہوا دل آہستہ آہستہ گرم آگ کی زد میں آ رہا تھا۔ وہ اتنی کمزور نہیں تھی۔ نادان بھی نہیں تھی۔ اس کو سیدھے راستوں سے ہٹانا ایک دقت طلب کام تھا۔ لیکن اذیت اپنی چکی میں اس کو آہستہ آہستہ رگڑنے لگی۔

    ’’ماما۔ میں اوپر۔ ماما میں نیچے۔‘‘

    بچی نے اوپر کھڑے پکارا اور پھسلتی نیچے آگئی۔

    ’’مت جھگڑو ماما!‘‘ اس نے سکون سے کہا، ’’میں تمہیں تکلیف دینا نہیں چاہتا۔‘‘

    اس کا دل چاہا اس کو اس بے تکلفی پر جھاڑ پلائے لیکن جھاڑنے کے لیے نہ الفاظ بچے تھے اور نہ ان کے معنی۔

    سکندر آج وقت سے کچھ جلدی آ گئے تھے۔ اسے کسی سے پوچھے بغیر گیٹ پر ان کی کار اور دروازے میں کھڑے سرکاری شوفر سے اندازہ ہو گیا تھا۔ وہ اس وقت کہاں ہو سکتے ہیں، اس کے لیے بھی اسے کسی سے پوچھنے کی ضرورت نہیں تھی۔ وہ سیدھی ڈائننگ ہال میں گئی۔ وہ سجی ہوئی کھانے کی میز کے ایک کونے میں ناگواری سے زہر مار کرتے لگ رہے تھے۔ وہ اطاعت شعار بیویوں کے سارے انداز لیے ان کے عین سامنے خالی کرسی پر جا بیٹھی۔

    انہوں نے میز پر رکھی ایک ایک چیز خالی کر دی تھی۔ سلاد، رائتہ، چٹنی، لسّی۔ اپنی پلیٹ پونچھنے کے بعد وہ اپنے نوالے ڈونگے میں ڈبو رہے تھے جس سے ان کی پوریں سالن کے گھی میں سن گئی تھیں۔

    زندگی کی ساری لطافتوں میں ان کی سب سے بڑی دلچسپی خوراک تھی۔ لیکن وہ خوراک کی پسند کے معاملے میں انفرادیت پسند نہیں تھے۔ جو ہے اور جیسا ہے، صرف یہ کہ ہو اور بہت سا ہو۔

    وہ کھانے کے وقفے میں گھر آتے اور کھانے بیٹھتے۔ سامنے بیٹھی عورت اور اس کی لاتعلق سی بیٹی سے ان کو کچھ زیادہ راہ و رسم نہیں ہے۔ وہ جلدی جلدی سیب کاٹ رہے تھے اور منہ میں سیب گھماتے سیکریٹریٹ کے لوگوں کی وہ تمام باتیں سنانے کی کوشش کر رہے تھے جن میں ان کی ذہانت، خوب صورتی، بذلہ سنجی اور ان کے جان محفل ہونے کا تذکرہ کثرت سے تھا۔ وہ چپ چاپ اپنی بیٹی کے منہ میں نوالے ڈالتی رہی۔

    ’’زوں۔ زوں۔‘‘ وہ ابھی تک غیرشعوری طور پر وہیں رکی ہوئی تھی۔ سلائیڈ سے نیچے پھسلتی۔ اس نے ہاتھ ہوا میں لہرا کر اوپر سے نیچے تک گھمایا۔

    ’’کھانا کھاؤ۔ مانو۔‘‘

    ’’میں نے تو صاف صاف کہہ دیا ایڈیشنل سیکریٹری کو۔ ابھی اسی وقت فائل پیدا کرو۔ ورنہ۔۔۔‘‘

    سیب کا پھوک دانتوں سے اچھل کر اِدھر ادھر گرا۔ اس نے خاموشی سے ٹشو پیپر اٹھا کر اپنی کلائی صاف کر لی۔

    ’’میں نے کہا جناب۔ میں تو کام کرتا ہوں بیس بیس گھنٹے اور کام کرنے والوں کو پسند کرتا ہوں۔ ایسے آدمیوں کا میرے آفس میں گزارا نہیں۔‘‘

    وہ کھانا کھانے میں بڑی چابک دستی سے دونوں ہاتھوں اور سارے دانتوں کا استعمال کر رہے تھے۔ ایک بے ساختہ سی ڈکار ان کے منہ سے پھسلی۔ شاید وہ اتنی جلدی اس میز سے جدا بھی نہ ہوتے لیکن خوراک سے بڑے نشے نے ان کو بےحال کر رکھا تھا۔ ابھی ان کو ماتحتوں پر افسری کرتی تھی اور فائلیں اٹھا اٹھاکر پھینکنی تھیں۔

    ’’بڑا بدمزا کھانا تھا۔‘‘ انہوں نے کڑوا سا منہ بنا کر خالی پلیٹ دھکیل دی۔

    وہ ان سب باتوں سے گھبراتی نہیں تھی نہ ہی اس کی نفاست پسند طبیعت پر یہ سب گراں گزرتا۔ وہ ان سب کی عادی تھی۔ یہ شاید یونہی ہوتا ہے۔

    وہ صبح سے شام تک آفس ہوتے۔ گھر آتے توسٹڈی میں گھس جاتے اور تھک کر بیڈ روم میں چلے جاتے۔ وہ سرکاری تقریبات میں میاں بیوی تھے۔ ورنہ شاید ان کو آپس کی بات کیے مدتیں گزر جاتیں۔ دکھ سکھ کی شرکت داری نہ اس کو پسند تھی، نہ ان کو فرصت۔

    اس نے اپنے کمرے کا اے سی آن کیا۔ پردے برابر کیے۔ اس کے ملنے والے برائے نام ہی تھے لیکن جو بھی تھے ان کے لیے یہ لطیفہ بڑا دلچسپ تھا کہ وہ اپنے بیڈ روم میں اپنی بیٹی کے ساتھ سوتی تھی اور شوہر نامدار چار کمرے چھوڑ کر دوسرے بیڈ روم میں۔

    لیکن یہ لطیفہ اس کے لیے بڑا سکون آور تھا۔ وہ اپنی بچی سے جدا نہیں رہ سکتی تھی۔ کمرے کے نیم خو اب ناک اندھیرے میں جب بچی فرحت سے سو رہتی تو وہ موٹی موٹی کتابیں پڑھ کر جی بہلاتی۔ صبح کے لیکچر کی تیاری کرتی اور چوں کہ مسز سکندر طالبات میں بہت مقبول اور ہر دل عزیز تھیں، لہٰذا اسے مقبولیت کے تمام تمغوں کا بوجھ خوش دلی سے اٹھانا تھا۔ وہ بچی کو سکول ڈراپ کرتی کالج چلی جاتی۔ ایک کے بعد دوسرا پیریڈ لیتے، لائبریری کے چکر لگاتے، سٹوڈنٹس کے مسائل سنتے، وہ بچی کو لے کر واپس ہوتی۔

    اسے زندگی سے کوئی خاص گلہ تھا نہ خواہش۔ اس کے گھر والوں نے اس کی بہتری کے لیے بہترین رفیقِ حیات چنا تھا۔ وہ جو پڑھا لکھا تھا۔ دولت مند تھا، بارتبہ تھا۔

    ان لوگوں نے بھی لڑکی کے لیے ایک معیار بنا رکھا تھا اور یہ شاید اس کی قسمت تھی کہ وہ ان کے معیار پر پوری اترتی تھی۔ سکندر کہتے تھے کہ لڑکی دراز قد ہو، خوبصورت ہو، اس کا رنگ سفید ہو، اس کی آنکھیں نمایاں ہوں، بال لمبے ہوں اور وہ پڑھی ہوئی ہو۔

    لہٰذا وہ ان کے معیار پر پوری اتری۔۔۔ اور ایسی لڑکی کس کے معیار پر پوری نہ اترتی۔ صرف وہ اس کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکے تھے لہٰذا اس کو اپنی جملہ خصوصیات کی سزا میں گھربدر ہونا پڑا۔

    گو وہ ساری عمر اس بات سے ناواقف ہی رہی کہ لڑکی پسند کرنے میں سکندر کے اس کڑے معیار نے ان کو کیا فائدہ پہنچایا نیز ان کو کسی لڑکی کی ان جملہ خوبیوں کو کرنا ہی کیا تھا۔

    لیکن اس کو اعتراض کی عادت نہیں تھی۔ ناک بھوں چڑھانا اس نے سیکھا نہیں۔

    جو ہونا تھا وہ ہو گیا اور اس کو اسی پر راضی بہ رضا رہنا تھا۔ اس نے خاموشی سے اپنی شادی کے یہ چھے سال ایک ایک دن کو گنتے گزار دئیے۔ کبھی راتوں کی تنہائیوں میں خالی تکیے پر نامحسوس طریقے سے اس کے گرتے آنسو یا اندھیری راتوں میں ٹیرس پر ٹہل کر رات کاٹتے اس کے قدموں کے مایوس نشان اس کو اپنی زندگی کے بےرنگی کا احساس دلاتے۔ لیکن یہ بھی ضروری نہیں۔۔۔ وہ ننھی ننھی کونپلوں جیسے نازک جذبوں کو زمین کا سنگلاخ سینہ چیر کر باہر نکلنے سے باز رکھتی۔ پھر صبح ہوتی اور تربیت میں لیے گئے قدرتی جذبوں سے وہ اس کا ناشتہ بنانے لگتی، انہیں اکتاہٹ ہوتی۔

    وہ ان کے کپڑے نکالتی، استری کرتی، ہینگر میں لٹکانے کی کوشش کرتی۔ وہ تنگ پڑ جاتے۔ یہ سب کام ملازم خوش اسلوبی سے کر رہے تھے اور اس میں وہ کسی عورت کی مداخلت سے چڑ جاتے تھے۔

    وہ کھانا پکا کر انتظار کرتی تو وہ کسی اہم مصروفیت کے سبب کسی اہم ہوٹل میں کھا آتے۔

    اس نے نوکری جوائن کر لی۔ انہوں نے اعتراض نہیں کیا۔

    اس کی بچی ہوئی۔ انہوں نے دلچسپی نہیں لی۔

    اسے سکول میں داخلے کا مسئلہ پیش آیا۔ وہ آفیشل وزٹ پر پاکستان سے باہر تھے۔ واپس آ کر وہ بھول گئے بچی نے کون سی کلاس اور کون سے سکول میں داخلہ لیا اور وہ آج تک یاد نہ رکھ سکے۔

    یہ خواہش کہ وہ اس سے چھوٹی چھوٹی بے معنی باتیں کریں۔ اس کی شکل دیکھتے بھی اس کا حال پوچھیں اور راتوں کو بے سبب جاگ کر کتھا سناتے سناتے نہ تھکیں۔

    لیکن وہ شاعر نہیں تھے، وہ ٹھوس اور سنجیدہ قسم کے سرکاری افسر تھے جو بیڈ روم میں بھی اپنا زرہ بکتر ساتھ لاتے۔ ان کو رومینٹسزم سے کوفت ہوتی تھی۔ پھر یوں ہوا کہ انہوں نے ایک گھر میں رہ کر بھی اپنی دیواریں بدل لیں۔ وہ یہ گھر چھوڑکر کہیں جا بھی نہیں سکتی تھی۔ وہ ان کی بدنامی سے خوف کھاتی تھی۔ بچی سو گئی تھی۔ اس نے جھولا پارک میں اتنی مشقت کی تھی جس کا قدرتی علاج وہ گہری نیند سے لے رہی تھی۔

    وہ طویل و عریض ڈبل بیڈ پر جس کا ایک ایک کونا جھڑا پونچھا اور بےشکن تھا، خاموشی سے بیٹھ کرخود کو وقت کے طوفان کی نذر کرنے لگی۔ بعض حادثے ہمیں طوفانی لہروں کی طرح بہاتے ہیں انسان جانتاہے، بوجھتا ہے، دیکھتا ہے لیکن پانی کے بہاؤ کے ساتھ تیرتا جاتا ہے اور ڈوب جانے کے بعد اس کو اپنا مقدر سمجھ کر راضی بہ رضا ہو جاتا ہے۔

    خالی گھروں میں آواز کی بازگشت بہت دیر تک سنائی دیتی ہے۔ دستک دینے والا ایک مرتبہ دستک دیتا ہے اور آپ کے کان آپ کی خواہش کے مطابق اس کو بار بار سنتے ہیں۔ وہ کان بند کرتی تھی لیکن آوازیں جیسے پکی تحریر کی طرح کہیں اندر رقم ہو گئی تھیں۔ اس نے کتاب اٹھا کر پڑھنی چاہی لیکن کتنی دیر تک اپنے بیڈ پر کشن کے سہارے سر ٹکائے اس کو اندازہ ہوا، وہ ایک صفحہ بھی نہیں پلٹ پائی تھی۔

    پھر اس نے ریسیور اٹھا لیا۔ کتنے ہی بے سبب نمبر اس نے گھما ڈالے اور مکمل ہونے سے پہلے منقطع کر دئیے۔

    یہاں اس کا کوئی ایسا ملنے والا بھی نہیں تھا۔ وہ اپنے سارے دوست، سارے ملنے والے پیچھے چھوڑ آئی تھی۔ کس کا ڈائل گھمائے اور کس کو اپنی یاد دلائے کہ سنو ہر انسان کا ایک وقت ہوتا ہے۔ لیکن افسوس کہ وہ گزر جاتا ہے۔

    سنو! نہر کے کنارے درختوں سے گرتے پتوں کی آوازیں سن سکو تو سنو۔ اب بھی لڑکے لڑکیاں کشتیوں میں بیٹھ کر پل کے نیچے سے چیخیں مارتے گزرتے ہیں، دہی بھلوں والا پل کے پاس آکر کھڑا ہو جاتا ہے اور بوٹنگ سے فارغ شدہ گروپ دہی بھلوں کی پلیٹ لے کر سارے لان میں بکھر جاتے ہیں۔ یہ سب اس کے دوست ہیں۔ رامی، کنول، شیریں، حبیب اور شبیر اور ایسے ہی گروپ ہر ڈیپارٹمنٹ، ہر یونیورسٹی میں ہوتے ہیں۔ لیکن ایسے لگتا ہے جیسے ہم انوکھے ہیں، انجانے میں اور اگلے سو سال میں بھی یہاں ان بنچوں پر آکر بیٹھنے والا کوئی نہیں ہوگا اور یہ مقام، یہ جگہیں حسرت سے ہمیں یاد کرکے روتی رہیں گی۔ لیکن ہوا یہ کہ حبیب نے آرمی جوائن کر لی۔ شبیر نے سی ایس ایس کر لیا۔ رامی، امریکہ چلی گئی۔ کنول کی بڑی اچھی جگہ شادی ہو گئی۔ وہ بہت خوش تھی اور اپنا یونیورسٹی والا افیئر پانی میں پھینکے پتھر کی سی ناپائیداری سے بھلا بیٹھی تھی۔

    وہ سب جہاں تھیں خوش تھیں یا ان کے کان بھی گونجتی دستک کی بازگشت سنتے تھے، اسے ساری زندگی معلوم نہیں ہو سکتا تھا۔

    اور یوں جب زندگی کونے میں پڑی اینٹ کی طرح بےکار، بےمصرف ہو جائے۔ تب کوئی بگولا آپ کو جھنجھوڑ جائے۔ آپ کو اندھیرے اور روشنی میں فرق دکھائے۔ آسمان اور زمین کی وسعتوں میں اور بھول بھلیوں میں الجھانا چاہے تو آپ کو بہت غصہ آتا ہے، جھنجھلاہٹ ہوتی ہے اور رضا خان آفریدی نے اس جھنجھلاہٹ کا بیج بو دیا تھا۔

    اسے بیٹھے بٹھائے غصہ آتا اور وہ چلانے لگتی۔ اس کی نرم مہربان طبیعت اب لو دینے لگی تھی۔

    وہ نوکروں پر برس پڑتی جو اس حلیم الطبع بیگم کے سر چڑھتے چڑھتے جیسے عادی سے ہو چلے تھے۔

    وہ اپنی بچی سے الجھنے لگتی۔ کبھی اسے لگتا اس کی سمجھ دار بیٹی بڑی کم عقلی سے کاروں کے سامنے دوڑ پڑی ہے۔ کبھی وہ سست رو ہو کر پیچھے رہ جاتی لگتی۔۔۔ وہ دونوں چالوں سے جھنجلاتی تو وہ اس کے پیروں میں الجھ جاتی۔

    وہ سکندر سے بھی جھنجلا گئی تھی۔ اگر سکندر کی کھوپڑی میں ذرا سا بھی بھیجا بچا ہوتا تو اس پل پل بدل جانے والی عورت کو وہیں پکڑ لیتا۔ لیکن اس کے مسائل اسی طرح تھے۔ گھر، دفتر، سیکریٹریٹ، ایوان صدر۔ رات کو وہ تھکا ہارا گھر آتا تو اس کو ذرا بھی پتا نہ چلتا کہ اس کی وفا شعار بیوی نے اب اے سی پہلے کی طرح پاور کول پر چلا کر کمرہ یخ نہیں کر رکھا۔

    وہ پہلے کی طرح اس کے لیے چائے لےکر نہیں جاتی تھی اور وہ چونکتا بھی نہیں تھا۔ اس کو ایک بیل پر چائے مل جاتی، دوسری بیل پر کپڑے اور جوتے، تیسری بیل پر بیوی، جو کہ کچھ دیر برف کی ٹکڑی کی طرح ٹھنڈے کمرے میں پگھلتی۔ وہ اس کا نصف بہتر تھی لیکن چوتھائی سے بھی بدتر۔ اس کو اس میں نہ تبدیلیاں نظر آتی تھیں، نہ ہی سمجھنے کے لیے فالتو وقت تھا اس کے پاس۔

    کبھی راہ کے خاردار تار، کھائیاں، گڑھے، رکاوٹیں، سب کچھ کارپٹڈ سڑک سے زیادہ سہانا اور آرام دہ لگتا ہے کیوں کہ راستے کے کانٹے انسان کے دامن سے الجھتے ہیں۔ اس کی رکاوٹ بنتے ہیں۔ اس کی رفتار کو روک دیتے ہیں۔

    ’’میں آج آ گئی ہوں۔‘‘ وہ ہیون کے صوفے میں غرق ہوتی بڑبڑائی،’’لیکن آئندہ آپ کال کر کے بلائیں گے تو میں نہیں آؤں گی۔‘‘

    وہ اس کے بچوں ایسے ضدی لہجے پر ہنس دیا،’’ تم تو کہیں سے بھی ایک بچے کی ماں نہیں لگتیں، ماما۔‘‘

    اس نے کچھ دیر رک کر ہاتھوں کی اوٹ میں سگریٹ سلگایا اور بڑی احتیاط سے دھواں اس کے چہرے سے بچا کر ایک طرف پھینک دیا۔

    ’’میں آئندہ بھی بلاؤں گا اور تم آئندہ بھی آؤ گی۔ تمہیں آنا ہی ہوگا۔‘‘

    ’’کیوں؟‘‘ وہ ڈھے سی گئی۔

    وہ تھوڑی دیر اس کی آنکھوں میں تیرتے ہلکے گلابی ڈوروں کے پیچھے بند باندھتے چمکتے چمکتے پانی کو افسوس سے دیکھتا رہا۔

    ’’میں تمہیں رلانا نہیں ہنسانا چاہتا ہوں۔‘‘

    ’’کیوں؟ آپ میرے کیا لگتے ہیں؟‘‘ اس نے جھلاکر پوچھا۔

    ’’واقعی پتا نہیں؟‘‘ اس نے سگریٹ سے دو تین کش کھینچ کر ایش ٹرے میں مسل دی۔

    ’’چائے لو۔ خراب ہو رہی ہے۔ یہ سینڈوچز تو ٹیسٹ کرو، بہت اچھے ہوتے ہیں۔‘‘

    ’’کوئی اور چیز منگوالو۔‘‘

    ’’آؤ کسی کھلی جگہ پر تھوڑی سی واک کرتے ہیں۔‘‘ اب کے اس نے قطعیت سے کہا۔

    وہ تابعداری سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ شاید ہمارے اندر جو ایک چھوٹا سا بچہ بجھ جاتا ہے، وہ چپکے چپکے یہ بھی تمنا کرتا ہے کہ کوئی آئے اس کو ڈانٹے ڈپٹے، اس پر اپنا حق جتائے، اس کے لیے فیصلے کرے۔

    قد آور ٹھنڈا فوارہ آسمان کی بلندیوں کو چھو کر ان کے قدم بھگو رہا تھا۔ وہ چھلکتے فوارے اور سورج کا ملاپ خاموشی سے دیکھتی رہی۔

    ’’میں بےوفا نہیں ہوں۔‘‘ اس نے مری ہوئی آواز میں کہا۔

    ’’بےوفائی کیا چیز ہوتی ہے۔ یہ لوگ ہیں جو ہماری خوشیوں سے بھسم ہوکر ہمارے لیے ایسے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ اتفاق سے میری بیوی نہیں ہے۔ لیکن اگر ہوتی تو میں اسے ایک غم کے عمل سے خوشی کے عمل میں داخل ہونے پر آشنا کے ساتھ فرار، بےوفائی، بےغیرتی جیسے الفاظ سے کبھی نہ نوازتا۔‘‘

    ’’ہمیں ان الفاظ سے کون نوازتا ہے۔ یہ تو ہماری اپنی عدالت کا فیصلہ ہے۔ ہمارے ضمیر کا۔‘‘

    ’’ضمیر بھی تو وہی الفاظ استعمال کرتا ہے جو ہم لوگوں سے سنتے ہیں۔ یہ ایک کلیشے (Cliche) ہے۔‘‘

    ’’آپ کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔‘‘

    ’’یہ تم کیسے کہہ سکتی ہو۔ فائدہ تو مجھے پہنچ رہا ہے۔ رہی اس فائدے کی بات جو لوگ کہتے ہیں تو میں بنیا نہیں، میں نے نمک مرچ کی دکان نہیں کھولی۔‘‘

    ’’میں بہت خوش ہوں۔‘‘ اس نے ذرا سا چیخ کر کہا۔

    ’’میں جانتا ہوں۔‘‘ اس نے رسان سے جواب دیا تھا۔

    آس پاس کے لوگوں نے گھوم کر اس ذرا سی بلند ہوتی آواز پر کان لگائے۔ تھوڑی دیر کے لیے انہوں نے اس عجیب سے جوڑے کا دلچسپ جھگڑا سننا چاہا۔ پھر کسی کا بچہ گھاس پر پھسلا، کسی نے مینڈک کے بچے کو پکڑنے کو کیچڑ میں ہاتھ ڈالا اور لوگ اپنے اپنے دھندوں میں تتر بتر ہو گئے۔

    ’’دیکھا۔ بس لوگ دوسرے کے معاملات میں صرف اتنی ہی دلچسپی لیتے ہیں اور اتنی ذرا سی دیر کے لیے یہ کہاں مناسب ہے کہ ہم اپنی خوشیاں ان کی نذر کر دیں۔‘‘

    وہ چپ رہ گئی،’’ آپ بہت ضدی ہیں۔‘‘

    ’’بہت۔‘‘

    ’’اور آپ بہت ڈھیٹ ہیں۔‘‘

    ’’ہاں۔‘‘

    ’’اور آپ۔۔۔‘‘ وہ خاموش ہو گئی۔

    ’’اور آپ بہت کمینے ہیں۔ دیکھا یہ زبانیں کتنی محدود ہوتی ہیں اور آپ ہیں کہ ان کے پیچھے اپنی جان ہلکان کیے دے رہی ہیں۔‘‘

    پتا نہیں اس کا ذخیرہ الفاظ ختم ہو گیا تھا یا اس کی زبان یونہی بند ہو گئی تھی۔

    ’’مانو! چلو اب واپس چلیں۔‘‘

    ’’ابھی میں نے ایک سرکل اور بنانا ہے ماما۔‘‘ وہ گول فوارے کے گرد بھاگتے بھاگتے ٹھنک کر بولی۔

    ’’میں نے جوکہا مانو! تم نے سنا نہیں۔‘‘ اس نے سختی سے کہا۔

    چڑیا کے بچے کی طرح چہکتی پھدکتی مانو، ماں کے اس نئے طرز تخاطب پر سہم گئی۔’’سوری ماما!‘‘ اس نے ایک لمحہ ضائع کیے بغیر ماں کے قدموں سے قدم ملا کر بھاگنا شروع کر دیا۔

    وہ ان کو خاموشی سے آگے آگے جاتا دیکھتا رہا۔ دور اور دور۔

    آخر وہ کتنا آگے جا سکتی ہے اور کتنی دور۔ اس نے افسوس سے سوچا، تیز تیز قدم اٹھاکر اس نے غصے سے بھری لڑکی کو چند ہی قدموں میں جالیا۔ وہ پچھلے دروازے کے ہینڈل پر ہاتھ رکھے پیشگی اس کو اپنے ارادوں سے آگاہ کر رہی تھی۔ اس نے خاموشی سے ڈرائیونگ سیٹ سنبھال کر چاروں طرف کے دروازے ان لاک کر دئیے۔

    ’’مانو! تم آگے بیٹھو۔‘‘اس نے پچھلی سیٹ میں غرق ہو کر اپنی بیٹی کے لیے احکامات صادر کیے۔ وہ بے ساختہ ہنس دیا،’’وضع داری نبھانے میں آپ کا جواب نہیں، مسز سکندر۔‘‘

    وہ اس سے کسی کڑوے کسیلے فقرے کا منتظر چابی گھماکر کلچ سے پاؤں نہیں ہٹا رہا تھا۔ لیکن وہ جواب دینے کی بجائے کھڑکی سے باہر دیکھتی رہی۔

    ’’کبھی کبھی انسان کو بڑا اچھا لگتا ہے کہ اسے رَد کیا جا رہا ہے۔‘‘ گاڑی آہستہ آہستہ رینگنا شروع ہوئی۔

    ’’بہر کیف یہ انا اور غیر انا کی کشمکش بھی نہیں ہے۔ آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے۔ کیوں کہ آپ کا بھیجا ہر چیز الٹی فوکس کرتا ہے۔ یہ محسوس کرنے کی بات ہے۔‘‘

    پھر ایک مرتبہ اس نے ان دونوں کو سکول کے دروازے سے پک کر لیا۔

    شاید اس کی بجائے اس فیصلے کو مانو نے تسلیم کیا کیوں کہ وہ لنچ بکس کندھے سے لٹکائے بھاگتی ہوئی اگلی سیٹ پر جم گئی۔

    ’’آپ گاڑی اوپی ایف کی پارکنگ میں روک دیجئے۔ واپسی پر ہم یہیں آ جائیں گے۔‘‘ وہ گویا اس کی برہمی نظر انداز کر کے زندگی کو پر سہولت بنا رہا تھا۔

    اس کا جی چاہا، مانو کو سبزہ زاروں کی، چڑیا گھر کی سیر کرائے، دامنِ کوہ میں گھماتا پھرے۔ کیوں کہ وہ جانتا تھا اس کے نالائق باپ کو اتنی توفیق بھی کبھی نہیں ہوئی ہوگی۔ لیکن اس نے ارادے باندھنے سے پہلے توڑ دئیے۔ وہ اس کی لائق ماں سے بھی بہت ڈرتا تھا جو تیوری پر سخت سا تاثر ڈالے پچھلے تمام مہربان تاثرات نوچ پھینک کر بیٹھ گئی تھی۔

    ’’آپ آئس کریم کھائیں گی مانو؟‘‘

    مانو نے جواب دینے سے پہلے بڑی مہارت سے سائیڈ مرر سے ماما کو جھانکا۔

    ’’نوانکل، تھینکس۔‘‘

    ’’ماما کی فکر نہ کرو۔ میں ذمہ دار ہوں۔‘‘

    ’’نو انکل۔‘‘ اس نے خشک سے لہجے میں کہا۔

    اس نے چپ چاپ سپر مارکیٹ کے سامنے پارکنگ لاٹ میں گاڑی کھڑی کر دی۔

    ’’بی مانو!‘‘ اس نے دوستانہ انداز میں اس کے دونوں ہاتھ پکڑ لیے، ’’ہم اب کریں گے مزے۔ آئس کریم۔ کیڈبری اور فرنچ فرائیز اور اپنی ماما سے پوچھو، وہ گاڑی میں بیٹھ کر ہمارا انتظار کریں گی یا ہمارے ساتھ۔ ۔۔ چلیں گی۔‘‘

    وہ جواب دینے کی بجائے خاموشی سے اتر آئی۔ اس باوقار اور خوب صورت عورت کے ساتھ چلنے کی بڑی شدّت سے اس کے دل میں انہونی خواہش جاگی۔ شیشوں کے شو کیس کے سامنے ایک دوسرے کے ساتھ چلتے ایک خوش شکل اور صحت مند لڑکی کے ساتھ ساتھ بھاگتے زندگی کتنا بڑا دھوکا ہے۔ کبھی کبھی یہ آئینے ہم سے کیسا جھوٹ بولتے ہیں۔ وہ لمحہ بھر کو رک گیا۔ ایک عورت اور ایک بچہ۔ پسندیدہ عورت اور دنیا کا سب سے پیارا بچہ۔ انسان کی تخلیق کا بنیادی فرض۔ غالباً باقی فرائض انہی فرائض کی بجا آوری کے لیے توہیں۔ چھوٹی ہیلز پر ٹک ٹک کرتی وہ عورت کسی کا انتظار کیے بغیر آگے نکل گئی۔

    بےبی کیئر پر گھٹنوں کے بل چلتی وہ ننھی سی گڑیا، مانو کی نظر پڑی۔ مانو مچل سی گئی اور شاید یہ گڑیا اس کے لیے اتنی اہم تھی کہ اس نے ماما کی تنبیہ کرتی نظروں کو بالکل نظر انداز کر دیا تھا۔

    اور وہ بھی جان ہی گیا تھا کہ ماما اس کے سامنے گڑیا خریدنے سے صرف اس لیے احتراز کر رہی ہے کہ وہ اس سے بل نہیں لینا چاہتی اور بڑی بات یہ کہ شاید اس کا دل بھی نہیں توڑنا چاہتی۔

    مانو نے گڑیا اٹھالی تھی اور سینے سے چپکائے ماں کی دسترس سے بچنے کے لیے آہستہ آہستہ الٹے قدم اٹھا رہی تھی۔ اس نے سوچ لیا تھا، وہ ان دونوں کے معاملے میں دخل نہیں دےگا۔ اس سے قبل کہ بات ان دونوں میں سے کسی ایک کے حق میں حتمی نتیجے پر پہنچتی۔ کسی نے ماما کے کندھے پر ایک خوشی سے بھرپور ہاتھ مارا تھا۔

    ’’از شی سارہ؟‘‘ (Is she Sarah?)

    ’’اوہ۔ رامی۔‘‘ پرانے دوستوں کے اچانک مل جانے کا خوشگوار منظر وہ بڑی دلچسپی سے دیر تک دیکھتا رہا۔ وہ دونوں بول رہی تھیں۔ لیکن کسی کی نہیں سُن رہی تھیں۔ اس نے ایک مدت بعد اس چہرے پر ایک بےساختہ سی تمتماہٹ دیکھی تھی۔ دیر تک انہوں نے تفصیل سے ایک ایک بات دریافت کی تھی اور کتنی مرتبہ دہرائی تھی۔ اچانک اس کی دوست کو ایک خوبصورت سی ڈبڈبائی آنکھوں والی لڑکی نچلا ہونٹ بھینچے گڑیا سینے سے چمٹائے نظر آئی۔

    ’’یہ ہے میری بھانجی؟ افسوس خالہ نے یہ چاند کا ٹکڑا پہلے نہیں دیکھا اور سورج کے ٹکڑے کو تو بالکل ہی نہیں دیکھا۔ السلام و علیکم بھائی۔ سوری۔ ہم کیمپس کے دوست ہیں۔ دیر سے ملے ہیں۔ ویسے قصور میرا نہیں، سارہ کو انٹرو ڈیوس کرانا چاہیے تھا۔ آں ایک آئیڈیا۔ چلو دوپہر کا کھانا میری طرف سے۔ کسی اچھی سی جگہ چلتے ہیں۔‘‘

    ’’دوپہر کا کھانا تو ہم نے کھا بھی لیا۔‘‘ کتنی دیر کی خاموشی کے بعد اس نے مہمل سی معذرت کی۔

    ’’ہاؤ۔‘‘ اس نے لمبا سا افسوس کیا، ’’تو تھوڑی دیر کہیں بیٹھتے ہیں یار۔ تم اتنی نروس کیوں ہورہی ہو۔ تمہارے ہسبینڈ منع کرتے ہیں؟‘‘ اس نے سرگوشی میں پوچھا۔

    پھر شاید وہ واقعی اس کی دوست تھی کہ اس نے صورت حال کو سمجھ بھی لیا اور سنبھالا بھی دے لیا۔

    ’’اوکے۔‘‘ وہ دو قدم پیچھے ہٹتے بولی، ’’اس گڑیا کی پے منٹ میں کروں گی۔‘‘

    اس نے کاؤنٹر پر جاکر ادائیگی کی۔ ایک نظر اس نے دونوں کی طرف باری باری دیکھا۔ پھر مانو کو پیار کر کے وہ آہستگی سے اس کی طرف جھکی۔

    ’’خدا کرے تم خاموش رہو۔ مجھے معلوم نہیں تھا تمہارے شوہر اتنے سنوب ہیں، میں نے لوگوں سے سنا تو تھا لیکن سوری اگر مجھ سے کوئی غلطی ہو گئی ہو تو۔۔۔.‘‘

    وہ دکان کا ہینڈل جھکاکر باہر نکل گئی۔ تھوڑی سی اداس، زیادہ تر مایوس۔ وہ جا چکی تھی۔ لیکن شدید ترین غلط فہمیوں کے دائرے میں گھری۔

    اس کا رنگ ہلکے غصے یا خفّت سے تمتمانے لگا،’’ چلو مانو۔ برائے کرم، آپ ہمیں سکول ڈراپ کر دیں۔ ہمیں اپنی کار لینی ہے۔‘‘

    مرد کا عورت سے وہ رشتہ نہیں ہوتا جو عورت مرد سے قائم کر لیتی ہے۔ بڑا پاک صاف۔ بڑا باعزت۔ بڑا محترم۔

    مرد ایک ہی رشتہ استوار کرتا ہے، ایک ہی کڑی ملاتا ہے۔

    ’’لیکن شاید یہ میری ابنارمیلٹی ہے۔‘‘ اس نے کھڑکیوں کے سارے پردے ہٹا کر کمرا روشن کر دیا، ’’کہ میں کڑیوں اور رشتوں سے ماورا ہو کر صرف ایک نظر اور ایک قدم کی خاطر دنیا تیاگ بیٹھا ہوں۔ اگر یہ کچھ نہ ہوتا تو زندگی میں اتنی تکلیف اور اتنی بیزاری نہ ہوتی۔ یا شاید زندگی بیزاری کے لیے کوئی دوسرا راستہ ڈھونڈ لیتی۔‘‘

    سامنے والی طویل سیدھی سڑک پر دو رویہ قطاروں میں سائیکلوں پر بچے شام کی تفریح کے لیے نکلے ہوئے تھے۔ موٹا سا توند والا آدمی سڑک کی فٹ پاتھ پر جوگنگ کر رہا تھا۔ عورتیں گاڑیاں لے کر اپنے ٹھکانوں سے یا ٹھکانوں کی طرف پلٹ رہی تھیں۔ یہ کتنی عجیب بات ہے، ایک انسان درد میں مبتلا ہو تو دوسرا اس کے درد سے بے خبر رہتا ہے اور یہ شہر تو ویسے بھی بچے کی طرح بھولا اور انجان رہتا ہے۔ دوسرے کی تکلیف سے بےنیاز۔ غم ناآشنا۔ اس نے کرب کی ایک گھڑی میں خدا کے بالکل نزدیک جاکر دعا مانگی تھی اور وہ قبول بھی ہو گئی تھی۔

    وہ اس سے بہت دن بعد ملی تھی۔

    معلوم نہیں روتی رہی تھی یا وہ ٹھیک کہہ رہی تھی کہ زکام کی شدت سے نڈھال ہو گئی تھی۔

    اور وہ بڑی قنوطیت سے سوچتا رہا کہ کاش اس نے لمحوں کی بجائے اسے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مانگا ہوتا۔

    اس کا شفون کا چوڑا سا دوپٹہ ہوا کی نامعلوم لہروں سے لرز رہا تھا یا اندر اٹھنے والے طوفانوں سے نبرد آزما ہونے کی کشمکش میں جھٹکے کھا رہا تھا۔ اس کی اپنی زندگی تو زمینوں کی پیمائش اور ریت سیمنٹ کے ملاپ کے ریشو پر کٹی تھی۔ اس نے عورت کو ہمیشہ ریت اور سمینٹ سے آگے نہیں دیکھا تھا۔ آپ کی جیپ میں پیسے ہیں اور مارکیٹ میں چیزیں قوت خرید کے اندر اندر ہیں۔ لیکن اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ کسی عورت کے سامنے اس طرح تھک جائےگا۔ اتنی شکست کھائےگا۔

    وہ کچھ دیر اسے مصطفی زیدی کے شعروں سے بہلاتا رہا۔

    ’’اس بار اس ملاقات کا کوئی وہم نہیں، جس سے ایک اور ملاقات کی صورت نکلے۔‘‘

    ایک کے کپکپاتے ٹھنڈے ہاتھ دوسرے ہاتھوں کی اوٹ کی پناہ میں بالکل مطمئن۔ لیکن بالکل غیر محفوظ۔ آسودگی کا ایک لمحہ۔ مکمل خوشی کی ایک معراج۔

    ’’تو میں بھی اس راستے کی مسافر بن گئی۔‘‘ اس نے ایک لمبا گہرا سانس لے کر ہاتھ چھڑا لیے، ’’جس طرف جانے کا میں نے کبھی خواب میں بھی تصور نہیں کیا تھا۔‘‘

    ’’اس لیے کہ دنیا خوابوں کی نہیں ہوتی۔ اگر خواب انسان کو بہلا سکتے تو انسان دن رات سویا رہتا۔‘‘

    ’’سوئے رہنے سے بھی کیا ہوتا۔ خواب ہم کون سے اپنی مرضی سے دیکھ سکتے ہیں۔ وہی خوف۔ وہی ناآسودگیاں۔‘‘

    ’’اپنے آپ کو برا بھلا کہنا چھوڑ دو۔ راستے مت ڈھونڈو، منزل خود ہی تلاش کرےگی۔‘‘

    موم بتی کی ہلکی روشنی، شعلہ ذرا دیر کو اندھیرے میں اس کے چہرے پر لپکا۔ لمبی گھنیری پلکوں کے پیچھے ذرا دیر کو دیے سے جلے۔ پھر جیسے نیم اندھیرے میں ہلکی سانسوں کی آواز کے سوا کچھ بھی نہیں بچا۔ کتنی دیر خاموشی میں ہوٹل کا آرکسٹرا نرم روی سے چلاتا رہا۔

    ’’تم اپنے لیے جو بھی سزا تجویز کرو۔ تمہارا حق بنتا ہے۔ لیکن مجھے کس لیے سولی پر لٹکاتی ہو۔‘‘

    اس نے بےساختگی میں جواب دینا چاہا پھر خاموشی اختیار کر لی۔

    ’’یہ میرا راستہ ہی نہیں۔‘‘

    ’’تم اپنے راستے پر چلتی رہو۔ میں خود تمہارے راستے پر آ جاؤں گا۔‘‘

    ’’یہ سارے فقرے ایک دن مذاق اڑانے لگتے ہیں۔ ان کا اعتبار مت کرنا۔‘‘

    ’’اس طرح Discourage مت کرو۔‘‘ اس کی آواز میں منت کا شائبہ تھا، ’’اس طرح پلیز۔ پلیز۔‘‘ وہ چپ بھی رہی۔

    ’’اچھا دیکھو۔ جب تک آسانی سے مل سکتی ہو، مل لو۔ میرے خلاف بطور خاص جدوجہد نہ کرو۔‘‘ اس نے آہستگی سے نفی میں سر ہلایا۔

    ’’اچھا، چلو میں تم سے سارے مطالبات واپس لیتا ہوں۔ زندگی کو اس طرح گزرنے دو۔‘‘

    وہ نرم روی سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ اپنا پرس سنبھالا۔ کلائی کی گھڑی کی طرف ایک نگاہ ڈالی۔

    ’’مجھے مانو کو سکول سے پک کرنا ہے۔‘‘ اس نے کھڑے کھڑے دہرایا۔

    ’’اور ہاں آپ نے ٹھیک سمجھا۔ یہ آخری ملاقات تھی بس اور اس آخری دفعہ میں، میں آپ سے ایک اعتراف ضرور کروں گی۔‘‘

    اس نے نم پلکوں کو جھپکا اور اعتراف کرنے کا ارادہ قطعی ملتوی کر کے تیز قدم اٹھاتی غائب ہو گئی۔

    کتنی دیر بعد، کتنی شدت سے اس کا جی چاہا وہ اس کو بےتکان گالیاں دے (وہ سب گالیاں جو کبھی بھی کسی نے کسی کو دی ہوں گی) مار مار کر اس کا حلیہ بگاڑ دے۔ وہ بھِنایا، بگڑا، جلا بھنا بیٹھا رہا۔

    پھر اس نے اس سارے کرائسس سے گزر کر سکون سے سوچا۔

    وہ جس طبقے سے تعلق رکھتا ہے، وہاں ٹھکراکر چھوڑ جانے والی عورتوں کو دل کا روگ نہیں بنایا جاتا۔ ایک تو یہ غم سینے سے لگایا ہی نہیں جاتا اور اگر لگ جائے تو بھلانے کے سامان زیادہ دور نہیں۔ جب جیب بھری ہو اور آپ خرید سکتے ہوں تو آپ کوئی اور خوشی خرید لیں۔ وہ اٹھا تو غصے کی بھری ٹھوکر میز کو لگ گئی۔ کاش اس نے یہ ٹھوکر چند لمحے پہلے ماری ہوتی جب وہ ظالم عورت سکون سے اس کے اعصاب سے کھیل رہی تھی۔

    پھر اس نے فوری فیصلے کے تحت کاؤنٹر پر جاکر ادائیگی کی۔

    اس نے پھر اسی آقاؤں کی زبان میں شائستگی اور جھوٹی تہذیب کے دامن کو پکڑ کر (جس کو ایک مدت سے غیر ضروری سمجھ کر چھوڑ بیٹھا تھا) منیجر سے درخواست کی۔

    ’’اگر آپ مائنڈ نہ کریں تو کیا میں ایک مقامی کال کر سکتا ہوں؟‘‘

    ’’اوہ۔ ہاں یقینا۔‘‘ انگریزی زبان کے فوائد میں سے ایک یہ بھی ہے، وہ قائل ہونا بھی جانتی ہے اور قائل کرنا بھی۔ اس نے مخاطب سے بات کی، ریسیور رکھا اور نہایت خاموشی سے ایک دوسری میز پر کسی دوسرے گیسٹ کا انتظار کرنے لگا۔ عنینا نے آنے میں دیر نہیں لگائی۔ لیکن اس کو بڑی مدّت بعد پکارا گیا تھا اور معلوم نہیں اس کو یہ پکار کہاں لے کر جائےگی۔ وہ پرس جھلاتی ہنستی کھلکھلاتی تازہ دم اور شگفتہ اندر داخل ہوئی تو تھوڑی دیر پہلے کی مدبّر سی غصے میں آنکھیں دکھاتی اور دھمکاتی لڑکی اوپر کہیں آئی اور تہوں میں نیچے اتر گئی۔

    ’’کہاں تھیں اتنے دن سے؟‘‘

    اس نے اس شکوہ کے جواب میں کچھ نہیں کہا۔ بلاشبہ یہ بڑی لگاوٹ سے کہا گیا تھا اور وہ اسے اِس جھوٹے بہتان کے پیچھے گنوانا بھی نہیں چاہتی تھی۔ وہ معمولی آدمی نہیں تھا۔ دھول مٹی کی یہ تہیں تو اس سوسائٹی کا تقاضا ہیں۔ یہ تہیں تو پھر بھی پڑیں گی۔ کیا ہوا، اگر وہ اس کا اپنا رہا تو وہ گرد جھاڑ پونچھ کر پھر اسے دل میں اتار لےگا۔

    ’’چلو کہیں بھی تھی۔ آج تو آ گئی۔‘‘ اس نے نرم روی سے کہا۔

    ’’کیا کھاؤگی؟‘‘ پتا نہیں کیوں اس کو مسکرانے کے باوجود اس کا چہرہ بجھا بجھا سا لگا۔ وہ قاتل سی مسکراہٹ جو کلب کی خواتین ممبرز کے لیے تازہ ہوا کا جھونکا تھی، آج ماند ماند تھی۔

    وہ مسکرایا بھی تھا اور اس کی مسکراہٹ کے ساتھ خوشبو کی لپٹیں بھی وہی مانوس تھیں، جن میں اس کا دم اٹکا رہتا تھا۔

    لیکن پتا نہیں کیوں سب کچھ ڈوبا ڈوبا سا تھا۔

    آگ جلتی ہے تو آثار چھوڑ دیتی ہے۔ لیکن روشنی ختم ہو تو اس کے آثار بھی باقی نہیں رہتے۔

    آگ نہیں بجھی تھی۔ اس نے غور سے دیکھا۔ صرف روشنی ختم ہو گئی تھی۔

    ’’آپ اس ٹیبل کی طرف بار بار کیوں دیکھ رہے ہیں؟‘‘ اس کے لہجے میں شک نہیں تھا، مردنی تھی۔

    ’’کیوں دیکھوں گا بھلا! جب کہ میں دنیا کی حسین ترین لڑکی سے محو کلام ہوں۔‘‘

    وہ مسکرا دی۔ ایسے فقروں کے معنی نہیں نکالے جاتے۔ وہ جانتی تھی۔ یہ جھوٹ صرف بولنے کے لیے ہوتے ہیں یا سننے کے لیے۔ وہ برائے نام ہی کھا رہا تھا اور اس کو بھی معمولی سا چکھنا تھا۔ جسم کی فِٹ نیس کی خاطر ہم دنیا کی کتنی بہت سی نعمتوں سے محروم ہی رہ جاتے ہیں۔

    وہ اس کو لےکر پاگلوں کی طرح کہاں کہاں نہیں پھرا؟

    عنینا اس کو ٹوک کر مشکوک بھی نہیں کرنا چاہتی تھی۔ ورنہ وہ یہ سمجھنے سے بالکل قاصر تھی کہ وہ اس کو ساتھ لیے لیے یہ کن ٹھکانوں پر پھرتا ہے۔ کسی دن وہ جاپانی پارک میں جہاں چوڑی سلائیڈز اور ٹائروں سے جا بجا زیبائش کی گئی تھی، وہ کیا دیکھ رہا ہے۔۔۔

    وہ جناح سپر مارکیٹ میں ایک دکان سے دوسری دکان پر ہینگرز میں دراصل کس کو تلاش کر رہا ہے۔

    اور وہ بچوں کے اس سکول کے سامنے پاگلوں کی طرح گھنٹوں سے کھڑا کیا دیکھ رہا ہے حالاں کہ سکول بند ہوئے تو کتنے ہی گھنٹے گزر گئے ہیں۔

    وہ ایک لفظ نہیں بولی۔ ریموٹ کنٹرول سے چلنے والے کھلونے کی طرح اپنے کنٹرول کی زد میں اس کے ساتھ ساتھ رہی۔ انسان کتنی عجیب چیز ہے۔ اگر چاند اتنی دور نہ ہوتا تو اس کو تسخیر کرنے کو اتنے جتن بھی نہ کرتا۔ اب اس کو تسخیر کر چکنے کے بعد جیسے دنیا اسے آسمان پر رکھ کر بھول چکی تھی۔ اس میں ہزاروں نقص تھے۔ گڑھے تھے۔ پانی نہیں تھا۔

    آکسیجن نہیں تھی۔ خالی پن کا احساس تھا۔

    وہ اس کا ہاتھ اپنی مٹھی میں جکڑے، جیسے مالک اپنے بندر کو گھسیٹے ایک جگہ سے دوسری جگہ کھینچے لیے پھرتا ہے۔

    عنینا کی امی اس سے خفا ہو چکی تھیں۔

    وہ اتنی لمبی کورٹ شپ پر یقین نہیں رکھتی تھیں۔ انہوں نے اس کو کلب جوائن بھی اسی لیے کروا دیا تھا کہ رضا آفریدی یا اس سے ملتا جلتا کوئی اور۔۔۔ عنینا اتنی نظر شناس نہیں تھی۔ لیکن ممی نے دیکھ لیا تھا کہ رضا آفریدی کی نظر کہیں اور بھٹک رہی تھی۔

    حالاں کہ وہ پھوسٹر سی بھوندو لڑکی ان کے مقابلے میں کیا ہے۔ حلیے سے ہی وہ مڈل کلاس لگتی اور کلب کے ماحول میں ایسی بھٹکی بھٹکی پھرتی، جیسے چڑیا گھر کا کوئی جانور پنجرہ تڑا کر باہر آ گیا ہو۔ ایسی لڑکیوں میں دلبری نہیں ہوتی۔ خواہ وہ شادی شدہ ہوں یا نہ ہوں، کوئی ان کی طرف متوجہ نہیں ہوتا۔ لگتا ہے ان سے بات کرو تو منڈی میں آلوؤں کی مہنگائی کا رونا روئیں گی اور کلب میں آلو مہنگے ہونے کا ذکر بدترین ذکر ہے۔ آپ اچھے نوکروں کی کم یابی کی بات کریں۔ پڑوسن کی گاڑی کے ماڈل کی برائی کریں۔ اپنے گھر میں بیڈرومز کی تعداد گنیں۔ فارن ٹرپس کی بات کریں۔ عورتوں کی سیاست مردوں سے بالکل جدا اور بہت بالا ہوتی ہے۔ انہوں نے اچھی طرح دیکھ لیا تھا، وہ کورحی تھی اور یوں بھی اپنے شوہر کے ساتھ آتی اور لان کے نسبتاً تاریک کونے میں بیٹھ کر چلی جاتی اور شاید وہ کہیں ملازم بھی تھی۔ ملازمت پیشہ لڑکیوں والی ساری خوبیاں اس میں موجود تھی۔ ایسی لڑکیاں جانے کس شے پر خود کو پھنے خان سمجھتی رہتی ہیں۔

    اور رضا آفریدی ہیرا تھا، کیوں کہ علاوہ جملہ اوصاف کے وہ قسمت سے کنوارا بھی تھا۔

    یہ عجیب حادثہ ہوا کہ وہ اس کی طرف مائل ہوا بھی تو ادھورا ادھورا سا۔ جیسے اپنا قیمتی سرمایہ کہیں گنوا آیا ہے۔

    حالاں کہ جو کچھ اس سے گم ہوا، ممی کے لیے وہ بالکل بے مایہ تھا۔ وہ دل کو نہیں مانتی تھیں۔ دل کا کوئی اکاؤنٹ ہے نہ کرنسی۔ یہ کبھی کبھی اپر کلاس پر بھی مڈل کلاس کی طرح محبت کرنے کے دورے پڑتے ہیں لیکن یہ بڑے عارضی، بڑے سطحی، بڑے وقتی ہوتے ہیں۔ جو ایک دن بچپن کی یاد کی طرح گزر جاتے ہیں اور ان کو یاد کر کے بس آپ ہنس ہی پڑتے ہیں۔ وہ کھل کر عنینا کو سمجھا نہیں سکتی تھیں۔ لیکن انہوں نے اسے اشاروں کنایوں میں بھی سمجھا دیا تھا کہ اسے جلدی کرنی چاہیے اور اپنی ذات کے ساتھ کوئی بےمقصد سکینڈل منسوب کر کے اگلے دروازے بند ہونے کا منتظر نہیں رہنا چاہیے۔

    وہ لوگوں سے اس کے بارے میں بہت سی افواہیں سن رہی تھی۔

    لیکن جس علاقے میں جانا ہی نہیں، اس کا راستہ پوچھنے سے مطلب؟ علاوہ ازیں زندگی اتنی قیمتی ہے کہ کسی ایک شخص کی یاد کے سہارے گزارنی ناممکن ہے۔ وہ کالج میں پڑھاتی۔ مانو کو دیکھتی۔ سکندر کا دھیان رکھتی۔ ان کے آگے پیچھے پھرتی رہتی۔ اس کا خیال تھا اپنے راستوں پر واپس آجانے سے ذہنی تھکن ختم ہو جاتی ہے۔ مگر اس کے سر پر تو نیا بوجھ پڑ گیا تھا۔

    وہ یہ سمجھنے سے قاصر رہی کہ اچھا بھلا سکون اور ہمواری سے دھڑکتا دل اس کی کوئی خبر سن کر پھڑکنا کیوں شروع ہو جاتا ہے۔

    اور گناہ صرف جسم سے ہی سرزد نہیں ہوتے،دل سے بھی ہوتے ہیں۔ وہ شاید دل کی گنہگار تھی اور اپنے ضمیر کی عدالت میں روزانہ سنگسار ہو رہی تھی۔

    اس کا شوہر اس کی ہر اذیت سے بےخبر صرف کھانے کی میز سے چمٹا روٹیاں اور بوٹیاں چن چن کر پیٹ میں انڈیلتا جاتا۔

    ’’رائتہ نہیں ہے؟‘‘ وہ میز پر ایک نگاہ پھینکتا۔

    ’’سویٹ ڈش نہیں بنی؟ صرف ایک ڈش؟ پھل نہیں ہیں؟‘‘

    وہ خاموشی بیٹھی ٹھوڑی کے نیچے ہتھیلیاں ٹکائے منتظر رہتی۔ شاید اس کا پیٹ کبھی بھر جائے یا پھٹ جائے لیکن کچھ بھی نہ ہوتا۔

    دوپہر کے کھانے کے بعد ملاقاتی آ جاتے اور ملازم بھری ہوئی ٹرالیوں کے ساتھ اندر جاتے اور خالی ٹرالیوں کے ساتھ باہر آتے۔ زندگی اگر فارغ اور بےکار ہو تو بہت سی معمولی چیزیں پہاڑوں کی طرح ہیبت ناک نظر آتی ہیں جیسے ان کو سر کرنا بہت مشکل ہے۔ شاید اس کے لیے بھی رضا آفریدی کو بھلانا ناممکن ہو جاتا اگر زندگی میں اتنی بے تحاشا مصروفیت نہ آ جاتی اور آخرکار اس نے فیصلہ کر لیا کہ وہ اس کے سر پر ہیبت ناک دیو کی طرح مسلط نہیں۔

    مانو نے پہلا متحان پاس کیا۔ اچھی رپورٹیں اسے اس وقت موصول ہوئیں جب سکندر کسی کانفرنس کے سلسلے میں جنیوا تھے۔ وہ کسی بھی شخص کے ساتھ اس خوشی میں شریک ہو کر خوش ہونا چاہتی تھی۔

    یونہی غیر محسوس طریقے پر اس کی انگلیوں نے ڈائل گھمائے۔

    وہ مانوس سی ہیلو سماعت سے ٹکرائی اور جیسے گفتگو سننے والے نے اس کی روح کھینچ لی۔ وہ ایک تواتر سے وہ ہیلو ہیلو آہستہ آہستہ اپنی روح میں اتارتی رہی۔ پھر اس نے کریڈل دبا دیا۔ خوشیوں پر سے اب آپ کا وہ حق چھین چکا جو ایک وقت پہلے موجود تھا۔ پھر اس نے مانو کے ساتھ ایک پارٹی منعقد کر لی۔

    شاید زندگی کو یونہی گزرنا تھا۔ اس نے یہ سزا خود ہی تجویز کی تھی۔ لہٰذا سزاؤں کی ساری اذیتیں اسے خود ہی اٹھانی پڑیں۔ وہ ایک ماں ہے۔ اس نے مانو کی دوستوں کو ڈھیر ساری آئس کریم انڈیل کر دیتے سوچا اور زندگی کی راحتوں میں اس کا حصہ نہیں۔ ہاں البتہ آپ اس کی اپنی ماں کی طرح کلفتوں میں شرکت داری اسی کو کرنی ہوگی۔

    فرق صرف اس قدر ہی تھا کہ اس کی ماں کا محور پانچ کے پانچ بچے تھے اور اس کے پاس ذمہ داریوں کی صورت ایک مانو ہی مانو تھی۔ وہ اس کو ناشتا کرواتی۔ یونیفارم بدلواتی۔ سکول چھوڑکر آتی اور کالج میں دیوانوں کی طرح گھڑی دیکھ کر اس کی واپسی کا انتظار کرتی رہتی۔ (شاید زندگی نے یہ راستے اس کو اس کی بہتری کے لیے ہی چن کر دئیے تھے)۔

    اسے کم از کم مانو سے اس سمجھ داری کی توقع نہیں تھی۔

    مانو کو ماں نے جن منزلوں کا راستہ دکھایا تھا، وہ خاموشی سے اس پر چل پڑی پیچھے مڑے بغیر۔ وہ ٹام تھمب نہیں تھی۔ جن راستوں سے اس کو ہٹا دیا گیا تھا، اس نے ان راستوں پر پتھروں کے ریزے نہیں گرائے کیوں کہ اس کو واپس نہیں جانا تھا۔ اس نے ٹیچر سے اپنی کلاس میں ٹام تھمب کی کہانی سن کر آخری فیصلہ یہی کیا تھا۔

    اور وہ سنڈریلا نہیں، نہ ہی اس کی سٹیپ مدر ہے، اس پر کوئی ظلم نہیں ہوا۔

    پھر وہ اپنی کلاس میں فرسٹ آئی تو ڈیڈی جنیوا تھے۔ اگر ڈیڈی جنیوا نہ بھی ہوتے تو اس کا جی نہیں چاہا کہ وہ ان کی گردن میں بازو ڈال کر اپنی ماں کے ساتھ قہقہے لگا سکے۔ حالاں کہ پہلے اس کا دل چاہتا تھا کہ وہ ان کی موٹی موٹی گردن سے، جس میں اس کے بازو مشکل سے سماتے تھے، لٹک جائے۔ لیکن وہ بہت مصروف تھے۔ وہ ماما سے تھوڑی سی بات کرتے تھے، ورنہ زیادہ باتیں ایڈیشنل سیکریٹری سے کرتے یا اپنے پرائیویٹ سیکریٹری سے۔

    اس نے اپنا پرائمری سیکشن مکمل کیا تو ان دونوں ڈیڈی کی سروس ختم ہو گئی۔ وہ مڈل کلاس میں آئی تو ڈیڈی کو پہلا ہارٹ اٹیک ہوا۔ ابھی اس کا ’’او لیول‘‘ مکمل نہیں ہوا تھا کہ ڈیڈی فوت ہو گئے۔ ان کو بارہ سال پہلے ڈاکٹر نے وارننگ دی تھی کہ اگر انہوں نے اپنے وزن کی طرف دھیان نہ دیا تو وہ مر جائیں گے۔ بارہ سا لٍ بعد ڈاکٹر کی پیش گوئی پوری ہوئی۔ ڈیڈی کو وہ اپنی پیدائش سے گھر کے مہمان خانے میں دیکھ رہی تھی۔ وہاں سے ان کی چارپائی اٹھا کر صحن میں رکھی گئی اور صحن سے قبرستان۔

    وہ اس کے اندر تو کبھی نہیں آئے تھے لیکن باہر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نکل گئے۔ اس نے اپنے دل کے اندر ایک گہرا خلا محسوس کیا۔ اسے بڑا عجیب سا لگا، اس کا جی چاہا وہ ماما کو تسلی دے۔ ماما بڑی حوصلہ مندی اور ثابت قدمی سے بےہوش ہو ہوکے گر جانے والی تڑپتی بلکتی رشتےدار خواتین کو سہارا دے رہی تھیں۔

    یہ ماما وہ ماما تھیں جو کسی بھی موقع پر کبھی بےہوش ہوکر نہیں الٹی تھیں۔ وہ ڈیڈی کی خالی چارپائی پر بیٹھ کر اکثر سوچتی تھی، یہ کیسی انمل بے جوڑ شادی تھی۔ حالاں کہ وہ دونوں اپنی اپنی جگہ بہت مناسب اور موزوں تھے۔ اگر ان دونوں کی شادی کسی اور سے ہوتی تو زندگی بہت مختلف ہوتی۔ اس کے اپنے لیے یہ بہت تکلیف دہ بات رہی کہ وہ کسی کی پارٹی نہیں بن سکی۔ صرف اتنا کہ ڈیڈی کو فرصت نہیں تھی اور ماما وقت نکال نکال کر جیسے فرض ادا کرتی رہتی تھیں اور وہ دونوں کی وفادار تھی۔

    پھر اس نے ماما کو اس وقت دیکھا جب وہ اذیت کی ایک آخری حد سے گزر رہی تھیں۔ انہی دنوں اس نے ماما کو آخری دفعہ مسکراتے بھی دیکھا۔ مامانے ہی ایک مرتبہ بچپن میں کسی فلاسفر کے قول کے بارے میں سمجھایا تھا کہ وہی چیز جو ہمیں خوشی دیتی ہے، وہی دراصل شدّت سے غم دیتی ہے۔

    اور بڑے ہو کر اسے خود بخود پتا چل گیاکہ وہ محبت ہے۔

    ماما اس کے بارے میں بہت حساس ہو گئی تھیں اور ڈیڈی کے بعد تو جیسے ماما نے لمحے بھر کے لیے بھی اسے تنہا نہیں چھوڑا۔ ڈیڈی کی و جہ سے کسی معاشی پریشانی کا سامنا تو نہیں ہوا۔ لیکن وہ ساری عمر سوچتی رہی کیا ماما بھی غم اور خوشی کی اسی بہ یک وقت کیفیت سے کبھی گزری ہیں؟ کیا ڈیڈی جیسی مصلحت نے انہیں کبھی خوش نہیں ہونے دیا؟

    حالاں کہ وہ بےچارے بھی اپنی جگہ بہت اچھے تھے۔ اگر وہ اتنی محنت نہ کرتے تو آج ہم مصیبتوں کے سخت دن کاٹ رہے ہوتے۔

    اس نے خود کو خاموشی سے وقت کے حوالے کر دیا۔ وقت جو آج ماما کے ہاتھ تھا۔ لیکن شاید گزر گیا تھا۔ انہوں نے ہی اس کے لیے کالج میں مضامین چنے۔ کالج کا انتخاب کیا۔ اس کے لیے پارٹیاں منعقد کیں۔ا س کی دوستوں میں بیٹھ کر دوستوں کی طرح خوش دلی سے گپیں لگائیں۔ ان کا خوب صورت چہرہ رفتہ رفتہ مرجھا گیا تھا۔ اب حسین عورتوں کی محفل میں ان کا کوئی ذکر نہ آتا۔۔۔ اور شاید کوئی یہ یقین بھی نہ کرتا کہ وہ کبھی خوب صورت عورتوں میں شمار ہوتی تھیں۔ ان کے ماتھے پر شکنوں کاجال تھا اور آنکھوں کے بوجھل حلقے ننھی ننھی لکیروں سے اٹے ہوئے تھے۔ گو وہ اس انداز میں بھی باوقار تھیں کہ اس کی ماں تھیں۔

    پھر اس کو ایک دن اچانک سلمان مل گیا۔ اس سے قبل کہ وہ ماما کو سلمان کے بارے میں آگاہ کرتی یا سلمان سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے معذرت کر لیتی کہ ماما نے سلمان سے اس کی فوری شادی طے کر دی۔

    ماما شاید جن تھیں۔ وہ اس کی اتھاہ تک پہنچ جاتی تھیں۔ ورنہ شاید عمر بھر وہ اس محرومی کو گلے لگائے کبھی مکمل آسودگی نہ پا سکتی اور ماما کی طرح ساری عمر ایک ہلکی سی مسکراہٹ کو ترستی رہتی۔

    وہ ہالیڈے کے وسیع ہال کی سٹیج پر دلہا اور رشتے داروں عزیزوں کے ساتھ روشنیوں اور تصویروں کی یلغار میں گھری ہوئی تھی۔

    اچانک اس کی نگاہ پڑی۔ وہ دھک سے رہ گئی۔

    بعض اوقات ہم دل کے اندر ہی اندر بہت سی شبیہات اتار لیتے ہیں اور ہمیں لگتا ہے ہم بھول گئے ہیں لیکن یہ کتنی حیرت کی بات تھی کہ سولہ سال کا طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود اس کی یادداشت نے دھوکہ نہیں کھایا۔ سامنے سے آنے والا شخص جس کو وقت نے ہلکا سا ماند کر دیا تھا، اس کے اندر اب بھی ویسا ہی تھا، زندہ، باوقار اور عظیم۔ اس نے افشاں سے بوجھل پلکوں کو ہلکا سا موڑکر دائیں طرف بیٹھی ماما کو جھانکا۔

    ’’ماما!‘‘ جیسے اس نے خود کو یقین دلایا تھا، زیر لب۔

    وہ دونوں اس کے آس پاس تھے، اس کی ازلی و ابدی تمنا۔ واقعی۔ اگر وہ لمحہ بھر کو بھی چوک جاتی تو عمر بھر ماں کے چہرے پر وہ ملکوتی سی لازوال مسکراہٹ نہیں دیکھ سکتی تھی۔ پھر وہ لمحہ ان کی گرفت سے چھوٹ گیا۔ وہ دوبارہ سنجیدہ ہو گئی تھیں۔ مدبر اور ذمے دار۔ آج ان کی بیٹی کی رخصتی تھی۔

    ’’شش!‘‘

    اس نے دوبارہ آنکھیں اٹھائیں اور جھکا لیں۔

    وہ ساری زندگی ماں کی طرف سے بدگمان رہی تھی۔ بس ایک اسی بات پر لیکن شاید باقی سب باتوں کی طرح یہ درد بھی ان میں مشترک تھا۔

    ان کی آنکھیں چشمے کے پیچھے دھندلا رہی تھیں۔ وقت کی گرد نے جیسے سارے سِتم ان آنکھوں پر ڈھائے تھے۔ لیکن وہ اس کو تیزی سے سٹیج کی طرف بڑھتے تو دیکھ ہی سکتی تھیں۔

    وہ خاموشی سے سیڑھیاں اترنے لگیں۔ ان کی ذہین اور ہوشیار بیٹی کبھی بھی بے وقوف نہیں رہی تھی۔ وہ تمام تر مصلحتوں اور مصلحتوں کی عدم موجودگی میں ایک بہترین رفیق رہی ہے۔

    ’’مانو۔‘‘ انہوں نے جیسے احتیاطاً تنبیہ کر کے اپنا ارادہ منقطع کر لیا۔ وہ مہمانوں کی طرف رُخ کر کے خندہ پیشانی سے وضع داری نبھانے لگیں۔

    ’’آئیے بھابھی! آپ بھی دلہن دلہا کے ساتھ تصویریں بنوا لیجئے۔‘‘

    ’’واقعی ہمت ہے آپ کی مسز سکندر۔‘‘ بھابی نے انہیں گلے لگا کر تھپکی دی، ’’ورنہ باپ کی غیرموجودگی میں بیٹی بیاہنا بہت ہمت کی بات ہے۔‘‘

    ایک وقت تھا جب اس نے دروازوں پر تالے ڈال لیے تھے۔ اب ان زنگ آلود قفلوں پر دستک دینا حماقت ہی ہے۔ انہوں نے اپنی بھیگی آنکھیں پونچھ لیں۔ وہ بڑی تیزی سے مانو کی طرف جا رہا تھا۔

    وقت نے یا حالات نے، وہاں بھی جیسے چراغ بجھا دئیے تھے۔

    ’’دیکھ لو، میں نے تمہیں دلہن بنے دیکھا اور پہچان لیا۔ حالاں کہ مجھے یقین نہیں آیا۔ اس کا مطلب وقت گزرا ہے۔ بہرحال۔تم نے پہچانا میں کون ہوں؟‘‘

    میک اپ اور افشاں سے لدی پلکوں کے کاجل میں ہلکے ہلکے آنسو تیر رہے تھے۔ انہوں نے ایک چھچھلتی نظر ہجوم میں ایک عمر رسیدہ عورت پر ڈالی۔

    حالاں کہ وہ عورت ان کی نظروں اور اپنے مقام سے بہت دور نہیں گئی تھی۔

    (’’آئس کریم کھاؤگی مانو۔‘‘، ’’نو انکل تھینکس۔‘‘، ’’ماماکی فکر نہ کرو میں ذمے دار ہوں۔‘‘، ’’نو انکل۔‘‘)

    ’’نو انکل۔ سوری۔‘‘ اس نے سجا ہوا سر آہستگی سے نفی میں ہلا دیا۔

    ’’ہو۔ سوری۔ رئیلی؟‘‘ وہ ٹھکرائے جانے کے باوجود خوش دلی سے ہنس دیا۔ یہ سب کچھ اجنبی نہیں تھا۔ شاید ایسا ہی ہوتا ہے۔

    ’’مجھے غلط فہمی ہوئی۔ ساری عمر کی تنہائی انسان کو اپنی مرضی کی شکلیں دکھانے لگتی ہے۔ سوری لیکن پھر بھی تم میری بیٹی کی طرح ہو۔ میں تمہیں رخصت تو کر سکتا ہوں۔‘‘

    ’’انکل پلیز۔‘‘ سلمان ان کی پذیرائی کے لیے اٹھا۔ وہ اس نئی دلہن کی اس سادہ سچائی سے گھبرا گیا تھا۔ رخصتی کا لمحہ قریب تھا۔ وہ کسی خفت کے بغیر چند الٹے قدم چل کر انتظار کرنے لگے۔

    غرارہ اور دوپٹہ سنبھالتی اپنی سہیلیوں کی طرف سے نگاہ ہٹاکر اس نے دیکھا۔

    واقعی ایک یہی لمحہ اس کی عمر بھر کا معراج تھا۔ اس کی ساری زندگی کی خوشیوں کا حاصل تھا۔ ماما اور وہ ساتھ ساتھ کھڑے تھے۔ ایک دوسرے کی حقیقت سے بےخبر۔ کیوں کہ ان کی آنکھوں میں تیرتے پانی نے تصور کو دھندلا دیا تھا۔

    یہی وہ لمحہ تھا۔ اس تنگ چھت والے آسمان تلے ستارے، چاندنی، خوشبو، پھول جیسے بہتات سے اس پر انڈیل دئیے گئے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25

    Register for free
    بولیے