Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ایک سگریٹ لائٹر کی کہانی

اقبال مجید

ایک سگریٹ لائٹر کی کہانی

اقبال مجید

MORE BYاقبال مجید

    ایک بار نہیں کئی بار ایسا ہی ہوا تھا۔

    جس کی وجہ سے ایسا ہوا تھا وہ وجہ تو بہت معمولی تھی، میری جگہ کوئی اور بھی ہوتا تو اس کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا، خود چائے کی دوکان کا مالک جس کا میں ملازم تھا وہ بھی جانتا تھا کہ ایسا ہو جانا بڑی عام سی بات ہے، لیکن بات کتنی ہی معمولی کیوں نہ ہو، دامودر کا تو نقصان ہی ہوتا تھا۔ ایسی صورت میں وہ مجھے اپنے پاس بلاتا، اپنے سامنے مجھے ایک دم سیدھا کھڑا کرتا، میں گردن جھکا کر زمین کی طرف دیکھنے لگتا تو بری طرح سے چڑھ جاتا، کہتا: نظریں اوپر اٹھا، مجھ سے اپنی آنکھوں میں دیکھنے کو کہتا پھر دو پل اپنی جلتی ہوئی خونخوار آنکھوں سے مجھے دیکھتا پھر کہتا:

    ’’سالے یہ ماچس ایک روپے کی ملتی ہے، دن بھر میں تو دو تین ماچسیں گاہکوں کو سگریٹ جلانے کے لیے دے کر واپس لینا بھول جاتا ہے۔ وہ اسے پتلون کی جیب میں ڈال کر چلتے بنتے ہیں۔ سالے اتنے جوتے ماروں گا کہ چاند پر ایک بال نہیں رہےگا۔‘‘ دامودر نے مجھے جوتے تب تک نہیں مارے تھے لیکن دھمکیاں تو وہ اس سے بھی سخت دے چکا تھا۔

    دامودر کی چھوٹی سی چائے کی دوکان تھی، اس دوکان پر گلاس دھونے اور گاہکوں کو چائے پہنچانے کے کام پر مجھے پانچ روپے روزانہ پر رکھ لیا گیا تھا۔ ظاہر ہے میری عمر اس وقت چودہ پندرہ سال سے زیادہ نہ تھی۔ دامودر کی دوکان میں اندر بیٹھ کر چائے پینے کی کوئی جگہ نہ تھی، اصلی اور گاڑھے دودھ کی چائے دامودر خاصی سوندھی بناتا تھا۔ گاہک مجھ سے ماچس مانگتے، اس کام کے لیے ماچس مجھے دامودر سے ہی ملتی تھی، جب تک میں گاہک کو سگریٹ جلانے کے لیے ماچس پکڑاتا، کوئی اور گاہک اپنا خالی گلاس دینے کے لیے آواز دیتا، میں اس طرف لپکتا، گلاس ہاتھ میں ابھی آ بھی نہیں پاتا کہ بھٹی پر کھڑے چائے بنانے والے کی پکار سنائی دیتی جہاں گلاسوں میں بھری دوسرے گاہکوں کی چائے میرا انتظار کر رہی ہوتی۔ میں ادھر لپکتا جھوٹا گلاس الگ رکھ کر تاروں سے بنے جھالے میں چائے سے بھرے گلاس اٹھاتا اور دوسرے گاہکوں کو چائے دینے لگتا۔ پھر الٹے پاؤں واپس ہوکر جھوٹے گلاسوں کو جلدی جلدی دھونے کے کام میں لگ جاتا اور تب تک تازی ماچس جو تھوڑی دیر پہلے کھولی گئی تھی موٹر سائیکل پر بیٹھ کر یہ جا اور وہ جا۔ جب کوئی دوسرا گاہک اپنی سگریٹ یا بیڑی جلانے کے لیے ماچس مانگتا اور میں اپنی جیبیں ٹٹولتا تو مجھے وہ ماچس یاد آتی۔

    جب کئی بار دامودر کی دی ہوئی ماچسیں میرے ہاتھ سے کھونے لگیں تو ایک بار دامودر نے میری ایک دن کی مزدوری میں سے دو روپے کاٹ لیے اور رات کو صرف تین روپے میرے ہاتھ پر رکھ دیے۔ اس جرمانے سے میرے دل کو جو تکلیف ہوئی اس نے آگے کے لیے مجھے تھوڑا ہوشیار یا یوں کہو چالاک بنا دیا۔

    دامودر کی ٹی اسٹال سے لگی ایک پان والے کی دوکان تھی۔ جب میری ماچس کسی گاہک کے ساتھ بھولے سے یا جان بوجھ کر چلی جاتی تو میں چپ چاپ پان والے کی دوکان سے ایک ماچس لے لیتا اور دامودر کے حساب میں لکھوا دیتا۔ پڑوس کا معاملہ تھا اور پھر وہ بھی ایک ماچس پان والا بے چوں و چرا کے دے دیتا لیکن یہ ترکیب زیادہ دن نہیں چلی اور ایک دن میری یہ حرکت پکڑی گئی۔ اس وقت دامودر کی غضبناکی دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ اس نے مارے طیش کے کھولتی ہوئی چائے میں پڑی پیتل کی کھرچنی جس سے وہ لگاتار کھولتی ہوئی چائے چلاتا رہتا تھا کہ پیندے میں چائے نہ لگ جائے اٹھائی اور جلتی ہوئی کھرچنی میرے ہاتھ پر زور سے ماری۔ اس سے میری داہنی کلائی اتنی گہری جل گئی کہ میں کئی روز تک اس کی جلن میں تڑپا اور پھر ہمیشہ کے لیے وہاں ایک داغ بن گیا۔

    کچھ عرصے بعد حالات نے مجھے دامودر کی ٹی اسٹال کی نوکری سے نکال باہر کیا، اس وقت یعنی اس کچی عمر میں جہاں مجھے دوسری بہت سی باتیں معلوم نہ تھیں، وہیں اس حقیقت سے بھی ناواقف تھا کہ زندگی ہمیں طرح طرح کے داغوں کی خاموش سوغاتیں دیتی ہے اور دے کر بھول جاتی ہے، تب یہ بھی مجھے معلوم نہیں تھا کہ ان سوغاتوں کی ایک زبان ہوتی ہے۔ اس زبان کو ٹھیک سے پڑھ کر اس کا مطلب سمجھ لینا آسان نہیں ہوتا۔ بہت سے لوگ تو حرفوں کی طرح داغوں کی علامتوں کو کبھی پڑھ نہیں پاتے۔ میں جب بھی اپنی کلائی دیکھتا تھا اس بد نما داغ کو دیکھ کر بس کسمسا کر رہ جاتا تھا۔

    کچھ عرصے بعد میرا مقدر مجھے ایک ایسی کینٹین میں ملازمت کے لیے لے آیا جو ایک فلم اسٹوڈیو کے اندر تھا اور جس کو یا تو اسٹوڈیو کا عملہ استعمال کرتا تھا یا شوٹنگ کے دوران فلم کا کلاکار اور ٹکنیشین وغیرہ۔ اس کینٹین میں خود میں بھی ایک معمولی ویٹر تھا اور چائے کافی، کولڈ ڈرنک وغیرہ خوبرو لڑکوں اور خوبصورت لڑکیوں کی میزوں پر پہنچایا کرتا تھا۔ ظاہر ہے کہ یہاں آنے والے گاہک دامودر کے ٹی اسٹال پر آنے والے گاہکوں کے مقابلے میں آسمان سے اتری کوئی مخلوق لگتے تھے، جس زمانے میں اسٹوڈیو میں کوئی بڑی کاسٹ کی فلم شوٹنگ ہوتی تو انڈسٹری کی نامی گرامی ہیروئنوں کی میزوں کے آس پاس منڈلانے کا سنہرا موقع بھی مجھے مل جایا کرتا تھا۔

    اس کینٹین میں مجھے وردی پوشی تو اختیار کرنی پڑتی تھی ہی لیکن اس کے ساتھ تھوڑا صاف ستھرا رہنا پڑتا، جوتوں پر پالش ہونا، شیو کیا ہوا چہرہ اور چھوٹے کٹے ہوئے بال جو ٹوپی سے ڈھکے ہوتے، وہاں آنے والے گاہک کم لفظوں میں اور اشاروں میں مجھ سے اور میرے ساتھیوں سے باتیں کرتے، مثلاً پینے کا پانی، کوک، چائے اور سگریٹ وغیرہ کے مطالبے کے اشارے مخصوص تھے، جن کو شروع شروع میں مجھے سمجھنے میں گھپلا بھی ہو جایا کرتا تھا۔ کبھی کبھی کینٹین کو کام کاج کے بیچ چلائے جانے والا لنچ بھی تیار کرنا ہوتا تو کام خاصا بڑھ جاتا۔ کینٹین کی ان معمولی کرسیوں پر کروڑ پتی کلاکاروں کو باتیں کرتے ہوئے جب میں دیکھتا تو اپنی قسمت پر یہ رشک بھی کرتا کہ جو لوگ ان کلاکاروں کی ایک جھلک دیکھنے کی تمنا لیے ملک میں گھومتے ہیں وہی اداکار مجھ سے کس قدر قریب بیٹھے باتیں کر رہے ہیں۔ کبھی کبھی ان نوجوانوں میں کوئی پرانے زمانے کا شہرت یافتہ اداکار بھی بیٹھا دکھائی دیتا۔

    ایک بار کلاکاروں کی بھیڑ بھاڑ میں ایسا ہی ایک عمر رسیدہ سینئر اداکار کسی نوجوان اور خوبصورت لڑکی کے ساتھ کینٹین کی کونے کی میز پر ذرا دیرکو آکر بیٹھا۔ کشادہ پیشانی، بڑی بڑی آنکھیں، کھڑی ناک، گورا رنگ اور عمر کے زوال کے ساتھ اندر سے جھانکتی ایک اداسی، تھوڑی دیر میں اس کی میز کے چاروں طرف کچھ دوسرے نئے کلاکاروں کو اسے گھیرے ہوئے دیکھا، میں میز پر سے خالی برتن اٹھانے گیا تو وہ گردن جھکائے آہستہ آہستہ کسی سے کسی سوال کے جواب میں کہہ رہا تھا۔ ’’آپ لوگوں کو ایک دن پتہ چلے گا کہ شہرت کو ہم بہت مضبوط پنجرے میں قید کر کے اپنے کسی چہیتے پرندے کی طرح رکھتے ہیں، شہرت نام کے اس پرندے کی دن رات سیوا کرتے ہیں، اسے دانہ پانی ڈالتے رہتے ہیں کہ کہیں وہ مر نہ جائے۔ آپ لوگوں پر ایک دن یہ راز بھی کھلے گا کہ شہرت کے اس پرندے کو آپ کتنا ہی کیوں نہ کھلا دیجئے، اس کا پیٹ نہیں بھرتا اور یہ پرندہ بھوکا ہی رہتا ہے اور چپکے چپکے ٹھوٹھیں مار مار کر آپ کو کھا جاتا ہے اور نہ جانے کس راستے ایک دن پنجرے سے نکل کر اڑ جاتا ہے۔‘‘ اس بھیڑ میں ایک شوخ مسکراہٹ والی لمبی اور گوری سی لڑکی نے جس کی ایک پکچر ہٹ ہو چکی تھی جب آگے بڑھ کر بڑی عقیدت کے ساتھ ا س کا آٹوگراف مانگا تو وہ بولا، ’’آج آٹوگراف کی اجرت میں تمہیں مجھے اسٹوڈیو سے میرے گھر تک ٹیکسی میں جانے کا کرایہ دینا ہوگا۔‘‘

    انہی خوبصورت دنوں کی بات ہے کہ کینٹین ایک روز سپر اداکار کی آمد سے جگمگا اٹھی، جس کے دنیا بھر میں ڈنکے پٹے ہوئے تھے۔ میں بڑے اشتیاق سے آنکھیں پھاڑے دیکھتا رہا، کیونکہ وہ شاید میری موجودگی میں پہلی بار وہاں آیا تھا۔وہ اکیلا بھلا کیسے ہو سکتا تھا، اس کی ٹیبل کی ساری کرسیاں تو بھر ہی گئی تھیں، آس پاس کی بھی خالی کرسیاں کھینچ لی گئی تھیں۔ میری حیثیت کینٹین میں اناڑی جیسی تھی، جسے بات بات پر ٹوکا جاتا تھا اور روز ہی کوئی نہ کوئی نئی بات سکھائی جاتی تھی۔ سچ پوچھیے تو مجھے ہنسنے اور مسکرانے کی تمیز نہیں تھی، اس ماحول میں آنے کے بعد میں نے جانا کہ شریف اور رذیل آدمی میں جہاں کئی دوسرے فرق ہوتے ہیں وہاں ان کی مسکراہٹ اور ہنسی میں بہت فرق ہوتا ہے اور وہ غصے کو ہی نہیں اپنی خوشی کو بھی اس طرح ضبط کرنا جانتے ہیں کہ دونوں صورتوں میں ان کا چہرہ نہیں بگڑنے پاتا۔

    باتیں کرنے کے دوران اس سپر اسٹار نے جیب سے سگریٹ کا پیکٹ نکالا، ادھر ادھر ہاتھ ڈال کر غالباً ماچس تلاش کی جو اس کی جیبوں میں نہ تھی، پھر میری طرف دیکھ کر اشارے سے ماچس مانگی، میں نے بڑھ کر ماچس اس کو پکڑا دی اور کچن میں چلا گیا۔ کچن میں کھڑے کینٹین کے ٹھیکیدار نے میری یہ حرکت دیکھ لی کہ میں نے کیسے اجڈ طریقے سے اتنے بڑے اسٹار کو ماچس پکڑا دی تھی۔ ٹھیکیدار نے مجھے ہزاروں باتیں سناکر میری ایسی تیسی کر کے رکھ دی۔ پھر بولا، ’’ابے گنوار تو نے خود ماچس جلائی ہوتی اور تیلی جلاکر اس کی سگریٹ اپنے ہاتھوں سے سلگائی ہوتی، پھر وہ مجھے دیر تک بتاتا رہا کہ کیسے ماچس جلاتے ہیں، تیلی کی لو کو کیسے ہوا سے بچاتے ہیں اور کیسے دوسرے کی سگریٹ سلگاتے ہیں۔‘‘

    اس مشق میں ٹھیکیدار نے کئی بار اپنی سگریٹ مجھ سے سلگوائی اور جب میں واپس کینٹین میں آیا تو سپر اسٹار کی میز خالی ہو چکی تھی اور سپر اسٹار کو دی ہوئی ماچس وہاں نہ تھی۔ یہ دیکھ کر مجھے شدید کوفت ہوئی کہ ماچسیں گنوانے کا سلسلہ وہاں بھی آخر کو شروع ہو گیا۔ میں اپنی کلائی پر جلنے کے داغ کو دیکھتا رہا۔ شاید۔۔۔ اتفاق ہی تھا کہ دوسرے دن لنچ کے دوران وہی سپر اسٹار کچھ نئے لوگوں کے ساتھ وہاں آ گیا۔ اسے دیکھتے ہی میں کچھ سوچے سمجھے بغیر اس کی طرف لپکا اور وہ ابھی ٹھیک سے اپنی جگہ پر بیٹھ بھی نہ پایا تھا کہ میں فوراً اس کے سر پر پہنچ گیا۔

    ’’سر‘‘ میں نے اسے کہا۔ ’’میں نے کل آپ کو سگریٹ جلانے کے لئے ماچس دی تھی۔‘‘ جواب میں پہلے تو وہ مجھے ایک پل دیکھتا رہا پھر مسکراکر اپنی جیبیں ٹٹولنے لگا۔ اس کی جیبوں میں ماچس نہ تھی، وہ پھر مسکرایا اور دھیرے سے بولا، ’’کیا نام ہے تمہارا؟‘‘

    ’’سدھیر۔‘‘ میں نے جواب دیا تو پلٹتے ہی اس نے سوال کیا۔

    ’’کیا تم ایک کام کر سکتے ہو سدھیر؟‘‘

    ’’کیا کام؟‘‘ میں نے پوچھا۔

    ’’کیا تم اس ماچس کو بھول سکتے ہو۔۔۔‘‘ اس کا سوال سن کر میں دو پل سوچتا رہا کہ کیا جواب دوں اسے، اسی وقت میرے دل نے مجھ سے کہا کہ اس سپر اسٹار کو اپنی کلائی کا وہ نشان دکھاؤں جو ماچسیں کھونے پر مجھے کبھی ملا تھا۔

    ’’میں تو بھول جاؤں۔‘‘ میں نے اسے جواب دیا پھر اپنی کلائی کا داغ اسے دکھاتے ہوئے بولا، ’’مگر یہ داغ مجھے نہیں بھولنے دیتا جو ٹی اسٹال کے مالک کی ماچسیں کھونے کی سزا کے طو رپر مجھے ملا تھا۔‘‘ یہ دیکھ کر مجھے حیرت ہوئی کہ اس سپر اسٹار نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا، پھر اپنی طرف کھینچا اور غور سے اس گہرے بدنما داغ کو دو پل دیکھتا رہا۔ پھر ہاتھ چھوڑ کر اس نے سیدھا میری آنکھ میں دیکھا اور دیر تک دیکھتا رہا۔ دیکھتا رہا اور مسکراتا رہا، بغیر کچھ بولے، اس کو ایسا کرتے دوسرے لوگ بھی اپنی اپنی جگہ مزہ لیتے ہوئے ہنسنے اور مسکرانے لگے۔ یکبارگی وہ سپر اسٹار جیسے اپنے اندر کہیں سمٹنے سا لگا تھا۔ اس کے ہونٹوں سے مسکراہٹ غائب ہوئی، پھر چہرے کی چمک اور پھر لہجے میں وہ کھنک بھی نہیں رہ گئی جو پہلے تھی، اس نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا اور ایک سگریٹ لائٹر نکال کر میرے ہاتھ کی ہتھیلی پر رکھ کر بولا:

    ’’اس ماچس کی جگہ یہ لائٹر رکھ لو۔۔۔‘‘ میں نے لائٹر لینے سے جھینپتے ہوئے انکار کیا تو اس نے کہا، ’’سگریٹ لائٹر سونے کا تو ضرور ہے لیکن اس کے علاوہ کئی اور معنوں میں بھی کہیں زیادہ بیش قیمت ہے۔‘‘ پھر اس نے بتایا کہ وہ کبھی فلم اسٹوڈیو میں کام کرنے والا ایک معمولی لائٹ بوائے تھا اور ایک بار فلم کے ایک بڑے اہم اور جذباتی سین کی ہیروئن کو لے کر شوٹنگ ہو رہی تھی۔ اس سین کے کئی ٹیک ہو چکے تھے لیکن بات نہیں بن رہی تھی، آخر کو ایک بار پھر سین لیا گیا، سین ختم ہونے میں کچھ ہی سیکنڈ باقی تھی کہ ایک لائٹ اپنے ہتھے پر شکنجے کی گرفت ڈھیلی ہو جانے کے سبب نیچے سرکنے کو ہی تھی کہ اس نے لائٹ کو اپنی تین انگلیوں اور انگوٹھے کی پوروں پر روک لیا اور اس وقت تک روکے رہا جب تک ہیرو کا وہ سین ختم نہیں ہو گیا، مگر اس وقت اس کی انگلیوں اور انگوٹھے کی پوریں گرم لوہے کو تھامے اچھی طرح جل چکی تھیں۔ پھر سپر اسٹار نے اپنی انگلیوں کی وہ پوریں دکھائیں جن پر ابھی تک جلنے کی نشان باقی تھے اور بتایا کہ جب ہیرو کو شارٹ مکمل ہونے کے بعد یہ معلوم ہوا کہ لائٹ بوائے نے سین کی کامیابی کے لیے چپ چاپ انگلیوں کی جلن کو برداشت کر لیا اور سین کے دوران لائٹ کا زاویہ گرنے نہیں دیا تاکہ ہیرو کی محنت بیکار نہ جائے تو اسی موقع پر اس ہیرو نے وہ لائٹر سپر اسٹار کو دیا جس کی حیثیت اس وقت ایک معمولی لائٹ بوائے سے زیادہ نہ تھی۔

    جب اس نے دیکھا کہ میں اس کے دیے ہوئے لائٹر کو قبول نہیں کر رہا ہوں بلکہ اس کی غیرمعمولی پیشکش سے کسی قدر خوف زدہ بھی ہو گیا تو اس نے مجھے ڈھارس دی، ’’تم اس لائٹر کو میرا دیا ہوا ایک قرض سمجھ سکتے ہو۔ ہو سکتا ہے کہ کبھی کوئی آدمی تمہیں ایسا ملے جس نے مجھ سے اور تم سے بھی بڑا کوئی داغ اٹھایا ہو تو یہ لائٹر اس کو دے دینا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر ایک بار پھر مسکرایا اور پھر مجھے بھونچکا چھوڑکر اپنے ساتھیوں کے ساتھ چلا گیا۔

    اس بات کو اب توڈھیر سارے دن گزر چکے ہیں، میں فلم اسٹوڈیو کی کینٹین کو کئی برس ہوئے چھوڑ چکا ہوں۔ اب میری اپنی ایک چھوٹی سی چائے کی دوکان ہے۔ وہ لائٹر بہت عرصہ تک میرے پاس رہا، میں کبھی کبھی اپنے دوستوں پر رعب ڈالنے کے لیے اس لائٹر سے اپنی سگریٹ سلگا لیا کرتا تھا۔ یاد نہیں پڑتا کہ کب میں نے وہ لائٹر آٹھ برس کی ایک لڑکی کو دے دیا تھا جس کو کسی فساد میں آگ میں پھینک دیا گیا تھا اور اس کے پیر کچھ اس طرح جھلس گیے تھے کہ وہ ان سے معذور ہو چکی تھی۔ وہ غیور بچی بھی اس لائٹر کو نہیں لے رہی تھی لیکن جب میں نے اس سے یہ کہا کہ لائٹر تمہیں اپنے رکھنے کو نہیں دے رہا بلکہ کسی دوسرے کو دینے کے لیے دے رہا کیونکہ جب تک زندگی ہے، داغ بھی ہیں، نت نئے اور گہرے داغ، تو اس نے میرا تحفہ قبول کر لیا۔ اس واقعہ کو کئی برس بیت چکے ہیں۔ پتا نہیں اب وہ لائٹر کہاں اور کن ہاتھوں میں ہوگا۔ یہ تو ہو سکتا ہے کہ کوئی اسے جوئے میں داؤ پر لگا کر ہار گیا ہو اس کا سونا اتار لیا گیا ہو اور وہ کسی کباڑیے کی دوکان پر پڑا ہو، مگر یہ تو طے ہے کہ۔۔۔ زندگی ہے تو داغ تو رہیں گے، نت نئے اور گہرے گہرے داغ۔ مگر اب بھی جب کہیں کباڑا پڑا دیکھتا ہوں تو اس لائٹر کو آنکھیں تلاش کرنے لگتی ہیں۔

    مأخذ:

    آگ کے پاس بیٹھی عورت (Pg. 26)

    • مصنف: اقبال مجید
      • ناشر: فائن آفسٹ ورکس، دہلی
      • سن اشاعت: 2010

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے